Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, January 25, 2011

دس اہم باتیں

اسلام میں سیدھے ہاتھ کی اہمیت


اللہ تعالیٰ کی محبت کے مستحق بننے کے لئے ہر شریعت نے ایک ہی تدبیر بتائی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس شریعت اور طریقہ کے بانی نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں، ان پر عمل کیا جائے، اور عمل کرکے دنیا اور آخر ت میں کامیابی پائی جائے، شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلاۃ والسلام نے سب سے بہتر تدبیر اختیار کی، اللہ نے پیغمبر ﷺ کا عملی نمونہ سب کے سامنے رکھ دیا، اس کی تائید قرآن پاک میں اس طرح آئی ہے:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ
[[بے شک تمہارے لئے رسول اللہ(ﷺ) میں بہترین نمونہ ہے]](                      )
یعنی عقائد، اعمال، معاملات اور اخلاقیات میں
نمونہ کی اتباع کو اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بتایا ہے،
اسلام میں دو چیزیں ہیں، کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ، کتاب اللہ سے وہ احکام و تعلیمات(تھیوری) مراد ہے جو قرآن کریم کے ذریعہ ہم تک پہنچی اور سنت رسول ﷺ سے وہ اعمال(پریکٹیکل) مراد ہے جو نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کے احکام (Theory)پر عمل(Practical)کرتے ہوئے اختیار کئے اور یہ تمام احکامات و عمل ہمارے پاس قرآن کریم اور احادیث صحیحہ کی صورت میں موجود و محفوظ ہیں۔
آج ہمارے معاشرے کی ایک بڑی تعداد بالخصوص روشن خیال کی ہر فریب اصطلاح کے دعویدار ان اغیار کی اندھی تقلید میں لگے ہوئے ہیں، جن میں سے ایک بائیں ہاتھ کا بکثرت استعمال حتیٰ کہ کھانے پینے اور لینے دینے اور دیگر امورِ زندگی تک میں ان اغیار کی اندھی تقلید کرتے ہیں، ان سے مشابہت کا گناہِ عظیم اپنے سر لیا جاتا ہے، جبکہ ہمیں کفار کی مشابہت سے منع کیا گیا ہے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
من تشبہ بقول فہو منھم
[جو کسی قوم کی مشابہت کرےگا وہ انہی میں سے ہوگا۔](ابوداؤد ،کتاب اللباس)
اس کے برعکس ہمیں تمام امور خیر میںﷺ دائیں سیدھا ہاتھ استعمال کرنے کاحکم دیا گیا ہے اور اس حکم پر عمل کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں پکڑایا جائے گا جو کامیابی کی نوید ہے. اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
دائیں ہاتھ والے کس قدر برکت والے لوگ ہیں اور بائیں ہاتھ والے کس قدر نحوست والے لوگ ہیں۔(الواقعہ9-8)
چنانچہ ہر مسلمان کو باعزت یعنی ذیشان اور خیر والے کام میں دائیں ہاتھ اور پاؤں مقدم رکھنا چاہئے، مثلاً وضو کرنے، کپڑے، جوتے، موزے، شلوار پہننے، مسجد میں داخل ہونے، سرمہ لگانے ، ناخن کاٹنے، مونچھیں کترنے، کھانے پینے، مصافحہ کرے، بیت الخلاء سے نکلنے، کوئی چیز لینے، یا دینے اور ان کے علاوہ اس طرح کے دیگر کام سیدھے ہاتھ سے کرنا چاہئے اور بے توقیر، غیر اہم اور طبعاً ناپسندیدہ کام اس کے برعکس ہیں یعنی ان کاموں میں بائیں(الٹے) ہاتھ و پاؤں کو مقدم رکھنا مستحب ہے، مثلا:ناک جھاڑنا، تھوکنا، بیت الخلاء میں داخل ہونا، استنجاء کرنا، مسجد سے نکلنا،کپڑے، جوتے، موزے شلوار قمیض اتارنا، اور اس طرح کے دوسرے اعمال کوبائیں(الٹے) ہاتھ سے سرانجام دینا چاہئے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو کرنے اور کھانے پینے کے لئے اور بایاں ہاتھ استنجاء اور دیگر(غیر توقیری) کاموں کے لئے استعمال ہوتا تھا۔(ابوداؤد)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پاؤں سے پہل کرے اور جب اتارے تو پہلے بایاں پاؤں اتارے جوتا پہنتے وقت دایاں پاؤں پہلے ہو اور جوتا اتارتے وقت بایاں پاؤں پہلے ہو۔(بخاری ومسلم)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے حج کے موقع پر سر مونڈھنے والے سے فرمایا: پہلے اس حصے کے بال کاٹو اور ہاتھ سے اپنی دائیں جانب اشارہ کیا پھر بائیں حصے کے۔(بخاری)
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی شخص ہرگز اپنے بائیں ہاتھ سے نہ کھائے اور نہ پئے اس لئے کہ شیطان اپنے بائیں اہتھ سے کھاتا اور پیتا ہے۔(مسلم)
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : تحقیق اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں داہنے والی صفوں کے اوپر۔(مشکوٰۃ شریف)
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ کب سونے کے لئے بستر پر تشریف لے جاتے تو داہنی کروٹ پر لیٹتے۔(بخاری)
دائیں ہاتھ اور بائیں جانب کی اہمیت و فضیلت سے متعلق بے شمار احادیث وارد ہیں جب کہ ماننے والے کئے لئے ایک آیت یا ایک حدیث ہی کافی ہے ۔ مسئلے کی اہمیت کے پیشِ نظر احادیث لکھ دی ہیں تاکہ اطمینان حاصل ہوجائے۔ نیز ان آیات و احادیث سے ہر اہم کام دائیں جانب یا دائیں ہاتھ سے یا دائیں  پاؤں سے کرنے کی کس قدر فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ اگر ہم پہلے کام اپنے بائیں ہاتھ سے کرلیں گے  تو دینِ اسلام کی مخالفت کریں گے اور گناہ کے مستحق ہونگے۔ جبکہ ہمارے لئے بہتر یہی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر عمل کرے اور دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کی جائے۔
میری آپ سے التماس ہے کہ آپ اپنے عام دنیاوی مسائل صحیح احادیث کی روشنی میں خود ہی سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور اپنے دوست و احباب کو بھی احادیثِ صحیحہ کی طرف متوجہ کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بنی کریم ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

تکبیر

انفرادی و اجتماعی عبادات میں ایمان کے بعد نماز کو جو درجہ حاصل ہے وہ کسی اور عمل کو حاصل نہیں اس کا تقاضا تو یہ تھا کہ مسلمان ایسا خاص اہتمام کرتے کہ اس میں کوئی نقص نہ رہتا، مگر ہماری کم علمی اور غفلت نے اس کو بھی، کو تاہیوں سے خالی نہ چھوڑا اسی سنت میں سے آپ کی توجہ ایک خاص مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جو نماز شروع کرتے وقت پیش آتا ہے یعنی تکبیرِ اولیٰ و رفع الیدین کرنے کا درست طریقہ احادیث کی روشنی میں رفع الیدین(اللہ اکبر، کہتے ہوئےہاتھوں کو بلند کرنا) نبی کریم ﷺ کی ایک عظیم سنت ہے اور نماز کی زینت اور اجرِ عظیم کا باعث ہے، لیکن یہ اجر اسی صورت میں حاصل ہوگا جب اس کو سنت کے مطابق ادا کیا جائے ۔دیکھا جائے تو کچھ نمازی ہاتھوں کو سینے سے بھی نیچے کرکے رفع الیدین کرتے ہیں اور کچھ ہاتھوں کو کانوں کی لو کے ساتھ جا ملاتے ہیں، ہھتیلی کو قبلہ رخ اور انگلیاں سیدھی نہیں رکھتے، یہ طریقہ غلط اور خلافِ سنت ہے، صحیح اور سنت کا طریقہ درج ذیل ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے دونوں شانوں یعنی کندھوں کے سامنے تک اٹھاتے اور جب رکوع کے لئے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تب بھی دونوں ہاتھ اسی طرح اٹھاتے۔(بخاری و مسلم)
نبی کریم ﷺ اللہ اکبر کہتے ہوئے ہاتھ اٹھاتے اور آپ کی انگلیاں کھڑی رہتی، اس طرح رفع الیدین کرتے تھے کہ وہ نہ پھیلی ہوئی ہوتی تھیں نہ ملی ہوئی۔(صحیح بخاری و ابوداوٗد)
نبی کریم ﷺ جب تکبیر کہتے تھے تو آپ ﷺ کی ہتھیلی قبلہ رخ ہوتی تھی۔(مجمع الزوائد)
قارئین کرام ! آپ نے حدیث مبارکہ میں پڑھ لیا کہ تکبیر اور  رفع الیدین کس طرح کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ ہمیں عمل  کی توفیق دے اور رسول اللہ ﷺ کے حکم پر عمل کرکے دنیا اور آخرت میں کامیابی دے دین کی باتیں جو یقینا ہماری بھلائی کیلئے کہی گئی ہیں، ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ سےدعا ہے کہ وہ سب لوگوں کو زندگی کے تمام شعبہ جات میں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ خاتمہ بالایمان نصیب فرمائے اور کل روز محشر ہر طرح کی رسوائی سے بچا کر اپنے عرشِ معلیٰ کے ساےتلے جگہ نصیب فرمائے۔ آمین۔

