Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

تم سبھی کچھ ہو ،بتاؤ تو سہی مسلماں بھی ہو؟

تم سبھی کچھ ہو ،بتاؤ تو سہی مسلماں بھی ہو؟


مولانا محمد الیاس ندوی، انڈیا


مجھے اس وقت اپنے بچپن میں، جب میری عمر غالباً پندرہ سال تھی، اپنے گھرمیں والد صاحب مرحوم کی طرف سے روزانہ منگوائے جانے والے اخبارات میں صفحہٴ اول پر شائع ہونے والی ایک تصویر رہ رہ کر یاد آرہی ہے، جس میں ہندوستان کے سابق صدر گیانی ذیل سنگھ اپنی عین صدارت کے دوران، جس پر وہ 1982ء تا1987 فائز تھے، ایک دن اپنے مذہبی مرکز گردوارہ ٹیمپل امرتسر پنجاب میں مندر کے باہر دروازہ پر بیٹھ کر ،کنارے رکھے ہوئے زائرین کے جوتوں کو صاف کر رہے تھے ، یہ سزا ان کو سکھوں کی مذہبی قیادت کی طرف سے گولڈن ٹیمپل پر فوجی حملے میں حکومت ِ ہند کے ساتھ شریک ہونے کی وجہ سے دی گئی تھی اور ان کے مذہبی مرکز کے تقدس کی پامالی کا کفارہ ان سے اس صورت میں کرایا جارہا تھا، جس کو انہوں نے بسر وچشم اپنے عہدے کی پروا نہ کرتے ہوئے قبول بھی کیا ، ابھی کچھ دن پہلے ہماری موجودہ صدرِ جمہوریہ محترمہ پرتیبھاپاٹل کی ایک تصویر بھی نظر سے گذری، جس میں وہ ہمارے ایک مسلم پڑوسی ملک کی خاتون ممبران پارلیمنٹ سے ملاقات کر رہی تھیں، محترمہ سر سے پیر تک ہند ومذہب سے تعلق رکھنے کے باوجود اتنی پردہ پو ش تھیں کہ فل آستین کی بلاوز میں، ٹخنوں سے نیچے تک ساڑھی میں ایسیملبوس تھیں کہ پیر کے ناخن تک نظر نہیں آرہے تھے، سوائے ان کے چہرے اور ہتھیلیوں کے ان کا پورا جسم ڈھکا ہوا تھا ، ان کی یہ تصویر ہمیں ان کے بیرونی ممالک کے سفر میں بھی نظر آئی اور خود ہمارے ملک میں یورپی سربراہوں کے استبقال میں بھی ، لیکن افسوس کہ دوسری طرف ہماری جن مسلم بہنوں کا وہ استقبال ل کر رہی تھیں بحیثیت مسلم خواتین شریعت کی ہدایات کے مطابق ان میں سے کسی کا سر ڈھکا ہونا تو دور کی بات اکثروں کی گردنیں اور بعضوں کے سینے بھی ان کی بے حیائی اور آزادیٴ فکر کا واضح ثبوت دے رہے تھے اورکچھ خواتین تو کہنیوں سے اوپر شانوں تک اپنے کھلے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اسلام سے اپنی نسبت کا مذاق اڑا رہی تھیں۔ تیسرا واقعہ بھی اسی سلسلے کا سنیے! وہ زیادہ پرانا نہیں،1979ء سے84ء تک ہمارے ملک کے ایک نائب صدر جمہوریہ جسٹس ہدایت الله ہوا کرتے تھے، جن کی نسبت اتفاق سے اسلام ہی کی طرف تھی، وہ1969ء میں دو ماہ قائم مقام صدر جمہوریہ بھی رہے ، اس کے علاوہ 1968ء سے 70ء تک ملک کے سب سے بڑے قانونی عہدے یعنی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب پر بھی فائز رہے ، اسلام سے ان کی نفرت ووحشت کے تعلق سے اگر میں ان کی زندگی کے کچھ واقعات بیان کروں تو آپ کہیں گے کہ شاید انہوں نے انتقال سے پہلے اپنے ان غیر اسلامی کاموں سے توبہ کر لی ہو ، اس لیے میں ان کے آخری لمحے کا واقعہ سناتا ہوں ، انہوں نے مرتے وقت وصیت کی کہ مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنے کے بجائے ہندؤوں کی رسم کے مطابق جلا دیا جائے ، چناں چہ ان کی وصیت کے مطابق عمل کیا گیا۔

