1) مولانا ابوالحسن علی ندوی (رحمة اللہ علیہ) :
لین دین مطالبہ یا فرمائش کے ذریعہ ہو کہ تلک ، گھوڑے جوڑے یا جہیز کے نام پر۔ اس کو معروف و متداول کی اصطلاح سے تعبیر کر کے جائز کرلیا گیا ہے ۔ یہ ایک جھوٹ اور شریعت کی غلط تعبیر ہے جو مالی و اقتصادی منافع کے حصول کی خاطر کی جاتی ہے ۔ یہ ہندو معاشرے کی تقلید ہے۔ اگر مقاصدِ شریعت ، اللہ و رسول کے منشا اور اسلام کے نظام عدل کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ خلافِ اسلام ، خلافِ انسانیت اور تمدن و معاشرہ کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہے ، ضرورت ہے کہ ان مقالات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے ۔
اصلاح و تربیتی کام کرنے والے علماء ، ائمہ و خطباء اس کو اپنا موضوعِ تقریر و تحریر بنائیں اور مجالس و تقریبات میں اس کو اپنے اپنے انداز میں پیش کریں اور عہد لیں کہ لوگ اس رسمِ قبیح سے نہ صرف خود احتراز کریں گے بلکہ اگر ضرورت ہو تو اس کے خلاف دستخطی مہم اور تحریک چلائیں گے یہاں تک کہ خود لڑکی کے سرپرستوں اور اولیاء کی طرف سے پیش کش ہو تب بھی اس کو قبول نہ کریں گے ۔ یہ تحریک مسلم معاشرے کی حفاظت کے لیے وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اور اس میں کوتاہی و غفلت بڑے خطرات کا پیش خیمہ اور خدا اور رسول کی ناراضگی کا ذریعہ ہے ۔
وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب
الأنفال:25
ترجمہ: اور ایسے فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گناہگار ہیں اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے ۔
5 نومبر 1986 ء یکم ربیع الاول 1407 ھ
پیش لفظ برائے : ’جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ شرعی احکام کی روشنی میں ‘
مصنف : مولانا محمد برہان الدین سنبھلی
2) مولانا مجاہد الاسلام قاسمی (رحمة اللہ علیہ) :
1996ء میں جدہ میں سوشیل ریفارم کمیٹی کی جانب سے انسدادِ جوڑا جہیز کی ایک سہ ماہی مہم چلائی گئی تھی۔ مولانا اُس وقت اتفاقاً جدہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ محلہ عزیزہ میں منعقدہ ایک جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا:
’ یہ ایک سوشیل بلیک میل ہے۔ خوشی سے دینا اور قبول کرنا مطالبے یا فرمائش سے حاصل کرنے سے کہیں زیادہ خطرناک کاروبار ہے کیوں کہ اس میں مکر کا پہلو ہے ۔ اگر لڑکا لینا نہ بھی چاہے تو لڑکی والے زبردستی اس لیے بھی دیتے ہیں کہ بعد میں لڑکی اور اس کے ماں باپ کو حقیر نہ سمجھا جائے ۔ جو لوگ خوشی سے دیتے ہیں وہ نادار اور غریب لڑکیوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں ، میرے نزدیک اصل مجرم خوشی سے دینے والے ہی ہیں ‘۔
نومبر 1996ء
3) مفتی خلیل احمد۔ شیخ الجامعہ نظامیہ ، حیدرآباد
آج کل معاشرہ میں جو خرابیاں عام ہوگئی ہیں ان میں گھوڑا جوڑا اور جہیز کا مطالبہ اور شادی بیاہ کے موقع پر بعض بے جا تکلفات بھی ہیں۔ جن کی وجہ سے غریب بلکہ متوسط طبقہ کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں اور وہ لوگ پریشان ہیں۔ ہماری شریعت کی بنیاد عدل و انصاف ، ہمدردی و ایثار پر رکھی گئی ہے ۔ اخلاق حسنہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مروت و مودت معاشرہ کے لیے ضروری ہے اس کے بغیر ربط باہمی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ گھوڑا جوڑا ایک قسم کی رشوت اور ظلم ہے جس کو شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے سب سے بڑھ کریہ کہ سوال کرنا مانگنا ذلت ہے جو ناجائز ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خرابی اس پر مسترد رہے کہ اس میں دوسرے کو بے جا طور پر مشقت میں ڈالنا اور پریشان کرنا ہے۔ کیا یہ ساری باتیں درست قرار دی جاسکتی ہیں؟ ہرگز نہیں
جہیز لڑکی کا حق ہے ۔ لڑکی والوں کا اختیار ہے۔ اگر وہ چاہیں تو دیں جتنا چاہیں دیں اس میں لڑکے کو یا لڑکے والوں کو مطالبہ کرنے کا حق نہیں ۔ لیکن آج کل معاملہ برعکس ہے اس میں مطالبہ کیا جاتا ہے اصرارکیا جاتا ہے اورمتعلقین کی خواہشات سنائی جاتی ہیں ۔
شریعت میں صرف اس حد تک اجازت ہے کہ لڑکی والے اپنی خوشی سے جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں کسی کو مانگنے اور مطالبہ کرنے کا حق نہیں خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔ اسی طرح کھانا کھلانے کا مطالبہ بھی غیر شرعی ہے ۔
4) مولانا حمید الدین عاقل حسامی بانی و مہتمم دارالعلوم حیدرآباد
