Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, May 10, 2011

مردانہ جسم فروشی

مردانہ جسم فروشی


وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیاہے رہِ رسمِ شاہبازی

ایک پیشہ ور عورت اگر پیسہ وصول کرتی ہے تو اسکے بدلے کچھ دیتی بھی ہے۔ لیکن ایک مرد جب جوڑا جہیز وغیرہ کی صورت میں وصول کرتا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ اسکے بدلے کیا دے گا؟ لڑکی کے باپ سے کیا وہ یہ مطالبہ نہیں کررہا ہے کہ :
» میں آپ کے نواسے نواسی پیدا کروں گا مجھے پلنگ بستر دیجئے۔
» میں آپ کی بیٹی کو کما کر کھلاوں گا مجھے ویزا یا نقد رقم دیجئے ۔
» میں اپنے گھر میں اُسے رہنے کی جگہ دوں گا ۔فریج ، ٹی وی ، فرنیچر وغیرہ دیجئے
» میں آپ کی بیٹی کو بِٹھاکر گھماؤں گا گاڑی دیجیے۔

یہ مردانگی کی قیمت کس طرح ہے ؟ اس کا اندازہ تقریباً تیس سال پرانے اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک شخص جو رکشا کھینچتا تھا ، اس نے ایک بنڈی پر میوہ فروخت کرنے والے کی لڑکی کے لیے رشتہ بھیجا اور دو ہزار روپئے نقد مانگے ۔ ہم نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا :
” اگر میں ڈاکٹر یا انجینئر ہوتا تو کیا آپ مجھے دو لاکھ نہیں دیتے ؟ اگر وہ مرد ہے تو کیا میں مرد نہیں ہوں ؟ “۔
گویا مرد ہونا بھی غلط عورت کے پیشے کی طرح ہے ، عورت کی عمر اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جس طرح اس کی قیمت بڑھتی ہے اسی طرح مرد کی صلاحیت اور ڈگری کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بڑھتی ہے۔ کسی بھی مشاطہ یا پیام لگانے والے ایجنٹ سے ملئے وہ بلا شرم و جھجک بتا دیتے ہیں کہ کس صلاحیت کے لڑکے کو کتنا آفر مل سکتا ہے ؟

گائے بھینس کے کاروبار میں یہ ہوتا ہیکہ اگر کوئی بیل یا سانڈ خریدنے کا خواشمند ہے تو اُسے یا تو نقد رقم دینی پڑتی ہے یا پھر ایک گائے یا بھینس کے ساتھ بدل Exchange کرنا پڑتا ہے لیکن گائے کے بدلے بیل یا بھینس کے بدلے سانڈ نہیں لیا جاسکتا بلکہ گائے یا بھینس کے ساتھ ساتھ کچھ نقد رقم بھی دینی پڑتی ہے۔شادیوں کے کاروبار میں بھی یہی ہوتاہے۔ جب کوئی لڑکی دے کر داماد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے لڑکی کے ساتھ بہت ساری نقد رقم اور جہیز بھی دینا پڑتا ہے۔بالفاظِ دیگر اس دور کا مرد بھی سانڈ یا بیل کیطرح کا بکاؤ جانور ہے۔۔
کتنی بے غیرتی اور بے حسی پیدا کرنے والا ہے یہ چلن کہ ایک لڑکی اپنا پیدائشی گھر ، سنسار ، ماں باپ ، بہن بھائی سب کو چھوڑ کر عمر بھر کے لیے آ رہی ہے۔ وہ ایک مہمان ہے بجائے اس کے کہ اس کے لیے گھر سنوارا جائے ، سارا ساز و سامان مہیا کیا جائے ، اسی سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنے ساتھ سب کچھ لے کر آئے ۔ حتی کہ بستر اور تکیہ بھی ، جب پہلی زچگی ہو تو وہ بھی اپنے ماں باپ کے خرچ پر بچہ جنم دے اور بچے کے ساتھ تحفے بھی لائے ۔