مذکورہ بالا واقعات میں موجود تینوں شخصیات کی ان حرکات وسکنات او رافعال واقوال پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیجیے، تینوں کا تعلق اگرچہ الگ الگ مذاہب ہندوازم، سکھ ازم اور اسلام سے ہے ، لیکن تینوں ہمارے اسی ملک کے باشندے اور یہاں کے سب سے بڑے منصب پر فائز رہ چکے ہیں، ایک طرف اول الذکر دونوں صدور ہند کا اپنے مذہب پر کس قدر اعتماد ہے ! گیانی ذیل سنگھ ملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز رہنے کے باوجود اس بات کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں کہ ان کے متعلق یہ تاثر قائم ہو کہ ان کو سکھ مذہب سے کسی جرم کی پاداش میں خارج کر دیا گیا، اپنے مذہب سے اپنی وابستگی کو باقی رکھنے کے لیے وہ حقیر وذلیل کام کرنے کے لیے تیار ہوئے، چاہے دنیا والوں نے ان کی اس تصویر سے جو کچھ بھی تاثر لیا ہو ، اسی طرح محترمہ پرتیبھا پاٹیل عہدہ صدارت پر برقراری کے لالچ میں کوئی ایسا کام کرنا نہیں چاہتیں، جو آج کے ترقی یافتہ دور میں فیشن کے نام سے ایک سفارتی ضرورت ہے او راس منصب سے میل کھانے والی بات ہے، اپنے سر سے لمحہ بھر کے لیے دوپٹہ ہٹانا یا اپنی ہتھیلی یا پیر کے ٹخنوں تک کی نمائش ان کو قبول نہیں، دوسری طرف جسٹس ہدایت الله ہیں، جن کو اپنے مذہب سے، جو اس کائنات کا سب سے برحق ، معقول، منطقی، فطری اور عقلی مذہب ہے، اپنی زندگی میں اس کی طرف نسبت پر ان کو نہ صرف عار ہے، بلکہ مرنے کے بعد بھی مسلم قبرستان میں دفن ہو کر اس کی طرف منسوب ہونے پر وہ شرم محسوس کر رہے ہیں، دوسرے الفاظ میں آپ یوں کہیے کہ اول الذکر دونوں صدور کو اپنے مذہب پر کس قدر اعتماد ہے اور آخر الذکر کو کس قدر عار!

