Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, December 1, 2010

قربانی

کیا فرماتے ہیں علمائے دین

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی


قربانی کس پر واجب ہے؟


سوال …قربانی کس پر واجب ہوتی ہے۔ اگر والد بھی زندہ ہو تو کیا بیٹے پر قربانی واجب ہے؟

جواب…مسلمان مرد و عورت، عاقل، بالغ، مقیم جس کے پاس ایام قربانی میں حوائج ضروریہ، رہائش کا مکان، کھانے پینے کا سامان، استعمال کے کپڑے، سواری، دیگر ضروریات کے علاوہ ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی یا اس کے برابر نقدرقم یا ان کے علاوہ کوئی دوسرا سامان ہو تو اس پر قربانی واجب ہوتی ہے۔

لہٰذا مذکورہ صورت میں اگر باپ اور بیٹا دونوں کی ملکیتیں الگ الگ ہوں اور دونوں صاحب نصاب ہوں تو ان میں سے ہر ایک پر قربانی واجب ہے۔ اور اگر باپ، بیٹا اکٹھے رہتے ہوں اور بیٹے کا کوئی مستقل کاروبار بھی نہیں اور نہ اس کے پاس بقدر نصاب رقم ہوتوبیٹے پر قربانی واجب نہیں۔

عورت پر قربانی واجب ہے یا نہیں
سوال …ہمارے گھر میں ہم سب لوگ شروع ہی سے ایک ساتھ اتفاق سے رہ رہے ہیں۔ گھر کی تمام تر ذمے داری خرچ، صدقہ، فطرہ اور قربانی وغیرہ بھی گھر کا ذمے دار فرد مشترک طور پر کرتا ہے۔

دریافت طلب امر یہ ہے کہ جس طرح ہمارے گھر کے مردوں پر قربانی واجب ہے اسی طرح ہماری عورتوں پر بھی واجب ہے یا نہیں جب کہ صورت حال یہ ہے کہ گھر میں موجود ہر عورت کے پاس ساڑھے سات تولے سونا اور استعمال کے کپڑے کم از کم 20جوڑے اور کچھ نہ کچھ نقدی رقم بھی ہر وقت موجود رہتی ہے۔ مذکورہ بالا صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے بتائیں کہ آیا اس حالت میں عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے؟اور وجوب کی صورت میں عورت خود قربانی کرے یا گھر کے ذمے دار فرد کے ذمے کردے ،کیوں کہ ہمارا گھر مشترک ہے۔

جواب…عورت اگر خود صاحب نصاب ہو تو اس پر قربانی واجب ہے، چاہے وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ بیان کردہ صورت میں چوں کہ گھر کی تمام عورتیں صاحب نصاب ہیں، لہٰذا ہر ایک کے ذمے الگ الگ قربانی واجب ہے۔ چناں چہ گھر کے ذمے دار کو چاہئیے کہ ان کی طرف سے بھی قربانی کا اہتمام کرے۔

قربانی کا جانور
سوال …کیسے جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے؟

جواب…قربانی کے جانور کا عمدہ، موٹا، تازہ اور عیبوں سے سالم ہونا ضروری ہے۔

حضرت علی فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ قربانی کے جانور کے آنکھ، کان خوب اچھی طرح دیکھ لیں اور ایسے جانور کی قربانی نہ کریں جس کے کان کا پچھلا حصہ یا اگلاحصہ کٹا ہوا ہو، اور نہ ایسے جانور کی قربانی کریں جس کا کان چیرا ہوا ہو یا جس کے کان میں سوراخ ہو۔(ترمذی)

حضرت برا بن عازب کا بیان ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قربانی میں کیسے جانوروں سے پرہیز کیا جائے؟ آپ صلی الله علیہ وسلمنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ چار طرح کے جانوروں سے پرہیز کرو:

1.  وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو۔
2.  وہ کانا جس کا کانا پن ظاہر ہو۔
3.  ایسا بیمار جانور جس کا مرض ظاہر ہو۔
4.  ایسا دبلا پتلا جانور کہ جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔

خصی جانور کی قربانی افضل ہے، کیوں کہ اس کا گوشت اچھا ہوتا ہے۔ اسی طرح حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود ایسے جانور کی قربانی کی ہے۔

قربانی کے جانور کی عمریں
سوال …قربانی کے جانور کی عمر کس قدر ہونی ضروری ہے بالخصوص بکرا، بکری اور بھیڑ کی، بعض علما کا کہنا ہے کہ بکرا، بکری اور بھیڑ کے دو دانت ہونا ضروری ہیں، عمر جس قدر بھی ہو۔ اگر دو دانت نہیں تو قربانی جائز نہیں۔ صحیح کیا ہے؟

جواب… واضح رہے کہ قربانی کے جانوروں میں سے اونٹ پانچ برس، گائے اور بھینس دو برس، بھیڑ اور بکری ایک برس کی ہونا ضروری ہے۔ اس سے کم عمر والے جانور کی قربانی جائز نہیں۔

البتہ دنبہ چھے ماہ کا اس قدر فربہ ہوکہ سال بھر کا دنبہ معلوم ہو تو اس کی قربانی درست ہے۔

جہاں تک دو دانت ہونے کا تعلق ہے تو حضرات فقہاکرام نے عمر کا اعتبار کیا ہے اور دو دانت کو اس کی علامت قرار دیا ہے، یعنی سن رسیدہ ہو تو اس کی قربانی درست ہے اور دو دانت کی علامت ہو تو بہتر ہے۔ اور اگر دو دانت کی علامت نہ ہو، لیکن جانور سن رسیدہ ہو تو بھی اس کی قربانی درست ہے۔

قربانی کرنے کا صحیح وقت
سوال …قربانی کا صحیح وقت کیا ہے؟ نمازعید سے پہلے بھی جائز ہے یا نہیں؟

جواب…جن شہروں یا بستیوں میں نماز جمعہ وعیدین درست ہے، وہاں عید کی نماز سے پہلے قربانی جائز نہیں۔ اگرکسی نے عید کی نماز سے پہلے قربانی کردی تو اس پر دوبارہ قربانی لازم ہے، البتہ چھوٹے گاؤں جہاں جمعہ و عیدین کی نمازیں نہیں ہوتیں وہاں لوگ دسویں تاریخ کی صبح صادق کے بعد قربانی کرسکتے ہیں۔

کسی عذر کی وجہ سے نماز عید پہلے دن نہ ہوسکی تو نماز عید کا وقت گزرجانے کے بعد قربانی درست ہے۔

رات کو قربانی کا جانور ذبح کرنا
سوال …قربانی کے دنوں میں رات کو قربانی کا جانور ذبح کرنا کیساہے؟

جواب…گیارھویں اور بارھویں ذوالحجہ کی رات کو قربانی کا جانور ذبح کرنا درست ہے، دسویں اور تیرھویں کو نہیں، لیکن رات کو ذبح کرتے وقت جانور کی رگوں کے درست نہ کٹنے کا امکان ہے، اس لیے رات کو قربانی کرنا مکروہ ہے۔

ذبح کرنے کا مسنون طریقہ
سوال …قربانی کے جانور کو ذبح کرنے کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ اگر کوئی شخص خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب… اگر کوئی شخص ذبح کرنا جانتا ہے تو اس کے لیے اپنی قربانی کو خود ذبح کرنا افضل ہے اور اگر خود ذبح کرنا نہیں جانتا تو دوسرے سے بھی ذبح کراسکتا ہے، مگر ذبح کے وقت وہاں خود حاضر رہنا افضل ہے۔

ذبح کرنے کے وقت اگر درج ذیل دعا یاد ہو تو اسے پڑھے اور اگر دعا یاد نہیں تو کوئی حرج نہیں، دل سے ہی نیت کافی ہے۔

انی وجھت وجھی للذی فطرالسموات والارض حنیفاً وما انا من المشرکین۔

ان صلوٰتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العلمین لا شریک لہ وبذلک امرت وانا من المسلمین اللھم منک ولک۔

پھر”بسم الله، الله اکبر“ کہہ کر ذبح کرے اور ذبح کرنے کے بعد یہ دعا(اگر یاد ہو) پڑھے:

