Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, May 10, 2011

کیا جہیز ہدیہ یا تحفہ ہے؟

کیا جہیز ہدیہ یا تحفہ ہے؟


وہ کچھ اور شئے ہے محبت نہیں ہے
سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

کچھ لوگوں کے نزدیک فرار کا ایک فلسفہ یہ ہیکہ جہیز بیٹی کو ہدیہ Gift ہے ۔ ظاہر ہیکہ ہر باپ کو اپنی بیٹی کو کچھ نہ کچھ تحفہ دینے کا حق ہے۔ شریعت اس پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتی۔ دینے والے اور لینے والے دونوں اِس جواز کو پیش کرکے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بڑے بڑے علماء اور مصلحین کو خاموش کردیتے ہیں۔ یہ بھی ایک خود فریبی اور دھوکہ ہے۔ آئیے شریعت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ہدیہ ہے یا ررشوت۔
شریعت ہو کہ کوئی ملکی قانون، وہ پورے ملک یا پوری امت کے فائدے کے پیشِ نظر بنایاجاتاہے نہ کہ کسی فرد یا خاندان کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر ۔ اسیطرح شریعت بھی یہی دیکھتی ہیکہ پوری امّت کی منفعت کس چیز میں ہے۔ اگر چند والدین اپنی بیٹی کو تحفے یا ہدیے میں گھر، زمین یا بہت سی رقم اور مال دے سکتے ہیں تو اسکو اسلئے جائز نہیں کر سکتی کہ یہاں چند والدین کا سوال نہیں بلکہ امّت کے کروڑوں والدین کا سوال ہے۔ لالچی اور بھکاری فطرت کے انسانوں کی ہر سوسائٹی میں کثرت Majority ہوتی ہے۔ جو انہی لڑکیوں کو تلاش کرتی ہے جن کے والدین ایک سے اعلیٰ ایک تحفہ یا ہدیہ دے سکتے ہیں۔ اسی چیز کو کیرالا میں استری دھنم Stree dhanam اور ٹامل ناڈ میں ورودکھشنا Varoo dakshinaبہار میں تلک Tilak اور پاکستان میں سلامی اور حیدرآباد میں جوڑا کہتے ہیں۔
چند ایک والدین جو پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنی بیٹی کو ہدیہ یا تحفہ دیتے ہیں وہ پورے سماج کیلئے ایک لالچ اور لوٹ کا ذریعہ بن جاتاہے۔ اگر آپ کسی مجمع میں کسی ایک غریب کو کچھ خیرات دیتے ہیں تو چند ہی منٹوں میں آپ کے اطراف فقیروں اور لوٹ منگوں کا جمِ غفیر لگ جاتا ہے ۔
اسی طرح لڑکے والے بھی ہوتے ہیں۔ خوب ہدیہ دینے کی استطاعت رکھنے والے گھر تو پرہر کوئی رشتہ بھیجتا ہے لیکن نادار بیٹیوں کے گھر کوئی رشتے نہیں آتے ۔ انہیں بھی ہر لڑکی کے باپ سے یہ آس رہتی ہیکہ وہ اپنی بیٹی کو کچھ نہ کچھ تو دے گا۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو کوئی ہدیہ نہ دے تو اسکی بیٹی کا اُٹھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔اگر اُٹھ بھی جاتی ہے تو سسرال میں اس کے لیے ذلّتیں منتظر رہتی ہیں۔ لہذا یہ ہدیہ جو شائد چند لڑکیوں کے والدین کے نزدیک واقعی ہدیہ کی حیثیت رکھتاہو، پورے معاشرے کیلئے یہ ایک رشوت کا کام کرتاہے۔ جب یہ عام چلن بن جائے تو کسی باپ کا دیا ہوا ہدیہ پھر لڑکے والوں کی نظر میں ہدیہ شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ اِسے اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔ یہ پھر ہدیہ باقی نہیں رہتا ، رشوت بن جاتا ہے۔ اسلئے شریعت کی نظر میں ایسا چلن جو دوسروں کیلئے حرام کے راستے کھول دے حرام ہے۔

