Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, May 10, 2011

جہیز ۔۔۔۔۔۔ ایک مہذب بھیک


جہیز ۔۔۔۔۔۔ ایک مہذب بھیک

مقامِ فقر ہے کتنا بلند شاہی سے
روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہئیے
بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئیے

حضرت محدث دکن ” ابوالحسنات حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب رحمة اللہ علیہ“ اہلِ ہند کے لئے اور بالخصوص اہلِ دکن کے لئے محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کے فیضانِ علم سے سرفراز ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کی معرکتہ الآراتصنیف ” زجاجة المصابیح “ کے بارے میں بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جسطرح ” مشکوٰة “ شافعی مسلک والوں کے لئے ایک نعمت ہے اسی طرح ”زجاجة المصابیح “ حنفی حضرات کے لئے ایک نادر اور بہترین تحفہ ہے۔
جامعہ ازہر مصر نے تسلیم کیا کہ مسلکِ حنفیہ پر ” زجاجة المصابیح “ سب سے زیادہ مدلّل اور مفصّل تصنیف ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ” نور المصابیح “ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں حضرت قبلہ رحمة اللہ علیہ نے مانگنے والوں کے بارے میں جو وعیدیں بیان فرمائی ہیں وہ ہر اس شخص کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں جو اس گمان میں ہے کہ جہیز کا مانگنا بھیک مانگنے سے الگ شئے ہے۔

جہیز لینا بھیک مانگنے کے برابر کیسے؟
یقیناً آج ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو جہیز مانگتے نہیں یہ طئے سمجھاجاتا ہے کہ پلنگ بستر دعوتِ طعام وغیرہ تو ملنا ہی ملنا ہے۔ کیونکہ آج یہ ایک ایسا رواج بن چکا ہے کہ کوئی بیٹی کا باپ اس رواج کو توڑ نہیں سکتااور نہ لینے والوں کو کوئی عار یا شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ظاہر ہے جب ایک حمام یا ایک تالاب میں سب ننگے ہیں تو ایک دوسرے سے شرم کیسی ؟ حتٰی کہ دیندار گھرانے بھی اس کو ایک ” معروف “ کے طور پر قبول کر چکے ہیں ۔
لیکن یہ یاد رہے کہ شریعتِ اسلامی ہو کہ سیرتِ نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) یا سیرتِ صحابہ یا سیرتِ تابعین و تبع تابعین کسی کتاب میں مرد کولڑکی والوں کی جانب سے پلنگ بستر یا دعوتِ طعام وغیرہ دئیے جانے کی کوئی روایت نہیں ملتی اور نہ کہیں اجازت ہے۔ جب مسلمان ہندوستان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہاں مرد کی ذات کے بڑے مزے ہیں۔ شادی میں عورت کے ساتھ ساتھ اسے مال و اسباب بھی اتنا مل جاتا ہے جسے کمانے کیلئے اُسے کئی ماہ بلکہ کئی سال کی محنت درکار ہوتی ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر ایک معاشی حیوان ہے اس لیے مسلمانوں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ ظاہر ہے کہ جو رواج آج عام ہے وہ اس وقت تو نہیں تھا۔ اسلئے یا تو کسی نے پہلے پہل یہ رشوت مانگ کر اس رواج کی ابتداء کی تھی یا پھر کسی بیٹی کے باپ نے اچھے داماد کو حاصل کرنے کے لئے یہ لالچ دینے کا رواج شروع کیاتھا۔ جب دو چار ایسی مثالیں قائم ہوئی ہونگی تو پھر رواج بنتا چلاگیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کے دلہا والوں کو مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ یہ کام ان کے آبا و اجداد کر چکے جس کے طفیل انہیں بغیر سوال کئے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ لہذا بھیک مانگنے اور جہیز لینے میں فرق کہاں رہا۔

