Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Thursday, April 14, 2011

حسن خاتمہ اس کے وسائل وعلامات نیز سوء خاتمہ پر تنبیہ

حسن خاتمہ اس کے وسائل وعلامات نیز سوء خاتمہ پر تنبیہ

تالیف:ڈاکٹرعبد اللہ بن محمد المطلق   
اردو ترجمہ:خورشید احمد عبد الجلیل
تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس کی رحمت ہرچیزکومحیط ہٍے اورجس نے ہرچیزکوشمارکررکھا ہے ,اپنے بندوں میں سے جس پرچا ہا رحم فرمایا اوردنیا میں ان کیلئے وہ سامان مہیا کردئے جن کے ذریعہ آخرت میں ان کے درجات بلند ہوں,توان لوگوں نے اس کی فرمانبرداری پرمداومت کی اوراس کی عبادت میں جدوجہد کی,اگران کوخوشحالی پہنچی توشکریہ اداکیا توان کیلئے بہترہوا,اوراگران کوکوئی تکلیف پہنچی توصبرکیا اوران لوگوں کےزمرے میں آگئے جن کے بارے میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
{ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ} (سورة الزمر:10)
"صبرکرنے والوں کوانکا پوراپورا بے شماراجردیا جاتا ہے "-
اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک محمد صلى اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اوراسکے رسول ہیں جوسارے جہاں کیلئے رحمت بناکربھیجےگئے ,اللہ تعالى آپ پراورآپ کے آل واصحاب پررحمت وسلامتی نازل فرمائے-امابعد:
"مومن اپنے گنا ہوں کوایسا سمجھتا ہے گویا کہ وہ کسی پہاڑکے نیچے بیٹھا ہو اورڈررہا ہوکہ وہ اس پرٹوٹ پڑے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
کتنے لوگ ایسے ہیں جوکسی صغیرہ گناہ پرمصررہے یہاں تک کہ وہ اس سے مانوس ہوگئےاوروہ گناہ ان پرآسان ہوگیا,کبھی بھی یہ نہیں سوچا کہ جس کی نافرمانی کررہے ہیں وہ ذات کتنی عظیم ہے ,نتیجہ یہ ہوا کہ یہی گناہ ان کے سوء خاتمہ کا سبب بنا ,حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تم لوگ بہت سے ایسے کام کرتے ہوجوتمہاری نگاہ میں بال سے زیادہ ہلکے ہیں,لیکن رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم ان کوہلاک کردینے والے
اس دنیا میں انسان کی عمرہی اسکا حصہ ہے ,اگراس نے آخرت میں فائدہ دینے والے امورکے لئے عمرکا صحیح استعمال کیا تواپنی تجارت میں کامیاب ہے,اوراگراس نے عمرکومعصیت اوربرے کاموں میں استعمال کیا اوراسی برے خاتمہ پراس نے اللہ سے ملاقات کی تووہ خائب وخاسرہے,کتنی حسرتیں زمین کے نیچے دفن ہوگئیں !عقلمند وہی شخص ہے جواللہ کے محاسبہ کرنے سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرلے اورقبل اسکے کہ اسکے گناہ اس کی ہلاکت وبربادی کا سبب بنیں وہ اپنے گناہوں سے ڈرجائے ,ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
گناہ شمارکرتے تھے –اللہ تعالى نے اپنی کتاب قرآن مجید میں تمام مومنوں کوحسن خاتمہ کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے ,چنانچہ فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ} )سورة آل عمران :102)
"اے ایمان والو!اللہ تعالی سے ڈروجتنا اس سے ڈرنا چاہئے ,اوردیکھومرتے دم تک مسلمان ہی رہنا"-
اورفرمایا :
{وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ} (سورة الحجر:99)
"اوراپنے رب کی عبادت کرتےرہویہاں تک کہ تم کوموت آجائے"-
لہذا تقوی اورعبادت کا حکم موت آنے تک برقرارہے تاکہ بندہ حسن خاتمہ کی سعادت سےبہرہ مند ہو,نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ بعض لوگ اپنی زندگی کا ایک لمبہ عرصہ فرمانبرداری کرتے اورگنا ہوں سے دوررہتے ہیں,لیکن وفات سے کچھ پہلے گناہ اورمعصیبت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جوانکے برے خاتمہ کا سبب بن جاتا ہے,اللہ کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"بےشک آدمی جنتیوں والا عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اسکے اورجنت کے درمیان صرف ایک گزکا فاصلہ رہ جاتا ہے ,پھرکتاب اس پرغالب آجاتی ہے اوروہ جہنمیوں کا عمل کرنے لگتا ہے اورجہنم میں داخل ہوجاتا ہے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں وارد ہے کہ ایک مسلمان نے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  کسی غزوہ میں بڑی بہادری دکھائی ,صحابہ کرام کو اسکا کارنامہ بڑا اچھا لگا اورکہ پڑے کہ آج فلاں کی طرح ہم میں سے کسی نے دلیری نہیں دکھائی,رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :لیکن سن لو!وہ جہنمی ہے,توبعض صحابہ نے کہا:اگروہ جہنمی ہے توہم میں سے جنتی کون ہے؟ قوم میں سے ایک آدمی نے کہا :میں اسکے پیچھے جارہا ہوں اوردیکھتا ہوں کہ وہ کیا کرتا ہے ,چنانچہ یہ صحابی اس کے پیچھے نکلے ,وہ بیان کرتے ہیں کہ وہ آدمی شدید زخمی ہوا اورمرنے کی جلد ی کی,چنانچہ اس نے اپنی تلوارزمین پررکھی اوراسکی دھاراپنے سینہ پررکھا ,پھراپنا پورا بوجھ اس پرڈال کراپنے آپ کوقتل کرڈالا,یہ صحابی رسول صلى اللہ علیہ وسلم کےپاس واپس آئے اورکہا :میں گواہی دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں,رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ کیا ؟کہا کہ جس آدمی کے بارے میں آپ نے ابھی ابھی جہنمی فرمایا تھا اورلوگوں پریہ بات گراں گزری تومیں نے کہا کہ میں تم لوگوں کواسکی اطلاع دوں گا,چنانچہ میں اسکی تلاش میں نکلا,دیکھا وہ سخت زخمی تھا تواسنےمرنے میں جلدی کی ,تلوارکے دستہ کوزمین پررکھا اوراسکی دھارکواپنے دونوں چھاتیوں کے درمیان ,پھراس پراپنا پورا بوجھ ڈال کراپنے آپ کوقتل کرڈالا,اس وقت اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"آدمی لوگوں کی نگاہ میں جنتیوں والا کام کرتا ہے حالانکہ وہ جہنمی ہوتا ہے,اورایک شخص لوگوں کی نگاہ میں جہنمیوں والا کام کرتا ہے حالانکہ وہ جنتی ہوتا ہے"