مولانا حمید الدین عاقل حسامی، بانی و مہتمم دارالعلوم حیدرآباد نے سال 1424ھ مطابق 2003ء عیدالاضحیٰ کے خطبہ کے موقع پر عیدگاہ میر عالم تالاب، حیدرآباد میں لاکھوں سامعین کے سامنے اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا اور صاف لفظوں میں فرمایا کہ جس طرح تم پر سور کا گوشت حرام ہے اسی طرح سمجھ لو کہ جوڑا جہیز بھی حرام ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سامعین سے خواہش کی کہ جو اتنی ہمت مردانہ رکھتے ہیں اور جوڑا جہیز نہ لینے کا عزم کرتے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں ۔
سینکڑوں نے ہاتھ اٹھائے ۔الحمدلله۔
ایک عالم دین کا یہ جراءت مندانہ اور حکیمانہ عمل اس موضوع پر کئی کتابیں لکھنے اور کئی گھنٹے تقریریں کرنے پر بھاری ہے ۔ اگر سینکڑوں ہاتھ اٹھانے والوں میں سے دس نوجوان بھی اپنی زندگی میں اس حرام سے بچ گئے اور اپنی نسلوں کو بغیر جوڑا جہیز لئے مکمل حلال کمائی اور حلال بچت کی بنیادوں پر پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس عالم دین کی آخرت میں کامیابی کے لیے کافی ہے ان شاء اللہ۔ آج ضرورت ہے کہ ہر عالم دین اس مشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے ۔
5) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔ حیدرآباد
روزنامہ منصف میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
” آج کل شادی کے موقع پر لڑکی والوں سے لین دین کی جو صورت مروج ہوگئی ہے یہ قطعاً حرام ہے اور اس کا حکم رشوت کا ہے ۔ اس کا لینا بھی حرام ہے اور لینے کے بعد اگرمرد کی طرف سے مطالبہ ہو تو واپس کردینا واجب ہے ۔ اور شدید ضرورت کے بغیر ( لڑکی والوں کی طرف سے ) دینا بھی جائز نہیں ۔ فتاوی قاضی خان میں ہے کہ ’ ’اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے یہ شرط رکھے کہ وہ مہر اُسے ہبہ کردے گی تو یہ شرط باطل ہے اور اگر عورت وہ مالِ مہر ہبہ کر بھی دے تو یہ مال مرد کے لیے جائز نہیں کیوں کہ نکاح میں عورت پر خرچ کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی ۔
و في النكاح لايكون العوض علي المرأة
’ پس یہ جو مطالبہ کر کے لڑکی والوں سے رقم یا سامان وصول کیا جاتا ہے وہ حرام ہے ‘ ۔
بعض لوگ جو ایسے مال نقد سے نیک کاموں جیسے مسجد کے لیے چندہ دیتے ہیں یہ تو گناہ بھی ہے اور خلاف ادب بھی ۔ اس لیے اس سے احتراز ر کرنا واجب ہے ۔ اگر مسجد کے ذمہ داران اس رقم کو مسجد کے لیے استعمال کریں گے تو مسجد کی بے احترامی کے مرتکب اور سخت گناہ گار ہوں گے ‘۔
بتاریخ 2 / جنوری 2003 ء
اندازہ لگائیے ایسی آمدنی جس کا کسی نیک کام پر خرچ کرنا بجائے ثواب کے الٹا عذاب لے آئے اس کے ذریعے آدمی اپنی ضمیر کی تسلی کا سامان تو کرلے گا لیکن اپنے لیے دوزخ کی آگ بھڑکائے گا۔ ایسی آمدنی کس کام کی ؟
6) مولانا محمد برہان الدین سنبھلی (رحمة اللہ علیہ)
شیخ الحدیث دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ۔
من السحت مايا خذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه حتي لوكان بطلبه يرجع الختن .
( ردالمختار معروف بہ شامی )
وہ مال سحت ( حرام ناپاک خبیث ) ہے جو کہ خسر اپنے داماد سے اپنی بیٹی کے نکاح پر ( مہر کے علاوہ ) حاصل کرتا ہے ، چاہے دینے والے نے خوشی سے دیا ہو۔ چنانچہ چاہے تو داماد اس کو واپس لے سکتا ہے، اگر طلب پر دیا تھا ۔
جب داماد سے مہر کے علاوہ کچھ اور وصول کرنا اتنا سخت گناہ ٹھہرا تو داماد کا بجائے دینے کے الٹا خسر سے وصول کرنا اُس سے بھی کہیں زیادہ بڑے درجے کا گناہ ہے جو کہ سحت کی تعریف میں داخل ہے ۔ قرآن میں یہودیوں کے جرائم کی جو طویل فہرست ہے اس میں سے ایک سحت بھی ہے ۔ یعنی ایسا حرام مال جو دوسروں سے مکرو فریب کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جیسے ۔۔۔
لا يجوز ان تجبر المراة علي ان تتجهزاليه بشيي اصلا لامن صداقها ولا من غيره من سائر مالها والصداق كله لها تفعل فيه كله ماشأت
(فتاوی عالمگیری )
عورت کو کچھ جہیز دینے پر مجبور کرنا قطعاً جائز نہیں نہ مہر کی رقم سے اور نہ اس کے کسی دوسرے مال سے ۔ پورا مہر اسی کا ہے اور اسے اس پر پورا حق ہے جو چاہے کرے ۔
وَتَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون
لَوْلاَ يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَصْنَعُون
المائدة:62-63
ترجمہ : آپ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ گناہ اور ظلم کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کررہے ہیں کیوں ان کے علماء اور بزرگ ان کے گناہ پر زبان نہیں کھولتے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے ؟ یقیناً بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کررہے ہیں ۔
سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ...
المائدة:42
یہ لوگ جھوٹ سننے والے اور سحت یعنی حرام مال کھانے والے لوگ ہیں
... وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ...
