Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, January 12, 2011

منکرین عذاب قبر

بسم اللہ الرحمن الرحیم

منکرین عذاب قبر

 

آج امت مسلمہ ایک پُر فتن دور سے گزر رہی ہے جس میں طرح طرح کے فتنے سر اٹھا رہے ہیں اور سادہ لوح اور دینی علم سے دور مسلمانوں کو گمراہ کر رہے ہیں ان فتنوں میں سے ایک بڑا عظیم فتنہ انکارِ عذاب قبر ہے ۔جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،مفہوم حدیث:امَ عائشہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عذاب قبر کے متعلق دریافت کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عذاب قبر ہے۔(بخاری کتاب الجنائز جلد١)مگر آج چند گروہ اس کا انکار کرتے ہیں اور یہ صرف احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔

 منکرین عذاب قبر:

منکرین عذاب قبر کے کئی قسم کے اعتراض ہوتے ہیں مگران کی بنیاد ان دلائل پر ہے اب ہم ان دلائل کا جائزہ لیتے ہیں جو یہ گروہ انکار عذاب قبرکے حق میں  د یتے ہیں۔
پہلی دلیل :سب سے پہلے ان کی بات یہی ہوتی ہے کہ عذاب قبر کا ہونا قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے اورکہتے ہیںکہ قرآن مجید میں عذاب قبر کی نفی بیان ہوئی ہے اور وہ (سورہ یس) کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ترجمہ آیت''ہائے ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اُٹھادیا ''(سورہ یس آیت٥٢) اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر قبر میں عذاب ہوتا تو کیا عذاب کی جگہ کو کوئی خواب گاہ کہتا ہے اس لئے اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان کی قبروں میں سلا دیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن ان کو اُٹھایا جائے گا اور ایک اور اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قبر میں ہی جنتی اور دوزخی کا فیصلہ ہو جائے گا تو آخرت کا مقصد کیا ہے جس کو فیصلہ کا دن کہا گیا ہے۔
پہلی دلیل :سب سے پہلے ان کی بات یہی ہوتی ہے کہ عذاب قبر کا ہونا قرآن مجید سے ثابت نہیں ہے اورکہتے ہیںکہ قرآن مجید میں عذاب قبر کی نفی بیان ہوئی ہے اور وہ (سورہ یس) کی اس آیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ترجمہ آیت''ہائے ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اُٹھادیا ''(سورہ یس آیت٥٢) اس آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر قبر میں عذاب ہوتا تو کیا عذاب کی جگہ کو کوئی خواب گاہ کہتا ہے اس لئے اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کو ان کی قبروں میں سلا دیا جائے گا اور وہ قیامت کے دن ان کو اُٹھایا جائے گا اور ایک اور اعتراض کرتے ہیں کہ اگر قبر میں ہی جنتی اور دوزخی کا فیصلہ ہو جائے گا تو آخرت کا مقصد کیا ہے جس کو فیصلہ کا دن کہا گیا ہے۔
پہلی دلیل کاجواب:سب سے پہلے ہم یہ غلط فہمی دور کر دیں کہ قرآن مجید سے عذاب قبر ثابت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید نے کئی مقامات پر عذاب قبر کا تذکرہ کیا ہے۔
آیتِ ترجمہ:  اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا (٤٥)آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہوگی فرمان ہو گا ال فرعون کوسخت ترین عذاب میں ڈالو(٤٦)(سورہ المومن آیت۴۵۔۴۶)
