Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

علامات قیامت:مولانا محمد طارق جمیل


علامات قیامت
مولانا محمد طارق جمیل


تمہید

میرے محترم بھائیو اور دوستو! الله تعالیٰ نے دنیا میں دو راستے بتائے ہیں… دوراہیں بتائی ہیں… زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں… دو طریقے ہیں… دو طرح کی موت اور دو طرح کا انجام ہے۔

کچھ لوگ وہ ہیں جو اپنی جانوں کو بیچتے ہیں او رالله کی رضا کو خریدتے ہیں… کچھ لوگ وہ ہیں جو اپنی جانوں کا سودا کرتے ہیں اور الله کی ناراضگی کو خریدتے ہیں ۔

”کل الناس یغدو فبائع النفس…“

بازار گرم، خریداری عروج پر ہے، لین دین چل رہا ہے … الله تعالیٰ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اعمال کو بھی ایک منڈی سے تشبیہ دی ہے… بازار سے تشبیہ دی ہے کہ دین کا بازار بھی گرم ہے او رہر انسان اس میں خرید وفروخت کے لیے اتر رہا ہے … کچھ لوگ وہ ہیں جو اپنی جان کو بیچتے ہیں اور آزادی حاصل کرتے ہیں … کچھ لوگ وہ ہیں جو اپنی جان کو بیچتے ہیں او رہلاکتیں خریدتے ہیں۔

کل الناس یغدو…

صبح صبح یہ دوڑ لگتی ہے اور ہر انسان بازار میں اترتا ہے … بایع النفس… اپنی جان کو بیچتا ہے… کچھ آزادی خریدتے ہیں… او موبقھا… کچھ ہلاکتیں خریدتے ہیں اور زندگیوں میں ایک وہ ہے جسے الله نے پسند فرمایا اور … ﴿ان الدین عند الله الاسلام﴾… کے ساتھ اس کو الله تعالیٰ نے مزین فرمایا… پھر ہم سے مطالبہ کیا… ﴿ادخلوا فی السلم کافة﴾…

میرے نزدیک زندگی گزارنے کا طریقہ جو پسندیدہ ہے وہ اسلام ہے۔ ﴿ان الدین عندالله الاسلام﴾…

صرف اسلام… کیا اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ چل سکتا ہے ؟ ﴿ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ…﴾

اسلام کو چھوڑ کر جس طریقے کو بھی اپنایا جائے وہ الله تعالیٰ کے دربار میں مردود ہو جائے گا۔ اس میں پھر الله تعالیٰ کا مطالبہ ہے۔ ﴿ادخلوا فی السلِم کافة…﴾

پورے پورے آؤ، ہماری تمہاری طرح نہیں کہ ہمارا ایک پاؤں اندر ہے ، ایک باہر ہے …، ہم کچھ الله تعالیٰ کی مانتے ہیں کچھ اپنی مانتے ہیں، … کچھ الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم کے طریقے پر چلتے ہیں، کچھ اپنے طریقے پر چلتے ہیں ۔

دوسرا راستہ یہ ہے جس کو الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:

﴿لاتتبعوا خطوات الشیطان﴾… شیطان کے پیچھے نہ چلنا
﴿انا ھدینہ السبیل﴾… راستے دو ہیں۔
﴿اماشاکرا﴾… شکر گزاری والا اسلام کا راستہ۔
﴿واماکفورا﴾… ناشکری والا شیطان کا راستہ۔
﴿فھدینہ النجدین﴾…

ہم نے انجام بھی تمہیں دونوں بتائے ہیں … راستے بھی تمہیں دونوں بتائے … ﴿فالھمھا فجورھا وتقواھا﴾… تمہارے اندر ہم نے برائی کی طاقت بھی رکھی ہے او راچھائی کی طاقت بھی رکھی ہے۔

زمین کا غم
جیسی زندگی گزرتی ہے ویسی موت آتی ہے … ان الارض تبکی علی الانسان وتبکی للانسان․

کچھ لوگ وہ ہیں جن کی موت پر زمین اس لیے روتی ہے … کہ یا الله! یہ کیوں مر گیا اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے زندہ رہنے پر روتی ہے کہ یا الله! یہ کب مریں گے؟

یا الله! یہ کیوں مر گئے … ان کو تو نہیں مرنا تھا … ان کی تو نمازیں… ان کا ذکران کی تلاوت … ان کی تہجد… ان کا تقوی… ان کی سخاوت… یہ سب کچھ میرے اوپر ایک باغ تھا … ایک چمن تھا … آج اس کے مرنے سے وہ چمن اجڑ گیا … کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی وجہ سے زمین روتی ہے۔

یاالله! یہ ظالم کب مرے گا؟
اس کے زِنا نے مجھے برباد کر دیا۔
اس کی چوریوں نے مجھے ہلاک کر دیا۔
اس کے ڈاکا ڈالنے کی عادت نے مجھے برباد کر دیا۔
اس کے جھوٹ نے میرے کلیجے میں سوراخ کر دیے۔
ماں باپ کی نافرمانیوں نے مجھے جلا کے رکھ دیا۔
گانے بجانے کی محفلوں، موسیقی کی تانوں نے مجھے ویران کر دیا۔
یا الله! یہ کب مرے گا… کب یہ بوجھ میرے سر سے ہٹے گا… اور یہ زیر زمین جائے گا… تو مجھے راحت ہو گی؟

تو میرے بھائیو! کچھ ایسے ہوتے ہیں جو زمین کے کلیجے کو جلا کر رکھ دیتے ہیں او راس کی رگ رگ میں درد اتار دیتے ہیں۔

