فکر آخرت
موت ایک اٹل حقیقت
زندگی ایک سفر ہے اور انسان عالم بقا کی
طرف رواں دواں ہے ۔ ہر سانس عمر کو کم اور ہر قدم انسان کی منزل کو قریب
تر کر رہا ہے ۔ عقل مند مسافر اپنے کام سے فراغت کے بعد اپنے گھر کی طرف
واپسی کی فکر کرتے ہیں ، وہ نہ پردیس میں دل لگاتے اور نہ ہی اپنے فرائض
سے بے خبر شہر کی رنگینیوں اور بھول بھلیوں میں الجھ کر رہ جاتے ہیں ہماری
اصل منزل اور ہمارا اپنا گھر جنت ہے ۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک ذمہ داری
سونپ کر ایک محدود وقت کیلئے اس سفر پر روانہ کیا ہے ۔ عقل مندی کا تقاضا
تو یہی ہے کہ ہم اپنے ہی گھر واپس جائیں کیونکہ دوسروں کے گھروں میں جانے
والوں کو کوئی بھی دانا نہیں کہتا ۔
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
برادران اسلام ! کبھی آپ نے سوچا کہ آخر ہم دنیا میں کس لئے آئے ہیں ؟ ہماری تخلیق کا مقصد کیا ہے ؟
کبھی سمجھا بھی مقصد زندگی کا ؟
کبھی سوچا بھی کیوں دنیا میں آئے ہیں ؟
کیا ہمیں اس لئے پیدا کیا گیا کہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ؟
کبھی سمجھا بھی مقصد زندگی کا ؟
کبھی سوچا بھی کیوں دنیا میں آئے ہیں ؟
کیا ہمیں اس لئے پیدا کیا گیا کہ
بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ؟
کیا ہمیں خوردونوش ، ہنسی مذاق ، کھیل کود ،
دولت دنیا سمیٹنے ، کوٹھیاں اور بنگلے بنانے ، فخر و مباہات ، جاہ و منصب
کے حصول اور اپنی من مانیاں کرنے کیلئے پیدا کیا گیا ؟ ہز گز ، ہر گز
نہیں.... اللہ کی قسم نہیں.... ہمیں ان کاموں کیلئے نہیں بلکہ اس عظیم
مقصد کیلئے پیدا کیا گیا ہے
جسے خود ہمارے خالق نے بیان فرمایا ہے :
(( وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُونِo مَآ اُرِیدُ مِنہُم مِّن رِّزقٍ وَّمَآ اُرِیدُ اَن یُّطعِمُونِ o اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو القُوَّۃِ المَتِینُ )) ( الذاریات : 58-56 )
” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ۔ “
(( وَمَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلَّا لِیَعبُدُونِo مَآ اُرِیدُ مِنہُم مِّن رِّزقٍ وَّمَآ اُرِیدُ اَن یُّطعِمُونِ o اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو القُوَّۃِ المَتِینُ )) ( الذاریات : 58-56 )
” اور میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں ، نہ تو میں ان سے روزی مانگتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھانا کھلائیں ۔ یقینا اللہ تعالیٰ تو خود سب کو روزی دینے والا ، صاحب قوت اور زبردست ہے ۔ “
جب ہم اپنی تخلیق کا مقصد جان چکے تو آئیے !
