Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

فکرو عمل میں اعتدال وتوازن کی ضرورت

فکرو عمل میں اعتدال وتوازن کی ضرورت
 
 
تحریر: مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی

ترجمہ: محمد خالد باندی ندوی
اسلام ایک مکمل نظام زندگی اور آفاقی وابدی دستور حیات ہے ، جس میں انسانی زندگی کے انفرادی واجتماعی، تہذیبی وثقافتی او رروحانی ومادی تمام گوشے باہم جڑے ہوئے ہیں، جنہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا ، اسلام کا یہ ابدی دستور العمل او رمحکم نظام حیات اسی صورت میں اپنی نافعیت اور افادیت کے اچھے اثرات ثبت کر سکتا ہے، جب اس کے اجزائے ترکیبی میں مناسب ربط وتعلق پیدا کیا جائے او راس کی تعلیمات کو اس کے اصل مقصد کے ساتھ عمل میں لایا جائے، اس کی مثال ایک عمارت کی ہے کہ جس طرح ایک عمارت محض اینٹ گارے اور تعمیری میٹریل کا نام نہیں اور جس طرح محض ایک اینٹ اور تعمیری میٹریل انسان کی ضروریات پوری نہیں کرسکتا، جب تک کہ اس کو ایک دوسرے سے جوڑنہ دیا جائے ، ٹھیک اسی طرح اسلام کے محکم و معتدل دستور حیات کو اگر مکمل طور پر زندگیوں میں نافذ نہ کیا جائے تو وہ اپنا کردار کیسے ادا کرسکتا ہے ؟ اس لیے حدیث شریف میں مسلمان کی تشبیہ ایک مکمل عمارت اور ایک قالب سے دی گئی ہے :”المسلم للمسلم کالبنیان یشد بعضہ بعضاً“․

اسلامی نظامِ حیات کے پانچ تشکیلی عناصر ہیں :1.  توحید، 2.  نماز، 3. روزہ، 4. زکوٰة، 5. حج۔ اس کی تشکیل وتربیت اسی وقت ممکن ہے جب ان پانچوں ارکان کے درمیان حسین امتزاج وہم آہنگی اور ربط وتعلق پایا جائے۔

آج مسلمانوں کا مسئلہ یہ نہیں کہ ان کی زندگی میں اسلام موجود نہیں ، یا اسلامی تعلیمات کے مناظر دکھائی نہیں دیتے، یا اسلامی احکامات کو بروئے کار لانے کی کوششیں نہیں ہو رہی ہیں ،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی میں اسلام بھی ہے ، اسلامی تعلیمات سے ایک گونہ واقفیت بھی ہے ، ان کو بروئے کار لانے کی کوششیں بھی جاری ہیں ، لیکن ان میں ربط، ترتیب اور توافق وہم آہنگی نہیں ، آج فکر سلیم کے حامل داعیانِ کرام بھی موجود ہیں ، عبادات واخلاقی تعلیمات کی بجا آوری کا جذبہ بھی ہے ، دعوت الی الله کا عمل بھی جاری ہے ، فرد اور جماعت کے اندر قربانی وجانثاری اور راہ خدا میں جان کی بازی لگا دینے کا جذبہ بھی ہے ، غرض زندگی کے ہر گوشہ میں اسلام اوراسلامی تعلیمات ہیں ، لیکن یہ سب کوششیں کسی ایک پہلو میں منحصر ہیں، جس کی وجہ سے دوسرے پہلو جو زیادہ ضروری اور قابل توجہ ہیں ، ان پر توجہ کم ہو پارہی ہے ، ہر شخص اپنے کام میں ایسا مشغول ہے کہ اسے دوسرے پہلوؤں پر توجہ دینے کا وقت ہی نہیں ملتا، مثلاً اگر کسی کا تعلق تعلیم وتدریس سے ہے تو اسے پڑوس میں پھوٹ پڑنے والے فتنہ ارتداد سے کوئی مطلب نہیں ، اگر کوئی دعوت وتبلیغ میں مشغول ہے تو اسے مسلمانوں میں عام جہالت وناخواندگی کی کوئی فکر نہیں اور اگر خدمت خلق میں مشغول یا ریلیف کمیٹیوں کا رکن ہے یا اصلاح معاشرہ کا کام کر رہا ہے تو اس کی توجہ اصلاح نفس وتزکیہ اخلاق کی طرف نہیں ، یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے بے شمار مسائل او رانفرادی واجتماعی امور کی طرف نظر نہیں جار ہی ہے، اس لیے کہ ان پر توجہ نہیں دی جارہی ہے۔

