Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, December 1, 2010

فریضہ حج

فریضہ حج ... حکم، شرائط، فضائل، آداب، وعیدیں


مفتی ابو رفیدہ عارف محمود



حج اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک عظیم رکن ہے، تمام عمر میں ایک مرتبہ ہر اس مسلمان عاقل بالغ شخص پر فرض ہے جس کو الله تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ وہ مکہ مکرمہ آنے جانے پر نہ صرف قادر ہو، بلکہ واپسی تک اپنے اہل وعیال کے مصارف بھی برداشت کرسکتا ہو ۔ ( حج کی باقی شرائط بھی اس میں پائی جاتی ہوں)

حج کی لغوی تعریف
لغت میں حج کسی عظمت والی جگہ، یا چیز کا بار بار بکثرت قصد وارادے کو کہتے ہیں۔

حج کی اصطلاحی تعریف
شریعت کی اصطلاح میں مخصوص وقت میں مخصوص اعمال کے ساتھ بیت الله شریف کی زیارت وقصد کو حج کہتے ہیں۔

حج امت محمدیہ کی خصوصیت ہے
حج کا رواج اگرچہ سیدنا حضرت ابراہیم علی نبینا وعلیہ الصلاة والسلام کے زمانے سے ہے ، مگر اس وقت فرضیت کا حکم نہ تھا، حج کی فرضیت امت محمدیہ علی صاحبھا ألف ألف سلام کے ساتھ خاص ہے۔

حج کب فرض ہوا؟
جمہور علمائے اہل سنت اور راجح قول کے مطابق حج ہجرت کے بعد 9 ہجری کے اواخر میں فرض ہوا، اس وقت حج کا زمانہ نہ ہونے کی وجہ سے حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے اگلے سال دس ہجری کو حج ادا فرمایا، اس کو حجة الوداع بھی کہتے ہیں ، کیوں کہ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم دنیا کو داغ مفارقت دے گئے۔

حج کی فرضیت کا ثبوت
حج کی فرضیت قرآن مجید، احادیث مبارکہ اور اجماع امت سے ثابت ہے۔

قرآن مجید سے ثبوت
قرآن مجید کی متعدد آیات سے حج کی فرضیت ثابت ہے ، مگر سورہٴ آل عمران کی درج ذیل آیت اس حوالے سے بالکل صریح ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے:﴿ ولله علی الناس حج البیت من استطاع إلیہ سبیلا﴾․

کہ” الله ( کی خوشنودی) کے لیے لوگوں پر بیت الله کا حج (ضروری) ہے، اس شخص پر جو وہاں تک جاسکے۔“

احادیث مبارکہ سے ثبوت
متعدد احادیث میں حج فرض ہونے کا تذکرہ ہے ، یہاں ان میں سے بعض کو بیان کیا جاتا ہے :

مسلم شریف میں حضرت ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہمارے سامنے وعظ فرمایااور ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے ، پس تم حج کرو۔

صحیحین میں حضرت ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے: اس بات کی گواہی دینا کہ الله کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے بندے او رسول ہیں، او رنماز پڑھنا، اور زکوٰة دینا، اوربیت الله کا حج کرنا، او ررمضان کے روزے رکھنا۔

صحیحین ہی کی ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے کہا : یا رسول الله! الله کا فریضہ حج جو بندوں پر ہے وہ میرے والد پر بڑھاپے کی حالت میں فرض ہو گیا ہے ، وہ سواری نہیں کرسکتے ، تو کیا میں ان کی طرف سے حج کرسکتی ہوں ؟ آپ نے فرمایا: ہاں ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جج فرض ہو جائے او رکوئی عذر لاحق ہو تو کسی اور شخص کے ذریعے حج کروایا جائے۔

حج کی فرضیت پر اجماع
ملک العلماء علامہ کاسانی رحمہ الله اپنی شہرہٴ آفاق تصنیف بدائع الصنائع میں حج کی فرضیت پر اجماع کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں۔

”وأما الإجماع: فلأن الأمة أجمعت علی فرضیتہ“ یعنی تمام امت نے حج کی فرضیت پر اجماع کیا ہے۔

شرائط حج
حج کی ادائیگی اور فرضیت کے لیے کچھ شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، بعض علماء نے ان کو چار قسموں میں تقسیم کیا ہے : شرائط وجوب، شرائط وجوب ادا، شرائط صحت ادا ، شرائط وقوع فرض۔

