مشترکہ خاندانی نظام۔۔۔۔اشکالات، افادیت و نقصاناتابوطلحہ
مشترکہ فیملی ایک وسیع موضوع ہے۔۔۔۔اور اسکے خد و خال کے لحاظ سے ہی ہم اسکو ڈینائی یا اکسپٹ کرسکتے ہیں۔۔اٹس کنڈیشنل۔۔۔۔۔اور پھر کبھی ۔۔۔۔فائدہ مند بھی۔۔۔۔
ایک گھر کے 5 بھائی اپنے فیملیوںکے ساتھ۔۔۔۔ ایک ہی چھت کے نیچے۔۔۔جہاں۔۔انکے کچن الگ ہوں۔۔۔اور سب کچھ سپریٹ۔۔۔۔پردے کے نظام کے موثر عمل آوری کے بعد۔۔اگر بزرگوں کی موجودگی باعث رحمت سمجھتے ہوئے۔۔۔دو ایک دن میں ایک دفعہ ایک مشترکہ نشستیںجس میں۔۔۔ کزنز۔۔۔(میل اور فیمیل الگ الگ)۔۔۔۔اپنے بزرگوں کے ساتھ۔۔وقت گذاریں۔۔۔اور پھر باہمی محبت و خلوص کے پیکر بنکر۔۔۔۔ سو کالڈ مشترکہ فیملی نظام کی نفی کریں تو۔۔۔۔ جائینٹ سسٹم کو ایک احسن شکل دی جاسکتی ہے۔۔۔۔اگر ممکن ہو تو۔۔۔۔!!!
جہاں تک سوال۔۔۔ہمارے بزرگ خود اگر۔۔۔۔بے راہ روی کا شکار ہوں۔۔۔تب۔۔۔ہماری یہ بحث بے فائدہ ہے۔۔۔
یہاں تو۔۔۔۔گھروں میں۔۔۔۔مغربی طرز پر ڈایرکٹ کرنے کے بجائے۔۔۔۔اور آسولیٹ سوسائیٹی کے بجائے ایک ایسے مشرقی۔۔۔۔انداز کی پشت پناہی ہونے کی بات پیش نظر ہے۔۔جہاں۔۔۔لوگ جڑے بھی رہیں۔۔لیکن حدود میں۔۔۔۔اپنے بزرگوں کی زیر نگرانی۔۔۔۔۔!کیونکہ برصغیر میںجائینٹ سسٹم کی نفی ہم۔۔۔۔ ایک جملہ میںنہیںکرسکتے کیونکہ۔۔۔۔اگر ہم۔۔۔۔ڈیفینشن کے طور پر نفی کر بھی دیںتو یہ پراکٹیکل نہںہوگا۔۔۔سو۔۔۔اسیے میں تھرڈ آپشن کے طور پر۔۔۔احسن طریقے۔۔جو کہ کلیہ اسلامی حدود اور انداز کے ہوںموثر ثابت ہوسکتے ہیں۔۔۔۔تب کہںجاکر۔۔۔۔گھر مٰیں ہم۔۔۔۔مشرقی ماحول ترتیب دے سکتے ہیں۔۔جس کے کئی فوائد ہیں۔۔۔۔
ریلیشنز میں قربت رہے گی۔۔
اتحاد برادران و سسٹران۔۔۔سے۔۔۔ایک مضبوط قلعہ بنے گا جس سے۔۔بر صغیر کے لحاط سے۔۔۔معاشی طور پر۔۔۔۔فوائد ہونگے۔
اسلامی ماحول کی برقراری مٰں ایک دوسرے کو یاد دہانی ممکن ہے۔
ایک ملاجلا۔۔۔اسلامی ماحول رہے تب۔۔۔۔بہت سی بیرونی شیطنت سے محفوظ رہنے کے۔۔امکانات ہیں۔۔۔!!!وغیرہ۔۔۔۔
جائینٹ فیملی سسٹم۔۔۔برصغیر کے کلچرز میں ایک خوبصورت کانسپٹ نظر آتا تھا۔۔۔لیکن رفتہ رفتہ یہ چیز اب۔۔۔۔نئے ٹرینڈز کے لحاظ سے بدلتی جارہی ہے۔۔۔
یہ تبدیلی عام طور پر خود غرضیوں کی پیداوار ہے۔۔لیکن خاص طور پر جائینٹ سسٹمز کے جو مضر اثرات ہیں اس سے بھی بچنا آسان ہوگیا ہے۔۔۔
جائینٹ سسٹم میں چاہتے ہوئے اور نہ چاہیے کزنز کے درمیان خلط ملط کو روکنا آسان نہیں تھا۔۔۔جو کہ اس سسٹم پر ایقان نہ رکھنے اور اس سے کنارہ کش ہونے والوں کو۔۔۔اسکی تباہی سے بچا ضرور رہا ہے۔۔۔لیکن جائینٹ سسٹم ختم ہونے کی بنیادی وجہ کچھ اخلاقیات کا پاس نہیں بلکہ۔۔۔خود غرضی ہے۔۔۔
