Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Friday, April 8, 2011

خوش بختی کا راز علم اور عزم

خوش بختی کا راز  علم اور عزم



لاکھ لاکھ شکر اس ذات کا جس نے ہم کو یہ موقعہ دیا اور توفیق بھی کہ جیتے جی یہیں اِسی زندگی میں اُس کی پہچان کر جائیں۔ اُس سے متعار ف ہونا.. اُس سے یہیں واقف ہو کر جانا.. اُس سے معرفت پا کر دُنیا چھوڑنا .. اور اُس سے آگاہی کی حالت میں موت پانا .. اِس سے بڑی بھائیو کوئی نعمت نہیں۔
کتنے ہیں جو یوں ہی یہاں جان سے گزر جائیں گے اس حال میں کہ اُس کو پہچان تک نہ پائے ہوں۔ خدا بھائیو بدقسمتی سے بچائے۔ بہتیرے ہیں جو اس جہان سے جا کر ہی کائنات کے مالک سے پہلی بار آشنائی پائیں گے۔ ایک اتھاہ حیرانی اور پشیمانی یوں ان کا مقدر بنے گی۔ یکایک یہ اُس ذات سے آگاہی پائیں گے جس کی شرط یہ تھی کہ وہ اُس سے یہاں واقف ہو کر اُس کے ہاں پہنچیں اور عمدگی سے تیار ہو کر اور بندگی کے ساتھ سج کر اُس کے پاس آئیں۔ جس نے یہ تھوڑا سا وقت دیا ہی اسلئے تھا کہ یہاں اُس کی اچھی طرح پہچان کر لیں تو پھر یہ دُنیا چھوڑیں۔ بدبختی کی بات، جہاں اُس کو ماننا تھا وہاں یہ اُس کو مان کر دینے کے نہ ہوئے۔ اب وہاں جائیں گے تو اُس کو خوب پہچانیں گے۔ خوب مانیں گے۔ پر بدقسمتی۔ اِن کا اُس عظیم ذات کو تب جاننا اور یوں اُس وقت جا کر اُس مہربان سے متعارف ہونا ایک خوش نما واقعہ ہونے کی بجائے خوفناک اور جان لیوا حادثہ ہوگا۔ اندازہ تو کریں، ارحم الراحمین کا سامنا ہونے کا وقت ہو، ادھر آدمی کو اس ملاقات پر کوفت ہو!
مَن أحبَّ لقاءَ اللّٰہِ أحبَّ اللّٰہُ لقاءَہ، ومن کَرِہَ لقاءَ اللّٰہِ کرہ اللّٰہُ لقاءَہ (رواہ مسلم)
”جس کو اللہ سے ملنا محبوب ہو، اللہ کو اس سے ملنا محبوب ہوتا ہے۔ جس کو اللہ سے ملنا ناگوار ہو، اللہ کو اس سے ملناناگوار ہوتا ہے“!
وہ ذات جو حسن اور راحت اور لطف کی خالق ہے اور جس نے انسان میں قدرت، لذت اور حسنِ ذوق کو وجود دیا.. اس سے ملنے کا وقت تو آئے پر عین اس وقت آدمی حسرت اور افسوس اورندامت کے سمندر میں غرق ہو! زندگی کو عدم سے وجود میں لانے اور پھر اس کو رنگوں، خوشبوﺅں، خوشیوں اور مسکراہٹوں سے بھر دینے والی ذات کا سامنا کرنے سے آدمی کی جان جاتی ہو اور آدمی اس کو ایک ناگوار اور ناگہانی حادثہ جانے!
پر صاحبو ایک بڑی خلقت کے ساتھ یہ حادثہ تو روز ہوتا ہے۔ یہ بھیانک حادثہ بہتوں کا نصیب بنتا ہے۔ قبروں کے نیچے یہ جو ایک دُنیا بسی ہے خدا ہی جانے کس پر یہاں کیا گزری ہے۔ استغفراللہ۔ اس سے ہولناک حادثہ کوئی نہیں۔ بے سوچے انسان وہاں پہنچ جائے جہاں سوچنا وبال جان ہو۔ سوچنے کا وقت گزر جائے تو سوچنا ہی عذاب بن جاتا ہے۔ جو چیز کسی وقت مداوا ہو سکتی تھی اب وہی عذاب کی ایک صورت۔ حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل۔ کسی کو زبان ملے تو وہ ضرور ہم دُنیا والوں کو آکر بتائے۔ پر اس پردہ کا کھلنا خدا کو منظور ہو تو وہ مردے کو زبان ملنے پر ہی کیا موقوف؟ اس کی تو پھر ہزار صورتیں تھیں۔ یہ پردہ پڑا رہنا، جب تک کہ انسان زمین پر بستے ہیں، البتہ اس ذات کی اپنی ہی مشیئت ہے۔ یہ ’پردہ‘ ہی تو آزمائش ہے۔ مگر جہاں یہ آزمائش ہے وہاں یہ ہم کمزور گنہگار انسانوں کا سہارا بھی بنا ہے۔ اسی کی اوٹ تو ہے جو ہم ناتوانوں کی قصور واریوں کا بھرم رکھے ہوئے ہیں۔ اسی کے دم سے یہ ممکن ہو پاتا ہے کہ عبادت کے یہ کچھ تھوڑے سے کام اور بندگی کی یہ محدود سی محنت اس انسان کو کفایت کر جائے۔ یہ ’پردہ‘ اٹھ جائے اور پھر کہیں اُس کی عبادت کرنی پڑے تو وہ عبادت بس یونہی اور اتنی سی تو نہ ہوگی! اُس سے ابھی جتنا ڈر کر رہا جا سکتا ہے ’پردہ‘ اٹھ جائے تو کب یہ آدمی کو کفایت کرنے والا ہے!؟ گناہوں پر بخشش مانگنے کی یہاں گنجائش اور آسائش ہے تو وہ اسی سبب سے تو ہے۔ یہ ’غیب‘ نہ رہے تو کیسی معصیت اور کیسی مغفرت .... اور کیسی مہلت؟؟؟!!
اُدھر اُس مہربان کو دیکھو۔ وہ خوش ہی اس بات سے ہوتا ہے کہ مٹی کا یہ پتلا ’غیب‘ کی اِسی اوٹ میں اور مٹی کے اِسی فرش پر اُس کو کچھ سجدے کرسکے تو کرے۔ کوئی اُس کو پوجے تو یہاں چار دن اُس کو بن دیکھے ہی پوجے۔ اُس کو پانا چاہے تو اِس نفس کو ہی پاکیزگی دلائے، کہ دل کی آنکھ سے دیکھ سکے۔ نفس پہ میل چڑھنا اس آنکھ کی دھند ہے۔ یہ دھل جائے تو دل کی آنکھ خوب دیکھتی ہے۔ یہاں اُس کو دیکھا جا سکتا ہے تو اِسی دل کی آنکھ سے اور عقل کی بینائی سے۔ یہ اُس ذات کی اپنی ہی پسند ہے کہ جب تک ’دیکھنے‘ کا وقت نہیں آجاتا آدمی کوئی چار دن اُس کو اِسی طرح دیکھے۔ صحیفوں میں ہی اُس کا ذکر پا کر اپنی نگاہوں کو شاداب کرے۔ نبیوں سے ہی اُس کی حقیقت دریافت کرے اور ذوق یقین سے ہی اُس تک پہنچے۔ عقل سے ہی اُس تک رسائی پائے۔ کائنات سے ہی اُس کی عظمت کے دلائل، اُس کی وحدانیت کے شواہد اور اُس کے لائق بندگی ہونے کے ثبوت اکٹھے کرے۔ بن دیکھے ہی اُس سے ڈرے اور مقدور بھر اُس کا فرمانبردار رہے۔ جہاں کوتاہی ہو وہاں بخشش کا سوال کر لیا کرے!!!
البتہ یہ کہ آدمی اُس کو دیکھے تو تب جا کر ڈرے.... اُس کو سامنے ہی پائے تو تب پوجے .... یہ مادیت ہے۔ ایسا سجدہ کرانا دوستو اُس شان بے نیازی کے مالک کو آپ ہی اپنے لئے پسند نہیں۔ کوئی اِس انتظار میں بیٹھا ہے تو اپنی ذات کیلئے بدبختی سمیٹتا ہے۔ اِس سے بڑا خطرہ کبھی کسی نے مول نہ لیا ہوگا!
قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ (السجدة : 29)
”کہو! معاملہ کھلنے کے دن، کفر کرنے والوں کو اُن کا ایمان لانا فائدہ نہ دے گا، اور نہ اُن کو کوئی مزید وقت دیا جائے گا“!
