Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, February 9, 2011

مختصر مسائل زکاۃ

مختصر مسائل زکاۃ
 
ارکانِ اسلام ميں ايمان ،نماز اورروزہ کے بعد زکوٰة دين ِ اسلام کا انتہائي اہم رکن ہے۔اللہ تعاليٰ نے اس کا حکم قرآن شريف ميں کم وبيش اسّي(80) مرتبہ ديا ہے۔ زکوٰة کا لغوي معنيٰ ہے:
'' بڑھنا''،''پاک ہونا'' ارشادِ باري تعاليٰ ہے:'' وہ شخص کامياب ہوگيا،جس نے اپنے آپ کو پاک کيا''۔(الاعليٰ:14) 
قرآن شريف ميں ہے:
1۔'' نماز قائم کرو، زکوٰة دو،اور رسول کي اطاعت کرو،تاکہ تم پر رحم کيا جائے ۔'' (سورۂ نور:56)
2۔'' اور جو زکوٰة تم لوگ اللہ کي خوشنودي حاصل کرنے کے لئے ديتے ہو، اس سے دراصل دينے والے اپنے مال ميں اضافہ کرتے ہيں''۔(سورۂ روم:39)
''اے نبي !تم انکے اموال سے زکوٰة لے کر انہيں گناہوں سے پاک کرو''۔(سورۂ توبہ:103)
زکوٰة ادا نہ کرنے والوں کے لئے حکمِ الٰہي:
'' تباہي ہے، ان مشرکوں کے لئے جو زکوٰة نہيں ديتے،اورآخرت کے منکر ہيں''۔(سورۂ حم سجدہ:6۔7)
''جن لوگوں کو اللہ نے اپنے فضل سے مال ديا ہے اور وہ بخل سے کام ليتے ہيں، اس خيال ميں
 نہ رہيں کہ يہ انکے حق ميں بہتر ہے، بلکہ يہ بہت برا ہے، اس بخل سے جو کچھ وہ جمع کررہے ہيں، اسے قيامت کے دن طوق بنا کر ان کے گلے ميں ڈالا جائے گا''۔(سورۂ آل عمران:180)
''دردناک سزا کي خوشخبري سنادو،ان لوگوں کو جو سونا اور چاندي جمع رکھتے ہيں اور انہيں اللہ کي راہ ميں خرچ نہيں کرتے۔ايک دن آئے گا کہ ايسے سونے چاندي پر جہنم کي آگ دہکائي جائے گي پھر اسي سے ان لوگوں کي پيشانيوں اور پيٹھوں کو داغا جائے گا اور کہا جائے گا :يہ ہے وہ خزانہ جو تم نے اپنے لئے جمع کيا۔لو اپني سميٹي ہوئي دولت کا مزا چکھو''۔(سورۂ  توبہ  :34۔35)
 نبي صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا ہے:
''اس صدقہ سے کوئي مال کم نہيں ہو تا۔مظلوم کي بدعا ء سے ڈرتے رہو، کيونکہ اسکے اوراللہ کے درميان کوئي چيز حائل نہيں''۔

زکوٰة فرض ہونے کي شرائط:
زکوٰة فرض ہونے کي دو شرائط ہيں:
وہ مال بہ قدرِ نصاب يا اس سے زيادہ ہو۔نصاب سے مرادوہ کم سے کم مقدارہے جو شريعت نے مختلف چيزوں کيلئے مقرر کي ہے۔
اس پر ايک قمري(ہجري) سال گزر چکا ہو۔البتہ زمين کي پيداوار پر ايک سال کي شرط نہيں۔ فصل کاٹنے اور صاف کرلينے کے ساتھ ہي ادا کي جائے۔اسي طرح کانوں اور دبے ہوئے خزانوں کے لئے بھي ايک سال کي شرط نہيں۔
يہ ہر آزاد مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے،جس ميں مندرجہ بالا شرائط پائي جائيں۔ اگر مال کا مالک بچہ يا ناسمجھ آدمي ہو، تب بھي سرپرست پر فرض ہے کہ زکوٰة ادا کرے۔ قرض اگر نصاب کے مال سے زيادہ ہو تو زکوٰة فرض نہيں۔

