Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, May 10, 2011

جوڑا جہیز ۔۔۔۔۔۔ ایک رشوت


جوڑا جہیز ۔۔۔۔۔۔ ایک رشوت


فقہاء کرام نے جن بنیادوں پر اِسے رشوت قرار دیا ہے ان کو سمجھنے کیلئے پہلے رشوت کیا ہے اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ حجّت باقی نہ رہے۔
رشوت کی لغوی تعریف :
رِشا عربی زبان میں ڈول کی رسّی کو کہتے ہیں۔
(اَرْشَتُ الدّلْوُ : ڈول میں رسّی لگایا)۔
رشوه
راء کے زیر اور پیش کے ساتھ بھی بولاجاتاہے۔ جیسے رَشَاهُ رِشْوَةََ اس کو رشوت دی۔
اِرْتَشَي مِنْه رِشْوَةََ
جب کوئی کسی سے رشوت لے۔ اس کی جمع رُشََا آتی ہے۔
(تہذیب اللغہ جلد 11، صفحہ 406)۔

رِشْوَة کا ہم معنی لفظ بِرْطِيْل ہے۔ (بمعنی رشوت اور) ایک سخت گول لمبا پتھر جو بولنے والے کے منہ میں اسلئے ڈال دیاجاتا ہے تاکہ بات کرنے اور بولنے سے اِسے روکے رکھے۔ اور ضرب المثل کے طور بولا جاتاہے ” البراطيل تنصر الاباطيل “ یعنی رشوت باطل کاموں کیلئے ممد و معاون ہوا کرتے ہے۔
رشوت کی اصطلاحی تعریف :
عام اصطلاح میں رشوت اُس چیز کو کہتے ہیں جو کسی جائز یا ناجائز منفعت Vested interest حاصل کرنے کیلئے پیش کی جائے اور لینے والا اس کام کے حق یا باطل، جائز یا ناجائز کی پروا کئے بغیر قبول کرے۔ اسمیں ہدیہ، تحفہ یا نذرانہ شامل نہیں بشرطیکہ دینے والے اور لینے والے کے درمیان ایک منفعت Benefit کا تبادلہ پیش نظر نہ ہو اور ہدیہ نہ دنیے کی صورت میں معاملہ(Deal) خراب ہوسکتا ہو۔ اِس تعریف میں اُجرت Fee شامل نہیں جیسے ملازم، ڈاکٹر، وکیل وغیرہ کو جو ایک جائز خدمت کا اجر وصول کرتاہے۔ رشوت اسلئے دی جاتی ہیکہ مفاد اور مصلحتوں کی بابت فیصلے میں حق اور انصاف، جائز اور ناجائز سے گریز کیاجائے اورکام اپنے حق میں نکالاجائے۔ رشوت دراصل راشی اور مرتشی کے درمیان ایک جوڑ کا کام دیتی ہے جیسے رسّی ڈول کو پانی بھر کر اوپر لانے کا کام کرتی ہے۔
مرتشی : وہ شخص جو کسی دوسرے سے مال کا تقاضہ کرتاہے یا اس سے کسی نفع کا حصول چاہتا ہے۔ تاکہ اسکے عوض دینے والے کی کوئی غرض پوری کردے۔
راشی : وہ شخص جو مال خرچ کرتا ہے یا کسی کام کے بدلے میں نقد کے بجائے کوئی اور طریقے سے مرتشی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

مندرجہ بالارشوت کی تعریف کی روشنی میں اگرعہدِ حاضر کی شادیوں کے پورے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ پورا نظام ایک رشوت کے اطراف گھوم رہاہے۔
مرتشی دو قسم کے ہیں ۔ ایک وہ جو جوڑا یا جہیز مانگتے نہیں لیکن رواج کے مطابق جو مل جائے اس سے انکار نہیں کرتے۔ کہیں کہیں یہ چالاکی بھی شامل ہوتی ہیکہ رشتہ اُسی جگہ بھیجتے ہیں جہاں مانگنے کی ضرورت نہ پڑے ۔ دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو راست یا بالراست Directly or indirectly فرمائش یا مطالبہ کرکے جہیز وغیرہ وصول کرتے ہیں۔
اِسی طرح راشی بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو واقعتا سب کچھ خوشی سے دیتے ہیں چاہے دلہا والے مانگیں یا نہ مانگیں لیکن یہ رواج کو توڑنے کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی رواج کو توڑنے کے بجائے اور مضبوط کرتے ہیں ۔ دوسری قسم کے راشی وہ ہیں جو رواج کے مطابق دینے پر مجبور ہیں۔ اگر نہ دیں تو لڑکی زندگی بھر کنواری رہ جائے یا پھر کوئی ایسا رشتہ آئیگا جو کسی طرح بھی لڑکی کے شایانِ شان نہ ہوگا۔