  آیتِ ترجمہ:اس شخص سے ذیادہ ظالم کون ہو گاجو (اللہ)پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اس طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت دیکھیں کہ جب یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہوں گے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہوں گے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو آج تم کو ذلت کی سزا دی جائی گی۔(سورہ الانعام آیت  93)
آیتِ ترجمہ:اورجو اللہ کے ساتھ کسی اورمعبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیاہے اُس کا خون نہیں کرتے ہاںمگر حق پر اور زنا نہیں کرتے اورجو شخص ایسے کام کرے گا تو اس کو سزا ملی گی (٦٨)قیامت کے دن ان کے عذاب کو دوگناہ کردیاجائے گا اور اس میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل ہوکر رہے گا(٦٩)(سورہ الفرقا ن آیت 68-69 )
آیتِ ترجمہ:''جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل اُلٹے پھر گئے اس کے بعدکہ ان پر ہدایت واضح ہو چکی یقیناان کے لئے مزین کردیا ہے اور انھیں ڈھیل دے رکھی ہے یہ اس لئے کہ انھوں نے ان لوگوں سے جنھوں نے اللہ کی نازل کردہ وحی کو برا سمجھا یہ کہا کہ ہم بھی عنقریب بعض کاموں میں تمہارا کہا مانیں گے اور اللہ ان کی پوشیدہ باتیں خوب جانتا ہے سو کیا حال ہوگا جب فرشتے ان کی جان قبض کرتے ہوں گے اور ان کے منہ اور ان کی پیٹھوں پر مارتے جاتے ہوںگے''(سورہ محمد صلی اللہ علیہ وسلمآیت (24-27
قرآ ن مجید میں یہ وہ مقامات ہیں جن سے عذاب قبر ثابت ہوتا ہے ،اوراس میں ہرقسم کے لوگ ہیں کافر ومشرک منافق اور گناہگار ان سب کے بارے میں عذاب قبر کی وعید ہے اس کے بعد( سورہ یس)کے حوالے سے عذاب قبرکی نفی کی جوکوشش کی ہے اس کے بارے میں ہم یہ بات کہتے ہیں کہ اس آیت سے عذاب قبر کی نفی نہیں ہے اور یہی بات ابن کثیر نے اس آیت کی حوالے سے نقل کی ہے کہ اس سے قبر کے عذاب کا نہ ہونا ثابت نہیں ہوتا اس لئے کہ جس ہول وشدت کو اور جس تکلیف اور مصیبت کو یہ اب دیکھیں گے اس کی نسبت توقبر کے عذاب بے حد خفیف ہی تھے (تفسیر ابن کثیر) اب اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ اگر ایک شخص کو ایک کمرے میں بند کر دیا جائے اور صبح شام اس کو مارا پیٹا جائے اس کے چھ سال بعد اس کو ایک پنجرے میںڈال دیا جائے جس میں وہ صرف بیٹھ سکتا ہو اور اس پنجرے کو اتنا گرم کردیا جائے کہ اس کی کھال اس سے جھلس جاتی ہو تو وہ شخص ضرور کہے گا کہ اس سے اچھا تو میں اس کمرے میں تھا ،پس اسی طرح جب مردے قبر سے نکلیں گے تو وہ بھی قیامت کے عذاب کو دیکھ کر قبر کو خواب گاہ کہیں گے ۔اور دوسری بات یہ ہے کہ قتادہکا ایک قول اس آیت کے حوالہ سے منقول ہے کہ پہلے نفخہ اور دسرے نفخہ کے درمیان یہ سو جائیں گے اس لئے اب اٹھ کر یوں کہیں گے''ہائے ہمیں کس نے ہماری خواب گاہوں سے اُٹھادیا ''(تفسیر ابن کثیر،تفسیرِطبری)اب جو قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اس سے بات واضح ہوجائے گی۔
ترجمہ آیت:اور جب آپ کے رب نے اولادِ آدم کی پشت سے ان کی اولادِ کو نکالا اور ان سے ان کے متعلق اقرار لیاکیا میںتمہارا رب نہیں ہوںسب نے جواب دیا کیوں نہیں ہم سب گواہ بنتے ہیں تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبرتھے۔(سورہ اعراف آیت172) 
ترجمہ آیت اے اولاد ِ آدم کیا میں نے تم سے قول وقرار نہ لیا تھا کہ تم شیطان کی تابعداری نہ کرنا وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے اور میری عبادت کرنا سیدھی راہ یہی ہے(یس60-61)