وہ اپنے لئے بہترین چیز پسند کرتا ہے۔ اس کو یہی پسند ہے کہ پردۂ غیب میں ہی وہ کسی کا مطلوب ہو تو ہو۔ بن دیکھے یہ وہ کسی کا مقصود ہو تو ہو۔ یہاں ایک امیر کبیر صاحبِ سطوت کو کب جھک جھک کر سلام نہیں ہوتے؟ ایک صاحبِ فضل پاس آئے کو کون نہ پوچھے گا!؟ پھر خالق اور مخلوق میں فرق ہی کیا ہوا؟! چڑھتے سورج کو تو یہاں سب سلام کرتے ہیں۔ یہی تقاضا خدا سے ہو، اس سے بڑھ کر دوستو جہالت کیا ہوگی؟!
سو کوئی بن دیکھے ہی اُس کی طلب کر سکے تو کرے۔ وہ اپنی پسند کا آپ مالک ہے۔ وہ تو دن سے بھی بڑھ کر رات کے سجدوں کو پذیرائی بخشتا ہے۔ اندھیری رات میں اور تنہائی کی خاموشی میں اور دل کی گہرائی سے انسان اُس کو آواز دے اور آہستگی سے پکارے تو وہ خوب سنتا ہے۔ مخلوق سے چھپ کر اُس کی تعظیم میں کوئی ایک آنسو گرے تو اُس کی نگاہ میں انسان کے ہاں پایا جانے والا یہ سب سے قیمتی موتی ہے۔ چشم کا اس کی محبت میں تر ہو جانا اس کو دنیا ومافیہا سے عزیز تر ہے۔ خوف اور امید کے بیچ عاجزی سے اٹھے ہوئے ہاتھ اُس کے ہاں سب سے بڑھ کر قدر پاتے ہیں۔ بن دیکھے اس کی چاہت ہو تو اس کا بدلہ وہ خلد کی نعمتوں سے تو جو دے گا سو دے گا .... کہ جانتا ہے انسان آخر انسان ہے اور انسان کی ضروریات فرشتوں کی ضروریات سے سدا مختلف رہیں گی خواہ وہ عالم دنیا ہو یا عالم آخرت .... سو یہ خلد کو نعمت تو اپنی جگہ مگر ’غیب‘ میں پوجا جانے کا صلہ وہ مہربان ’خود‘ ہی بن جاتا ہے۔ اس سے بڑا دوستو کیا انعام ہو سکتا ہے؟ اس مخلوق کی یہ قسمت! اس لطف کی دوستو کوئی حد نہیں۔ یہ بڑھتی ہی رہنے والی لذت ہے۔ یہ وہ لذت ہے جو قرآن میں ”مزید“ کے عنوان سے ذکر ہوئی ہے:
مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ وَجَاء بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ. ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِِ. لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ. (ق: 33 ۔ 35)
”وہ جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دلِ گرویدہ لئے ہوئے آیا ہے .. داخل ہو جاﺅ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔ وہ دن حیات ابدی کا دن ہوگا۔ وہاں ان کیلئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس ’مزید‘ بھی ہے“
٭٭٭٭٭



دوستو خدا کا لاکھ لاکھ شکر جس نے ہمیں یہ موقعہ دیا اور توفیق بھی کہ جیتے جی .... یہیں اسی زندگی میں اُس کا تعارف کر جائیں اور یہیں پر اُس سے آشنائی پائیں۔
اُس کو جاننے کا صاحبو بس یہی موقعہ ہے۔ موقعہ دوبارہ آنے کا تو خیر سوال ہی نہیں۔ بس یہ دیکھو موقعہ کب تلک رہتا ہے۔ اُس ذات سے آشنائی کا یہی وقت ہے، یا یوں کہیے اُس سے آگاہ ہونے کے وقت تو اور بہت آئیں گے مگر اُس سے آگاہ ہونے کا فائدہ بس اب ہے۔ دنیا کے کام دھندوں اور بکھیڑوں نبیڑوں کا بھی اگر یہی وقت ہے تو اُس کی جانب رخ کرنے کا بھی بس یہی موقعہ ہے! بات یہ ہے کہ کچھ بھی ’کرنے‘ کا یہی وقت ہے .... یہی تھوڑا سا وقت .... بلکہ کیا معلوم تھوڑا بھی نہ ہو۔ پھر تو راحت اور آرام کا وقت ہے اور یا پھر سدا پچھتانے کا۔ کیا اس ’سدا‘ کا مطلب ہم نے کبھی سوچا ہے؟ بھائیو یہ بہت ہی خوفناک لفظ ہے۔ ’ابد‘ یعنی ہمیشگی .... یہ بہت ہی امید افزا لفظ ہے اور بہت ہولناک بھی!!!
ہمیشہ کا آرام، یا ہمیشہ کا پچھتاوا .... کچھ کرنے کا وقت البتہ ابھی ہے!!! ویسے ہر انسان کچھ نہ کچھ واقعتا کر بھی رہا ہے۔ یہاں کوئی بھی فارغ نہیں، قطع نظر اس سے کہ کون کیا کر رہا ہے۔ کوئی یہاں موتی اور پھول چنتا ہے۔ کوئی خاک چھانتا ہے۔ البتہ ’فارغ‘ یہاں کوئی نہیں۔ ہر کسی کو اپنا کام نمٹانا ہے، چاہے وہ کوئی فضول کام ہے یا کام کا کام۔ وقت ہے جو جا رہا ہے۔ اجل ہے جو آرہی ہے۔ بس حسرتیں رہیں گی۔ جو یہاں نمٹ نہ سکا انسان کا بس چلے تو وہ ساتھ اٹھا لے مگر ہر چیز کی کوئی خاص جگہ ہے۔ کسب کیلئے یہی دنیا ہے۔ نیک بختی یا بدبختی، کمائی کا یہی جہان ہے۔ ’کمانے‘ کا وقت محدود اور ’کھانے‘ کا وقت لامحدود! اگلا جہان واقعی بڑا عجیب ہے!
پس ہر شخص ہی یہاں کمائی کر رہا ہے۔ ’کمائی‘ کا تعین اصل بات ہے اور بہت کم لوگ درست طور پر یہ تعین کر پاتے ہیں، ورنہ ’کمائی‘ ہر شخص کرتا ہے۔ ’بے روزگار‘ کوئی نہیں۔ اِس دنیا کے حساب سے کوئی بے روزگار ہو تو ہو اگلے جہان کے حساب سے یہاں کوئی بے روزگار نہیں۔ ہر شحص یہاں برسر روزگار ہے! کمال یہ کہ اپنے روزگار کا تعین بھی وہ خود کرتا ہے۔ ہر آدمی ہی اپنی پسند اور ذوق اور معیار کا بہترین مظاہرہ کرنے کا یہاں خوب موقعہ پاتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ ہر آدمی ہی اپنی پسند اور معیار اور ذوق کا مظاہرہ کرنے کے بعد یہاں سے جاتا ہے!!!
کوئی جب تک یہاں خدا کو اپنا آپ اور اپنی حیثیت دکھا نہیں لیتا، تب تک کہاں وہ دُنیا چھوڑتا ہے؟! اور خدا کو انسان کی حیثیت دیکھنے میں وقت ہی کب لگتا ہے؟! یہ ’موقعہ‘ تو، جو اِس کو اپنا آپ دکھانے کیلئے ملا، انسان پر محض اُس کی مہربانی ہے!
یہاں ہر آدمی ہی اپنا مدعا سنانے کی پوری مہلت پاتا ہے۔ ہر آدمی ہی خدا کو بتانے کیلئے ’کچھ‘ وقت پاتا ہے کہ وہ چاہتا ہے تو کیا چاہتا ہے اور اگر وہ سرگرم ہو گا تو کس بات کیلئے اور سعی کرے گا تو کس چیز کی۔ یہ اُس کا عدل ہے: ہر آدمی عملاً خدا کو اپنی پسند بتائے۔ ہر آدمی زبانِ حال سے بولے اور کچھ برس یا کچھ عشرے مسلسل خدا کو اپنی پسند بتائے اور اپنا فیصلہ سنائے۔ اپنے اپنے ظرف کے بقدر ہر آدمی یہاں خداکو بتلاتا ہے کہ وہ کس قابل ہے۔ کس سعی کیلئے پیدا ہوا ہے اور وہ عدل اور رحمت کا مالک اِسے دے تو کیا دے!!!