اور اس پورے معاملے کی مشطگی کرنے والے Mediators مختلف لوگ ہوتے ہیں جو اس رشوت کے کاروبار میں برابر کے شریک ہیں۔ لوگ اگر رشوت کے بدترین اثرات کو سمجھیں تو جوڑا جہیز کے جو نقصانات ہیں وہ خو د بخود سمجھ میں آجائنگے۔
حلال واضح ہے اور حرام بھی۔ شریعت وہ روشنی ہے جو ہر ایسی تاریکی کو کافور کرتی ہے جس سے بندہ مومن فریب کھاسکتاہے۔ جسکی آڑ میں مجرم چھپ کر وار کرسکتاہے۔ اسلئے ہر ایسا وسیلہ اور سہارا بھی حرام ہے جس کے ذریعے حق کے خلاف باطل کو غلبہ مل رہا ہے اور ہر ناجائز فعل اکثریت Majority کے کرنے کیوجہ سے جائز کہاجارہا ہے۔اور چونکہ رشوت ان وسائل میں سے ایک ہے جسکے سہارے جائز کو معیوب اور ناجائز کو عین جائز کہاجارہاہے اسلئے شریعت کی روشنی میں یہ حرام ہے۔ اس سے جتنے گناہ پیدا ہونگے ان کے ذمّہ دار اس رشوت کو دینے والے، لینے والے اور بیچ کے ایجنٹ اور وہ تمام جو اس نظام کے ساتھ چل کر ہمت افزائی کرتے ہیں۔

رشوت زناکاری سے زیادہ خطرناک
ایک طرف اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ حکم کہ
” نکاح کو اتنا آسان کردو کہ زنا مشکل ہوجائے “۔
دوسری طرف ہندوستان پاکستان میں داماد کو خریدنے والا سسٹم اور عربوں میں عورتوں کو خریدنے والا رواج ۔۔۔
نتیجہ؟
نتیجہ اسی حدیث کی روشنی میں یہ ہے کہ زناکاری بڑھتی جارہی ہے۔ آئیے اس کی وجوہات پر غور کرتے ہیں۔

اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ کسی بھی خلافِ شرع چیز کے حصول کیلئے روپیہ خرچ کرنا شرمناک فعل ہے کیونکہ یہ روپیہ ممنوع اور حرام کام کیلئے خرچ کیا جارہا ہے۔ اور جو مال اللہ کی سرکشی و نافرمانی پر خرچ کیا جارہا ہے اور جس مال کے خرچ کرنے سے شریعت کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے ایسے مال کی حرمت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اسکی خرابی زنا کاری سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ رشوت کے ذریعے آدمی غیر کا مال ہڑپ کرنے کا راستہ پالیتاہے۔ جبکہ دوسری طرف دینے والے کوسخت مشکلات پیش آتی ہیں۔ زناکاری میں صرف دو لوگوں کی تسکین ہوتی ہے۔جبکہ جوڑا جہیز کے نظام میں دو خاندانوں کی تسکین ضرور ہوتی ہے لیکن پورا سماج شدید طریقے سے متاثّر ہوتاہے۔زناکاری ایک ایسا گناہ ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے اور اللہ کی کریمی کا محتاج ہے۔ لیکن رشوت ستانی ایک ایسا گناہ ہے جس میں راشی اور مرتشی مل کر پورے سماج میں ایک غلط ماڈل قائم کرکے ہر شخص کو متاثر کر ڈالتے ہیں۔ اسکی وجہ سے حسب نسب میں فرق پڑتاہے، خاندان مخلوط ہوجاتاہے۔غرور، تفاخر، دکھاوا اور اسراف جیسے حرام کاموں کا راستہ کھل جاتاہے۔ ان خرابیوں کے پیشِ نظر فقہا کا یہ کہنا بجا ہیکہ زناکاری سے کہیں زیادہ شدید گناہ رشوت ہے۔
رشوت اللہ کی مدد کیسے روکتی ہے
رشوت سے سنگدلی اور بے رحمی پیدا ہوتی ہے۔ : لوگ اکثر کہتے ہیں کہ اللہ کی مدد اب مسلمانوں پر کیوں نہیں آتی۔ کیسے آئے جبکہ راستہ ہم نے خود روکا ہواہے۔ ملاحظہ فرمایئے یہ حدیث :
وللهُ في عون العبد ما كان العبد في عون اخيه

اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مد د کرتاہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔
(ابو داود بروایت حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ)۔

جو لڑکوں کے باپ ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ لڑکیوں کے باپ کتنے پریشان اور بے بس ہیں۔ اگر وہ آگے بڑھ کر کہہ دیں کہ چلو ہم لڑکا لڑکی کی شادی علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر کرتے ہیں تو اس سے بڑی مدد اور کیا ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ بے حِس اور بے غیرت ہوتے ہیں۔ انہیں یہ منظور ہے کہ ان کا بھائی بھیک مانگے، دوستوں ، رشتہ داروں سے چندہ مانگے یا جھوٹ بولے اور رشوت لے یا چوری کرے لیکن انہیں یہ منظور نہیں کہ شادی کے ارمانوں میں کسی قسم کی کوئی کمی ہو۔
لڑکوں کے والدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ مال لڑکی کے والدین ”خوشی سے “ خرچ کرنے پر مجبور ہیں وہ مال ان کے بیٹوں کی امانت ہے یا پھر ان کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دور میں کوئی خوشی سے نہیں دے سکتا صرف مجبوری اور بلیک میلنگ کے بنا پر ہی دے سکتاہے۔
امام بخاری اور امام احمد رحمہم اللہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یومِ نحر خطبے میں یہ ارشاد فرمایا کہ :
فانّ دماء كم و اموالكم عليكم حرام

تمہارا خون اور تمہارے اموال تم پر حرام ہیں۔

حدیث یہ بتاتی ہیکہ ناجائز مال لینا حرام ہے۔ کسی مجبور و مظلوم آدمی سے اس کے سر سے بیٹی کا بوجھ اتارنے کیلئے روپیہ یا کوئی اور چیز لینا بطور رشوت لینا ہے اور ناحق مال لینے کے مترادف ہے۔ اس حدیث کو پڑھنے کے باوجود اگر کوئی یہ ضد کرے کہ جوڑا جہیز حرام نہیں تو سوائے اسکے اور کیا کہا جاسکتاہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روش پر قائم ہے جنکے سامنے واضح آیات آنے کے باوجود کوئی نہ کوئی دلیل تلاش کرتے تھے جسکا تفصیلی ذکر ” فرار کے فلسفے “ میں کیا گیا ہے۔
شریعت مطہرہ لوگوں کے اموال کی حفاظت کی شدّت سے تاکید کرتی ہے۔ رشوت ستانی کے مختلف طریقے ہیں رشوت صرف وہ نہیں جو کسی عہدے دار کو دی جائے۔ بلکہ ہر وہ طریقہ، حیلہ یا بہانہ ہے جس کی آڑ لے کر آدمی اپنا فائدہ کرلے۔ اس گناہ میں شریک ہونے والے بھی راشی اور مرتشی ہی کی فہرست میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی سماج میں رشوت چاہے وہ جوڑا جہیز کے نام پر ہو یا ھدیہ یا تحفے یاکمیشن کے نام پر ہو، ظلم اور فساد کو عام کرنے کا ذریعہ بنتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ مردوں کو محنت سے کماکر شادی کرنے اور گھر بسانے کی فکر ہونے کے بجائے کسی اور کی کمائی پر شادی کرنے ، اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کی دعوت کروانے اور گھر بسانے کی کوشش ہوتی ہے۔ خوددار مرد کم ہونے لگتے ہیں اور بے غیرت افراد بڑھنے لگتے ہیں جن کا معصوم بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں لیا اگر بڑوں کے درمیان کوئی معاملہ طئے ہوا ہوگا تو ہمیں نہیں معلوم۔ کئی واقعات ایسے بھی ہیں جہاں لڑکے کے والدین سختی سے لڑکی والوں کو یہ بھی تاکید کرتے ہیں کہ اس ضمن میں لڑکے سے کوئی بات نہ کریں وہ تو بے وقوف ہے۔
قرآن و حدیث میں رشوت کا بیان
سورہ نساء میں حکم آیا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَةً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ......
النساء:29

اے ایمان والو ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ۔ لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضامندی سے۔

سورہ بقرہ آیت 188 میں یہی حکم یوں وارد ہوا ہے۔
وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ......