سترہ

موجودہ دور میں مسلمانوں کو اپنے دین کے حوالے سے انتہائی بیزاری پائی جاتی ہے اور بعض لوگوں میں تھوڑا بہت جو دینی عمل نظر آتا ہے وہ بھی دین کا صحیح علم نہ ہونے کی وجہ سے قرآن و حدیث سے عاری اور خشوع و خضوع سے خالی ہوتا ہے۔ بالخصوص ہماری عبادات اور ان عبادات میں خاص کر ہماری  ادائیگی نماز خلافِ سنت اور حاملِ بدعت کا منظر پیش کر رہی ہوتی ہے۔ جبکہ رب العالمین کا فرمان ہے:
وہ ذات ہے جس نے موت اور زندگی کی تخلیق کی تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں کون زیادہ اچھے عمل کرنے والا ہے اور وہ غالب ہے معاف کرنے والا ہے۔(الملک:2)
میں آپ کی توجہ ایک خاص مسئلہ کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں جس کے بارے میں عام نمازی  خیال نہیں رکھتا وہ ہے۔ [[سُترہ]]
سترہ  کے لغوی معنیٰ اوٹ یا پردہ کے ہیں۔
اصطلاحی و شرعی اعتبار سے سترہ کا استعمال ہر اس چیز پر ہوتا ہے جسے مسلمان بوقتِ نماز اپنی سجدہ گاہ کے سامنے رکھتا ہے۔
سترہ گاڑھی ہوئی لکڑی، برچھی، دیوار، ستون اور درخت سے ہوجاتا ہے۔ امام کا سترہ سب مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔
سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ غزوۂ تبوک میں آپ ﷺ سے نمازی کے سترہ کی لمبائی کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اونٹ کے پالان کےپچھلے حصہ کے برابر۔(صحیح مسلم)
نوٹ: اونٹ کا پالان تقریباً ایک فٹ یا اس سے تھوڑا سا اونچا ہوتا ہے۔
وہب بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنےو الد سے سنا کہ نبی کریم ﷺ نے لوگوں کو بطحاء میں نماز پڑھائی،آپ ﷺ کے سامنے عنزہ(برچھا) جس کے نیچے پھل لگا ہوا تھا، گاڑدیا گیا۔پھر آپ سے ظہر اور عصر کی نمازیں ادا کیں۔آپ کے سامنے سے عورتیں اور گدھے وغیرہ بھی گذر رہے تھے۔(صحیح بخاری)
یہاں یہی ثابت ہے کہ امام کا سترہ سارے نمازیوں کے لئےبھی ہے آپ ﷺ نے  حالتِ سفر میں بطحاء(جگہ کا نام) میں ظہر اور عصر کی دونوں نمازیں جمع و تقدیم کے طو پر پڑھائیں اور آپ کے آگے بطورِ سترہ برچھا گاڑ دیا گیا تھا،برچھے سے باہر آپ اور نمازیوں کے آگے سے دوسرے لوگ، عورتیں، جانور، گدھے  اور وغیرہ گزر رہے تھے اور عوتیں بھی مگر آپ کا سترہ سب نمازیوں کے لئے کافی شمار کیا گیا۔ اکیلئے نمازی کیلئے سترہ ہونا لازمی ہے۔
سیدنا ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  رسو ل اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب ہم میں سے کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی طرف نماز پڑھے اور اس کے قریب ہوکے کھڑا ہو۔(ابوداوٗد)
سیدنا سبرۃ بن معبد الجہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں نماز میں سترہ ضرور قائم کرنا چاہئے خواہ ایک تیر ہی ہو۔(مسند احمد)
نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: سترہ کے بغیر نماز نہ پڑھو اور نہ اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے دو اور اگو ہ نہ مانے تو اس سے لڑجاؤ کیونکہ اس کے ساتھ شیطان ہے۔(صحیح بخاری)
سیدنا ابو جہیم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا نمازی کے آگے سے گزرنے والا اگر یہ جان لے کہ اس پر کتنا گناہ ہے تو وہ نمازی کے آگے سے گزرنے کے بجائے چالیس(سال) کا انتظار کرنا بہتر سمجھے۔(صحیح بخاری)
آپ پڑھ لیا کہ سترہ کتنا اہم اور ضروری ہے لیکن مسجدوں میں عام طور پر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ نمازیوں کاخیال نہیں کرتے اور ان کے آگے سے گزرنے سے دریغ نہیں کرتے  اور یہ مسئلہ عام ہوتا چلاجارہا ہے کہ کی تین صف کے آگے سے گزر جانا جائز ہے معلوم نہیں کہ یہ بات کہاں سے لی گئی ہے؟بلکہ ہمیں تو نمازی کے آگے سے گزرنے سے منع کیا گیا جس میں صفوں کی کوئی حد نہیں نمازی کو بھی خیال رکھنا چاہئے کہ وہ کسی نمازی کو اپنا سترہ نہ بنائے ہوسکتا ہے کہ وہ جلدی میں اور آپ کی وجہ سے اس گناہ کا ارتکاب ان  سے ہو جائے۔ یا پھر یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ نمازی کے آگے سترہ رکھے اور آگے سے گزر جائے لیکن معلوم نہیں کہ یہ مسئلہ کہاں سے لیاگیا ہے۔ حدیث سے تو یہ بات معلوم نہیں ہوتی کہ آگے سترہ رکھ کر گزر جاؤ بلکہ حدیث میں انتظار کا حکم ہے جیسا کہ ابھی گزرا ہے۔ سمجھنے کے لئے قرآن کی ایک آیت عمل کیلئے ایک حدیث نبوی ﷺ بھی کافی ہے۔ اتنی تفصیل مسئلہ کی عظمت کی بنا پر بیان کی گئی ہے۔ تاکہ اس کا اہتمام کیا جائے اس کیلئے بہت  زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ورنہ لوگوں کو یہ مسئلہ معلوم بھی تب بھی اپنی سابقہ عادت کی وجہ سے اسی طرح کر لیتے ہیں جو ان کی عادت بن چکی ہے۔
اس لئے اللہ کیلئے اپنی حالت پر رحم کریں اور نماز پر اپنی توجہ قائم کریں۔ اللہ نہ کرے ، نمازکیی بد دعا کا مصداق بن جائیں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ نماز کے مسائل کا صحیح احادیث کی روشنی میں خود بھی سمجھنے کی کوشش کریں اور اپنے دوست و احباب کو بھی دین کی بنیادی مسائل کی طرف متوجہ کریں۔

