Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

غریبوں کے ہمدرد کو دیکھ کر اسلام قبول کیا

غریبوں کے ہمدرد کو دیکھ کر اسلام قبول کیا


محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ


یہ2003ء کا واقعہ ہے ۔ ارچنا امیت اپنی بچی سمیتا کو لیے کانپور سے لکھنو جانے والی بس میں سوار ہو گئیں۔ کنڈیکٹر نے ٹکٹ کے لیے پیسے مانگے تو ارچنا نے فوراً اپنا پرس کھولا اور یہ دیکھ کر ان کے ہوش اڑ گئے کہ پرس میں پیسے موجود نہیں تھے ۔ سارا پرس الٹ پلٹ کر بھی صرف 32 روپے ہی نکلے، جب کہ کرایہ 38 روپے تھا۔ کنڈیکٹر نے شور مچانا شروع کر دیا کہ پورے پیسے دو ، اگر پورے پیسے نہیں تو بس سے اتر جاؤ۔ اس وقت بس سنسان جگہ سے گزر رہی تھی۔ کنڈیکٹر نے بس رکوا دی اور ارچنا کو اترنے کے لیے بار بار کہنے لگا۔ پوری بس میں سناٹا چھایا ہوا تھا۔ سارے مسافر مڑ مڑ کر ارچنا کی طرف دیکھ رہے تھے اور ارچنا مارے شرم کے سردی میں بھی پسینے پسینے ہو رہی تھی۔

بس میں ایک صاحب جو اخبار پڑھنے میں مشغول تھے، شور سن کر انہوں نے کنڈیکٹر سے پوچھا کہ کیا بات ہے ؟ جب انہیں ساری بات کا پتہ چلا تو انہوں نے کنڈیکٹر سے کہا کہ کتنے روپے کم ہیں ، اس نے بتایا 6 روپے۔ ان صاحب نے، جو کالی شیروانی زیب تن کیے ہوئے تھے، ایک اچٹتی نظر ارچنا پر ڈالی جو شرم سے نظریں نیچی کیے ہوئے تھی۔ اس صاحب نے فوراً پیسے نکال کر کنڈیکٹر کو دیے او رکہا جتنے پیسے کم ہوں اس میں سے لے لو ۔ کنڈیکٹر نے ٹکٹ ارچنا کو دیا او ربس پھر سے چل پڑی، لکھنو پہنچنے پر ارچنا بس سے اتر کر ایک طرف کھڑی ہو گئی کہ اس بھلے آدمی کا کم سے کم شکریہ تو ادا کردوں۔

جب وہ صاحب بس سے اترے تو ارچنا نے آگے بڑھ کر ان کا شکریہ ادا کیا۔ ارچنا کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ اس صاحب نے کہا کوئی بات نہیں ۔ ارچنا دیکھنے سے اور بول چال سے کسی اچھے اور خوش حال گھرانے کی لگ رہی تھی کیوں کہ اس نے بہترین لباس اور زیورات پہن رکھے تھے ۔ ان صاحب نے پوچھا بات کیا ہوئی تھی؟ ارچنا نے کہا میں گھر سے روانہ ہوئی تو خیال تھا کہ پرس میں روپے ہیں، مگر معلوم نہیں کہاں چلے گئے؟ انہوں نے کہا کوئی بات نہیں، ایسا ہو جاتا ہے ، ان صاحب نے دریافت کیا آپ کو لکھنو میں کہاں جانا ہے ؟ ارچنا نے کہا حسین گنج تک جانا ہے ، میں وہاں تک پیدل چلی جاؤں گی۔ انہوں نے کہا بچی گود میں ہے، ہاتھ میں بھار ی بیگ بھی ہے، میں تمہیں رکشہ کرا دیتا ہوں ،رکشہ سے چلی جائیے ۔ ارچنا نے پہلے معذرت کی، پھر بہت شکریہ کے ساتھ تیار ہو گئی ۔ انہوں نے رکشہ والے کو 20 روپے کا نوٹ دیا اور ارچنا رکشے میں بیٹھ کر روانہ ہو گئی ۔ ارچنا اس وقت مختلف احساسات میں کھوئی ہوئی تھی ۔ دل میں ایک ایسا نقش بیٹھ چکا تھا، جو شاید اب کبھی مٹ نہیں سکتا تھا۔ جب امیت کمار( ارچنا کے شوہر) شام میں گھر آئے تو ارچنا نے انہیں پوری کہانی سنائی۔ امیت کمار نے کہا کہ اگر تم نے ان کا نام پتہ اور فون نمبر لے لیا ہوتا تو میں بھی ان کا شکریہ ادا کرتا، ساتھ ہی اس بھلے آدمی کے پیسے بھی لوٹا دیتا۔ لیکن اس وقت ارچنا اتنی پریشان تھی کہ ان باتوں کا خیال ہی نہیں آیا۔ اب ارچنا بار بار یہ بات سوچتی کہ کاش! اس بھلے انسان سے پھر ملاقات ہو جائے ۔ ارچنا کو بازار میں چلتے ہوئے کوئی بھی داڑھی والا شخص شیروانی اور ٹوپی میں نظر آتا تو وہ امید سے انہیں دیکھتی کہ شاید یہ وہی بھلے مانس ہوں۔