مشترکہ کھاتہ(کمپني):

٭امام ابوحنيفہ  و امام مالک: کسي پر زکوٰة اس وقت تک واجب نہيں ہے جب تک ان ميں سے ہر ايک کا حصہ بقدر نصاب نہ ہو۔
٭امام شافعي:مشترک مال کا حکم ايک ہي شخص کے مال کا ہے۔
٭وجۂ اختلاف:نبي صلي اللہ عليہ وسلم کے ارشاد:
 ''پانچ اوقيہ(50=52تولہ) سے کم چاندي پر زکوٰة نہيں ہے۔'' سے يہ واضح نہيں کہ آيا يہ حکم صرف اس وقت ہے، جبکہ مال صرف ايک ہي شخص کي ملکےّت ہو، يا اس وقت بھي ہے جبکہ کئي شريک ہوں۔بعض آئمہ پہلي صورت پر اور بعض دوسري پر متفق ہيں۔اور دوسري ہي صحيح ہے،کيونکہ ارشادِ نبوي  ۖ ہے:''زکوٰة کے ڈر سے نہ متفرّق مال کو اکٹھا کيا جائے اور نہ اکٹھے کو الگ الگ۔''
(صحيح بخاري)

اموالِ زکوٰة(جن پر زکوٰة فرض ہے):

1۔ سونااور چاندي(نقدي)       
2۔ مالِ تجارت              
3۔ زرعي پيداوار
4۔ مويشي                 
5۔ کان اور دبے ہوئے خزانے

وہ اشياء جن پر زکوٰة واجب نہيں ہے:

ذاتي استعمال کي اشياء ،ذاتي مکان يا مکان کي تعمير کيلئے پلاٹ، ذاتي استعمال کي اشياء (مثلاً کار، فرنيچر،فرج،حفاظتي ہتھيار يا مويشي خواہ کتني ہي قيمت کے ہوں)پرزکوٰة نہيں۔

A۔سونا اور چاندي:
اِن پرچاليسواں حصہ(1/40  يا 2.5٪) زکوٰة ادا کرے گا:
(1) سونا:
ساڑھے سات( 7.50) تولے سے زيادہ ہو تو چاليسواں حصہ يعني 2.5٪ زکوٰة ہے۔ جبکہ ملکيت ميں ايک سال گزر جائے۔ اصل اعتبار وزن کا ہوگا ،قيمت کا نہيں۔
٭عورت کے زيور ات کي زکوٰة :
اگرچہ اس مسئلہ ميں اختلافِ رائے ہے،ليکن علماء کے صحيح تر قول کے مطابق زکوٰة ديني چاہيئے۔
(2)چاندي:
ساڑھے باون(52.5) تولے سے زيادہ ہو تو چاليسواں حصہ يعني 2.5٪
زکوٰة ہے،جبکہ ملکيت ميں ايک سال گزر جائے۔ اصل اعتبار وزن کا ہوگا قيمت کا نہيں۔
٭نصاب کيا ہے؟:
کيا استعمال کيلئے کوئي زيريں حد مقررہے؟ يا نصاب ہي حد ہے؟ سونے کا نصاب ساڑھے سات(750) تولے۔چاندي کا ساڑھے باون (52.5)تولے۔ ايک سال گزرنے پر،2.5٪ زکوٰة ہوگي۔ سونے اور چاندي کي قيمت کا اندازہ موجودہ بھاؤ(قيمت فروخت) کے مطابق لگا کر زکوٰة اداکرني چاہيئے۔
B۔ مالِ تجارت:
مالِ تجارت پر زکوٰة فرض ہے:
C۔ زرعي پيداوار:
زمين کي پيداوار پر زکوٰة قرآن،سنت،اور اجماعِ امت،تينوں کي رو سے فرض ہے۔
1۔خودبخود سيراب ہونے والي زمين پر فصل يا غلے کا عُشر يعني دسواں حصہ(10٪)ہے۔
2۔مصنوعي ذرائع سے سيراب ہونے والي زمين پر فصل يا غلے کا نصف ِعُشر يعني بيسواں حصہ(5٪)ہے۔
٭فصل يا غلے کي اقسام:
گندم، جو،کھجور،کشمکش،جوار،مکئي ،باجرہ،چاول وغيرہ۔
D۔غلوں اور پھلوں کا نصاب:
٭غلوں اور پھلوں کا نصاب :
جمہور کے نزديک5 وسق يعني تقريباً 725 کلوگرام کے برابر ہے۔
حضرت ابو سعيد خدري  ص سے روايت ہے کہ نبي اکرم صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا:'' غلوں اور پھلوں پر
 5 وسق(725کلوگرام) سے کم پر زکوٰة نہيں ہے۔''
(صحيحين،سُننِ اربعہ،مسنداحمد)
شافعہ،مالکيہ اور حنابلہ کا اس پر اتفاق ہے کہ غلوں کا نصاب پانچ وسق 725کلوگرام ہے،جبکہ وہ
 خشک ہوچکے ہوں اور انہيں چھلکوں وغيرہ سے صاف کرليا گيا ہو۔