ہدیہ کی تعریف :
ھدیہ کا اصل مادہ ’ ھدی ‘ ہے۔ یہ لفظ جوڑنے اور ملانے پر بولا جاتاہے۔ ھدیہ کی جمع ھدایا آتی ہے جبکہ اہلِ مدینہ کی لغت میں اسکی جمع ھداویٰ ہے۔ صحاح میں ہیکہ ھدیہ ھدایا کا واحد ہے۔ مِھدی ٰ اُس تھالی یا طباق کو کہتے ہیں جسمیں ھدیہ بھیجا جائے۔
اور عربی میں مِھدآء اس شخص کو کہتے ہیں جو ھدیہ دینے کا عادی ہو۔ اور تھادی ایک دوسرے کو ھدیہ دینے کے عمل کو کہتے ہیں جیسے کہ حدیث میں آتا ہیکہ :
تَهَادَوْاتَحَابُّوا وَ تَصَافَحُوْا يُذْهِبُ الغِلَّ عِنْكُمْ

ایک دوسرے کو ہدیہ دو اور محبت بڑھاو اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرو اس سے تمہارا حسد اور کینہ جاتا رہیگا۔
(ابن عساکر بروایت حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ)۔

نیز امام احمد رحمة اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمة اللہ علیہ نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہیکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
تهادوا ان الهدية تذهب وحر الصدر ، ولا تحقرن جارة لجارتها ولو بشق فرسن شاةِِ

ایک دوسرے کو ہدیہ د و، اس سے دل کا کینہ ختم ہوجاتا ہے اور کوئی پڑوسن اپنے پڑوسن کے ہدیہ کو حقیرنہ جانے چاہے وہ ایک بکری کی ایک کُھر کا ہی ہدیہ کیوں نہ ہو۔
(کنزالاعمال جلد 6، صفحہ 55)

ہدیہ کی اصطلاحی تعریف :
الشیخ عبداللہ بن عبدالمحسن الطریقی، امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، سعودی عرب کے ایک معروف عالمِ دین ہیں۔ان کے تحقیقی مقالے ”جرسیمة الرشوة فی الشریعة الاسلامیة رشوت۔ شریعتِ اسلامیہ میں ایک عظیم جرم “ پر انہیں ڈاکٹریٹ دی گئی ہے۔ اس کتاب کو اردو میں مولانا نصیر احمد ملی اور مختار احمد ندوی صاحبان نے ترجمہ کیا اور داراسلفیہ ، بمبئی نے شائع کیا۔ الشیخ عبداللہ نے کئی لغات اور علماء اور فقہاء کی تحریروں کی روشنی میں رشوت اور ہدیہ کی جو تعریف بیان کی ہے وہ یہ ہیں۔
ایک یہ ہے کہ
” کسی شرط کے بغیر ایک دوسرے کو جو مال دیاجاتاہے اسکو ہدیہ کہتے ہیں “۔
اس تعریف میں ”کسی شرط کے بغیر “ کے الفاظ قید احترازی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے رشوت خارج ہوجاتی ہے۔ نیز ان الفاظ سے بدلہ کا ہدیہ بھی خارج ہو جاتا ہے۔ یہ وہ ہدیہ ہے جسمیں اسی جیسا یا اس سے کم یا زیادہ تحفہ لوٹانے کی پیشگی توقع ہوتی ہے۔ ایک اور تعریف یہ کی گئی ہیکہ
” ایک شخص پہل کرکے ، دوسرے کو اسکی طلب کے بغیر ھدیہ دے۔“
ماخوذ : الصحاح للجوہری، فتاویٰ ہندیہ، کشاف القناع عن متن الاقناع ۔

ہدیہ کی ایک تعریف یہ بھی آئی ہیکہ
” ایسا مال جو ایک شخص دوسرے کو اعانت کی امید یا شرط لگائے بغیر اسے دے۔
الاصول القضائیہ فی المرافعات الشرعیہ قواعہ صفحہ 328۔

ایک اور تعریف یہ کی گئی ہیکہ :
ھدیہ وہ مال ہے جو دلی محبت کے اظہار الفت کے حصول اور ثواب کی غرض سے دیاجائے۔
تعریب السیاسة الشرعیہ فی حقوق الراعی و سعادہ الرعیہ ، ۔صفحہ 50