اگر بر صغیر میںدیکھیںتو ایک کمانے والا ہوتا۔۔۔اور دس لوگ اسکی کفالت میںہوتے۔۔۔اور پھر۔۔اس دوران گھر میں شادیاںبھی ہوجائیں۔۔۔اور فیملیز میںخیر و برکت بھی۔۔۔تب۔۔۔بھی محسوس نہیں ہوتا تھا کہ۔۔۔کچھ بے برکتی ہو۔۔۔ایسے میں۔۔۔کوئی ایسا بھائی۔۔جو تھوڑا سا ایکنامیکلی اسٹرانگ ہے۔۔۔وہ ایک ایسے بھائی کے لئے۔۔جو معاشی طور پر کمزور ہے کے لئے سہارا بن جاتا تھا۔۔۔اور یہ چیز عرصہ دراز تک دیکھی جاتی رہی تھی۔۔۔
پھر ایک اور سوال جو جائینت سسٹم کے ختم ہوتے ہیں سر اٹھا چکا ہے۔۔۔لوگ عام طور پر فیملی پلاننگ کے لئے سوچنا شروع کردیتے ہیں کہ۔۔۔ہم زیادہ بچوں کا بوجھ نہیںسہار پاتے ہیں اسلئے وہ اس میں دلائل بھی نکالنے لگتے ہیں۔۔(میری معلومات کے مطابق یہ حدود شرع کی خلاف ورزی ہے)۔۔۔اگر فیمیلز ایک جگہ ہوتیںتو۔۔۔۔اتنی برکت ہوجاتی کہ۔۔بہت سی چیزوں میں چیزیں شئیر کرلی جاتی تھیں۔۔۔اور بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجاتے۔۔۔مشورے ہوتے۔۔۔محبت و خلوص کی فضا ہوتی۔۔وغیرہ۔۔۔لیکن آج کل جائینٹ سسٹم ٹوٹنے کی بنیادی وجہ۔۔۔تیری دیوار سے اونچی میرے دیوار رہے کے حوالے سے۔۔۔اتنی زیادہ۔۔۔۔کسی سے آگے بڑھے رہنے کی خواہش۔۔۔ہمیں اپنے خونی رشتوں سے بھی سوتیلا بنادیتی ہے۔۔۔۔
ماں باپ کا ساتھ رہنا یا نہ رہنا۔۔یہ جائینٹ سسٹم کا حصہ نہیںہے۔۔۔(آسولیٹ رہتے ہوئے۔۔۔کوئی ایک بھائی والدین کو ساتھ رکھنے پر راضی ہوجاتا ہے۔۔)لیکن شادی کے بعد۔۔۔۔وہ چاہتے ہیںکہ۔۔۔۔سب کے الگ الگ گھر رہیں۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!
میری بات صرف بر صغیر کو لے کر ہے۔۔یعنی پردہ کا پاس و لحاظ جو کہ۔۔۔جائینٹ سسٹم میں ناممکن ہے۔۔۔چھوٹے سے بڑے۔۔۔ہونے دیر کتنی لگتی ہے۔۔۔چھوٹی عمر میں سب کزنز ساتھ کھیلتے ہوئے بڑے ہوجاتے ہیں۔۔۔انہں پتہ ہی نہیںچلتا کہ۔۔کب وہ لوگ۔۔۔اپنے بچپن کی دہلیز سے قدم آگے بڑھاکر۔۔۔۔۔۔نوجوانی اور پھر شباب میں داخل ہوجاتے ہیں۔۔۔(جو کہ سراسر عین خلاف حدود اسلامی ہے۔۔یعنی کنزنز برادرز اینڈ سسٹرز کا آپسی خلط ملط۔۔۔)۔۔۔ لیکن ۔۔۔پھر بھی۔۔۔!!!!برصغیر جو جو ماحول تھا۔۔۔۔اس میںآجکل کے فتنے اتنے نہیںتھے۔۔۔جتنے آج نظر آتے ہیں۔۔۔رشتوں کا تقدس برقرار رہکر بھی۔۔۔کئی ایسے جائینٹ سسٹم دیکھے گئے تھے۔۔۔جنہوں نے۔۔۔ایک چھت تلے رہتے ہوئے مثال قائم بھی کی۔۔۔جو کئی ایک مسائل کا حل بھی تھا۔۔۔
لیکن عام طور پر۔۔۔۔آج کے دور میں۔۔۔جائینٹ سسٹم۔۔۔۔کو اسلامائیز کرنا۔۔۔۔ایک مشکل ترین امر ہے۔۔!!