سو بھائیو ہم یہاں آئے ہیں کہ اپنے ذوق کا اعلیٰ ترین مظاہرہ کریں اور خدا سے وہ ہمیشگی کا جہان مانگیں جہاں اُس کا قرب اور اُس کی مجاورت ملتی ہو۔اور اپنی اِس طلب میں سچا ہونے کا مقدور بھر ثبوت دیں۔ وہ ملے تو سب کچھ کا ملنا آپ سے آپ یقینی ہے۔ اُس کو پانے کا یہی وقت ہے۔ بلکہ کچھ بھی پانے کا وقت اب ہے، کہ کچھ بھی کرنے کا موقع اب ہے۔ اپنے من کی مراد منہ پر لانے کا وقت اب ہے، جو چاہو مانگ لو۔ اپنی ترجیحات بتانے کا وقت یہی ہے، جو چاہو چن لو۔ اپنا ٹھکانہ بنانے کا یہی موقعہ ہے، جو چاہو اختیار کر لو۔ قسمت بنانے کو یہی جہاں پیدا ہوا، سنوار لو یا پھر بگاڑ لو۔ قابلیت کا کوئی جوہر ہے تو اس کو ابھی سامنے لاﺅ۔ ہمیشگی کے جہان میں جس گھر پر ہمت کرکے یہیں سے ہاتھ رکھ دو وہ تمہارا! پر یہ ہاتھ رکھنے کا وقت اب ہے پھر نہیں! بس یہ صلاحیت پا لو کہ اس جہان میں بیٹھو تو اُس جہان کے گھر پہ نظر ہو۔ اُس جہان کی طلب کرنے کو ہی تو یہ مختصر سا جہان پیدا ہوا! ابد کی تمنا زبان پر لانے کیلئے ہی تو پلک جھپک برابر یہ وقت ملا! وہ ذات ہمارے تصور سے بھی بڑھ کر فیاض اور مہربان ہے، اُس کی شرط بس اتنی ہے کہ آدمی ہمہ تن گوش ہو اور اپنے رخ کی ساری توجہ اُسی کی جانب پھیر دے۔ اِس کے بعد پھر اُس کو جو سناﺅ وہ سنتا ہے اور جو مانگو وہ دیتا ہے:
أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُواْ لِي وَلْيُؤْمِنُواْ بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ  (البقرة: 186)
”میں جواب دیتا ہوں پکارنے والے کا، جب بھی وہ مجھے پکارے! پس چاہیے وہ میری سنیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، تاکہ بھلائی پائیں!!!“
دوستو یہاں چار دن انسان ___ آزادانہ ___ اپنی طلب بتانے اور اپنا مدعا سنانے ہی تو آتا ہے۔ یہ تو اِس کی سمجھ کا امتحان ہے۔ یہ اِس کے ذوق کا اختیار ہے۔ یہ اِس کی عقل کی آزمائش ہے۔ اِس کا ظرف دیکھنے کا بس یہی موقعہ ہے۔ اِس کے عزم کا بس یہیں پتہ چلنا ہے۔ یہی لمحہ تو ہے کہ آدمی دکھا دے وہ کس قابل ہے! یہ کل چار روز ہیں، تو اس کی رحمت ہے کہ امتحان دراز نہیں، مگر اپنے مطلوب اور مقصود کا تعین کرنے کا یہی وقت ہے۔ سوال کرنے کا یہی موقعہ ہے اور سوال میں سنجیدگی لانے کا بھی یہی وقت ہے۔ زہے نصیب کہ آدمی کا مطلوب وہ ذات ہو جو ملے تو سب کچھ ملتا ہے!
صاحبو! کوئی انسان بھی اپنے لئے بدبختی نہیں چاہتا، اِس میں کیا شک ہے، مگر بھول میں رہنا جیسے آدمی کی مجبوری ہو! اِس کا ستیاناس ہو، یوں سمجھو یہ بھول ہی بدبختی ہے۔ یہی کم بختی کا دوسرا نام ہے۔ یہ نہ ہو تو ہمیشہ ہمیشہ کی بدبختی سے بچنے کو کون ہے جو ہاتھ پیر نہ مارے؟ خوشی خوشی بربادی کی جانب آدمی اس بھول میں ہی تو بڑھتا ہے! غفلت سے خطرناک کوئی چیز نہیں۔ کچھ کرنا ہے تو ابھی کرنا ہے۔ اس ’ابھی‘ سے آدمی دستبردار ہوا نہیں اور اپنے کام سے گیا نہیں!
بھائیو! یہ لمحہ جو ہمیں ’ابھی‘ حاصل ہے اس کی قیمت کا اندازہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ ایک لمحہ آپ کی لاکھوں کروڑوں سالہ زندگی میں اتنا اہم کبھی نہ ہو گا جتنا کہ آج، اب، اِس وقت۔ آپ کو عین اِس لمحے وہ سب کچھ حاصل ہے جس کی ایک مردہ قیامت تک بلکہ قیامت کے بھی بعد ہمیشہ ہمیشہ تلک حسرت کرے۔ صاحبو! کیسی بڑی دولت اپنے پاس ہے جس کو اکثر لوگ روز خاک میں رولتے ہیں۔ ہاتھ پیر تو بھائیو ہر کسی کو مارنے ہیں۔ کوئی آج ہاتھ پیر مارتا ہے کوئی کل مارے گا! قبروں سے کون اٹھنے دے گا؟ زور لگانے کا وقت اب ہے جب ہاتھ پیر چلتے ہیں اور سوچ لینے کا فائدہ ہے۔ دوستو اپنا پورا زور ابھی جس بات پر لگنا ہے ___ جی ہاں ’پورا زور‘ اور ’ابھی‘ ___ وہ یہ کہ یہ ’بھول‘ ہی اپنی قبر نہ بن جائے۔ زندہ ہیں تو پھر جاگتے بھی رہیے!
مثل الذی یذکر ربه والذی لا یذکر ربه مثل الحیی والمیت
(البخاری)
”اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا، ایسی ہے جیسے زندہ اور مردہ!!!“
بھول ہی بدبختی کا اصل سرا ہے۔ بس یہ نگاہ میں رہے۔ یہ ہرگز روپوش نہ ہونے پائے۔ اِس سے روز خدا کی پناہ مانگو۔ مروائے گی تو بس یہی مروائے گی۔ ہوش برقرار رہے تو انسان ضرور کچھ کر لیتا ہے۔ ہوش گیا تو سب کچھ گیا۔ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔ خطرے کی جڑ یہی ہے۔ بھول ہی اصل بربادی ہے۔ انسان کبھی اپنا بدخواہ نہیں ہوا، بس بھول سے مارا جاتا ہے۔ اصل آزمائش بس یہی ہے۔ دیکھتے جاگتے ہوئے بھلا کون مار کھاتا ہے۔ اتنا کم عقل ہرگز کوئی نہیں۔ عقلمندی تو اصل میں بس ہوش مندی ہے۔ سمجھو امتحان یہی ہے۔ ہوش میں ہر کوئی اپنا بھلا کرتا ہے۔ یہاں جو سویا بس وہ مرا۔ آنکھیں کھلی رکھنے والا خدا کے فضل سے ضرور راہ پائے گا۔
خیر کی طلب خدا نے ہر نفس میں رکھی ہے۔ البتہ خیر کو دیکھنا اور دیکھتے رہنا ضرورایک معنی رکھتا ہے۔ خیر کو ہر دم نگاہ میں رکھنا اور اس کیلئے باقاعدہ جفاکش رہنا یہ البتہ ایک محنت طلب کام ہے۔ اصل مقابلہ یہیں پر ہونا ہے۔ سب زور اسی پر لگنا ہے یہ بڑے ہی جان جوکھوں کا کام ہے۔ شیطان کا جادو آنکھوں پر ہی چلتا ہے۔ اس کی دوڑ بس یہیں تک ہے کہ وہ بندے کو ہوش میں نہ رہنے دے۔ یہی اس کا میدان ہے۔ وہ ’نشے‘ کے سب نسخے پاس رکھتا ہے۔ زن، زر، زمین، کھیل تماشہ، شور شرابہ، قبیلہ برادری، ضد، حسد، غضب، فخر، بڑائی، اقتدار .... آدمی کسی بھی ’قبر‘ میں دفن ہو سکتا ہے۔ کسی بھی گڑھے میں روپوش ہو سکتا ہے۔ ہاتھ پیر ایک جیتا اور جاگتا انسان مارتا ہے۔ آدمی بے حس وحرکت کچھ دیر پڑا رہے تو ’قبر‘ پوری جانے لگتی ہے۔ یہی زندہ درگور ہونا ہے۔ زندہ رہنے کیلئے بھائیو جاگنا بہت ضروری ہے۔ بے ہوشی موت ہی کی بہن ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونََ. وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونََ. وَإِذَا لَمْ تَأْتِهِم بِآيَةٍ قَالُواْ لَوْلاَ اجْتَبَيْتَهَا قُلْ إِنَّمَا أَتَّبِعُ مَا يِوحَى إِلَيَّ مِن رَّبِّي هَـذَا بَصَآئِرُ مِن رَّبِّكُمْ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونََ. وَإِذَا قُرِىءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُواْ لَهُ وَأَنصِتُواْ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونََ. وَاذْكُر رَّبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعاً وَخِيفَةً وَدُونَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَالآصَالِ وَلاَ تَكُن مِّنَ الْغَافِلِينََ. إِنَّ الَّذِينَ عِندَ رَبِّكَ لاَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ.  (ال أعراف: 201 ۔ 206)
”جو لوگ تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں، جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو وہ حالتِ ذکر میں آجاتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں۔
”رہے ان کے بھائی بند تو وہ (شیطان) ان کو گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ (ان کو بہکانے میں) کوئی بھی کمی نہیں چھوڑتے۔
”اور جب تم اُن کے پاس (کچھ دنوں تک) کوئی آیت نہیں لاتے تو کہتے ہیں کہ تم نے (اپنی طرف سے) کیوں نہیں بنا لی؟ کہہ دو کہ میں تو اُسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جو میرے رب کی طرف سے میرے پاس آتی ہے۔ یہ (قرآن) تمہارے رب کی جانب سے دانش و بصیرت ہے اور ہدایت اور رحمت ہے ان لوگوں کیلئے جو (اس پر) ایمان رکھیں۔
”اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کی طرف کان لگا دیا کرو اور خاموش رہا کرو؛ بہت امید ہے کہ تم پر رحم کردیا جائے۔
”اپنے رب کی یاد صبح شام کیا کر دل ہی دل میں عاجزی کے ساتھ اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ اور ان لوگوں میں نہ ہو جا جو نرے غافل ہیں۔
”یقینا جو ہستیاں تیرے رب کے پاس ہیں وہ اُس کی عبادت سے تکبر نہیں کرتیں۔ بس اُس کی پاکی بیان کئے جاتی ہیں اور اُس کے آگے ہی جھکی رہتی ہیں“!