آخر اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں جب ہم ان تینوں واقعات کے پس پردہ موجود اسباب ومحرکات کا سنجیدگی سے تجزیہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچنے میں دیر نہیں لگتی کہ بچپن میں ان دونوں صدور کی مستحکم مذہبی تعلیم نے ان کا اپنے مذاہب پر اعتماد بحال رکھا اور آخر الذکر کو ان کی ابتدائی عمر میں اسلامی ودینی تعلیم دلانے میں ان کے والدین اور سرپرستوں کی کوتاہی نے اس عبرت ناک انجام تک پہنچا دیا ، ان سب کا خلاصہ یوں سامنے آیا کہ حق ہو یا باطل جب تک اس پر محنت نہیں ہوتی وہ اپنا اثر نہیں دکھاتا، باطل مذاہب پر جب محنت ہوئی تو اس کے اثرات ظاہر ہوئے اور حق پر توجہ نہیں دی گئی تو اس کا اثر ظاہرنہیں ہوا، دنیا میں اثرات ونتائج محنتوں پر مرتب ہوتے ہیں ، جن والدین نے اپنے مذاہب پر اپنی اولاد کو باقی رکھنے کی کوششیں کیں، اس کے نتائج سامنے آئے اور اسلام کے برحق ہونے کے باوجود والدین کی طرف سے اس سلسلہ میں بے توجہی برتی گئی تو اس کے منفی اثرات سامنے آئے، آج ہم اپنے ارد گرد معاشرے پر نظر دوڑائیں توہ ہمارے پورے ملک یا صوبے ہی میں نہیں، بلکہ ہمارے گاؤں اور آس پاس کے علاقوں میں ایسے سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں ہدایت الله نظر آئیں گے جواگرچہ مرنے کے بعد اپنے آپ کو جلانے کی وصیت تو نہیں کر رہے ہیں، لیکن اسلام پر ان کا اعتماد ختم ہو چکا ہے ، مومن او رمسلم کہلائے جانے کے باوجود اسلام سے متعلق اپنے تشکیکی افکار وخیالات او رغیراسلامی نظریات کی وجہ سے چاہے دنیا والوں میں ان کا شمار مسلمانوں میں ہوتا ہو، لیکن عندالله عملاً وہ اسلام سے خارج ہوچکے ہیں، دنیا کی ترقیات سے مرعوب ہو کر وہ اسلامی قوانین واحکام میں لچک ونرمی کا مطالبہ کرنے او راپنے کوسیکولر او رملک کے وفادار وہمدرد ثابت کرنے کے لیے غیر مسلم دانشوروں کے وہ نہ صرف شانہ بشانہ، بلکہ بعض اوقات ان سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں ، عیسائی مشنری اسکولوں میں اپنے بچوں کے زیر تعلیم ہونے پر وہ فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کواس بات کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ روزانہ ان اسکولوں کی صبح کی اسمبلیوں اور کلاسز میں ان کی زبانوں سے کفریہ اور شرکیہ کلمات ادا ہو رہے ہیں ، کلچرل پروگراموں اور تفریح کے نام سے وہ ایسے پروگراموں کا حصہ بنتے ہیں جن میں ناچ گانوں او رنغمات وسرور ہی نہیں، بلکہ غیر اسلامی حرکات وسکنات کا ارتکاب کرنا پڑتا ہے ، یہ خیر غیر اسلامی اور مشنری اسکولوں او رکالجوں کا حال ہے، جہاں بڑی تعداد میں خود عیسائیوں سے زیادہ مسلم بچے او ربچیاں زیر تعلیم ہیں، خود اپنے مسلم مینجمنٹ اسکولوں کا یہ عالم ہے کہ اس کے ذمہ داروں کا وہاں زیر تعلیم مسلم طلبا کو دین پر باقی رکھنے کی فکر کرنا تو دور کی بات، ان کو اسلام سے ان کے اسکولوں کی نسبت پر بھی شرم محسوس ہوتی ہے اور خود عیسائیوں کی طرح ان کے اسکولوں کے نام بھی میری اور سینٹ سے شروع ہوتے ہیں، تاکہ دور دور تک کسی کو ان کے اسکول کے مسلم اسکول ہونے کا شبہ نہ ہو ، جہاں اپنی ضروریات سے فارغ ہونے کے لیے کھڑے ہو کر استنجا کرنے کے پیشاب خانے، بالغ بچیوں کے ساتھ بچوں کی مخلوط تعلیم ، اسکول کیمپس میں وقفہ تعلیم میں طلباء وطالبات کے گارڈنوں میں بیٹھ کر بے تکلف ہنسی مذاق کے بے حیا مناظر کو بھی وہ ثقافت او رکلچر کا حصہ سمجھتے ہیں، ان سے اپنے اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کی گنجائش نکالنے کی امید کیوں کر کی جاسکتی ہے!