نخروں کی حد یہ ہے کہ جب وہ سج دھج کر دلہا بنے تو شیروانی یا سوٹ بھی سسر کے پیسوں کا ہو۔ اور مسجد اور پھر شادی خانے تک پہنچنے کے لیے سُسر اس کے لیے پھولوں سے سجی کار بھی بھیجے۔ یہ تمام نخرے ایک زمانے میں مجرا اور کاروبار کرنے والی حسیناؤں پر سجتے تھے اور راجے مہاراجے اور نواب ان کے نخرے اٹھاکر لطف لیتے تھے۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب بدل گئی ہے۔ اب یہ سب نخرے مرد ایک مہذب رواج کے نام پر کرتے ہیں ۔ جس طرح پہلے ناچنے والے مردوں کو ہیجڑے یا ڈھویئے کہتے تھے لیکن آج یہ ترقی یافتہ ماڈرن فلم اسٹارز کہلاتے ہیں ۔ نئی نسل ان کی دی ہوئی تہذیب کو فخر کے ساتھ اپناتی ہے اسی طرح پہلے جو مردانگی کی شان تھی وہ اب جسم فروشی میں بدل گئی ہے۔ بے غیرتی اور بے حسی جتنی زیادہ دکھائی جائے گی جتنا زیادہ مال سسر سے حاصل کیا جائے گا ، اتنی زیادہ سوسائٹی میں شان بڑھے گی ۔بے غیرتی آج مردانگی کہلاتی ہے۔ آج مرد مانگتے نہیں بلکہ جسطرح راجے نواب طوائفوں پر خرچ کرکے خوش ہوتے ہیں آج کے لڑکی والے بھی دامادوں پر خرچ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ شائد اسی لئے اگر کسی داماد پر کوئی خرچ نہ کرے تو داماد اور اس کے گھر والے ناراض بھی ہوجاتے ہیں۔
اپنا پسینہ بہاؤ توپتہ چلے ۔۔۔
ہر مرد جانتا ہے کہ محنت اور ایمانداری سے کمانا کتنا مشکل کام ہے۔ کسی اور کا مال اگر اس پر خرچ ہو تو اسے کبھی اس کا اندازہ نہیں ہوتا ۔ مولانا یوسف اصلاحی مدیر "ذکریٰ" نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک باپ اپنے جوان بیٹے کو کمانے اور محنت کرنے کی ترغیب د یتے دیتے تھک گیا۔ بیٹا روزانہ دیر تک سوتا ، کھاتا ، پیتا اور دوستوں میں دن گزار دیتا ۔ ایک دن باپ نے حکم دے دیا کہ آج کما کر لاؤ ورنہ شام میں گھر میں داخل مت ہونا ۔ باپ بہت سخت مزاج تھا بیٹا ڈر گیا سخت پریشان ہوا ۔کام کرنے کی عادت تھی نہیں ۔کمانے کے لیے کبھی نکلا نہیں تھا۔ اس کی پریشانی دیکھ کر بے چاری ماں کو رحم آگیا۔ اس نے جو ایک آدھ دینار یا درہم کہیں کپڑوں میں چھپا کر رکھا تھا جیسا کہ عام طور پر عورتیں اس طرح کچھ نہ کچھ بچا کر کہیں چھپا دیتی ہیں تاکہ ضرورت پر کام آئے ۔ اس نے بیٹے کو دے دیئے اور کہا کہ باپ سے آنے پر کہہ دینا کہ یہ اس نے کمایا ہے ۔
باپ کے آنے پر اس نے وہ درہم باپ کویہ کہہ کر دے دیا کہ یہ اُسکی دن بھر کی کمائی ہے۔ گھر کے آنگن میں ایک کنواں تھا باپ نے وہ درہم لیا اور کنویں میں پھینک دیا ۔ اگلے دن جاتے وقت باپ نے پھر وہی حکم دیا اور بیٹے کی پریشانی دیکھ کر مال نے پھر کہیں جو چھپا کر رکھا تھا وہ درہم دے دیا ، یہ سلسلہ تین چار روز چلا ۔ ہر روز باپ درہم لیتا اور کنویں میں پھینک دیتا ۔ ایک دن ماں نے لاچاری سے کہا کہ بیٹا ! اب تو جتنے درہم تھے سارے ختم ہوگئے ۔ اب میرے پاس کچھ نہیں ۔ بیٹے کے پاس گھر سے نکلنے اور کچھ کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا ۔ وہ بہت ہمت کر کے گھر سے نکلا اور کام تلاش کرنے لگا ۔ بازار میں اُسے وزن ڈھونے کے ایک دو کام ملے۔ دن بھر پسینے میں شرابور ہوتا رہا ۔ خوب کمر ٹوٹی۔ شام میں مزدوری میں ایک درہم ملا ۔ بے حد تھکا ماندہ گھر آیا اور باپ کو وہی درہم پیش کیا کہ ابا جان ! آج محنت کر کے یہ درہم کمایا ہوں ۔ باپ نے ہر روز کی طرح درہم لیا اور کنویں میں پھینکنے لگا ، بیٹے نے فوری باپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور التجا کی کہ :
’ ابا جان ؛ بہت محنت سے کمایا ہوں اسے مت پھینکئے ‘ ۔