جوڑا جہیز کو ھدیہ یا تحفہ سے تعبیر کرنے والے حضرات اس تعریف کو غور سے دوبارہ پڑھیں اور یہ غور فرمائیں کہ ھدیہ کے جائز ہونے میں تین اہم شرطیں ہیں :
ایک تو یہ کہ یہ کسی شرط کے بغیر ہو اور دوسرے یہ کہ یہ کسی طلب کے بغیر ہو اور تیسرے یہ کہ ثواب کی غرض سے ہو۔
جبکہ عہدِ حاضر میں، جہیز کے پیچھے تینوں شرطیں غائب ہیں۔ جوڑا جہیز ایک اجتماعی ضرورت اور طلب بن چکی ہے اگر یہ شرط یا طلب نہ ہوتی تو آج کسی لڑکی کے باپ کو سماج اور بیٹی کے سسرال کے خوف سے کچھ نہ کچھ دینے کا پابند ہونا نہیں پڑتا۔ اور کیا اس لین دین میں ثواب کا نظریہ Conceptہوتاہے؟ احادیث میں ہدیہ دینے والے اور لینے والے دونوں کو ثواب کا مستحق قرار دیاگیا ہے کیونکہ ہدیہ ایک مستحب ہے۔ لڑکی کا باپ تو ہوسکتاہے دیتے وقت ثواب کی نیت رکھے لیکن کیا لینے والا واقعی یہ سمجھ کر لیتاہے کہ وہ ایک ثواب کا کام کررہاہے؟ وہ تو اسے اپنا حق سمجھ کر وصول کرتاہے اور جانتا ہے کہ اگر وہ یہاں نہیں کہیں اور شادی کرتا تب بھی اسے یہ سب کچھ مل کر ہی رہتا بلکہ اس سے زیادہ ملتا ۔ جو لوگ حدیث سے تحفے کا جواز لاتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے جہاں تحفوں کے لین دین کا حکم دیا ہے وہیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا خود یہ رویّہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کسی سے تحفہ قبول کرتے تو اس سے کہیں زیادہ بہترین تحفہ لوٹاتے بھی تھے۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا جوڑا جہیز والے لڑکی والوں کو اس سے زیادہ قیمتی تحفہ لوٹاتے ہیں؟ ۔

ھدیہ کب رشوت شمار ہوتا ہے
تمام علماء کی بحثوں کی روشنی میں یہ ثابت ہیکہ ھدیہ کی حیثیت مستحب کی ہے اسکے واجب نہ ہونے پر اجماع ہے۔ اور ھدیہ کا قبول کرنا بھی اسی مفہوم کی وجہ سے مستحب ہے۔ حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ ہیکہ ہدیہ کا مقصد یہ ہیکہ لوگوں میں محبت عام ہو لیکن ہدیہ کا یہ لین دین اسی شخص کیلئے ہے جس سے دینے والے کی کوئی ذاتی منفعت یا توقع وابستہ نہ ہو۔ اسی لئے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے رویّئے کو سخت ناپسند فرمایا جو زکوٰة کے تحصیل Collection کیلئے جاتے اور کوئی انہیں تحفہ دیتا تو رکھ لیتے۔ حتٰی کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو یہاں تک حکم فرمادیا کہ وہ گھر بیٹھ رہیں۔
ایسا شخص جسکا دینے والے سے کوئی مفاد وابستہ ہو اس سے کوئی تحفہ لے تو یہ رشوت کی تعریف میں داخل ہے۔ کیونکہ اُسے وہ کسی مخصوص منصب ہی کی بنا پرتحفہ دے رہاہے۔ اگر وہ اس منصب پر نہ ہوتا تو دینے والا اسے ہرگز تحفوں سے نہ نوازتا۔ اور جبکہ دینے والا یہ جانتا ہے کہ لینے والا یہ کام بھی ہرگز نہ کرتا اگر اسے تحفے کی آس نہ ہوتی۔ جوڑا جہیز کو تحفہ یا ھدیہ کہہ کر جواز پیدا کرنے والے اس بات کا جواب دیں کہ سوسائٹی میں ایسے کتنے افراد ہیں جن سے اگر یہ کہا جائے کہ لڑکی کا باپ کسی قسم کا کوئی تحفہ یا ہدیہ دینے کا قائل نہیں ہے تو وہ شادی کیلئے تیار ہوجائیں گے؟ کوئی تیار نہیں ہوگا سوائے ایک لاکھ افراد میں پانچ یا دس اصلی محبّانِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے۔
کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتاکہ جس چیز کو ھدیہ یا تحفہ کہہ کر دیا جارہا ہے یا لیا جارہا ہے وہ نہ ھدیہ ہے نہ تحفہ بلکہ ایک لازمی رشوت ہے؟