صاحبو ! اب آئیے سوال کرنے والوں اور مانگنے والوں کے بارے میں حضرت قبلہ رحمة اللہ علیہ کی تحریر پڑھیں ۔ یہ ان حضرات کیلئے ایک قابلِ غور نکتہ ہے جو جوڑا جہیز کو بُرا تو سمجھتے ہیں لیکن حرام نہیں سمجھتے ۔ ان سے کہا جائے تو ہٹ دھرمی سے دلیل مانگتے ہیں ۔
حضرت قبلہ رحمة اللہ علیہ کی کتاب کے باب”لا تحل لہ المسئلة و من تحل لہ “ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 58 تا 65 غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ فرماتے ہیں :
”علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بے ضرورت سوال کرنا جائز نہیں اگر ضرورتاً کوئی سوال کرے تو اس کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان تین شرائط کا لحاظ کرے۔ ایک یہ کہ خود کو ذلیل نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ سوال کرنے میں آہ و زاری نہ کرے اور تیسرے یہ کہ جس سے سوا ل کر رہا ہو اسکو ایذا نہ دے۔

ان مذکورہ شرائط کے ساتھ سوال کرنے میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسا سوال کرنا حرام ہے یا کراہیت کے ساتھ حلال ہے (کہ مانگنے والا تینوں باتوں میں سے ایک یا د و کا ہی مرتکب ہو رہا ہو) البتہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر مذکورہ شرائط میں سے ایک شرط بھی پوری نہ ہو تو ایسا سوال حرام ہے۔“
( شعبہ اللمحات صفحہ نمبر 12 )

اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں پہلے مذکورہ اقتباس پر غور کرتے ہیں کہ پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور مہذبانہ جہیز مانگنے میں یہ تین باتیں کتنی مشترک ہیں ۔
1)۔خود کو ذلیل کرنا :
بے شمار فقیرایسے ہوتے ہیں جو محنت کر کے کما کر کھا سکتے ہیں لیکن اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ رحمدل لوگ کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے ہیں ۔ رمضان اور عیدین کے موقعوں پر وہ لوگ بھی جو کچھ نہ کچھ کماتے ہیں لوگوں کے اِس جذبۂ انفاق کا فائدہ اٹھاتے ہیں اورمختلف بہانوں سے صدقہ ،خیرات اور بھیک لے کر فاضل بچت extra saving حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح دلہا والے بھی ایک رائج سسٹم کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس میں جہیز بھی زمانے کے رواج کے بہانے ”موقعہ بھی ہے دستور بھی ہے “ کہہ کر حاصل کیاجاتاہے۔
پہلے یا تو فہرست مانگتے ہیں یا پھر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کیا کیا ملنے والا ہے۔ فہرست طلب کرنے کے بڑے دلچسپ اورمعصوم بہانے تراشتے ہیں ۔کہتے ہیں ” ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں چاہئے جو پہلے سے گھر میں موجود ہو۔ دلہا امریکہ یا دبئی واپس چلا جائیگا اور دلہن کو بھی بلا لے گا۔ ان کے جانے کے بعد چیزیں پڑی پڑی خراب ہو جائینگی اسلئے ہمیں پہلے سے بتا دیجیئے کہ آپ کیا دینے والے ہیں“۔
جسکا مطلب یہ ہوتا ہیکہ جو چیزیں نہیں چاہیئے ہوتی ہیں ان کے بدلے دوسری کام کی چیزیں یا نقد رقم حاصل کرلیں۔ یہ صاف صاف نہیں کہتے کہ جہیز لینا حرام ہے اس لیے ہم کوئی چیز قبول ہی نہیں کریں گے ۔
فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے :
ليس المومن ان يذل نفسه