جائینٹ فیملی کے فائدے گنتے گنتے ۔۔۔اس طرف ہماری نگاہ ہے۔۔۔جہاں۔۔۔ہم۔۔۔نہ چاہتے ہوئے۔۔اپنے ان بنیادوں کی دھجیاں اڑاتے ہیں۔۔۔جہاں سے اسلامی معاشرتی نظام بکھرتا نظر آتا ہے۔۔۔ورنہ۔۔۔ہم۔۔جائینٹ فیملی کو اسلامائیز کرنے کے ہی حق میںہے۔۔۔!
اگر ہم آج کی صورتحال میںہم اپنا آئینہ دیکھیں تو۔۔۔ہمکہیںپر بھی مکمل عمل پیرا ہوتے نظر نہیںآتے۔۔۔(یہ معاملہ بشریت سے ہٹ کر ہے۔۔یعنی۔۔۔پورا عمل پیرا ہونے کے بعد بھی خطائیںہوسکتی ہیں۔۔۔لیکن۔۔۔ہمارا رویہ ہی ایسا ہوتا ہے کہ۔۔۔ہم پورا اترنا نہیںچاہتے) یہاں ہم صرف مثالی جائینٹ سسٹم پر بات نہیںکر رہے ہیں۔۔بکہ۔۔۔۔کیا ہم نے اس سسٹم کو اسلامائیز بھی بنا رکھا ہے۔۔یہاں بنیاد پرستی کی بات نیہں ہورہی بلکہ۔۔۔صرف۔۔اسلامی حدود کے پاس رکھنے کی بات ہے۔ہم جب اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں تب اپنی آنکھوں نیچی رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے۔۔۔(وہاں ہم ساری دنیا کو ایک اصول کے تحت جمع نہیںکرسکتے اسلئے اپنی حفاظت ممکن ہے۔۔۔اور یہ آنکھیںنیچے رکھنے کا معاملہ صرف صنف نازک کے لئے نہیں۔۔۔بلکہ حیا کا معاملہ۔۔۔ہر دو اصناف کے لئے۔۔۔باعث سزا و جزا کا معاملہ ہے۔۔پردہ کرنے کا ایک مطلب تو اپنے آپکو نامحرموں سے بچائے رکھنے کے ساتھ ساتھ۔۔۔ اگر نیت کی صفائی ممکن ہوجائے۔۔۔۔تب۔۔۔نامحرموں سے 100 فی صد پردہ ممکن ہے۔۔۔(اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے۔۔۔جسنے پردہ کے ذریعہ۔۔۔۔صنف نازک کو اسکے بہترین ریسپیکٹفل مقام سے نوازا ہے)
ایک مثال دے سکتا ہوں میں۔۔۔
ہماری ایک کزن(ماموں کی لڑکی جو مجھ سے 10 سال بڑی ہیں۔۔) ہم ان سے لازما پرہ نہیںکرتے تھے کہ وہ ہم سے بڑی ہیں۔۔۔اور پھر۔۔شی واس ا ریسپیکٹفل فار از)۔۔۔لیکن شادی کے بعد ۔۔۔انکے ھزبنڈ کے اصول کچھ اسطرح سے ہیں کہ۔۔۔وہ مجھ سے بھی ہماری کزن کا پردہ کراتے ہیں۔۔۔اور میںیہ سوچ کا ریسپیکٹ کرتا ہوں۔۔۔!