پھر اس کا تدارک کیسے ہو؟
اب سوال یہ ہے کہ ہماری نئی نسل کو جو 96 فیصد سے زیادہ عصری درس گاہوں میں زیر تعلیم ہے، کیسے دنیاوی تعلیم کے ساتھ ان کو اسلام پر باقی رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے ؟ اور کیسے اسلام پر ان کے اعتماد کو بحال کیا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے ہمیں عیسائی مشنریوں کے طرز عمل اور طریق کار سے سبق لینا چاہیے، عیسائی مشنریاں اپنے تبلیغی او رمشنری مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے تعلیم کے حوالے سے بڑے بڑے انجینئرنگ او رمیڈیکل کالجز قائم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز نہیں کرتیں، اس لیے کہ ان کو پتہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے ان مراحل میں طلبا کی ذہن سازی علم نفسیات کی روشنی میں ممکن ہی نہیں ، نیم پختہ ذہنوں کو اگر منصوبہ بندی کے ساتھ ابتدائی درجات سے بالخصوص ساتویں سے بارہویں تک کی تعلیم کے دوران اگر کسی فکر یا نظریہ پر موڑ دیا جائے تو آئندہ چل کر دنیاکے کسی بھی مرحلے میں ان طلبا کے ذہنوں میں قائم نظریات وافکار کوتبدیل نہیں کیا جاسکتا ہے، اسی لیے ان کا پورا زور صرف بارہویں تک کے عصری تعلیمی نظام کے قیام پرہوتا ہے، چناں چہ آپ خود ہمارے ملک میں دیکھیں گے کہ خانگی اسکولوں میں عیسائی مشنریوں کا تناسب چالیس فیصد سے زیادہ ہے ، جب کہ کالجز اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز میں ان کا یہ تناسب دس فی صدسے بھی کم رہ جاتا ہے ، ہمیں ان کی اس کامیاب حکمتِ عملی کو سامنے رکھتے ہوئے، جو درحقیقت اسلامی حکمت عملی ہی ہے، اس بات پر اب اپنی پوری توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ بارہویں تک چلنے والے ہمارے عصری تعلیمی مراکز خالص اسلامی ماحول میں قائم ہوں، جہاں عصری تعلیم تو سرکاری نصاب کے مطابق دی جائے، لیکن اسی تعلیم کو خالص اسلامی ماحول میں تربیت اور ذہن سازی کے ساتھ اس طرح عملی جامہ پہنا یا جائے کہ آگے چل کر ہماری نئی نسل نہ صرف اس ملک کے دوسرے اداروں، بلکہ یورپ وامریکا کی کسی بھی دانش گاہ میں جانے کے باوجود اپنی اس تربیت کی برکت سے اسلام وایمان پر قائم رہنے میں کام یاب رہ سکے۔

ہمیں مسلم اسکولوں کی نہیں، اسلامی اسکولوں کی ضرورت ہے
ادھر ہندوستان میں دس پندرہ سال کے دوران مسلمانوں کے تعلیمی تناسب میں تو تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے او رمسلم تعلیمی ادارے بڑی تعداد میں وجود میں آرہے ہیں، لیکن ان اداروں کے نظام تعلیم وتربیت کودیکھتے ہوئے ان کو مسلم اسکولز وکالجز تو کہا جاسکتا ہے، لیکن اسلامی اسکولز وکالجز کا نام نہیں دیا جاسکتا ، جن اداروں کو مسلمان چلاتے ہیں ان کو مسلم ادارے اور اسلامی اصولوں کے مطابق جو عصری درس گاہیں چلتی ہیں اس کو اسلامی اسکول کہا جاتا ہے، ملت کو اس وقت ضرورت مسلم اسکولوں ودرس گاہوں کی نہیں، بلکہ اسلامی او رایمانی تعلیم گاہوں کی ہے ، مخلوط تعلیم سے گریز ، کلچرل پروگراموں کے نام سے غیر اسلامی شعائر سے اجتناب، اسلام کی بنیادی تعلیمات کی نصاب میں شمولیت اور اسلامی بنیادوں پر بچوں کی ذہن سازی اور فکری تربیت کے ساتھ کیا آج ہم ہندوستان میں اعلیٰ معیار کی تعلیم گاہیں قائم نہیں کرسکتے؟ کیا دستور کی رو سے ہمارے لیے اس کی گنجائش نہیں؟ یقینا کرسکتے ہیں، اس طرز پر، اس فکر کے ساتھ کچھ غیر ت مند مسلمانوں نے ملک کے طو ل وعرض میں اس کا کام یاب تجربہ کیا تو اس کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے او رایسے اداروں کی مانگ میں نہ صرف تیزی سے اضافہ ہونے لگا، بلکہ اپنے تعلیمی معیار کی بلندی اور دسویں وبارہویں کے سرکاری امتحانی نتائج میں ان اسلامی اسکولوں کے سرفہرست رہنے کی وجہ سے غیر مسلموں کی طرف سے بھی اپنے بچوں کو غیر فطری اور بے حیاماحول سے محفوظ رکھنے کی ضرورت کے پیش نظر بڑی تعداد میں ان اسلامی اسکولوں میں داخلے ہونے لگے۔