مومن وہ نہیں جو اپنے آپ کو ذلیل کرے
لیکن لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں کسی تنومند جوان کا بھیک مانگنا تو ایک ذلیل کام نظر آتا ہے لیکن جوڑا جہیز یا تلک وغیرہ مانگنا اور اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانے کا مطالبہ کرنے میں کہیں بھیک کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ اسطرح کا مانگنا یا سسٹم کے نام پر لینا اپنے آپ کو ذلیل کرنا کیونکر ہے اسکی تفصیل آگے آرہی ہے یہاں یہ حدیث کافی ہے جسے حضرت قبلہ رحمة اللہ علیہ نے بخاری و مسلم سے نقل کی ہے کہ :
” حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ لینے اور سوال سے باز رہنے کا ذکر فرما رہے تھے۔ اسی سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ
” اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اس لئے کہ اوپر کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ لینے والا ہاتھ ہے“ ۔
( اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے بھی نقل کیا ہے )۔

2۔ آہ و زاری Lamenting نہ کرے ۔
جس طرح بھکاری کئی جھوٹے سچے بہانے بنا کر آہ و زاری کرتا ہے اُسیطرح کئی لڑکوں کے ماں باپ کو ہم نے دیکھا کہ جتنا وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر خرچ کر چکے ہیں وہ پورے کا پورا بیٹے کی شادی کر کے وصول بھی کرنا چاہتے ہیں۔کئی لڑکے ایسے ہوتے ہیں جو اس لین دین کی رسم کے خلاف ہیں لیکن ان کے مانباپ اور بزرگ ان کو یہ کہہ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرڈالتے ہیں کہ ان کے ماں باپ نے کن کن مشکلوں سے انہیں پڑھایا لکھایا ہے وغیرہ۔ یہ تمام آہ وزاری کی صورتیں ہیں۔
3۔ ایذا رسانی Torturing & Harrassment
اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمیں کسی شئے کی حاجت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لڑکی والے دام میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق تیاریاں شروع کردیتے ہیں ۔ عین شادی سے قبل لڑکے والوں کی طرف سے بہانے تراشیاں ہوتی ہیں اور نئی نئی فرمائشیں پیش کردی جاتی ہیں۔ اگر پوری نہ کی گئیں تو شادی توڑنی پڑتی ہے پھر کسی بھی قیمت پر فرمائش پوری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اگر فرمائش پوری نہ کی گئی تو بعد میں لڑکی کو جلادیئے جانے یا اس پر اثرات کروادیئے جانے کا خوف ماں باپ کو ڈرانے لگتا ہے۔ اور اس اسٹیج پر وہ شادی توڑ بھی نہیں سکتے ورنہ بدنامی اور رسوائی کا خوف لڑکی کے خودکشی کرلینے کے خوف سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اسلئے لڑکی والے ”خوشی سے “ دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ ایذا رسانی کی صورتیں ہیں۔
حضرت قبلہ عبد اللہ شاہ صاحب (رحمة اللہ) نے آگے ایک اہم حدیث نقل فرمائی ہے۔
تین آدمی جن کے لیے سوال کرنا جائزہے
قبیصہ بن نجارق (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قر ضے کی ادائیگی کی ضمانت اپنے اوپر لی تھی ( جو ایک دیت یعنی خون بہا کے سلسلے میں تھی۔ چونکہ مصرفِ زکوٰة میں قرض کی ادائی بھی شامل ہے اسلئے ) میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا کہ قرض کی ادائیگی کے لئے کچھ مرحمت فرمائیے ۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کچھ دن ٹھہر جاؤ جب تک کہ ہمارے پاس زکوٰة کا مال آجائے اور ہم اس میں سے تم کو دلوادیں۔
پھر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا
”اے قبیصہ ( یاد رکھو ) سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے جائز ہے۔
(ایک ) اس شخص کیلئے جو کسی قرضے کا ضامن ہو تو اس کے لیے اسی حد تک مانگنا جائز ہے کہ اس سے اس قرضے کی ادائیگی ہو جائے۔ ( بشرطیکہ وہ اس کی ادائیگی سے قاصر ہو) اور پھر اس کے بعد نہ مانگے۔
( دوسرے ) اس شخص کو سوال کرنا جائز ہے جس کا مال و اسباب کسی آفتِ نا گہانی کے تحت تباہ و برباد ہو گیا ہو۔ ( جیسے کھیتی گھر دار وغیرہ)۔ تو ایسے شخص کو اس حد تک مانگنا جائز ہے جس سے اس کے کھانے اور کپڑے کی ضرورت پوری ہو جائے یا اس حد تک کہ وہ اپنا کاروبار سدھار لے ۔
(تیسرے) اس شخص کو بھی سوال کرنا جائز ہے جو ایسے فقر و فاقہ میں مبتلا ہو گیا ہو کہ جسکی تصدیق ایسے تین سمجھدار آدمی کرتے ہوں جو اس کو جاننے پہچاننے والے ہوں۔ ( تو ) اس کو اس حد تک مانگنا جائز ہے کہ جس سے اس کی خوراک اور لباس کی ضرورت پوری ہو جائے یا اس حد تک وہ اپنی زندگی کو سنبھال لے سکے۔
اے قبیضتہ ! ان تینوں کے سوا کسی کو سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ ( اگر کوئی شخص ان تینوں صورتوں کے سوا سوال کرے گا ) تو ایسا سوال اس کیلئے حرام ہوگا۔ اور اس سوال کے ذریعہ وہ حرام مال کھائے گا۔ “
اس کی روایت مسلم نے کی ہے ۔ اسے ابو داؤد اور نسائی نے بھی نقل کیا ہے۔(صفحہ 59)