یہ ایک رشوت ہی ہے۔ کیونکہ ھدیہ دینے والا جس کو ھدیہ پیش کرتاہے اسکے احسان کا طلبگار ہوتاہے۔ ثواب کی نیت دور دور تک نہیں ہوتی بلکہ لڑکی کے ہاتھ جلد سے جلد پیلے کرنے کا مقصد پوشیدہ رہتاہے۔ چونکہ خدا کی قربت اور نزدیکی مطلوب نہیں ہوتی اسلئے اسکے اندر کسی خیر کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دینے والا صرف یہ چاہتاہیکہ ھدیہ لینے والے کے دل میں اسکی بیٹی کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو، زیادہ سے زیادہ پیار اور محبت پیدا ہو، سسرال والے اسکی بیٹی کو کوئی طعنہ نہ دیں۔ آنے جانے والے اور خاندان والے یہ نہ کہیں کہ ”ھدیہ یا تحفے “ میں کوئی کمی کی ہے۔ اسلئے جب اس مقصد کے تحت ھدیہ یا تحفہ دیا جائے تو وہ ھدیہ کے تعریف سے خارج ہے۔یہ ایک کھلے عام لالچ ہے جو معاشرے میں ہر لڑکے کو دی جاتی ہے۔ اسکو تحفہ یا ھدیہ کہنا نہ صرف خود کو اور زمانے کا دھوکہ دینا ہے بلکہ اللہ اور شریعت کو بھی دھوکہ دینا ہے۔ چونکہ احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ دینے والا بہ شرطِ مجبوری معصوم ہے اسلئے اصل گناہگار لینے والا ہے۔ اسلئے جوڑا جہیز لینے والے اچھی طرح سوچ لیں کہ وہ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اپنے آپ کو یا اللہ کو؟
شریعت کی نظر میں ھدیہ کا معاملہ انتہائی نازک ہے اور حساس بھی۔ ہر وہ دروازہ جہاں سے رشوت پیدا ہوسکتی ہے اور معاشرے میں ناانصافی، لوٹ مار، غریبوں ، ضرورتمندوں کا استحصال Exploitation او ر ناحق کمائی کے ذریعے اپنا رعب پیدا کرنے کا راستہ کھل سکتا ہے ، شریعت نے بند کردیئے ہیں۔ اسی لئے ہر اس ذمّہ دار کو بھی تحفے تحائف یا ھدیہ دینے سے سختی سے منع کیاگیا ہے جو سوسائٹی میں کسی نہ کسی منصب یا مقصد کیلئے لوگوں سے وابستہ ہو۔ جیسے قاضی، امام، کسی بھی قسم کا تحصیلدار Collector وغیرہ۔ جو مختلف احادیث اس ضمن میں ہمیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں۔۔
ھدیہ احادیث کی روشنی میں
امام (بمعنیٰ والی) کا ھدیہ قبول کرنا حلال نہیں
( ابن عابدی )

امام کو تحفہ دینا خیانت ہے ۔
( امام طبرانی بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ)

سلطان کو ھدیہ دینا انتہائی قبیح حرام اور خیانت ہے ۔
( ابن عساکر ، بروایت حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ، کنز الاعمال صفحہ 56)

امراء کو ھدیہ دینا خیانت ہے
( ابن جریر رحمة اللہ بروایت جابر رضی اللہ ، کنزالاعمال جلد6 صفحہ 358)

الهديه تعور عين الحكيم
تحفے تحائف حکمت والے آدمی کو بھی اندھا بنا دیتے ہیں۔
( ویلمی، مسند فردوس)

اللہ نے اپنے نبیوں پر جو وحی نازل فرمائی ہے اسمیں میں نے پڑھا ہیکہ ”ھدیہ حکمت والوں کی آنکھیں پھوڑ دیتاہے “
کشاف القناع عن متن الاقناع بروایت حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ ، جلد 6، صفحہ 317