النساء:161
اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ۔
اس سلسلے میں دو احادیث بھی قابل غور ہیں ۔
فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے :
لا يدخل الجنة لحم نبت من السحت و كل لحم نبت من السحت كانت النار اولي به ( مشكوة )
سحت یعنی حرام مال جس نے استعمال کیا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ زیادہ مناسب ہے ۔
لايدخل الجنة جسد غذي بالحرام
حرام غذا سے پلا ہوا جسم جنت میں نہیں جاسکے گا ۔
ونیز احادیث سے ثابت ہے کہ جس کمائی میں حرام مال شامل ہو اس میں سے برکت اٹھالی جاتی ہے ، اس کی نمازیں ، دعائیں ، حج و عمرے بھی قبول نہیں کئے جاتے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شوہر کی بھیجی ہوئی رقم سے گھریلو سامان خرید کر لڑکی کے ساتھ بھیجنا ’جِہاز ‘ کہلاتا ہے ۔ غالباً ہندوستان میں جہیز اسی جِہاز کی بگڑی ہوئی شکل ہے بلکہ شکل کے ساتھ یہاں اس کی حقیقت بھی بگاڑ دی گئی ہے ۔
فقہ کی کتابوں میں مذکورہ اس قسم کی جزئیات سے موجود ہ جہیز کی جو شکل بنتی ہے وہ حرام ہے ۔ اس بارے میں استدلال کرنا اور ڈھٹائی کے ساتھ کسی بھی طرح سے جواز نکالنے کی کوشش کرنا درست نہیں ہے ۔ یہ ایک قبیح و شرمناک رسم ہے جو تلک اور دوسرے ناموں سے رائج ہے جس میں واقعتاً شوہر کو خریدا جاتا ہے لیکن یہ انسانیت سوز رسم اکاس بیل کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ اس لیے علمائے امت اور مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں ۔ اس سے غفلت برتنا ان کے لیے اب گوارا بلکہ جائز نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے ۔ ہزاروں جوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں اور بعض تو خود کشی تک کرلیتی ہیں اور بعض مرتد بھی ہوجاتی ہیں اور غیر مسلمین سے شادی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اگر اس طرف فوری توجہ نہ کی گئی تو اس طرح کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جائیں گے اور اس کی ذمہ داری سے مسلمان خاص طور پر با اثر لوگ اور اہل علم بچ نہیں سکیں گے ۔
( ماخوذ ’ نقد یا جہیز کی رقم شرعی احکام کی روشنی میں ‘ ، ناشر ڈاکٹر منظور عالم، انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز ، دہلی ۔ 1986ء )۔
7) امارت شرعیہ بہار :
( جہیز کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں )
لعن رسول الله الراشي و المرتشي ومن الرشوه مااخذه ولي المرأه قبل النكاح اذا كان بالسؤال اوكان اعطاء الزوج بناء علي عدم
( مجموعہ فتاوی عبدالحئی )
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ اور یہ بھی رشوت ہے کہ عورت کا سرپرست نکاح سے قبل مہر کے علاوہ کچھ اور طلب کرے جس کے نہ دینے کی صورت میں رشتے سے انکار کا خدشہ ہو ۔
پوری اسلامی تاریخ میں مرد کا عورت کے سرپرستوں سے لینا کہیں کسی روایت میں نہیں۔ یہ بدرجہ اولی حرام ہے اور علامہ ابن عابدی شامی نے اسے رشوت کے حکم میں داخل کیا ہے جو بدرجہ سحت ہے ۔ یعنی ایسی مکروہ چیز جسے ہاتھ لگاتے ہوئے کراہت ہو ۔
8 ) علامہ یوسف القرضاوی ۔ مصر
عصر حاضر کے ممتاز عربی عالمِ دین ، جامعہ ازہر، مصر کے فضیلت یافتہ ، دوحہ یونیورسٹی میں برسہا برس سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ سعودی ٹی وی پر بھی ایک طویل عرصے تک آپ کا ہفتہ وار دینی دروس و سوالات و جوابات کا سلسلہ رہ چکا ہے ۔جوڑے جہیز اور دیگر رسومات کی حرمت کو سمجھنے کے لیے علامہ کی اس تحریر کو پہلے سمجھنا ناگزیر ہے ۔
” فقہاء نے قاعدہ یہ مقرر کیا کہ جو چیز حرام کا باعث بنے وہ بھی حرام ہے ۔ مثلاً زنا ۔۔۔ اس کی طرف لے جانے والی ہر شئے جیسے گناہ آمیز خلوت Mixed Gathering ، بے جا اختلاط ، Dating ، برہنہ تصاویر ، عریاں لٹریچر ، فحش گانے وغیرہ ۔
’ گناہگار صرف وہ شخص نہیں ہے جو حرام کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس کام میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو اس میں کسی نہ کسی طرح معاون رہے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ صرف شراب پینے والے پر لعنت فرمائی ہے بلکہ اسکو کشید کرنے والے، اُٹھاکر لے جانے والے اور پینے والے ان تمام پر لعنت فرمائی ہے۔ اسی طرح سود کھانے والے ، کھلانے والے ، اس کی دستاویز لکھنے والے اور گواہ بننے والے سب پر لعنت فرمائی ہے اس طرح جو فعلِ حرام میں معاونت کا باعث بنے ، وہ بھی حرام اور جو شخص اس کی معاونت کرے ، وہ بھی حرام کا مرتکب ہے “۔
ماخوذ ”اسلام میں حلال و حرام“ صفحہ:46 ، ترجمہ شمس پیر زادہ ناشر مکتبہ دارالسلفیہ، دہلی۔