جگہ

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اور وہ چاہتا ہےکہ انسان دنیا میں نیک اعمال کرکے آخرت میں کامیاب ہو اللہ تعالیٰ کا فرما ن ہے: ترجمہ
[[میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ صرف میری عبادت کریں]](الزاریات:56)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نیکی کمانے کی جستجو میں رہنا چاہئے بظاہر تو یہ کام مشکل ہے لیکن بہت آسان بھی  ہوسکتا ہے کہ زمین پر ہمارا چلنا پھرنا ہی نیکیوں میں شمار ہوگا اور ہم کو قدم بقدم نیکیاں ملیں گی، بشرطیکہ ہماری سوچیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سوچ کے مطابق ہوجائیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارا گھر مسجد سے کچھ فاصلے پرتھا، ہم نے فیصلہ کیا کہ یہ گھر فروخت کرکے مسجد کے قریب گھر لیں، اس پر ہمیں رسول اکرم ﷺ نے منع کرتے ہوئے فرمایا کہ بے شک تمہارے لئے ہر قدم نیکی ہے یعنی قیامت کے روز زمین پر رکھا ہوا ایک ایک قدم تمہارے حق میں گواہی دے گا کہ ہر ہر قدم مجھ پر چل کر مسجد کی طرف نیکی کمانے کے لئے  اٹھا۔(مسلم)
جب یہ بات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معلوم ہوئی تو انہوں نے مسجد کی طرف چھوٹے چھوٹے قدم لیکر آنا شروع کیا،، تاکہ زیادہ سے زیادہ زمین پر قدم پڑیں۔
اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ جب عید کا دن ہوتا تو (عید گاہ)آنے و جانے کا راستہ تبدیل فرمالیتے۔(بخاری)
چونکہ مسلمانوں کے لئے بالخصوص اللہ تعالیٰ نے ساری زمین کو نماز کی جگہ بنادی اور قیامت کے روز یہی چپہ چپہ جس پر سجدہ کیا گیا ہو یا نیکی کی طرف قدم اٹھایا گیا ہو انسان کے حق میں گواہی دے گا آج ہم ان چھوٹی چھوٹی نیکیوں سے غافل ہیں۔
جس جگہ ہم نے فرض نماز پڑھی اسی جگہ سنتیں و نوافل پڑھنے گئے لگ جاتے ہیں جب کہ یہ خلافِ سنت ہے اس مسئلہ کے بارے میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا  کیاآپ کا کوئی فرض نماز ادا کرنےکے بعد دائیں بائیں آگے پیچھے ہونے سے عاجز ہے۔؟(    )
ازرق بن قیس کا بیان ہے کہ ہمیں ہمارے امام ابو رقثہ نے نماز پڑھائی پھربیان کیا کہ ایسی ہی نما زمیں  نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ پڑھی جس میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اگلی صف کے دائیں طرف ہے اور ایک شخص جو نماز میں تکبیر ِ اولیٰ سے شامل ہو ا نبی کریم ﷺ  نے نماز پڑھائی حتیٰ کے دائیں بائیں سلام پھیرا اور ہم نے آپ ﷺ کے رخساروں کی سفیدی  دیکھی، پھر آپ ﷺ پیچھے مڑے اور ایسا ہی ابو رقثہ نے کیا ، تکبیرِ اولیٰ سے شامل ہونے والا ایک اٹھا اور نماز پڑھنا شروع کردی ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ  اس کی طرف بڑھے اور کندھے سے پکڑ کر اسے جھنجھوڑا اور کہا اسی حالت میں بیٹھ جاؤ آپ کو معلوم نہیں کہ اہلِ کتاب کی ہلاکت کا سبب یہ بھی تھا کہ وہ اپنی نمازوں میں یعنی فرائض اور سنن میں فرق نہیں کرتے تھے۔ تو نبی کریم ﷺ نے شفقت بھری نظر سے عمر رضی اللہ دیکھا اور فرمایا : اے ابن خطاب! اللہ تعالیٰ نے تیری وجہ سے درستگی فرمائی ہے۔(سنن ابو داوٗد)
ایک تابعی(نافع بن جبیر) نے اپنے شاگرد سائب بن یزید رحمہما اللہ سے اس کا عمل پوچھنے کے لئے بھیجا کیونکہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا اور ان کی اصلاح فرمائی تھی، تو سائب بن یزید نے کہا  کہ ہاں مجھے یاد ہے کہ میں نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسورہ
نامی جگہ پر ایک دفعہ جمعہ کی نماز پڑھی تو امام کے سلام پھیرتے ہی میں اپنی جگہ یعنی جہاں فرض ادا کئے تھے، کھڑا ہوا اور بقیہ سنن و نوافل ادا کرنا شروع کردئیے، جب سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ امام کے حجرے میں داخل ہوئے تو مجھے بلوایا اور کہا کہ یہ عمل سنت نبویہ سے ثابت نہیں، لہٰذا اسے چھوڑ دیں اور جب آپ فرض نماز ادا کریں تو ان کے ساتھ سنن و نوافل کو نہ ملائیں، دائیگی اور فرائض کے بعد سنن و نوافل تب ادا کرو کہ کچھ کلام پڑھ لو(اذکارِ نبویہ اور کلام مفید مراد ہے) یا کسی دوسری جگہ پڑھ لو۔(مسلم)
میرے مومن بہن بھائیو!
آپ نے پڑھ لیا کہ قیامت کے دن یہ نیکیاں ہی کام آئیں گی، جیسا کہ رب العالمین کا فرمان ہے:
ترجمہ: پس جس نے ذرہ برابر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا،(الزلزال8-7)
میری آپ سے التماس ہے کہ آپ فرض نماز حسب جگہ پڑھیں، اس جگہ سے آگے پیچھے ہوکر یا دائیں بائیں ہوکر زیادہ سے زیادہ زمین کو اپنے لئے آخرت کے دن کے لئے گواہ بنائیں یہ عمل کرنے سے نبی کریم ﷺ کا حکم بھی پورا ہوجائے گا اور نیکیوں میں اضافہ بھی ہوجائے گا۔ اگر مسلم عورتیں گھر پر اکیلے مصلّے پر نماز پڑھ رہی ہوں تو اس حکم کا خاص خیال رکھیں اور مصلّے کے دائیں بائیں ہوکر فرض اور سنتیں ادا کریں اور عمل پر اپنی اولاد کی بھی تربیت کریں، اللہ تعالیٰ ہم سب اہلِ ایمان کی اصلاح فرمائے اور دین کی تعلیم پر جو کہ ہماری بھلائی کیلئے ہی ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

حقوق

موجودہ دور نے اسلامی زندگی کا نظام ہی درہم برہم کر رکھا ہے اور اسلامی قدروں کو پامال کیا جارہا ہے، مغربی تہذیب و تمدن کے اثرات سے اور دینی تعلیمات کی ناواقفیت کے سبب عام طور پر مسلمان حقوق اللہ اور حقوق العباد سے ناواقف ہیں۔( اللہ تعالیٰ کا بندوں پر حق اور بندوں کے اللہ تعالیٰ پر حقوق اور بندوں کے بندوں پر حقوق) سے عدمِ واقفیت کے سبب مسلمانوں کا معاشرہ اسلامی، معاشرتی اصولوں سے محروم ہوتا جارہا ہے جس کے سنگین نتائج سامنے آرہے ہیں۔
اس وقت مسلمانوں میں زوال و پستی کی علامتیں، بے برکتی، فحاشی، عریانی، قومی عصبیت اور تعصب اور حقوق اللہ اور حقوق العباد سے نا آشنائی اور اس کی عدم ادائیگی ہے۔ جن لوگوں کو کچھ دینی تعلیم یا نیک محبت حاصل ہے۔ اور وہ اچھے دین دار بھی نظر آتے ہیں۔ وہ بھی ان حقوق سے نا آشنا ہیں یہ ان حقوق کی عدمِ ادائیگی کا شکار ہیں اگر ہمارے مندرجہ بالا معاملات درست ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ سے امید کی جاسکتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہوجائے، حقوق کی دو قسمیں ہیں۔
حقوق اللہ                      حقوق العباد

حقوق اللہ:

صحابی رسول ﷺ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ  بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں آپ کے پیچھے سواری پر سوار تھا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اے معاذ! کیا آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے اپنے بندوں پر کیا حقوق ہیں؟ اور بندوں کے اللہ پر کیا حق ہیں؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ بنائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں بناتے انہیں عذاب نہ دیں۔ (بخاری)
اللہ تعالیٰ کایہ حق بندوں پر اس وقت سے ہے جب اللہ تعالیٰ نے عالَم ارواح میں تمام لوگوں سے یہ اقرار لیا تھا کہ میری ہی عبادت کرنا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اللہ تعالیٰ کا فرمان: اے اولاد آدم! کیا میں نے تم سے قول و اقرار نہیں لیا تھا کہ تم شیطان کی عبادت نہ کرنا وہ تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری ہی عبادت کرنا سیدھی راہ ہی ہے۔(یٰسٓ: آیات42-41)

حقوق العباد:

اگر حقوق اللہ میں کوئی کمی کوتاہی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرمادیتا ہے اور حقوق العباد جب تک صاحب حق معاف نہ کرے تو اس وقت تک اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرتا۔ ہر مسلمان بھائی کے دوسرے مسلمان بھائی پر کچھ حقوق اور آداب ہیں جسے  مسلمان تسلیم بھی کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ
مسلمان کا دوسرا حق اس کے بیمار ہونے پر اس کی عیادت کرے، اس نیکی کے برے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے:
جو شخص اپنےمسلمان بھائی کی صبح کے وقت عیادت کے لئے جاتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعائیں کرتے ہیں، اور اسی طرح شام کے وقت جانے والے کیلئے صبح تک(ترمذی)
مسلمان کا تیسرا حق اپنے مسلمان بھائی کے جنازے میں شریک ہو، اس حقوق ے بارے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
‘‘جو شخص اپنے مسلمان بھائی کا جنازہ پڑھتا ہے اس کے لئے ایک قیراط ہے اور جو شخص جنازہ کے ساتھ قبرستان تک جائے اور جنازہ دفنانے تک وہیں ٹھہرے اس کے لئے دو قیراط ہیں، صحابہ کرام  رضی اللہ عنہم نے عرض کیا قیراط کیا چیز ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اُحد پہاڑ کے برابر اجر و ثواب ۔’’()
مسلمان کا چوتھا حق دعوتِ حق قبول کرنا ، دعوت قبول کرلینی چاہئے اور عذر کے بغیر دعوت کو رَد کرنا اپنے مسلمان بھائی کی حق پامالی ہے، عذر سے مراد یہاں یہ ہے کہ وہ دعوت اس کے دین یا بدن کو نقصان  یا ضرر پہنچائے اگر ایسی دعوت ہو تو بے شک بندہ رد کردے۔
رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے جسے کھانے کے لئے بلایا جائے وہ قبول کرلے،(صحیح مسلم)
دعوت قبول کرنے میں امیر و غریب کا فرق نہیں کرنا چاہئے، غریب کی دعوت قبول نہ کرنے سے اس کی دل شکنی ہوگی، جبکہ امیر کی دعوت قبول نہ کرنے میں تکبر کا پہلو آسکتا ہے، تکبر اللہ کو ناپسند ہے۔
مسلمان کا پانچواں حق یہ ہے کہ مسلمان بھائی کو چھینک آئے تو اس کا جواب دے،رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
جب تم میں سے کسی کو چھینک آئے، تو اسے چاہئے کہ [[اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ]] کہے اور (سننے والا) اس کا بھائی یا  ساتھی اس کے لئے دعا کرے[[یَرْحَمُکَ اللّٰہُ]]   (اللہ تجھ پر رحم کرے) جب وہ اس کو [[یَرْحَمُکَ اللّٰہُ]]  کہے تو چھینکنے والا کہے [[یَہْدِیْکُمُ اللّٰہُ وَ یُصْلِحَ بَالَکُمْ]](اللہ تعالیٰ تمہیں ہدایت دے اور تمہاری حال کی اصلاح فرمائے۔)(بخاری)
اس میں ایک دوسرے کے حق میں  کس طرح دعائے خیر کرنے اور احسان کے بدلہ احسان کرنے کا سبق ہے، جس سے باہم محبت میں اضافہ ہوتا ہے، کاش مسلمان اپنے مذہب کی ان سنہری تعلیمات پر عمل کریں اور دنیا میں کامیابی اور آخرت میں سرخرو ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم تمام مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی تعلیمات  کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اپنے اہل و عیال کو نصیحت اور دوسرے مسلمانوں کو پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