اخذوالامير الهديه سحت و قبول القاضي الرشوة كفر
امیر کا ہدیہ لیناحرام (سحت) ہے اور قاضی کا رشوت لینا کفر ہے۔
(امام احمد رحمة اللہ، کنزالاعمال جلد۔ 6، صفحہ 56)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام تحصیلداروں کو یہ فرمان بھیجا کہ :
اياكم والهدايا فانهافي الرشا، يات علي الناس زمان يستحل فيه السحت بالهديه

ھدیہ اور تحفے سے بچو کیونکہ یہ بھی رشوت ہے۔ ایک زمانہ آئیگا جب لوگ سحت کو ھدیہ کہہ کر حلال کرلیں گے۔
(المسئولیہ الجنائیہ فی الفقہ الاسلامی ، صفحہ 76، معین الحکام صفحہ 17، حاشیہ الرہونی جلد 7، صفحہ 317)۔

یہی وجہ ہیکہ جب روم کی شہزادی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کلثوم بنت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہا) کو تحفہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس تحفے کو قبول کرنے سے سختی سے منع کردیا۔
(احکام القرآن للجصاص جلد 4، صفحہ 87، المسئولیہ الجنائیہ فی الفقہ الاسلامی)

تفسیر قرطبی (جلد 4، صفحہ 260) نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے کہ ھدیہ لینا مالِ غنیمت سے خفیہ طور پر کچھ لینے کے مترادف ہے۔ اور مالِ غنیمت سے خفیہ اور غیر شرعی طور پر لینا بالاتفاق حرام ہے۔ لہذا والی کا ھدیہ لینا بھی حرام ہوگا۔
ھدیہ کے رشوت ہونے کے ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ایک ثبوت ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ گورنروں کے تحفے اول تو قبول نہیں فرماتے، اور اگر قبول بھی فرماتے تو انہیں بیت المال میں داخل کردیتے۔ کوئی کہتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی تو تحفے قبول فرماتے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ کہتے :
آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وقت میں وہ ھدیہ ہوتا تھا لیکن آج یہ رشوت ہے۔
( حاشیہ الرہونی جلد 7، صفحہ 312)۔

اسی حاشیہ میں ایک شاعر کے تین انتہائی حکیمانہ شعر بھی نقل کیئے گئے ہیں جنکا مفہوم ہے کہ
مجھ سے حکمت کی ایک بات سنو : اور اسکو اپنے لئے زادِ راہ بنالو اور چوں و چرا نہ کرو۔ حاکم کا مال قبول کرنا دین و دنیا کی خرابی کا باعث ہے۔ جب ھدیہ کسی قوم کے گھر آتا ہے تو امانت اسکے روشن دان سے نکل کر اڑ جاتی ہے۔

عون المعبود شرح سنن ابو داؤد (جلد 9، صفحہ 498) میں لکھا ہے کہ
ھدیہ دینے والا جب پہلے سے تحفے تحائف نہیں دیتا تھا بلکہ ابھی ابھی دینا شروع کیاہے تو لامحالہ اس کی کوئی غرض ضرور ہوگی۔ اور غرض اسکے سوا کیا ہوسکتی ہیکہ وہ کسی مقصد کیلئے اسکی آڑ لینا چاہتاہے۔ یا کسی لین دین کے ذریعہ وہ کسی چیز پر اپنا حق جتلانا چاہتاہے۔ اور یہ تمام چیزیں کھلم کھلا حرام ہیں۔