اس فتوے کی روشنی میں جہیز، جوڑا اور تلک جیسی تمام منکرات کو رواج دینے والے آیا وہ لڑکے یا لڑکی کے والدین ہوں یا مشاطہ ہوں یا ایسی شادیوں میں شرکت کرکے ہمت افزائی کرنے والے ہوں تمام لوگ اس حرام رسم کو بڑھاوا دینے کے مجرم اور گناہگار ہیں۔یاد رکھیئے حرام کیلئے حیلے کرنا بھی حرام ہے۔ لوگ مختلف مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ایسی شادیوں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ جہیز اور دعوت کی تعریف بھی کرتے ہیں۔جب یہ واضح ہے کہ جوڑا جہیز ایک رشوت ہے اور رشوت حرام ہے تو اس کام میں مدد کرنے والے برابر کے شریک ہیں ۔ یہ سب ایک کارِ حرام کی ہمت افزائی کرنے کے برابر ہے ۔
آگے علامہ یوسف القرضاوی نے تین اہم احادیث نقل کی ہیں۔
» لا تركتبوا ماارتكب اليهود و تستحلوا محارم الله بادني الحيل
یہودیوں نے جس کا ارتکاب کیا اسکا تم ارتکاب نہ کروکہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ادنیٰ حیلوں کے ذریعے حلال لرنے لگو۔ (صفحہ 47)
» ليستحلن طائفة من امتي الخمر يسمونها بغير اسمها
میری امت کا ایک گروہ شراب کا نام بدل کر اسکو حلال کرلیگا۔ (صفحہ 47)
» ياتي علي الناس زمان يستحلون الربا باسم الييع
ایک زمانہ آئیگا جب لوگ سود کو بیع کے نام سے حلال کرلیں گے۔ (صفحہ 47)
عہدِ حاضر میں صرف شراب یا سود کا ہی نام نہیں بدلا گیا بلکہ اور بھی کئی منکرات و فاسدات کے نام بدل کر انہیں حلال کرلیاگیاہے۔ جیسے جوڑا جہیز کو ہدیہ یا تحفہ جو خوشی سے دیا گیا ہو۔
9) مولانا مفتی فضیل الرحمان ھلال عثمانی :
مفتی پنجاب و شیخ الجامعہ دارالسلام ، مالیر کوٹلہ و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
مرد کی طرف سے نکاح میں مہر اور شادی کے بعد ضروری ساز و سامان کا بندوبست شریعت میں لازمی ہے اگر دونوں میں سے کسی طرف سے اس کا مطالبہ ہو یا المعروف ( یعنی رواج کے مطابق ) لین دین ہو تو یہ شرعاً رشوت ہے جو ہر حال میں ناجائز ہے ۔
اخذا هل اخذا هل المرأه شيئا عندالتسليم فللزوج ان يسترده لانه رشوه
(بحرالرائق)
رخصتی کے وقت عورت کے گھر والوں کا کچھ لینا رشوت ہے ۔ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو واپس لے ۔یہ وضاحت ناگزیر ہے کہ شریعت نے عورت کے گھر والوں کا مرد سے کچھ لینا حرام کیا ہے ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ مرد ، عورت کے گھر والوں سے لے سکتا ہے ۔ شریعت کا مقصد نکاح کو آسان اور کم سے کم خرچ کا معاملہ بنانا ہے ۔ دیگر فقہی احکامات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہر کے علاوہ کسی بھی فریق کی جانب سے کسی بھی حیلے کے ذریعے لین دین اسی حکم میں داخل ہے ۔
( ماخوذ دفعہ 36 ، اسلامی قانون نکاح ، طلاق و وراثت اشاعت 1994ء )
10) مولانا محمد تقی عثمانی ، پاکستان :
اسلام نے نکاح کو اتنا سادہ اور آسان بنادیا ہے کہ اگرولی کے علاوہ صرف دو گواہ موجود ہوں ، ایجاب و قبول ہو تو نکاح ہوجاتا ہے نہ عدالت کی ضرورت ہے نہ قاضی یا کسی عالم دین کی موجودگی ضروری ہے ، خطبہ مسنون ہے لیکن نکاح کی صحت خطبہ پر موقوف نہیں ، اس کے بغیر نکاح میں کوئی نقص نہیں آتا البتہ عورت کی عظمت و اکرام کو قائم رکھنے کے لیے مہر ضروری ہے ۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ولیمہ کی ترغیب دی ہے لیکن حسب استطاعت کی شرط کے ساتھ۔ نہ اس کی مقدار شرط ہے نہ مہمانوں کی تعداد۔ اس کے لیے قرض یا ادھار پیسہ لینا یا لوگوں سے مدد طلب کرنا شرعاً نا پسندیدہ عمل ہے ۔
اسلام نے نکاح جیسی اہم ترین تقریب کو اتنا آسان بناکر امت مسلمہ پر ہی نہیں پوری انسانیت پر ایک احسان عظیم کیا ۔ تصور کیجئے اتنے آسان نکاح کا طریقہ اگرکسی معاشرے میں موجود ہو تو کیا زنا باقی رہے گا ؟ لیکن افسوس کہ اس بابرکت معاہدہٴ نکاح کو لوگوں نے غیر قوموں کی تقلید کرتے ہوئے اتنا مشکل بنا ڈالا ہے کہ غریب سے غریب بھی لاکھ دو لاکھ کے بغیر اپنی بیٹی کو رخصت نہیں کرسکتا ۔ اگر وہ استطاعت رکھتا بھی ہو تو بھی معاشرے کے دیگر متوسط اور غریب افراد کے لیے حلال آمدنی کے ذریعے اتنا خرچ کرنا ممکن نہیں ہوتا مجبوراً حرام ذرائع آمدنی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح نکاح کا یہ کارِ خیر کتنے گناہوں اور کتنی غلط کاریوں کا ملغوبہ بن کر رہ جاتا ہے ۔ اور جس نکاح کا آغاز ہی گناہ و حرام سے ہو اس میں برکت کہاں سے آئے گی ؟
روزنامہ جنگ کراچی ، 15 / اکٹوبر 1995ء