ان آیتوں کی رو سے ہر وہ طریقہ جس سے شریعت نے واضح طور پر منع کیاہے اس سے مال حاصل کرنا حرام ہے۔ جوڑا جہیز بھی اسی میں داخل ہے۔ جب مہر کے علاوہ مرد سے کچھ بھی لینا رشوت ہے تو اُلٹا مرد کا عورت سے مال حاصل کرنا بدرجہ اولیٰ حرام ہے۔ اسی کو قرآن نے ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے کھانا کہا ہے۔لینے والوں کے پاس دلیل نہ قرآن ہے نہ شریعت بلکہ یہ ہیکہ ایسا سب کررہے ہیں۔مذکورہ آیت میں درج ”مال کھانے“ سے مراد مال کا ناحق طریقے سے حاصل کرنا، اس پر قبضہ کرنا، اسکو لے کر استعمال میں لانا، کھالینا یا اپنی شان و عزت بڑھانے کیلئے روا رکھنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر اور وضاحت کیلئے تفسیر ہی کی چند کتابوں سے اقتباسات پیش ہیں :
تفسیر مراغی :
شریعت مال کھانے کے ہر ایسے طریقے کو حرام قرار دیتی ہے جو غیر معتبر ہو۔ اور کسی ناقابلِ لحاظ چیز کے عوض اسکا لین دین ہوا ہو۔

تفسیر المنار:
مال حاصل کرنے کا ایسا طریقہ جسمیں دینے والا اگر رضامندی کا جھوٹا مظاہرہ بھی کرے تب بھی اسکا شمار رشوت میں ہوگا ۔

تفسیر قرطبی:
ایسا مال جسمیں دینے والے کی مرضی شامل نہ رہی ہو یا غیر حقیقی اور غیر مفید جگہ اس کو خرچ کیا جائے۔

تفسیر طبری:
اللہ نے اسکا کھانا مباح قرار نہیں دیا ۔

تفہیم القرآن:
مولانا مودودی رحمة اللہ لکھتے ہیں باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے جو شرعاً اور اخلاقاً ناجائز ہوں۔ آپس کی رضامندی سے مراد یہ ہیکہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دباو سے ہو نہ فریب و دغاسے۔ رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر فی الواقع وہ رضامندی مجبورانہ ہوتی ہے۔

تفسیر بحر محیط:
ابو حیّان نے فرمایا کہ اسکے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنا ہی مال ناجائز طور پر کھائے۔ مثلاً ایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسراف ِ بے جا ہیں۔ وہ بھی اس آیت کی رو سے ممنوع و ناجائز ہیں۔
(معارف القرآن جلد 2 ، صفحہ 377)

معارف القرآن:
مولانا مفتی محمد شفیع رحمة اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کا مالِ ناحق کھانا حرام ہے لیکن اگر رضامندی کے ساتھ یعنی بیع و شراء یا ملازمت و مزدوری کا معاملہ ہو تو جائز ہے۔ اگر رضامندی درحقیقت مجبوری کی رضامندی ہو تو یہ شرعاً کالعدم ہے۔ جیسے تاجر کا ذخیرہ اندوزی کرکے قیمت بڑھادینا جسے گاہک رضامندی سے خریدنے پر مجبور ہوتاہے۔ اسی طرح شوہر ایسی صورتیں پیدا کردے کہ بیوی اپنا مہر معاف کرنے پر مجبور ہوجائے تو یہ رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں۔ یا کوئی آدمی یہ دیکھے کہ میرا جائز کام بغیر رشوت دیے نہیں ہوگا تو رشوت پیش کرنے کی یہ رضامندی بھی رضامندی نہیں، اسلئے شرعاً کالعدم ہے۔