جوڑا جہیز کو تحفہ یا ھدیہ قرار دینے والوں کو شائد مندرجہ ذیل حدیث پر اعتراض ہو ۔ پہلے حدیث کا بغور مطالعہ فرمائیے۔
امام بخاری رحمة اللہ علیہ کہتے ہیں :
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن لُتبیہ عبداللہ کو صدقہ وصول کرنے کے لئے مقرّر فرمایا۔ جب وہ صدقات وصول کرکے لوٹے تو کہنے لگے ” یہ آپ لوگوں کیلئے ہے اور یہ مجھے بطور ھدیہ دیا گیا ہے “ ۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) منبر پر تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا
” ان تحصیلداروں کو کیا ہوگیاہے؟ جنہیں ہم وصولیابی کیلئے بھیجتے ہیں جب وہ آتے ہیں تو کہتے ہیں یہ آپ کا ہے اور یہ ہماراہے۔ بھلا یہ اپنے مانباپ کے گھروں میں بیٹھ رہیں اور پھر دیکھیں کہ کیا انہیں کوئی تحفے تحائف لاکر دیتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ جو چیز قیامت کے دن یہ لوگ لے کر آئیں گے اسے اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے ہونگے۔ اگر وہ اونٹ ہوگا تو بلبلاتا ہوگا۔ گائے ہوگی تو چِلّاتی ہوگی۔ اور بکری ہوگی تو میں میں کرتی ہوگی “۔
اور امام بخاری رحمة اللہ آگے فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دونوں ہاتھ بلند فرمائے یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے دیکھ لی۔ پھر فرمایا
”سنو : کیا میں نے پہنچا دیا؟ “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے تین بار یہ دوہرایا۔

استدلال :
المغنی والشرح الکبیر(جلد 11، صفحہ 437) نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہیکہ ھدیہ دینے والا تحفہ کے وسیلے سے تحفہ لینے والے کو اپنی طرف مائل کرناچاہتاہے۔ اسلئے رشوت کی طرح اس سے تحفہ کی وصولیابی بھی جائز نہیں ہوگی۔

اس حدیث اور استدلال کو سامنے رکھ کر اگر جوڑا جہیز کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دلہا اپنی حیثیت میں ایک ایسے حاکم، قاضی یاگورنر کی طرح ہے جس کی ہاں یا نہ پر ایک لڑکی کے مستقبل کا داروومدار ہے۔ جسطرح ایک حاکم یا قاضی یا تحصیلدار کو تحفہ اُسے خوش کرنے کا کام کرتا ہے اور اسکا دل ہدیہ دینے والے کی طرف راغب کرتا ہے اسیطرح دلہا یا دلہا والوں کو لڑکی سے شادی پر راضی کرنے کیلئے یہ تحفے یا ھدیے کی مقدار اڈوانس میں بتادی جاتی ہے ، ورنہ لڑکے والے کسی ایسے گھر کا رُخ کرتے ہیں جہاں انہیں بہتر جہیز مل سکتاہے۔ سب کچھ چونکہ سسٹم یا رواج کے نام پر ہوتا ہے اسلئے لڑکی والے ہر قیمت پر ھدیہ دینے پر مجبور ہیں ۔لینے والے کل قیامت میں جب آئیں گے اور دنیا میں جو جو چیزیں ان کے پاس تھیں اپنے سروں پر اٹھا کر لائیں گے تو ہر چیز سے متعلق سوال ہوگا کہ یہ کہاں سے آیا تھا۔ اور یقینا یہ پلنگ بستر، ٹی وی، فریج، کار، اسکوٹر وغیرہ ہر ہر چیز پکار پکار کر کہے گی کہ یہ رواج کے نام پر لڑکی والوں کو بلیک میل کرکے لیا گیا تھا۔ اگر وہ نہ دیتے تو یہ کسی اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ یہ تحفے یا ھدیے دراصل لینے والوں کے احساسات اور جذبات کو مسخر کرلیتے ہیں۔ اور لینے والے کو دینے والے کا تابع بنادیتے ہیں خواہ وہ باطل پر کیوں نہ ہوں۔ اسطرح جوڑا جہیز کو تحفہ کے نام پر وصول کرنے والے اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں اس طرح کہ ان کے سامنے نہ قرآن کی دلیل کام کرتی ہے نہ حدیث۔ اور اتنے اندھے اور بہرے ہوجاتے ہیں کہ اکثر لڑکے شادی کے بعد اپنے مانباپ اور بھائی بہنوں سے بھی باغی ہوجاتے ہیں۔ مانباپ کو جس وقت اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اکثر لڑکے اپنی بیویوں کے ساتھ کہیں اور جاکر رہنا پسند کرتے ہیں۔ اپنے مانباپ کو کچھ مدد بھی کرنا چاہیں تو یا تو بیوی سے چھپ کر کرتے ہیں یا پھر بیوی کی رضامندی ڈھونڈھتے ہیں۔
اور کئی وقت ایسا بھی ہوتا ہیکہ لڑکے کے والدین جوڑے جہیز کی لالچ میں رشتہ طئے کردیتے ہیں، بعد میں جب دلہا، دلہن کی صورت دیکھتاہے تو وہ اسکو نہیں بھاتی، اور وہیں سے ازدواجی تعلقات میں بگاڑ شروع ہوجاتاہے۔ معاملات خراب ہونے لگتے ہیں اسکے بعد لڑکی والوں کے پاس تین راستے رہ جاتے ہیں۔ یاتو وہ پولیس اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں، یا پہلوانوں کا سہارا لیں یا پھر تعویذ پلیتوں کا سہارا لیں۔