اللہم تقبلہ منی کما تقبلت من حبیبک محمد وخلیلک ابراھیم علیھما الصلاة والسلام۔

قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ
سوال …قربانی کے گوشت کو کس طرح تقسیم کیا جائے؟ کتنا حصہ فقرا کو دیا جائے، کتنا حصہ اپنے لیے رکھا جائے اور اگر گوشت تقسیم نہ کیا جائے بلکہ تمام گوشت کو اپنے پاس رکھا جائے تو کیا حکم ہے؟

جواب…قربانی کا گوشت تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔ ایک حصہ اپنے اہل و عیال کے لیے رکھا جائے۔ ایک حصہ رشتے داروں میں تقسیم کیا جائے اور ایک حصہ فقرأ و مساکین کو دے دیا جائے۔

اگر کوئی شخص تمام گوشت خود رکھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔

قربانی کرنے والا وفات پاگیا
سوال …ایک آدمی نے اپنے لیے قربانی کا جانور خریدا تھا، لیکن قربانی کرنے والے کا انتقال ہوگیا تو اب کیا حکم ہے؟ اس جانور کا ذبح کرنا ضروری ہے یا نہیں؟

جواب…دس ذوالحجہ سے پہلے یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے تو قربانی ساقط ہوجائے گی اور وہ جانور وارثوں کا ہوگا۔

لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ جانور وارثوں کا ہے۔ ان پر میت کی طرف سے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں البتہ تمام وارثوں کی رضامندی سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کریں تو زیادہ بہتر ہے۔

قربانی کا گوشت غیرمسلم کو دینا
سوال …کچھ حضرات یہ بتاتے ہیں کہ قربانی کا گوشت کسی بھی غیر مسلم کو نہیں دینا چاہیے، کیوں کہ قرآن و سنت کے لحاظ سے منع ہے اور اہل کتاب بھی غیر مسلم ہوتے ہیں کیا اہل کتاب غیر مسلم کو بھی دینا چاہیے۔

جواب…قربانی کا گوشت غیر مسلم کو خواہ وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب ہوں دینا جائز ہے، البتہ زکوٰة اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔

حرام آمدنی والے کے ساتھ قربانی میں شرکت
سوال …قربانی کے ایک جانور میں شریک شرکا میں سے ایک یا کئی شرکا کی آمدنی اگر بالکل حرام ہو مثلاً بینک ملازم ہو یا حلال و حرام ملا ہوا ہو تو کیا اس صورت میں دیگر شرکا کی قربانی صحیح ا ور درست ہو جائے گی؟

عدم جواز کی صورت میں ایک اشکال یہ ہوتا ہے کہ دینی مدارس میں جہاں اجتماعی قربانی کا اہتمام ہوتا ہے وہاں اس بات کی تحقیق نہیں کی جاتی وہاں کیا صورت ہوتی ہے (اس کی ضرورت اس لیے پیش آئی ہے کہ عام لوگ مدارس کو جہاں بڑے بڑے علما کرام موجود ہیں دلیل بنا کر اپنے عمل پرمطمئن ہوجاتے ہیں اور انفرادی عمل میں حکم شرع کو معلوم کرنے کی قطعی ضرورت محسوس نہیں کرتے)۔

جواب… اگر قربانی کے شرکا میں سے کسی ایک شریک کی آمدنی ساری حرام ہو یا اس میں غالب عنصر حرام کا ہوتو اس کی وجہ سے دوسرے شرکا کی قربانی بھی نہیں ہوگی۔ یہ اس وقت ہے کہ جب آمدنی کے حرام ہونے کا علم ہو۔ اگر علم نہ ہو تو تجسس اور تحقیق کا حکم بلکہ اجازت بھی نہیں۔ اجتماعی قربانی میں چوں کہ علم نہیں ہوتا اور جب علم نہ ہو تو تجسس کی اجازت نہیں لہٰذا اس میں شریک ہونے والوں کی قربانیاں درست ہیں۔ انفرادی سطح پر کی جانے والی قربانیوں کے لیے بھی یہی حکم ہے۔ اگر پہلے سے ذریعہٴ آمدنی کا علم ہوتو قربانی ناجائز ہوجائے گی۔لہٰذاایسے شخص کو شریک ہی نہیں کرنا چاہیے۔اگر ذریعہٴ آمدنی کا علم نہ ہو تو پوچھنے اور تفتیش کرنے کی اجازت نہیں۔