اوربعض روایات میں یہ اضافہ ہے :" اعمال کا دارومدارخاتمہ پرہے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)-
اللہ سبحانہ وتعالى نے اپنے مؤمن بندوں کی یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ ان کے اندرایک ساتھ اللہ کا خوف اورحسن عمل دونوں پایا جاتا ہے,
چنانچہ فرمایا:
{إِنَّ الَّذِينَ هُم مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِم مُّشْفِقُونَ وَالَّذِينَ هُم بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ وَالَّذِينَ هُم بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوا وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ أُوْلَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ} (سورة المؤمنون:57- 06)
"یقیناً جولوگ اپنےرب کی ہیبت سے ڈرتے ہیں ,اورجواپنے رب کی آیتوں پرایمان رکھتے ہیں,اورجواپنےرب کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کرتے ,اورجولوگ دیتے ہیں جوکچھ دیتے ہیں اوران کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنےوالے ہیں,یہی لوگ ہیں جوجلدی جلدی بھلائیاں حاصل کررہے ہیں اوریہی ہیں جوان کی طرف دوڑجانے والے ہیں"-
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یہی حالت تھی ,امام احمد نے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا:"کاش کہ میں کسی مومن بندے کے پہلومیں ایک بال ہوتا- آپ رضی اللہ عنہ اپنی زبان کوپکڑکرکہتے تھے کہ اسی نے مجھ کومختلف گھاٹ پراتاراہے"-
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ دوچیزوں سے بہت زیادہ ڈرتے تھے :لمبی آرزو اورنفس کی پیروی فرمایا:لمبی آرزو آخرت کوبھلادیتی ہے اورنفس کی پیروی حق سے روک دیتی ہے – اورفرمایا :دنیا پیٹھ پھیرکربھاگ رہی ہے اورآخرت تیزی کے ساتھ آگے بڑھی چلی آرہی ہے ,اوران میں سے ہرایک کی اولاد ہیں,توتم آخرت کی اولاد بنواوردنیا کی اولاد نہ بنو,کیونکہ آج کام ہے اورحساب نہیں ,اورکل حساب ہوگا کام نہیں"-
ناگہانی موت اسلام میں قابل مذمت ہے کیونکہ وہ انسان کواچانک اپنے چنگل میں لے لیتی ہے اوراسے مہلت نہیں دیتی , اوربسا اوقات وہ معصیت میں گرفتارہوتا ہے تواسکا خاتمہ بھی معصیت پرہوتا ہے-
سلف صالحین برے خاتمہ سےبہت زیادہ ڈرا کرتے تھے,سہل تستری فرماتے ہیں کہ سچے لوگ ہرقدم پربرے خاتمہ سے ڈراکرتے ہیں ,اوریہی وہ لوگ ہیں جن کی اللہ نے تعریف بیان کی ہے ,فرمایا:
(وَّقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ) المؤمنون : 60)
"ان کے دل کپکپاتے ہیں "-
اسلئے بندے کوچاہئے کہ ہرلمحہ سوء خاتمہ سے ڈرتا رہے کیونکہ خوف ہی عمل کا باعث ہے ,جیسا کہ اللہ کے نبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"جوشخص ڈراوہ چلا اورجو چلاوہ منزل کوپھنچ گیا,سن لو!اللہ کا سامان مہنگا ہے,سن لو!اللہ کا سامان جنت ہے"(سنن ترمذی)-
جب آدمی کی وفات قریب ہوتواسے چاہئے کہ اب امید کا پہلو غالب رکھے اوراللہ کی ملاقات کا مشتاق ہوجائے,کیونکہ جواللہ سے ملاقات کا خواہش مند ہو تواللہ بھی اس سے ملنے کا خواہش مند ہوگا,نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تم میں سے کوئی بھی شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ عزوجل کے ساتھ اچھا گمان رکھتا ہو"(صحیح مسلم)
لیکن بہت سے جاہل مسلمان اللہ کی وسیع رحمت اوراسکی بخشش ومغفرت پربھروسہ کرکےبیٹھ گئے اورگناہوں میں بے لگام ہوگئے اوربرائیوں سے بازنہیں آئے,بلکہ اللہ تعالى کے مذکورہ بالا صفات کوجان لینے کے بعد انہوں نے اسی کوگناہوں پرمصررہنے کا سب سے بڑا بہانہ بنا لیا,حالانکہ یہ ایک کھلی غلطی اورمہلک استدلال ہے ,کیونکہ اللہ تعالى جس طرح بخشنے والا ,رحم کرنے والا ہے ,اسی طرح سخت عذاب دینے والا ہے ,جیسا کہ قرآن کریم میں بہت سی جگہوں میں اس نے اس بات کی صراحت کی ہے,فرمایا:
{نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَ أَنَّ عَذَابِي هُوَ الْعَذَابُ الأَلِيمَ } (سورة الحجر: 49-50) "
میرے بندوں کوخبرکردوکہ میں بہت ہی بخشنے والا اوربڑاہی مہربان ہوں ,اورساتھ ہی میرے عذاب بھی نہایت ہی دردناک ہیں"-
اورفرمایا:
{حم تَنزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ غَافِرِ الذَّنبِ وَقَابِلِ التَّوْبِ شَدِيدِ الْعِقَابِ}
(سورة غافر: 3-1)
"اس کتاب کا نازل فرمانا اس اللہ کی طرف سے ہے جوغالب اوردانا ہے ,گناہ بخشنے والا اورتوبہ قبول فرمانے والا ,سخت عذاب والا ہے"-
معروف کرخی کہتے ہیں کہ تمہارا اس شخص کی رحمت کا امید رکھناجس کی تم اطاعت نہ کرو رسوائی اورحماقت میں داخل ہے-اوربعض علماء نے کہا ہے کہ "جس نے دنیا میں تین درہم کی چوری کے جرم میں تمہارے جسم کا ایک عضوکاٹ دیا اس سےتم مامون نہ رہو کہ آخرت کی سزا اسی جیسی ہوگی" –
ایک مسلمان کوچاہئے کہ لوگوں کے قرض اوران کے مظالم سے چھٹکارا حاصل کرلینے کا حریص ہو,کیونکہ اگربندے کا اسکے بھائی کے پاس کچھ بھی باقی رہ جائے گاتووہ قیامت کے دن اس سے ضرورمطالبہ کرے گا,اگراس کے پاس نیکیاں ہوں گی توان میں سے لے لیا جائیگا,اوراگراسکے پاس نیکیاں نہیں ہوں گی توقرض خواہ کی برائیاں لے کراس پرڈالدی جائیں گی,رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