مزید یہ کہ سے اصل میں تعبیر کی غلطی ہوتی ہے۔۔! ہم نے دین کا مفہوم عام طور پر ظاہر میں رکھ دیا ہے۔۔۔جہاںاسکارف۔۔۔داڑھی� �ورپردہ کے احکامات نظر آگئے۔۔۔ہم نے انہیںدیندار گھرانے سمجھ لیا۔۔۔۔اور جس گھر میں ۔۔۔۔داڑھی۔۔پردہ۔۔۔اور کچھ ظاہر ی چیزیں نظر نہ آئیں تب۔۔ہم نے اس گھر کو۔۔۔دنیا دار گھرانہ قرار دے دیا۔۔۔۔جبکہ ۔۔۔۔۔دونوں کیٹیگریز کے معاملات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔میں ہوسکتا ہے کہ۔۔۔دنیا دار (جنھہیںہم نے سمجھ رکھا ہے۔۔) دیندار گھرانوں پر بازی لیجاتے ہیں۔۔۔۔
جب اصلاح مقصور ہوتو۔۔۔اسلام ایک آسان مذہب ہے۔۔کہ جس پر عمل کیا جاسکتے۔۔اسلام کے تمام اصول۔۔۔بظاہر کبھی سخت نظر آبھی جائیں۔۔۔اینڈ آف دی ڈے اس میں انسانیت کی بقا ہے۔۔۔اللہ علیم و خبیر ہے۔۔۔وہ ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے۔۔
بخاری شریف کی پہلی حدیث۔۔جس کا مفہوم۔۔۔اعمال کا دارومدار نیت پر ہے سے ہم اس سبجیکٹ کو ہمارے لئے ماڈریٹ اور اسلامائیز شکل مین دیکھ سکتے ہیں۔۔۔
اسلام الگ رہنے یا ملکر رہنے کی بات نہیں کرتا۔۔۔بلکہ اسلام۔۔۔بنیادی اصولوںپر بحث کرتا ہے۔۔۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ مبارکہ سے بھی ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ۔۔۔ازواج مطہرات کے الگ الگ حجرات تھے۔۔۔
اسلام آسانی فراہم کرکے۔۔۔ہمارے لئے کچھ گائیڈ لائنز فراہم کرتا ہے کہ۔۔۔اگر اسکو فالو کرو تو تمہاری بھلائی ہے۔۔۔
جائینٹ سسٹم کے خلاف جاکر۔۔کچھ اصولوں کو اپنا کر۔۔۔خاندانوں کو توڑنا اسلام کی روح نہیںہے۔۔بلکہ صنف نازک کی عصمت کا جو سسٹم اسلام نے دیا ہے۔۔۔(وہ جائینٹ سسٹم میں بھی رہکر۔۔۔۔اصولوں کو اپنا کر۔۔۔ایک چھت تلے بھی ناممکن نہیں)۔۔وہ کسی اور مذہب میںنہیںمل سکتا۔۔۔۔!ویسٹ میںعام طور پر کئی ایسے اصول ہیںجو عین اسلام کے مطابق ہے۔۔یہی تو رونا ہے۔۔۔غیر اقوام نے اسلام کے کئی اصول اپنائے ہیں۔۔۔جبکہ۔۔۔ہم نے اپنے کئی اصول بھلادئے۔۔۔میٹرو سیٹیز ہو یا قریہ یا دیہات۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ایک چھت تلے رہنے کی بات پر مصر نہیں۔۔۔لیکن اسلام کے اصول۔۔۔۔ایسے نہیںہوتے کہ۔۔۔۔یہ دیہات میں آسان اور بڑے شہروںمیںمشکل بن جائیں۔۔۔۔۔
جا دور میں مسلم سوسائیٹی کی تعمیر ہورہی تھی۔۔تب۔۔پردے کے بارے میںکہا گیا تھا کہ۔۔۔جب وہ گھر سے باہر نکلیں اپنے سر وں کو ڈھانپ لیا کریں تاکہ دوسرے نامحرم سے حجاب ہوسکے۔۔۔اسی طرح۔۔جائینٹ سسٹم میںبھی۔۔ایک گھر میںرہتے ہوئے۔۔۔۔(یعنی ایک چہار دیواری۔۔۔) جہاںکے مختلف گھر ہوں۔۔۔۔کے افراد میںپردو ممکن ہے۔۔۔
ہمارے دادا کا جو گھر تھا۔۔۔۔اس میں ہمارے والدین سمیت۔۔۔۔5 مختلف گھر تھے۔۔لیکن سب کا ایک ہی انٹرنس تھا۔۔۔اور۔۔۔ہم کزنز میں۔۔۔۔کوئی پردہ نہیں تھا۔۔ایک عمر خاص تک۔۔اسکے بعد ۔۔۔۔آٹومیٹک۔۔۔ہم کزنز کے درمیاں حجاب حائل ہوگیا۔۔۔۔ایک گھر میںرہتے ہوئے۔۔۔اگر معصومین کو یہ بات۔۔۔انکی گھٹی (دماغ کے اندرون) تک ڈال دی جائے کہ۔۔یہ اور یہ رشتہ۔۔اس اور اس حد کہ ہیں۔۔تب۔۔۔غلطیوںکا گمان کم ہوتا ہے۔۔۔
اصل میںنا۔۔۔جوائینٹ سسٹم کے خدوخال میںجو چیزیں۔۔۔۔اہم ہیںاس میں پردہ، ایک کچن،اور افراد کے درمیان تال میل۔۔۔ان سب کو جڑتی ہوئی چیزیں۔۔۔جوائینٹ سسٹم بناتی ہیں۔۔
ایک ماڈل جوائینٹ سسٹم جو کہ ممکن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اور اسکی افادیت بھی ہے۔۔یہ ہوسکتا ہے۔۔۔!اور یہ حد خاص تک رہسکتا ہے۔۔۔ہمیشہ نہیں۔۔۔۔۔!