یہ بہت آسان اور قابل عمل منصوبہ ہے
اسکولوں کا قیام اس وقت ملک کے موجودہ حالات میں جتنا آسان ، کم خرچ اور سہل ہے، شاید ہی اس سے پہلے کبھی اتنا آسان تھا، تعلیم کی طرف عوام کے میلان نے غریب سے غریب شخص کو بھی اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ بنانے پرمجبو رکر دیا ہے، یعنی اسکولوں میں بچوں کی فراہمی او رمعیار تعلیم کی شرط کے ساتھ بڑی سے بڑی فیس کی ادائیگی بھی اب کوئی مسئلہ نہیں ہے ، آپ صرف ایک لاکھ کے سرمایہ سے اپنے خود کے اسکول کا آغاز کرسکتے ہیں، شہر کے کسی بھی حصے میں آپ ایک خوب صورت، کشادہ او رمعیاری مکان کرایہ پر لیجیے او ربیس پچیس بچوں سے نرسری، ایل کے جی اور یوکے جی کی کلاسز کا آغاز کر دیجیے ، تین چار سو روپیہ ماہانہ بچوں سے لی جانے والی فیس سے ہی اساتذہ کی تنخواہ او رمکان وبجلی کا کرایہ بھی ادا ہو جائے گا ، طلبا کے لیے خوب صورت یونی فارم، کھیل کود کے کچھ سامان، شروع میں ان کو گھروں سے لانے کے لیے کرایے کے آٹورکشہ کا نظم، چھٹیوں میں ان کے لیے پکنک کا انتظام ، ماہانہ سرپرستوں کی میٹنگ، وقفہ وقفہ سے بچوں کے اسلامی ثقافتی پروگرام وغیرہ کے ساتھ، جب وقت کے ان تقاضوں کی روشنی میں اسلامی وشرعی حدود میں رہتے ہوئے آپ ایک سال مکمل کریں گے اور محلے وشہر کے لوگوں کے سامنے بچوں کی یہ کارکردگی آئے گی تو اگلے سال خود بخود آپ کے یہاں دس گنا بچوں کے والدین آپ کے اس اسلامی اسکول میں داخلے کے لیے ویٹنگ لسٹ میں نظر آئیں گے ، یہاں ایک دن وہ آئے گا کہ آپ کے ادارے کا شمار نہ صرف شہر کے، بلکہ پورے ملک کے میعاری اورنامور ، قابل تقلید تعلیمی مراکز میں ہو گا اور یہ سب اسلام سے آپ کے ادارے کی نسبت کی برکت ہو گی ، کیا لاکھوں روپے کے عطیات سے مسجدیں تعمیر کرنے والے ، یتیم خانے بنوانے والے، غریبوں کی اجتماعی شادیاں کرانے والے ، لوگوں کو حج پر بھیجنے والے ہمارے یہ اصحاب خیر دو چار لاکھ روپے کسی سال ملت کی اس اہم ترین ضرورت کے لیے مختص کرکے اس کا تجربہ نہیں کرسکتے ؟ اگر آپ کے پاس اس طرح کے تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے وقت یا تجربہ نہیں ہے تو کم از کم آپ سرمایہ تو فراہم کر دیجیے اور تعلیمی میدان سے تعلق رکھنے والے کسی دین پسند اپنے کسی رشتہ دار یا دوست کو اس کام میں لگا دیجیے، الحمدلله گزشتہ چند سالوں میں ملک کے مختلف علاقوں میں اس کے کام یاب تجربے وجود میں آچکے ہیں، وہاں جاکر خود اس کا مشاہدہ کیجیے اور اسی کو بعینہ اپنے یہاں نافذ کرنے کی کوشش کیجیے، غیر شعوری اور غیر محسوس طریقے سے اسلام سے نکلنے والی فکری ارتداد میں مبتلا نئی نسل کو ایمان پر باقی رکھنے کی آپ کی یہ کوشش اس وقت ملت کی سب سے بڑی اور اہم ترین ضرورت ہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User