تفسیراحمد رضا خان :
اعلٰحضرت مولانا مولوی مفتی شاہ محمد احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمة اللہ اپنی تفسیر ” خزائن العرفان فی تفسیر القرآن“ میں اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں کہ باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایاگیاہے۔خواہ وہ لوٹ کر یا چھین کر یا چوری سے یا جوّے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہیں۔ (صفحہ 35) ۔
آگے صفحہ 98 پر فرماتے ہیں اس آیت کی رو سے چوری ،خیانت ، غصب ، جوّا، سود جتنے حرام طریقے ہیں سب ناحق ہیں۔

تفسیر ماجدی:
مولانا عبدالماجد دریاآبادی رحمة اللہ فرماتے ہیں کہ بالباطل یعنی غیر مشروع طریقوں پر۔ خیانت اور بد دیانتی کی تمام صورتوں کی بندش اس ایک حکم کے اندر آگئی۔ کاش اسلام کے ایک اسی قانون پر عمل ہو اور آج دنیا کی کایا پلٹ جائے۔

بیان السبحان:
(از مولانا سید عبد الدائم جلالی رحمة اللہ ، رسالہ مولوی 1356ھ ، دہلی)

مولانا فرماتے ہیں کہ پرائے مال میں تصرف ِ ناحق قطعاً حرام ہے۔ چوری، ڈاکہ، غبن، خیانت، فریب، دغا، رشوت، غصب اور دیگر اقسام کے تمام ناجائز ذرائع سے مال حاصل کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ تجارت سے منافع حاصل کرنا جائز ہے۔ تجارت بغیر تراضی طرفین کے نہیں ہوتی۔ کسی کو مجبور کرکے خرید یا فروخت کا اقرار کرنا شرعی تجارت کیلئے کافی نہیں ہوتا۔

تفسیر حقانی :
(از علامہ محمد عبدالحق دہلوی رحمة اللہ)

جب عورتوں کے متعلق نکاح کے احکام بیان کئے اور مہر ادا کرنے کی تاکید فرمائی تو اسکے بعد جو کچھ باہمی کج اخلاقی اور جورو خسم کی بدمزگی سے برے نتائج پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح یوں فرماتا ہے تاکہ باہم اپنے مال دغا فریب کے طور پر نہ کھاجایا کرو، نہ بیوی میاں کے مال میں ایسا کرے نہ میاں بیوی کے مال میں ایسا کرے۔ … یا یوں کہو کہ نکاح میں مال کا صرف تھا اسکے ساتھ اور ناجائز تصرفات کا منع کرنا بھی مناسب ہوا۔ اپنے مالوں کو باطل طور سے نہ کھاو ، اسمیں اپنا ذاتی مال بھی آگیا۔ اسمیں اسراف اور طرح طرح کی فضول خرچی کرنا جو عموماً شادی بیاہ میں ہوتی ہے۔ باطل طور سے کھانا ہے جو انجام کار اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔

تفسیر کمالین و جلالین :
(از علامہ جلال الدین سیوطی رحمة اللہ، شرح از مولانا محمد نعیم رحمة اللہ، استاذ تفسیر دارلعلوم دیوبند)

علامہ سیوطی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے کا مال ناحق ناروا نہ کھاو۔ ہاں اگر کاروبار کے طریقے پر ہو اور خوشدلی کے ساتھ ہوتو تمہارے لئے جائز ہے۔ لاتاکلوا سے مراد چونکہ مال کی بڑی منفعت کھانا پینا ہے اسلئے تخصیص کردی ورنہ مطلق استعمال اور لینا دینا ممنوع ہے۔

علامہ شیخ احمد بن حجر بوطامی رحمة اللہ :
(زواجر، ترجمہ نصیر احمد ملی و مختار احمد ندوی، دارالسلفیہ، بمبئی)

علامہ بوطامی رحمة اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی انسان سے بلا عوض کوئی چیز لینا باطل کہلاتاہے۔ اکل بالباطل کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہیکہ ظلم و تشدّد سے کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ ہیکہ کھیل کھیل یا مذاق میں کسی کا مال ہتھیا لیا جائے۔ چنانچہ جوئے بازی اورلہو و لعب میں رقمیں ہتھیا لینا بھی اسی قبیل سے ہے۔