اب ذرا اپنے دل کو ٹٹو لیے اور من سے پوچھئے کہ آپ نے اس مقصد کو کہاں
تک پورا کیا ؟ کیا محنت کی ؟ کیا کوشش کی ؟ اور لوگ کیا کر رہے ہیں اور
کدھر جا رہے ہیں ؟ یقینا ہمارا دل گواہی دے گا کہ ہم نے تو کچھ بھی نہیں
لیا ۔ ہماری کوشش تو بالکل معمولی اور نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اگر آج ہی
موت آجائے تو اللہ کے دربار میں پیش کرنے کیلئے
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں
درپیش سفر دراز ہے اور سامان کچھ بھی نہیں
ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں
درپیش سفر دراز ہے اور سامان کچھ بھی نہیں
کیا ہم شب و روز مشاہدہ نہیں کرتے کہ موت کس
طرح دوست و احباب آل و اولاد اور عزیز و اقارب کو چھین کر لے جاتی ہے ۔
جب مقررہ وقت آ جاتا ہے تو پھر موت نہ بچوں کی کم عمری ، نہ والدین کا
بڑھاپا ، نہ بیوی کی جوانی اور نہ ہی کسی کی خانہ ویرانی دیکھتی ہے ۔
کیا ہم نہیں جانتے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں ؟ نہ اس سے شاہ بچے نہ گدا ، نہ صالحین اور نہ انبیاء ( علیہ السلام ) حتیٰ کہ
نہ موت بچے گی نہ ملک الموت
موت ہو ، قبر ہو ، محشر ہو کہ غم ہو
یہ ہیں وہ مرحلے جن سے کہیں فرار نہیں
نہ موت بچے گی نہ ملک الموت
موت ہو ، قبر ہو ، محشر ہو کہ غم ہو
یہ ہیں وہ مرحلے جن سے کہیں فرار نہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(( کُلُّ نَفسٍ ذَآئِقَۃُ المَوتِ وَاِنَّمَا تُوَفَّونَ اُجُورَکُم یَومَ القِیٰمَۃِ فَمَن زُحزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدخِلَ الجَنَّۃَ فَقَد فَازَ وَما الحَیٰوۃُ الدُّنیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الغُرُورِ )) ( آل عمران : 185 )
” ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم لوگ قیامت کے دن اپنے کئے کا پورا پورا اجر پاؤ گے ۔ پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ “
(( کُلُّ نَفسٍ ذَآئِقَۃُ المَوتِ وَاِنَّمَا تُوَفَّونَ اُجُورَکُم یَومَ القِیٰمَۃِ فَمَن زُحزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدخِلَ الجَنَّۃَ فَقَد فَازَ وَما الحَیٰوۃُ الدُّنیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الغُرُورِ )) ( آل عمران : 185 )
” ہر جان نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اور تم لوگ قیامت کے دن اپنے کئے کا پورا پورا اجر پاؤ گے ۔ پس جو شخص جہنم سے بچا لیا گیا اور جنت میں پہنچا دیا گیا وہی کامیاب ہوا اور دنیا کی چند روزہ زندگی تو دھوکے کا سامان ہے ۔ “
کیا ہم نے نہیں سنا کہ ہمارے نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم جو کہ ہر بات وحی الٰہی کے مطابق فرماتے ہیں ، انہوں نے
فرمایا : میری امت کے لوگوں کی اوسط عمریں ساٹھ سے ستر برس ہونگی ۔ بہت کم
لوگ اس سے آگے بڑھیں گے ۔ ( ترمذی )
کیا ہم اس حقیقت سے نا آشنا ہیں کہ دنیا
فانی ہے اور یہ جہاں عارضی ہے ؟ اور یہاں کا سارا سامان عارضی ہے ؟ نبی
رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں
کے کرنے سے پہلے پہلے غنیمت سمجھو اور ان سے فائدہ اٹھاؤ ۔
1 جوان کو بڑھاپے ،
2 صحت کو بیماری،
3 امیری کو فقیری ،
4 فراغت کو مصروفیت ،
5 زندگی کو موت سے پہلے پہلے ۔
حالی مرحوم نے اس کا کیا خوب ترجمہ کیا
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
غنیمت ہے صحت علالت سے پہلے
فراغت مشاغل کی کثرت سے پہلے
جوانی بڑھاپے کی زحمت سے پہلے
فقیری سے پہلے غنیمت ہے دولت
جو کرنا ہے کر لو کہ تھوڑی ہے مہلت
ذرا غور فرمائیے ! ہم لمحہ بہ لمحہ موت کی
جانب بڑھ رہے ہیں ، گردش لیل و نہار عمر عزیز کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ۔
جو چیز ہر روز کم ہوتی رہتی ہے وہ بالآخر ختم ہی ہو جاتی ہے جو لمحہ گزر
