واقعہ معراج مصطفی (صلی اللہ علیہ وسلم)
قرآن و حدیث کی روشنی میں۔۔۔
معراج رسول کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) تسخیر کائنات کی جانب ایک بلیغ اشارہ ہے۔ علامہ اقبال کا یہ شعر واقعہ کی پوری عکاسی کرتا ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی(ص) سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
تاریخ عالم میں واقعہ معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) انتہائی خصوصیت کا حامل ہے یہ ایک ایسا عظیم واقعہ ہے جس پر ایمان اور عشق رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) سے سرشار مسلمان تو بجا طور پر فخر کرتے ہیں کہ اس عظیم المرتبت محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کی امت ہیں کہ جنہیں رب کائنات نے حالت شعور میں زمینوں اور آسمانوں کی سیر کرائی ۔ اس واقعہ کو عقل کی کسوٹی پر پرکھنے والے آج تک شش و پنج میں گرفتار ہوکر اس عظیم واقعہ کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں مگر حقیقت یہی ہے کہ معجزات وہی ہوتے ہیں جو عقل سے بالاتر ہوں اور معجزات کو عقل سے پرکھنا ہی بے عقلی کی نشانی ہے۔
بقول شاعر مشرق
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عشق والوں اور عقل والوں میں یہی فرق ہے جو انہیں ایک دوسرے سے ممتاز کرتا ہے ۔ حقیقت یہی ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب سردار الانبیاء خاتم المرسلین حضور رحمۃ اللعالمین کو تمام انبیاء سے ممتاز کرنے کیلئے جسمانی معراج شعور کی حالت میں کرایا اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) راتوں رات مکہ المکرمہ، بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور پھر وہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے ۔ کائنات کی سیر کی اور سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ گئے جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ اگر میں اس سے آگے ایک قدم بھی بڑھا تو میرے پر جل جائیں گے۔ سدرۃالمنتہیٰ کے آگے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کا سفر مبارک آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان رسالت کی طرح ایسی عظیم بلندیوں کا سفر تھا جسے عقل سمجھنے سے قاصر ہے۔
اس مضمون میں قرآن و احادیث اور سائنس کے کلیات کی روشنی میں واقعہ معراج کو سمجھنے اور بیان کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ اس تحقیق کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ معراج مصطفی(صلی اللہ علیہ وسلم) ہر لحاظ سے ایک عظیم الشان واقعہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کو شعوری حالت میں سیر کرائی اور انہیں حیات بعد الموت کے واقعات بھی دکھائے۔ واقعہ معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) اعلان نبوت کے بارہویں سال27 ویں شب رجب المرجب کو پیش آیا قرآن پاک میں واضح الفاظ میں واقعہ معراج اور اس کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔
معراج کے واقعہ کے وقت حضور نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم)کی عمر مبارک اکاون سال8ماہ اور بیس یوم تھی، یہ نبوت کا وہ زمانہ تھا جب حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) اور مسلمانوں پر کفار نے ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی تھی لیکن خداوند قدوس کا پیغام حق عام کر رہے تھے۔ اس زمانہ میں حضور نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کو معراج نصیب ہوئی اس وقت آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) چچا زاد بہن حضرت ام ہانیؓ کے گھر سو رہے تھے کہ رات کے پہلے پہر حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور رب العزت کی جانب سے سلام پیش کیا اور پھر آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو معراج پر چلنے کیلئے تیاری کی درخواست کی۔ حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) نے جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ پہلے مدینۃ المنورہ سے مکۃ المکرمہ اور پھر بیت المقدس کا سفر کیا۔ مسجد اقصیٰ میں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت فرمائی اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام انبیاء علیہم السلام نے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی اقتداء میں نماز ادا کی، یہاں سے آسمانوں کا سفر شروع ہوا۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنے ہمراہ ایک سواری (براق) لائے تھے، براق کا مطلب بجلی یعنی بجلی سے تیز رفتار، حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم)(صلی اللہ علیہ وسلم) سب سے پہلے مسجد الحرام طور سینا اور بیت اللہ سے ہوتے ہوئے بیت المقدس پہنچے اور پھر براق پر سوار ہوکر کائنات کی سیر کو نکلے جسے معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کہا جاتا ہے۔ براق کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ وہ ایک قدم اٹھاتا تو حد نگاہ سے پرے تک یعنی کم و بیش500 سال کا سفر طے کرلیتا تھا۔
آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اور جبرائیل علیہ السلام پہلے آسمان پھر دوسرے اور اسی طرح ساتویں آسمان تک پہنچے، ہر آسمان پر انبیاء کرام اور پیغمبران خدا سے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ملاقات کرائی گئی۔ بعد ازاں سدرۃ المنتہیٰ پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) سے اجازت لی اور اس سے آگے آپ نے اکیلے معراج کا سفر طے کیا جس کے بارے میں صرف خداوند تعالیٰ ہی جانتے ہیں۔
حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کو یہاں خداوند کریم کا خصوصی قرب حاصل ہوا، یہیں آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کو امت کیلئے50 نمازوں کا تحفہ عطاء ہوا جو بعد میں روزانہ5 نمازوں میں تبدیل ہوئیں اور یہ نمازیں روزانہ مسلمانوں پر فرض کر دی گئیں۔ اس سفر میں محبوب(صلی اللہ علیہ وسلم) و محب میں جو رازو نیاز کی باتیں ہوئیں ان کا علم کسی بشر کو نہیں صرف خداوند کریم ہی جانتے ہیں۔
اس کے بعد واپسی کا سفر شروع ہوا، آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) براق پر سوار مکۃ المکرمہ تشریف لائے، اس وقت ابھی صبح نہیں ہوئی تھی، سب سے پہلے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اس کا ذکر ام ہانیؓ سے کیا، احتیاطاً کہنے لگیں کہ یہ اس قدر عجیب واقعہ ہے آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا ذکر کسی سے نہ کریں۔ ورنہ کفار تمسخر اڑائیں گے، لیکن خانہ کعبہ میں نماز کے بعد وہی ہادی برحق، صادق و امین سردار انبیاء اٹھا اور رات کو پیش آنے والے اس واقعہ کا اعلان کر دیا۔ کفار یہ سن کر ہنسنے لگے، تمسخر اڑانے اور تنگ کرنے کا ایک اور بہانہ مل گیا، وہ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پیچھے پیچھے آوازیں کستے اور کہتے وہ دیکھو(نعوذ باللہ) حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) بہک گئے ہیں، نعوذ باللہ کافروں کی ان باتوں کا کچھ اثر بعض کم عقل مسلمانوں پر بھی ہوا اور کسی نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو بہکایا اور بولا دیکھو تمہارا دوست کیا کہہ رہا ہے کیا کوئی بھی عقل سلیم رکھنے والا یہ مان سکتا ہے کہ وہ ایک رات میں اتنے لمبے سفر پر گئے اور واپس بھی آگئے۔ اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو جواب دیا وہ قیامت تک آنے والے مسلمانوں کیلئے مشعل راہ ہے، آپؓ نے فرمایا کہ اس میں تو کوئی عجیب بات نہیں میں تو اس سے بھی عجیب بات مانتا ہوں کیونکہ حضرت نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) ہمیشہ سچ بولتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ آپ(صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آسمانوں سے ہر روز ایک فرشتہ آتا ہے جو خدا تعالیٰ کا پیغام اور وحی بھی لاتا ہے۔ معراج پاک کی تصدیق کرنے پر حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) نے آپؓ کو صدیق کا لقب عطا فرمایا۔ یہ واقعہ معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک اجمالی تعارف تھا، لیکن یہ بحث صدیوں سے اب تک چل رہی ہے کہ معراج جسمانی تھا یا کہ ایک خواب تھا کیا یہ حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا روحانی سفر تھا، پختہ ایمان والوں کیلئے اس میں کوئی الجھن نہیں رہی اور وہ صدیق اکبرؓ کی پیروی کرتے ہوئے واقعہ معراج کو حضور نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا شعور کی حالت میں جسمانی سفر مانتے ہیں اور واقعہ معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں اور معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی مقدس رات عبادت و ریاضت اور ذکر الٰہی میں گزارتے ہیں۔ مشکل ان حضرات کی ہے جو اس واقعہ کو اپنی ناقص عقل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنی حیثیت کا اندازہ نہیں لگاتے کہ وہ کس قدر عالم، سائنس دان یا عقلمند ہیں۔
آج انسان تسخیر کائنات کی جانب جو قدم بڑھا رہا ہے تو حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اس کام کی ابتدا کرنے والے تھے اور انتہا کرنے والے بھی، اس طرح واقعہ معراج تسخیر کائنات کیلئے بنی نوع انسان کیلئے خوشخبری بھی ہے، معراج النبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کی رات تمام نوع انسان کیلئے بلا لحاظ رنگ و نسل مذہب، ملک و وطن تکمیل انسانیت کی جانب رجوع کی رات ہے اور مسلمانوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ بھی ہے۔ دنیا میں ایک ارب کی تعداد میں ہونے کے باوجود مسلمان کمزور، پسماندہ اور یہود و نصاریٰ کے نرغے میں ہیں اپنی مرکزیت کھوچکے ہیں اور روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جارہے ہیں، انہیں دنیا کی امامت کیلئے رب کائنات نے خلیفہ فی الارض، زمین پر اپنا نائب بنا کر بھیجا تھا، ان کی اکثریت ذلت اور رسوائی میں بھٹک رہی ہے اور دنیا میں رہبری کا منصب ترک کرکے بے یارومددگار بھٹک رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ قرآن سے دوری، خداوند تعالیٰ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم سے بھٹک کر مادی دولت کے پیچھے بھاگنا اور محبوب رب العالمین حضرت محمد مصطفی(صلی اللہ علیہ وسلم) سے عشق و محبت میں والہانہ جوش ولولہ میں کمی ہے۔ آئیں آج عہد کریں کہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا میں مسلمانوں کی امامت قائم کریں گے۔ قرآن و حدیث کے قانون شریعت کی بالادستی کیلئے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کا جذبہ لے کر کام کا آغاز کریں گے، توحید کا ڈنکہ بجانے اور حضور رحمت عالم(صلی اللہ علیہ وسلم) کا پیغام مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک پہنچانے کیلئے تن، من، دھن سے دن رات کام کریں گے۔ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو یہودیوں کے شکنجے سے آزاد کراکے خانہ کعبہ کو ایک ارب مسلمانوں کا مرکز بنائیں گے۔ مکۃ المکرمہ، مدینۃ المنورہ اور خلیج سے یہودی و نصاریٰ کو بے دخل کرکے اسلام کا جھنڈا گاڑیں گے اور مسلمانوں کی خلافت قائم کریں گے
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.