تقریباً3 ماہ کے بعد ایک روز امیت کمار اور ارچنا دونوں کچہری روڈا مین آباد سے گزر رہے تھے کہ اچانک ارچنا کی نظر کرتا پاجامہ پہنے ایک شخص پر پڑی۔ ارچنا نے خوشی سے امیت کمار سے کہا کہ یہ وہی صاحب ہیں ، امیت اور ارچنا دوڑتے ہوئے ان صاحب کے پاس پہنچے۔ ان دونوں نے ان کو نمستے کیا ، وہ حیرت سے ان دونوں کو دیکھنے لگے ۔ ارچنا نے خوشی سے کہا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ انہوں نے کہا معاف کرنا بہن !میں نے آپ کو نہیں پہچانا، برائے کرم بتائیے، یاد دلائیے۔ ارچنا نے کہا تین ماہ پہلے میں کانپور سے لکھنو آرہی تھی، میرے پاس پیسے نہیں تھے تو آپ نے میری مدد کی تھی ۔ وہ مسکرائے اور بولے ہاں! اب یاد آیا، آئیے! قریب کے ہوٹل میں بیٹھ کر اطمینان سے باتیں کرتے ہیں اور چائے بھی پیتے ہیں ۔ امیت کمار بار بار ان کا شکریہ ادا کرنے لگے، وہ بار بار یہ کہتے رہے چھوڑیے ان سب باتوں کو یہ تو مسلمان ہونے کے ناتے میرا فرض تھا کہ میں پریشانی میں کسی کو دیکھوں تو اس کی مدد کروں ۔ امیت کمار نے ان کا پتہ اور فون نمبر وغیرہ لے لیا، معلوم ہوا کہ جناب سرائے میر،اعظم گڑھ کے رہنے والے ہیں اور پیشے سے ڈاکٹر ہیں ۔ امیت نے کہا ڈاکٹر صاحب! برامت محسوس کیجیے، یہ روپے مہربانی فرماکر رکھ لیجیے، وہ بلند آواز میں بولے بھئی! یہ آپ کیا بات کر رہے ہیں ، کیا یہ ہمار ی پہلی اور آخری ملاقات ہے، ورنہ ایسی بات مت کیجیے، مگر امیت نے زبردستی روپے ان کی جیب میں رکھ دیے، ڈاکٹر صاحب سے وداع لیتے وقت امیت اور ارچنا نے ان سے گھر آنے کی درخواست کی ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا نہیں، پہلے آپ میرے گھر آئیں ۔ تھوڑی تکرار کے بعد ان لوگوں نے ڈاکٹر صاب سے ان کے گھر جلدی ہی آنے کا وعدہ کیا او رپھر یہ لوگ رخصت ہو گئے۔

اگلے ہی اتوار کو امیت کمار او رارچنا نے ڈاکٹر صاحب کے گھر جانے کا پروگرام بنا لیا، جب یہ لوگ وقتِ مقررہ پر وہاں پہنچے تو ڈاکٹر صاحب باہر ان کا انتظار کر رہے تھے۔ وہ بڑی محبت سے ان لوگوں سے ملے او رگھر میں لے گئے گھرمیں ان کی اہلیہ سلمیٰ اعظمی سے ملاقات ہوئی وہ ارچنا ہی کی عمر کی تھیں، وہ بھی بڑی ہنس مکھ، ملنسار اور سلیقہ مند خاتون تھیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے ضیافت کااچھا خاصا اہتمام کر رکھا تھا، جب ڈاکٹر صاحب کو یہ پتہ چلا کہ ارچنا کے ماں باپ زندہ ہیں، نہ ان کا کوئی بہن بھائی ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا اب یہ مت کہنا کہ تمہارا کوئی میکہ نہیں ،آج سے یہ گھر تمہارامیکہ ہے۔