"مومن کی روح اسکے قرض کے ساتھ معلق ہوتی ہے یہاں تک کہ اسے اداکردیا جائے"-

سوء خاتمہ کے اسباب:

اب ذیل میں ہم اختصارکے ساتھ سوء خاتمہ کے اسباب  بیان کرتے ہیں:

توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرنا:

ہرمکلف پرواجب ہے کہ وہ ہرلمحہ اپنے تمام گناہوں سے اللہ تعالى سے توبہ کرے ,اللہ کا ارشاد ہے: {وَتُوبُوا إِلَى اللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَا الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ} (سورة النــور:31)
"اے مومنو! تم سب اللہ سے توبہ کروتاکہ فلاح پاؤ"
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے اگلے ,پچلھے سب گناہ بخش دئے گئے تھے لیکن اسکے باوجود آپ ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتے تھے ,حضرت اغرمزنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسو ل صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"اے لوگو! اللہ سے توبہ کرو,بے شک میں ایک دن میں سومرتبہ اللہ سے توبہ کرتا ہوں"(صحیح مسلم)
اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
"گناہوں سے توبہ کرنے والا شخص ایک بے گناہ کی طرح پاک ہوجاتا ہے " اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اوراسکی سند حسن ہے-
جن حیلوں کے ذریعہ ابلیس لوگوں کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے ان میں ایک کامیاب ترین حیلہ یہ ہے کہ وہ توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرواتا ہے,وہ گنہگارکووسوسہ دیتا ہے کہ وہ توبہ کرنے میں جلدی نہ کرے ,کیونکہ اسکے سامنے ایک لمبا زمانہ ہے,اگراسی وقت توبہ کرلیا اورپھرگناہوں کی طرف لوٹ گیا تودوبارہ اسکی توبہ قبول نہیں ہوگی اوروہ جہنمی ہوجائے گا,یااسکو یہ وسوسہ دلاتا ہے کہ جب وہ پچاس ساٹھ سال کی عمرکا ہوجائے توخالص توبہ کرلے,مسجد کولازم پکڑلےاورنیک کام زیادہ سے زیادہ کرے,لیکن ابھی وہ اپنی جوانی اورعمرکے حسین مرحلہ میں ہے,لہذا وہ اپنے نفس کوآزاد رکھے,اوراسی وقت سے اللہ کی اطاعت کا پابند ہوکرنفس کومشقت میں نہ ڈالے-
توبہ کے ٹال مٹول کے سلسلہ میں یہ ابلیس کے بعض حربے ہیں-
بعض سلف صالحین کا قول ہے کہ میں تم کوٹال مٹول سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ ابلیس کا سب سے بڑا لشکرہے,دانشمند مومن جواللہ کی محبت کی خاطراوربرے خاتمہ کے ڈرسے ہروقت گناہ سے توبہ کرتا ہے ,اورحد سے بڑہ جانے والا,ٹال مٹول کرنے والا جواپنی توبہ کومؤخرکردیتا ہے,ان دونوں کی مثال اس مسافرقوم کی ہے جوکسی بستی میں داخل ہوئی تودانش مند مومن نے جاکرمناسب زادراہ خریدا اورکوچ کرنے کی تیاری مکمل کرکے بیٹھ گیا,لیکن حد سے بڑھ جانے والا دوسراشخص ہردن یہی کہتا رہا کہ میں کل تیاری کروں گا,اسی اثناء میں امیرکارواں نے کوچ کرنے کا اعلان کردیا اوراسکے پاس کچھ بھی زادراہ نہیں-دنیا میں لوگوں کی یہی مثال ہے,دانش مندمومن کی جب بھی موت آتی ہے تووہ نادم نہیں ہوتا,مگرگنہگاراورعمل میں کوتاہی کرنے والا یہی کہتا ہے کہ اے میرے رب !مجھے دنیا کی طرف واپس کردے تاکہ میں چھوڑے ہوئے نیک کام کرلوں-