٭٭٭٭٭

پس دوستو خدا کی جانب بڑھنے کیلئے دو چیزوں کی ہر وقت ضرورت ہے: علم اور عزم۔ اُس ذات کو جاننا جو سعادت اور خوش بختی کا منبع ہے، علم کہلاتا ہے اور پھر اُس سے آشنائی پا کر اُس کی طلب کرنا اور اُس تک اُس کی مقرر کردہ راہ سے پہنچنے کا قصد کرنا، عزم کہلاتا ہے۔ اِن دونوں باتوں کو ہر دم تازہ کرنے اور ہر وقت پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ یہی ایک سالک کا، یعنی خدا کی جانب بڑھنے والے کا، اصل زاد اور اصل سرمایہ ہے۔ منزلت پانا اِسی کے دم سے ہے۔ عمل کا حسن اِسی سے آتا ہے۔ اجر کی مضاعفت اِسی کے بقدر ہوتی ہے۔ دانائی کا سب راز بس اِسی میں پوشیدہ ہے .... خدا کو جاننا اور خدا کو چاہنا، ہوش مندی بس یہی ہے۔
’ذکر‘ جس چیز کا نام ہے وہ اسی حالت کی بحالی ہے۔ ذکر ’وظائف‘ کا نام نہیں۔ دانے گننے سے ’تسبیح‘ کا کیا تعلق؟ اصل بات یہ ہے کہ آدمی ___ خدا کے کلام سے اور اس کے نبی کی زبان سے___ خدا کی صفات کا علم پائے۔ خدا سے آگاہ ہو۔ اُس کے مرتبہ اور مقام سے آشنائی پائے۔ بندگی پر اُس کا حق جانے۔ غیروں سے اِس حق کی نفی کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اُس ذات کے لائق جو بندگی ہے وہ کس حقیقت کا نام ہے۔ خدا کے مرتبہ اور مقام کو نگاہ میں رکھنا ہی علم ہے۔ پھر اُس کی چاہت کرنا، اُس کی چاہت کے تقاضے پورے کرنے پر دلجمعی پانا اور اُس کو خوش کرنے کی تدبیر کرنا اور اُس کی خفگی سے بچنے کیلئے پریشان رہنا .... یہ ہمت اور عزم کی بات ہے۔ ’علم‘ اور ’عزم‘ عبادت کی جان ہے۔ ’خدا کو جاننے‘ اور ’خدا کو چاہنے‘ کے معاملے میں ہر لمحہ انسان پر نئی حالت آتی ہے۔ یہ جب کمزور پڑے تو وہ بھول اور غفلت کا لمحہ ہوتا ہے۔ اس سے اصل حالت میں لوٹ آنا ’ذکر‘ کہلاتا ہے۔
إِنَّ الَّذِينَ اتَّقَواْ إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِّنَ الشَّيْطَانِ تَذَكَّرُواْ فَإِذَا هُم مُّبْصِرُونَ.َ وَإِخْوَانُهُمْ يَمُدُّونَهُمْ فِي الْغَيِّ ثُمَّ لاَ يُقْصِرُونَ. (الأعراف: 201 ۔ 202)
”جو لوگ تقویٰ کی راہ اختیار کرتے ہیں، جب ان کو شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ پیدا ہوتا ہے تو وہ حالتِ ذکر میں آجاتے ہیں اور (دل کی آنکھیں کھول کر) دیکھنے لگتے ہیں.. رہے ان کے بھائی بند تو وہ (شیطان) ان کو گمراہی میں کھینچے چلے جاتے ہیں۔ پھر وہ (ان کو بہکانے میں) کوئی بھی کمی نہیں چھوڑتے“
پس ’ذکر‘ ایک حقیقت کو بار بار دہرانا ہے۔ ’ذکر‘ ایک بہترین حالت کو ممکنہ حد تک بحال رکھنا ہے۔ مگر یہ ’بہترین حالت‘ جس چیز کا نام ہے وہ دراصل ’علم‘ اور ’عزم‘ سے ہی عبارت ہے۔ جو شخص پہلے اِس حقیقت سے واقف نہیں ہوتا، جو ”خدا کی جانب بڑھنے“ کا آغاز خدا کو ”جاننے“ سے نہیں کرتا اور توحیدِ بندگی کی صورت میں خدا کا باقاعدہ ’قصد کرنا‘ نہیں سیکھتا .... ’ذکر‘ میں دانے گننے یا ضربیں لگانے کی نوبت اسی پر آتی ہے۔ ذکر تو بس ’اصل حالت‘ کی بحالی ہے اور اصل حقیقت کا اعادہ۔ اس ’اصل حقیقت‘ اور ’اصل حالت‘ پر جس شخص کی ابھی محنت نہیں ہوئی وہ اعادہ کس بات کا کرے اور بحالی کس چیز کی!؟ ’ذکر‘ اس کیلئے بڑی حد تک ایک بے معنی لفظ ہے! ’اضافی تکلفات‘ اور رونق پیدا کرنے کے ’مصنوعی انتظامات‘ ایک بے معنیٰ کو ہی بامعنیٰ بنانے کیلئے عمل میں لائے جاتے ہیں!
بہتر یہ ہے کہ آدمی اپنے سفر کا آغاز ’علم‘ اور ’عزم‘ سے کرے، یعنی:
- خدا کو یوں جانے جیسا کہ انبیاءنے اُس کا تعارف کرایا۔
- خدا کی یوں طلب کرے جس طرح انبیاءنے اُس کی طلب کرنا انسانوںکو سکھایا۔
اسی حالت کو برقرار رکھنا پھر ’ذکر‘ کہلائے گا۔

٭٭٭٭

بھائیو اور بہنو!
