Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

زندگی کے سفر کا آغاز دودھ ہی سے کرتے

دودھ
 
حکیم محمد ادریس لدھیانوی

آپ خوب جانتے ہیں کہ ہم سب اپنی زندگی کے سفر کا آغاز دودھ ہی سے کرتے ہیں۔ نوزائیدہ بچوں کے لیے دودھ ایک مکمل غذا ہے ۔ فطرت نے ماں کے دودھ میں وہ تمام بنیادی تغذیاتی عناصر یکجا کر دیے ہیں جو بچے کی نشو ونما کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ گائے ، بھینس کا دودھ ماں کے دودھ سے ذرا مختلف ہوتا ہے او رشیر خوارگی کے بعد بچپن سے لے کر بڑھاپے تک بہترین تغذیہ مہیا کرتا ہے، طویل مشاہدے او رتجربے کے بعد دنیا بھر میں دوھ کی اہمیت اور قدر وقیمت کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ میں یہاں برصغیر کی آزادی سے پہلے انگریزی دور کے ایک وائسرائے لارڈ لنلتھگو کی ایک تقریر سے کچھ اقتباسات پیش کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ لارڈ موصوف نے اس تقریر میں برطانیہ، امریکا او رہندوستان کے حوالے کے ساتھ ساتھ دودھ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا جو آج بھی ہمارے لیے فکر انگیز ہیں۔ شملہ میں تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

” یہ ایک سائنسی حقیقت ہے او راس میں کسی قسم کے اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں کہ نشو ونما کے دوران بچوں کے لیے خوراک کے ساتھ ساتھ دودھ کی وافر سپلائی بھی انتہائی ضروری ہے۔ اس بات میں ذرہ بھر شک نہیں کہ بڑھاپے میں مضبوط بدن کے لیے لازمی ہے کہ بچپن میں اچھی غذا استعمال کی جائے۔ میں آپ کے سامنے اپنے ملک ( برطانیہ) میں بڑی احتیاط سے کیے گئے ایک تجربے کے نتائج پیش کرتا ہوں۔ اس تجربے میں چند بچوں کی روز مرہ کی غذا میں دو ( 2) پونڈ دودھ کا اضافہ کر دیا گیا۔ ایک سال کے عرصہ میں ان کے وزن میں 3.85 پونڈ کا نارمل اوسط اضافہ بڑھ کر 6.98 پونڈ ہو گیا اور قد میں نارمل اوسط اضافہ1.84 انچ سے بڑھ کر2.63 انچ ہو گیا۔

ہندوستان میں اکثر لوگ گوشت نہیں کھاتے۔ لہٰذا اعلیٰ قسم کے پروٹین کی مناسب مقدار سے محروم رہتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں گوشت کے علاوہ صرف دودھ ہی ہے جو تسلی بخش پروٹین مہیا کرتا ہے، بلکہ تجربات سے دیکھا گیا ہے کہ دودھ سے حاصل ہونے والے لحمیات گوشت سے حاصل ہونے والے لحمیات سے کہیں زیادہ اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اس اہم دریافت کے بعد یہ بات بالکل واضح ہے کہ ہندوستان میں بچڑ خانوں کی بجائے ڈیری فارموں کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے، بلکہ ایک امریکی سائنس دان نے تو یہاں تک نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر گوشت کا استعمال یکسر ختم کر دیا جائے تو اس سے لوگوں کی صحت پر کسی قسم کے برے اثرات مرتب نہیں ہوں گے، البتہ اگر دودھ کے استعمال میں نمایاں کمی کر دی جائے تو بہت جلد قومی سطح پر اس کے برے نتائج نمایاں ہونے لگیں گے ۔ امریکا میں سالانہ دودھ کافی کس اوسط استعمال 55.3 گیلن ہے۔ اس کے مقابلے میں ہندوستان میں یہی اوسط6.5 گیلن ہے یعنی روزانہ 3 چمچ فی کس سے بھی کم۔ اور یہ کتنے بڑے دکھ کی بات ہے کہ اگر امریکا میں دودھ کی روزانہ فی کس مقدار میں دو پونڈ کی کمی سے قومی صحت اور کار گزاری بری طرح متاثر ہو سکتی ہے تو پھر ہندوستان کی آبادی کا کیا حشر ہو سکتا ہے جہاں روزانہ اوسط فی کس دودھ کا استعمال3 اونس سے بھی کم ہے ۔ ایک ماہر غذائیات کا کہنا ہے کہ اگر غذا میں دودھ اور دودھ سے تیار کی ہوئی اشیا کی کافی مقدار ہو تو پھر گوشت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