2-لمبی آرزو:

لمبی آرزو بہت سے لوگوں کی بدبختی کا سبب ہے,شیطان جب کسی کوفریب ودھوکہ دینا چاہتا ہے تواس کے لئے یہ نقشہ پیش کرتا ہے کہ ابھی اسکے سامنے ایک لمبی عمراورایک لمبا عرصہ ہے,جسمیں وہ بڑی بڑی آرزوئیں کرتا ہے اوراس لمبے زمانے کوگزارنے اوران آرزؤں کی تکمیل کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردیتا ہے اورآخرت کوبھول  جاتا ہے ,موت کویا د نہیں کرتا ,اوراگرکسی دن موت کویاد کرلیتا ہے تواس سے تنگ دل ہوجاتا ہے ,کیونکہ موت کی یاد اسکی لذتوں کواوراسکی خوش عیشی  کومکدرکردیتی ہے ,رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے سختی کے ساتھ متنبہ کیا ہے ,فرمایا:
"دوچیزیں ہیں جن سے میں تمہارے بارے میں زیادہ ڈرتا ہوں :خواہشات کی پیروی اورلمبی آرزو,خواہشات کی پیروی حق سے روک دیتی ہے اورلمبی آرزووہ تودنیا کی محبت ہے "ابن ابی الدنیا نے اسے روایت کیا ہے-
انسان جب آخرت سے زیادہ دنیا سے محبت کرتا ہے تواسے آخرت پربھی ترجیح دیتا ہے ,اسکی زینت وخوبصورتی اوراسکی لذتوں میں پھنس جاتا ہے اوراللہ کی جواررحمت جنت میں اللہ کے انعام یافتہ بندوں ,انبیاء وصدیقین اورشہداء وصالحین کے ساتھ رہنے کیلئے آخرت میں اپنا ٹھکانہ نہیں بناتا-
لمبی آرزو نہ کرنے کے آثاریہ ہیں کہ بندہ نیک اعمال کی طرف سبقت کرے اورعمرکے اوقات کوغنیمت جانے ,کیونکہ سانسیں محدودہیں اوردن متعین ہیں,اورجوکچھ گزرجاتا ہے وہ ہرگزواپس نہیں آسکتا ,
اورراستے پرحق سے روکنے والی بے شمارمشکلات ہیں جنہیں رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے,ارشاد ہے:
"سات چیزوں کے آنے سے پہلے اعمال کی جلدی کرو:کیا تمہیں انتظارہے بھلادینے والی غربت کا,یاحد سے بڑھی ہوئی مالداری کا,یاہلاک کردینے والی بیماری کا,یا عقل ماردینے والے بڑھاپے کا,یادرگورکرنے والی موت کا,یادجال کا جوبدترین پوشیدہ شخص ہے جسکا انتظارکیا جارہا ہے,یا قیامت کا توقیامت سب سے زیادہ کڑوی اورخطرناک شے ہے"(سنن ترمذی)
عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے میرے دونوں کندھوں کوپکڑا اورفرمایا:
"دنیا میں اس طرح رہوگویاکہ تم ایک اجنبی ہویا مسافر"
ابن عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
"جب تم شام کرلو توصبح کا انتظارنہ کرو اورجب صبح کرلوتو شام کا انتظارنہ کرو اوراپنی صحت کے زمانہ میں اپنی بیماری کے لئے سامان تیارکرلو اوراپنی زندگی میں موت کے لئے"(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے مومنوں کی ان چیزوں کی طرف رہنمائی کی ہےجوان سے لمبی آرزؤں کودوراوردنیا کی حقیقت سے آگاہ کردیں, چنانچہ آپ نے یہ حکم دیا کہ موت کویاد کریں ,قبروں کی زیارت کریں ,مردوں کوغسل دیں,جنازہ کے ساتھ چلیں,مریضوں کی عیادت کریں اورصالحین سے ملاقات کیلئے جائیں,کیونکہ یہ ساری چیزیں دل کوغفلت سے بیدارکرتی ہیں اورپیش آنے والی حقیقت سے آگاہ کردیتی ہیں,تودل بھی اسکے لئے تیاری کرلیتا ہے,ذیل میں ہم مذکورہ بالا امورکی مختصروضاحت کرتے ہیں-