پردہ کی پاسداری۔۔(شعور کے ساتھ)
خواتین میں تال میل (بیالنس کے ساتھ)
بچوں میںکھیل کود (بڑوںکی گہری نظر کے ساتھ)
ہیڈ آف دی فیملیز میں(باشعور انداز کا ربط)
گھرکے بزرگوں کے ساتھ (بیالنس کوآپریشن۔۔۔۔اور ریسپکٹ)
خوشی اور غموں کے مواقعوںمیں۔۔۔(حدود اسلامی کی پاسداری کے ساتھ) ستھرا انداز
حقوق اللہ میں۔۔۔توازن اورحق کو تسلیم کرنے کا مزاج
گھر کے بڑے افراد کا۔۔۔۔۔قربانیوں سے بھر پورمزاج۔۔۔
یہ تمام باتوںکے بعد جہاںحدود اللہ کی پاسداری ہو، قربانیوں کا جذبہ ہو،شعور ہو، ریسپکٹ ہو، تب۔۔۔۔۔کیسے جوائینٹ سسٹم کو ہم اسلامائیز انداز میںبارونق نہیں بناسکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جسکی برکتیںہی برکتیںہونگی۔۔۔۔انشا اللہ۔۔
جائینٹ سسٹم کا ٹوٹنا۔۔۔اگر اسلام کے اصول کے تحت ہوتا۔۔۔۔تو کیا ہی اچھی بات ہوتی۔۔۔۔جوائینٹ سسٹم۔۔۔۔کا ٹوٹنا عام طور پر۔۔۔خود غرضیوں کی بنا پر۔۔۔اور عام طور۔۔۔پر آپنے جدھر اشارہ کیا کہ۔۔۔۔مکانات کی تنگ دامنی وغیرہ اہم محرک رہے۔۔۔۔ورنہ۔۔۔آج کے دور میںبھی۔۔۔۔۔جائینٹ سسٹم کے تحت۔۔۔اسلامائیز انداز میں جڑے رہنا۔۔۔ناممکن نہیںہے۔۔۔ ہے۔۔۔کہ۔۔۔ایک ایسا ماحول جہاں۔۔۔ہم اپنے معصومیں کے اذہان اسطرح سے تعمیر کرتے ہیںکہ۔۔۔۔بظاہر پردہ نطر نہیں آتا لیکن انکے شخصیت کی تعمیر ایسی کی جاتی ہے۔۔۔اور انکے کیریکٹر پر ایک ایسی خاص نظر ہوتی ہے کہ۔۔۔۔بچوں کی چھوتی سے چھوٹی غلطی بھی۔۔۔مایکرہ انالائیز ہوکر انہیں وقت پر اسکی سرزنش ہوجائے۔۔۔اور انکے اپنے کزنز کے ساتھ۔۔ریلیشن صرف ایک خاص عمر تک رہے۔۔۔۔(اور پھر پردہ۔۔۔کے لئے انہیں کہا نہ جائے بلکہ۔۔۔(باشعور انداز میں حجاب حائل ہوجائے، جیسا کہ عشا سسٹر نے بتایا)) ۔۔۔۔۔تب بہت کچھ ممکن ہے۔
پردہ کا باشعور انداز میںاپنانا۔۔۔جوائینٹ سسٹم کو اسلامائیز کرنے میں مدد دیتا ہے۔
پھر۔۔۔گھر کے بڑے افراد۔۔۔۔اپنے بچوںمیں۔۔۔انصاف کرسکیں۔۔۔۔
انکی شخصیت کی تعمیر کرسکیں۔۔۔۔
اسلامی تعلیمات سے روشناس کرائیں۔۔۔
اجتماعی طور پر۔۔۔۔میٹرز کو ڈسکس کیا جائے۔۔۔۔
اور پھر۔۔۔۔۔خاص طور پر خواتین۔۔۔۔کا جسطرح سے۔۔۔ایک گھر کی تعمیر میںاہم ترین رول ہے ۔۔۔وہیں۔۔۔ایکساتھ رہنے میں جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔۔۔اسکو صبر کے ساتھ ڈیل کرکے۔۔۔۔اسکو مینیج کرنے کی جانب احسن اقدامات۔۔۔۔وغیرہ۔۔۔۔ایک متحد اور جوائینٹ سسٹم ترتیب دینتے میںمعاون بنتے ہیں۔۔۔
