Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

خود غرضی … ایک روحانی او راخلاقی بیماری

خود غرضی … ایک روحانی او راخلاقی بیماری


محترم یرید احمد نعمانی

”ہمارے بڑے بھائی کا رشتہ ایک جگہ طے ہوا ،کچھ دنوں پہلے لڑکی والوں کی طرف سے نفی میں جواب آگیا ہے “۔”انکار کی وجہ کیا بنی؟“”بظاہر تو ایسا کوئی سبب نہیں ،الحمد للہ سرکاری نوکری ہے ،ماہانہ تنخواہ تیس ہزار روپے ہے،گزر بسر اچھا اور کافی ہوجاتا ہے ،البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ موصوف ”گنج پن“ کا شکار ہیں“۔پھر بھی کوئی چیز توبنیا د بنی ہوگی ؟صراحتاًتو کوئی وجہ نہیں بیان کی ،صرف اتنا کہاہے کہ آ پ ذات کے انصاری ہیں اور ہمارا تعلق پٹنہ سے ہے،لیکن اس راز کی حقیقت سے پردہ لڑکی والوں کی طرف کے ایک عزیز نے ہی اٹھایا کہ چوں کہ لڑکے والوں کی طرف سے بقرہ عید پر عیدی نہیں آئی تھی ،اس وجہ سے ہم نے رشتہ توڑدیا۔

قارئین !درج بالا واقعہ اور اس سے ملتے جلتے کئی مشاہدات وواقعات ہماری روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ ہیں ،جن کو ہم اور آپ دیکھتے اور سنتے ہیں اور یکسر فراموش ونظرانداز کرکے اپنے آپ میں مگن ہوجاتے ہیں،لیکن اس جیسے واقعہ کی سطور میں بین السطور ہمارے لیے کیا سبق پوشیدہ ہے ؟اس کے لیے خوداحتسابی کی عینک سے ”فرد ومعاشرہ“پر نظرڈالنا ضروری ہے۔

اللہ تبارک وتعالی نے انسانی جبلت وفطرت اورسرشت میں مادہ خیر وشر روزاول سے ودیعت فرمادیا ہے،انسان کا جھکاؤ خیر کی بہ نسبت پستی کی جانب زیادہ اور سریع رفتار ہوتا ہے۔کامیاب وہ شخص ہے جو اپنے نفس کا تزکیہ وتصفیہ کرے ،ظاہر کے گناہوں کی گندگیوں کو چھوڑنے کے ساتھ ساتھ باطن کو خصائل حسنہ وصفات حمید ہ سے مزین ،معطر اور مصفیّٰ کرے۔

”خودغرضی“بھی ایک ایسی روحانی اور اخلاقی بیماری ہے جو ایک مسلمان کے ایمان کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹ رہی ہوتی ہے اور اس کے قلب میں موجود مضبوط ”ایمانی قوت عمل“کو زنگ آلود لوہے کی طرح گلادیتی ہے ،اس طرح آہستہ آہستہ ان دیکھے طریقے اور راستوں سے انسانی عمل کے تانے بانے نفاق کی سرحدوں کو چھونے لگتے ہیں ۔

خود غرض” فردیا معاشرہ“کی سوچ کادائرہ کار صرف اپنی ذات تک محدود ہوتاہے۔ اپنی ذات سے بڑھ کر دوسرے کے لیے سوچنا بہتراور خوب بہتر سوچنا سے یہ طبقہ کلی طور پر محروم ہوتا ہے۔ذرا اسلام کی ابتدائی تاریخ پر سرسری سی ایک نظر ڈالیں تو آپ محسوس کریں گے کہ اس دور میں ایک سچے اور پکے مسلمان(صحابہ کرام)اور ظاہری طور پر اسلام کا کلمہ پڑھنے والے (منافق)کے درمیان جہاں اور بہت سی چیزیں وجہ امتیاز تھیں،ان میں سے ایک نمایاں اور واضح وصف ”خود غرضی اور ایثار“کا پایا جاناتھا۔

جہاں ایک طرف وہ جماعت تھی جو دل وجاں سے آقا صلی الله علیہ وسلم پر فدا اور جاں نثار تھی ،اپنا فائدہ اپنی ذات نام کی کوئی چیز ان حضرات کی لغت میں شامل وداخل نہ تھی تو دوسری طرف منافقین کا وہ گروہ بھی موجود تھا جو اپنی ذاتی ،وقتی مصلحت اور مسلمانوں کا غلبہ دیکھ کر ان کے ساتھ شامل ہوگیا تھا ،کتنے ہی غزوات کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ عین میدان قتال میں منافقین نے پیغمبر صلی الله علیہ وسلم کا ساتھ محض اپنی ذاتی اغراض کی خاطر چھوڑدیا تھا،اس کے برعکس حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے ایثارو قربانی کی ایسی لا زوال اور انمٹ داستانیں رقم کیں جو رہتی دنیا تک کے لیے مشعل راہ اور نقش اول کا کام دیتی رہیں گی۔

آمدم بر سرمطلب، محولہ بالا واقعہ کو چشم قلب سے پڑھیے اور معاشرے کے افراد کے اذھان کو اس کسوٹی پر پرکھنے کی کوشش کیجئے ،کیا اس انکار کے پیچھے ”ذاتی غرض اور مفاد “کے علاوہ کوئی اور جذبہ کارفرماہے؟نیک نیتی ،خلوص اور صدق وفاجیسے عناصر قیمہ ناپید ومعدوم ہوچکے ہیں۔جس کا لازمی نتیجہ باہمی عدم اعتماداور تعاون کی فضا کا پیدا ہونا ہے ،جس سے نت نئے معاشرتی اور اخلاقی مسائل کا جنم لینا روز روشن کی طرح عیاں اور ظاہر ہے۔اخلاقی انحطاط اور پستی کے اس اندھیرے سے نکلنے کے لیے پیغمبرصلی الله علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ میں ہمارے لیے کیا روشنی اور نورہدایت پوشیدہ وپنہاں ہے؟حدیث مبارکہ اس جانب ہماری راہ نمائی کررہی ہے ۔

”حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ ! کونسا ایمان افضل ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تو اللہ کے لیے محبت کرے اور اللہ کے لیے بغض رکھے اور اپنی زبان کو اللہ تعالی کی یاد میں لگائے رکھے ۔میں نے عرض کیا اس کے بعد کیا کروں؟فرمایا کہ تو لوگوں کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے اور ان کے لیے وہ ناپسند کرے جو اپنے لیے ناپسند کرتاہے۔ “

اس حدیث مبارکہ کی تشریح میں حضرت مولانا عاشق الہی مدنی نوراللہ مرقدہ ر قم طراز ہیں:

”درحقیقت اگر لوگ صرف اسی ایک حدیث پر عمل کرلیں تو کبھی تعلقات میں کشیدگی نہ ہو اور سب آرام سے زندگی گزاریں۔“(تحفہ خواتین ص491) 

جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User