ان آیات میں اللہ نے اس وعدے ذکر کیا ہے جو اس نے تمام ارواح سے لیا ہے اور پھر قیامت میں ان نافرمان لوگوں کو وہ و عدہ  یاد دلارہا ہے جو انھوں نے کیا تھا یہ بتائیے کہ اب دنیا میں کس کو یاد ہے کہ اس سے اللہ نے عالمِ ارواح میں وعدہ لیامگر قیامت کے دن ان کو اللہ اپنے سے کیا ہوا وعدہ یاد کرادے گا ۔اسی طرح انسان جب قبر سے اٹھے گا تو وہ اس عذاب قبر کو بھول جائے گا جو اسے اس کی قبر میں ہوا، جیسے دنیا میں اللہ سے عالم ارواح میں کیا ہوا وعدہ(کہ وہ صرف اس کی عبادت کرے گا)بھول گیا ہے او ر قیامت میںاس کو یاد آجائے گا اوراس کو صرف قبر کی وہ نیند یاد رہی گی جو کچھ دیر کو آئیگی جیسا قتادہ کا قول ہے  پس اب یہ بات ثابت ہو چکی کہ اس آیت (سورہ یس )سے عذاب قبرکی نفی نہیں ہوتی ہے۔اور جو دوسری بات یہ کہتے ہیںکہ اگر جنت و جہنم قبر میں ہی معلوم ہو گئے تو آخرت کاکیا مطلب جس کو فیصلہ کاد ن کہاگیا ہے ۔تو اس کا جواب ہم ایک مثال سے دیتے ہیںکہ ایک شخص کسی جرم میںپکڑا جاتا ہے تو اس کو پولیس کسٹڈی (custody)میں رکھا جاتا ہے اور وہ وہاں کی سختی اور مصیبت برداشت کرتا ہے مگر وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ اس کے مقدمے کا فیصلہ اور اس کو سزا ملنی باقی ہے ۔اسی طرح قبر میں بھی مردے کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تمہاری سزا اس قبر میں ہی ختم نہیں ہو گی بلکہ اصل سزا یہ جہنم ہے جو تمہیں روز دکھائی جاتی ہے اور جو تم کو روزِ قیامت فیصلہ کے بعد دی جائے گی جس کا تم انکار کرتے تھے۔ اور اسی طرح کی بات حدیث میں بھی بیان ہوئی ہے ۔مفہوم حدیث:ابن عمرنے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کی قیام گاہ اسے صبح و شام دکھائی جاتی ہے خواہ وہ جنتی ہویا دوزخی اسے بتایا جاتا ہے یہ تمہاری ہونے والی قیام گاہ ہے،جب تمھیں اللہ قیامت کے دن دوبارہ اُٹھائے گا۔(بخاری کتاب الجنائز جلد1)
دوسری دلیل:منکرین عذاب قبر کی دلیل یہ بھی ہوتی ہے کہ قرآن مجید نے صرف دو موت اور دوزندگی کا تذکرہ کیا ہے جس کی دلیل میں یہ آیت پیش کرتے ہیں۔
ترجمہ آیت:''وہ لوگ کہیں گے اے ہمارے رب تو ہمیں دوبارہ موت دے چکا اور دوبارہ زندگی دے چکا ،اب (یہاں سے) نکلنے کی بھی کوئی راہ ہے''(سورہ المومن آیت11)
  ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے کئی مقامات پر تیسری موت اور زندگی کا ذکر کیا ہے ۔
ترجمہ آیت:یا تو نے اس شخص کو نہ دیکھا جس کا گذر ایک بستی پر ایسی حالت میں ہوا کہ وہ اپنی چھتوں  پر گری پڑی تھی،وہ شخص کہنے لگا،اللہ اس بستی کے مردوں کو کیسے زندہ کرے گا ،سو اللہ نے اس شخص کو سو برس تک مردہ رکھا پھر اس کو زندہ کر اٹھایا ،پوچھا کہ کتنی دیر اس حالت میں رہا اس شخص نے جواب دیا ایک دن یا اس سے کم اللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ تو سوبرس رہا ہے اب اپنے کھانے پینے کو دیکھ لے کہ نہیں سڑی گلی اور اپنے گدھے کی طرف دیکھ ،اور تاکہ ہم تجھکو ایک نظیر لوگوں کے لئے بنا دیں ،اور ہڈیوں کی طرف نظر کر کہ ہم ان کو کس طرح ترتیب دیئے دیتے ہیں پھر جب اس شخص پر سب کیفیت واضح ہو گئی تو کہہ اٹھا کہ میں یقین رکھتا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے( سورہ البقر آیت269)  اور قرآن مجید میں اللہ نے نیند کو بھی موت سے تعبیر کیا ہے ترجمہ آیت :او روہی ہے کہ رات میں تمہاری روح قبض کر دیتا ہے اور جو کچھ تم دن میں کرچکے اس کو جانتا ہے پھر تم کو اس میں اٹھا دیتا ہے تاکہ معیّن میعاد(تمہاری زندگی)تمام ہو جائے ،پھر اسی کی طرف تم کو لوٹ جانا ہے،پھر تم کو بتادیگا جو کچھ تم کرتے رہے ہو(سورہ الانعام آیت60  )پہلی آیت سے دنیا میں ہی تیسری موت