لین دین مطالبہ یا فرمائش کے ذریعہ ہو کہ تلک ، گھوڑے جوڑے یا جہیز کے نام پر۔ اس کو معروف و متداول کی اصطلاح سے تعبیر کر کے جائز کرلیا گیا ہے ۔ یہ ایک جھوٹ اور شریعت کی غلط تعبیر ہے جو مالی و اقتصادی منافع کے حصول کی خاطر کی جاتی ہے ۔ یہ ہندو معاشرے کی تقلید ہے۔ اگر مقاصدِ شریعت ، اللہ و رسول کے منشا اور اسلام کے نظام عدل کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ خلافِ اسلام ، خلافِ انسانیت اور تمدن و معاشرہ کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہے ، ضرورت ہے کہ ان مقالات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے ۔
اصلاح و تربیتی کام کرنے والے علماء ، ائمہ و خطباء اس کو اپنا موضوعِ تقریر و تحریر بنائیں اور مجالس و تقریبات میں اس کو اپنے اپنے انداز میں پیش کریں اور عہد لیں کہ لوگ اس رسمِ قبیح سے نہ صرف خود احتراز کریں گے بلکہ اگر ضرورت ہو تو اس کے خلاف دستخطی مہم اور تحریک چلائیں گے یہاں تک کہ خود لڑکی کے سرپرستوں اور اولیاء کی طرف سے پیش کش ہو تب بھی اس کو قبول نہ کریں گے ۔ یہ تحریک مسلم معاشرے کی حفاظت کے لیے وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اور اس میں کوتاہی و غفلت بڑے خطرات کا پیش خیمہ اور خدا اور رسول کی ناراضگی کا ذریعہ ہے ۔
وَاتَّقُواْ فِتْنَةً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّةً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب
الأنفال:25
ترجمہ: اور ایسے فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں گناہگار ہیں اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے ۔
5 نومبر 1986 ء یکم ربیع الاول 1407 ھ
پیش لفظ برائے : ’جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ شرعی احکام کی روشنی میں ‘
مصنف : مولانا محمد برہان الدین سنبھلی
2) مولانا مجاہد الاسلام قاسمی (رحمة اللہ علیہ) :
1996ء میں جدہ میں سوشیل ریفارم کمیٹی کی جانب سے انسدادِ جوڑا جہیز کی ایک سہ ماہی مہم چلائی گئی تھی۔ مولانا اُس وقت اتفاقاً جدہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ محلہ عزیزہ میں منعقدہ ایک جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا:
’ یہ ایک سوشیل بلیک میل ہے۔ خوشی سے دینا اور قبول کرنا مطالبے یا فرمائش سے حاصل کرنے سے کہیں زیادہ خطرناک کاروبار ہے کیوں کہ اس میں مکر کا پہلو ہے ۔ اگر لڑکا لینا نہ بھی چاہے تو لڑکی والے زبردستی اس لیے بھی دیتے ہیں کہ بعد میں لڑکی اور اس کے ماں باپ کو حقیر نہ سمجھا جائے ۔ جو لوگ خوشی سے دیتے ہیں وہ نادار اور غریب لڑکیوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں ، میرے نزدیک اصل مجرم خوشی سے دینے والے ہی ہیں ‘۔
نومبر 1996ء
3) مفتی خلیل احمد۔ شیخ الجامعہ نظامیہ ، حیدرآباد
آج کل معاشرہ میں جو خرابیاں عام ہوگئی ہیں ان میں گھوڑا جوڑا اور جہیز کا مطالبہ اور شادی بیاہ کے موقع پر بعض بے جا تکلفات بھی ہیں۔ جن کی وجہ سے غریب بلکہ متوسط طبقہ کے لیے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں اور وہ لوگ پریشان ہیں۔ ہماری شریعت کی بنیاد عدل و انصاف ، ہمدردی و ایثار پر رکھی گئی ہے ۔ اخلاق حسنہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مروت و مودت معاشرہ کے لیے ضروری ہے اس کے بغیر ربط باہمی کا تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ گھوڑا جوڑا ایک قسم کی رشوت اور ظلم ہے جس کو شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے سب سے بڑھ کریہ کہ سوال کرنا مانگنا ذلت ہے جو ناجائز ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خرابی اس پر مسترد رہے کہ اس میں دوسرے کو بے جا طور پر مشقت میں ڈالنا اور پریشان کرنا ہے۔ کیا یہ ساری باتیں درست قرار دی جاسکتی ہیں؟ ہرگز نہیں
جہیز لڑکی کا حق ہے ۔ لڑکی والوں کا اختیار ہے۔ اگر وہ چاہیں تو دیں جتنا چاہیں دیں اس میں لڑکے کو یا لڑکے والوں کو مطالبہ کرنے کا حق نہیں ۔ لیکن آج کل معاملہ برعکس ہے اس میں مطالبہ کیا جاتا ہے اصرارکیا جاتا ہے اورمتعلقین کی خواہشات سنائی جاتی ہیں ۔
شریعت میں صرف اس حد تک اجازت ہے کہ لڑکی والے اپنی خوشی سے جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں کسی کو مانگنے اور مطالبہ کرنے کا حق نہیں خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔ اسی طرح کھانا کھلانے کا مطالبہ بھی غیر شرعی ہے ۔
4) مولانا حمید الدین عاقل حسامی بانی و مہتمم دارالعلوم حیدرآباد
مولانا حمید الدین عاقل حسامی، بانی و مہتمم دارالعلوم حیدرآباد نے سال 1424ھ مطابق 2003ء عیدالاضحیٰ کے خطبہ کے موقع پر عیدگاہ میر عالم تالاب، حیدرآباد میں لاکھوں سامعین کے سامنے اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا اور صاف لفظوں میں فرمایا کہ جس طرح تم پر سور کا گوشت حرام ہے اسی طرح سمجھ لو کہ جوڑا جہیز بھی حرام ہے ۔ اس کے بعد انہوں نے سامعین سے خواہش کی کہ جو اتنی ہمت مردانہ رکھتے ہیں اور جوڑا جہیز نہ لینے کا عزم کرتے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں ۔