اپنی نافرمانیوں سے … چوریوں سے … ڈاکوں سے … زنا سے … قتل سے … سود سے… جھوٹ سے… ماں باپ کی نافرمانی سے … قطع رحمی سے… بخل سے … تکبر سے …عُجب سے … ریا سے… گانے بجانے سے… جتنے بھی کبیرہ گناہ ہیں رشوت سے… ظلم سے … ستم سے … کچھ لوگ ایسے ہیں جو زمین کی رگ رگ کو جلا دیتے ہیں۔

الله تعالیٰ کی خوشی
کچھ لوگ ایسے ہیں جو زمین کی رگ رگ میں ٹھنڈک بھر دیتے ہیں اور راحت بھر دیتے ہیں… وہ جدھر سے گزرتے ہیں … جہاں پاؤں رکھتے ہیں … زمین ٹھنڈی ہو جاتی ہے … جو ہوا ان سے ٹکراتی ہے … وہ نسیم بن جاتی ہے … جہاں سجدے میں سر رکھتے ہیں تحت الثرٰی تک زمین کا کلیجہ برف بن جاتا ہے … جہاں بیٹھ کر تلاوت کرتے ہیں فضا معطر ہو جاتی ہے … جب نظریں جھکا کر بازار سے گزرتے ہیں تو بازار کی ایک ایک چیز نظریں اٹھااٹھا کر دیکھتی ہے کہ یہ کون حیا والا گزر رہا ہے …

بازار تو بے حیاؤں سے بھرا ہوا ہے، بازار تو آوارہ نظروں سے بھرا ہوا ہے ، یہ کون ہے جو نظریں جھکا جھکا کر چل رہا ہے ۔

زمین اس کے قدم چومتی ہے… ہوا اس کے بو سے لیتی ہے اور آسمان کے فرشتے بھی اس کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں اور الله تعالیٰ بھی اس پر فخر فرماتے ہیں … اس عریانی فحاشی کے دور میں کس نے اس نوجوان کی نظروں کا پردہ جھکا دیا … یہ کون نظریں جھکا کے چل رہا ہے؟

میرے بندے! میں نے تجھے دو آنکھیں دیں… اس پر دو پردے لگائے … ان آنکھوں سے وہ دیکھ جو تیرے لیے حلال ہے او رجب تجھے حرام نظر آنے لگے تو یہ پردہ گرا لیا کر … یہ پردہ میں نے اس لیے لگایا ہے کہ اس سے حرام نہ دیکھا کر … اس سے غلط نہ دیکھا کر … تو ایسے لوگ بازاروں سے گزر جائیں… گلیوں سے گزر جائیں تو وہ گلیاں معطر ہو جاتی ہیں… بازار روشن ہو جاتے ہیں … چمن سے گزر جائیں تو چمن کا حسن دو بالا ہو جاتا ہے … زمین آسمان پہ ان کے چرچے ہوتے ہیں۔

حیا کی چادر اتر گئی
میرے بھائیو… اب تو چراغ رخ زیبا سے بھی یہ لوگ نظر نہیں آتے… دنیا اجڑ گئی … انسان مٹ گئے… عورتیں مر گئیں… مؤنث رہ گئیں… کچھ مذکر ہیں… کچھ مؤنث ہیں… نساء چلی گئیں… وہ مرد اٹھ گئے… عورتیں زیر زمین سو گئیں۔

وہ مرد جاکے مٹی کی چادر اوڑھ کے سو گئے ، جن کی راتوں کی آہ وبکا الله تعالیٰ کے عرش کو ہلاتی تھی ، وہ عورتیں جن کی حیا فرشتوں کو بھی شرما دیتی تھی… ان سے جہاں خالی ہو گیا۔

کوئی کروڑوں میں ایک ہو تو شاید ہو … ہونا بھی چاہیے … ورنہ تو قیامت ہی آجائے … ورنہ تو بھائیو! آج مذکر ہیں، مؤنث ہیں… جنہیں شہوتوں کے سوا… لذتوں کے سوا… نفس کی غلامی کے سوا… کچھ بھی نہیں ہے … اس ساری زندگی کے لیے الله تعالیٰ نے ایک فیصلے کا دن رکھا ہے ۔

﴿یوم ترجف الراجفة﴾… ایک زلزلہ﴿تتبعھا الرادفة﴾ زلزلے کے پیچھے زلزلہ﴿قلوب یومئذ واجفة﴾ دل دھڑکتے ہوئے… ڈرے ہوئے… پریشان ﴿ابصارھا خاشعة﴾ آنکھیں ذلیل وپست… کیا ہوا… وہ دن آگیا… وہ فیصلے کا دن آگیا… جس کا الله تعالیٰ تمہیں بتاتا رہا … تمہیں ڈراتا رہا… ارے! سنبھل کے چل… سنبھل کے بول… سنبھل کے تول… سنبھل کے دیکھ۔

تیرا رب نہ سوتا ہے… نہ اونگھتا ہے… نہ کھاتا ہے … نہ غافل ہے … نہ جاہل ہے … نہ کمزور ہے … نہ عاجز ہے… نہ ضعیف ہے … نہ عدم سے وجود میں آیا… نہ اسے کسی نے بنایا… نہ اس سے کوئی پیدا ہوا… نہ وہ کسی سے پیدا ہوا… نہ اس نے کسی سے ملک لیا۔