اور زندگی کاتصور ملتا ہے تو جو اللہ دنیا میں موت دے کر زندہ کر سکتا ہے تو وہ قبر میںبھی زندگی دے سکتا ہے اور دوسری آیت کے مطابق تو ہرروز کی موت اورزندگی ثابت ہے اور اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے مفہوم حدیث:حذیفہنے بیان کیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوتے کہتے تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے جس نے ہمیں زندہ کیا اس کے بعد کہ ہمیں موت دے دی تھی اور تیری طرف جانا ہے (بخاری کتاب الدعاء جلد ٣)اور اس کے بعد ہم قرآن مجید کی اس ا یت مطالعہ کرتے ہیں جس سے بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائی گی آیتِ ترجمہ:  اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا،آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہوگی فرمان ہو گا ال فرعون کوسخت ترین عذاب میں ڈالو (سورہ المومن آیت 45-46 ) اس آیت میںاللہ خود تیسری برزخی زندگی کا ذکرکر رہا ہے جس میں ال فرعون کو عذاب دیا جارہا ہے ۔
غامدی صاحب کا موقف: عذاب قبر کے بارے میںادارہ المورد کے سرپرست اعلی اور اسکالر جاوید احمد غامدی کا کہنا ہے کہ جن کے اعمال نامہ میں گناہ بھی ہیں اور ثواب بھی ہے ان کو قیامت تک کے لئے سلا دیا جائے گااور ان کا فیصلہ قیامت میں ہو گایعنی اگر گناہ گار ہیں تو ان پر قبر کا عذاب نہیں ہوگااور کافروں اور فرعون کے لیول کے لوگوں کو عذاب ہوگا۔
  موقف کا جواب:  قرآ ن مجید میں واضح موجود ہے کہ جو گناہگار ہیں اور اگر اللہ کے یہاں عذاب کے مستحق ہیں تو ان پر بھی عذاب قبر ہو گاجیسا قرآن مجید میں بیان ہوا ہے
آیتِ ترجمہ:اورجو اللہ کے ساتھ کسی اورمعبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کو اللہ نے حرام کیا ہے اُس کا خون نہیں کرتے ہاںمگر حق پر اور زنا نہیں کرتے اورجو شخص ایسے کام کرے گا تو اس کو سزا ملی گی (٦٨) قیامت کے دن ان کے عذاب کو دوگناہ کردیاجائے گااور اس میں ہمیشہ ہمیشہ ذلیل ہوکر رہے گااور جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے توایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا ،اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(٦٩)(سورہ الفرقا ن آیت 68-70 )
اگر ہم اس آیت پر غورکریںتو  اس آیت سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو شرک زنا یا قتل کرے گا تواس کو سزا ملی گی قیامت میں اس کے عذاب کودوگنا کیا جائے گا تو کم عذاب اس کو کہاں ہو گا وہ عذاب قبر میں ہو گااور قیامت میں اس کودوگنا کر دیاجائے گا مگر اگر جو توبہ کرے اس توبہ کے الفاظ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ گناہگار لوگ ہوں گے اگر توبہ کریں گے تو اللہ اپنی رحمت سے ان کو معاف کر دے گا ۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جو گناہگار ہوں گے ان کو بھی عذاب قبر ہوگا۔ پس ثابت ہوا کہ عذاب قبر حق ہے اب چاہے کوئی مر کر قبر میں جائے جلا دیا جا ئے یا پانی میں ڈوب کر مرے جو اللہ کے نزدیک عذاب کا مستحق ہے اس کو اللہ عذاب دے گااب چاہے وہ لوگ کافر ومشرک منافق اورگناہگار ان سب کے لئے عذاب قبر ہے اور یہ قرآن مجید سے ثابت ہے (جیسا ہم نے اوپر بیان کیا ہے)۔ مگر اگر ایما ن لائے کافر ومشرک اور توبہ کرے منافق اور گناہگار تو (انشااللہ)اللہ اس کو اپنی رحمت میں جگہ دے گا(اللہ ہم سب سے عذاب قبر کو دور فرمائے اور اپنی رحمت میں جگہ دے)(آمین)