٭غلوں اور پھلوں کي شرح زکوٰة:
زمين کے قدرتي ذرائع(بارش وغيرہ) سے سيراب ہونے پر عُشر(دسواں حصّہ) اور مصنوعي ذرائع سے سيراب ہو نے پر نصف ِ عُشر(بيسواں حصّہ) زکوٰة ہے۔
 حضرت عبداللہ بن عمر رضي اللہ عنہما سے روايت ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:'' جو زميں آسمان(بارش،برف،اوس،اولے) يا قدرتي چشموں سے سيراب ہو،اس پر عُشر اور دوسرے مصنوعي ذرائع سے سيراب کي جانے والي پر نصفِ عُشر ہے۔''
(بخاري،ابوداؤد،ترمذي، ابن ماجہ)
٭پھلوں کا عُشر،بذريعہ خرص:
(خرص يعني تخمينہ،اندازہ)پھل پک جائے تو توڑنے سے پہلے عشر کي مقدار کا پتہ کرنے کيلئے تخمينہ واندازہ لگانا خرص کہلاتا ہے۔
٭مويشي:حديث ميں زکوٰة کيلئے تين قسم کے جانوروں کا ذکر ہے۔
1۔اونٹ                      
2۔گائے(بھينس)                   
3۔بھيڑ بکري

1۔اونٹ:     
حديث:''24سے کم اونٹ ہوں تو ہر 5اونٹوں پر ايک بکري زکوٰة اور 25اونٹ ہو جائيں تو ان پر ايک سال کي ايک اونٹني''
نصاب:
(1)4اونٹوں پر کوئي زکوٰة نہيں الاّيہ کہ مالک خود دينا چاہے۔
(2)5سے  9 اونٹوں پرايک بکري۔
(3)10سے14 اونٹوںپر2بکرياں۔
(4)15سے19 اونٹوں پر3 بکرياں۔
(5)20سے24 اونٹوں پر 4بکرياں۔
(6)25سے 35 اونٹوں پرايک سال کي ايک ا ونٹني۔
(7)36سے 45 اونٹوں پر 2سال کي ايک اونٹني جو تيسرے سال لگ چکي ہو۔
(8)46 سے 60 اونٹوں پر 3سال کي ايک اونٹني جو چوتھے سال لگ چکي ہو۔
(9) 61 سے 75 اونٹوں پر 4سال کي ايک اونٹني ،جو پانچويںسال ميں لگ چکي ہو۔
(10)76سے 90 اونٹوں پر 2سال کي دو اونٹنياں، جو تيسرے سال ميں لگ چکي ہوں۔
(11)91سے120 اونٹوں پر3سال کي تين اونٹنياں جو چوتھے سال ميں لگ چکي ہوں۔
اور جب اونٹ120سے زيادہ ہوں تو ہر چاليس اونٹوں پر 2سال کي ايک اونٹني اور ہر پچاس اونٹوں پر تين سال کي ايک اونٹني زکوٰة ہو گي۔
(بخاري،ابوداؤد،ترمذي)