ایک مرد ہوتے ہوئے اسے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جیسے اس کے لیے کمانا آسان نہیں ہے اسی طرح جو لڑکی کا باپ یا بھائی ہے اس کے لیے بھی اتنا ہی مشکل ہے ۔ اُن کی بیٹی کی وجہ سے مجبوری ہے لیکن اس مرد کے لیے کسی کی مجبوری کا یوں فائدہ اٹھانا بے غیرتی اور بے حسی نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ آج ہر نوجوان اس بے غیرتی کو ایک دن دھوم سے اپنانے کی خواہش اپنے دل میں ضرور رکھتا ہے ؟یہ بے حِسی کیا بے ضمیری کی علامت نہیں؟
لڑکی کی تعلیم کا خرچ کون ادا کرے؟
ہندوؤں میں یہ رسم اسلئے بڑھی کہ قدیم زمانے میں وہ بنجاروں کی زندگی گزارتے تھے۔ ہر مرد اور ہر عورت کو پیٹ بھرنے اور تن ڈھانکنے کے لیے جنگل اور کھیت میں کام کرکے اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہوتاتھا۔ اور بمشکل تین وقت کا پیٹ بھرتا۔ جب کسی مرد کی شادی ہوتی تو گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہوجاتا جسکے لئے سونے، کھانے اور پہننے کے لیئے نئے مسائل پیدا ہوجاتے۔ اسکی پابجائی کیلئے حل یہ تھا آنے والی اپنے حصے کی ہر چیز اپنے ساتھ لالے۔ حالانکہ یہ بھی ظلم تھا کیونکہ جس گھر سے وہ آئی ہو وہاں ایک فرد کی کمی سے محنت کرنے والا ایک ہاتھ کم ہوجاتا ہے۔ لہٰذہ ہونا تو یہ چاہئے کہ اُس گھر کی کمی کو پورا کرنے کیلئے تحفہ دیا جائے۔
عہدِ حاضر میں اکثر لڑکے والے جہیز اور جوڑے کیلئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ لڑکے کی تعلیم پر جو خرچ آیا ہے وہ والدین کو واپس ملنا چاہئے۔کیونکہ شادی کے بعد تو لڑکا اپنی کمائی لاکر بیوی کے ہاتھ میں رکھے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑکے کے والدین نے جو کچھ خرچ کیا وہ تو وصول کرلیتے ہیں لیکن خود لڑکی کی تعلیم اور تربیت پر جو خرچ آیا ہے وہ کون ادا کرے؟



منبع : مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User