الف- یاد موت:

یاد موت انسان کودنیا سے بے رغبت اورآخرت کا خواہش مند بنادیتی ہے ,اسے نیک اعمال کے بارے میں پوری جدوجہد کرنے پرابھارتی اوردارفانی کے اندرحرام خواہشات کی طرف مائل ہونے سے روکتی ہے,حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"لذتوں کوتوڑنے والی (موت) کوکثرت سے یاد کرو"(سنن ترمذی وسنن ابن ماجہ)
حضرت ابن عمررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری صحابی نے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول ! لوگوں میں سب سے زیادہ چالاک اوربزرگ کون ہے؟ تورسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"موت کوسب سے زیادہ یادکرنے اوراسکے لئے سب سے زیادہ تیاری کرنے والے ,یہی سب سے زیادہ دانش مند لوگ ہیں جودنیاوی فضیلت اورآخرت کی کرامت سے بہرہ مند ہوئے "(سنن ابن ماجہ وابن ابی الدنیا)
پھرانسان مردوں کے بارے میں سوچے ,کیا وہ مضبوط جسم والے اورمال کے مالک نہیں تھے,حکم دیتے اورمنع کرتے تھے ,لیکن آج کیڑے ان کے جسم پرمسلط ہوکران کوبوسیدہ اوران کی ہڈیوں کوریزہ ریزہ کرچکے ہیں؟ پھروہ سوچے کہ کیا وہ موت سے بچ جائے گا یا اسے بھی عنقریب وہیں جانا ہے جہاں وہ لوگ جا چکے ہیں؟ پھروہ اس منزل کے لئے تیاری کرے اوراعمال صالحہ کا توشہ جمع کرلے ,کیونکہ یہی آخرت میں کام آنے والا سکہ ہے-

ب- قبروں کی زیارت:

رہی قبروں کی زیارت تویہ دلوں کیلئے ایک مؤثرنصیحت ہے کیونکہ انسان تاریک اوراندھیرے گڈھوں کودیکھتا ہے اوراس آخری مرحلہ کودیکھتا ہے کہ اس مردے کوایک تنگ لحد میں داخل کرنے اورکچی اینٹوں سے اس کوبندکرنے کے بعد مردے کے اعزاء واقرباء اس پرمٹی ڈال دیتے ہیں ,پھرواپس ہوکراسکامال تقسیم کرلیتے ہیں اوراسکی ذاتی چیزوں کے مالک ہوجاتے ہیں,اسکی عورتوں کی دوسروں سے شادی ہوجاتی ہے اورمعمولی مدت کے بعد اسے بھلا دیا جاتا ہے,حالانکہ زندگی میں وہ گھرمیں با اثرشخص تھا,حکم دیتا توفرمانبرداری کی جاتی اورکسی چیزسے روکتا تو کسی میں نافرمانی کی جرأت نہیں ہوتی تھی-
جب مومن قبرستان کی زیارت کرتا ہے اوراس سلسلے میں غوروفکرکرتا ہے تووہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا فائدہ جان لیتا ہے:
"قبروں کی زیارت کرتے رہو,کیونکہ وہ موت کویاد دلاتی ہے "(صحیح مسلم)

ج- مردوں کوغسل دینا اورجنازہ کے ساتھ چلنا:

نہلائے جانے والے تخت پرمیت کے جسم کوالٹنے پلٹنے میں مؤثرنصیحت ہے ,جب وہ اپنی زندگی اورطاقت کی حالت میں تھا کوئی شخص اسکو الٹنے پلٹنے اوربغیراسکی اجازت کے اسکے قریب ہونے کی جرأت نہیں کرتا تھا,بسا اوقات وہ بڑی ہیبت اوررعب ودبدبہ کا مالک رہا ہوگا,لیکن وہ موت کے بعد ایک پڑا ہوا جسم ہے جس میں کوئی حرکت نہیں,غسل دینے والا جیسے چاہتا ہے الٹ پلٹ کرتا ہے-
مکحول دمشقی جب کوئی جنازہ دیکھتے توفرماتے کہ تم چلو ہم تمہارے بعد آنے والے ہیں ,کتنی ہی مؤثرنصیحت ہے اورکتنی بڑی غفلت ,اگلا جا رہا ہے لیکن پچھلے شخص کو سمجھ نہیں آرہی ہے.
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی جنازے کے ساتھ جاتے توقبرکے پاس کھڑے ہوتے اورروپڑتے ,آپ سے کہا گیا کہ جنت وجہنم کا تذکرہ کرتے ہیں تونہیں روتے اورجب قبرکے پاس کھڑے ہوتے ہیں توروپڑتے ہیں ,کہا:میں نے رسول صلى اللہ علیہ وسلم کوفرماتے ہوئے سنا ہے:
"قبرآخرت کی پہلی منزل ہے ,قبرمیں جانے والا اگراس سے نجات پاگیا تواسکے بعد کے مراحل اورآسان ہوں گے,اوراگراس سے نجات نہیں پاسکا تواسکے بعد کے مراحل اورسخت ہوں گے" اسے امام احمد,ترمذی,ابن ماجہ اورحاکم نے روایت کیا ہے,نیزترمذی نے اسے حسن اورحاکم نے صحیح قراردیا ہے-