وعلیکم  السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ

باہم ملاقات کے وقت جو آداب دین اسلام نے بیان  کیے ہیں ، دوسرے کسی مذہب میں ایسے سنہرے اور پیارے اصولوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔
قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں ہے کہ جب مسلمان آپس میں ملاقات کریں تو آغاز سلام سے کریں، سلام کہنا اور جواب دینا لازمی و ضروری ہے ۔ جو مسلمان ہونے کے باوجود   [[السلام علیکم  ]]   نہ کہے اور سلام سننے والا جواب میں  [[و علیکم السلام]] نہ دے تو دونوں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نافرمان ہیں۔قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے:
اور جب تمہیں سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا انہی الفاظ کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ تعالٰی ہرچیز کا حساب لینے والا ہے۔(النساء:86)
اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :        سلام کو عام کرو۔(کتاب صحیح الجامع)
آج ہمارے معاشرے میں اول سلام کرنے کا رواج نہیں اگر کوئی سلام کردے تو اس کے جواب دینے کا طریقہ نہیں معلوم۔ شریعت میں جو ہمیں سلام کے جواب دینے کا طریقہ بتایا ہے جہ جب تمہیں کوئی سلام تو اسے جواب میں و علیکم السلام و رحمۃ اللہ کہو، اور اگر کوئی السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہے تو جواباً و علیکم السلام ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہو،
آج کے معاشرے میں خود ساختہ مسئلہ کو نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان مقامات پر (عورتوں کی مجلس میں، مسجد میں، وضوخانہ میں، کھاناکھانے والے کو) یا ان جیسی دوسری جگہوں پر سلام کرنا جواب دینا، مکروہ و ممنوع ہے حالانکہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے تو مکروہ نہیں کہا بلکہ رسول اکرم ﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ جب بھی اپنے مسلمان بھائی سے ملاقات ہو اسے سلام کیا جائے۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ایک مرتبہ) مسجد میں تشریف لے گئے اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے فرمایا کہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تب وہ بولا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر ادا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا آپ مجھے تعلیم کر دیجئے، آپ نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جتنا قرآن تم کو یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے ہو جاؤ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان سے ہوجاؤ، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔(بخاری)
مہاجربن قنفذ بن عمیر بن جذعان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وضو کر رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جواب نہ دیا جب وضو سے فارغ ہوئے تو ارشاد فرمایا سلام کا جواب دینے سے یہ مانع ہوا کہ میں بے وضو تھا۔(ابن ماجہ)
نبی کریم ﷺ کا یہ فرمانا کہ مجھےناپسند لگا کہ میں اللہ کا ذکر بغیر طہارت کے کروں، اس سے آپ ﷺ کی مراد فضیلت ہے اس لئے کہ طہارت کے ساتھ ذکر اللہ افضل ہے یہ مطلب نہیں کہ آپ ﷺ اس کو لئے مکروہ سمجھتے ہیں کہ یہ ناجائز ہے۔ایسی صورت میں آپ ﷺسلام کرنے والے کو منع بھی فرماسکتے تھے کہ دورانِ وضو سلام نہ کیا کرو۔
سیدنا عتبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھےقرآن پڑھ رہے تھے کہ رسول اکرم ﷺ داخل ہوئے اور آپ ﷺ نے ہم پر سلام  کہا، اور ہم نے آپ ﷺ کو سلام کا جواب دیا پھر آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی کتاب کو دیکھو اور اس پر قناعت کرو اور غنہ کے ساتھ پڑھو مجھے اس ذات کی قسم ہے کہ جس کے ہاتھ میں میں محمد (ﷺ)کی جان ہے، البتہ وہ (قرآن ) رسی سے بندھی ہوئی اونٹنی سے بھی زیادہ بھاگنے میں سخت ہے۔(مسند احمد)
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اکرم ﷺ کے پاس سے گزرا آپ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ ﷺ کو سلام کیا تو آپ ﷺ نے اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب لوٹایا، میں یہی جانتاہوں کہ آپﷺ نے انگلیوں کے ساتھ اشارہ کیا۔(جامع ترمذی)
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا ہم چند عورتوں کے پاس سے گزر ہوا تو آپ ﷺ نے ہمیں سلام کیا۔(ابوداوٗد)
البتہ یہ بات  یاد رہے کہ اجنبی(غیر محرم) عورتوں سے مصافحہ کرنا ،ہاتھ ملانا ،ناجائز ہے۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: میں  اجنبی عورتوں (غیر محرم)سے مصافحہ نہیں کرتا ،(نسائی)
بعض لوگ فتنے کا بہانہ بناکر مردوعورت کے سلام کرنے کو ناجائز قرار دیئے ہیں جو کہ خود ساختہ سورت ہے جب سلام مسنون ہو اور شریعت کی حدود کی پامالی بھی نہ ہو رہی ہو تو اس عمل سے (ان شاء اللہ) فتنے پیدا نہیں ہونگے، صرف قضائے حاجت اور اس جیسے دیگر امور کے وقت سلام کا جواب دینا ، یا اللہ کا ذکر سے اجتناب کرنا چاہئے۔
دین اسلام ، اہلِ اسلام کے لئے مکمل ضابطہ ہے، قدم قدم پر پیش آنے والے معمولی مسائل کا حل دینِ اسلام میں موجود ہے۔ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس سے گزرا آپ ﷺ حاجت میں مصروف تھے،اس شخص نے آپ ﷺ کو سلام کیا آپ ﷺ نے فارغ ہونے کے بعد اسے فرمایا جب تم مجھے اس حالت میں دیکھو تو سلام نہ کیا کرو۔ اگر تم نے سلام کیا تو میں سلام کا جواب نہیں دونگا۔ (ابن ماجہ)
ہمارے پیارے دین نے نفرت و کدورت کے ناپاک پودوں کو جڑ سے اکھاڑ دیااور محبت الفت ایسا چمن سجایا ہے کہ اس کی خوشبو سے سارا زمانہ معطر ہوگیا ہے جن اصولوں و ضوابط و قوانین پر دینِ اسلام نے بنیاد رکھی ہے اگر آج بھی ان ضابطوں کی پاسداری کی جائے تو ہم اپنا کھویاہوا وقار پھر سے حاصل کرسکتے ہیں۔
واجب القدر حضرات ! اللہ کی خاص رحمت اور اسی کے فضل و کرم سے ہمارا یہ مشن ہے یہ ہم دینِ اسلام کی تظہیر(غلبہ) کے لئے اپنے قلیم کو حرکے دیتے رہیں ، ہمیں صرف کتاب لکھنے کا شوق نہیں بلکہ اخلاص و محبت کے ساتھ اللہ کے بندوں  کو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا صحیح پیغام پہنچائیں تاکہ پڑھنے والے کو قرآن و حدیث سے ثابت شدہ صحیح مسائل سے آگاہ کر سکیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم تمام مسلمانوں کو دینِ حق کی فہم عطا فرمائے، اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے، اور دوسروں تک پہنچانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