جہیز لینا کیا سوال کرنا ہے؟
مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج
کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا

جن لوگوں کو یہ اعتراض ہو کہ جہیز لینا سوال کرنے یعنی سائل کے مانگنے کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ و ہ حضرات اس حدیث پر دوبارہ غور فرمائیں اور یہ نوٹ فرمائیں کہ :
حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ کوئی فقیر نہیں بلکہ ایک معزز صحابی ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) جس چیز کی درخواست کر رہے ہیں وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے قرض کی ادائی کے سلسلے میں جس کی ذمہ داری آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے سر لی تھی ۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی درخواست کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا یہ فرمانا کہ ” سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے جائز ہے۔۔۔ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ صرف خیرات یا بھیک مانگنے کو ہی سوال کرنا نہیں کہتے اور نہ ہی اپنی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے مانگنے کو سوال کرنا کہتے ہیں بلکہ کسی اور کے قرض کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے مانگنا بھی سوال کرنے کی تعریف میں آتا ہے۔
دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مانگنے کی اجازت اسی شخص کو دی ہے جو کسی کے قرضے کا ضامن ہو اور وہ بھی اسی حد تک مانگنا جائز ہے جس میں قرض کی ادائیگی مکمل ہو جاتی ہو۔ یا پھر وہ شخص مانگے جو کسی آفتِ نا گہانی کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گیا ہو یا پھر وہ شخص جو فقر و فاقہ میں مبتلا ہو گیا ہو۔
ایک اور اہم نکتہ قابلِ غور یہ بھی ہیکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے یہ بھی اشارہ فرمادیاکہ اگر ضامن استطاعت رکھتاہوتو خود ادا کرے نہ کہ دوسروں سے طلب کرے۔ یہ اکثر دیکھنے میں آ تا اہیکہ لوگ خود تو استطاعت رکھتے ہیں۔اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی پر تو لاکھوں خود خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے ہی خاندان کے کسی ضرورتمند کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے دوسروں سے زرِتعاون کی اپیل کرتے ہیں۔
اگر کوئی اپنی لڑکیوں کی شادیاں کر کے قرضوں میں مبتلا ہو گیا ہو یا جو کچھ جمع پونجی تھی وہ ختم کر چکا ہو توکیا ایسے شخص کا بیٹے کی شادی پر مانگنا جائز ہو سکتا ہے؟
یا وہ شخص جس نے بیٹوں کی تعلیم پر بہت کچھ خرچ کردیا ہو اب اسکی پابجائی کیلئے لڑکی والوں سے مانگنا چاہتا ہو کیا وہ جائز ہوسکتا ہے؟
یا وہ والدین جو یہ سوچتے ہیں کہ بیٹا پڑھ لکھ کر کمانے کے قابل ہوجانے کے بعد اسکی کمائی تو آنے والی بیوی کھائے گی اِنہیں کیا ملے گا لہذا جو بھی لینا ہے ابھی لے لو۔
کیا یہ جائز ہوسکتا ہے؟ نہیں ۔ ہر گز نہیں۔
جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت قبضیتہ (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا ” ان تینوں صورتوں کے علاوہ کسی کا سوال کرنا جائز نہیں ۔ ایسا سوال حرام ہوگا۔
حضرت قبلہ (رضی اللہ عنہ) آگے ناجائز سوال کی وعید کے باب میں ترمذی کی روایت سے فرماتے ہیں کہ
” ارشاد فرمایا رسول اکرم (رضی اللہ عنہ) نے غنی کے لیے سوال کرنا جائز نہیں اور نہ اس شخص کے لیے جو تندرست اور طاقتور ہو ۔ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کیلئے لوگوں سے سوال کرتا پھرے قیامت کے دن اس کے چہرے پر ( وہ مال ) زخم کی صورت میں نمو دار ہوگا۔ وہ مال جہنم میں گرم پتھروں کی شکل میں سامنے آئے گا جس کو یہ کھائے گا۔ تو چاہے تو اس کو کم کرلے یا اس کو بڑھالے “۔
غنی کی عریف نور المصابیح میں یوں کی گئی ہے کہ ایسا شخص جس پر زکوٰة واجب ہو۔ یعنی اُسکے پاس اتنا پیسہ یا مال ہو جو زکوٰة کے نصاب کے برابرہو۔

