تفسیر قرآن کے ماخذ
کچھ ضروری معلومات علم تفسیر کے سلسلے میں پیش خدمت ہیں۔عربی زبان میں "تفسیر" کے لفظی معنی ہیں "کھولنا" اور اصطلاح میں علم تفسیر اس علم کو کہتے ہیں جس میں قرآن کریم کے معانی بیان کیے جائیں اور اس کے احکام اور حکمتوں کو کھول کر واضح کیا جائے۔ قرآن کریم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہے:
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ (سورۃ النحل آیت 44)
"اور ہم نے قرآن آپ پر اتارا تا کہ آپ لوگوں کے سامنے وہ باتیں وضاحت سے بیان فرما دیں جو ان کی طرف اتاری گئیں ہیں"
نیز قرآن کریم میں ارشاد ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ (سورۃ آل عمران آیت 164)
"بلاشبہ اللہ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا جبکہ ان کے درمیان انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کرے، اور انہیں پاک صاف کرے، اور انہیں اللہ کی کتاب اوار دانائی کی باتوں کی تعلیم دے"
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم صحابہ کرام کو صرف قرآن کریم کے الفاظ ہی نہیں سکھاتے تھے بلکہ اس کی پوری تفسیر بیان فرمایا کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام کو ایک ایک سورت پڑحنے میں بعض اوقات کئی کئی سال لگ جاتے تھے۔
جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دنیا میں تشریف فرما تھے اس وقت تک کسی آیت کی تفسیر معلوم کرنا کچھ مشکل نہیں تھا، صحابہ کرام کو جہاں کوئی دشواری پیش آتی وہ آپ سے رجوع کرتے اور انہیں تسلی بخش جواب مل جاتا، لیکن آپ کے بعد اس بات کی ضرورت تھی کہ تفسیر قرآن کو ایک مستقل علم کی صورت میں محفوظ کیا جاتا، تا کہ امت کے لیے قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح معنی بھھی محفوظ ہو جائیں اور ملحد و گمراہ لوگوں کےلیے اس کی معنوری تحریف کی گنجائش باقی نہ رہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے اس امت نے یہ کارنامہ اس حسن و خوبی سے انجام دیا کہ آج ہم یہ بات بلا خوف تردید کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی اس آخری کتاب کے صرف الفاظ ہی محفوظ نہیں ہیں بلکہ اس کی وہ صحیح تفسیر بھی محفوظ ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اور ان کے جانثار صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچی ہے۔ علم تفسیر کو اس امت نے کس کس طرح محفوظ کیا؟ اس راہ میں انہوں نے کیسی کیسی مشقتیں اٹھائیں اور یہ جدوجہد کتنے مراحل سے گزری؟ اس کی ایک طویل اور دلچسپ تاریخ ہے جس کا یہاں موقع نہیں، لیکن یہاں مختصرا یہ بتانا ہے کہ تفسیر قرآن کے ماخذ کیا کیا ہیں؟ اور علم تفسیر پر جو بےشمار کتابیں ہر زبان میں ملتی ہیں انہوں نے قرآن کریم کی تشریح میں کن سرچشموں سے استفادہ کیا ہے، یہ سرچشمے کل چھ ہیں۔
1۔ قرآن کریم:
علم تفسیر کا پہلا ماخذ خود قرآن کریم ہے۔ چنانچہ ایسا بکثرت ہوتا ہے کہ کسی آیت میں کوئی بات مجمل اور تشریح طلب ہوتی ہے تو خود قرآن کریم ہی کی کوئی دوسری آیت اس کے مفہوم کو واضح کر دیتی ہے۔ مثلًا سورۃ فاتحہ کی دعا میں یہ جملہ موجود ہے کہ "صراط الذین انعمت علیھم" یعنی ہمیں ان لوگوں کے راستہ کی ہدایت کیجیے جن پر آپ کا انعام ہوا" اب یہاں یہ بات واضح نہیں ہے کہ وہ لوگ کون ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا، لیکن ایک دوسری آیت میں ان کو واضح طور پر متعین کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:
الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ
"یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا، یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالح لوگ"
چنانچہ مفسرین کرام جب کسی آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس آیت کی تفسیر خود قرآن کریم ہی میں کسی اور جگہ موجود ہے یا نہیں؟ اگر موجود ہوتی ہے تو سب سے پہلے اسی کو اختیار کرتے ہیں۔
2۔ حدیث