شرائط وجوب
یہ سات شرطیں ہیں، جن کے پائے جانے سے حج فرض ہو جاتا ہے ، اگر ان میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو فرضیت ساقط ہو جاتی ہے: اسلام (کافر پر حج نہیں)۔ بلوغ) نابالغ پر حج فرض نہیں)۔ عقل آزاد ہونا (پاگل اور غلام پر حج فرض نہیں)۔ حج فرض ہونے کا علم ( لیکن یہ مسلمان ممالک میں رہنے والوں کے لیے شرط نہیں، بلکہ کفار کے ممالک میں رہنے والوں کے لیے ہے )۔ استطاعت وقدرت ( یعنی حج کے اخراجات ومصارف، لیکن یہ یاد رہے کہ یہ سرمایہ اہل وعیال کے حج سے واپسی تک کا خرچ، مرض، سواری، اپنے پیشے کے آلات، مرمت مکان وغیرہ ضروریات سے فاضل وزائد ہو، لہٰذا اگر مکان، زمین، مال تجارت اور آلات پیشہ وغیرہ ضرورت سے زائد ہیں تو ان کا فروخت کرکے حج کا ادا کرنا ضروری ہے۔حج کا وقت ہونا ( یعنی اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور دس روز ذوالحجہ کے۔ ہمارے ملک میں وقت کا اعتبار اس وقت سے ہو گا جیسا عام طور سے حج درخواستیں وصول ہونا شروع ہو جائیں)۔

شرائط وجوب ادا
یہ پانچ شرطیں ہیں، حج کا وجوب اگرچہ ان پر موقوف نہیں ہوتا، لیکن ادا کرنا ان کے پائے جانے پر واجب ہوتا ہے، لہٰذا شرائط وجوب اور شرائط وجوب ادا دونوں بیک وقت پائی جائیں تو پھر خود حج کرنا فرض ہوتا ہے اور اگر شرائط وجوب ادا میں سے کوئی شرط مفقود ہو تو خود حج کرنا واجب نہیں ہوتا،البتہ حج بدل کی وصیت کرنا واجب ہوتا ہے۔

تن درست ہونا۔ قید یا حاکم کی طرف سے ممانعت کا نہ ہونا۔ راستے کا پرامن ہونا عورت کے لیے محرم کا ہونا ( محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے نکاح کسی بھی وقت جائز نہ ہو ) محرم کا دین دار ہونا بھی ضروری ہے ، اگر محرم دین دار نہ ہو تو عورت پر حج نہیں عورت کا عدت سے خالی ہونا۔

یہ وہ شرائط ہیں جن کے بغیر حج صحیح نہیں ہوتا:

اسلام۔ احرام۔ حج کے زمانہ میں افعال حج یعنی طواف اور سعی وغیرہ کا مقررہ اوقات میں کرنا۔ مکان یعنی ہر عمل کو اس کی متعین جگہ پر ادا کرنا، جیسے وقوف میں ہونا اور طواف کا مسجد حرام میں ہونا وغیرہ۔ تمیز۔ عقل۔ احرام کے بعد وقوف عرفہ سے پہلے جماع کا نہ ہونا۔افعال حج کو خود ادا کرنا۔ جس سال احرام باندھے، اسی سال حج کرنا۔

شرائط وقوع حج
حج کے فرائض واقع ہونے اور ذمہ ساقط ہونے کے لیے درج ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے۔

حج کے وقت مسلمان ہونا۔ آخری عمر تک اسلام کا رہنا۔ آزاد ہونا۔ بالغ ہونا۔ عاقل ہونا۔ خود حج کرنا بشرط کہ قدرت ہو۔ حج کو جماع سے فاسد نہ کرنا۔ کسی دوسرے کی طرف سے حج کی نیت نہ کرنا۔ نفل کی نیت نہ کرنا۔

سفر حج کے آداب
اگر کسی مسلمان پر حج فرض ہو جائے او رتمام شرائط پائی جائیں تو الله تعالیٰ پر بھروسہ او رتوکل کرکے اس کی تیاری شروع کرے، تاخیر نہ کرے ، اس سلسلے میں چند آداب کی رعایت سے ان شاء الله حج مقبول کی سعادت نصیب ہو گی ۔ سب سے پہلے اپنی نیت درست کرے اور اس کی اصلاح کرے کہ یہ عمل ادائے فریضہ او رمحض الله کی رضا کے لیے کر رہا ہوں ، سفر سے پہلے صدق دل سے تمام گناہوں سے توبہ کرے ، اگر کسی کے حقوق ادا کرنے ہیں ، تو ادا کرے ، یا معاف کروائے، والدین زندہ ہوں تو ان سے اجازت لے ، اگر وہ خدمت کے محتاج ہوں تو بلا اجازت جانا مکروہ ہے، اسی طرح سفر حج سے پہلے کسی دین دار اور تجربہ کار شخص سے ضروریات سفر وغیرہ کے سلسلہ میں مشورہ کرے ، حلال مال سے حج ادا کرے ، حرام مال سے حج قبول نہیں ہوتا ، اگرچہ فرضیت ذمہ سے ساقط ہو جاتی ہے ، کوئی صالح رفیق سفر تلاش کرے ، اگر عالم دین میسر ہو تو بہت بہتر ہے ، تاکہ وقت ضرورت کام آئے اور احکام حج کے سلسلہ میں مدد ومعاونت کرے۔