اب وہ حضرات خود ہی غور فرمالیں جو پلنگ ، بستر، الماری اور فریج اسکوٹر اور کار وغیرہ خود بھی خرید سکتے ہیں لیکن لڑکی والوں سے لے کر اپنا پیسہ بچا کراپنا مال بڑھالیتے ہیں ۔ کیا وہ کل قیامت میں ان تمام چیزوں کے داغ اپنے چہروں پر لے کر نہیں آئینگے ؟
یہ صحیح ہے کہ لڑکے والے ان چیزوں کے محتاج نہیں ہوتے ۔ وہ بھی ولیمہ وغیرہ پر اتنا خرچ کرتے ہیں کہ اس خرچ کے سامنے پلنگ اور بستر جیسی چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ صحتمند ہیں تندرست ہیں تو یہ ساری چیزیں لیتے کیوں ہیں؟
یہ صحیح ہے کہ انہوں نے مانگا نہیں ہوگا لیکن یہ رواج تو مانگنے سے ہی شروع ہوا تھا۔ اسی رواج کی پابندی کرنا دراصل مانگنے والوں ہی کی صف میں کھڑا ہونا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مسجد یا درگاہ کے پاس ایک بھکاری مانگ مانگ کر وصول کرتا ہے دوسرا ایک ایسا بھی ہوتا ہے جو ذرا خود دار ہوتا ہے اور خاموش کھڑا رہتا ہے کیونکہ دینے والا جب مانگنے والے کی جھولی میں ڈال دیتا ہے وہیں خاموش بھکاری کو بھی ضرور دیتا ہے ۔ بلکہ خاموشی سے مانگنے والے کو بول بول کر مانگنے والے سے زیادہ ملتا ہے۔ مانگ کر لینے والا اور بغیر مانگے لینے والا ” لینے والوں“ ہی کی صف میں ہیں۔