بنیادی طور پراسلام نے چند حدود مقرر کردئے ہیں۔۔۔۔جاینٹ سسٹم ان حدود کی عام طور پر پامالی کرتا نظر آتا ہے۔۔جس میں سب سے بڑی حد پردہ تھی۔۔۔جس پر عام طور پر۔۔ہم لوگ۔۔۔۔لبرل جاتے ہیں۔۔(لیکن ان چیزوںمیںہماری رایوں سے ہٹکر ہمیں۔۔۔اسلامی تعلیمات کو بذات خود پڑھنا چاہیے)
اس کے بعد اگر جائینٹ سسٹم حدود میں رہکر جاری رہ سکتا ہے تو۔۔۔یہ ایک برکت والا اور بارونق سسٹم ہے۔۔۔۔۔شرط یہ ہے کہ۔۔۔حدوداللہ کی پاسداری ہو۔۔۔!!!!!!!!!!!!!!!!!!
جائینٹ سسٹم کے سب سے اہم محرک پردہ سے اختلاف شاید ہی کوئی کرے۔۔لیکن پھر بات پردہ کی نوعیت پر آگئی ۔۔۔یہ حقیقت ہے کہ۔۔۔بنیاد پردہ کی قسم دلالت نہیںکرتی بلکہ اسکے اندر چھپی اسلام کا وہ اصول اہم ہے جسکے ذریعہ خاص طور پر۔۔۔۔عورت کو پردہ کی تاکید کی گئی ہے۔۔۔اب اس میںتراش خراش اگر۔۔۔۔جدیدیت لئے ہوئے کسی سے بھی نام سے۔۔۔اور کسی بھی تہذیب کی عکاسی کرے۔۔۔اور وہ حدود میںرہے تو اس میںکوئی قباحت نہیں۔۔۔
اس جدید ترقی یافتہ دور میںبھی ہم اپی اسلامی تعلیمات کو بھولنا نہیںچاہتے۔۔۔اسکے خدو خال۔۔۔حالات کے لحاظ سے کیسے ہوں۔۔۔اور کیسے اسکو ہم اسلامائیز کرسکتے ہیں۔۔۔یہ ہم سب کے سوچنے کی بات ہے۔۔۔۔
ہر مشاہدہ اپنے بیک گراونڈز رکھتا ہے۔۔لیکن مشاہدات کی بنیاد پر۔۔۔اصول بدلے نہیںجاسکتے۔۔۔حالات کے لحاظ س ہو یا۔۔۔مجبوری میںہو۔۔۔یا اسلامی اقدار کی پاسداری کو لیکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگر ہم سے۔۔۔حدوداللہ کی پاسداری کسی بھی شکل میںاور کسی بھی سبب ہوجائے۔۔۔اینڈ آف دی ڈے۔۔۔۔ہمیں اسکی جزا ملے گی۔۔۔انشااللہ۔۔۔۔
جوئینٹ سسٹم کو سب سے زیادہ خراب کردینے والا جو محرک ہے۔۔۔مغربی تہزیب کا وہ چغہ ہے جو ہم۔۔۔۔نے۔۔۔۔جدیدیت کو غیر محسوس طریقے سے اپنانے ہوئے پہن رکھا ہے۔۔۔اس سے جنم لینے والی بھیانک۔۔۔۔بیماریوںمیں۔ ۔۔۔بے حیائیاں۔۔۔۔۔۔خود غرضیاں۔۔۔۔رشتوں کاعدم تحفظ وغیرہ ہیں۔۔۔۔