اسکے بعد ہم منکرین عذابِ قبر کے ان اعتراضات کے جواب دیںگے جو وہ عذاب قبر کے متعلق احادیث پر کرتے ہیں۔(نوٹ:یہ تمام ا عتراضات ہم نے منکرین عذاب قبر کی کتاب دوموتیں سے بیان کئے ہیں۔)
مفہوم حدیث:ابن عباس  نے بیان کیا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر دو قبروں سے ہوا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا کہ ان دونوں دے مُردوں پر عذاب ہو رہا ہے اور یہ بھی نہیں کہ کسی بڑی اہم بات پر ہو رہا ہے ۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں لیکن ایک شخص تو چغل خوری کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب سے بچنے کا زیادہ اہتمام نہیں رکھتا تھا۔انھوں نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک تر شاخ لی اور اس کے دو ٹکڑے کر کے دونوں قبروں پر گاڑ دیا اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہو ں ،ان کے عذاب میں تخفیف رہے۔(بخاری کتاب الجنائزجلد1)
اعتراض نمبر1 :صرف دو قبروں پر عذاب ہو رہا تھا باقی محفوظ تھیں۔
جواب:اس بارے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی قبرستان سے نہیں گزر رہے تھے بلکہ حدیث کے الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا گزر دو قبروں سے ہوا تو باقی قبروں کا کیا سوال ہے-
  اعتراض نمبر2:یہ قبریں کافروں کی تھیںیا مسلمانوں کی اگر کافروں کی تھیں تو تخفیف کیسی اور اگر مسلمانوں کی تھیں تو وہ کیسے مسلمان تھے جوپیشاب سے پرہیز نہ کرتے تھے ان کی نمازیں کیسے قبول ہوتی تھیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب میں تخفیف کرانے کا حق کس نے دیا یعنی اللہ تو اُن پر عذاب نازل کرتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلممعاذاللہ اس کے کاروبار میں مداخلت کرکے اسے روکتے ہیں۔ 
 جواب: اس اعتراض کے جواب میں ہم قرآن مجید کی یہ آیت پیش کرتے ہیں جس سے بات خود واضح ہو جائی گی۔
ترجمہ آیت:بلاشبہ اللہ اس بات کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار دیا جائے اور اس کے سوا جتنے گناہ ہیں جس کے لئے منظور ہو گا وہ بخش دیگااور جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹہراتا ہے وہ بڑے گناہ کا مرتکب ہوا۔(سورہ النساء آیت48)اب ہم یہ پوچھتے ہیں یہ کیسے مسلمان ہیں جو اتنے بڑے گناہ(شرک ،زنا ،چوری ،قتل) کے مرتکب تھے جن کے لئے اللہ مغفرت کا اعلان کر رہا ہے اور حدیث میں تو الفاظ ہیں کہ یہ کوئی بڑے گناہ نہیں تھے بات صرف اتنی سی ہے کہ انسا ن غلطی کرتا ہے اور توبہ کرے تو اللہ اس کو معاف کرنے والا ہے جس کا بیان قرآن مجید میں متعدد بار ہواہے اور جہاں تک نماز کے قبول ہونے کا سوال ہے تو ہم اعتراض کرنے والے سے پوچھتے ہیں کیا اتنے بڑے گناہ کرنے والوں کی نمازیں قبول ہو ںگی اور جہاں تک یہ بات کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلمکو یہ حق کس نے دیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہو یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے تخفیف کی امید کی،جیسا امام نووی نے شرح مسلم میں لکھتے ہیںکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کی سفارش کی تو وہ سفارش قبول ہوئی اس طرح سے کہ ان کے عذاب سے کم  کر نے کا حکم  ہو اٹہنی کے سوکھنے تک۔(مسلم کتاب الطہارت جلد ١مع شرح امام نووی) اس سے یہ ثابت ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے تخفیف کی سفارش کی نہ کہ ا للہ کے کاروبار میں مداخلت کی جیسا اعتراض کرنے والے نے کہاہے۔