ایک اور حدیث حضرت قبلہ (رحمة اللہ) مسلم سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا ” جو لوگوں سے اس غرض سے سوال کرتا ہے کہ خوب مالدار بن جائے تو وہ حقیقت میں جہنم کے انگارے مانگتا ہے۔ اب اسے اختیار ہے کہ چاہے وہ اپنے لئے کم جمع کرے یا زیادہ“۔
یہاں جہیز لینے والوں کے بارے میں کھل کر بات سامنے آرہی ہے۔ کیونکہ عورتیں اس بات کی زیادہ حریص ہوتی ہیں کہ بہو اتنا سامان لاے ٴ جومحلے اور برادری میں کسی اور کے گھر نہ ہو۔ ان کا مال و اسباب بڑھے اور برادری میں شان بڑھے ۔ او رکئی لڑکوں کے والدین ایسے ہوتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ بہو اتنا کچھ لا لے کہ بیٹا بہو الگ سے اچھی زندگی گزار لیں اور والدین کے مال کو دھکا نہ لگے۔ یہ بھی اپنا مال بڑھانے ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ کئی والدین یہ کہتے ہیں کہ وہ تو لین دین کے خلاف ہیں لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی دوسروں کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہوجائیں دوسرے الفاظ میں ”وہ گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں لیکن جو بوٹی خود سے پلیٹ میں آرہی ہے اُسے آنے دیتے ہیں “۔

آگے حضرت قبلہ (رحمة اللہ) ایک متفق الیہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” جو شخص لوگوں سے بغیر استحقاق کے مانگے وہ قیامت کے دن اس طرح آئیگا کہ اس کے چہرے پر ذرہ برابر بھی گوشت نہ ہوگا“۔
بغیر استحقاق کے مانگنا کیا ہے ؟ ھندو دھرم نے لڑکے والوں کو لڑکی والوں سے مال لینے کا حق دیا ہے۔ کیونکہ شادی کے بعد ان کے ہاں باپ کی وراثت میں بیٹی کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ لیکن اسلام نے بجائے لڑکی والوں سے لینے کے الٹا انہیں تحفے تحائف دینے کی ترغیب دی ہے۔کیونکہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو جوانی تک پال پوس کر حوالے کرتے ہیں۔ اگر مرد شادی کی رشوت یا بخشش کے طور پر کچھ مانگتا ہے تو دراصل کسی اور کا حق مانگ رہا ہے۔وہ حق لڑکی کے بھائیوں کا ہے یاپھرلڑکی کے والدین کی آخری عمر کا سہارا ہے۔
صحابہ کیا سائل (فقیر) تھے؟ (نعوذباللہ)
حضرت قبلہ (رحمة اللہ) امام احمد (علیہ الرحمة) کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے اس بات پر عہد لینے کیلئے بلایا کہ میں لوگوں سے کبھی کسی چیز کے لیئے سوال نہ کروں۔ میں نے اقرار کیا کہ جی ہاں ۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ کبھی کسی سے کوئ چیز نہ مانگوں گا“۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ” اگر تمہارے ہاتھ سے چابک بھی گر جاے ٴ تو ( کسی سے نہ مانگنا ) ۔ سواری سے اتر کر خود اٹھا لینا“۔