جوائینٹ سسٹم جو۔۔۔۔خاص طور پر برصغیر میںرہنے والوںکے لئے۔۔۔اور اسی مقام پر رہتے ہوئے۔۔۔۔قابل عمل تھا۔۔اسکو۔۔۔عین سسٹر کے حوالے اور بہت سے مشاہدات سے۔۔۔۔دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔جہاں۔۔۔۔۔اس نے نہ صرف۔۔۔خاندانوںکو جوڑے رکھنے میں ایک رول ادا کیا ہے۔۔۔وہیں۔۔۔۔ایسے بہت سے مسائل جو ڈیوائیڈن رول جیسے ۔۔۔۔بن جاتے ہیں۔۔۔۔کو بھی اس سسٹم نے روکے رکھا۔۔۔تھا۔۔۔۔۔۔پھر۔۔۔۔گھ رکی رونقین اور برکتیں۔۔۔۔سونے پر سہاگہ۔۔۔بنتی تھیں۔۔۔لین۔۔۔یہ تمام چیزیں۔۔۔اسی وقت اور صرف اسی وقت۔۔۔بہت ممکن ہے۔۔۔جب ہم۔۔۔۔کسی بھی ماحول میں رہتے ہوئے۔۔۔۔اپنے اقدر کو۔۔۔۔اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھیں۔۔۔تب۔۔۔جوائینٹ سسٹم میںدیکھی اور برتی جائینوالی۔۔۔۔۔رونقیں اور برکتیں۔۔۔دیکھی جاسکتی ہیں۔۔۔۔اگر ہم۔۔۔خود کو۔۔۔اسلامائیز کرنے کی کوشش کریں۔۔تب۔۔ہم سے جڑی ہر چیز۔۔۔اسلامک چغہ پہن سکتی ہے۔۔۔اور یہ کوئی۔۔۔۔۔دقیانوسیت نہیںہے۔۔۔۔اور نہ۔۔۔۔جدیئدیت کا فتنہ۔۔بلکہ یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لامک ماڈرینیٹی کہلائی جاسکتی ہے۔۔۔
جوائینٹ سسٹم۔۔۔کے نقصانات میں اہم نقصان جو ہوسکتا ہے۔۔۔( اگر اسکو شعوری انداز میں ڈرائیو نہ کیا جائے)۔۔۔۔۔وہ یہ ہے کہ۔۔۔۔
اگر ایک فیملی اسلامک ویوز رکھتی ہے تب۔۔۔دوسری فیملیز اس سے متاثر ہوکر۔۔۔۔۔خود کو اسلامائیز کرسکتی ہے۔۔۔۔لیکن ساتھ ہی ساتھ۔۔۔جب ایک فیملی۔۔۔۔مغربی چغہ پہن رکھی ہے۔۔۔تب۔۔۔۔سارا سسٹم مغرب کی تقلید کرسکتا ہے۔۔۔۔ (آئیسولیٹ کلچر اور سسٹم میں یہ دونوں۔۔۔۔ممکن نہیںہے۔۔۔۔(عام طور پر)۔۔۔ وہیں اقدار کا پاس و لحاظ کرنیوالی ایسی فیملیز بھی دیکھی گئیں۔۔۔جنہوں نے۔۔۔ویسٹ میںرہتے ہوئے۔۔۔وہاںکے تراش خراش کو اپناتے ہوئے۔۔۔خود کو ایسے انداز میں ڈھال رکھا ہے۔۔۔۔جو کہ عین اسلامی تعلیمات ہیں۔۔۔!یہ سب منحصر ہے۔۔۔۔ایمان کی مضبوطی پر۔۔۔اینڈ آف دی ڈے۔۔۔۔(قرآن کی آیت کا مفہوم ہے۔۔۔۔ہر کوئی اپنے نامہ اعمال کا ذمہ دار ہے)۔۔۔۔ہم سے اگر ۔۔۔۔حدود اللہ کی پاسداری میں۔۔واقعی۔۔۔چوک ہوتی ہے۔۔۔وہ شوہر کی طرف سے ہو یا۔۔۔بیویوں کی طرف یا کسی کی طرف سے بھی۔۔۔۔(یا نیت کی خرابی ہو)۔۔۔۔ اللہ ہمارے نیتوں سے بھی واقف ہے۔۔۔۔تنقید بغرض اصلاح۔۔۔۔ہو۔۔۔اور عمل کی زیادہ سے زیادہ کوشش۔۔۔۔صرف رائے زنی کرنے کا اختیار ہم رکھتے بھی ہوں۔۔اسکے نتائج ہم اسی دنیا میں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔مزید ایک آیت کا مفہوم۔۔۔۔اے ایمان والو۔۔۔وہ بات کہتے کیوں ہے جو کرتے نہیں۔۔۔۔۔!!!