جو شراکت سے پاک ہے … جو ضعف اور ذلت سے پاک ہے … پہلے بھی الله تعالیٰ… آج بھی الله تعالیٰ… کل بھی الله تعالیٰ… قیامت تک الله تعالیٰ… ہمیشہ الله تعالیٰ۔

مشرق کا الله تعالیٰ… مغرب کا الله تعالیٰ… شمال وجنوب، اوپر نیچے… ستارے وکہکشاں… شمس وقمر… لیل ونہار… دن اور رات … صبحیں اور شامیں… جنگل … دریا… پہاڑ… سب کا تن تنہا وحدہ لا شریک خالق… جس نے سب کچھ بنایا… اسے کسی نے نہیں بنایا۔

جو سب کو موت دے گا… کوئی اس کو نہیں مار سکتا۔
جو سب کو پکڑتا ہے … کوئی اسے نہیں پکڑ سکتا۔
جو سب سے پوچھے گا… کوئی اس سے نہیں پوچھ سکتا۔
جو سب کو دیتا ہے … کوئی اس کو نہیں دے سکتا۔
جو اونچا کرتا ہے … اس سے کوئی نہیں لے سکتا۔
جو سب سے لے لیتا ہے … کوئی نیچے نہیں کر سکتا ۔
گرادے تو کوئی اٹھا نہیں سکتا … بچا لے تو کوئی مار نہیں سکتا۔
مارنے پہ آئے تو کوئی بچا نہیں سکتا… پھر کائنات آہنی دیوار بن جائے… آسمان کی چھت بھی لوہا بن کر اس پر قائم ہو جائے۔

علامات قیامت
اگر الله تعالیٰ نے ارادہ کر لیا کہ مجھے مارنا ہے تو کائنات عاجز ہو جائے گی۔ ﴿قل لکم میعاد یوم لا تستاخرون عنہ ساعة ولا تستقدمون﴾․

و ہ سال… وہ مہینہ… وہ ہفتہ… وہ دن… وہ گھڑی… وہ گھنٹہ… وہ منٹ… وہ سیکنڈ کا آخری لمحہ… جب موت کا حملہ ہو گا اور یہ سانس کا تار کٹے گا اور آنکھوں کی شمع بجھے گی اور کانوں کے ٹیلیفون کے تار کٹیں گے … وہ الله تعالیٰ نے طے کیا ہوا ہے … الله تعالیٰ فرما رہے ہیں نہ کم ہو گا نہ زیادہ ہو گا … نہ آگے ہو گا نہ پیچھے ہو گا او رجب وہ بچانے پر آتا ہے تو خونخوار مچھلی کا پیٹ ہو … سمندر کی بپھری موجیں ہوں… ﴿فالتقمہ الحوت﴾… حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگلا… مچھلی کے پیٹ میں رکھ کر بھی الله تعالیٰ نے بچا کر دکھایا۔

آگ کے ڈھیر پہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچا کر دکھایا۔

چھری کی دہار کے نیچے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بچا کے دکھایا۔

سمندر کو پھاڑ کر بنی اسرائیل کو پار لگا کے دکھایا… کائنات میں اس کے عجائب وغرائب … قدم قدم پہ بکھرے ہوئے ہیں۔

میرے بھائیو! ان دو رراستوں کو بنانے کے بعد دو زندگیوں کا اختیار دینے کے بعد وہ غافل نہیں ہے … ایک دن طے ہے میری، آپ کی موت کا … ایک دن طے ہے انسانیت کی موت کا… جب زمین میں زلزلہ آئے گا… ﴿ اذا زلزلت الارض زلزالھا﴾․

پہاڑ اڑنا شروع کر دیں گے۔

﴿وتکون الجبال کالعھن المنفوش﴾․

اور جب سمندروں میں آگ لگ جائے گی۔

﴿واذ البحار سجرت﴾․

الله تعالیٰ جانے وہ کون سا جمعہ ہو گا… وہ کون سا وقت ہو گا… وہ کون سی گھڑی ہو گی … بعض روایات میں ہے کہ دس محرم… لیکن وہ یقینی نہیں … جمعہ کا دن ہو گا یہ پکی روایت ہے جمعہ کا دن… رات ہولے ہولے ڈھلی ہو گی… رات کہہ کر گئی ہو گی کہ کل آؤں گی … ستاروں نے آخری دفعہ چمکنا تھا… آج چاند کی آخری کرنیں تھیں اور سورج نقاب کشائی پہ آیا، اسے نہیں معلوم کہ آج میری آخری شعائیں ہیں جوز میں کو روشن کر رہی ہے۔

کلیوں کو نہیں پتہ کہ … آج آخری دفعہ کھلنا ہے
گلاب کو نہیں پتہ کہ … آج آخری دفعہ مہکنا ہے
چڑیوں کو نہیں پتہ کہ … آج آخری چہچہاہٹ ہے
کوئل کو نہیں پتہ کہ … آج آخری کُوک… ہے
اور بلبل کو نہیں پتہ کہ … آج میرا آخری نغمہ ہے
شیر کو نہیں پتہ کہ … آج میرا آخری دھاڑنا ہے
سانپ کو نہیں پتہ کہ … میرا آج آخری بل کھانا ہے
دریاؤں کو نہیں پتہ کہ … آج آخری طوفان ہے جو اٹھ رہا ہے
ہواؤں کو نہیں پتہ کہ … آج آخری دن ہے جس کو ہم دیکھ رہے ہیں