د- صالحین سے ملاقات:

صالحین سے ملاقات دلوں کوبیدارکرتی اورعزم وہمت پیداکرتی ہے ,کیونکہ ملاقات کرنے والا صالحین کودیکھتا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت وبندگی میں بڑی جدوجہد کرتے ہیں, انکا مقصد صرف اللہ کی رضا مندی اورجنت کا حصول ہے, دنیا کے پیچھے پڑنے اوردنیاوی امورمیں مشغول ہونے سے اعراض کرتے ہیں, کیونکہ دنیا اس عظیم راستہ پرچلنے سے مانع ہے, اوراللہ تعالى نے اپنے نبی کویہ رہنمائی فرمائی ہے کہ وہ اپنے آپ کو صالح بندوں کے ساتھ رکھا کریں  ,ارشاد ہے:
{وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلَا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلَا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِكْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا} (سورة الكهف : 28)
"اوراپنے آپ کوانہیں کے ساتھ رکھا کرجواپنے پروردگارکوصبح وشام پکارتے ہیں اوراسی کے چہرے کا ارادہ رکھتے (رضامندی چاہتے ) ہیں ,خبردار! تیری نگاہیں ان سے نہ ہٹنے  پائیں کہ دنیوی زندگی کے ٹھا ٹھ کے ارادے میں لگ جائیں ,اوراسکا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکرسے غافل کردیا ہے اورجواپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اورجسکا کام حد سے گزرچکا ہے-
حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اے ابوسعید! ہم کیا کریں؟ کیا ایسی قوموں کے پاس بیٹھیں جوہم کوخوف دلاتے رہیں یہاں تک کہ ہمارے دل اڑنے لگیں ؟ فرمایا:اللہ کی قسم ! اگرتم ایسی قوم کے ساتھ اٹھوبیٹھو جوتمہیں خوف دلاتے رہیں یہاں تک کہ تمہیں امن حاصل ہوجائے ,تووہ تمہارے لئے اس سے بہترہے کہ تم ایسی قوم کے ساتھ رہو جو تم کو اطمینان دلاتے رہیں یہاں تک کہ تمہیں خوف لاحق ہوجائے-

3-معصیت سے محبت اوراسکا عادی ہوجانا :

جب انسان کسی گناہ سے مانوس ہوجائے اوراس سے توبہ نہ کرے توشیطان اسی گناہ کے ذریعہ اسکے دل پرقابض ہوجاتا ہے ,اورخود یہ گناہ اسکی زندگی کے آخری لمحہ تک اسکی فکرپرغالب رہتا ہے ,اسی لئے جب اسکے قرابت داراسکوکلمئہ شہادت کی تلقین کرتے ہیں تاکہ کلمہ لا الہ الا اللہ اسکا آخری کلام ہو, تویہی گناہ اسکی فکرپرغالب آجاتا ہے ,پھروہ شخص ایسی بات بولتا ہے جس سے اسکے معصیت میں مبتلا ہونے کا پتہ چلتا ہے –
ذیل میں ہم چند واقعات درج کرتے ہیں :
ایک آدمی بازارمیں دلالی کاکا م کرتا تھا,جب اسکی وفات کا وقت آیا تواسکے لڑکوں نے اسکو کلمہ شہادت کی تلقین کی ,وہ لوگ اس سے کہتے کہ لا الہ الا اللہ پڑھو,تووہ کہتا ساڑھے چار,ساڑھے چار-
اورایک دوسرے آدمی سے وفات کے وقت کہا گیا کہ لا الہ الا اللہ پڑھو,تواس نے یہ شعرپڑھا:
يارب قائلة يوما وقد تعبت
کيف الطريق إلى حمام منجاب
ایک دوسرے شخص کووفات کے وقت لا الہ الا اللہ کی تلقین کی گئی تووہ گانا گانے لگا-
بسا اوقات انسان کی موت نافرمانی کی حالت میں آپہنچتی ہے تووہ اللہ کو غصہ دلانے والی اسی حالت میں اللہ سے ملاقات کرتا ہے ,نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جوشخص جس حالت پرمرے گا اللہ تعالى اسے اسی حالت پراٹھائے گا"اس حدیث کو حاکم نے روایت کیا ہے اورمسلم کی شرط پرصحیح قراردیا ہے اورذہبی نے حاکم کی تصحیح کی تائید کی ہے-

4-خودکشی:

مسلمان کوجب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اوروہ صبرواحتساب سے کام لیتا ہے تویہ معصیت اسکے لئے باعث اجرہوتی ہے,لیکن اگروہ جزع وفزع کرتا ہے اوریہ سمجھتا ہے کہ ان امراض ومشاکل سے چھٹکارا حاصل کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ خودکشی کرلے, تواسنے گناہ کوترجیح دی, اللہ کے غضب کی طرف جلدی کی اوراپنے نفس کوناحق قتل کیا-
امام بخاری نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جوشخص اپنا گلا گھونٹ کرمرے گا توجہنم میں بھی گلا گھونٹتا رہے گا ,اورجوشخص اپنے آپ کونیزہ مارکرہلاک کرے گا توجہنم میں بھی نیزہ مارتا رہے گا"-
نیزبخاری ومسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ خیبرکی لڑائی میں ایک آدمی رسول صلى اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے,آپ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں , جواسلام کا دعوى کررہا تھا,فرمایا کہ وہ جہنمی ہے,جب لڑائی ہوئی تواس شخص نے زوردارلڑائی کی یہاں تک کہ زخمی ہوگیا ,تواس شخص کے بارے میں رسول صلى اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اے اللہ کے رسول ! جس کے بارےمیں آپ نے ابھی ابھی جہنمی کہا تھا آج کے دن زبردست لڑائی کی یہاں تک کہ مرگیا ,نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جہنمی ہے ,قریب تھا کہ بعض مسلمان شک کرنے لگیں,اسی درمیان اس شخص کے بارے میں معلوم ہواکہ ابھی مرا نہیں ہے لیکن بہت زیادہ زخمی ہے ,جب رات ہوئی توزخموں کی تاب نہ لا کراس نے خود کشی کرلی, نبی صلى اللہ علیہ وسلم کواسکی خبردی گئی توآپ نے فرمایا:
"اللہ اکبر,میں گواہی دیتا ہوں کہ یقیناَ میں اللہ کا بندہ اوراسکا رسول ہوں ,پھرآپ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ جنت میں صرف مسلم نفس داخل ہوگی,لیکن اللہ تعالى اس دین کوفاجرشخص کے ذریعہ بھی تقویت دیتا ہے" (صحیح بخاری وصحیح مسلم)

حسن خاتمہ کی علامات

نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے ان بشارتوں کوواضح فرمادیا ہے جواچھے خاتمہ پردلالت کرتی ہیں ,بندے کی وفات جب ان میں سے کسی حالت پرہوتووہ ایک اچھی فال اوربہترین خوشخبری ہوگی-

1-مرتے وقت بندے کا کلمہ توحید پڑھنا:

مستدرک حاکم میں معاذبن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس کا آخری کلام لا إلہ الا اللہ ہوتووہ جنت میں داخل ہوگا" اسے ابوداؤد اورحاکم نے روایت کیا ہے اورحاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے-

2- اللہ کے کلمہ کی سربلندی کیلئے شہادت کی موت:

اللہ تعالى کا ارشاد ہے:
{وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُواْ بِهِم مِّنْ خَلْفِهِمْ أَلاَّ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ {يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللّهَ لاَ يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ} (سورة آل عمران  :169-171)
"جولوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے ہیں ان کوہرگزمردہ نہ سمجھیں ,بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دئے جاتے ہیں, اللہ تعالى نے اپنا فضل جوانہیں دے رکھا ہے اس سے بہت خوش ہیں ,اورخوشیاں منارہے ہیں ان لوگوں کی بابت جواب تک ان سے نہیں ملے ان کے پیچھے ہیں,اس پرکہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ غمگین ہوں گے,وہ خوش ہوتے ہیں اللہ کی نعمت اورفضل سے ,اوراس سے بھی کہ اللہ تعالى ایمان والوں کے اجرکوبرباد نہیں کرتا"-

3-غزوہ کرتے ہوئے یا حج میں احرام کی حالت میں مرنا:

نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جواللہ کے راستہ میں قتل کیا گیا وہ شہید ہے ,اورجواللہ کے راستہ میں مرگیا وہ بھی شہید ہے"(صحیح مسلم ومسند احمد)
نیزرسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس محرم کے بارے میں فرمایا جسے اس کی اونٹنی نے گراکرمارڈالا تھا:
"اسے پانی اوربیرکے پتے سے غسل دواوراسکے دونوں کپڑوں ہی میں کفن دو اوراسکے سرکونہ ڈھکو,کیونکہ قیامت کے دن وہ تلبیہ پکارتا ہوا اٹھے گا"(صحیح مسلم)

4-مرنے والے کا آخری عمل اللہ کی اطاعت ہو:

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس نے اللہ کی رضامندی چاہتے ہوئے لا الہ الا اللہ کہا اوراسی پراسکا خاتمہ ہوا تووہ جنت میں داخل ہوا ,اورجس نے اللہ کی رضامندی چاہتے ہوئے کسی دن روزہ رکھا اوراسی پراسکا خاتمہ ہوا تووہ جنت میں داخل ہوا,اورجس نے اللہ کی رضامندی چاہتے ہوئے کوئی صدقہ کیا اوراسی پراسکا خاتمہ ہواتووہ جنت میں داخل ہوا"(مسند احمد)

5-ضروریات خمسہ کے دفاع میں مرنا:

ضروریات خمسہ یعنی دین ,نفس ,مال,آبرواورعقل کے دفاع میں مرنا جن کی خودشریعت اسلامیہ نے حفاظت کی ہے,یہ بھی حسن خاتمہ کی ایک علامت ہے ,چنانچہ حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جواپنے مال کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے ,جواپنے اہل کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے,جواپنے دین کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے اورجواپنی جان کی حفاظت میں قتل ہوا وہ شہید ہے"(سنن ابی داؤد وسنن ترمذی)

6- کسی وبائی مرض میں صبرکرتے ہوئے اورثواب کی امید رکھتے ہوئے مرنا:

نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے بعض وبائی بیماریوں کی وضاحت فرمائی ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
الف-طاعون: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"طاعون کی بیماری میں مرنا ہرمسلمان کے لئے شہادت ہے"(صحیح بخاری ومسند احمد)
ب- سل: حضرت راشدبن حسیش رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلى اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
"مسلمان کا قتل ہوجانا شہادت ہے ,طاعون کی بیماری میں مرنا شہادت ہے ,عورت کازچکی کی حالت میں مرجانا شہادت ہے اورسل کی بیماری میں مرنا شہادت ہے "(مسنداحمد)
ج- پیٹ کی بیماری: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے" (صحیح مسلم)
و- ذات الجنب : جابربن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے" یہ حدیث آئندہ سطورمیں کامل آرہی ہے-

7-عورت کا بچہ کی وجہ سے نفاس کی حالت میں مرنا:

عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"عورت جوزچگی کی حالت میں بچہ کی وجہ سے مرجائے وہ شہید ہے ,اسکا بچہ اپنے ناف کے ذریعہ اسے جنت میں لے جائے گا" (مسند احمد)

8-ڈوب کر,جل کراوردب کرمرنا:

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"شہداء پانچ ہیں : طاعون کی بیماری میں مرنے والا,پیٹ کی بیماری میں مرنے والا,ڈوب کرمرنے والا,دب کرمرنے والااوراللہ کے راستہ میں شہادت پانے والا"(سنن ترمذی وصحیح مسلم)
اورجابربن عتیک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"اللہ کے راستہ میں شہید ہونے والے کے علاوہ شہیدکی سات قسمیں ہیں: طاعون کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے ,ڈوب کرمرنے والا شہید ہے,ذات الجنب کی بیماری میں مرنے والا شہیدہے,پیٹ کی بیماری میں مرنے والا شہید ہے,جل کرمرنے والا شہید ہے,دب کرمرنے والا شہید ہے اورحالت زچکی میں مرنے والی عورت شہید ہے" اسے امام احمد ,ابوداؤد ,نسائی اورحاکم نے روایت کیا ہے اورحاکم نے اسے صحیح الاسناد بتایا ہے اورذہبی نے ان کی تائید کی ہے –

9-جمعہ کی رات یا جمعہ کے دن مرنا:

عبد اللہ بن عمرورضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"جس مسلمان کی موت جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات میں ہواللہ تعالى اسکوقبرکے عذاب سے بچالے گا"(مسند احمد وسنن ترمذی)

10-موت کے وقت پیشانی کا عرق ریزہونا :

حضرت بریدہ,حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"موت کے وقت مومن کی پیشانی عرق ریزہوتی ہے"(سنن ترمذی وسنن نسائی)-

حسن خاتمہ کے اسباب ووسائل

اس ملاقات کے اخیرمیں ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ہم ان وسائل کا مختصراً ذکرکردیں جن کواللہ نے حسن خاتمہ کا سبب قراردیا ہے:
أ‌- ظاہروپوشیدہ ہرحال میں اللہ سے ڈرنا اورنبی صلى اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کومضبوطی سے پکڑنا ,کہ یہی نجات وکامیابی کی را ہ ہے ,اللہ تعالى نے فرمایا:
{يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلاَ تَمُوتُنَّ إِلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ} (سورة آل عمران:102)
"اے ایمان والو! اللہ سے اتنا ڈرو جتنا اس سے ڈرنا چاہئے اوردیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا"-
اوریہ کہ بندہ گناہوں سے انتہائی دوررہے ,کیونکہ کبیرہ گناہ ہلاک کردینے والے ہیں ,اورصغیرہ گناہ پراصرارومداومت انہیں کبیرہ بنادیتی ہے, اورچھوٹے چھوٹے صغیرہ گناہ زیادہ ہوجائیں اوران سے توبہ واستغفارنہ کیا جائے توان سے دل زنگ آلود ہوجاتا ہے ,رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
"چھوٹے چھوٹے گناہوں سے بچتے رہو, ان کی مثال اس قوم کی ہے جنہوں نے کسی وادی میں پڑاؤڈالا,توایک شخص ایک تنکا لایا اوردوسرا شخص دوسراتنکا,یہاں تک کہ انہوں نے اپنی روٹی پکالی, اورچھوٹے چھوٹے گناہوں پراگربندے کا مؤاخذہ ہوجائے تویہ اسے ہلاک کردیں گے"(مسند احمد)-
ب‌- اللہ کے ذکرپرمداومت : جوشخص اللہ کے ذکرپرمداومت کرے اوراپنے سارے اعمال اللہ کے ذکرپرختم کرے اوردنیا میں اسکا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہو,تواسے نبی کریم صلى اللہ علیہ وسلم کی یہ بشارت حاصل ہوجائے گی:
"جس کا آخری کلام لا الہ الا اللہ ہووہ جنت میں داخل ہوگا" اس حدیث کوابوداؤد اورحاکم نے روایت کیا ہے اورحاکم نے اسے صحیح قراردیا ہے اورذہبی نے حاکم کی تصحیح کی تائید کی ہے-
اورسعید بن منصورسے روایت ہے ,وہ حسن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا:
" جب تمہاری موت آئے توتمہاری زبان اللہ تعالى کے ذکرسے ترہو"-
اے اللہ! ہمارا بہترین عمل آخری عمل بنا,اوربہترین دن تیری ملاقات کا دن ہو, اورہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں کے ساتھ اپنی جنت اورجواررحمت میں جگہ دے,آمین-وصلی الله وسلم على نبينا محمد وعلى آله وصحبه-

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User