مُردوں کے لیے قربانی کرنا
سوال …قربانی کے جانور میں مرحوم والد صاحب یا دیگر فوت شدہ رشتے داروں کے لیے ایصال ثواب کی نیت سے حصہ رکھنا کیسا ہے؟اور اس کا گوشت غربا میں تقسیم کرنا ضروری ہے یا گھر میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے؟

جواب… والد صاحب یا فوت شدہ رشتے داروں کے ایصال ثواب کے لیے قربانی کے جانور میں حصہ رکھنا جائز ہے۔ اس کا تمام گوشت غربا میں تقسیم کرنا ضروری نہیں بلکہ امیروغریب اور گھر والے سب کھاسکتے ہیں۔
قربانی کا گوشت فروخت کرنا

سوال …(1) میں نے بکرے کی قربانی کی اور اس بکرے میں کچھ چربی نکلی۔ میرا بچہ اس چربی کو 15روپے میں فروخت کرآیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اس چربی کی رقم کو اپنے پاس رکھنا جائز ہے یا ناجائز۔یا اس رقم کو صدقہ کردوں۔ اس رقم کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

(2) میں نے اپنے گھر میں قربانی کی اور قربانی کا گوشت میرے پاس موجود ہے۔میرا ہوٹل ہے جس میں روٹی سالن فروخت کرتا ہوں۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا میں اس قربانی کے گوشت کو اپنے ہوٹل میں استعمال کرسکتا ہوں۔ اور قربانی کے گوشت کو فروخت کرنا جائزہے یا ناجائزہے۔

جواب… (1) (2) قربانی کا گوشت اور چربی ہوٹل میں سالن بنا کر یا ویسے فروخت کرنا درست نہیں۔ اگر کسی نے فروخت کیا تو اس پر قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے، اپنے پاس رکھنا درست نہیں۔

قربانی کی کھال
سوال …قربانی کی کھال کے شرعی احکام کیا ہیں؟ کیا قربانی کرنے والا اس کو اپنے استعمال میں لاسکتا ہے؟ کسی جماعت یا رفاہی ادارے میں دینا کیسا ہے؟

جواب… قربانی کی کھال کو صاحب قربانی اپنے استعمال میں لاسکتا ہے، لیکن فروخت کرکے پیسے نہ تو خود کھاسکتا ہے نہ کسی غنی کو دے سکتا ہے، بلکہ بیچنے کے بعد قیمت کا صدقہ کرنا واجب ہے۔

کسی ملازم کو تنخواہ اور کام کے عوض میں دینا درست نہیں، جیسے امام، مؤذن، خادم مسجد کہ ان کو بحق اجرت قربانی کی کھال دینا درست نہیں، البتہ اگر یہ لوگ نادار ہیں تو ناداری کی وجہ سے ان کو دینا درست ہے۔

قربانی کی کھال یا اس کی رقم کسی ایسی جماعت یا انجمن وغیرہ کو دینا بھی درست نہیں جو اس رقم کو مستحقین پر خرچ نہیں کرتی بلکہ جماعت اور ادارے کی دیگر ضروریات مثلاً کتابوں ، مدرسے، مسجد، ہسپتال اور شفاخانے کی تعمیر یا کارکنوں کی تنخواہ میں خرچ کرتی ہے۔

البتہ ایسے ادارے یا جماعت کو دینا درست ہے جو اس رقم کو مستحقین زکوٰة پر خرچ کرتی ہے۔

آج کل چوں کہ رفاہی ادارے قربانی کی کھال کو اس کے صحیح مصرف پر خرچ نہیں کرتے، اس لیے ان کو دینا درست نہیں۔

موجودہ زمانے میں چرم ہاے قربانی دینی مدارس میں دینا زیادہ بہتر ہے، اس لیے کہ اس میں غریب طلبہ کی امداد بھی ہے اور علم دین کی خدمت بھی۔