تفسیر ابن کثیر
(از علامہ عمادالدین ابن کثیر علیہ الرحمة)

علامہ ابن کثیر علیہ الرحمة اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت محکم ہے۔ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں نے ایک دوسرے کے گھر کھانا چھوڑدیاجس پر آیت لیس علی الاعمیٰ اتری ۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ کھانے سے منع فرمارہاہے۔ خواہ اس کمائی سے ہو جو شرعاًحرام ہے جیسے سود خوری، قمار بازی۔ اور ایسے ہی ہر طرح کی حیلہ سازی ، گو اسے شرعی صورت جواز کی دے دی ہو۔

کیا اس کے بعد بھی کوئی شک رہ جاتاہے کہ جوڑا جہیز کے ذریعے وصول ہونے والا مال ایک رشوت ہے اور ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے حاصل کرنے کے مترادف ہے؟
اللہ نے ایک دوسرے کا مال اسلئے کہا ہے تاکہ امت کو وحدت کا احساس دلایا جائے۔ باہمی تعاون اور مشترکہ ذمہ داری کا احساس ہو۔ یہ احساس ہوکہ دوسروں کا مال اتنا ہی اہم اور قابلِ احترام ہے جتنا اپنا مال۔ دوسروں کے مال کی بھی اتنی ہی حفاظت کی ذمہ داری کا احساس ہو جتنا اپنے مال کی۔ اگر دوسرے کے مال پر سماج یا رواج یا عرف کے نام پر شریعت کے حکم کی پروا کئے بغیر وہ دست درازی کرتاہے تو یہ پوری امت کے مال پر ظلم و زیادتی کرتاہے۔ امت ایک درخت کی مانند ہے اور ہر مسلمان اسکی ایک ایک ڈال پر بیٹھا ہے۔ اگر ہر شخص دوسری ڈال کو کاٹنے لگے تو اس درخت کا کیا حال ہوگا اسکا اندازہ آج امت ہی کے سیاسی ، اخلاقی اور اقتصادی حالات کو دیکھ کر لگایاجاسکتاہے۔ جس سماج میں لوگ اسطرح ایک دوسرے کا مال آزادانہ اور بے باکانہ کھانے لگیں ، امیر لوگ اپنی مرضی سے غلط طریقوں سے کھلانے لگیں تواس قوم کے مال کو غیر قومیں اور زیادہ بے دردی سے ہڑپ کرجانے کی درپہ ہوجاتی ہیں۔ شائد یہی وجہ ہیکہ ہندوستان میں مسلمانوں سے رشوت لینا اکثریتی طبقے کے نزدیک محبوب ہے اسی لئے کبھی نوجوانوں کو گرفتار کرکے، کبھی جہیز اور ہراسانی کے مقدمات میں بُک کرکے پولیس والے، وکیل اور جج جتنا مسلمانوں سے لوٹتے ہیں اتنا کسی او ر قوم سے نہیں لوٹتے۔

بنی اسرائیل کی رشوت خوری اور ہماری جہیز خوری
تفسیرکشاف زمخشری (جلد 1، صفحہ 614) میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے نقل ہیکہ
” بنی اسرائیل کے حکام کا یہ حال تھاکہ فریقین میں سے کوئی جب ان کے پاس آتا تھا تو رشوت کو اپنی آستین میں رکھ لیتا۔ اور حاکم کی توجہ آستین کی طرف مبذول کرتا۔ پھر اپنی ضرورت کا اظہار کرتا۔ حاکم رشوت پر فریفتہ ہوکر اسکی طرف اسطرح مائل ہوتا کہ اسکی باتیں پوری توجہ سے سنتا اور دوسرے فریق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اسطرح یہ حکام رشوت کھاتے اور جھوٹی باتیں سنتے تھے۔ “
اسی واقعے کو قرآن نے یوں بیان کیا کہ
سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ......
المائدة:42

(اے پیغمبر ) یہ لوگ جھوٹی باتیں بنانے کیلئے جاسوسی کرنے والے اور رشوت کا حرام مال کھانے والے ہیں۔