یاد رہے یہ عہد اس صحابی سے لیا جا رہا ہے جن کا مقام عام صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ممتاز تھا۔ یہ وہ واحد صحابی (رضی اللہ عنہ) تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو یا حبیبی کہتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنتوں سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ اگر کسی کے دستر خوان پر ایک کی جگہ دو سالن ہوتے تو اپنا عصا مار کر کٹورا گرا دیتے اور ڈانٹتے کہ تو نے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دستر پر کبھی ایک سے زائد سالن دیکھے ؟۔ یہ وہ خود دار صحابی (رضی اللہ عنہ) ہیں جنہیں آخری ایّام میں جب کہ آپ (رضی اللہ عنہ) سخت بیمار تھے آپ کی کنواری بیٹیوں کے لیئے خلیفة المومنین حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے بیت المال سے وظیفہ مقرر کرنے کی پیشکش کی تو یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ” میرے حبیب (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا تھا کہ جو شخص سورة واقعہ پڑھ کر سوئے اللہ تعالی اسے فاقہ سے محفوظ رکھے گا۔ میری بیٹیاں اس پر عمل کرتی ہیں انہیں کسی وظیفہ کی ضرورت نہیں ہے“۔
ایسے صحابی سے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا عہد لینا کیا معنی رکھتا ہے؟
کیا معاذ اللہ ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کوئی مانگنے والے صحابی تھے؟
ایک عظیم صحابی سے یہ عہد لینا دراصل امت کے ان تمام معزز، اہلِ استطاعت اور غنی افراد کو تنبیہ کرنا تھا کہ دوستی ، مروّت یا سسٹم کے نام پر یا اپنے عہدے اور اختیارکی بنیادپرکسی سے کوئی بھی شئے مراعتاً یا رسماً حاصل کرنا سوال کرنے یعنی مانگنے کے برابر ہے حتٰی کہ اگر گھوڑے پر سوار ہوں اور چابک ہاتھ سے گر جائے تو وہ بھی کسی سے مانگنانہیں خود اتر کرلے لینا۔ حالانکہ جہاں پیدل یا خچروں پر سفر کرنے والوں کی اکثریت ہو وہاں گھوڑا رکھنا ایسا ہی تھا جیسے عام طور پر بائیک یا ماروتی یا کرولا کار رکھنے والوں کے درمیان ایک نئے ماڈل کی مرسڈیس یا بی ایم ڈبلیو رکھنا۔ ایسے شخص سے لوگ مرعوب ہو کر تو یوں بھی تعظیماً یا اخلاقاً آگے بڑھ کر کچھ نہ کچھ پیش کرتے ہیں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ایسے ہی لوگوں کو دراصل تنبیہ کی ہے کہ خبر دار اگر کوئی لین دین سسٹم میں بھی داخل ہے تو تم ہرگز نہ لینا۔