آج ہماری ہریالی کی آخری گھڑی ہے،موتیوں کی چمک کا آخری دن ہے ،ہیروں کا آخری دن ہے … حسن کا آخری دن ہے،وادیوں کے سبزہ زاروں کا آخری دن ہے ، صحراؤں ریگستانوں کا آخری دن ہے،پہاڑوں کے پتھروں کا آخری دن ہے او رانسانوں کا آخری دن ہے۔

قیامت مسلمانوں پہ نہیں ہے … قیامت کافروں پر ہے … الله تعالیٰ قیامت سے پہلے سورج کو مغرب سے نکالے گا، جو آخری نشانی ہو گی … مغرب سے سورج کے نکلتے ہی توبہ کا دروازہ بند ہو جائے گا جو کھلا ہوا ہے … ہر وقت کھلا ہوا ہے ، جب سورج مغرب سے نکلے گا شیطان اسے دیکھے گا۔

ایک دم سجدے میں گر کر کہے گا … اے الله! آج تو جس کو بھی کہے میں سجدہ کرنے کے لیے تیار ہوں تو اس کے شتونگڑ ے چھوٹے شیطان آکرکہیں گے ، کیا ہوا ؟ آج آپ سے ہم وہ سن رہے ہیں ، وہ دیکھ رہے ہیں جو نہ کبھی دیکھا ،نہ سنا…

وہ کہے گا میری مہلت کے ختم ہونے کا وقت قریب آگیا ، میری مہلت ختم ہونے کا وقت آگیا … یہ سورج مغرب سے نکل آیا … اس کے بعد کسی کی توبہ قبول نہیں ہے ، پھر مسلمانوں کو الله تعالیٰ مار دے گا … یہ بیت الله کی آواز… یہ مسجد اور یہ مکہ کا شہر … مدینہ منورہ کا آباد شہر … مسجد نبوی کی پر رونق فضائیں، یہ ایسے چٹیل میدان بن جائیں گے کہ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے قافلے کہا کریں گے یہاں کبھی آبادی ہوا کرتی تھی … یہاں کبھی لوگ رہا کرتے تھے … کسی چیز کا نشان نہ رہے گا۔

الله تعالیٰ کی نبی نے فرمایا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں … حبشہ کا حبشی ٹیڑھی پنڈلیوں والا … وہ بیت الله کے پتھروں کو توڑ توڑ کر اسے گرارہا ہے … وہ کہے گا اب ابابیل نہیں آئیں گیاب یہ جہاں کا دسترخوان الله تعالیٰ لپیٹنا چاہتا ہے … اس بارات کو سمیٹنا چاہتا ہے اب کھرے کھوٹے کو جدا کرنے کا وقت قریب ہے … اب جدائی کا وقت قریب ہے اب ظالم مظلوم کے انصاف کا وقت قریب ہے ۔ لہٰذا اب الله تعالیٰ سمیٹ دے گا۔

سیاست دانوں کی سیاست چمک رہی ہو گی،شادی کی باراتیں اکٹھی ہو رہی ہوں گی،میراثی ڈھول بجانے کو تیار،ادھر نائی دیگیں پکانے کو تیار، اور ادھر دکان کا افتتاح ہو رہا ہے، کچہری بازار میں، ادھر کھیت میں ہاری ہل لے کے جارہا ہے ، ادھر مائیں صبح صبح مکھن نکال رہی ہیں، پیڑے بنارہی ہیں، کوئی ماں اس کو توے پہ ڈال رہی ہے ، کوئی نوالہ بنا کر بچے کے منھ میں لے جارہی ہے ، کسی نے دکان کھول لی ہے ، کوئی جھاڑو دے رہا ہے ، کوئی جھاڑو دے کر بیٹھ چکا ہے ، کوئی آخری گاہک سے لین دین شروع کر چکا ہے اور اس طرح حدیث میں آتا ہے کہ وہ کپڑا ناپ رہا ہے، کپڑا ناپ کر اس نے قینچی ڈالی کہ میں نے دس میٹر اس کو ناپ کے دے دیا … یہاں قینچی ڈالی اورگاہک نے جیب سے پیسے نکالے … گننے شروع کیے کہ مجھے اس کو دینے ہیں … وہ کاٹنے میں، یہ گننے میں مصروف۔

یہ زمین دار،یوں اپنی مٹھی کو اٹھائے گا… بیج بکھیرنے کے لیے اور ادھر دکان کھولنے کے لیے تالے میں چابی ڈال کر یوں ہلا رہا ہو گا او رجھاڑو دینے والی خاتون گھر میں یوں جھاڑو اٹھائے گی اور بادشاہوں کے تخت سجائے جارہے ہوں گے اور دلہنوں کو گجرے پہنائے جارہے ہوں گے او ران کے ماتھے پر جھومر سجائے جار ہے ہوں گے ، دولہا کو ہا رپہنائے جارہے ہوں گے اورکائنات ایسی ہو گی ، جیسے آج صبح ہوئی، ایسی صبح ہو گی ، سورج ایسے نکلے گا، دن ایسے چڑھے ، ہوا اسی طرح چلے گی ، کلیاں اسی طرح کھلیں گی، کوا اسی طرح کائیں کائیں کرتا آئے گا، بلی میاؤں میاؤں کرتی آئے گی ، سانپ بل سے بل کھاتا نکلے گا ، عقاب جھپٹنے کو تیار ہے ، کوا چھپنے کو بھاگ رہا ہے ، موجیں بکھرنے کو تیار ہے ، ﴿اذاجاء ت الطامة الکبری﴾ ایک دھماکا ہو جائے گا، وہ ماں جس نے نوالہ بنایا تھا بچے کے منھ میں ڈالنے کے لیے ، وہ نوالہ ایسے گر جائے گا … وہ میں نے ابھی بتایانا، قینچی یوں گر جائے گی ، کپڑایوں گر جائے گا، پیسے ادھر گر جائیں گے ، پیسے ادھر گر جائیں گے ، پیسے والا ادھر گر جائے گا ، جس نے مٹی اٹھائی تھی بیج بکھیرنے کو اس کی مٹھی ایسے ڈھیلی ہو کے پیچھے آجائے گی۔