سحت کیا ہے اسکی تفصیل آگے ”ھدیہ کیا ہے“ کے باب میں آئیگی۔
آستین میں رشوت چھپاکر حاکم کی توجہ مبذول کروانے کی جو شکلیں آج مروّجہ ہیں وہ کسی بھی اخبار کے ’ضرورتِ رشتہ ‘ کالم کو دیکھئے کہ لڑکے والوں کی لالچ اور حرص پوری کرنے کے لئے کس طرح لڑکی والوں کو اشتہارات دینے پڑتے ہیں۔
لڑکی برسرِ ملازمت ہے۔
لڑکی کے بھائی باہر سے آئے ہوئے ہیں شادی ایک ماہ میں کردی جائیگی۔
لڑکی صاحبِ جائیداد ہے۔
لڑکے کیلئے ویزا کا انتظام کردیا جائیگا۔ یا لڑکے کو کاروبار لگا کر دیا جائیگا۔
شادی معیاری کی جائیگی۔
لڑکی یہ یہ ڈگریاں رکھتی ہے۔
لڑکی اقامہ ہولڈر ہے۔
لڑکی کے پاس گرین کارڈ ہے۔

اور جو رشوت والی آستین لوگ اشتہارات کے ذریعے نہیں دکھا سکتے وہ مشاطہ، پیام گھر یا درمیانی لوگوں کے ذریعے دکھاتے ہیں اور لڑکے والے آپ ہی آپ کھنچے چلے آتے ہیں۔ مثلاً ۔۔۔۔۔
لڑکے کی پڑھائی پر دس لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ (مطلب یہ ہیکہ کم سے کم دس لاکھ کا اگر نقصان پورا کردیا جائے تولڑکا آپ کا۔)
فلاں گھر کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا وہ لوگ یہ یہ اور وہ وہ آفر کرہے تھے لیکن ہم نے انکار کردیا کیونکہ ہم لین دین کوغلط سمجھتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ جتنا آفر ہمیں دوسروں سے ملا ہے اگرآپ اس سے زیادہ آفر کرسکتے ہیں تو ہم آپ کی لڑکی سے شادی کیلئے تیارہیں)۔
لڑکا سعودی عرب میں انجینئر ہے اور فیملی ویزا بھی ہے۔ (مطلب یہ ہیکہ لڑکا دلہن کو ساتھ رکھے گا اُسے جہیز کا سامان کم اور نقد زیادہ چاہیے۔)
کوئی لین دین کی شرط نہیں فقط شادی معیاری چاہئے۔ (مطلب یہ کہ جہیز تو معیاری مطلوب ہے ہی جسے کہنے کی حاجت نہیں ، اسکے علاوہ شادی خانہ عالیشان 5-star قسم کا ہونا چاہئے )۔
لڑکے نے بہنوں کی شادی پر اتنے لاکھ خرچ کیے تھے یا لڑکے کے بڑے بھائی کی پچھلے سال شادی ہوئی انہیں اتنے لاکھ نقد، سامان اور کار جہیز میں ملی تھی۔ (مطلب یہ ہیکہ جتنا اسکے بڑے بھائی کی بیوی جہیز میں لائی ہے اگر اس سے زیادہ آپ دے سکتے ہیں تو آپ کی بیٹی کی شان بڑھے گی ورنہ اُسے بڑی بہو کے سامنے احساسِ کمتری رہے گا۔ )
جو آستین کی طرف لڑکی والے لڑکے والوں کی توجہ مبذول کراتے ہیں وہ اسطرح سے ہوتے ہیں۔ لڑکی کیلئے اتنے لاکھ کا جہیز تیار ہے۔ بڑی لڑکی کی شادی پر یہ یہ خرچ کیا گیاتھا۔ منجھلی لڑکی کی شادی پر ان کے والدنے فلاں جگہ فلیٹ یا پلاٹ دیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔

جوڑا جہیز کے کاروبار میں واسطہ بننے والوں کا انجام
جوڑے جہیز کے معاملات طئے کرنے والے، طئے کروانے والے تمام مہربان اس حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رشوت لینے والے، دینے والے اور واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد علیہ الرحمة اور طبرانی کے علاوہ کئی اور محدثین نے نقل کیا ہے جنکی فہرست طویل ہے۔ اسکے علاوہ یہ احادیث بھی کئی محدّثین نے نقل کی ہیں جنکی فہرست طویل ہے اور جو اکثر پیش بھی کی جاتی ہیں کہ :