بات پاکستان کی۔۔۔۔ہند کی۔۔۔عرب ممالک کی۔۔۔یا ویسٹ کی ہو یا کہیںکی۔۔۔
ہماری اپنی بنیاد جڑی ہے۔۔۔۔اس تاریخسے جہاںکعبہ کا طواف ننگے کیا جاتا تھا۔۔۔لیکن ایک وقت ایسا بھی آیا کہ۔۔۔شراب۔۔۔مکہ کی گلیوں میںبہادی گئی۔۔اور قوانین اسلامی ہر جگہ نافذ نظر آئے۔۔۔اور لوگ دل سے اس سچے مذہب کو قبول کرتے چلے گئے۔۔۔
ماحول چاہے کیسا ہو۔۔۔
ملک چاہے اسلامی نہ ہو۔۔۔
لیکن ہم۔۔۔جب۔۔۔ایک ایسی سوسائیٹی میں رہتے ہیں جہاںتہزیبوںکا ٹکراو ہوتا ہو۔۔۔وہاں ڈیفرنٹ انڈرسٹانگزنگ ہوسکتی ہیںِ۔۔لیکن ریجیڈیٹی۔۔۔۔سے ہٹکر۔۔۔ہم۔۔۔کچھ اصولوںکے پابند ہیں۔۔۔۔ہم اسکو مانیںیا نہ مانیں۔۔۔ہم انہی اصولوںکے تحت۔۔۔۔بندش میںہیں۔۔۔
اسلامی قوانین پر عمل آوری ممکن ہے۔۔۔جوائینٹ سسٹم میںرہتے ہوئے۔۔۔اسلامی حدود میںرہا جاسکتا ہے۔۔۔۔اور یہ سسٹم بارونق اور با برکت ہوسکتا ہے۔۔لیکن مشروط۔۔۔۔اگر اسلامی حدود کی پاسداری۔۔۔کو ہم نے۔۔اپنی سوچ و عمل کا حصہ بنالیا۔۔۔۔۔کسی کی پسند اور نا پسند کا ہم کریٹیریا جو مانتے ہیں وہ کچھ اصولوں کے تحت ہیں۔۔۔جس کی بنیاد قرآن اور سنہ ہیں۔۔
بر صغیرمیںموجود ہم میںسے اکثر کا احساس یہی ہے کہ۔۔۔ہم اسلامک باونڈریز میںرہتے ہوئے۔۔۔جوائینٹ سسٹم میں مینیج کرنے کی کوشش کریں تو یہ بہت سے خاندانی مسائل کا آسان سا حل ہے
البتہ ہم اسکی اشکال کے بارے میں بہت ہی لبرل انداز میںبات کرسکتے ہیں۔۔کیونکہ ہمیں جوائینٹ سسٹم سےکوئی لگاو نہیںہے۔۔بلکہ جوائینٹ سسٹم کے نتیجے میں۔۔۔ہم جس آسانی کے ساتھ۔۔۔۔کئی ایک مسائل کے حل پاتے ہیں۔۔۔اگر اسکو ہم اسلامائیزکرسکیں تب ہماری دنای اور آخرت کی بھلائی ہوگی۔۔۔
ورنہ دنیا کی بھلائی کی خاطر ہم آخرت کا سودا گھاٹے میں نہیںرکھ سکتے۔۔۔۔
سو ہم اس ٹاپک کو اس انداز میںچاہیںتو سمرائیز کرسکتے ہیںکہ۔۔۔
"جوائینٹ سسٹم ایک نعمت کی شکل ہم محسوس کرسکتے ہیں۔۔۔اگر اسکو ہم اسلامائیز رکھ سکیں"
اور اسکی ڈیٹیلز کا مآخذ قرآن اور سنہ ہیں۔۔۔اور پھر ہم۔۔اپنے علما کرام سے۔۔۔اور اپنے اکابرین سے رجوع ہوکر۔۔۔۔اسکی اشکال کے بارے میںڈسکس بھی کرسکتے ہیں (ان تمام کا مآخذ صرف قران اور سنہ ہو
منبع : صراط الہدی فورم
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.