Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, January 25, 2011

واقعہ معراج:

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

واقعہ معراج:
 
جو صحیح احادیث میں وارد ہے:

سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴿017:001﴾
‏‏ پاک ہے  وہ اللہ تعالٰی جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصی تک لے گیا جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں یقیناً اللہ تعالٰی خوب سننے دیکھنے والا ہے۔‏
اس سورت کو سورۃ الاسراء بھی کہتے ہیں۔مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ﴿بیت المقدس تک کے سفر کو اسراء﴿رات کو لے جانا اور مسجدِاقصیٰ سے آسمانوں کی سیر اور واپسی کو معراج کہا جاتا ہے۔عرف عام میں پورے سفر کو    معراج    کہا جاتا ہے۔ یہ سفر ایک معجزہ ہے کہ اتنا لمبا سفر رات کے ایک قلیل حصہ میں ہوگیا۔ واقعہ معراج کے بارے میں بہت سی احادیث ہیں۔ یہ واقعہ رسول اکرم صلی اللہ علی وسلم کی مکی زندگی کے آخری دور میں رونما ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علی وسلم کو جسم اور روح سمیت معراج کا سفر کرایا گیا کیونکہ آیت مبارکہ میں عبد کا لفظ ہے جو جسم اور روح دونوں کے مجموعہ پر بولاجاتا ہے۔ اس لفظ کا اطلاق صرف جسم یا صرف روح پر نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علی وسلم نے جب یہ واقعہ سنایا تو کفار نے مذاق اڑانا شروع کردیا کہ مکہ سے بیت المقدس کا یکطرفہ سفر40 دن کا ہے۔ یہ طویل سفر راتوں رات کیسے ممکن ہے؟ مکہ کے جو لوگ بیت المقدس کا سفر کرتے رہتے تھے انہوں نے وہاں کے متعلق آپ صلی اللہ علی وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کردئیے، آپ صلی اللہ علی وسلم اس وقت حطیم میں کھڑے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے درمیان کے سارے پردے ہٹادئیے اورآپ صلی اللہ علی وسلم مسجد اقصیٰ کو اپنے سامنے دیکھ کرکفار کے سوالوں کے جواب دیتے گئے۔ اس پر ان کی زبانیں بند ہوگئیں مگر پھر بھی وہ ایمان نہیں لائے۔نبی کریم صلی اللہ علی وسلم نے واقعہ معراج بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔  میں حطیم میں لیٹا ہوا تھا، اتنے میں ایک شخص ﴿جبرئیل علیہ السلام آیااور اس نے میرا سینہ ناف تک چیرا ، میرا دل نکالا اور زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر سونے کے ایک طشت میں جو ایمان سے بھرا ہوا تھا ، اس میں ڈال دیا۔ پھر واپس سینہ میں رکھ کر اسے جوڑدیا۔ اسکے بعد ایک جانور براق﴿بہت ہی تیز چلنے والالایا گیا۔ وہ قدم وہاں ڈالتا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی۔ مجھے اس پر سوار کیا گیا اورجبرئیل علیہ السلام مجھے لے کر چل دیئے یہاں تک کہ ہم بیت المقدس﴿مسجد اقصیٰ پہنچ گئے۔ میں نے بیت المقدس میں داخل ہوکر دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکل کر ہم دونوں چل دئیے یہاں تک کہ ہم نزدیک والے ﴿پہلے آسمان پر پہنچے۔ جبرئیل علیہ السلام نے کہا دروازہ کھولو ﴿اندر سے پوچھا گیا :۔   کون ہے؟    جبرئیل علیہ السلام نے کہا: ۔   میں جبرئیل ہوں   ۔ پوچھاگیا :۔  تمہارے ساتھ ا ور کون ہیں ؟    انہوں نے کہا :۔  محمد صلی اللہ علی وسلم پوچھاگیا: ۔  کیا انہیں بلایا گیا ہے ؟   انہوں نے جواب دیا:۔  جی ہاں  ۔ اندر والے فرشتہ نے کہا:۔    مرحباً ﴿خوش آمدید اور دروازہ کھو لا گیا۔ میں اند ر گیا اور یہ سوال وجواب کا سلسلہ ہر آسمان کے دروازہ پر ہوا، پہلے آسمان پرآدم، دوسرے پر یحییٰ اور عیسیٰ، تیسرے پر یوسف ، چوتھے پر ادریس ، پانچویں پر ہارون، چھٹے پر موسیٰ اور ساتویں آسمان پر ابراہیم علیہم الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات ہوئی۔ ہر پیغمبر سے ملاقات اور سلام و آداب کے بعد مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا۔ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا :۔  یہ سدرۃ المنتہیٰ ہے،اس کی جڑ سے چار نہریں پھوٹتی ہیں۔ دو تو بند ﴿ڈھانپی ہوئی ہیں اور دو کھلی ہوئی ہیں۔   میں نے پوچھا:۔   جبرئیل علیہ السلام یہ نہریں کیسی ہیں؟   انہوں نے جواب دیا :۔   بند نہریں تو جنت میں بہہ رہی ہیں اور کھلی نہریں ﴿دنیا میں نیل اور فرات ہیں۔   پھر مجھے بیت المعمور بھی دکھایاگیا۔ اس کے بعد میری امت کیلئے مجھے50 نمازوں کی فرضیت کا تحفہ ملا۔چنانچہ جب میں واپس آرہا تھا تو موسی علیہ السلام کے سامنے سے گزرا۔ انہوں نے پوچھا:۔   آپ صلی اللہ علی وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا تحفہ ملا؟   میں نے کہا:   ہر دن رات میں 50 نمازیں فرض ہوئی ہیں۔   انہوں نے کہا :   آپ صلی اللہ علی وسلم کی امت 50 نمازیں ہر دن رات میں نہیں پڑھ سکے گی اور مجھے بہت تجربہ ہے، میں بنی اسرائیل پر بہت کوشش کر چکا ہوں ۔آپ صلی اللہ علی وسلم اپنے پروردگار کے پاس واپس جائیے اور اپنی امت کیلئے تخفیف کی درخواست کیجئے   یہ سن کر میں واپس اللہ تعالیٰ کے پاس گیا تو اﷲ تعالیٰ نے 50نمازوںمیں سے 10 معاف کر دیں۔میں لوٹ کر آیا تو پھر موسیٰ علیہ السلام ملے انہوں نے پھر وہی کہا جو پہلے کہا تھا۔ میںپھر واپس گیا، یہ سلسلہ چلتا رہاں یہاں تک کہ 30، پھر20، پھر10اور آخر میں 5 نمازیں فرض کردی گئیں۔میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا توانہوں نے دوبارہ جانے کو کہا۔ میں نے کہا میں اپنے پروردگار سے عرض کرتے کرتے شرمندہ ہوگیا ہوں، اب میں اس پر راضی ہوں  ۔ جب میں تھوڑا آگے بڑھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آوازآئی:۔  میں نے اپنا ﴿50 نمازوں کاحکم پورا کردیا﴿5نمازیں فرض کرکے اپنے بندوں پر تخفیف کر دی ا ور میں ہر نیکی ﴿نماز کا دس گنا بدلہ دونگا۔﴿بخاری، مسلم۔ اس حدیث کے علاوہ دیگر احادیث میں بھی واقعہ معراج کی تفصیل موجود ہے۔
یہودیوں کو تنبیہ :
وَآتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ أَلَّا تَتَّخِذُوا مِنْ دُونِي وَكِيلًا﴿017:002﴾ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَبْدًا شَكُورًا﴿017:003﴾
ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لئے ہدایت بنا دیا کہ تم میرے سوا کسی کو اپنا کارساز نہ بنانا‏‏‏ اے ان لوگوں کی اولاد! جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ سوار کر دیا تھا، وہ ہمارا بڑا ہی شکر گزار بندہ تھا
جن دنوں واقعہ معراج پیش آیا، اس وقت بیت المقدس بنی اسرائیل کے قبضہ میں تھا۔ اسلام کا کافی چرچا ہوچکا تھا۔ مدینہ کے بعض لوگ بھی ایمان لاچکے تھے، یہود اسلام کی دعوت سے پوری طرح آگاہ تھے۔ اس لئے اس سفر میں بیت المقدس میں آپ صلی اللہ علی وسلم کو لے جانے اور وہاں آپ کی امامت سے صاف اشارہ ملتا تھا کہ عنقریب بیت المقدس پر مسلمانوں کا قبضہ ہونے والا ہے اور اس کے ذریعہ یہودیوں کو بھی تنبیہ کی گئی کہ یہ دین بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے ،جس کے ذریعہ موسیٰ علیہ السلام کو تورات دی گئی تھی، جس طرح تورات یہودیوں کے لئے ہدایت کا سر چشمہ تھی اب ان کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علی وسلم پر ایمان لے آئیں اور سرکشی چھوڑ دیں۔آیت3 میں مزید کہا گیا کہ طوفانِ نوح علیہ السلام کے بعد نسل انسانی نوح علیہ السلام کے ان بیٹوں سے ہے جو کشتی میں نوح علیہ السلام کے ساتھ سوار ہوئے تھے اور طوفان سے بچا لئے گئے تھے ۔ اس لئے بنی اسرائیل کو خطاب کرکے کہا گیا کہ تمہارے والد نوح علیہ السلام ، اللہ عزّوجل کے بہت شکر گزار تھے، تم بھی اپنے باپ کی طرح شکرگزاربنو اور ہم نے محمد صلی اللہ علی وسلم کو رسول بنا کر بھیجا ہے، ان کا انکار کرکے ناشکری نہ کرو۔

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User