"حدیث" نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کےے اقوال و افعال کو کہتےہیں اور جیسا کہ پیچھے بیان کیاجا چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ساتھ آپ کو مبعوث ہی اس لیے فرمایا تھا کہ آپ لوگوں کے سامنے قرآن کریم کی صحیح تشریح کھول کھول کر بیان فرما دیں، چنانچہ آپ نے اپنے قول اور عمل دونوں سے یہ فریضہ بحسن و خوبی انجام دیا اور درحقیقت آپ کی پوری مبارک زندگی قرآن ہی کی عملی تفسیر ہے، اس لیے مفسرین کرام نے قرآن کریم کو سمجھنے کے لیے دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ حدیث پر زور دیا ہے، اور احادیث کی روشنی میں کتاب اللہ کے معنی متعین کیے ہیں۔ البتہ حدیث میں صحیح، ضعیف اور موضوع روایات موجود ہیں اس لیے محقق مفسرین اس وقت تک کسی روایت کو قابل اعتماد نہیں سمجھتے جب تک وہ تنقید روایات کے اصولوں پر پوری نہ اترتی ہو، لہٰذا جو روایت جہاں نظر آ جائے اسے دیکھ کر قرآن کریم کی کوئی تفسیر متعین کر لینا درست نہیں، کیونکہ وہ روایت ضعیف ۔ ۔۔ اور دوسری مضبوط روایتوں کے خلاف بھی ہو سکتی ہے۔ درحقیقت یہ معاملہ بڑا نازک ہے اور اس میں قدم رکھنا انہی لوگوں کا کام ہے جنھوں نے اپنی عمریں ان علوم کو حاصل کرنے میں خرچ کی ہیں۔
3۔ صحابہ کے اقوال
صحابہ کرام نے قرآن کریم کی تعلیم براہ راست نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے حاصل کی تھی، اس کے علاوہ نزول وحی کے وقت وہ بہ نفسِ نفیس موجود تھے اور انہوں نے نزول قرآن کے پورے ماحول اور پس منظر کا بذات خود مشاہدہ کیا تھا، اس لیے فطری طور پر قرآن کریم کی تفسیر میں ان حضرات کے اقوال جتنے مستند اور قابل اعتماد ہو سکتے ہیں، بعد کے لوگوں کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا، لہٰذا جن آیتوں کی تفسیر قرآن یا حدیث سے معلوم نہیں ہوتی ان میں سب سے زیادہ اہمیت صحابہ کرام کے اقوال کو حاصل ہے، چنانچہ اگر کسی آیت کی تفسیر پر صحابہ کا اتفاق ہو تو مفسرین کرام اسی کو اختیار کرتے ہیں اور اس کے خلاف کوئی اور تفسیر بیان کرنا جائز نہیں، ہاں! اگر کسی آیت کی تفسیر میں صحابہ کرام کے اقوال مختلف ہوں تو بعد کے مفسرین دوسرےدلائل کی روشنی میں یہ دیکھتے ہیں کہ کونسی تفسیر کو ترجیح دی جائے، اس معاملہ میں اہم اصول اور قواعد اصول فقہ، اصول حدیث اور اصول تفسیر میں مدون ہیں، ان کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔
4۔ تابعین کے اقوال
صحابہ کے بعد تابعین کا نمبر آتا ہے، یہ وہ حضرات ہیں جنھوں نے قرآن کریم کی تفسیر صحابہ کرام سے سیکھی ہے، اس لیے ان کے اقوال بھی علم تفسیر میں بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اگرچہ اس معاملہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ تابعین کے اقوال تفسیر میں حجت ہیں یا نہین، لیکن ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
5۔ لغت عرب
قرآن کریم چونکہ عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس لیے تفسیر قرآن کے لیے اس زبان پر مکمل عبور حاصل کرنا ضروری ہے، قرآن کریم کی بہت سی آیات ایسی ہیں کہ ان کے پس منظر میں چونکہ کوئی شان نزول یا کوئی اور فقہی یا کلامی مسئلہ نہیں ہوتا اس لیے ان کی تفسیر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم یا صحابہ یا تابعین کے اقوال منقول نہیں ہوتے۔ چنانچہ ان کی تفسیر کا ذریعہ صرف لغت عرب ہوتی ہے اور لغت ہی کی بنیاد پر اس کی تشریح کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی آیت کی تفسیر میں کوئی اختلاف ہو تو مختلف آراء میں محاکمہ کے لیے بھی علم لغت سے کام لیا جاتا ہے۔
6۔ تدبر اور استنباط
تفسیر کا آخری ماخذ "تدبر اور استنباط" ہے۔قرآن کریم کے نکات و اسرار ایک ایسا بحرناپیدا کنار ہے جس کی کوئی حد و نہایت نہیں، چنانچہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اسلامی علوم میں بصیرت عطا فرمائی ہو وہ جتنا جتنا اس میں غوروفکر کرتا ہےاتنے ہی نئے نئے اسرار و نکات سامنے آتے ہیں، چنانچہ مفسرین کرام اپنے اپنے تدبر کے نتائج بھی اپنی تفسیروں میں بیان فرماتے ہیں لیکن یہ اسرار و نکات اسی وقت قابل قبول ہوتے ہیں جبکہ وہ مذکورہ بالا پانچ ماخذ سے متصادم نہ ہوں، لہٰذا اگر کوئی شخص قرآن کی تفسیر میں کوئی ایسا نکتہ یا اجتہاد بیان کرے جو قرآن و سنت، اجماع، لغت یا صحابہ و تابعین کے اقوال کے خلاف ہو یا سکی دوسرے شرعی اصول سے ٹکراتا ہو تو اس کا کوئی اعتبار نہیں۔
مقدمہ معارف القرآن، مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.