اس کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ یہ تمام کوششیں غیر مفید وبے اثر ہیں، یقینا یہ تمام کوششیں نہایت مبارک اور ہمت افزائی کی مستحق ہیں، ان کے اثرات بھی ان شاء الله اچھے مرتب ہوں گے ، لیکن امت اسلامیہ کی ترقی واقبال اسی وقت ممکن ہے جب ان مختلف انداز سے کام کرنے والوں میں باہمی ربط اور ایک دوسرے کے کام کی قدر ہو اور اسلام کے تمام پہلوؤں کو مکمل شکل میں پیش کیا جائے اور مسلم سماج کا ہر فرد اسلامی مظاہر اور تمام شعبوں کے احیاء اور ترقی میں شریک ہو ، تاکہ اسلام کی صحیح تصویر سامنے آئے، اخلاق وکردار ، عبادت وبندگی، خدمت خلق وتعلق مع الله اور دعوت وتبلیغ، تمام شعبوں میں مطلوبہ وحدت وربط پیدا ہو اور تمام شعبہائے حیات میں ترقی کا عمل جاری ہو اور ہر مسلمان اسلام کا داعی ، دین کا محافظ، خطراتِ زمانہ سے باخبر ، گردش زمانہ کا نبض شناس، اندیشہائے مستقبل سے واقف وہوشیار اور اپنی منزل ومشن سے آگاہ ہو ، اس میں احیائے اسلامی کے تشخص کے طریقہائے کار سے گہری واقفیت اور مشکلات کا صحیح حل پیش کر دینے کی صلاحیت ہو ۔

اصل اور بنیادی مسئلہ مسلمانوں کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کے عملی نفاذ کا ہے ، ان میں شعور وباخبری کا ہے اور زندگی کے ہر پہلو پر مناسب توجہ دینے کا ہے ، کیوں کہ یہ حقیقت ہے کہ کوئی دعوت وتحریک محض اپنے عقائد وافکار او رمخصوص آئیڈیالوجی کی بنیاد پر دلوں کو نہیں جیت سکتی ہے ، دل پر اثر انداز ہونے کے لیے ضروری ہے کہ داعی کی زندگی جو کچھ وہ کہہ رہا ہے ، اس کا عملی نمونہ ہو ، اس کے قول عمل میں فرق نہ ہو ، تاکہ اس کو دیکھ کر دعوت حقیقت بن کر سامنے آجائے اور وہ اپنے دین اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکتا ہو ، اس لیے کہ اگر ایک تحریک اور دعوت ایک فرد کے مسائل حل کرنے پر قادر نہ ہو تو کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ وہ معاشرہ کے مسائل کا حل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اسلام نے فرد کی اصلاح کی طرف بہت توجہ دی ہے اور دعوتِ اسلامی اور داعیانِ کرام کی سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی دعوت کا مخاطب اولین اپنی ذات کو بنایا، اس کی تربیت واصلاح کی طرف توجہ دی تو ان کی تحریک اور دعوت نے ترقی کے مدارج طے کیے، جب انہوں نے خود اپنے آپ پر اسلامی تعلیمات کو نافذ کیا تو ان کے قول وعمل میں تاثیر اور دوسروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی ، اس کے بعد انہوں نے اپنے دائرہ عمل میں دوسروں کو شریک کیا ، اس طریقے سے ایک مثالی اسلامی معاشرہ قائم ہوا ، جوہر اعتبار سے اسلامی قالب میں ڈھلا ہوا اور آفاقی اسلامی تہذیب کا آئینہ دار تھا، جس کا رنگ ہررنگ سے مختلف اور جس کا نظام حیات دوسروں سے بہت ممتاز تھا۔

لیکن افسوس! آج مسلمانوں کے قول وعمل میں تضاد نظر آتا ہے ، مسلمان کا طرز عمل اس کے اسلام کی تردید کر رہا ہے ، حالاں کہ اسلامی تعلیمات میں ربط اور جوڑ پایاجاتا ہے ، اس میں ” کچھ کرو، کچھ چھوڑو“ کی گنجائش نہیں ، لہٰذا اسلامی دعوت کو عام کرنے کے لیے کام کرنے والوں کی ذمے داری ہے کہ ان کے قول وعمل میں فرق نہ ہو ، دونوں میں جوڑ اور مطابقت ہو ، عملی نمونہ ہوں اور وجدانی، شعوری، فکری اور عملی طور پر اسلامی نظام حیات کی بھرپور نمائندگی کریں۔