سینکڑوں نے ہاتھ اٹھائے ۔الحمدلله۔
ایک عالم دین کا یہ جراءت مندانہ اور حکیمانہ عمل اس موضوع پر کئی کتابیں لکھنے اور کئی گھنٹے تقریریں کرنے پر بھاری ہے ۔ اگر سینکڑوں ہاتھ اٹھانے والوں میں سے دس نوجوان بھی اپنی زندگی میں اس حرام سے بچ گئے اور اپنی نسلوں کو بغیر جوڑا جہیز لئے مکمل حلال کمائی اور حلال بچت کی بنیادوں پر پیدا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اس عالم دین کی آخرت میں کامیابی کے لیے کافی ہے ان شاء اللہ۔ آج ضرورت ہے کہ ہر عالم دین اس مشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے ۔
5) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔ حیدرآباد
روزنامہ منصف میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
” آج کل شادی کے موقع پر لڑکی والوں سے لین دین کی جو صورت مروج ہوگئی ہے یہ قطعاً حرام ہے اور اس کا حکم رشوت کا ہے ۔ اس کا لینا بھی حرام ہے اور لینے کے بعد اگرمرد کی طرف سے مطالبہ ہو تو واپس کردینا واجب ہے ۔ اور شدید ضرورت کے بغیر ( لڑکی والوں کی طرف سے ) دینا بھی جائز نہیں ۔ فتاوی قاضی خان میں ہے کہ ’ ’اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے یہ شرط رکھے کہ وہ مہر اُسے ہبہ کردے گی تو یہ شرط باطل ہے اور اگر عورت وہ مالِ مہر ہبہ کر بھی دے تو یہ مال مرد کے لیے جائز نہیں کیوں کہ نکاح میں عورت پر خرچ کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی ۔
و في النكاح لايكون العوض علي المرأة
’ پس یہ جو مطالبہ کر کے لڑکی والوں سے رقم یا سامان وصول کیا جاتا ہے وہ حرام ہے ‘ ۔
بعض لوگ جو ایسے مال نقد سے نیک کاموں جیسے مسجد کے لیے چندہ دیتے ہیں یہ تو گناہ بھی ہے اور خلاف ادب بھی ۔ اس لیے اس سے احتراز ر کرنا واجب ہے ۔ اگر مسجد کے ذمہ داران اس رقم کو مسجد کے لیے استعمال کریں گے تو مسجد کی بے احترامی کے مرتکب اور سخت گناہ گار ہوں گے ‘۔
بتاریخ 2 / جنوری 2003 ء
اندازہ لگائیے ایسی آمدنی جس کا کسی نیک کام پر خرچ کرنا بجائے ثواب کے الٹا عذاب لے آئے اس کے ذریعے آدمی اپنی ضمیر کی تسلی کا سامان تو کرلے گا لیکن اپنے لیے دوزخ کی آگ بھڑکائے گا۔ ایسی آمدنی کس کام کی ؟
6) مولانا محمد برہان الدین سنبھلی (رحمة اللہ علیہ)
شیخ الحدیث دارالعلوم ندوة العلماء لکھنو و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ۔
من السحت مايا خذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه حتي لوكان بطلبه يرجع الختن .
( ردالمختار معروف بہ شامی )
وہ مال سحت ( حرام ناپاک خبیث ) ہے جو کہ خسر اپنے داماد سے اپنی بیٹی کے نکاح پر ( مہر کے علاوہ ) حاصل کرتا ہے ، چاہے دینے والے نے خوشی سے دیا ہو۔ چنانچہ چاہے تو داماد اس کو واپس لے سکتا ہے، اگر طلب پر دیا تھا ۔
جب داماد سے مہر کے علاوہ کچھ اور وصول کرنا اتنا سخت گناہ ٹھہرا تو داماد کا بجائے دینے کے الٹا خسر سے وصول کرنا اُس سے بھی کہیں زیادہ بڑے درجے کا گناہ ہے جو کہ سحت کی تعریف میں داخل ہے ۔ قرآن میں یہودیوں کے جرائم کی جو طویل فہرست ہے اس میں سے ایک سحت بھی ہے ۔ یعنی ایسا حرام مال جو دوسروں سے مکرو فریب کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جیسے ۔۔۔
لا يجوز ان تجبر المراة علي ان تتجهزاليه بشيي اصلا لامن صداقها ولا من غيره من سائر مالها والصداق كله لها تفعل فيه كله ماشأت
(فتاوی عالمگیری )
عورت کو کچھ جہیز دینے پر مجبور کرنا قطعاً جائز نہیں نہ مہر کی رقم سے اور نہ اس کے کسی دوسرے مال سے ۔ پورا مہر اسی کا ہے اور اسے اس پر پورا حق ہے جو چاہے کرے ۔
وَتَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون
لَوْلاَ يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَصْنَعُون
المائدة:62-63
ترجمہ : آپ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ گناہ اور ظلم کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کررہے ہیں کیوں ان کے علماء اور بزرگ ان کے گناہ پر زبان نہیں کھولتے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے ؟ یقیناً بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کررہے ہیں ۔
سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ...
المائدة:42
یہ لوگ جھوٹ سننے والے اور سحت یعنی حرام مال کھانے والے لوگ ہیں
... وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ...