اس وقت ہندوستان کی سب سے بڑی غذائی ضرورت خالص دودھ کی پیداوار ہے، کیوں کہ اس سے زیادہ اہم او رکوئی غذا نہیں اورعوامی صحت کے لیے دودھ سے بڑھ کر او رکوئی شے نہیں نئی نسل کو خالص دودھ کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہیے۔

عوامی خوشحالی کے لیے اس کی اہم او رناگزیر ضرورت ہے ۔ ہندوستان کو بھی دودھ کی پیداوار او راستعمال کے حوالے سے دوسرے ممالک کے برابر ہونا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دودھ کو مقبول عام کیا جائے ۔ موثرسائنسی طریقوں سے اس کی پیداوار اور تقسیم کو اس طرح پھیلا یاجائے کہ ہر ایک کو با آسانی دست یاب ہو۔ قدیم شاستروں میں لکھا ہے کہ دودھ ہر ذی حس کو مرغوب ہے اور قدرت نے اسے زندگی پر ور اصولوں سے نوازا ہے۔ اور تمام جانداروں کی فطرت کے عین مطابق ہے۔

دودھ ذہنی بیماریوں کے لیے بڑا سود مند ہے ۔ دوران خون کی بیماریوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے ۔ بخار ، کھانسی، بدہضمی ، ٹی بی (تپ دق) اور اس طرح کی دوسری بیماریوں میں اس کی شفا بخش تاثیر مسلم ہے۔“

دودھ کی افادیت اور اہمیت کے بارے میں لارڈ لنلتھگو کے خیالات سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ البتہ ہندوستان میں اس کی پیداوار تقسیم اور فی کس استعمال کی جس زبوں حالی کا رونا رویا ہے اس لحاظ سے غالباً ہم پاکستان میں آج بھی وہیں کھڑے ہیں جس کا اظہار انہوں نے آج سے 60,50 برس پہلے کیا۔ گوشت کے استعمال میں ہمارے ہاں ضرور اضافہ ہوا ہے ۔ لیکن دودھ کی پیداوار او راس کے استعما ل میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی ۔ حال ہی میں چند صنعتی اداروں نے کاروباری پیمانے پر دودھ کی فراہمی کا کام شروع کیا ہے، لیکن مہنگائی کی وجہ سے ان کی سپلائی عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے ۔ دیہاتوں میں بیچارے اکثر لوگ اپنے بچوں کوپلانے کے بجائے دودھ بیچ کر اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔

حکومت اگر محکمہ زراعت کے توسط سے اس طرف توجہ دے تو شاید دودھ کی پیداوار میں اضافہ ہو کر عام آدمی تک اس کی رسائی ہو سکے۔

پرانے وقتوں کے لوگوں کی نسبت آج کے غذائی سائنس دان دودھ کی افادیت بطور غذا اور دوا زیادہ بہتر جانتے ہیں، لیکن یاد رہے کہ یہ ساری قدرو قیمت اس دودھ کی ہے جو صاف ہو، تازہ ہو او راچھی خوراک کھانے والے صحت مند جانوروں سے حاصل کیا گیا ہو ۔ اچھے دودھ کے لیے جانور کا اچھا ہونا ضروری ہے ۔ آج کل ہمارے ہاں اس قسم کا ”اچھا دودھ“ شاید ہی دست یاب ہو اور حفظان صحت کے اصولوں سے عاری ناقص اور ملاوٹی دودھ جو دست یاب ہے ، فائدے کے بجائے الٹا مضر صحت ہے ۔ ابالنے اور پاسچرائز کرنے سے دودھ کی اصلی ہیئت میں تھوڑی سی تبدیلی ضرور آجاتی ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں یہ عمل وسیع تر مفاد میں ضروری ہے، البتہ پھلوں اور سبزیوں سے دودھ میں اس طرح پیدا ہونے والی تغذیاتی کمی کو پورا کیا جاسکتا ہے۔ آج کل درآمد کردہ خشک اور پاؤڈر دودھ بھی عام دستیاب ہے ۔ اسے پانی میں ملا کر اچھے دودھ کے طور پر ہر قسم کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ دودھ میں چینی ملا کر نہیں پینا چاہیے۔ اس سے پیٹ میں گڑ گڑ ہوتی ہے اور نفخ پیدا ہوتا ہے ۔ البتہ اگر زیادہ میٹھا کرنا ضروری ہے تو شہد ملا سکتے ہیں ۔ دودھ کو گھونٹ گھونٹ کرکے پینا چاہئیے تاکہ منہ کے لعاب کے ساتھ اچھی طرح گھل مل کر پیٹ میں جائے ۔ اس طرح معدے میں دودھ کے سخت ڈھیلے نہیں بنتے، دودھ کی ایک او ربڑی خوبی یہ ہے کہ یہ دوسرے خصوصاً نباتاتی غذاؤں کی بایولاجیکل خوبیوں اور افادیت میں اضافہ کرتا ہے ۔ شاید اسی لیے جانے بغیر جھنگ کے پرانے لوگ کھانا کھاتے وقت ساتھ ساتھ دودھ بھی سرک سرک کر پیتے ہیں۔