امیت کمار کو کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق تھا، خواہش پر ڈاکٹر صاحب نے امیت کو بہت سی کتابیں دکھائیں، امیت نے چلنے سے پہلے بہت سی کتابیں پڑھنے کے لیے لے لیں۔ سلمٰی نے ارچنا کو ساڑھی، بچی کے لیے کپڑے او رساتھ میں مٹھائی کا ڈبہ دیا۔ ارچنا کو لگاجیسے وہ اپنے بھائی کے گھر سے رخصت ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے امیت کو شانتی مارگ ، مکتی مارگ، جیون مرتیو کے پشچات ( جینے مرنے کے بعد)، اسلام دھرم اور اسلام دھرم جس سے مجھے پیار ہے وغیرہ کتابیں پڑھنے کو دیں۔ امیت او رارچنا دونوں نے یہ کتابیں پڑھیں، اس کے بعد ڈاکٹر صاحب نے 40 حدیثیں، قرآن کا پریچے اور قرآن کا ترجمہ ہندی میں ان کو پڑھنے کو دیا۔ امیت اور ارچنا نے یہ کتابیں بھی پڑھ لیں ۔ وہ لوگ جب بھی ڈاکٹر صاحب کے گھرجاتے وہ واپسی پر ارچنا کو کپڑے ، بچی کے لیے کھلونے او رکھانے پینے کی چیزیں ضرور دیتے ۔ دونوں کے خاندان کافی قریب آچکے تھے۔ ایک بار وہ لوگ جب ڈاکٹر صاحب کے گھر گئے تو پتہ چلا کہ وہ بیمار ہیں ، سلمی نے بتایا کہ دو ماہ میں دو ، تین بار کسی مریض کو خون دے آئے ہیں ، جس کی وجہ سے کمزوری ہو گئی ہے ۔ وہ دونوں ڈاکٹر صاحب سے جب بھی ملتے، انہیں ایک نئی بات کا پتا چلتا۔ کبھی کسی کے گھر آٹا پہنچا کر آرہے ہیں ، کسی کے گھر چاول تو کسی کے گھر دوادے کر آرہے ہیں ۔ پوچھنے پر بس اتنا کہتے کہ الله تعالیٰ نے مجھے اتنا دیا ہے کہ یہ سب کرکے بھی میں اس کا شکر ادا نہیں کرسکتا۔ ایک بار ڈاکٹر صاحب امیت کے ساتھ بازار گئے اورکمبل خریدا، اتنے میں ایک غریب عورت آگئی اور بولی کہ سردی میں اس کے پاس اوڑھنے کے لیے کچھ نہیں، کچھ مدد کرو، ڈاکٹر صاحب نے فوراً ہی خریدا ہوا نیا کمبل اسے دے دیا۔

یہ سب باتیں دیکھ دیکھ کر اور کتابیں پڑھ پڑھ کر امیت اور ارچنا میں غیر معمولی تبدیلی آچکی تھی۔ ان لوگوں نے پوچا پاٹ کر نا، مندر جانا بالکل چھوڑ دیا تھا، گھر سے بھی تمام مورتیوں کو ہٹا دیا تھا۔ ایک رات ڈاکٹر صاحب ان کی گلی میں ہی ایک بوڑھی خاتون کو سامان اور دوا وغیرہ دینے آئے۔ امیت نے انہیں دیکھ لیا اور زبردستی گھر لے آئے۔ ارچنا نے فورا ان کے لیے چائے بنائی، امیت نے ڈاکٹر صاحب سے کہا اب جب کہ ہمیں سچائی کا علم ہو چکا ہے توہم اب کب تک اندھیروں میں بھٹکتے رہیں گے؟ ڈاکٹر صاحب نے کہا اچھی طرح سوچ سمجھ لو، جلدی کیا ہے؟ اس پر ان لوگوں نے کہا کہ اگر اس بیچ موت آگئی تو ؟ اب ڈاکٹر صاحب بالکل چپ تھے ، تقریباً رات کے ایک بجے ا ن لوگوں نے ڈاکٹر صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا۔ ڈاکٹر صاحب نے امیت کو مبارک باد دی او رگلے سے لگالیا۔ ڈاکٹر صاحب کے جانے کے بعد امیت او رارچنا رات بھر سو نہ سکے اور ایمان ، اسلام ، جنت اور دوزخ کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے۔

امیت کمار کا نام اب عبدالکریم، ارچنا کا نام مومنہ تبسم اور بچی کا نام سمیتا سے عظمیٰ ہو گیا ہے ۔ دونوں نے قرآن مجید پڑھنا سیکھا اور پابندی سے نماز پڑھنے لگے۔

چار ماہ کے بعد ان لوگوں کاٹرانسفر لکھنو سے غازی آباد ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب ہر عید پر ان سب لوگوں کے لیے کپڑے اور عیدی پابندی سے بھیجتے ہیں۔ عبدالکریم او رمومنہ تبسم کا کہنا ہے کہ ہم الله سے دعا کرتے ہیں کہ ”وہ ہمیں آخری سانس تک ایمان پر قائم رکھے او رہمیں ہدایت کی روشنی دکھانے والے ہمارے محسن سے ہمارا رشتہ برقرار رہے اور ہم سب لوگ آخرت میں کامیاب رہیں۔“ 
جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User