جس نے ہل ڈال دیا تھا… ہل ادھر گرے گا … یہ ادھر گرے گا… میراثیوں کے ڈھول ادھر گریں گے … یہ ادھر گرے گا… گجرے وہ پڑے ہوں گے … دلہن وہ پڑی ہو گی … ہارادھر ہوں گے … دولہا ادھر ہو گا ، تخت ادھر ہو گا … تخت والے ادھر ، باراتی ادھر بھاگیں گے… دولہا ادھر بھاگے گا، مائیں ادھر بھاگیں گی … بچے ادھر روئیں گے ﴿ تذھل کل مرضعة عما ارضعت﴾․

چند گھڑیاں پہلے یہ بچے کو گود میں لیے اس کا ماتھا چوم رہی تھی … ہونٹ چوم رہی تھی … میرا لعل کہہ رہی تھی … ﴿فاذا جاء ت الصاخة﴾… وہ چیخ آئے گی… وہ ہنگامہ کھڑا ہو گا… وہ لعل کو یوں پھینکے گی… ایسے اٹھا کر پھینک دے گی … کہ یہ مرتا ہے تو مرے ۔

﴿وتضع کل ذات حمل حملھا﴾․

حمل والی عورتوں کے حمل گر جائیں گے، بوڑھے باپ کو کوئی نہیں پوچھے گا، ماں کا کوئی پرسان حال نہ ہو گا ، ہر کوئی اپنی آپا دھاپی میں پڑ جائے گا اوربازار ویران! ارے اس دکان کا تو عدالت میں کیس چل رہا تھا ، تم کہاں جارہے ہو ؟ آج زمین کا فیصلہ ہونا تھا… کہاں جارہے ہو؟ کل فیصلہ کن الیکشن ہے … تم کہاں بھاگے جارہے ہو ؟ اسمبلیاں ویران… باغات ویران، وادیاں ویران… گھر ،گھروندے اوندھے منھ گرنا شروع ہوں گے، انسان کیا درخت سہمے، پھول سہمے گا، پانی سہما، ہوائیں سہمیں، پہاڑ کانپنے لگے، پتھر لرزنے لگے، زمین تھر تھرانے لگی، ہوائیں ساکن ہونے لگیں۔

زمین کا زلزلہ، آواز بڑھی… زمین تھرتھرانے لگی … پھر آواز اور بڑھی … پھر آواز اور بڑھی … پھر وہ خوف ناک شکل اختیار کرتی گئی … جنگل کے جانور بھاگ بھاگ کے باہر آنا شروع ہوئے … شیاطین جنات نظر آنے لگے… شیطان بھی چیختا چلاتا ادھر بھاگے…کبھی ادھر بھاگے، اتنے میں آسمان کو پھٹتا دیکھیں گے ، ستاروں کو ٹوٹتا دیکھیں گے۔ سورج بے نور ہوتا نظر آئے گا… یہ سورج کو کیا ہوا؟… دیکھو دیکھو ﴿اذا الشمس کورت﴾یہ تو پھٹتا چلا جارہا ہے ، ستاروں کو کیا ہوا ؟… ﴿واذا الکواکب انتثرت﴾… ایک دھماکا ہو گا… زمین ایسے پھٹنا شروع ہو جائے گی او رزمین کے نیچے تو آگ ہے … صرف پچاس کلو میٹر نیچے آگ ہے۔

زمین چوبیس ہزار کلو میٹر کی گیند ہے … اس کے اوپر پچاس کلو میٹر کی وہی حیثیت ہے جو سیب کے اوپر چھلکے کی حیثیت ہے … یوں سوئی لگاؤ تو چھلکا پھٹ جائے … 24 ہزار کلو میٹر پر پچاس کلو میٹر ایک چھلکے کی حیثیت ہے… زمین پھٹے گی اور نیچے سے آگ نکلے گی اور وہ آگ سمندروں کو بھی جلانا شروع کر دے گی۔

﴿واذا البحار فجرت﴾… پانیوں میں آگ لگ گئی… پہاڑ ہمالیہ جو آج سر بلند کھڑا ہوا کہہ رہا ہے … کوئی میرے مقابلے میں ہے؟ … کوئی میرے جتنا اونچا ہے؟… کوئی میرے جیسا سر رکھنے والا ہے؟ … کوئی میرے جیسی بلندیاں رکھنے والا ہے؟ … کوئی میرے جیسی سختی رکھنے والا ہے؟ …آج کوئی دیکھنے والا دیکھتا ہے کہ ہمالیہ کے خالق نے کیا کرکے دکھا دیا۔

