بچوں کو اینٹی بائیوٹک دینا خطرناک ہے رپورٹ
ترقی
یافتہ ممالک کے برعکس پاکستان سمیت اکثر ترقی پذیر ملکوں میں اینٹی
بائیوٹک ادویات کھلے عام فروخت ہوتی ہیں اور ان کی خرید کے لیے کئی ڈاکٹری
نسخے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اکثر
ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ بیمار پڑنے پر ڈاکٹر سے مشورہ کیے بغیر اینٹی
بائیوٹک دوا کا استعمال شروع کردیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بعض
صورتوں میں اس کے نتائج انتہائی خطرناک برآمد ہوسکتے ہیں، خاص طور پر کم
عمر بچوں کو اینٹی بائیوٹک دوا دینے کی صورت میں۔
ہمارے
ہاں یہ روایت عام ہے کہ بیمار کی عیادت کرنے والےمریض کو علاج سے متعلق
اپنے مشوروں سے صرف نوازتے ہی نہیں ہیں بلکہ اپنی تجویز کردہ دوا استعمال
کرنے پر اصرار بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جب میں بیمار پڑا تھا تو اس
دوا سے ٹھیک ہوگیا تھا ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اکثر اوقات ایک ہی مرض کے
علاج کے لیے اس کی نوعیت اور شدت کے پیش نظر مختلف ادویات کی ضرورت ہوتی
ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ایک دوا دوسرے مریض کےلیے بھی فائدہ مند ہو۔
یہ فیصلہ صرف معالج ہی کرسکتا ہے کہ مریض کو کس اینٹی بائیوٹک یا دوا کی
ضرورت ہے۔
ایک
حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوا ہے کہ ایک سال سے کم عمر بچوں کواینٹی بائیوٹک
دیے جانے سے ان میں شدید اور مہلک علامتیں پیدا ہونے کا خطرہ 40 فی صد تک
ہوتاہے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چھوٹے بچوں کو اگر اینٹی بائیوٹک دوا کا دوسرا کورس کرایا جائے تو یہ خطرہ 70 فی صد تک بڑھ جاتا ہے ۔
امریکہ
کی ییل یونیورسٹی میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ایسے بچوں پر تحقیق کی
جو اینٹی بائیوٹک کے استعمال کے بعد دمے یا سانس کی بیماری میں مبتلا
ہوئے تھے۔
تازہ ترین تحقیقی جائزے سے یہ معلوم ہوا کہ بچوں میں دمے اور سانس کی بیماریوں کا اینٹی بائیوٹک دواسے گہرا تعلق موجودہے۔
برطانیہ میں دمے میں گیارہ لاکھ بچے مبتلا ہیں ۔ یہ تعداد دنیا کے کسی بھی ملک میں اس مرض میں مبتلا بچوں سے زیادہ ہے۔
اس
سے قبل ہونے والے کئی سائنسی مطالعوں میں بھی یہ امکان ظاہر کیا گیا
تھا کہ بچوں میں دمے کا مرض پیدا ہونے میں اینٹی بائیوٹک ادویات بھی ہاتھ
ہے، لیکن اس خدشے کو مسترد کرنے والے طبی ماہرین کی تعداد بھی کچھ کم
نہیں تھی۔ تاہم اس سلسلے میں تازہ تحقیق زیادہ جامع اور ٹھوس شواہد پیش
کرتی ہے۔
اگرچہ
اکثر معالج کم عمر بچوں کو انٹی بائیوٹک دینے سے گریز کرتے ہیں لیکن
انفکشن کی شدت اور چھاتی کے امراض میں اس کا استعمال ضروری ہوجاتا ہے۔
ییل
یونیورسٹی کی اس سائنسی تحقیق میں 1400 بچوں کے کیسوں کا مطالعہ کیا
گیا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ آیا کم عمری میں اینٹی بائیوٹک
ادویات کے استعمال سے وہ چھ برس کی عمر کو پہنچنے تک دمے یا سانس کی کسی
بیماری کے مریض تو نہیں بن گئے تھے۔
تحقیق
میں یہ امور بھی پیش نظر رکھے گئے کہ آیا متاثرہ بچوں کے والدین یا ان
کے خاندان میں دمے کا مرض موجود تو نہیں تھا اور یہ جائزہ بھی لیا گیا کہ
اینٹی بائیوٹک کا استعمال چھ ماہ کی عمر سے پہلے ہوا تھا یا بعد میں۔
تحقیق
سے یہ ظاہر ہوا کہ کم عمر بچوں کو اینٹی بائیوٹک دیے جانے سے ان میں عمر
بڑھنے پر دمے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے خطرے میں نمایاں
اضافہ ہوا۔
ڈاکٹر
کیری رائزنز ، جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی ، کہنا ہے کہ مطالعے کے
نتائج یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کو اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال
سے ممکنہ حدتک گریز کرنا چاہیے ، خاص طورپر کم عمر بچوں میں کیونکہ ان کا
معدافتی نظام کمزور ہوتا ہے اور جراثیم کش ادویات ان کی نشوونما کو
نقصان پہنچا سکتی ہیں۔
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.