اعتراض نمبر3:حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے معلوم ہوا کہ قبر میں عذاب ہورہا ہے وحی آئی تھی تو وحی قرآن سے غائب کیوں ہوئی اور بغیر وحی کے فرمایا تو علم غیب ثابت ہوگا مگر قرآن کہتا ہے ہم نے تمہیں غیب کا علم نہیں دیا۔
جواب: سب سے تو ہم یہ کہناچاہتے ہیں کہ وحی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وحی جلی اور دوسری وحی خفی تو عذاب قبر کا معلوم ہونا وحی خفی سے تھا اور ہم قرآن سے ہی وحی خفی ثابت کریں گے  ترجمہ آیت:جس قبلہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا تابعدار کو ن ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں دے بل پلٹ جاتاہے(سورہ البقرہ آیت143) اس آیت میں اللہ نے فرمایاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پہلا قبلہ ہم نے مقرر کیا ہے مگر پورے قرآن مجید میں یہ حکم کہیں نہیں ملے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے قبلہ(بیت المقدس)کی طرف رخ کرکے نماز ادا کریںتو یہ حکم کہاںہے ظاہر سی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلمکویہ حکم وحی خفی سے ملا ہے اسی طرح یہ بات کہ قبر پر عذاب ہو رہا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے بتادیااور یہ اصول قرآن مجید میں واضح طور پر بیان ہوا ہے،ترجمہ آیت:یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کہتے وہ وحی ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے(سورہ النجم آیت٣)۔
اعتراض نمبر4:منکیر نکیر قبر میں سوا ل پوچھتے ہیں اور جواب خاطر خواہ نہ ملے تو اسے مارتے ہیں اور مردہ چِلاتا ہے اس کی آواز کو انسان اور جن کے سوائے سب سنتے ہیںاگر سن لیں تو بے ہوش ہوجائیںایک روایت میں ہے مغرب کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز سنی تو فرمایا یہودی پر عذاب کیا جارہا ہے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آواز کیسے سن لی پھر یہ کہ انسان تو بے ہوش ہوجائے مگر جانور(کتا،بلی گدھا ،پرندے)نہ بے ہوش ہوتے ہیں نہ ڈرتے ہیںپھر یہ کہ ڈاکٹری تعلیم کے لئے جو مردے ہسپتال میں رکھے جاتے ہیں ان کو منکیر نکیر کیوں نہیں اٹھاتے اور اگروہ زندہ ہو کر سوال و جواب کرتے ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے وہ تومٹی کی طرح پڑے رہتے ہیں بخاری کہتے ہیں مُردے کو صبح شام جنت و دوزخ دکھائی جاتی ہے کہ یہ تمہارا ٹھکانہ ہے تو ہسپتال کے مُردے کس وقت دیکھتے  ہیںان کی آنکھیں سوکھ کر پتھرا جاتی ہیں۔
جواب: سب سے پہلی بات حضور  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے سنا تو اس کا جواب قرآن مجید میں ہے،ترجمہ آیت:اور زندے اور مُردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ جس کو چاہتا ہے سنوا دیتا ہے ،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔(سورہ فاطرآیت21-22) اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی مرضی ہے کہ وہ مُردوں کو سنوادے اسی طرح اللہ ہی کی مرضی تھی کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مُردوں کی آواز سنوا دے تاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو عذاب قبر سے بچنے کی نصیحت کریںاور پھر ہمیںعذاب قبر سے بچنے کی وہ دعا بھی بتائی جس کو ہر نماز میںپڑھنے کی ہمیں تلقین کی ہے ۔