النساء:161
اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں ۔
اس سلسلے میں دو احادیث بھی قابل غور ہیں ۔
فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے :
لا يدخل الجنة لحم نبت من السحت و كل لحم نبت من السحت كانت النار اولي به ( مشكوة )
سحت یعنی حرام مال جس نے استعمال کیا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ زیادہ مناسب ہے ۔
لايدخل الجنة جسد غذي بالحرام
حرام غذا سے پلا ہوا جسم جنت میں نہیں جاسکے گا ۔
ونیز احادیث سے ثابت ہے کہ جس کمائی میں حرام مال شامل ہو اس میں سے برکت اٹھالی جاتی ہے ، اس کی نمازیں ، دعائیں ، حج و عمرے بھی قبول نہیں کئے جاتے ۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شوہر کی بھیجی ہوئی رقم سے گھریلو سامان خرید کر لڑکی کے ساتھ بھیجنا ’جِہاز ‘ کہلاتا ہے ۔ غالباً ہندوستان میں جہیز اسی جِہاز کی بگڑی ہوئی شکل ہے بلکہ شکل کے ساتھ یہاں اس کی حقیقت بھی بگاڑ دی گئی ہے ۔
فقہ کی کتابوں میں مذکورہ اس قسم کی جزئیات سے موجود ہ جہیز کی جو شکل بنتی ہے وہ حرام ہے ۔ اس بارے میں استدلال کرنا اور ڈھٹائی کے ساتھ کسی بھی طرح سے جواز نکالنے کی کوشش کرنا درست نہیں ہے ۔ یہ ایک قبیح و شرمناک رسم ہے جو تلک اور دوسرے ناموں سے رائج ہے جس میں واقعتاً شوہر کو خریدا جاتا ہے لیکن یہ انسانیت سوز رسم اکاس بیل کی طرح بڑھتی ہی جارہی ہے ۔ اس لیے علمائے امت اور مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کردیں ۔ اس سے غفلت برتنا ان کے لیے اب گوارا بلکہ جائز نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے ۔ ہزاروں جوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں اور بعض تو خود کشی تک کرلیتی ہیں اور بعض مرتد بھی ہوجاتی ہیں اور غیر مسلمین سے شادی پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ اگر اس طرف فوری توجہ نہ کی گئی تو اس طرح کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جائیں گے اور اس کی ذمہ داری سے مسلمان خاص طور پر با اثر لوگ اور اہل علم بچ نہیں سکیں گے ۔
( ماخوذ ’ نقد یا جہیز کی رقم شرعی احکام کی روشنی میں ‘ ، ناشر ڈاکٹر منظور عالم، انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز ، دہلی ۔ 1986ء )۔
7) امارت شرعیہ بہار :
( جہیز کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں )
لعن رسول الله الراشي و المرتشي ومن الرشوه مااخذه ولي المرأه قبل النكاح اذا كان بالسؤال اوكان اعطاء الزوج بناء علي عدم
( مجموعہ فتاوی عبدالحئی )
اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے ۔ اور یہ بھی رشوت ہے کہ عورت کا سرپرست نکاح سے قبل مہر کے علاوہ کچھ اور طلب کرے جس کے نہ دینے کی صورت میں رشتے سے انکار کا خدشہ ہو ۔
پوری اسلامی تاریخ میں مرد کا عورت کے سرپرستوں سے لینا کہیں کسی روایت میں نہیں۔ یہ بدرجہ اولی حرام ہے اور علامہ ابن عابدی شامی نے اسے رشوت کے حکم میں داخل کیا ہے جو بدرجہ سحت ہے ۔ یعنی ایسی مکروہ چیز جسے ہاتھ لگاتے ہوئے کراہت ہو ۔
8 ) علامہ یوسف القرضاوی ۔ مصر
عصر حاضر کے ممتاز عربی عالمِ دین ، جامعہ ازہر، مصر کے فضیلت یافتہ ، دوحہ یونیورسٹی میں برسہا برس سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ سعودی ٹی وی پر بھی ایک طویل عرصے تک آپ کا ہفتہ وار دینی دروس و سوالات و جوابات کا سلسلہ رہ چکا ہے ۔جوڑے جہیز اور دیگر رسومات کی حرمت کو سمجھنے کے لیے علامہ کی اس تحریر کو پہلے سمجھنا ناگزیر ہے ۔
” فقہاء نے قاعدہ یہ مقرر کیا کہ جو چیز حرام کا باعث بنے وہ بھی حرام ہے ۔ مثلاً زنا ۔۔۔ اس کی طرف لے جانے والی ہر شئے جیسے گناہ آمیز خلوت Mixed Gathering ، بے جا اختلاط ، Dating ، برہنہ تصاویر ، عریاں لٹریچر ، فحش گانے وغیرہ ۔
’ گناہگار صرف وہ شخص نہیں ہے جو حرام کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس کام میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو اس میں کسی نہ کسی طرح معاون رہے ہیں ۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ صرف شراب پینے والے پر لعنت فرمائی ہے بلکہ اسکو کشید کرنے والے، اُٹھاکر لے جانے والے اور پینے والے ان تمام پر لعنت فرمائی ہے۔ اسی طرح سود کھانے والے ، کھلانے والے ، اس کی دستاویز لکھنے والے اور گواہ بننے والے سب پر لعنت فرمائی ہے اس طرح جو فعلِ حرام میں معاونت کا باعث بنے ، وہ بھی حرام اور جو شخص اس کی معاونت کرے ، وہ بھی حرام کا مرتکب ہے “۔
ماخوذ ”اسلام میں حلال و حرام“ صفحہ:46 ، ترجمہ شمس پیر زادہ ناشر مکتبہ دارالسلفیہ، دہلی۔