کامیاب شخص وہی ہے جو معاملے کو ہاتھ ڈالنے سے پہلے معاملے کی سمجھ پالے۔ جو کام کو ’نمٹانے‘ سے پہلے اس کا سرا پالے۔ خدا تک پہنچنے کا راز بھائیو ’کثرتِ عمل‘ نہیں بلکہ حسنِ عمل ہے:
تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير.ٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُور.  (الملک: 1۔ 2)
”نہایت بزرگ وبرتر ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے، اور ہر چیز پر قدرت رکھنا اُس کی صفت۔ جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے کہ کون ہے جو تم میں عمدہ تر عمل کرنے والا ہے“۔
٭٭٭٭٭


پس ہر نعمت سے بڑی نعمت بھائیو ہو سکتی ہے تو وہ یہی کہ آدمی خدا سے اسی دُنیا میں واقف ہو کر جائے۔ بن دیکھے کوئی دن اُس کو یہیں پوجے اور یہیں چاہے۔ اُس کا عذاب دیکھنے سے پہلے ہی اُس سے ڈرے۔ ایسی پوجا جو ’غیب‘ میں ہی آدمی کرلے، ایسی چاہت اور ایسا خوف جو آدمی اس ’غیب کے فاصلے‘ سے ہی کر سکے اور ایسی تعظیم جو بن دیکھے ہی آدمی اس کیلئے خاص کر دے .... دیکھی جانے والی ہر چیز پر اس ان دیکھی حقیقت کو ہی ترجیح دے دے اور اپنا تمام تر رخ یہیں اِسی دنیا میں ہی اُس کی جانب پھیر دے .... اس کیفیت سے کیا گیا عمل تھوڑا بھی بہت ہو جاتا ہے۔ زیادہ فاصلہ بہت تھوڑی محنت سے سمٹ جاتا ہے۔ آدمی کا بس محدود ہے اور وہ ذات اپنی مخلوق کے اِس ضعف اور اِس محدودیت کو بہرحال جانتی ہے۔
اُس کو ’عبادت‘ کے ڈھیر نہیں لگوانے۔ مگر اِس دل میں جگہ پانا وہ اپنا حق جانتا ہے۔ یہ دل اُس کو پیش کر دیا جائے تو بس وہ خوش ہے۔ کوئی یہ پیش کرنے پر تیار نہیں تو باقی سب ’رشوت‘ ہے۔ رشوت سفارش کا اُس کے ہاں کیا کام!؟ اُس کا چہرہ پانا ممکن ہے تو بس اسی طرح کہ آدمی اِس کا مول دینے پر کم از کم ابتدائی طور پر تیار ہو، پھر کسی کی آزمائش سخت ہو یا کسی کی نرم، یہ فیصلہ کرنا اُس کا کام ہے۔ بخشش اور استغفار کی راہ بھی کھلی ہے۔ مگر ابتداءً یہی ضروری ہے۔ اُس کا رخ پانے کیلئے اپنا تمام تر رخ اُس کی جانب پھیر دینا ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ انسان کے پاس کسی کو پیش کرنے کیلئے بہترین چیز اِس کا دل ہی ہے۔ اس سے کم پر اُس کو راضی کرنے کا خیال بس خود فریبی ہے۔ یہ دل کی دُنیا اُس کو سونپ دی جائے تو تب ہی قصور معاف ہوتے ہیں۔ آگے بڑھنے کی توفیق ملتی ہے۔ غلطیوں کی اصلاح ہوتی ہے۔ اور عزیمت کی راہ کھلتی ہے۔
مَنْ خَشِيَ الرَّحْمَن بِالْغَيْبِ وَجَاء بِقَلْبٍ مُّنِيب. ٍٍ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ ذَلِكَ يَوْمُ الْخُلُودِ. لَهُم مَّا يَشَاؤُونَ فِيهَا وَلَدَيْنَا مَزِيدٌ.  (ق: 33 ۔ 35)
”وہ جو بے دیکھے رحمن سے ڈرتا تھا، اور جو دلِ گرویدہ لئے ہوئے آیا ہے .... داخل ہو جاﺅ جنت میں سلامتی کے ساتھ۔ وہ دن حیات ابدی کا دن ہوگا۔ وہاں ان کیلئے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ چاہیں گے اور ہمارے پاس ’مزید‘ بھی ہے“۔
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ.َ  يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ. َ ِإِلَّا مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ.  (الشعراء: 87۔ 89)
”اور مجھے اس دن رسوا نہ کریو جب سب لوگ زندہ کر کے اٹھائے جائیں گے۔ جس دن نہ کوئی مال فائدہ دے گا نہ اولاد۔ بجز اس کے کہ کوئی شحص قلب سلیم لئے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو“۔
ولیِ نعمت کی جانب سے بندۂ مخلوق سے یہ مطالبہ کہ یہ، دل کی دُنیا اُسی کی فرماں روائی کیلئے بخوشی پیش کر دے اور یہ کہ انسان اپنی اس محدود سی قلمرو میں سب سے بڑے مرتبے پر ___ اپنے اختیار سے ___ خالق کو ہی فائز کرے، کیا کوئی غیر حقیقی یا غیر واقعی مطالبہ ہے؟ یہ تو ایک ایسا مطالبہ ہے جو ایک غریب سے بھی کیا جا سکتا ہے اور امیر سے بھی۔ مرد سے بھی اور عورت سے بھی۔ راعی سے بھی اور رعایا سے بھی۔ ہر ذی ہوش سے یہ چیز طلب کی جا سکتی ہے۔ کوئی کچھ پاس رکھے نہ رکھے، دل ضرور پاس رکھتا ہے۔ خدا بھی اس سے یہی مانگتا ہے۔ آدمی چاہے تو دینے سے انکار کردے۔ حتی کہ صاف جواب دے دے۔ اور ویسے کتنے ہیں جو اپنی جان کے مالک کو روز ہی ’صاف جواب‘ دیتے ہیں۔ مگر اُس کی عظمت اور اس کا حلم دیکھئے۔ وہ چیز طلب کرتا ہے اور آزادی دیتا ہے کہ انسان چاہے تو اِس کو اُس ارفع واعلیٰ ذات کیلئے پیش کر دے اور چاہے تو کسی اور طلبگار کے سپرد کر آئے! دل کی یہ دُنیا وہ کسی عورت کو دے آئے، وہ کسی قبیلے برادری یا ملک کے نام کر دے یا روپے پیسے کی تحویل میں دے دے .... چار دن یہ اِس کا پورا مالک ہے یہ جو چاہے اس کا تصرف کرے۔ چاہے تو گوشت ماس ہڈیوں اور انتڑیوں کی بنی ہوئی کسی عاجز مخلوق کو دے آئے، جس کے ’حسن‘ کے آگے یا جس کے ’اقتدار‘ کے آگے اِس کو تاب لے آنا دوبھر ہے! چاہے تو مٹی اور گارے کے نام کر دے اور چاہے تو سونے چاندی اور لوہے پیتل ایسی ’کارآمد‘ دھاتوں کی ہی اس پر ملکیت تسلیم کر لے .... خدا اِس پر زبردستی نہ کرے گا کہ یہ چیز بس یہ اُسی کو دے۔ خدا کو پسند گو یہی ہے کہ یہ چیز بس یہ اُسی کو دے۔ چیز زبردستی لی تو کیا لی؟! یہ تو بن دیکھے اور خوشی خوشی ہی پیش کر دی جانے والی چیز ہے! تھوڑی سی عبادت پر خلد کی نعمت اور خداوند کی قربت یارو آخر کسی چیز کا تو ”مول‘ ہونا چاہیے!
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ. ٍ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِندَ مَلِيكٍ مُّقْتَدِرٍ.  (القمر: 54۔ 55)
”بچ بچ کر رہنے والے تو پھر باغوں اور نہروں ہی میں ہوں گے۔ سچی عزت کی جگہ۔ بڑے ذی اقتدار بادشاہ کے قریب“
٭٭٭٭٭

انسان کا خدا کو اپنا دل سونپنا یا خدا کو دل میں بسانا کیا مفہوم رکھتا ہے؟
صاحبو یہ شاعری کی محفل نہیں۔ ہماری بحث حقائق سے ہے اور وہ بھی جہان کے برگزیدہ ترین حقائق سے۔ خدا کا دل میں آنا دراصل خدا کی صفات سے آگاہی پانا ہے۔ انسان کا خدا کو اپنا دل سونپ دینا خدا کی بندگی اختیار کرنا ہے۔ تنہا خدا کو ہی ___ عبادت اور پرستش اور فرمانبرداری کی راہ سے ___ اپنا مقصود بنانا ہے۔ خدا کی چاہت اور خدا کا خوف دل میں بسانا ہے۔ خدا کا مرتبہ اور مقام متعین کرنا ہے اور خدا کی خوشنودی کو اپنا ہمہ وقتی مسئلہ بنانا ہے۔
بات یہ ہے کہ ’خدا‘ اور بھی بہت سے ادیان اور بہت سے مذاہب کا ایک بڑا موضوع ہے۔ خدا کو دل میں بسانے کی بات اور بھی بہت سے مذاہب کرتے ہیں ۔ مگر وہ ’خدا‘ کے نام سے جس چیز کو دل میں بساتے ہیں وہ بڑی حد تک ان کے تخیلات کا ایک مجموعہ ہوتا ہے۔ مگر خدا کسی کا تخیل نہیں۔ وہ ایک حقیقت ہے۔ بلکہ سب سے بڑی حقیقت ہے۔ یہ ایک متعین حقیقت ہے۔ ازل سے ہے۔ ابد تک ہے۔ کسی کا تخیل اس کو تبدیل کیسے کر سکتا ہے؟ کسی کا تخیل اس کا تعین ہی کیونکر کر سکتا ہے؟ وہ حقیقت اپنی جگہ ہے۔ کسی کا تخیل اس کی حقیقت جاننے سے کفایت ہی کیونکر کر سکتا ہے؟ تخیل کا حضرات وہاں کیا کام؟ اندازوں کا وہاں کیا گزر؟ اندازوں سے اس کوپایا جا سکتا اور محض جذبات یا نیک نیتی سے اُس تک پہنچا جا سکتا تو پھر لوگوں کے اندازے اُس کی بابت مختلف اور جدا کیوں ہوتے؟ وہ برگزیدہ حقیقت اگر تخیلات کے اندر سما سکتی تو مختلف ذہنوں میں مختلف بلکہ متعارض روپ کیوں دھارتی؟