ہدیہ یا تحفے کے بھوکے زیادہ تر خوشحال لوگ ہوتے ہیں
غلطی کرتے ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مال و دولت کی بنیاد پر کوئی آدمی بڑا آدمی کہلاتاہے۔ آدمی صرف اپنی نیت کی بِنا پر بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹی نیتوں کے معمولی خاندانوں میں مالی مسائل کا بوجھ ہر دو طرف ہوتاہے اسلئے وہ جہیز، جوڑا ، ہدیہ یا تحفے کے نام پر لین دین کرکے اپنے خرچ بانٹ لیتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جنکے پاس اچھے گھر اور کاروبار یا اچھی نوکریاں ہیں، جائداد کے کرائے آرہے ہیں، اولاد ٹھیک ٹھاک کمارہی ہے، ایسے لوگ تو کسی شئے کے محتاج نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا کہ لین دین صرف چھوٹے لوگوں میں روا ہوتا تو خوشحال لوگ اس سے بے نیاز ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جسطرح ایک چپراسی یا کانسٹیبل کے مقابلے میں ایک بڑا آفیسر زیادہ بڑی رشوت لیتاہے، اسیطرح شادیوں میں بڑے لوگ بھی چھوٹی نیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جسطرح بڑی رشوت لینے والے اگرچیکہ پہلے ہی سے مستغنی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہوس یہ کہتی ہے کہ ”جو آتا ہے آنے دو“ ، اسی طرح صاحبِ استطاعت لوگ بھی یہی سوچتے ہیں کہ جو دستورِ زمانہ کے مطابق دیا جارہا ہے اُسے لینے میں برائی کیاہے؟
یہ لوگ ان لڑکیوں کے گھر رشتے نہیں بھیجتے جو گھرانے مالی طور پر تو کمزور ہیں لیکن دینی ، علمی، ادبی، سماجی یا کسی اور حیثیت سے شہر میں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ رشتہ بھیجتے وہاں ہیں جہاں سے انہیں پتہ ہوتا ہے کہ پانچ ہزار کے پلنگ کے بجائے پچاس ہزار کا پلنگ تحفے میں آئیگا۔ انہیں اندازہ ہوتا ہیکہ کون سا باپ دس بیس ہزار کے شادی خانے میں کھانا کھلانے کے بجائے دو لاکھ روپئے کرائے کے شادی خانے میں کھانا کھلائے گا۔ یہ لوگ اگر کسی کم مال والے لیکن عزت دار گھرانے کی لڑکی لانا بھی چاہیں تو ان کے گھر کی عورتیں رکاوٹ ڈال دیتی ہیں اور بے چارے مرد کچھ کر نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہیکہ مسلمانوں میں اب وہ مخلص علماء، ادباء، دانشور، قائدین یا مصلحین کی شدّت سے کمی ہوتی جارہی ہے جو قوم کی صحیح رہنمائی کرسکیں۔ ہر شخص یہ سوچ کر پریشان ہیکہ اگر وہ اپنا وقت قوم کے لیے دے گا تو ان کی بیٹیوں یا بہنوں کا بیاہنا مشکل ہوجائیگا۔ قوم کے پیٹ بھرے افراد یہ تو نہیں کرینگے کہ ان کی خدمات کے بدلے کم از کم ان کا مالی بوجھ کم کردیں۔




 منبع : مسلم سوشیو ریفارمز سوسائیٹی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User