خوشبو

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
میں نے جن اور انسان کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے، (الذاریات:52)
اللہ تعالیٰ جو پوری کائنات کا خالق و مالک ،حاکم و قادر ہے۔ وہ انسان کو تخلیق کرنے کا مقصد قرآن حکیم(جس پر ہمارا ایمان اور یقین ہے) میں فرما رہا ہے میں نے ہم کو کس لئے پیدا کیا ہے۔ عام مسلمان(مردو عورت) جس نے آج تک عبادت کا معنیٰ کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج کو سمجھا ہوا ہے۔ جبکہ یہ پانچ ارکانِ عبادت کا صرف ساری جز ہیں۔ جن کی ادائیگی کے بعد ہم مطمئن ہوگئے کہ ہم نے عبادت کا حق ادا کردیا اور اللہ کے فرمانبردار بندے بن گئے جبکہ ہماری زندگی کا ہر لمحہ احکامِ الٰہی کی اطاعت کے مطابق گزرنا چاہئے تا۔ پیدا کرنے والا ہم کو یہ بتارہا ہے کہ میں نے تم کو صرف عبادت کے لئے ہی پیدا کیا ہے۔ اب بات سمجھنے کی یہ ہے ہم اپنی زندگی احکامِ الٰہی کے مطابق گزار رہے ہیں؟ اس مضمون میں عورتوں کے لئے خاص تنبیہ ہے اور مَردوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی عورتوں کو اس جرم سے بچائیں ہر مسلمان جس کے پاس ادنیٰ سی بھی اسلام کے بارے میں معرفت ہو وہ جانتا ہے کہ بہت سے ممالک میں عورتوں  کے اظہارِ حسن و جمال ، مَردوں سے عدمِ حجاب اور نمائش زینت(جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے) نمائش زینت کے بعض ہی مصیبتیں عام ہوئی ہیں، بلاشک و شبہ عورتوں کی بے پردگی عظیم منکرات اور ظاہر معاصی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی عقوبتوں اور مصیبتوں کے اسباب میں سے بہت بڑا سبب ہے کیونکہ فواحش و منکرات کا ظہور جرائم کا ارتکاب قلتِ حیا اور عمومی فساد وغیرہ اظہار حسن و جمال اور عدمِ حجاب ہی  کے برک و بار ہیں۔
مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اپنے بے وقوف لوگوں کو روکو اور عورتوں کو منع کرو کہ وہان امور کے ارتکاب سے بازآجائیں جسے اللہ تعالیٰ نے  حرام قرار دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے وہ اپنے گھروں میں قرار(عزت و وقار) بہکے رہو ، پہلے دورِ جاہلیت کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش نہ کرلی پھیرو، نماز قائم کرو  زکوٰۃ عطا کرو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کرو(الاحزاب:33)
آج ہمارے معاشرے میں زمانۂ جاہلیت کی طرح عورتیں خوب زیب و زینت اور بے پردہ ہوکر خوشبو سے معطر ہوکر گھومتی پھرتی ہیں، جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم آپ نے پڑھ لیا ۔ اب نبی ﷺ کی وعیدیں ان عورتوں کے بارے میں یہ ہیں۔
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ (نظرِ بد) ڈالنے والی   ہر آنکھ زنا کار ہے اور عورت جو خوشبو لگا کر (مَردوں کی مجلس کے قریب سے گزرے) ایسی ویسی ہے یعنی زنا کار ہے۔(ابو داوٗد، جامع ترمذی)
سیدنا میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کوئی عورت خوشبو لگا کر گھر سے نکلتی ہے۔ مرد اسے دیکھتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت اس سے مسلسل ناراض رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ اپنے گھر واپس آجائے۔ (طبرانی)
بنیادی طور پر یہی بات ثابت ہوئی ہے کہ عورت کے لئے گھر سے باہر نکلتے وقت ایسی چیزوں کا استعمال کرنا جس میں پاکیزہ اور اچھی خوشبو استعمال ہو، جائز نہیں خواہ وہ عورت مسجد یا کسی نیک مجلس میں کیوں نہ جارہی ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جس عورت نے دھونی لی، وہ ہمارے ساتھ عشاء کی نماز میں شریک نہ ہو۔(ابو عوانہ2/17)
مسجد میں جاتے وقت اور مسجد کے اندر عورتوں  کے لئے دھونی لینا یا کوئی اور خوشبو کا استعمال جائز نہیں، کیونکہ جب یہ عورتیں اپنے گھروں کو واپس جائیں گی تو دوسروں کے لئے فتنے کا سبب بن سکتی ہیں، شرعی حدود میں رہ کر زینت اختیار کرنا کوئی برائی نہیں، متعدد احادیث میں خواتین کیلئے مہکنے والی خوشبو سے اجتناب کا حکم ہے۔ اور رنگین خوشبو استعمال کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا  کہ مَردوں کی خوشبو ایسی ہو جس کی خوشبو ظاہر ہو یعنی دوسروں تک پہنچ رہی ہو اور اس کا رنگ پوشیدہ ہو اور عورتوں کی خوشبو ایسی ہوجس کا رنگ نظر آرہا ہو اور خوشبو پوشیدہ ہو۔(ترمذی، نسائی)
مسلمان خواتین کو چاہئے کہ زیب و زینت کے وہ طریقے اپنائیں جو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوں، اللہ تعالیٰ اس کے رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کی حدود میں اس لئے خواتین کیلئے یہ جاننا ضروری ہے کہ زیب و زینت کے کونسے طریقے شریعت کے خلاف ہیں اور کونسے طریقے شریعت کے مطابق ، تاکہ وہ خلافِ شرع امور سے اجتناب کرسکیں اور شرعی امور میں رہتے ہوئے اپنا فطری عمل(بناؤ سنگار) بھی کرسکیں، ماں باپ پر اولاد کا برا حق ہے کہ ان کو اسلامی تعلیمات اور اسلامی تہذیب و اخلاق سے بھی خوب اچھی طرح آراستہ کریں، انسان کی زندگی بہت ہی مختصر اور ناپائیدار ہے اس فانی زندگی پر بھروسہ کرکے احکاماتِ خداوندی سے رو گردانی کرنا بہت ہی گھاٹے کا سوادا ہے۔ مسلمان مرد عورت کو چاہئے کہ زندگی کے ہر ہر لمحہ کو قسمتی سمجھتے ہوئے ان کی قدر کرے اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی پابندی کرے خصوصاً خواتین احکامِ شریعت کی ظاہری و باطنی احکام کی خوب پابندی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر مسلمان مرد و عورت کو احکام شریعت کی  اور سنت نبی ﷺ کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

شکر گزاری

اللہ تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ:
اور جب تمہارے پروردگار نے تمہیں آگاہ کردیاکہ اگرتم شکر گزاری کروگے تو بے شک میں تمہیں زیادہ دونگا اور اگر تم ناشکری کروگے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے۔(ابراہیم:7)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ کفرانِ نعمت(ناشکری) اللہ کو سخت ناپسند ہے جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید دی ہے اور نعمت پر شکر کرنے پر مزید انعامات سے نوازنے کی خوشخبری دی ہے۔
‘‘ شکر’’ سے مراد کسی انعام یا نعمت پر احسان کرنے والی ذات کا شکریہ ادا کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے زیادہ شکر کی مستحق ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا، ہمیں مسلمان بنایا اور پھر زندگی کے تمام معاملات میں ہر لمحہ انسان پر عنایت، رحم و کرم، عفو و درگزر کا سلسلہ جاری رکھا خالق کے مخلوق پر اپنے احسانات ہیں جو شمار نہیں لئے جاسکتے، لہٰذا ہمیں مالک کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کرنا چاہئے۔
حدیث نبوی ﷺ ہے:
جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر ادا نہیں کرسکتا۔(ترمذی4/454)
موجودہ دور میں اسلامی قدروں کو پامال کیا جارہا ہے مغربی، تہذیب کو اپنا کرہمیں خوشی اور دلی تسکین ملتی ہے۔ اسلامی تعلیمات سے دوری اور جدید تعلیم کا حصول ہی سب کچھ سمجھ لیا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم اور نبی کریم ﷺ کے طریقے کو چھوڑ کر اغیار میں مروج اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔ کسی کا شکریہ ادا کرنے کے لئے جزاک اللہ کے بدلے تھینک یو(Thank you) جیسے کم تر الفاظ استعمال کرتے ہیں جن کا شریعت میں کوئی مقام نہیں۔
دین اسلام ایک مکمل دین ہے اور وہ ہمیں شکر ادا کرنے کے طریقے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ صحابی رسول ﷺ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
جس شکص کے ساتھ بھلائی کی جائے تو وہ بھلائی کرنے والے سے کہے،
جزا ک اللہ خیرا
تو وہ تعریف کرنے والوں میں ہوگیا۔(ترمذی)
دوسری حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا :
جس شخص کے ساتھ بھلائی کی جائے  تو وہ بھلائی کرنے والوں سے کہے(جزا ک اللہ خیرا) تو وہ حمد و ثنا کرنے والوں میں ہوگیا۔
سیدناجابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
میں نے نکاح کیا تو رسول اکرم ﷺ نے پوچھا کہ کنواری سے نکاح کیا ہے یا بیوہ سے؟ میں نےعرض کیا کہ بیوہ سے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کنواری سے کیوں نہیں کیا؟(اس وقت جابر رضی اللہ عنہ کی عمر 16سال تھی)؎ میں نےعرض کیا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! میرے والد شہید ہوگئے ہیں، ان کی اولاد یعنی میرے بہن بھائیوں میں سے بہنیں زیادہ ہیں، میں نے چاہا کہ ایک ایسی عورت سے بیاہ کرو جو ان کی اصلاح و نگرانی بھی کرسکے اور ان کی کنگھی، چوٹی کرے۔ آپ ﷺ نے فرمایا  (بارک اللہ) اللہ تجھے برکت دے۔(مسلم)
سیدنا عبد اللہ بن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
رسول اکرم ﷺ نے مجھ سے غزوہ حنین کے موقع پر کچھ درہم قرض لئے جب آپ ﷺ واپس مدینہ تشریف لائے تو مجھے وہ قرض واپس کردیا اور میرے حق میں یوں دعا فرمائی:
بارک اللہ فی اھلک  و مالک انما جزائ السلف الوفائ والعمد    (نسائی)
اللہ تعالیٰ تمہارے اہل و عیال میں ، تمہارے ما ل میں برکت کرے اور قرض کا بدلہ تو وقت پر لوٹادینا اور شکریہ ادا کرنا ہے۔
سیدنا عبد اللہ  بن  عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرم ﷺ کے لئے وضو کا انتظام کیا تو آپ ﷺ نے شکریہ کے طور پر مجھے یہ دعا دی
اللھم فقہہ فی الدین و علمہ التاوتل
(اے اللہ ! انہیں دین میں فقاہت عطا فرما اور قرآن کریم کی تفسیر سکھا)
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
‘‘ حقیقتِ شکریہ ہے کہ انسان انتہائی عجز و انکساری سے اللہ کریم کے انعامات کا دل سے اعتراف کرے اور دل کی گہرائیوں سے منعم، انعام دینے والےداتا حقیقی سے محبت رکھے کیونکہ جو شخص اپنی کم عقلی اور جہالت کی وجہ سے انعامات کی حقیقت کو نہیں سمجھتا وہ انعامات کا شکر ادا کیسے کرسکتا ہے؟
اور جو شخص انعامات کو تو پہچان لیتا ہے لیکن منعم (انعام دینے والا) کو نہیں پہچانتا تو وہ بھی شرک ادا نہیں کرسکتا۔ اور جو شخص مندرجہ بالا تمام امور کو بطریقِ احسن انجام دیتا ہے، وہی حقیقت میں شکر کا حق ادا کرتا ہے۔ شکر کے لئے دل میں علم ہونا، علم کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اس کا لازمین نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان منعم(انعام دینے والے) کی طرف میلان رکھتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور اس کے سامنے عجز و انکساری سے پیش آتا ہے۔
شکریہ ادا کرنے والے کیلئے بہتر ہے کہ وہ ان الفاظ کی پابندی کرے جو شریعت  اسلامی  میں منقول ہیں، اپنی طرف سے اضافہ کرنا یا کسی دوسری قوم یا غیر مسلموں سے لی گئی اصطلاحات پر جاہلیت کی عکاسی کرتی ہوئی دعائیں سب غلط ہیں۔ مسلمانوں کو تو ہر موقع پر اپنےعقیدے اور اسلامی اصولوں کا پابند رہنا چاہئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اسلامی اصولوں کو زندگی کے ہر شعبے میں سنت نبویہ ﷺ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔

حیاء

جب کوئی مرد و عورت صدقِ دل سے اقرار کرلے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ﷺ) اللہ تعالیٰ کے بندےا ور رسو ل ہیں۔ یہ انسان اسلام میں داخل ہوگا اور مسلمان کہلائے گا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: حقیقت میں ت و امن انہی کیلئے ہے اور راہِ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا۔(الانعام:82)
اسی آیت میں اللہ تعالیٰ راہِ راست پر چلنے والے لوگوں کی صفات بیان کی ہیں جو ایمان لائے۔ ایمان کی تعریف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں،اس کے رسولوں، آخرت کے دن(قیامت) اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لائے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ شاخیں ہیں اور حیا (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔(بخاری)
نبی کریم ﷺ ایک انصاری کے پاس سے گزرے، وہ اپنے بھائی سے حیا (شرم) کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے، آپ ﷺ نے فرمایا حیا بھی ایمان کا حصہ ہے۔(بخاری:24)
نبی  اکرم ﷺ نے فرمایا : حیا اور ایمان کے ساتھ ساتھ ہیں، جب ایک چیز ہوگی تو سمجھو کہ دوسری بھی ہوگی۔(ترمذی)
ایمان کی حقیقت میں ایسا مسئلہ ہے جو اپنے اندر متعدد اخلاقی پہلو بھی رکھتا ہے حیا کی حقیقت یہ ہے کہ انسان برائی کی نسبت اپنے نام کے ساتھ ہونے سے ڈرے، حرام امور میں حیا کرنا واجب ہے، اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرو، اسی اندازہ کے مطابق کہ وہ تمہارے اوپر کتنی زبردست قدرت رکھتا ہے اور اس سے شرم رکھو یہ اندازہ کرتے ہوئے کہ وہ تم سے کس قدر قریب ہے۔ وہ جب چاہے جس طرح چاہے تم کو پکڑے، وہ تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔
یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اس وقت دنیائے ذرائع ابلاغ پر یہودی و صلیبی طاقتیں مسلط ہیں، وہ مسلمان ملکوں میں ایسے ایسے حیا سوز اور اسلام دشمن اور عقیدہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والے پروگرام نشر کر رہے ہیں۔ جو مسلمان خاندان کو تہذیبی بنیادوں کے ساتھ ساتھ ان کو اسلام سے  بھی متنفر کر رہے ہیں۔ بے راہ روی، جرائم، شرم و حیا کاخاتمہ، قتل و غارت گری  ایسے سنگلین گناہوں کا سبب  یہ ذرائع (ٹی۔وی، ڈش،  وی سی آر، کیبل، انٹرنیٹ، جرائد وغیرہ) بن رہے ہیں ۔ اس میں گناہوں پر ابھارنے والے اور حیا کا خاتمہ کرنے والے آلات سے اپنے آپ کو اور اپنی اولاد کو دور رکھیں۔
اگر یہ برائی اس میں سرایت کر جائے وہ شخص علم و عمل میں ہر اعتبار سے راہ ہدایت سے ہٹتا چلا جائے گا۔ اگر اس کے سامنے ایک طرف تلاوتِ قرآن کریم پیش کی جائے اور دوسری طرف برائی کے پروگرام پیش کیا جائے تو وہ بد بخت تلاوت کے بجائے برائی کو ترجیح دیگا۔ جس مسلمان کے دل میں حیا کی کچھ بھی رمق موجود ہے وہ اس حقیقت سے ضرور اتفاق کرے گا۔ لیکن جس کا دل ہی مردہ ہوچکا ہو اور اس کا فتنہ بڑھ چکا ہو تو اس نے گویا خود ہی اپنے اوپر نصیحت کا دروازہ بند کرلیا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : حیا ایمان سے ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ فحش گوئی جفاء سے ہے اور جفاء جہنم میں لے جاتی ہے۔(ترمذی)
سیدنا بو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا گزشتہ انبیا علیہم السلام کی تعلیمات میں سے جو بات لوگوں کے پاس محفوظ رہی ہیں وہ یہی ہے ہ جب حیا شرم نہ رہے تو جو جی چاہے کرے۔(ابوداوٗد:4797)
جب شرم و حیا کا مادہ ختم ہوجاتا ہے تو پھر انسان شیطان کی زیرِ کمان آجاتا ہے۔ جو دل میں آتا ہے کرتا، پھرتا ہے اور گناہوں کی کثرت ہوتی ہے۔
ایمان لغت میں یقین کرنے کو کہتے ہیں اور شرع میں دل سے یقین اور زبان سے اقرار کرنے کو اور شرع کے دلائل سے معلوم ہوتا ہے ایمان اعمال کو کہتے ہیں جیسے ایک حدیث میں ہے کہ سب سے افضل خصلت ایمان کی کلمہ توحید پر یقین کرنا ہے اور سب سے ادنیٰ راہ میں سے تکلیف دہ چیز ہٹادینا ہے ۔ حیا انسان کا ایک فطری نیک جذبہ ہے جو اسے بے حیائی سے روک دیتا ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ گھر کے گوشے میں پردہ نشین کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔ جب آپ کسی ناپسندیدہ چیز کو دیکھتے تو ہم آپ کے چہرے کے آثار سے پہچان لیتے۔(متفق علیہ)
اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کی کمالِ حیا کا ذکر ہے۔ تا ہم اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حیاء عورت کا خاص وصف ہے۔ بالخصوص کنواری عورت تو شرم و حیا کی پیکر ہوتی ہے۔ مغربی تہذیب کی جو لعنتیں اسلامی ممالک میں در آمد کی گئی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی لعنت عورت کو شرم و حیاءکے زیور سے محروم کرنا ہے کیونکہ اسلامی تہذیب کے لئے یہی آخری حصار ہے۔ اس کو بھی دشمن اسلام ڈھاتے ہوئے  کامیاب نظر آرہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو سمجھ عطا فرمائے تاکہ وہ اس فتنے سے بچ سکیں۔
آج اس  پر فتن دور میں ہر مسلمان پریشان ہے۔ بے راہ روی کا شکار ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا اپنی عبادت کے لئے اور ہم نے لہو و لعب کی زندگی اپنائی ہے دینِ اسلام سے کوسوں دور ہوکر غیروں کی اندھی تقلید اپنا کر ایمان سے گئے۔
حیا کے  معنیٰ شرم کے ہیں، اسلام کی مخصوص اصطلاح میں حیا سے مراد وہ ‘‘ شرم’’ہے جو کسی گناہ کی جانب مائل ہونے والا انسان خود ایسی فطرت کے سامنے اور اپنے اللہ تعالیٰ کے سامنے محسوس کرتا ہے یہی حیا وہ وقت ہے جو انسان کو فحشات  و منکرات کی طرف قدم اٹھانے سے روکتی ہے۔ اسلام کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ حیاکے اسی چھپے ہوئے مادے کو فطرت انسانی کی گہرائیوں سے نکال کر علم و ہنر اور شعور کی غذا سے اس کی پرورش کرے۔
اسلامی اخلاقیات میں حیا کا دائرہ اس قدر وسیع ہے کہ زندگی کا کوئی شعبہ اس سے خالی نہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: لوگو! اللہ تعالیٰ سے حیا کرو اور حیا کا حق ادا کرو ،کسی نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے شرماتے تو ہیں ۔ فرمایا:یہ حیا نہیں ہے بلکہ دماغی خیالات پر پورا پورا قابو رکھا جائے، پیٹ کو حرام سےبچایا جائے موت کو یاد رکھے قبر کا ارادہ رکھتا ہے وہ زنیا کی زینت کو ترک کردیتا ہے۔ جس نے یہ کام کیا اللہ تعالیٰ کی حیا کا حق ادا کردیا ۔(ترمذی)
مسلمان پر واجب ہے کہ اس کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کے ذریعے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا یاجن سے منع کیا یا جنہیں مباح رکھا ہے ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہے۔ جس کو بعض لوگ جان لیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں پر یہ حکمت ظاہر نہیں ہوتی، اس لئے ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ فوراً اللہ کا حکم مانے اور  رسول اکرم ﷺ کا طریقہ اپنائیں، اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں تاخیر نہ کرو اور نہ ہی یہ عذر پیش کرے کہ جب تک اس پر کسی شرعی حکم کی حکمت واضح نہ ہوگی تب تک وہ اس کام کو نہیں کریگا کیونکہ ایسا رویہ ایمان کے منافی ہے ایمان کا مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر بات اور نبی ﷺ کی ہر سنت کو بٖغیر کسی حیل و حجت کے فوراً تسلیم کرے اور دنیا و آخرت میں کامیاب ہوجائیں، اللہ تعالیٰ عمل کرنے اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق دے۔ آمین۔