یہ محض اِن کے اوہام ہیں۔ پراگندہ خیالات ہیں۔ فلسفے ہوں یا مذہب۔ جدید ہوں یا قدیم۔ خیالات یا فلسفے یا ڈھکوسلے ایک متعین حقیقت کو جاننے سے کفایت کیونکرکر سکتے ہیں؟ اور پھر یہ ہر آدمی اپنا الگ خیال، اپنا ایک نیا فلسفہ اور ایک علیحدہ ڈھکوسلہ کیوں چھوڑتا ہے؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ جتنے ذہن اتنے اندازے۔ وہ پاک ہے اِس سے۔ کہیں بلند ہے اِس سے۔ وہ اپنی حقیقت جس قدر انسان کو بتائی جانا ضروری ہو آپ بتاتا ہے اور اس مقصد کیلئے زمین پر کتابیں اتارتا اور رسول بھیجتا ہے۔ حق وہ ہے جو وہ اپنے بارے میں خود کہہ دے۔ یوں ایک موحد، ایک انبیاءکے پیروکار کے دل میں خدا کا اپنی صفات کے ساتھ آنا ایک بہت ہی واضح اور متعین اور پرلطف حقیقت ہے۔ اس میں اور دوسروں میں اتنا ہی فرق ہے جتنا کہ حقیقت اور وہم میں۔
انسان کا خدا کی بابت ’اندازے‘ سے بات کرنا صاحبو بڑی جرأت ہے۔ وہ انسان جس کی عقل کو صرف اتنا جاننے کو کئی ہزار سال درکار ہوئے کہ جس زمین پر یہ کھڑا ہے اِس کی وہ زمین چپٹی نہیں بلکہ گول شکل ہے .... جس انسان پر یہ عقدہ کھلنے کو بیسیوں صدیاں لگیں کہ اِس کی یہ دھرتی ساکن نہیں بلکہ متحرک ہے .... سو یہ انسان جو اپنے پیروں تلے کی اس دھرتی پہ نہ جھانک سکا.. یہ ناچیز خدا کی ذات پر تخیلات کی کمند ڈالے اور توقع کرے کہ اندازوں اور ٹامک ٹوئیوں سے یہ خدا کی حقیقت کو پا لے گا؟ اس سے بڑی جہالت اور اس سے بڑھ کر ظلم حضرات کیا ہو سکتا ہے؟
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَلَا هُدًى وَلَا كِتَابٍ مُّنِيرٍ. ٍ ثَانِيَ عِطْفِهِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ لَهُ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَنُذِيقُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَذَابَ الْحَرِيقِ. ذَلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ يَدَاكَ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيد. (الحج: 8 ۔ 10)
”اور لوگوں میں کوئی ایسا بھی ہے جو اللہ کے بارے میں بحث کرتا ہے بغیر کسی علم کے اور بغیر کسی ہدایت کے اور بغیر روشن کتاب کے۔ (تکبر سے) گردن اکڑائے ہوئے، تاکہ لوگوں کو راہ خدا سے بھٹکائے، اس کےلئے دنیا میں ذلت ہے اور قیامت کے دن ہم اسے جلنے کا عذاب چکھائیں گے.. (اے سرکش!) یہ اس کی سزا ہے جو تیرے ہاتھوں نے آگے بھیجا تھا، اللہ تو اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں “
بھائیو خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ اس نے ہمیں دل کی اس ویرانی اور عقل کی اس سرگردانی سے بچا لیا۔ اس سے بڑھ کر بیچارگی دوستو کیا ہو سکتی ہے کہ اس بھری دُنیا میں کسی کو خدا کا پتہ نہ ملے!؟ نبی کی بعثت بھائیو کوئی چھوٹا انعام تو نہیں! نبی کا ورثہ محفوظ ہونا کوئی معمولی بات تو نہیں! کیا اب بھی ہم میں اور دُنیا میں کوئی فرق نہ ہو!؟
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لله وَهُوَ مُحْسِنٌ واتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَاتَّخَذَ اللّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلا.ً  وَللّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الأَرْضِ وَكَانَ اللّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطًا .  (النساء: 125۔ 126)
”اس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کو اپنا رخ سونپ دیا اور وہ (اپنے عمل میں) حسن پیدا کر نے والا ہو اور یکسو ہو کر ابراہیم ؑکی ملت کا پیروکار بن گیا ہو۔ ابراہیم ؑ جسے خدا نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کا ہے اور اللہ ہر چیز پر محیط ہے“۔
رہا یہ کہ آدمی خدا کا پتہ تو پاس رکھتا ہو مگر خدا کیلئے دل میں جگہ ہی کم رکھتا ہو۔ کسی فانی چیز کی طلب نے دل میں خدا کی طلب کیلئے جگہ ہی باقی نہ رہنے دی ہو یا بہت کم جگہ چھوڑی ہو .... تو دریا کنارے پیاس سے مرنا بھائیو یہی ہے۔ اس امت میں یوں مرنے والے بھی نہ جانے کتنے ہونگے۔ خدا اپنی عافیت میں رکھے۔
بہرحال نہ علم اور آگہی کے بغیر کوئی چارہ ہے اور نہ طلب اور عزم کے بغیر۔
پس ایک مومن موحد جب خدا کو دل میں بٹھانے اور اس کو اپنا چہرہ اور اپنا رخ سونپ دینے کی بات کرے تو وہ کوئی شاعرانہ یا فلسفیانہ یا متصوفانہ بات نہیں ہوتی۔ یہ امر تو صریح طور پر ’علم‘ کا متقاضی ہے اور ’اخلاص‘ (قصد) کا۔ رہا ’علم‘ تو وہ موحد کے سوا بھلا کس کے پاس ہے؟
خدا کون اور کیا ہستی ہے؟ یہ خدا ہی بتائے تو بتائے۔ یہ کسی کے ’بوجھنے‘ کی بات نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاءکے سوا خدا تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں اور یہی وجہ ہے کہ کسی علم کا انبیاءسے ثبوت ہونا اور اس کا درست طور پر روایت ہونا اس کے ’علم‘ ہونے کیلئے بنیادی شرط ٹھہری۔ بلکہ ’علم‘ کی اس شرط کا کسی وقت پورا نہ ہونا دُنیا کے اندر ایک نئی نبوت کا وجہ جواز بن جاتا رہا۔ خدا کی حقیقت واقعتا اسی قدر برگزیدہ ہے۔ زہے نصیب، خدا کی بابت ’علم‘ رکھنے کا یہ شرف اہل اسلام کو اور ان میں سے بھی بدرجہ اتم صرف اہلسنت کو حاصل ہوا۔ دوستو کرۂ ارض کا یہ سب سے بڑا اعزاز ہے جو اپنے سوا کسی کو حاصل نہیں۔ یہ خدا کی دین ہے، فخر نہیں۔ زمین پر آج ہم ہی وہ گروہ ہیں جو خدا کو واقعتا جانتے ہیں یا یوں کہیے جو خدا کو جان سکتے ہیں!
خدا سے آگاہ قوم .... سب سے روشن، ذہن اور عالی دماغ دُنیا میں کسی کو ہونا چاہیے تو دوستو وہ ہم ہیں۔ مگر کیا عملاً ایسا ہے؟؟؟ اگر نہیں تو پھر یہ تعین کرنے میں آخر دیر کیوں کہ اپنے ہاں یہ اندھیرا کہاں سے آتا ہے؟
دوستو دُنیا میں ایک ہمارے ہی پاس نبوت کے وہ نگینے محفوظ ہوئے جو کرۂ ارض کی آج اور ہمیشہ ہمیشہ تک سب سے بڑی دولت ہے۔ خدا اپنی ذات کی بابت یا اپنی پسند وناپسند کی بابت یا اپنی جزا وسزا کی بابت خود ہی جو بتائے سو بتائے اور جب وہ بتائے تو ہم کان لگا کر سنیں اور اس کے ایک ایک لفظ کو ذہن پر نہیں دل پر نقش کریں (بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ(1)) ہر وہ بات جس سے وہ خاموش رہے وہاں اُس کی بابت ایک لفظ تک اپنے پاس سے بولنا ہم سب سے بڑا جرم سمجھیں .... ادب، تعظیم، تسلیم اور خدا کے مرتبہ کا پاس اس سے بڑھ کر بھلا کیا ہو سکتا ہے۔ خدا کے ادب اور تعظیم کا یہ وہ طریقہ ہے جو ہمیں ہمارے نبی ﷺ سکھا گئے اور جس کو ہمارے سلف ہمارے لئے محفوظ کر گئے۔ اس سے بڑھ کر بھائیو خدا شناسی کیا ہو سکتی ہے؟
سو اس امت کا سب سے بڑا اعزاز یہ ہوا کہ یہ خدا شناس امت ہے۔ خدا کی وہ حقیقت جو انسان سمجھ سکتا ہے اسی کے پاس محفوظ ہے۔ پس یہ کہنا غلط نہیں کہ خدا انہی کے دل میں بس سکتا ہے۔ خدا کو اپنا آپ پیش کرنا انہی کے طریقے پر ہو سکتا ہے۔ ’خدا‘ کوئی وہم نہ ہو بلکہ ایک یقینی حقیقت ہو، یہ اِسی دین کے اندر ممکن ہے۔ سو کس قدر شکر، کس قدر احسان مندی اور کتنی قدر دانی ہم پر اس کیلئے واجب ہو جاتی ہے، کیا کبھی بھائیو ہم نے اس پر سوچا بھی ہے؟
اپنی ہستی کی یہ جہت خود ہم پر ہی واضح نہ ہو، اس سے بڑی محرومی دوستو کیا ہو سکتی ہے؟ سچ ہے علم کے بغیر شکر بھی ممکن نہیں!!! بلکہ علم ہی تو شکر مندی ہے!!!