تکبیرات تشریق
سوال …تکبیرات تشریق کسے کہتے ہیں۔ کب سے کب تک پڑھی جاتی ہیں اور یہ تکبیرات کس پر واجب ہیں؟

اگر کوئی شخص ان تکبیر ات کو بھول کر ترک کرے تو اس کا کیا حکم ہے۔

جواب…درج ذیل کلمات کو تکبیر تشریق کہا جاتا ہے:

اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالہ الا اللہ، واللہ اکبر، اللہ اکبر وللہ الحمد۔

ذوالحجہ کی نویں تاریخ کی فجرسے ذوالحجہ کی تیرہ تاریخ کی عصر تک ہر نماز کے بعد فوراً بلند آواز سے تکبیرات تشریق پڑھنا واجب ہے، البتہ عورتیں آہستہ سے کہیں۔

حضرات صاحبین رحمہما الله تعالیٰ کے قول کے مطابق تکبیرات تشریق امام، مقتدی، مسبوق، منفرد، شہری، دیہاتی، مقیم، مسافر، مرد اور عورت سب پر واجب ہے۔ حضرات فقہا کرام کے نزدیک یہی قول مفتی بہ ہے، اس لیے تمام افراد کو تکبیرات تشریق ہر فرض نماز کے بعد کہہ لینی چاہئیں۔

کوئی شخص اگر تکبیرات کہنا بھول جائے اور مسجد سے نکل جائے تو پھر اس کو تکبیرات نہیں کہنی چاہئیں، اس لیے کہ تکبیرات کی قضا نہیں البتہ آئندہ کے لیے احتیاط کرے۔

دیگر ممالک میں رہنے والوں کے لیے یہاں قربانی کب کی جائے
سوال … ایک شخص امریکا میں مقیم ہے وہ یہاں پاکستان اپنے کسی عزیز یا رشتہ دار یا کسی ادارہ کو پیسے بھیج کر وکیل بنا کر کہتا ہے کہ میری طرف سے قربانی کریں، عام طور پر امریکا کے مسلمان پاکستان سے پہلے عید کرتے ہیں ، تو یہاں وکیل کب اس کی طرف سے قربانی کرے ؟ یعنی یہاں کے دنوں کے اعتبار سے قربانی کی جائے یا وہاں کے دنوں کا اعتبار کرکے قربانی کیجائے۔ وضاحت فرمائیں۔

جواب… جواب سے پہلے تمہید کے طور پر چند امور کا جاننا ضروری ہے:۔

1.  صاحب نصاب او رمقیم شخص پر قربانی اس وقت واجب ہے جب قربانی کے دن شروع ہو جائیں۔

2.  قربانی کا وقت ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کی صبح صادق سے لے کر بارہویں ذوالحجہ کے سورج غروب ہونے سے پہلے تک ہے، یعنی ان دنوں میں قربانی جائز ہے ، ان سے پہلے اور بعد میں جائز نہیں۔

3.  جو شخص دوسرے کو قربانی کا وکیل بناتا ہے اسی کے ملک کا اعتبار ہو گا ، نہ کہ وکیل کے ملک کا۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں امریکا میں رہنے والا شخص اگر کسی کو یہاں پاکستان میں وکیل بناتا ہے اور دونوں ملکوں میں ایک ہی دن عید ہوتی ہے تو وکیل جب بھی قربانی کرے اس کی طرف سے قربانی ہو جائے گی، لیکن دونوں ملکوں کے وقت میں جو جزوی فرق ہے اس کا خیال رکھنا ضروری ہے او راگر دونوں ملکوں میں دنوں کے اعتبار سے فرق ہوتا ہے تو جو امریکا میں رہنے والا ہے اس کی عید کا اعتبار کرکے یہاں کا رہنے والا اس کی طرف سے قربانی کرے، وہاں کی قربانی کے دنوں کے گزرنے کے بعد یا اس سے پہلے قربانی کرنا جائز نہیں، لأنہ لایجب الأداء علیہ إلا بعد نفس الوجوب.
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User