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے
آگے کی اس حکمت سے بھر پور حدیث پر غور کیجیے جو حضرت قبلہ (رحمة اللہ) نے بخاری و مسلم سے نقل کی ہیکہ ” حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ لینے اور سوال سے باز رہنے کا ذکر فرما رہے تھے اسی سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ
” اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اس لیے کہ اوپر کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ لینے والا ہاتھ ہے“ ۔
( اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے بھی نقل کیا ہے )۔

یہ حدیث ان لوگوں کے لئے قابلِ غور ہے جو اتنے غنی ہیں کہ اگر ان کو جہیز نہ بھی ملے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں دینے والے تو محض تعظیما ً یا رکھ رکھاؤ کی خاطر دیتے ہیں اور وہ قبول کر لیتے ہیں۔ لیکن لینا بہر حال لینا ہے اور لینے والا ہاتھ نیچے والا ہاتھ یعنی قبول کرنے والا ہاتھ ہے۔ خوشی سے دینا بہر حال دینا ہے اور دینے والا ہاتھ اوپر ہے یعنی احسان کرنے والا ہاتھ ہے۔ اب جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ فیصلہ کر لیں کہ نیچے کے ہاتھ والے بنیں یا اوپر کے۔
اسی سلسلے میں ایک اور عالمِ دین علامہ محمد مبین نعمانی قادری ، مہتمم دار العلوم قادریہ ، چریا کوٹ ، یو پی فرماتے ہیں :
لڑکی کو رخصتی کے وقت کچھ دینا یقیناً امر ِ مستحسن ہے۔ لیکن اب یہ رسمِ بد جبری بن گئی ہے۔ لڑکی کی پیدائش بد بختی تصور کی جانے لگی ہے۔ اگر لڑکی فرمائش کرے تو اس کا حق ہے لیکن لڑکے کے والدین کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ ” لڑکی ہی کی خوشیوں کا واسطہ دے کر سوال کریں ؟“ یہ ایک مہذب بھیک ہے جسے رسم و رواج کے نا م پر ہر شریف و رذیل قبول کر رہا ہے۔
اسلام دو ہی صورتوں میں مانگنے کی اجازت دیتا ہے۔ یا تو سائل کا کوئی حق واجب الادا ہو یا پھر سائل تنگ دست Destitute، یا پھر سطح غربت سے نیچے Below the Poverty Line ہو ۔ بلا ضرورت مانگنے کو شریعت حرام قرار دیتی ہے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں ۔ آقائے دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) ایسے مانگنے والوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟
” جس پر فاقہ گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں جن کو پالنے کی طاقت نہیں اور وہ سوال کا دروازہ کھولے یعنی مانگے اللہ تعالی اس پر فاقہ کا دروازہ کھول دے گا۔ ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہے“۔
( بیہقی ) ۔
”صدقے سے سوال کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور سوال سے محتاجی کا دروازہ کھل جاتا ہے“۔
اور فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ” جو مال بڑھانے کے لئے سوال کرتا ہے وہ اپنے لئے جہنم کی آگ مانگ رہا ہے ، چاہے زیادہ مانگے یا کم “۔
( ابن ماجہ بحوالہ ابوھریرہ رضی اللہ عنہ )

ان احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ جہیز مانگنا یا دستور کے مطابق لے لینا سوال کرنے یعنے مانگنے ہی کے مماثل ہے جو کہ ایک مہذب بھیک ہے ۔
حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس ہندو دھرم کی اس رسمِ بد کے ہم عادی ہو چکے ہیں وہی قوم آج جہیز اور تلک کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ معاشرے کے با اثر Influencial حضرات اور خاص طور پر علماء کرام اور ائمّہ مساجد اور خطیب اگر چاہیں تو آج بھی یہ ہلاکت خیز رسم مسلمانوں کے معاشرے سے ختم ہو سکتی ہے۔
(تحفظ اسلام نمبر صفحہ 341 )

بے برکت نکاح
فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
اعظم النكاح برکه ايسر مئونه

سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو نہایت آسانی اور بغیر تکلف کے انجام پائے۔
اس حدیث پر اگر الٹا عمل کیا جائے اور ایسا نکاح کیا جائے جو خود کیلئے بھی اور دوسروں کیلئے بھی مشکل بن جائے تو ایسے نکاح سے برکت اٹھالی جاتی ہے۔ وہ بزرگ جواسراف سے بھرپور نکاح کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ، اور برکت کی دعائیں دے کر جاتے ہیں کاش وہ برکت کے معنی بھی سمجھائیں۔ ۔

نکاح آسان ہے یا زنا ؟
لوگ سوال کرتے ہیں کہ شادی پر کتنا خرچ ہونا چاہئے ؟ اس کا جواب انتہائی آسان ہے ۔ ہر شخص جانتا ہے کہ زنا کس قدر عام ہوچکا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جیب میں کم سے کم کتنے پیسے ہوں تو زنا ممکن ہے ۔ اب ہر شخص خود ہی حساب لگالے کہ لڑکی والوں سے اُس نے جتنا خرچ کروایا ہے وہ خرچ زیادہ ہے یا زنا کے لیے مطلوبہ رقم ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لڑکی والوں سے جتنا خرچ کروایا جاتا ہے اس رقم سے ایک بار نہیں بلکہ سینکڑوں بار زنا کیا جاسکتا ہے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اگر حکم دیا ہے کہ ’ نکاح کو اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے ، اب ہر شخص خود یہ حساب لگالے کہ اس نے ایک نکاح کے مقابلے میں کتنی مرتبہ کے زنا کو آسان کردیا ۔




منبع : مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User