٭٭٭٭


اب ہم امام ابن القیمؒ کے کچھ اقتباس پڑھیں گے:
”اللہ تعالیٰ کی حکمت اور رحمت کو جب تقاضا ہوا کہ آدم کو اپنی آئندہ نسلوں سمیت جنت سے نکال دیا جائے تو اس نے ان کو اس سے بھی بہتر چیز عطا فرما دی۔ یہ اس کا وہ سچا وعدہ ہے جس کے سبب سے بنی آدم (صرف جنت تک نہیں) بلکہ خود اسی تک پہنچ جائیں۔ اپنے تک پہنچنے کا اس نے پوری طرح راستہ واضح فرما دیا کہ جو اس پر چل پڑے وہ ضرور مراد پائے اور ہدایت بھی۔ البتہ جو اس سے منہ موڑے تو وہ ضرور ہی بدبخت ٹھہرے اور گمراہی میں رہے۔
اب جب خدا کے اس وعدے کو پانے اور اس سیدھے راستے پر چلنے کا معاملہ یوں رکھا گیا ہے کہ اس تک رسائی پانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے علم اور ارادہ۔ ارادہ (عزم) اس تک رسائی کیلئے دروازہ ہے اور علم اس در کی کنجی۔ اور یہ دروازہ کھلنا اس کنجی کے پائے جانے پر ہی موقوف ہے۔ پس ہر انسان کو مرتبۂ کمال پانے کیلئے ان دو باتوں ہی کی اشد ضرورت ہے: انسان کے اندر ہمت اور عزم ہو جو اس کو کھڑا کردے اور اس راہ میں آگے بڑھائے اور پھر علم ہو جو اس کو راہ دکھائے اور سارا راستہ اس کو درست چلائے۔
فلاح اور سعادت و نیک بختی کا کوئی مرتبہ آدمی کے ہاتھ سے جب بھی چھوٹتا ہے تو وہ انہی دو باتوں میں کچھ کمی رہ جانے کے باعث چھوٹتا ہے۔ یا پھر ان میں سے کسی ایک میں کہیں کوئی کوتاہی رہی ہوتی ہے۔ یعنی یا تو وہ سعادت ونیک بختی کا علم نہ رکھتا ہوگا، سو ایسا آدمی راستے کا سراغ ہی نہ پائے گا.. اور یا پھر نیک بختی کی راہ تو جانتا ہوگا مگر اس کیلئے اٹھ کھڑا ہونے اور اپنی قسمت بنانے کیلئے دوڑ پڑنے پر آمادہ نہ ہو سکا ہوگا....
یہ دو ہی وہ رکاوٹیں ہیں جنکے سبب آدمی نفس کے کیچڑ میں لت پت موت کے انتظار میں پڑا رہتا ہے اور کمال پانے کی اِس کو قدرت سے جو صلاحیت ودیعت ہوئی اس کو کوڑا بنا رہنے دیتا ہے۔ ایسا شحص خود کو اعلیٰ مراتب کے حصول سے یکسر غافل رکھتے ہوئے نفس کو دنیا میں بس چرا پھرا لانے پر ہی اکتفا کرتا ہے۔ نکھٹوﺅں کے ساتھ نکھٹو۔ بے طلب۔ بے ہمت۔ سست اور مردہ دل۔ نجانے کیا کچھ اس کے ساتھ ہونے کو ہے۔ گھڑیاں گنی جا رہی ہیں۔ پر یہ جاہل بے علم ’آرام‘ کرتا ہے۔ سمجھتا ہے یہاں وقت کٹائی کرنے آیا ہے! اُدھر دوسرا آدمی جو راستے کا سراغ پا گیا ہے اور ذوقِ طلب بھی خوب رکھتا ہے اس دنیا میں آتا ہے تو بس آستینیں چڑھا لیتا ہے۔ نگاہ ہر وقت منزل پر۔ فکر ہر وقت کام نمٹانے کی۔ کوئی ساتھ ہے یا نہیں یہ برابر چلتا ہے۔ جان لڑا کر علم حاصل کرتا ہے۔ محنت سے اس پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ دلجمعی سے اس پر استقامت اختیار کرتا ہے۔ سب کچھ پاتا ہے مگر خدا سے کم کسی چیز پر قانع نہیں۔ خدا اور رسول کی جانب ہر دم عازم سفر۔ دل لگتا ہے تو بس خدا ہی کے ساتھ۔ دوست رفیق اس کو کہاں ملیں گے کوئی ہو گا تو بس رفیق کار ہوگا جو اسی راستے میں پایا جائے جو خدا کی جانب بڑھتا ہے!
چونکہ عزم وارادہ کے اندر اصل دیکھا جانے والا کمال یہ ہے کہ انسان کے مقصود ومطلوب ہی میں کوئی کمال ہو جس کاکہ عزم اور ارادہ کیا گیا.. اور علم ودانش میں کوئی شرف اور اعزاز ہو سکتا ہے تو یہ کہ یہ علم ودانش جس حقیقت کا سراغ پائے خود وہ حقیقت ہی نہایت شرف اور اعزاز والی ہو....
جب ایسا ہے تو پھر اس انسان کی سعادت ونیک بختی کے کیا کہنے اور اس انسان کے زندہ وپائندہ ہو جانے میں کیا شک جس کا عزم وارادہ اس ذات اور اس مقصود سے وابستہ ہو جس کو کوئی آنچ ہے اور نہ تغیر! جس کی ہمت اور طلب اس ذات کی جانب عازم سفر ہے جو ہمیشگی کا مالک ہے.. الح ¸ الذ ¸ لا یموت۔ وہ ذات جس کی جانب صرف ’علم‘ کا راستہ جاتا ہے.. اس علم کا راستہ جو اس کے بندے، اس کے رسول، اس کے خلیل اور اس کے چنیدہ نبی اپنے پیچھے نسل در نسل چھوڑ گئے .... اس نبی کا چھوڑا ہوا علم جس کو خدا کے طلبگاروں کا ہادی اور راہ نما بنایا گیا .... جس کو خدا اور مخلوق کے مابین واسطہ بنا دیا گیا اور جو خدا کے اپنے ہی حکم سے لوگوں کو سلامتی کے گھر کی جانب دعوت دینے پر مامور ہوا۔ یہ نبی ہی اس راستے کا نشان ہے۔ خدا اس بات سے انکاری ہے کہ اس تک پہنچنے کا راستہ سوائے محمد ﷺ کے کہیں اور سے گزرے۔ در کھلے گا تو صرف محمد ﷺ کے راستے پر۔ خدا انکاری ہے اس بات سے کہ وہ کسی محنت یا سعی کو قبول کرے سوائے اس سعی کے جو محمد ﷺ کے راستے پہ شروع ہوتی ہو اور اسی پر ختم“۔
(مفتاح دارالسعادة ومنشور ولایة العلم والارادة 1:59)
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
”خوب جان لو کہ خدا کی جانب بڑھنے کی منزلیں بدن سے بھی بڑھ کر دل اور ہمت کے ساتھ سر ہوتی ہیں۔ اور تقویٰ بھی درحقیقت دل کا تقوی ہے نہ کہ محض اعضاءکا۔ اس کا اپنا ارشاد ہے:
ذَلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ.  (الحج : 32)
”یہ ہے اصل معاملہ۔ اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے“۔
لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ.  (الحج: 37)
”نہ ان (قربانی کے جانوروں) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، البتہ اسے تمہارے (ہاں پایا جانے والا) تقویٰ ضرور پہنچتا ہے“۔
خود رسول اللہ ﷺ نے بھی یہی فرمایا التقوی ھٰھُنا کہ ”تقویٰ بس یہاں ہے“ جبکہ آپ اپنے سینے کی جانب اشارہ فرما رہے تھے۔
پس ایک ہوشمند شخص راستے کی مسافتیں طے کرنے کیلئے جو تدبیر کرتا ہے وہ یہ کہ اپنی عزیمت ہی کو مہمیز دے۔ ہمت جوان رکھے۔ اپنے مقصود کا پورے اخلاص اور تجرد کے ساتھ تعین کرتا رہے اور نیت میں زیادہ سے زیادہ نکھار پیدا کرے اور پھر اس کے ساتھ مقدور بھر عمل بھی کرے۔ اس تدبیر کو بروئے کار لا کر یہ ہوشمند شخص تھوڑا عمل کر کر بھی اس شخص کی نسبت کہیں زیادہ مسافت طے کر جاتا ہے اور جو کہ اس گر کے استعمال سے عاجز ہے اور جو کہ تھکتا زیادہ ہے مگر اس کی مسافت کم طے ہوتی ہے۔ عزیمت اور طلب جب پائی جائے تو خدا کی جانب بڑھنا مشقت نہیں رہتا۔ یہی چیز اس سفر کو خوشگوار کر دیتی ہے۔ خدا کی جانب بڑھنے میں سبقت لے جانا .... معبود کی جانب پیش قدمی کا خوب سے خوب تر ہونا بس ’ہمت‘ پر ہی تو منحصر ہے، یعنی انسان کی رغبت صادق ہو اور عزیمت جوان ہو۔ خدا کی جانب بڑھنا .... یہ ایک ایسی راہ ہے کہ ایک جوان ہمت اور صاحب عزیمت شخص راستے کی کسی منزل پر استراحت کرتے ہوئے بھی اس شخص پہ سبقت پاتا ہے جو ذوق طلب اور مقصد وعزیمت میں پیچھے رہ گیا ہو چاہے وہ چلتا اس سے کہیں زیادہ کیوں نہ ہو۔ چلتا دوسرا زیادہ ہے پہنچتا یہ پہلے ہے! ....