بکری کا دودھ
ہمارے ملک میں د ودھ حاصل کرنے کا عام ذریعہ گائیں اور بھینسیں ہیں ۔ بکریاں بھی عام پائی جاتی ہیں، بکری کو غریب آدمی کی گائے کہا جاتا ہے ۔ لیکن ہمارے ہاں یہ جانور دودھ حاصل کرنے کے بجائے زیادہ تر گوشت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ ایک پرانی روایت کو اس طرح سچ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ:

”بکری دنیا میں سب سے زیادہ تباہ کن جانور ہے، خصوصاً جنگلات کے لیے ۔ بحیرہ روم کے ارد گرد کے ممالک جو پرانی تہذیب کے مراکز تھے بکریوں کی تباہ کاریوں کے ہاتھوں ملیا میٹ ہو کر رہ گئے ۔ بکریوں نے ان کے جنگلات کا خاتمہ کر دیا۔ چر چر کر ان کے پہاڑوں کو ننگا کر دیا۔ نتیجہ ان کی آب وہوا خشک ہو گئی اور زمین بنجر اور ویراں ہو گئی۔“

شاید کارل واٹ کی اسی تحقیقی دریافت سے متاثر ہو کر نواب آف کالا باغ مرحوم نے جب وہ پنجاب کے گورنر تھے ۔ پنجاب میں بکریوں کے مکمل خاتمے کی مہم چلا ئی تھی، جو ان کے بعد خود بخود ختم ہو گئی ۔ آج بھی آپ کسی شاہراہ یا نہر کے کنارے سفر کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے بکریوں نے اچھے اچھے سایہ دار درختوں کا ستیاناس کیاہوا ہے ۔ جہاں بکریاں نہیں پہنچ پاتیں وہ شاخیں اور ٹہنی چروا ہے خود توڑ توڑ کر نیچے گرا دیتے ہیں، تاکہ ان کی بکریاں اپنا پیٹ بھر سکیں۔ یہ افسوس ناک پہلو یقینا متعلقہ محکمہ جات کے لیے قابل توجہ ہے ۔ اعلی ٰ قسم کے تمام حیوانات میں اچھے اور برے خصائص دونوں پائے جاتے ہیں۔

بہرحال یہ بات مہاتماگاندھی کے حصہ نہیں آتی کہ انہوں نے بکری رکھ کر اس کا دودھ استعمال کرکے اس کی اس خوبی کو افسانوی حد تک لازوال بنا دیا۔ بکری کادودھ غذا بخش ہے او ربڑی آسانی سے ہضم ہو جاتا ہے، اس کے دودھ سے مکھن اور پنیر بھی تیار کیا جاسکتا ہے ۔ بکری کا دودھ استعمال کرنے سے پہلے ضرور ابال لینا چاہیے ۔ بچے ہوئے دودھ سے بخار اور دیگر چھوت وغیرہ کا خدشہ ہو سکتا ہے ۔ ہمارے معاشرے میں غریب طبقہ بہت زیادہ ہے ۔ دودھ ان کی قوت خرید سے باہر ہے۔ بہتر یہی ہے کہ غریب لوگ اسے بطور گائے رکھیں۔ اس کی قیمت کم چارے کا خرچہ کم اور دیکھ بھال آسان ہے۔ غذائی اور صحت بخش فوائد کے لحاظ سے بکری کا دودھ گائے کے دودھ کے تقریباًبرابر ہے۔

آج کل پاکستان میں دودھ بڑا مہنگا ہو گیا ہے اور مزید مہنگا ہوتا جارہا ہے ۔ بکری کو ” غریب آدمی کی گائے“ کہا گیا ہے۔ ممکن ہو تو بکری رکھ کر اس کے دودھ سے استفادہ کریں۔ گو بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں …

”غم نہ داری بزبخر“

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User