داعی کی صفات:

قرآن کریم میں ارشادِ ربانی ہے کہ اللہ کےحکم  کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے والا ، سراج منیر ہے۔(الاحزاب:46) یعنی آخری پیغمبر محمد ﷺ کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے داعی کہا ان کے بعد قیامت تک کوئی رسول نہیں آئے گا اور دعوت الی اللہ کا کام اب امت محمدیہ کے لوگ کریں گے اور یہ کام کرنے والے اللہ کے رسول ﷺ کے وارث کہلائے جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے  داعی کو کس قدر اونچا مقام دیا ہے کہ وہ اللہ کے آخری رسول ﷺ کے ورثہ کا حق ادا کر رہا ہے۔ داعی اسلام معاشروں میں ایک بنیادی اور ناگزیر اہمیت کا حامل رہا ہے۔ اسلامی تاریخ کے بہت بڑے بڑے انقلاب داعیوں کے مرہونِ منت ہیں۔
دنیا میں احکامِ الٰہی اور سنت نبوی ﷺ کو بلند کرنے کیلئے ، اسلام کے غلبے کیلئے، اور دنیا و آخرت میں کامیابی کیلئے اسلامی اور غیر اسلامی معاشرے میں رہتے ہوئے دعوت کا کام کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اسے دین کا جس قدر علم ہے اس کو دوسروں تک احسن طریقے میں پہنچانا اور سکھانا ضروری ہے اعلائے کلمۃ اللہ کیلئے دعوتِ دین کے تقاضے کیا ہیں؟ دعوت وہ کونسی خصوصیات اور خوبیاں ہیں کہ جو اس کی دعوت کو ثمر بار بناکر اس کی شخصیت کو قابل احترام اور اس کی دعوت کی کامیابی بناتی ہیں۔ داعی کو معاشرے میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے کیا کردار ادا کرنا چاہئے دعوت کو مفید اور کامیاب بنانے کیلئے کونسے ذرائع اختیار کرنے چاہئے، داعی کے فضائل دعوت کے احکام کیا ہیں، ایک داعی کیا لائحہ عمل اختیار کرے کہ معاشرے میں انقلاب برپا کر سکے۔ دعوت دین میں حائل مشکلات کا سامنا کیسے کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے آغاز نبوت میں داعی اعظم محمد رسول اللہ ﷺ کو فرمایا : ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ٭قُمْ فَأَنْذِرْ ٭وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ ٭وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ٭وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ ٭ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ ٭وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ (المدثر:۱۔۷)ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دعوت دینے والے کو مندرجہ ذیل باتوں کا حکم دیا گیا ہے ۔
۱۔ ﴿یَا أَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ٭قُمْ فَأَنْذِرْ اس میں یہ دعوت دی گئی ہے کہ غفلتِ نیند کی چادر پوشی اور تمام قسم کے آرام چھوڑ کر ہمہ وقت دعوت تبلیغ کے لئے کمر بستہ ہوجائیں ، آپ ﷺ یہ حکم ملتے ہی دعوت وتبلیغ کیلئے اس طرح کھڑ ے ہوئے کہ ۲۲ سال تک آرام وسکون نہ کیا اور انسانیت کی ہدایت کیلئے تڑ پ کر رہ گئے ۔
۲۔ ﴿وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ اس میں یہ دعوت دی گئی کہ روئے زمین پر صرف ایک اللہ کی کبریائی بیان ہو اور معبودانِ باطلہ کی شان وشوکت کو مسمار کر دیا جائے ۔
۳۔ ﴿وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ اس میں یہ دعوت دی گئی کہ داعی جسمانی وروحانی اور ظاہری وباطنی پاکیزگی اس قدر اختیار کرے کہ مدت مدید گزارنے پر بھی یہ چلینج کرسکے ۔
﴿فَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِہِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (یونس:۱۶)
اس سے قبل عمر کا ایک طویل حصہ تم میں بسر کر چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ۔یعنی چالیس سال کی عمر میں کسی ایک عیب ، بداخلاقی یا ظلم یا زیادتی کی طرف کر کے دکھلاؤ ۔ ۔ ۔ اگر نہیں تو یقین کر لو کہ میری دعوت حق ہے ۔
داعی کے اوصاف
دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کو مندرجہ ذیل اوصاف اپنانا ضروری ہیں -
۱۔ خالص نیت
دعوت تبلیغ کاکام کرنے والے کیلئے سب سے پہلے نیت کا خالص ہونا ضرور ہے ، اگر دنیا کا مال ومتاع یا شہرت مقصود ہوئی تو آخرت میں ناکامی کے سوا کچھ نہ ہو گا، بلکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ سب سے پہلے ایسے آدمی جہنم کا ایندھن بنے گا ، اگر رضائے الٰہی مقصود ہوتو راستے سے ایک شاخ کاٹ پھینکنا بھی جنت کا سبب بن سکتا ہے ، اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا : ( اِنَّمَا الأَعمَالُ بِالنِّیَّاتِ ، وَإِنَّمَا لِکُلِّ امرِیئٍ مَا نَوَی) ( صحیح بخاری ، کتاب بدء الوحی ، حدیث نمبر:۱)ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے اور ہر انسان کو نیت کے مطابق ہی بدلہ ملے گا۔
۲۔ علم راسخ
دعوت وتبلیغ کے میدان میں اتر نے سے پہلے علم کے ہتھیار سے آراستہ ہونا ضروری ہے ، حتی کہ عمل سے پہلے بھی علم سیکھنا ضروری ہے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاعْلَمْ أَنَّہُ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَلِلْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوَاکُمْ (محمد:۱۹)اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار اور اپنے گنا ہوں سے استغفار سے قبل علم کوحاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جوشخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بغیر علم حاصل کرنا چاہتا ہے وہ اصلاح کی بجائے بگاڑ کا مرتکب زیادہ ہو گا۔ علم کی فضیلت وبرتری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھائے ہوئے کتے کا شکار حلال اور غیر سکھلائے ہوئے کا حرام ہے ۔}فتاوی ابن تیمیہ{
اس لیے دعوت وتبلیغ کا کام کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ کتاب وسنت ، ان کے معاون علوم اور عصری علوم میں راسخ ہو، چند مشہور اختلافی مسائل اور رٹی رٹائی تقاریر تک محدود نہ ہو بلکہ جس چیز کی دعوت دینا چاہتا ہو ، اس کا مکمل علم رکھتا ہو اور حصول علم کو اسباب و وسائل کے حصول پر مقدم کرے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں : لوگوں کو علم کی ضرورت ان کے کھانے پینے سے بھی زیادہ ہے کیونکہ کھانے کی طرف دن میں ایک یا دو مرتبہ ضرورت ہوتی ہے اور علم کی ضرورت تو ہمہ وقت ہے ۔(اصول الدعوۃ:۳۲۷)
۳۔ عمل
دعوت وتبلیغ کاکام کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی دعوت کا اول مخاطب اپنے آپ کو سمجھے اور دوسروں کو کہنے سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہو ، کیونکہ قول وفعل میں تضاد کی وجہ سے دعوت کمزور پڑ جاتی ہے اور مخاطب اثر قبول نہیں کرتا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَکُمْ (البقرۃ:۴۴(
کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھلا دیتے ہو ۔
اور فرمایا ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ(الصف:۲(
جو کام خود نہیں کرتے وہ دوسروں کو کیوں کہتے ہو۔
اپنی اصلاح کے بعد اپنے اہل وعیال اور قریبی رشتہ داروں کی اصلاح کرنا ضروری ہے کیونکہ ان کی بدعملی بھی دعوت وتبلیغ میں رکاوٹ کا سبب بن جاتی ہے ، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ (الشعراء :۲۱۴( آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر انسان اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور گھر کے افراد کی مکمل ہدایت دوسرے کے اختیار میں نہیں ۔ حضرت نوح علیہ السلام کے گھر بھی کنعان پیدا ہو گیا تھا لیکن اتنا فریضہ تو ہر ایک پر عائد ہوتا ہے کہ اپنے ماتحت افراد کی اصلاح کیلئے بھر پور کوشش کرے ۔ اگر انتہائی کوشش کے باوجود بھی وہ راہ ہدایت پر نہ آئے تو پھر یہ بری الذمہ ہو گا۔کنعان نے سفینۂ ہدایت کی بجائے کفر و ضلالت کی موجیں پسند کیں لیکن اس کی ہدایت کیلئے حضرت نوح علیہ السلام نے کس قدر جتن کئے ، یہ ہر صاحب علم پر واضح ہیں ، اب حضرت نوح علیہ السلام اس کی گمرائی سے بری الذمہ ہیں ۔
اگر کوئی اپنے آپ کو دین دار بنائے رکھے اور گھر والوں کو حالات کے دھارے پر بے فکری سے بہتا ہوا چھوڑ دے تو بری الذمہ نہیں ہو سکتا، اس کی مثال اس احمق کی سی ہو گی جو اپنے بیٹے کو خودکشی کرتے دیکھے اور یہ کہہ کر الگ ہوجائے کہ جو ان بیٹا اپنے عمل کا خود ذمہ دار ہے۔
۴۔ اخلاق حسنہ
دعوت وتبلیغ میں مؤثر ترین چیز اخلاق حسنہ ہیں ، داعی کیلئے ضروری ہے کہ میدان دعوت میں اترنے سے پہلے امکانی حد تک اپ۔نے اندر اخلاق حسنہ پیدا کر چکا ہو ، انبیاء کرام علیہم السلام نے سب سے پہلے اخلاق حسنہ کے ذریعے لوگوں کے دعو وں کو مثاثر کیا، یہی وجہ تھی کہ مخالفین شدید مخالفت کے باوجود ان کی بات سننے پر مجبور ہوجاتے تھے اور اسی لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَکمَلُ المُؤمِنِینَ إِیمَاناً اَحسَنُہُم خُلُقاً۔ (سنن ابی داؤد ، کتاب السنۃ، باب الدلیل علی زیادۃ الإیمان ونقصانہ(
مومنوں میں سے کامل ترین ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اعلیٰ ہو۔اچھے اخلاق کے بغیر ایک معمولی دکان کامیابی سے نہیں چلائی جا سکتی تو دعوت وتبلیغ کا عظیم کام اس کے بغیر کیسے چلایا جا سکتا ہے ۔