زمانہ ماضی میں اگرچہ اس قدر میڈیائی اسباب ووسائل نہ تھے ، اس کے باوجود اسلام نے زبردست فتوحات حاصل کیں او راسلامی تعلیمات نے دلوں کو جیت لیا ، اس لیے کہ اسلامی ودعوتی عمل کی بنیاد داعی کی زندگی پر تھی ، جو اسلامی تعلیمات او راسلامی تہذیب وتمدن کا آئینہ دار تھی اور جس میں اسلام اپنی تمام تعلیمات کے ساتھ جلوہ افروز نظر آتا تھا، ماضی کے داعیان اگرچہ تاجر تھے اور بظاہر دنیا دار تھے، لیکن چوں کہ ان کی سیرت اسلام کا پرتو تھی، اس لیے انہوں نے دعوتی عمل کے میدان میں شان دار کامیابی حاصل کی اور ان کی دعوت کے حیرت انگیز وہمہ گیر اثرات مرتبہ ہوئے ، انفرادی اور اجتماعی اصلاح پہلو بہ پہلو چل رہی تھی ، اس لیے کہ فرد کی اصلاح معاشرہ کی اصلاح کے بغیر مفید اور دیرپا نہیں ہوتی ، آج فرد کی اصلاح بے توجہی کا شکار ہے، اس لیے وسائل کی کثرت کے باوجوددعوتی عمل کی تاثیر ختم ہوتی جارہی ہے ، کل تک تنہا ایک فرد ہی انسانی زندگی میں انقلاب برپا کر دیا کرتا تھا، کیوں کہ اس کے اعمال واخلاق کا دائرہ اثر صرف اسی کی ذات تک محدود نہیں ہوتا تھا، بلکہ اپنی ذاتی اصلاح وتربیت اور اپنی دعوت وتعلیمات پر مستحکم ایمان کے ساتھ غیروں کو بھی انہی اخلاق وکردار اور عقائد ومسلمات پر ایمان لانے کی دعوت دیتا تھا، امت کی اصلاح وتربیت کی خاطر او راس کی زندگی سے شرور وفتن کے عناصر اکھاڑ پھینکنے کے لیے اس کا دل کڑھتا تھا، اس کا کردار وعمل ، دعوتی مقاصد اور امت کے مفاد کے عین مطابق ہوا کرتے تھے ، دعوتی عمل ایک پیشہ یا فیشن نہ تھا ، بلکہ تقرب الی الله کا ذریعہ تھا، ایسے داعیان کرام کی مجلس میں ایک گھڑی بیٹھنے سے یا ایک نظر دیکھنے لینے سے دل کی دنیا بدل جاتی تھی۔

تاریخ میں اس قسم کے بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ محض اہل دل کی نشست وبرخاست نے زندگی کا رخ موڑ دیا ، متبعین شریعت اور باعمل داعیان کرام کی سیرت میں اس تاثیر کے حیرت انگیز نمونے دیکھے جاسکتے ہیں ، بعض نیک طبیعت اور صالح کردار وعمل کے حامل داعیوں نے اپنی مجلسوں کے ذریعہ دلوں میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا کی، ان میں دینی شعور باخبری اوراخلاص کی جوت جگائی، اچھے برے میں فرق پیدا کرنے کی صلاحیت پیدا کی ، اچھائیوں کو اختیار کرنے کا جذبہ پیدا کیا ، انکار منکر کی جرأت پیدا کی ، تاریخ اسلامی میں بے شمار ایسے داعیان کرام موجود ہیں جنہوں نے اسلام کا ایک ہمہ گیر او رجامع تصور پیش کیا اور اس کے مطابق ایک ایسی مثالی نسل تیار کی، جو صحیح معنوں میں دین کی محافظ اور اس کی تعلیمات کا پر تو تھی ، ان شخصیات نے سب سے پہلے ذاتی اصلاح وتربیت اور تزکیہ ٴ نفس پر توجہ دی ، سنت وشریعت کو کماحقہ اپنی زندگیوں میں نافذ کیا، پھر معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور نہایت حکمت وتدبر کے ساتھ حالات کامقابلہ کیا او رمعاشرے میں پھیلی ہوئی جہالت وناواقفیت کا ازالہ کیا۔