جاتا ہے کبھی واپس نہیں آتا ۔
اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو بتائیے آپ کا
لڑکپن کدھر گیا ؟ جوانی کدھر گئی ؟ عمر رفتہ کتنی تیزی سے بیت گئی ۔ کچھ
پتہ بھی چلا ؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن اور لڑکپن ابھی کل کی بات ہے
گیا بچپن ہوئی رخصت جوانی
اب اس کے بعد کیا ہو گا عیاں ہے
گیا بچپن ہوئی رخصت جوانی
اب اس کے بعد کیا ہو گا عیاں ہے
خالق کائنات نے سچ فرمایا ہے :
(( وَیَومَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یُقسِمُ المُجرِمُونَ 5 مَا لَبِثُوا غَیرَ سَاعَۃٍ )) ( الروم : 55 )
” قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے ۔ “
(( وَیَومَ تَقُومُ السَّاعَۃُ یُقسِمُ المُجرِمُونَ 5 مَا لَبِثُوا غَیرَ سَاعَۃٍ )) ( الروم : 55 )
” قیامت کے روز مجرم قسمیں اٹھا اٹھا کر کہیں گے کہ ہم تو بس ایک پَل کیلئے دنیا میں گئے تھے ۔ “
اگر ہم اپنے اقرباءمیں سے بزرگوں کی شکل و شباہت کا ذرا ان کی جوانی سے تقابل کریں تو ہماری زبان حال بے اختیار پکار اٹھے گی ۔
” پاک ہے وہ ذات جو حالات کو بدلتی رہتی ہے ۔ “
” پاک ہے وہ ذات جو حالات کو بدلتی رہتی ہے ۔ “
ایک فکر انگیز واقعہ :
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اپنے
احباب کے ہمراہ بکری کے ایک مردہ بچے کے پاس سے گزرے اور آپ اس کا کان
پکڑ کر فرمانے لگے : تم میں سے کون اسے ایک درہم کے بدلے خریدنا پسند
کرےگا ؟ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم عرض کرنے لگے : آقا صلی اللہ
علیہ وسلم ! ہم تو اسے مفت میں بھی نہیں لینا چاہتے ، یہ ہمارے کس کام کا
ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ
اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی عیب دار تھا ، اس کے کان
چھوٹے ہیں ، تو پھر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :
اللہ کی قسم ! اللہ کے نزدیک دنیا اس سے بھی زیادہ حقیر ہے ۔ اور فرمایا
آخرت کے مقابلہ میں دنیا کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی سمندر میں اپنی
انگلی ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ اس کے ساتھ کس قدر پانی آتا ہے ۔ دنیا کی
حیثیت آخرت کے مقابلہ میں ایسی ہے جیسا کہ انگلی کے ساتھ لگے ہوئے پانی کے
قطرے کی سمندر کے مقابلے میں ۔
یہ ہے دنیا کی حقیقت ۔ کیا ہمیں بھی دنیا کی
حقیقت کا کچھ پتہ چلا ؟ یا یہ کہ ابھی تک شیطان ہمیں ورغلا رہا ، وسوسے
ڈال رہا اور دنیائے فانی کی خواہشات کو سجا سجا کر آپ کے سامنے پیش کر رہا
ہے اور آپ سے ابھی تک کہے جا رہا ہے کہ چھوڑو ! واعظ لوگ ایسی باتیں کرتے
ہی رہتے ہیں ، جوانی مستانی ہوتی ہے ، اپنے حسن و جمال اور صحت و جوانی
میں مزے لوٹئیے ، دنیا کی لذتیں اڑائیے ، جب بوڑھے ہو جاؤ گے ، تمام قوتیں
جواب دے جائینگی پھر حج کر لینا اور توبہ و استغفار کر لینا ، سب کچھ
معاف ہو جائے گا ۔
یہی ابلیس ملعون کی چالیں اور اس کے گمراہ کن جال ہیں کہ وہ خود تو ڈوبا ہوا ہے ہی ، دوسروں کو بھی ساتھ ملانا چاہتا ہے ۔
قرآن کہتا ہے :
(( اِنَّمَا یَدعُوا حِزبَہ لِیَکُونُوا مِن اَصحٰبِ السَّعِیرِ )) ( فاطر : 6 )
” وہ تو اپنے ہمنواؤں کو بلاتا ہے تا کہ اس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں ۔ “
(( اِنَّمَا یَدعُوا حِزبَہ لِیَکُونُوا مِن اَصحٰبِ السَّعِیرِ )) ( فاطر : 6 )
” وہ تو اپنے ہمنواؤں کو بلاتا ہے تا کہ اس کے ساتھ جہنم کا ایندھن بنیں ۔ “
اللہ نے عقل دی ہے ذرا اتنا ہی سوچئے کہ
شیطان کیسے یہ گارنٹی دے سکتا ہے کہ ہم بڑھاپے تک جئیں گے ؟ اس کے پاس کیا
ضمانت ہے کہ ہمیں تب تک مہلت ضرور ملے گی ؟ اور اگر ہمیں مہلت مل بھی گئی
تو کیا وہ دوبارہ ہم پر حملہ نہیں کرےگا ؟