اس کے بعد یہ بات کہ جانور کیوں نہیں ڈرتے تو ہم اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں کہ ایک شخص جو گاؤں میں رہتا ہیںاگر وہ شہر میں آجائے تو اس کو شہر کا ماحول کچھ دن تک عجیب لگے گا اس کے بعد وہ اس ماحول کا عادی ہوجائے گا اسی طرح جانور ان آوازوں کے عادی ہوجاتے ہیں اس لئے بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتااورایک دوسری مثال سے سمجھتے ہیںکہ اگر کراچی شہر میںایسی وبا پھیلے جس سے صرف انسان متاثر ہو اور جانور پر اس کا اثر نہ ہو تو کراچی شہر سے جتنے انسان ہیں وہ سب شہر چھوڑ جائیں گے مگر جانورنہیں جائیں گے کیونکہ ان کو اس وبا سے کوئی خطرہ نہیں ہے اسی طرح جانورں کو عذاب قبر کا کیا خوف کیونکہ ان پر تو ہونا نہیں ہے اس لئے ان کو اِن آوازوں کی کیا فکر ہے اصل میں تو عذاب انسانوں پر ہونا ہے اگر اس کو آواز آجائے تو وہ یہی سوچے گا اگر میں مرا تو مجھ پر بھی اسی طرح عذاب نہ ہوا سی بات کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،مفہوم حدیث:اگر تمہیں پتا چل جائے عذاب قبر کا تو اپنے مُردے دفنا چھوڑ دو''()اس حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ انسان پر عذاب ہونا ہے اس لئے اگر وہ سن لے تو بیہوش ہوجائے گا اور دسری بات کہ جن بھی نہیں سنے گے کیونکہ جن بھی وہ مخلوق ہے جس کا حساب ہونا ہے ۔ اور جہاں تک ہسپتال کے مُردوں کے بارے میں جو اعتراض کیا ہے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ قرآن مجید نے فرعون کے عذاب کا ذکر کیا ہے۔آیتِ ترجمہ:  اور فرعون والوں پر بری طرح کا عذاب الٹ پڑا (٤٥)آگ ہے جس کے سامنے یہ ہر صبح وشام لائے جاتے ہیں اور جس دن قیامت ہوگی فرمان ہو گا ال فرعون کوسخت ترین عذاب میں ڈالو(٤٦) (سورہ المومن آیت 45-46 ) اس آیت کے مطابق ال فرعوں پر صبح شام عذاب ہوتا ہے مگر فرعون کی لاش مصر کے میوزیم میں پڑی ہے تو اس کوعذاب کیسے ہو رہا ہے جس طرح فرعون کو عذاب ہوتا ہے اسی طرح ہسپتال کے مردے بھی اپنا حساب کتاب دیںگے اب یہ بات کہ ہمیں کیوں نظر نہیں آتے تو قرآن میں ہے دو فرشتے ہر انسان کے ساتھ ہیں ترجمہ آیت:یقینا تم پر نگہبان بزرگ لکھنے والے مقرر ہیں ،جوکچھ تم کرتے ہو وہ جانتے ہیں   (سورہ انفطار83آیت0-11 1)
اب قرآن مجید یہ کہتا ہے کہ دوفرشتے ہرانسان کے ساتھ ہیں تو وہ دکھائی کیوں نہیں دیتے اصل بات یہ ہے کہ یہ غیب کا معاملہ ہے اگر قبر کا عذاب اور جہنم اور جو ایمان ِ غیب کی باتیں سب انسان پر عیاں ہوجاہیں تو دنیا کو جو قرآن نے امتحان کی جگہ کہا ہے تو اس کا مقصد تو بیکار ہو جائے گااوریہ ایک پردہ ہے جو دنیا کی زندگی اور مرنے کے بعد کی زندگی کے درمیان حائل ہے جس کو قرآن مجید ایک مثال سے واضح کیا ہے آیت:مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ(١٩)بَیْنَھُمَا بَرْزَخُ لَّا یَبْغِیٰنِ (٢٠)ترجمہ آیت: اسی نے باہم ملکر چلنے والے دو دریارواںکئے ( )ان دونوں کے درمیان حجاب ہے کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے۔(سورہ الرحمان آیت19-20) اسی طرح ہمارے لئے بھی پردہ ہے جو مرنے کے بعد کھولے گا پھر تمام باتیں واضح ہوجائیں گی تب تک ہم کو صرف یہی کہنا چاہئے کہ جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سچ فرمایا اور ہم اس پر ایمان لائے۔
عذاب قبر کا انکار صرف اس وجہ سے ہے کہ عذاب قبر سے متعلق احادیث کو اور برزخی معاملات کو عقل کی کسوٹی پر جاننے کی کوشش کی گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک ایسی بات کا انکار کر تے ہیں جو ضرور ہونا ہے اللہ ہمیں ہدایت دے اور عذاب قبر سے بچائے جس میں ہر مسلمان کی آزمائش ہوگی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User