ان داعیان اسلام کی زندگی کا ممتاز پہلو درحقیقت ذاتی اصلاح واجتماعی اصلاح کے درمیان حسین امتزاج تھا، اسی کے ساتھ ساتھ سنت کا غایت درجہ اہتمام اور مسلم معاشرے میں اس کو عام کرنے کا جذبہ بھی ، سیرت نبوی صلی الله علیہ وسلم او راس کے پیروکاروں کی زندگی کے بنیادی اوصاف میں یہی جامعیت اور قول وعمل میں مطابقت ہے۔ آج اسی کی ضرورت ہے کہ فکروعمل، تعلیم وتربیت، دعوتی عمل اور تبلیغ واشاعت اسلام کے میدان میں کام کرنے والے اسلامی تعلیمات کا صحیح عملی نمونہ پیش کریں اور زندگی کے ہر پہلو پر مناسب او رمعتدل انداز میں توجہ دیں، آج اگر ایک طرف اسلام کے بعض متعین پہلوؤں اور مخصوص گوشہ پر توجہ دی جارہی ہے ، تو دوسری طرف دوسرے اہم ترین پہلو نظر انداز ہو رہے ہیں۔

اسلام نے ہر عمل کو نیت سے جوڑا ہے ، پھر ہر عمل کو دوسرے عمل سے جوڑا ہے ، مسلم شریف کی ایک روایت اس ترتیب اور ربط کی بین دلیل ہے ، جس میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے جب خیبر کو فتح کیا تو بعض صحابہ کرام آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے او رکہنے لگے ، فلاں شہید ہے ، فلاں شہید ہے، حتی کہ ایک شخص کے پاس جب ان کا گزر ہوا تو انہوں نے کہا فلاں شہید ہے ، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کومنع کیا اور ٹوکا پھر فرمایا : ہر گز نہیں ! وہ تو مال غنیمت میں سے ایک چادر چرانے کے جرم میں دوزخی ہے۔ (مسلم، حدیث:182)

اسی طرح ابو قتادہ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ تقریر کی ، اس میں جہاد فی سبیل الله اور ایمان بالله کو افضل ترین عمل قرار دیا ، ایک شخص کھڑے ہو کر کہنے لگا! اے رسول خدا! اگر میں شہید ہو جاؤں تو کیا میری خطائیں معاف ہو سکتی ہیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواباًفرمایا: ہاں ہاں ! کیوں نہیں بشرطے کہ تم شہید ہو اور تمہارے دل میں صبر واحتساب کی نیت بھی ہو ، تم میدان جنگ میں آگے بڑھنے والے ہو ، مفرورین میں سے نہ ہو ، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا! تم نے کیا کہا تھا! تو اس نے اپنی بات دہرائی کہ اگر میں الله کی راہ میں شہید ہو جاؤں تو کیا میری خطائیں معاف ہو سکتی ہیں ؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! بشرطے کہ تم صبر کرنے والے ہو ، ثواب کی نیت بھی ہو ، پیش قدمی کرنے والے ہو ، راہ فرار اختیار کرنے والے نہ ہو اور تم مقروض نہ ہو ، کیوں کہ جبرئیل نے مجھ سے یہی فرمایا ہے۔ (مسلم، حدیث:1885)

ایک اور حدیث ہے کہ حضرت عبدالله بن عمروبن العاص روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا: اے الله کے رسول (صلی الله علیہ وسلم) ! میں ہجرت وجہاد اور اجر کی امید پر آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہاتھوں بیعت ہوتا ہوں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے ؟ تو انہوں نے کہا ہاں ! دونوں بقید حیات ہیں ، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اجر کی امید بھی ہے ؟ اس نے کہا ہاں! آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، واپس جاؤ، اپنے والدین کی خدمت کرو ۔ (مسلم، حدیث:6507)

جن لوگوں کے ذمہ بچوں کی تربیت ہے ، یا تعلیم وتربیت سے جن کا تعلق ہے، یا دعوتی عمل سے منسلک ہیں، یا وہ کسی دوسری دینی اسلامی خدمت انجام دے رہے ہیں، انہیں اپنے طریقہ کار میں شخصی او راجتماعی حالات کا فرق ملحوظ رکھنا چاہیے، دینی احکام کی اتباع میں اعتدال وتوازن کا خیال رکھیں اور زندگی کے مختلف میدانوں پر مناسب اور معتدل انداز میں توجہ دیں، کیوں کہ یہی وہ معتدل طریقہ کار ہے جس سے فکر وعمل میں اعتدال وتوازن پیدا ہو سکتا ہے اور وہ خود اسلامی تعلیمات کا حقیقی پرتو اور دوسروں کے لیے نمونہ بن سکتے ہیں، امت کی اصلاح وترقی کا یہ ایک کار گر معتدل طریقہ ہے، اس کے لیے کسی ریلی، کسی احتجاج، کسی کمیٹی اور تحریک وتنظیم کی تشکیل کی ضرورت نہیں۔
جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User