جب ہم بنگلہ دیش جارہے تھے… نیپال کے راستے سے … ہم کھٹمنڈو سے آگے چلے تو کیپٹن نے اعلان کیا… آپ لوگ خوش قسمت ہیں کہ آج ہمالیہ کا مطلع صاف ہے … سارے سال میں صرف چند دن کے لیے اس چوٹی پہ بادل نہیں ہوتے، آج اس پر بادل نہیں ہیں … آپ سب حضرات اس کو ملاحظہ فرمائیں… تو میں اس طرف بیٹھا ہوا تھا تو دوسری طرف ہم بھاگ کے گئے تو الله کا شاہکار نظر آیا… جو خاموش زبان سے کہہ رہا تھا الله اکبر… جو خاموش زبان سے کہہ رہا تھا میں مخلوق ایسی ہوں تو میرا خالق کیساہو گا؟ جو خاموش زبان سے کہہ رہا تھا کہ جب میں اتنا مضبوط ہوں تو میرا بنانے والا کتنا مضبوط ہو گا؟… جو اپنی خاموش زبان سے پکار پکار کے کہہ رہا تھا جب میں اتنا طاقتور ہوں تو میرا بنانے والا کتنا طاقتور ہو گا؟ … وہ ہمالیہ وہ شاہکار میں نہیں بھول سکتا… پھر اس کے بعد کئی مرتبہ وہاں سے گزرے… بادل نظر آئے… بس وہی ایک ہی دفعہ بادل کے بغیر دیکھا تو زبان بے ساختہ پکار اٹھی… الله اکبر، سبحان الخالق!… قیامت کے دن کوئی ہمالیہ کی وادی میں کھڑا ہو کے دیکھتا کہ وہ کیسے روئی کے گالوں کی طرح اڑنا شروع ہو جائے گا… برف پگھل گئی… پہاڑ اڑ گئے… روئی کے گالے بن گئے… پھٹتے چلے گئے۔ ﴿فقل ینسفھا ربی نسفا فیذرھا قاعا صفصفا لاتری فیھا عوجا ولا امتا﴾․

پہاڑ روئی کے گالے بنتے چلے گے … ﴿تکون الجبال کالعھن المنفوش ﴾﴿یوم نسیر الجبال وتری الارض بارزة﴾․

پہاڑ پھٹ گئے، پھیل گئے، اڑ گئے، ریت بن گئے، ہواؤں میں بکھرگئے، تو جو آواز ہمالیہ کو پگھلا دے گی، وہ آواز پانچ فٹ کے گوشت پوست پر کیااثر کرے گی؟! … ہڈیاں پگھل جائیں گی اورجانوروں کی چیخ وپکار ہو گی…﴿واذا الوحوش حشرت﴾․

آج جانور کا بھی کوئی پرسان حال نہیں ہے … پھر ایک زور دار دھماکا ہو گا او رزمین پر زہ پر زہ ہو جائے گی … انسان مریں گے … شیاطین مریں گے … پھر ابلیس کی باری آئے گی ۔

ملک الموت سامنے آئے گا، وہ زمین میں غوطہ لگائے گا تو دوسری طرف نکل جائے گا۔

آگے دیکھے گا تو ملک الموت… پھر وہاں سے غوطہ لگائے گا اور چوتھی طرف نکل جائے گا۔

ہر طرف ملک الموت کو سامنے دیکھے گا… آج کوئی جائے پناہ نہیں ہے … ملک الموت کہے گا:

بھاگ بھاگ آج کہاں تک بھاگے گا… آج تیرا وقت بھی آگیا، ابلیس پوچھے گا کہ مجھے کہاں لے جاؤ گے؟ جواب ملے گا تیری ماں کے پاس ، کہاں؟… جھنم الی امک الھاویة… تیری ماں کے پاس لے جاؤں گا۔

ھاویہ… جہنم کی سب سے خوف ناک آگ جو منافقین کے لیے تیار کی گئی ہے … یہ آواز پڑے گی … آسمان پھٹے گا… فرشتے مریں گے … دوسرے آسمان پر خوف ہو گا … فرشتے مریں گے … آسمان پھٹے گا… تیسرے آسمان پہ موت، چوتھے آسمان پہ موت، ساتویں آسمان کے فرشتے پہ موت، پھر الله تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے … عرش اٹھانے والوں کو بھی موت دے دی جائے ۔

عرش کے فرشتے دھڑام سے گریں گے ، پھر الله تعالیٰ فرمائیں گے جبرائیل او رمیکائیل مر جائیں ، تو الله تعالیٰ کا عرش بول اٹھے گا… یا الله! جبرائیل اور میکائیل کو تو آپ بچالیں۔

اسکت فقد کتبت الموت علی من کان تحت عرشہ

میرے عرش کے نیچے سب کو مرنا ہے … کوئی نہیں بچ سکتا۔

ہائے وہ دیکھو! جبرائیل مر گئے … میکائیل مر گئے … پھر الله تعالیٰ فرمائیں گے … اسرافیل مر جائے … ایک روایت میں آتا ہے ، الله تعالیٰ پوچھیں گے کون باقی ہے ؟ کہا جائے گا عرش کے فرشتے باقی ہیں ، جبرائیل، میکائیل، ملک الموت ، اسرافیل باقی ہیں۔

الله تعالیٰ فرمائیں گے ، جبرائیل او رمیکائیل مر جائیں ، مر گئے، اب کون باقی؟

ملک الموت کہیں گے یا الله ! اوپر تو باقی، نیچے میں باقی … اوپر الله تعالیٰ ،عرش کے نیچے ملک الموت… اسرافیل جو صور اٹھا کے پھونک رہا تھا، وہ اڑتا ہوا بلند ہوتا چلا جائے گا او رالله تعالیٰ، نیچے ملک الموت، سب کی روحیں نکالنے والا، سب کو تڑپتا دیکھنے والا۔