2۔گايوں بھينسوں پر زکوٰة:
(1)30سے کم تعداد پر زکوٰة نہيں ،ليکن 30پر ايک سال کا بچھڑايا بچھيا۔
(2)40پر 2سال کا بچھڑا يا بچھيا۔
(احمد،ترمذي،ابوداؤد،نسائي،ابنِ ماجہ)

3۔بکريوں اور بھيڑوں پر نصاب:
(1) 40 سے کم پر کوئي زکوٰة نہيں۔
(2)40سے120 پر ايک بکري۔
(3)121سے 200 پر2بکرياں۔
(4)200سے 300  پر 3بکرياں،300سے
 زائد ہرسَو(100)بکريوں پر ايک بکري کے حساب سے زکوٰة اداکريں۔گدھوں،گھوڑوںاور خچروں پر کوئي زکوٰة نہيںہے، ليکن اگرتجارت کيلئے رکھے ہو ئے ہيں تو زکوٰة واجب ہے۔

4۔کانيں اور معدنيات:
 اِن پر %20زکوٰة ہے ،جو پائے جانے يا نکالنے کے ساتھ ہي ادا کرني چاہيئے نہ کہ ايک سال گزرنے کے بعد۔

زکوٰة کي ادائيگي اور تقسيم:
1۔زکوٰة جلدازجلد ادا کرني چاہيئے۔پيشگي بھي ادا کي جا سکتي ہے۔
2۔زکوٰة جہاں سے نکالے وہيں ادا کرديني چاہيئے۔دوسري جگہ منتقل نہ کي جائے ،ہاںاگر زيادہ  ہو يا بچ جائے،تو دوسري جگہ بھيجي جا سکتي ہے۔ رسولِ کريم  ۖ دوسري جگہوں سے آيا ہوا زکوٰة کا مال اہل ِمدينہ يا مہاجرين ميں تقسيم فرمايا کرتے تھے۔

وہ لوگ جن پر زکوٰة حرام ہے:
1۔غني اورمُکتسب(تندرست کماسکنے والا)۔حضرت ابو ہريرہ صسے روايت ہے کہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرمايا''جو شخص اپنا مال بڑھانے کيلئے لوگوں سے سوال کرتا ہے وہ آگ کے انگارے مانگتا ہے۔اسے اختيار ہے چاہے انکي مقدار زيادہ کرے يا کم''۔
2۔نبي صلي اللہ عليہ وسلم  کا خاندان ۔
3۔غير مسلم۔البتہ بعض شکلوں  ميں ممکن ہے،جن کا ذکر آگے''مصارفِ زکوٰة'' ميں آرہا ہے۔
4۔بيوي۔(شوہر بيوي کو زکوٰة نہيں دے سکتا)
5۔اباء واجداد اور اولاد واحفاد کو زکوٰة نہيں دي جاسکتي۔

وہ لوگ جن کو زکوٰة اور صدقہ دينا دوسروں کي نسبت افضل ہے:
1۔شوہر                              
2۔والدين اور اولاد کے سوا دوسرے رشتہ دار، کيونکہ نبي صلي اللہ عليہ وسلم  نے فرماياہے: ''سب سے افضل صدقہ وہ ہے جو کسي تنگدست رشتہ دار پر کيا جائے۔''
(مختصراً ازفقہ السنہ،محمدعاصم)