سوچئے ! غوروفکر کیجئے ! اور اپنے رب کا فرمان سامنے رکھےے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(( وَقَالَ الشَّیطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الاَمرُ )) ( ابراھیم : 22 )
کہ قیامت کے روز جب دربار الٰہی سے فیصلہ صادر ہو جائے گا اور حسرت و ندامت اور آہ و بکا بے سود ہو گی تب شیطان اپنے پیروکاروں سے کہے گا :
(( وَقَالَ الشَّیطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الاَمرُ )) ( ابراھیم : 22 )
کہ قیامت کے روز جب دربار الٰہی سے فیصلہ صادر ہو جائے گا اور حسرت و ندامت اور آہ و بکا بے سود ہو گی تب شیطان اپنے پیروکاروں سے کہے گا :
(( اِنَّ اللّٰہَ وَعَدَکُم وَعدَ
الحَقِّ وَوَعَدتُّکُم فَاَخلَفتُکُم وَمَا کَانَ لِیَ عَلَیکُم مِّن
سُلطٰنٍ اِلآَّ اَن دَعَوتُکُم فَاستَجَبتُم لِی فَلاَ تَلُومُونِی
وَلُومُوٓا اَنفُسَکُم مَآ اَنَا بِمُصرِخِکُم وَمَآ اَنتُم بِمُصرِخِیَّ
اِنِّی کَفَرتُ بِمَآ اَشرَکتُمُونِ مِن قَبلُ اِنَّ الظّٰلِمِینَ لَہُم
عَذَاب اَلِیم )) ( ابراھیم : 22 )
” بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا ، لیکن میں نے تم پر کوئی زبردستی تو نہیں کی تھی ، بس تم کو بلایا اور تم بھاگے چلے آئے ۔ لہٰذا مجھے برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو ، نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری داد رسی کر سکتے ہو ۔ تم نے جس طرح مجھے اللہ کا شریک بنایا ، میں اس کا انکاری ہوں یقینا ظالموں کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ “
” بے شک اللہ تعالیٰ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے جھوٹا وعدہ کیا ، لیکن میں نے تم پر کوئی زبردستی تو نہیں کی تھی ، بس تم کو بلایا اور تم بھاگے چلے آئے ۔ لہٰذا مجھے برا بھلا کہنے کی بجائے اپنے آپ کو ملامت کرو ، نہ میں تمہاری فریاد رسی کر سکتا ہوں اور نہ تم میری داد رسی کر سکتے ہو ۔ تم نے جس طرح مجھے اللہ کا شریک بنایا ، میں اس کا انکاری ہوں یقینا ظالموں کیلئے دردناک عذاب ہے ۔ “
میرے بھائیو ! ذرا اس مشکل وقت کو یاد کیجئے
جو ایک نہ ایک دن ضرور آنے والا ہے ۔ جب دوست و احباب ، اولاد و احفاد
اور بہن بھائی آپ کے گرد جمع ہونگے اور آپ اشکوں سے بھیگی ہوئی ، حسرت
بھری نگاہوں سے انہیں ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ رہے ہونگے اور یہ دولت دنیا ،
رشتے ناطے اور امنگیں آرزوئیں دھری کی دھری رہ جائیں گی ۔
موت آئی اور انسان کو اچک کر لے گئی
لمحہ بھر کے بعد وہ اک ساز بے آواز تھا
موت آئی اور انسان کو اچک کر لے گئی
لمحہ بھر کے بعد وہ اک ساز بے آواز تھا
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(( وَجَآئَ ت سَکرَۃُ المَوتِ بِالحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنتَ مِنہُ تَحِیدُ )) ( ق : 19 )
” اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا ۔ “
(( وَجَآئَ ت سَکرَۃُ المَوتِ بِالحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنتَ مِنہُ تَحِیدُ )) ( ق : 19 )
” اور موت کی بیہوشی برحق خبر لے کر آئی ، یہی وہ حقیقت ہے جس کے اعتراف سے تو راہ فرار اختیار کرتا تھا ۔ “
پھر کیا ہوگا.... ؟ کاش ! معاملہ یہیں ختم ہو جاتا ۔
لیکن درحقیقت مرنے سے آنکھیں بند نہیں ہوتیں بلکہ آنکھیں تو اب کھلی ہیں ۔ موت کے بعد کے مراحل تو اس سے زیادہ سخت اور آنے والے مناظر تو اس سے زیادہ ہولناک ہیں ۔ دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے اور فردوس اعلیٰ نصیب کرے ۔ ( آمین )
لیکن درحقیقت مرنے سے آنکھیں بند نہیں ہوتیں بلکہ آنکھیں تو اب کھلی ہیں ۔ موت کے بعد کے مراحل تو اس سے زیادہ سخت اور آنے والے مناظر تو اس سے زیادہ ہولناک ہیں ۔ دعا ہے کہ رب تعالیٰ ہمارا خاتمہ بالخیر کرے اور فردوس اعلیٰ نصیب کرے ۔ ( آمین )
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.