اس فتوے کی روشنی میں جہیز، جوڑا اور تلک جیسی تمام منکرات کو رواج دینے والے آیا وہ لڑکے یا لڑکی کے والدین ہوں یا مشاطہ ہوں یا ایسی شادیوں میں شرکت کرکے ہمت افزائی کرنے والے ہوں تمام لوگ اس حرام رسم کو بڑھاوا دینے کے مجرم اور گناہگار ہیں۔یاد رکھیئے حرام کیلئے حیلے کرنا بھی حرام ہے۔ لوگ مختلف مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ایسی شادیوں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ جہیز اور دعوت کی تعریف بھی کرتے ہیں۔جب یہ واضح ہے کہ جوڑا جہیز ایک رشوت ہے اور رشوت حرام ہے تو اس کام میں مدد کرنے والے برابر کے شریک ہیں ۔ یہ سب ایک کارِ حرام کی ہمت افزائی کرنے کے برابر ہے ۔
آگے علامہ یوسف القرضاوی نے تین اہم احادیث نقل کی ہیں۔
» لا تركتبوا ماارتكب اليهود و تستحلوا محارم الله بادني الحيل
یہودیوں نے جس کا ارتکاب کیا اسکا تم ارتکاب نہ کروکہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ادنیٰ حیلوں کے ذریعے حلال لرنے لگو۔ (صفحہ 47)
» ليستحلن طائفة من امتي الخمر يسمونها بغير اسمها
میری امت کا ایک گروہ شراب کا نام بدل کر اسکو حلال کرلیگا۔ (صفحہ 47)
» ياتي علي الناس زمان يستحلون الربا باسم الييع
ایک زمانہ آئیگا جب لوگ سود کو بیع کے نام سے حلال کرلیں گے۔ (صفحہ 47)
عہدِ حاضر میں صرف شراب یا سود کا ہی نام نہیں بدلا گیا بلکہ اور بھی کئی منکرات و فاسدات کے نام بدل کر انہیں حلال کرلیاگیاہے۔ جیسے جوڑا جہیز کو ہدیہ یا تحفہ جو خوشی سے دیا گیا ہو۔
9) مولانا مفتی فضیل الرحمان ھلال عثمانی :
مفتی پنجاب و شیخ الجامعہ دارالسلام ، مالیر کوٹلہ و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
مرد کی طرف سے نکاح میں مہر اور شادی کے بعد ضروری ساز و سامان کا بندوبست شریعت میں لازمی ہے اگر دونوں میں سے کسی طرف سے اس کا مطالبہ ہو یا المعروف ( یعنی رواج کے مطابق ) لین دین ہو تو یہ شرعاً رشوت ہے جو ہر حال میں ناجائز ہے ۔
اخذا هل اخذا هل المرأه شيئا عندالتسليم فللزوج ان يسترده لانه رشوه
(بحرالرائق)
رخصتی کے وقت عورت کے گھر والوں کا کچھ لینا رشوت ہے ۔ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو واپس لے ۔یہ وضاحت ناگزیر ہے کہ شریعت نے عورت کے گھر والوں کا مرد سے کچھ لینا حرام کیا ہے ۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ مرد ، عورت کے گھر والوں سے لے سکتا ہے ۔ شریعت کا مقصد نکاح کو آسان اور کم سے کم خرچ کا معاملہ بنانا ہے ۔ دیگر فقہی احکامات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہر کے علاوہ کسی بھی فریق کی جانب سے کسی بھی حیلے کے ذریعے لین دین اسی حکم میں داخل ہے ۔
( ماخوذ دفعہ 36 ، اسلامی قانون نکاح ، طلاق و وراثت اشاعت 1994ء )
10) مولانا محمد تقی عثمانی ، پاکستان :
اسلام نے نکاح کو اتنا سادہ اور آسان بنادیا ہے کہ اگرولی کے علاوہ صرف دو گواہ موجود ہوں ، ایجاب و قبول ہو تو نکاح ہوجاتا ہے نہ عدالت کی ضرورت ہے نہ قاضی یا کسی عالم دین کی موجودگی ضروری ہے ، خطبہ مسنون ہے لیکن نکاح کی صحت خطبہ پر موقوف نہیں ، اس کے بغیر نکاح میں کوئی نقص نہیں آتا البتہ عورت کی عظمت و اکرام کو قائم رکھنے کے لیے مہر ضروری ہے ۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ولیمہ کی ترغیب دی ہے لیکن حسب استطاعت کی شرط کے ساتھ۔ نہ اس کی مقدار شرط ہے نہ مہمانوں کی تعداد۔ اس کے لیے قرض یا ادھار پیسہ لینا یا لوگوں سے مدد طلب کرنا شرعاً نا پسندیدہ عمل ہے ۔
اسلام نے نکاح جیسی اہم ترین تقریب کو اتنا آسان بناکر امت مسلمہ پر ہی نہیں پوری انسانیت پر ایک احسان عظیم کیا ۔ تصور کیجئے اتنے آسان نکاح کا طریقہ اگرکسی معاشرے میں موجود ہو تو کیا زنا باقی رہے گا ؟ لیکن افسوس کہ اس بابرکت معاہدہٴ نکاح کو لوگوں نے غیر قوموں کی تقلید کرتے ہوئے اتنا مشکل بنا ڈالا ہے کہ غریب سے غریب بھی لاکھ دو لاکھ کے بغیر اپنی بیٹی کو رخصت نہیں کرسکتا ۔ اگر وہ استطاعت رکھتا بھی ہو تو بھی معاشرے کے دیگر متوسط اور غریب افراد کے لیے حلال آمدنی کے ذریعے اتنا خرچ کرنا ممکن نہیں ہوتا مجبوراً حرام ذرائع آمدنی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح نکاح کا یہ کارِ خیر کتنے گناہوں اور کتنی غلط کاریوں کا ملغوبہ بن کر رہ جاتا ہے ۔ اور جس نکاح کا آغاز ہی گناہ و حرام سے ہو اس میں برکت کہاں سے آئے گی ؟
روزنامہ جنگ کراچی ، 15 / اکٹوبر 1995ء
منبع : مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.