عزم وارادہ کی کمزوری اور طلب کی بے حسی دراصل دل کا ضعف ہے۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ دل میں زندگی کی رمق بہت کم ہے۔ دل میں زندگی کا احساس جتنا زیادہ ہوگا ہمت اتنی ہی جوان ہوگی۔ ارادہ وعزم اور محبت وطلب ایسے ہی دل کا عمل ہے۔ دراصل ارادہ وقصد اور عزم وطلب کا انحصار ہے ہی اس بات پر کہ آپ جس چیز یا جس ذات کو محبوب رکھتے ہیں آپ کا وہ محبوب یا مطلوب آپ کے شعور کو کس حد تک مشغول رکھ سکتا ہے اور آپ اس کو محسوس کرنے میں کس حد تک کامیاب ہیں اور یہ کہ کسی رکاوٹ کو آپ کے اور آپ کے مطلوب کے مابین حائل ہونے میں کس قدر آسانی یا کس قدر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص ارادہ وعزم رکھنے سے ہی بے بس ہے یا ذوق طلب ہی سے بیگانہ ہے تو اس کا سبب یا تو یہ ہوگا کہ اس میں محسوس کرنے کی صلاحیت ہی مردنی ہے اور دل میں مراد تک جنم نہیں لے پاتی، جس کو کہ شعور کا فقدان کہا جائے گا .... اور یا پھر اس کا سبب یہ ہوگا کہ دل کو کوئی ایسا روگ لگا ہے کہ دل میں امنگ پیدا ہوتی تو ہے مگر ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہے .... جس کو کہ ہمت کا فقدان کہا جائے گا۔ پس یہ دونوں ہی چیزیں آدمی کی ضرورت ہیں: قوت شعور بھی اور قوت ارادہ بھی۔ اس کے ہونے سے دل کو زندگی ملتی ہے اور اس کا فقدان ہو تو دل میں موت کی آہٹ سنی جانے لگتی ہے .... “
(تہذیب مدارج السالکین: 2 : 945)
”انسان کو مرتبۂ کمال دو باتوں سے حاصل ہوتا ہے:
- یہ کہ وہ حق کو باطل سے جدا کرکے دیکھ سکے، اور یوں حق کی معرفت پائے۔
- یہ کہ وہ حق کو باطل پہ ترجیح دینے کی ہمت رکھے۔
مخلوق جتنی ہے کسی کا مرتبہ خدا کے ہاں بلند ہے تو کسی کا پست .... تو اس کا سبب یہی دو بنیادیں ہیں۔ جتنا کوئی ان دو باتوں میں بلند ہو لے گا اتنا ہی وہ خدا کے ہاں بلند ہے اور جتنا کوئی ان دو باتوں میں پست ہوا اتنا ہی وہ خدا کے ہاں پست ہے۔ یہی دو باتیں ہیں جن کی بنیاد پر یہ انبیا خدا کے کلام میں سراہے گئے ہیں:
وَاذْكُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ أُوْلِي الْأَيْدِي وَالْأَبْصَارِ. (ص : 45)
”اور ہمارے بندوں ابراہیم ؑاور اسحاق ؑاور یعقوب ؑکا ذکر کرو۔ بڑی قوت عمل رکھنے والے اور دیدہ ور لوگ تھے“۔
یہ انبیاءجو أولی الأیدی ہیں یعنی زور بازو رکھتے ہیں اور پھر أولی الابصار ہیں یعنی زور نگاہ کے مالک ہیں۔ پس مرتبۂ کمال انہی دو باتوں میں پوشیدہ ہے: زورِ بازو اور زورِ نگاہ!!!
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان انبیاءکا جو وصف بیان کیا وہ یہی ہے کہ حق کے ادراک میں یہ کمال کی صلاحیت رکھتے ہیں اور پھر اس حق پر عمل کر گزرنے میں بلا کی ہمت۔ پس لوگوں کی اس بنیاد پر جو چار اقسام بنتی ہیں ان میں سب سے اعلیٰ وبرگزیدہ قسم ایسے ہی انسانوں کی ہے جو ان دو خوبیوں میں کمال پیدا کرلیں۔
رہی دوسری قسم تو وہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یعنی ایسا آدمی جو دین کی حقیقت سے بے بصیرت ہو اور حق پر عمل پیرا ہونے کی ہمت سے تہی دامن۔ مخلوق میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے۔ یہی ہیں وہ لوگ جو زمین پر بار ہیں اور جن کو دیکھنا آنکھ کیلئے زحمت ہے۔ خوامخواہ شہروں میں اژدہام کرتے ہیں۔ بستیاں ہیں کہ ان کی کثرت کے سبب تنگ اور گنجان پڑتی ہیں۔ دُنیا میں ان کے وجود کے باعث سوائے اس کے کہ روٹی مہنگی ہو اور اناج کا اجاڑا ہو اور دُنیا کو اِن کے یہاں پائے جانے کا تاوان ہی تاوان اٹھانا پڑے، دنیا کو اور کوئی بھی فرق نہیں پڑتا۔ ان کا یہاں ہونے کا فائدہ بہت کم ہے اور نقصان بہت زیادہ!
تیسری قسم: وہ لوگ ہیں جو حق کی بصیرت تو رکھتے ہیں اور جن کو ہدایت سے آگہی بھی نصیب ہوئی مگر ہمت کو ضعف لاحق ہے۔ وہ قوت حاصل نہیں کہ جس بات کو حق سمجھیں پھر اس کو کر گزریں اور اس کے داعی بن کر کھڑے ہوں۔ یہ ایک مومنِ ضعیف کا حال ہے جبکہ ایک طاقتور مومن اس سے بہتر ہے اور خدا کو اس کی نسبت عزیز تر۔
چوتھی قسم: وہ لوگ ہیں جو قوت وہمت اور عزیمت تو رکھتے ہیں مگر بصیرت میں ضعف لاحق ہے اور دین کی حقیقت سے آشنائی کم ہے۔ عمل میں بلا کے تیز مگر حق کے علم سے بالکل کورے! بڑا ہی مشکل ہے کہ اولیاءرحمن اور اولیاءشیطان میں تمیز کرلیں۔ حق اور باطل کے معاملے میں بات کو بآسانی پالیں۔ یہ ہر چمکتی چیز پر سونے کا گمان کر لیتے ہیں اور ہر کڑوی دوا کو زہر سمجھ بیٹھتے ہیں۔
ان تینوں موخر الذکر اصناف میں ایسے لوگ نہیں پائے جاسکتے جو دین میں امامت کا منصب پائیں اور نہ ہی یہ منصب ان کیلئے بنا ہے۔ یہ رتبۂ بلند صرف پہلی قسم کے لوگوں کا ہی نصیب بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد ہے:
وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ. (السجدة : 24)
”ہم نے ان میں سے امام (پیشوا) بنائے جو ہمارے حکم سے راہ بری کرتے؛ یہ تب جب وہ صبر وثبات کرنے لگے اور تھے وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے“
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے منصبِ امامت پانے کی دو بنیادیں ذکر فرمائیں:
ایک ان کا صبر وہمت اور دوسرا اللہ کی آیات پر انکا یقین اور رسوخ۔ ان دو باتوں کے سبب ہی وہ دین کے امام ہوئے .... “
(الجواب الکاف ¸ لمن س أل عن الدواءالشافی، ص 82)

(1) العنکبوت: 49 ”یہ تو آیات بینات ہیں، سینوں میں ان لوگوں کے جن کو علم دیا گیا“



بشکریه :ایقاظ

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User