الراشي و المرتشي في النار
رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

لعن الله الراشي والمرتشي
رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔

لعن الله الراشي والمرتشي في الحكم
اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

من اخذ الرشوة في الحكم كانت ستراً بينه و بين الجنّة
جس نے فیصلہ کیلئے رشوت لی وہ رشوت اسکے اور جنت کے درمیان حائل ہوجائیگی۔

لا يحل مال امري مشهر الا بطيب من نفسه
کسی بھی شخص کا مال سوائے اسکے دل کی خوشی کے حلال نہیں ۔

فیصلے میں رشوت کفر ہے اور لوگوں کے درمیان یہ مالِ حرام ہے۔
طبرانی، بروایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، مجمع الزوائد منبع الفوائد ، جلد 4، صفحہ 199

حَکَمْ کے تعلق سے ایک اہم وضاحت :
لوگ لفّاظی کے ماہر ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال کے : خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔
مذکورہ بالا احادیث میں حاکم یا حَکَمْ کے رشوت لینے کی حرمت آئی ہے۔ یہاں کچھ لوگ فرار کا ایک جواز یہ پیدا کرتے ہیں کہ حاکم یا حَکَمْ تو بادشاہ، گورنر یا قاضی یا جج کو کہتے ہیں لہذا دلہا یا دلہا والے اس حکم کی تعریف میں نہیں آتے۔ یا یہ کہہ کر ایسی احادیث کو فوری رد کرتے ہیں کہ راست جوڑا جہیز کے الفاظ کہہ کر تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس سے راست دلہا یا دلہن والے مخاطب نہیں ہیں۔ یہ خود فریبی اور جواز تراشی ہے ۔ یہی وہی بنی اسرائیل کی چال ہے جسکا تفصیلی ذکر باب ’فرار کے فلسفے ‘ میں کیا گیا ہے۔ اس سے وہ اپنا مقصد تو نکال سکتے ہیں لیکن شریعت کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔حَکَمْ عربی زبان میں کسی بھی قسم کے فیصلے کرنے والے کو کہتے ہیں ۔ فٹ بال کے ریفری کو بھی حَکَمْ ہی کہاجاتا ہے۔ اسکے علاوہ جو ٹیچر کئی طلباء کے پرچے جانچتا ہے کسی کو پاس یا فیل کرسکتاہے وہ بھی حَکَمْ ہے ۔ پولیس والا جو دو افراد کی لڑائی کے درمیان سمجھوتہ کرواتاہے یا کسی ایکسیڈنٹ کی رپورٹ لکھتاہے وہ بھی حَکَمْ ہے۔ انٹرویو لے کر کسی کو نوکری کیلئے منتخب کرنے والا بھی حَکَم ْ ہے۔ عدالت میں فیصلہ سنانے والا قاضی بھی حَکَمْ کہلاتاہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے درمیان اگر بات بڑھ کر طلاق تک جا پہنچے تو دونوں کے درمیان مصالحت یا کونسلنگ کیلئے جو ثالث ہوتا ہے قرآن نے اسکو بھی حَکَم کہاہے۔

اسی طرح شادی کے رشتوں میں جہاں ایک سے زیادہ رشتے آجائیں وہاں دلہا یا اسکے والدین یا جو بھی فیصلہ کرنے والے ہیں وہ حَکَمْ کہلائیں گے۔ وہ ایک بھی ہو سکتا ہے یا ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کے پاس جب ایک سے زیادہ رشتے آتے ہیں تو کسی ایک پر ان کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں اگر وہ جہیز اور مال کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ رشوت ہے۔ ایسا بھی ضرور ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ رشتے جب آتے ہیں اور سارے ہی برابری کے ہوتے ہیں یعنی سبھی برابر کا مال اور جہیز لانے والے ہوتے ہیں تب خوبصورتی، دینداری، یا خاندان وغیرہ کو کسوٹی ضرور بنایا جاتا ہے ، لیکن ان چیزوں کی حیثییت ثانوی ہوتی ہے۔ مال اور جہیز ترجیحات Priorities میں پہلے نمبر پر ہی ہوتے ہیں۔



منبع : مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User