زکوٰة کے مصارف و مقامات:
مصارف ِزکوٰة آٹھ(8) ہيں،جن کا ذکر سورة التوبہ،آيت 60 ميں آيا ہے۔ وہ درجِ ذيل ہيں۔
1۔فقير:                              
2۔مسکين:
يہ دونوں باہم قريب قريب ہي ہيں،حتي کہ ان کا ايک دوسرے پر بھي اطلاق ہوتا ہے۔تا ہم دونوں ميں يہ بات قطعي ہے کہ جو شخص حاجت مند ہو اور ضرورياتِ زندگي کو پورا کرنے کے وسائل سے محروم ہو، اسے فقيرو مسکين کہا جاتا ہے۔فقير سے مسکين قدرے بہتر حيثيت رکھنے والا ہوتا ہے اور وہ دستِ سوال بھي دراز نہيں کرتا اور نہ ہي اپني شکل ايسي بناتا ہے کہ لوگ اسے کچھ ديں،جيسا کہ صحيح بخاري ومسلم کي ايک حديث سے پتہ چلتا ہے۔
3۔عاملين:
حکومت کے وہ اہل کار جو زکوٰة جمع کرنے،اسے تقسيم کرنے اور اسکا حساب کتاب رکھنے پر مامور ہوتے ہيں۔ان کي اجرت يا تنخواہيں مالِ زکوٰة سے دي جاسکتي ہيں اور وہ انکے لئے حلال ہے،چاہے وہ مالدار ہي کيوں نہ ہوں۔ البتہ نبي  ۖ نے اپني ذات اور اپنے خاندان(بني ہاشم) پر اس مد ميں بھي زکوٰة منع قرار دي ہے۔
4۔مؤلفة القلوب:
{1}وہ کافر جو اسلام کي طرف کچھ مائل ہو، اوراسکي مدد کرنے سے اسکے مسلمان ہوجانے کي توقع ہو {2}وہ نو مسلم افراد جنھيں ايسي امداد اسلام پر مضبوط کردينے کا باعث بن سکتي ہو{3} وہ افراد جنھيں امداد دينے کي صورت ميں يہ اميد ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکيں گے، يوں مسلمانوں کو کفّار سے تحفّظ حاصل ہوگا.

٭احناف کے نزديک يہ مصرف ختم ہوگيا ہے،ليکن يہ بات صحيح نہيں،حالات کے مطابق ہر دور ميں اس مصرف پر زکوٰة کا پيسہ خرچ کيا جاسکتا ہے۔
5۔گردنيں آزاد کرانا:
غلام آزاد کرانے کيلئے زکوٰة کا پيسہ خرچ کيا جاسکتا ہے،وہ مکاتب ہو يا غير مکاتب۔امام شوکاني کے نزديک اس ميں کوئي فرق نہيں۔
6۔غارمين:
وہ مقروض جو اہل وعيال کے نان ونفقہ کے سلسلہ ميںزيربار ہوگئے ہوں اور  قرضہ ادا کرنے کيلئے نہ نقد رقم ہو، نہ کوئي چيز کہ جسے بيچ کر قرض ادا کرسکيں۔ دوسرے وہ ذمہ دار اصحابِ ضمانت ہيں کہ کسي کي ضمانت دي اور پھر اسکي ادائيگي کے ذمہ دار قرا رپاگئے۔تيسرے وہ لوگ جو کسي فصل کے تباہ ہوجانے يا کاروبار کے خسارہ کي وجہ سے مقروض ہوگئے۔ان سب کي امداد بھي مالِ زکوٰة سے کي جاسکتي ہے۔
7۔في سبيل اللہ:
جہاد ومجاہدين( نان ونفقہ و اسلحہ وغيرہ) پر خرچ کرنا۔چاہے مجاہدين مالدار ہي کيوں نہ ہوں۔بعض احاديث کي رو سے حج و عمرہ بھي ''في سبيل اللہ'' ميں داخل ہے۔
اسي طرح بعض علماء کے نزديک دعوت وتبليغِ دين اور نشرواشاعتِ اسلام کے تمام شعبے بھي اسميں شامل ہيں۔کيونکہ اس سے بھي جہاد کي طرح،اعلائے کلمة اللہ ہي مقصود ہوتاہے۔
8۔ابنُ السُبيل:
اس سے مراد وہ مسافر ہے ،جو دوران ِسفر نقصان ہوجانے يا جيب کٹ جانے وغيرہ سے مستحقِ امداد ہوگيا ہو۔چاہے وہ اپنے گھر يا وطن ميں صاحبِ حيثيت ہي کيوں نہ ہو۔ زکوٰة کي رقم سے اسکي مدد کي جاسکتي ہے۔
(مختصراً ازتفسير احسن البيان،مولانا حافظ صلاح الدين يوسف،تفسير سورۂ توبہ:آيت 60)

منبع:دېن خالص

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User