حج کے سفر سے پہلے خوب اہتمام سے کسی معتبر عالم دین سے حج کے مسائل سیکھے، تاکہ حج کو جیسے حج ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اسی طرح ادا کرسکے۔ سفر حج کے دوران ہر طرح کے معاصی سے اجتناب کرے ، لڑائی جھگڑا، فحش گوئی اور فضول بازار میں گھومنے پھرنے اور وقت ضائع کرنے سے احتراز کرے، فضول خرچی بھی نہ ہو اور کنجوسی بھی نہ ہو، بلکہ میانہ روی اور اعتدال سے خرچ کرے۔ اپنے لیے اہل وعیال، علاقہ وملک اور تمام عالم اسلام کے لیے خوب اہتمام سے دعائیں کرے۔

حج کی تاکید اور تارک کے لیے وعید
حج فرض ہو جانے کے بعد بلا عذر اس میں تاخیر نہ کی جائے ، جلد از جلد ادائیگی کی کوشش کرے، حج کے بارے میں احادیث میں بہت تاکید اور باوجود قدرت واستطاعت کے نہ کرنے پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں ۔

امام ابوداؤد رحمہ الله نے اپنی سنن کے کتاب المناسک میں حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ جلدی کرے۔

امام ترمذی رحمة الله علیہ نے اپنی سنن کے ابواب الحج، باب ماجاء فی التغلیظ فی ترک الحج میں حضرت علی رضی الله عنہ سے نقل کیا ہے کہ جو شخص زاد راہ او رسواری کا مالک ہو کہ وہ اسے بیت الله تک پہنچا دے تو اس کے یہودی ، یانصرانی مر جانے میں (اور بغیر حج کیے مر جانے میں) کوئی فرق نہیں اور یہ (وعید) اس لیے کہ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ الله کی خوش نودی کے لیے لوگوں پر کعبہ کا حج ضروری ہے، جو وہاں تک جاسکتا ہو ۔

اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری رحمة الله علیہ مشکوٰة کی شرح مرقاة میں فرماتے ہیں کہ استطاعت کے باوجود فرضیت کا منکر ہونے کی وجہ سے حج نہیں کیا تو یہود ونصاری کے ساتھ کفر میں مشابہت ہو گی اور اگر کاہلی وسستی کی وجہ سے بغیر عذر کے حج نہیں کیا تو مشابہت گناہ میں ہو گی۔

حدیث بالا کا مضمون ایک اور حدیث میں بھی وارد ہو ا ہے ، حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو حج کرنے سے کوئی کھلی ہوئی ضرورت ، یا کوئی ظالم بادشاہ، یا کوئی معذور کر دینے والا مرض نہ روکے اور وہ بغیر حج کیے مر جائے تو اسے اختیار ہے، چاہے یہودی مرے ، چاہے نصرانی مرے۔

یہود ونصاری کے ساتھ تشبیہ کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمة الله علیہ، حجة الله البالغہ میں فرماتے ہیں کہ تارک حج کو یہودی او رنصرانی کے ساتھ مشابہ قرار دینے میں نکتہ یہ ہے کہ یہود ونصاری نماز تو پڑھتے تھے لیکن حج نہیں کرتے تھے۔

فضائل حج
انسان فائدے کا حریص ہے، فائدہ دیکھ کر مشکل سے مشکل کام بھی آسان ہو جاتا ہے، حج کی خوبیاں وفضائل تو بہت زیادہ ہیں ، یہاں بعض کو بطور تذکرہ ذکر کیا جاتا ہے تاکہ حج کا داعیہ اور شوق پیدا ہو ۔

صحیحین میں ہے : ”من حج فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ“․

کہ ” جو شخص الله کے لیے حج کرے اور ( دوران حج) نہ اپنی اہلیہ سے ہم بستری کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تووہ اس طرح ( بے گناہ ہو کر) لوٹتا ہے جیسے ( اس دن بے گناہ تھا) جس دن اس کو اس کی ماں نے جنا تھا۔ شراح حدیث نے رفث سے اگرچہ جماع مراد لیا ہے، لیکن معنی عام مراد لینے سے دیگر معانی جیسے تعریض بالجماع، فحش گوئی وغیرہ بھی اس میں شامل ہو جائیں گے ، امام قرطبی رحمة الله علیہ کا میلان بھی اسی طرف ہے ۔

حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، حج اور عمرہ ساتھ ساتھ کرو ، دونوں فقرومحتاجی اور گناہوں کو اس طرح دور کر دیتے ہیں ، جس طرح لوہار اور سنار کی بھٹی لوہے اور سونے چاندی کا میل کچیل دور کر دیتی ہے اور حج مبرور کا صلہ اور ثواب تو بس جنت ہی ہے۔

طبرانی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ حج اور عمرہ کے لیے جانے والے خدا کے خصوصی مہمان ہیں، وہ خدا سے دعا کریں تو خدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے !

حضرت عبدالله بن جراد رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فریضہ حج ادا کرو، اس لیے کہ حج گناہوں کو ایسے دھو دیتا ہے، جیسے پانی میل کو دھو دیتا ہے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا حج کرنے والے کی مغفرت کی جاتی ہے او رجس کے لیے حاجی مغفرت کی دعا کرے اس کی بھی مغفرت کی جاتی ہے ۔ایک روایت میں ہے کہ اے الله! مغفرت فرما حاجی کی اور جس کے لیے وہ مغفرت طلب کرے۔

حج مبرور
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا عمل سب سے بہتر ہے ؟ تو آپ نے فرمایا: الله اور اس کے رسول پر ایمان لانا ، پوچھا گیا کہ پھر کون سا عمل ؟ فرمایا: خدا کی راہ میں جہاد کرنا ، پوچھا گیا کہ پھر کون سا؟ فرمایا: حج مبرور یعنی حج مقبول۔

صحیحین میں حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے ہی مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ ان گناہوں کا کفارہ ہے جو دوسرے عمرہ تک ہوں اور حج مبرور کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔

حج مبرور کیا ہے ؟
شراح حدیث نے حج مبرور کی مختلف تفسیریں بیان کی ہیں، علامہ نووی رحمہ الله فرماتے ہیں : ”المبرور ھو الذی لا یرتکب صاحبہ فیہ معصیة“․

یعنی حج مبرور وہ ہے جس میں حاجی کسی گناہ کا ارتکاب نہ کرے۔ حضرت حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں کہ حاجی اس حال میں لوٹے کہ دنیا سے بے رغبت ہو اور آخرت کا شوق رکھنے والا ہو تو وہ حج مبرور ہے۔

علامہ طیبی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ حج کے مقبول ہونے کی نشانی یہ ہے کہ حاجی تمام ارکان وواجبات کو اخلاص نیت کے ساتھ ادا کرے او رجن چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان سے بچے۔

بعض نے کہا حج مبرور اسے کہتے ہیں جو جنایات سے خالی ہو ، بعض نے کہا وہ ہے جس میں ریا نہ ہو ، بعض نے کہا کہ اس کی نشانی یہ ہے کہ حاجی کی حالت تقوی کے اعتبار سے حج سے پہلی والی حالت سے بہتر ہو، علامہ قرطبی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ یہ سب اقوال متقارب المعنی ہیں، یعنی حج مبرور ہے جس کے تمام احکام کو پورا کیا گیا ہو او رمکلف سے حج کو جس طرح طلب کیا گیا ہے اس کو کمال طریقے سے ادا کیا ہو ۔

حضرت علامہ محمدیوسف بنوری رحمة الله علیہ معارف السنن میں ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ حج مبرور کی تفسیر میرے نزدیک وہی ہے جو الله کے ارشاد﴿ فلارفث ولا فسوق ولاجدال فی الحج﴾ میں مذکور ہے،پس جس کا حج الله کے ارشاد کے موافق ہو تو وہ مبرور ہے، اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ جو شخص الله کی خوش نودی کے لیے حج کرے اور دوران حج اپنی اہلیہ سے نہ ہم بستری کرے اور نہ فسق میں مبتلا ہو تو وہ اس طرح ( بے گناہ) واپس لوٹتا ہے جیسے ( اس دن بے گناہ تھا) جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔

تنبیہ: جن حضرات کے پاس گنجائش ہو تو وہ حج کے ساتھ مدینہ منورہ اور روضہ شریف کی زیارت کا شرف ضرور حاصل کریں، اس کی بھی بڑی فضیلت ہے ، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت ضروری ہو گئی۔ بلکہ بعض روایات سے اس کی تاکید معلوم ہوتی ہے ، ایک روایت میں ہے کہ جو شخص مالی وسعترکھے اور میری زیارت کو نہ آئے تو اس نے میرے ساتھ بڑی بے مروتی کی ۔

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے گھر اور اپنے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کے شہر کی زیارت نصیب فرما دے ۔ آمین!

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User