Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, January 12, 2011

ہجرت مدینہ کی حقیقت: ابو الکلام آزاد

سیرت و سوانح - سیرت النبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم  

 

ہجرت مدینہ کی حقیقت

 

ابو الکلام آزاد

اسلام کے ظہور کی تاریخ دراصل دو بڑے اور اصولی عہدوں میں منقسم ہے۔ ایک عہد مکہ کی زندگی اور اعمال کا ہے، دوسرا مدینہ کے قیام اور اعمال کا۔ پہلا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے شروع ہوتا ہے اور ہجرت پر ختم ہو جاتا ہے، اس کی ابتداءغار حرا کے اعتکاف سے ہوتی ہے اور تکمیل ثور کے انزوا ( گوشہ نشینی ) پر۔ دوسرا ہجرت سے شروع ہوتا ہے اور حجة الوداع پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس کی ابتداءمدینہ کی فتح سے ہوئی اور تکمیل مکہ کی فتح پر۔
دنیا کی نظروں میں اسلام کے ظہور و اقبال کا اصلی دور دوسرا دور تھا۔ کیونکہ اسی دور میں اسلام کی پہلی غربت ختم ہوئی اور ظاہری طاقت و حشمت کا سر و سامان شروع ہوا۔ بدر کی جنگی فتح ہتھیاروں کی پہلی فتح تھی۔ مکہ کی فتح، عرب کی فتح کا اعلان عام تھی، لیکن خود اسلام کی نظروں میں اس کی زندگی کا اصل دور، دوسرا دور نہیں پہلا تھا۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کی ساری قوتوں کی بنیادیں دوسرے میں نہیں پہلے دور میں استوار ہوئی ہیں۔ بلاشبہ بدر کے ہتھیاروں نے اپنی غیر مسخر طاقت دنیا میں اعلان کر دیا، لیکن جو ہاتھ ان ہتھیاروں کے قبضوں پر جمے تھے۔ ان کی طاقتیں کس میدان میں تیار ہوئی تھیں؟ بلاشبہ مکہ کی فتح عرب کی فیصلہ کن فتح تھی، لیکن اگر مدینہ کی فتح ظہور میں نہ آتی تو مکہ کی فتح کی راہ کیونکر کھلتی؟ یہ سچ ہے کہ مکہ ہتھیاروں سے ہوا، لیکن مدینہ ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ہجرت اور اس کے دور کے اعمال سے فتح ہوا تھا، پس دوسرے دور میں جسم کتنا ہی طاقتور ہو، لیکن اس کی روح پہلے ہی دور میں ڈھونڈنی چاہیے۔
پہلا دور تخم تھا، دوسرا اس کے برگ و بار تھے۔ پہلا دور بنیاد تھی، دوسرا ستون و محراب تھا، پہلا نشوونما کا عہد تھا، دوسرا ظہور و انفجار کا۔ پہلا معنی و حقیقت تھا، دوسرا صورت و اظہار، پہلا روح تھا، دوسرا جسم پہلے نے پیدا کیا۔ درست کیا اور مستعہ کر دیا۔ دوسرے نے قدم اٹھایا آگے بڑھایا اور فتح و تسخیر کا اعلان کر دیا۔ دوسرے کا ظہور کتنا ہی شاندار ہو، لیکن اولین بنیاد و استعداد کی عظمت پہلے ہی کو حاصل ہے۔ وجود اور زندگی کے ہر گوشے کے لیے خدا کا قانون وجود ایک ہی ہے۔ تم اس کے کتنے ہی مختلف نام رکھ دو، مگر وہ خود ایک سے زیادہ نہیں۔ اب ایک لمحے کے لیے ٹھہرو اور غور کرو کہ تخلیق و تکمیل وجود کے لیے خدا کا قانون حیات کیا ہے؟
فرد کی طرح جماعت کا بھی وجود ہے۔ عالم صورت کی طرح عالم معنی بھی اپنی ہستی رکھتا ہے۔ لیکن کوئی چیز ہو، تخلیق و تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ یکے بعد دیگرے دو مختلف دوروں سے گزرے۔ پہلا دور استعداد داخلی کا ہے۔ دوسرا استعداد خارجی کا۔ ضروری ہے کہ پہلے دور کی استعداد وجود میں آئے اور ضروری ہے کہ اندر کی استعداد کی تکمیل کے ساتھ ہی باہر کی استعداد بھی اس کے اندر پیدا ہو جائے۔