۵۔ حکمت عملی
دعوت وتبلیغ میں حکمت عملی اپ۔نانا ضرور ی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ (النحل:۱۲۵(اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت ، حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دیجئے ۔ اس آیت کریمہ میں دو بنیادی چیزوں کا حکم دیا گیا ہے ۔
٭ دعوت حکومت ودانائی سے دی جائے ، یعنی اپنا مؤقف انتہائی سنجیدہ ، باوقار اور مدلل ہونا چاہیے اور لب ولہجہ بھی مشفقانہ اور ہمدردانہ ہو جس سے مخاطب واقعی اثر لے کہ ناصح مجھے حقیر سمجھ کر اپنی بلندی جتلانا نہیں چاہتا بلکہ وہ میری اصلاح کیلئے بے پناہ تڑ پ رکھتا ہے ۔
اکثر وبیشتر حالات میں دعوت مثبت انداز میں ہونی چاہیے ، منفی انداز صرف ناگزیز حالات میں مد مقابل کی تردید کیلئے اپ۔نانا چاہیے ، لیکن اس میں بھی سنجیدگی اور متانت کا ہونا ضرور ی ہے ، ہمہ وقت مخالفین کی تردید کی تاک میں رہنے سے دعوت میں پھیلاؤ نہیں ہو سکتا ، جس طرح غذا ہمیشہ کھائی جاتی ہے لیکن صرف بیماری کی صورت میں دفاع کیلئے استعمال کی جاتی ہے۔حکمت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اپنے مؤقف کو ہی تبدیل کر دیا جائے یا اس انداز میں مداہنت اختیار کر لی جائے کہ اصل مقصد ہی فراموش ہوجائے بلکہ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ سخت سے سخت اورتلخ سے تلخ مسئلہ بیان کرنے میں بھی انتہائی نرم الفاظ کا انتخاب کیا جائے ، جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی وہارون علیہما السلام کو حکم دیا کہ فرعون کو دعوت دو: ﴿فَقُولاَ قَولاً لَیِّناً (طٰہٰ:۴۴( اسے نرم انداز سے بات کہنا۔ اور سورۃ النازعات میں قول لین کی وضاحت فرمائی : ﴿فَقُل ہَل لَّکَ إِلَی اَن تَزَکَّی ٭ وَأَہدِیَکَ إِلیٰ رَبِّکَ فَتَخشیٰ (۱۸۔۱۹( اے نبی کہو! کیا تو اپنی درستگی واصلاح چاہتا ہے اور میں تجھے تیرے رب کی راہ دکھلاتا ہوں تاکہ تو ڈر جائے ۔
۶۔ دعوت مخاطب کے لحاظ سے
دعوت مخاطب کے حالات سے اور موقع محل کے موافق دینا ضروری ہے ، کامیاب طبیب وہی ہوتا ہے کہ جو مریض اور اس کے مرض کے مطابق دوا دے ، ہر مریض کو ہر موسم میں ایک ہی دوا دینا مفید نہیں ہوتا ، اگر دوا مریض کے مزاج کے مطابق نہ دی جائے تو وہ دوا ضائع ہوجاتی ہے ، اس طرح دعوت مخاطب بھی ضائع ہوجائے گی اور مخاطب بھی آئندہ آپ کی بات سننے کو تیار نہ ہو گا ، جس طرح رسول اللہ ﷺ نے سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے وقت نصیحت فرمائی انک ستأتی قوما أہل کتاب لیعرف حالہم ویستعد لہم جو اہل مکہ کی طرح جاہل نہیں ہیں ان کے حالات معلوم کرنے چاہیں اور ان کیلئے تیاری کرنی چاہیے ۔مبلغ کو یہ بات بھی مد نظر رکھنی چاہیے کہ دعوت تدریجاً پیش کرے ، یک بارگی تمام دعوت پیش نہ کرے بلکہ اہم وبنیادی مسائل کی طرف توجہ دے ، مثلا اگر کوئی دین سے بہت دور ہوتو اسے دین کے قریب کرنے کی دعوت دے ، اگر کوئی دین سے قریب ہے لیکن عملی کوتائی میں ملوث ہے تو اس کو عملی طور پر میدان میں اترنے کی دعوت دے ، اگر عملی طور پر کاربند ہے لیکن آگے دعوت میں سستی کر رہا ہوتو اس کو دین حنیف کی طرف دعوت دینے کی طرف مائل کرے ۔
اس طرح اگر کوئی آدمی بہت سی برائیوں میں گرفتار ہے مثلاً : سودخوری ، رشوت ، جھوٹ ، بدزبانی وغیرہ اور وہ بیک وقت ان کو چھوڑ بھی نہیں سکتا تو آپ یک بارگی تمام کو چھوڑ نے کا مطالبہ نہ کریں بلکہ ایک خطر ناک جرم کو چھڑ وانے کی کوشش کریں ، پھر آہستہ آہستہ ایک ایک جرم سے متنفر کر کے چھوڑ نے کا مطالبہ کریں اور یہ مت سوچیں کہ ایک آدمی بیسوں گنا ہوں میں سے ایک چھوڑ بھی دے تو کیا فائدہ؟ کیونکہ ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں اطاعت الٰہی سے نور کی ہلکی شعاع بھی بے فائدہ نہیں ہوتی ، اگر آپ ظلمت کدے میں سرچ لائٹ روشن نہیں کرسکتے تو کم از کم دیا سلائی معمولی روشنی تو کریں ۔ ممکن ہے اس دیا سلائی کی روشنی میں آپ کو سوئچ مل جائے جس سے سرچ لائٹ روشن ہوتی ہے ۔
انبیاء علیم السلام نے تن تنہا دعوت کاکام شروع کیا اور چاروں طرف اندھیروں اور گمراہیوں کے طوفان تھے ، وہ ایسے حالات میں ہدایت کے چراغ جلاتے رہے ، حتی کہ تمام اندھیرے چھٹ گئے ۔
۷۔ صبر واستقامت
کوئی کام صبر واستقامت کے بغیر پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ خصوصاً دین کاکام اس کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اس لئے داعی کو چاہیے کہ اپنی دعوت پر اس پر ہونے والے اعتراضات پر اور دعوت کے دوران پیش آمدہ مصائب پر صبر کرنے والا ہو، صبر کا مطلب یہ ہے کہ دعوت کے کام پر ہمیشگی اختیار کرے ، اسے منقطع نہ ہونے دے اور نہ ہی اپنے دعوتی مشن سے اکتاہٹ محسوس کرے ، بلکہ مخالفین کی جس قدر مخالفت زیادہ ہو ، اس قدر زیادہ محنت وجذبہ سے کام کرے ، جس طرح گیند کو جتنا زور سے زمین پر ماریں اتنا زیادہ اچھلتی ہے ، اسی طرح ہی باطل مغلوب اور حق غالب ہو سکتا ہے ، اگر داعی لوگوں کو طعن وتشیع سن کر ہمت ہار کر بیٹھ جائے تو گویا اس نے باطل کو غالب کرنے اور حق کو مغلوب کرنے میں تعاون کیا جو اللہ تعالیٰ کے ہاں سخت گرفت کا سبب ہو گا۔
کائنات میں سب سے زیادہ پاک اور قدسی افراد جن کے اخلاق وکردار کا کوئی ثانی نہیں ، جب ان کو دعوت وتبلیغ کی وجہ سے طعن وتشیع کا نشانہ بنایا گیا اور طر ح طرح کے مصائب سے دو چارہونا پڑ ا تو دوسرے افراد اس طوفان سے کیسے بچ سکتے ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User