آج کوئی اس کو تڑپتا دیکھتا، آج اس کی کوئی چیخ سنتا، حدیث میں یوں آتا ہے … اگر اس وقت انسانیت زندہ ہوتی تو اس کی چیخ سن کر سب کے کلیجے پھٹ جاتے … الله تعالیٰ فرماتے ہیں ، اے ملک الموت! مر جاؤ، کسی کو بقا نہیں ، سوائے الله تعالیٰ کی ذات کے ، عرش کے نیچے سب کو موت۔

جب جبرائیل او رمیکائیل کی عرش سفارش کرے گا کہ یا الله ! جبرائیل کو تو بچالے… میکائیل کو تو بچا لے … تو الله تعالیٰ فرمائیں گے ۔

اسکت… خاموش… میرے عرش کے نیچے سب کو موت آنی ہے ، کوئی نہیں بچ سکتا، ہائے! ملک الموت گرا پڑا ہے، سب مٹا دیا بنانے والے نے… ﴿کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فاعلین، منھا خلقنکم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارة اخریٰ﴾․

مٹی سے بنے تھے تم ،مٹی میں لوٹا دیا تمہیں، انتظار کرو دوبارہ زندہ ہونے کا … پھر الله تعالیٰ ساری کائنات کو اندھیرے میں دھکیل کر اعلان کرے گا، من کان لی شریکا فلیات، کوئی میرا شریک ہے تو میرے سامنے آئے؟ پھر دوبارہ کہے گا ، من کان لی شریکا فلیأت، میرا شریک ہے تو سامنے آئے، پھر سہ بارہ کہے گا… انا الملک… میں ہوں بادشاہ… پھر الله تعالیٰ دوسرا جھٹکا دے کر کہے گا… انا القدوس السلام المؤمن… میں ہوں القدوس … السلام… المؤمن… پھر تیسرا جھٹکا دے کر کہے گا … المھیمن… العزیز… الجبار… المتکبر… میں ہوں مہیمن، عزیز، جبار، متکبر․

سب ختم ہوں گے
پھر الله تعالیٰ فرمائے گا:
بادشاہ کہاں گئے؟ مغل اقتدار کہاں گیا؟ انگریز کا اقتدار کہاں گیا ؟ امریکا کا اقتدار کہاں گیا؟ بنو عباس وبنوامیہ کہاں گئے ؟ کہاں گئے عثمانی ترک؟ کہاں گیا سکندر یونانی؟ کہاں گیا سکندر ذوالقرنین؟ کدھر چلے گئے محمودوایاز؟ کدھر گیا تیمور لنگ؟ بادشاہ کہاں ہیں؟ ظالم کہاں ہیں ؟ ظالم کہاں ہیں ؟ظالم کہاں ہیں ؟ این المتکبرون؟ تکبر کرنے والے کہاں چلے گئے؟ ایڑیاں مار کر چلنے والے کہاں چلے گئے؟ گردن اکڑا کر چلنے والے کہاں گئے؟ غرور کرنے والے کہاں چلے گئے ؟ الله تعالیٰ کی اعلانیہ بغاوت کرنے والے کہاں چلے گئے؟ بے حیائی پھیلانے والے کہاں چلے گئے ؟ گانے سننے والے کہاں چلے گئے؟ کم تولنے والے کہاں چلے گئے ؟ غنڈہ گردی کرنے والے کہاں چلے گئے، دودھ میں پانی ملانے والے کہاں چلے گئے۔

انسان کی کیا اوقات ہے؟
میرے بھائیو! انسان کی بھی کوئی اوقات ہے کہ تکبر کرے، ایک درد ہی اسے تڑپا کے رکھ دے، موت کا جھٹکا نشان مٹا کر رکھ دے ، پیٹ کا پاخانہ اس کے اندر ، غلاظت، پیشاب کے جوہڑ، گندا پانی اس کے اندر ، پاخانہ اس کے اندر ، گندا خون اس کے اندر ، تھوک اس کے اندر ، بلغم اس کے اندر ، ناک کی گندگی اس کے اندر ، کانوں کا میل اس کے اندر ، آنکھوں کا میل اس کے اندر ، سر کی جوئیں اس کے اندر ، آفات بلیات اس کے اوپر، موت اس کے اوپر، مٹی اس کاا وڑھنا بچھونا ، قبر اس کا آخر ی ٹھکانہ ، جس انسان کی یہ اوقات ہو وہ گردن اکڑا کے چلے، بازو ہلا کے چلے!!!

بھائیو! الله تعالیٰ سے شرمانا چاہیے، یہ چال میرے رب کو پسند نہیں ہے ، تو آج الله تعالیٰ پوچھ رہا ہے ، کہاں ہیں متکبر؟ پھر الله تعالیٰ کہے گا۔

﴿لمن الملک الیوم﴾ آج کس کی بادشاہی ہے ؟ کوئی جواب دینے والا نہیں ہو گا ، پھر الله تعالیٰ خود کہے گا۔ ﴿الله الواحد القھار﴾… آج اکیلے الله تعالیٰ کی بادشاہی ہے ، پھر الله تعالیٰ فرمائے گا… انی بدأت بالدنیا ولم تکن شیئا، وانا الذی اعھدھا۔

تم کچھ نہ تھے اور الله تعالیٰ تھا، پھر الله تعالیٰ نے تمہیں بنایا ، پھر تمہیں مہلت دی ، پھر تمہیں مٹا دیا ، پھر تمہیں دوبارہ زندہ کرے گا ، ساری کائنات ختم ، جھگڑے جھمیلے گئے ، میلے او رٹھیلے گئے ، رونا اور ہنسنا گیا ، زندگی کی ساری رعنائیاں ختم… صرف الله تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ باقی ہے:

﴿الله لا الہ الاھو الحی القیوم لاتاخذہ سنة ولانوم﴾․

الله نے اس دنیا کو بنایا ، اسی الله نے مٹا دیا۔

یہ مچھر کا پر تھا، یہ مکڑی کا جالا تھا، یہ دھوکے کا گھر تھا،جس کی صبحیں تھوڑی ہیں، شامیں زیادہ ہیں، جس کی راحتیں تھوڑی ہیں اور غم زیادہ ہیں ، جس کا ہنسنا تھوڑا ہے اور رونا زیادہ ہے، جس کے درد زیادہ ہیں اور سکھ تھوڑے ہیں ، جہاں کی ذلتیں زیادہ اور عزتیں کم ہیں۔ جہاں درد اور غم تھے، مشکلات اور مصیبتیں تھیں، آج الله تعالیٰ نے اس جگ کو مٹا دیا… اس کے عاشقوں کو مٹادیا ،اس کے پیچھے رونے والوں کو ہلاک کر دیا، انہیں بھی بے نشان کر دیا۔

یہ وہ دنیا ہے جس نے مجھے اور آپ کو الله تعالیٰ سے دور کر دیا ، یہی وہ روپیہ ہے، یہی وہ پیسہ ہے، آج سونے او رچاندی کے ڈھیر ہیں، لینے والا کوئی نہیں۔

موتیوں کے ڈھیر، ہیرے جوہرات کے ڈھیر ہیں، کوئی نہیں ان کے پیچھے بازی لگانے والا۔

تخت ایوان شاہی میں پڑے ہوئے ہیں، اس پر کوئی نہیں ہے ، یہ دھوکے کا گھر، یہ مچھر کا پر ، یہ مکڑی کا جالا، یہ متاع قلیل، یہ دارالغرور ﴿وماالحیوة الدنیا فی الاخرة الاقلیل﴾․

یہ قلیل متاع، وہ دارالغرور، یہ لعب، ولہو

یہ زینت، یہ تفاخر، یہ تکاثر، یہ مٹ جانے والا گھر، اس کی صبحیں دیکھتے ہیں، شامیں نہیں دیکھتے، اس کی شام دیکھتے ہیں ، صبحیں نہیں دیکھتے، یہ مٹ جانے والا، ٹوٹ جانے والا گھر ہے ۔

اسی لیے الله تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿لا تغرنکم الحیوة الدنیا ولا یغرنکم بالله الغرور﴾․

یاد رکھنا! تمہیں فیصل آباد کی رونقیں جنت نہ بھلا دیں، الله تعالیٰ نہ بھلا دے، یہاں کے مال متاع تمہیں جنت کے شوق نہ بھلا دیں، یہاں کا خوف تمہیں دوزخ نہ بھلا دے کہ الله تعالیٰ نے سب کو مٹا دیا، اب الله تعالیٰ نے زندہ کر نا ہے۔

پھر ایک دن آئے گا جب الله تعالیٰ اس جہاں کو زندہ کرے گا، پھر دوبارہ زمین بچھائے گا۔

﴿یوم تبدل الارض غیر الارض والسموات وبرزوا لله الواحد القھار وتری المجرمین یومئذ مقرنین فی الاصفاد سرابیلھم من قطران وتغشی وجوھھم النار لیجزیھم الله کل نفس بما کسبت ان الله سریع الحساب ھذا بلغ للناس ولینذ روا بہ ولیعلموا انما ھو الہ واحد ولیذکر اولو الالباب﴾․

جس دن زمین بدل کے بچھائی جائے گی ، آسمان تبدیل کیے جائیں گے اور الله تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاؤگے، دوزندگیاں، دوراستے، دو موتیں، دو انجام ہیں، آج جنہوں نے الله تعالیٰ کو ناراض کیا تو الله تعالیٰ فرماتا ہے:

﴿وبرزوا لله الواحد القھار﴾ آج تم سب آگئے، ﴿وتری المجرمین یومئذ مقرنین فی الاصفاد﴾ زنجیروں میں جکڑے ہوئے، ﴿سرابیلھم من قطر ان﴾، ان کی شلواریں تارکول کی پہنائی جا چکی ہیں، ﴿وتغشیٰ وجوھھم النار﴾، ان کے سروں پہ آگ چڑھ چکی ہے،﴿ قطعت لھم ثیاب من نار﴾… ان کو کرتے آگ کے پہنائے جاچکے ہیں، ﴿لیس لھم طعام الامن ضریع﴾ کانٹے دار جھاڑیوں کے سو ان کے لیے کھانا کوئی نہیں، ﴿یسقیٰ من ماء صدید﴾ کھولتی ہوئی پیپ کے سوان کا پانی کوئی نہیں، ﴿یشوی الوجوہ﴾ وہ پیالے جب منھ کے قریب کریں گے تو اس کی بھاپ ان کے چہروں کی کھال کو جلا کر پگھلا کر پانی میں گرادے گی۔

یہ کھانا پینا ہے، یہ ان کے کمرے ہیں… ﴿نارا احاط بھم سرادقھا﴾… آگ کے پردے، آگ کی دیواریں، یہ ان کے بستر ہیں، یہ جہنمی ہیں۔

جنتی انسان کے لیے ہمیشہ کی من چاہی زندگی ہے۔ اس کے حصول کے لیے کوشش کریں، الله ہمارا حامی وناصر ہو، آمین۔

وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User