ہر چیز کی تخلیق و تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کارخانہ فیضان فطرت سے اکتساب فیض کی صحیح استعداد پیدا ہو اور اس استعداد کے ظہور کا پہلا محل اندرونی ہے۔ دوسرا بیرونی جب تک کوئی چیز اپنے اس پہلے دور میں صحیح استعداد پیدا نہیں کرلے گی، دوسرے دور کی استعداد پیدا نہیں کر سکتی، خارج کے نشوونما کے لیے داخل کا نشوونما بمنزلہ سبب موجود نہ ہو گا، نتائج ظہور میں نہیں آئیں گے۔
فرد اور جماعت دونوں کا ایک حال ہے۔ اشیاءاور افراد کی طرح جماعت بھی پیدا ہوا کرتی ہے، اس کی تخلیق نشوونما اور ترقی و تکمیل کے لیے بھی بعینہ وہی قوانین ہیں جو اشیاءافراد کے لیے ہیں جس طرح فطرت الٰہی کی ربوبیت نے مخلوقات کی زندگی اور نشوونما کے لیے اپنی بخششوں کے بادل زمین پر پھیلا دےے ہیں۔ ہر شے زندگی دینے والی ہر شے پرورش کرنے والی اور ہر شے وجود و کمال تک لے جانے والی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ” جماعت“ اور امت کے ظہور و نشوونما کے لیے بھی ہر طرح کی بخششوں اور ہر طرح کی فیض رسانیوں کا سامان مہیا کر دیا ہے۔ ربوبیت اس کے ظہور کا انتظار کرتی اور بخشش فطرت اس کے قدم اٹھائے کی راہ تکتی ہے۔ لیکن جس طرح افراد و اشیا کے لیے فطرت کا تمام سامان فیض صرف اسی حالت میں مفید ہو سکتا ہے۔ جب کہ خود ان کے اندر صحیح و صالح استعداد موجود ہو۔ اسی طرح ” جماعت“ کا مولود بھی وقت کے فیضان اور قومی ماحول کی بخششوں سے اسی حالت میں فائدہ اٹھا سکتا ہے، جب خود اس کے اندر اکتساب و انفعال کی صحیح استعداد حضرت ہو، پھر جس طرح اس استعداد کی تکمیل کا پہلا مرحلہ داخلی ہے، دوسرا خارجی۔ اسی طرح جماعتوں اور قوموں کے مزاجی استعداد کے لیے بھی پہلا مرحلہ داخلی ہے اور دوسرا خارجی کوئی جماعت، کوئی قوم انسان کی ہیئت اجتماعیہ کشمکش حیات کی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکتی، اگر پہلے ایک تخم اور جنین کی طرح اپنی داخلی استعداد کی منزل طے نہیں کر لیتی۔ اس کی داخلی تخلیق و تکمیل کا بھی ایک معین وقت اور وقت کی ایک معین مقدار ہے۔ اگر ایک جماعت وجود و کمال کا پورا درجہ حاصل کرنا چاہتی ہے، تو ناگزیر ہے کہ پہلا داخلی استعداد کی تکمیل کا وقت بسر کرے۔ اس کے بعد خارج کے اعمال و فتوح کا دروازہ خود بخود اس پر کھل جائے گا، کیونکہ خارج کی تمام کامرانیاں اس کی داخلی استعداد کی تکمیل کا نتیجہ و ثمرہ ہوتی ہیں۔
ظہور اسلام کا پہلا دور، جو بعثت سے شروع ہو کر ہجرت پر ختم ہوا اور جس کا نکتہ تکمیل ہجرت کا معاملہ تھا، دراصل جماعت کی داخلی استعداد کا دورہ تھا، اور اس لیے ظہور اسلام کی تمام فتح مندیوں اور کامیرانیوں کا مبداءیہی دور تھا، نہ کہ مدنی زندگی کا دوسرا دور۔ بلاشبہ دنیا کی ظاہر بین نگاہوں میں یہ مصیبتوں کا دور اور بے چارگیوں اور درماندگیوں کا تسلسل تھا، لیکن بباطن امت مسلمہ کی ہر آنے والی فتح مندی اسی کی مصیبتوں اور کلفتوں کے اندر نشوونما پا رہی تھی۔ یہی مصیبتیں تھیں جو ” جماعت“ کے ذہن و اخلاق کے لیے تعلیم و تربیت کا مدرسہ اور تزکیہ نفوس و ارواح کی امتحان گاہ تھیں۔ بدر کے فتح مند اسی کے اندر سبق لے رہے تھے۔ فتح مکہ کے کامران اسی کے اندر بن اور ڈھل رہے تھے، اتنا ہی نہیں بلکہ یرموک اور قادسیہ کی پیدائش بھی اسی کی آزمائشوں اور خود فروشیوں میں ہو رہی تھی۔
یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم نے اس جہاد کو تو صرف جہاد کہا، جو مدنی زندگی میں اسلحہ جنگ سے کرنا پڑتا تھا، لیکن نفس و اخلاق کے تزکیہ و تربیت کا جو جہاد اس سے پہلے دور میں ہو رہا تھا اسے ” جہاد کبیر“ سے تعبیر کیا کیونکہ فی الحقیقت بڑا جہاد یہی جہاد تھا۔ فلا تطع الکافرین وجاھدھم بہ جہادا کبیرا ( الفرقان: 53 ) ” بالاتفاق سورہ فرقان مکی ہے۔ مکی زندگی میں جس بڑے جہاد کا حکم دیا گیا تھا، صبر و استقامت اور عزم و ثبات کا جہاد تھا اور انہی اوصاف میں جماعت کی داخلی استعداد کی اصلی بنیادیں تھیں۔
ہجرت ایک واقعہ اس دور کی مصیبتوں کی انتہا تھا، اس لیے اس کی برکتوں اور سعادتوں کی بھی آخری تکمیل تھا۔ صحابہ کرام اس حقیقت سے بے خبر نہ تھے اور کیوں کر بے خبر ہو سکتے تھے، جبکہ ان کی دماغی تربیت کی اصلی روح اسی معاملہ میں مضمر تھی۔ پس جب یہ سوال سامنے آیا کہ اسلامی سنہ کی ابتدا کس واقعہ سے کی جائے تو انہیں کسی ایسے واقعہ کی جستجو ہوئی، جو امت کے قیام و اقبال کا اصلی سرچشمہ ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا واقعہ یقینا سب سے بڑا واقعہ تھا، لیکن اس کے تذکار میں شخصیت سامنے آتی تھی، شخصیت کا عمل سامنے نہیں آتا تھا، بعثت کا واقعہ بھی سب سے بڑا واقعہ تھا، لیکن وہ معاملہ کی ابتدا تھی، انتہا و تکمیل نہ تھی، بدر کی جنگ اور مکہ کی فتح عظیم واقعات تھے، لیکن وہ اسلام کی فتح و اقبال کی بنیاد نہ تھے۔ یہ تمام واقعات ان کے سامنے آئے، لیکن ان میں سے کسی پر بھی طبیعتیں مطمئن نہیں ہو سکیں۔
بالآخر جب ہجرت کا واقعہ سامنے آ گیا، تو سب کے دلوں نے قبول کر لیا، کیونکہ انہیں یاد آ گیا، اسلام کے ظہور و عروج کا مبدائے حقیقی اسی واقعہ میں پوشیدہ ہے اور اس لیے یہی واقعہ ہے جسے اسلامی تاریخ کا مبدا بننا چاہیے۔
پھر یہ حقیقت کس درجہ واضح ہو جاتی ہے، جب اس پہلو پر نظر ڈالی جائے کہ ظہور اسلام کی تمام فتح مندیوں میں سب سے پہلی فتح مدینہ کی فتح تھی اور اس کی تکمیل ہجرت کے واقعہ سے ہوئی تھی۔ مدینہ کے ساتھ فتح کا لفظ سن کر تعجب ہوا ہو گا، کیونکہ تم صرف اسی فتح کے شناسا ہو جو جنگ کے میدانوں میں حاصل کی جاتی ہے، لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ میدان جنگ کی فتح سے بھی بڑھ کر دلوں کی آبادیوں اور روحوں کی اقلیموں کی فتح ہے اور اسی فتح سے میدان جنگ کی فتح مندیاں بھی حاصل ہوتی ہیں۔
عین اس وقت جب کہ اسلام کا داعی اپنے اہل وطن کی شقاوتوں سے مایوس ہو گیا تھا، باشندگان یثرب کی ایک جماعت پہنچتی ہے اور رات کی تاریکی میں پوشیدہ ہو کر اپنی روح کا ایمان اور دل کی اطاعت پیش کرتی ہے، اس وقت دنیوی جاہ و جلال کا نام و نشان نہیں ہوتا، سیف و سنان کی ہیبت و جبروت کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سر تا سر غربت اولیٰ کی بے سرو سامانیاں اور عہد مصائب و محسن کی درماندگیاں ہوتی ہیں۔ بایں ہمہ یثرب کی پوری آبادی اس کے سامنے جھک جاتی ہے اور ایمان کے ایسے جوش اور عشق و اطاعت کی ایسی خود فروشیوں کے ساتھ اس کے استقبال کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ جو تاریخ عالم کے کسی بڑے سے بڑے فاتح اور شہنشاہ کو بھی میسر نہ آئی ہو گی۔ دلوں اور روحوں کی اس فتح و تسخیر سے بڑھ کر بھی اور کوئی فتح ہو سکتی تھی؟ لیکن یہ فتح کیونکر ہوئی؟ دور ہجرت کے آلام و محسن میں اس کا آغاز ہوا اور ہجرت نے اس فتح کی تکمیل کر دی۔

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User