Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Thursday, April 14, 2011

رمضان المبارک -- فضائل، احکام و مسائل

رمضان المبارک -- فضائل، احکام و مسائل


کامران طاہر
فرضیت روزہ
رمضان کامہینہ مسلمانوں پرعطیہ خداوندی ہے۔اس کے تمام تراَحکامات اور حدود و قیود شارع کی حکمت بالغہ کی آئینہ دار اور یقینا اس کے پیداکردہ بندوں کے حق میں بہتر ہیں تبھی تو رب العالمین نے اس پرُانوار مہینے کے روزوں کو اپنے بندوں پرفرض قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

﴿ياَيهَا الَّذِينَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَيکُمُ الصِّيامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِينَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ (البقرہ:۱۸۴)

''اے ایمان والو ! تم پرروزے فرض کردیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے اُمتوں پر تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔''

گویا یہ صرف اُمت محمدیہ پر ہی نہیں بلکہ دوسری اُمتوں پربھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض تھا۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيصُمْهُ﴾ (البقرہ:۱۸۵)

''تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ اس کے روزے رکھے۔''
سیدنا ابن عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

''اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پررکھی گئی ہے اللہ کے ایک ہونے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رسول ہونے کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔''(صحیح بخاری:۸)

فضیلت رمضان و صائم

رمضان کامہینہ وہ بابرکت اَوقات کا پیریڈ ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی تمام تر برکات کا نزول ہورہا ہوتا ہے اور بندہ اس مہینہ کے اَحکامات پر عمل کرکے اپنے خالق سے ان رحمتوں کو حاصل کرسکتا ہے۔اس مہینہ کی فضیلت میں یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مہینہ میں قرآن نازل فرمایا ہے۔ قرآن میں ہے:

﴿شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَينٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ﴾ (البقرہ:۱۸۵)

''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو لوگوں کے لیے باعث ہدایت ہے اور اس میں ہدایت کی اور (حق و باطل کے درمیان) فرق کرنے کی نشانیاں ہیں۔''

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[أتاکم رمضان شهر مبارک فرض اﷲ عزوجل عليکم صيامه تفتح فيه أبواب الجنة وغلقت أبواب الجحيم وسلسلت الشياطين]

''تمہارے پاس رمضان کا مہینہ آ پہنچا اور وہ بابرکت مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے تم پر اس کے روزے فرض فرمائے ہیں اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور اس میں شیطان جکڑ دیئے جاتے ہیں۔'' (سنن نسائی:۲۱۰۶)

دوسری روایت میں ہے:

[إذا دخل رمضان فُتحت أبوابُ الجنة وغلّقت أبواب جهنم وسُلْسلتُ الشياطين] (صحيح بخاری:۳۲۷۷)

''جب رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔''

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[الصلوات الخمس والجمعة إلی الجمعة ورمضان إلی رمضان مکفرات ما بينهن إذا اجتنب الکبائر] (صحيح مسلم:۲۳۳)

''پانچوں نمازیں اور ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک اور ایک رمضان دوسرے رمضان تک گناہوں کو مٹا دینے والے ہیں جب کہ کبیرہ گناہوں سے بچا جائے۔''

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ إن ﷲ تبارک وتعالیٰ عتقاء فی کل يوم وليلة يعني في رمضان وإن لکل مسلم فی کل يوم وليلۃ دعوۃ مستجابة] (الترغيب والترهيب:۱۰۰۲)

''بے شک اللہ تعالیٰ (رمضان میں) ہر دن اور ہررات بہت سے لوگوں کو جہنم سے آزاد کرتا ہے اور ہردن اور ہررات ہر مسلمان کی ایک دعا قبول کی جاتی ہے۔''

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری خاتون کو فرمایا:

[فإذا جاء رمضان فاعتمری فإن عمرۃ فيه تعدل حجة] (صحيح مسلم:۱۲۵۶)

''جب رمضان کا مہینہ آجائے تو تم اس میں عمرہ کرلینا، کیونکہ اس میں عمرہ حج کے برابر ہوتا ہے۔''

فرمان خداوندی ہے:

﴿إنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِينَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِينَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِينَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِينَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِينَ وَالصّٰٓئِمٰتِ وَالْحٰفِظِينَ فُرُوْجَهُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَالذّٰکِرِينَ اﷲَ کَثِيرًا وَّالذّٰکِرٰتِ أعَدَ اﷲُ لَهُمْ مَغْفِرَۃً وَّأجْرًا عَظِيمًا﴾ (الاحزاب:۳۵)

''بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ، مومن مرد مومن عورتیں،فرمانبرداری کرنے والے مرد اور فرمانبرداری کرنے والی عورتیں،سچ بولنے والے مرد اور سچ بولنے والی عورتیں،صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں،اور عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں،خیرات دینے والے مرد، خیرات دینے والی عورتیں، روزہ رکھنے والے مرد اورروزہ رکھنی والی عورتیں اور نگہبانی رکھنے والے شرمگاہ اپنی کی اور نگہبانی کرنے والیاں اور یاد کرنے والے اللہ کو بہت زیادہ اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیارکررکھا ہے۔''

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ قال اﷲ عزّ وجل کل عمل ابن آدم يضاعف الحسنة بعشر أمثالها إلی سبعمائة ضعف إلا الصوم فإنه لي وأنا أجزي به يدع شهوته وطعامه من أجلی] (صحيح مسلم:۱۱۵۱)

''اللہ عزوجل فرماتے ہیں:ابن آدم کا ہر (نیک) عمل کئی گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر حتیٰ کہ سات سو گنا تک بڑھا دی جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:سوائے روزے کے جوکہ صرف میرے لیے ہوتا ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، کیونکہ وہ میری وجہ سے اپنی شہوت اور اپنے کھانے کو چھوڑتا ہے۔''

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[للصائم فرحتان:يفرحهما إذا أفطر فرح وإذا لقي ربه فرح بصومہ]

''روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطاری کے وقت اور دوسری جب اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرے گا تو روزہ کا ثواب دیکھ کر ۔ '' (صحیح بخاری:۱۹۰۴)

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[إن في الجنة بابا يقالله الرَّيان يدخل منه الصائمون يوم القيامة لا يدخل منه أحد غيرهم يقال: أين الصائمون فيقومون لا يدخل منه أحد غيرهم فإذا دخلوا أغلق فلم يدخل منه أحد] (صحيح بخاری:۱۸۹۶)

''بے شک جنت میں ایک دروازہ ہے جسے الـرَّیان کہا جاتا ہے اس سے قیامت کے دن صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے اور ان کے علاوہ کوئی اور اس سے داخل نہیں ہوگا اور پکار کر کہا جائے گا: کہاں ہیں روزے دار؟ تو وہ کھڑے ہوجائیں گے اور اس کے علاوہ اور کوئی اس سے جنت میں داخل نہیں ہوگا اور جب وہ سب کے سب جنت میں چلے جائیں گے تو اس دروازے کو بند کردیا جائے گا۔''

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ والذی نفس محمد! بيدہ لخلوف فم الصائم أطيب عند اﷲ من ريح المسک] (صحيح بخاری:۱۹۰۴)

''اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے، روزہ دار کے منہ کی بدبو اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ اچھی ہے۔''

اِستطاعت کے باوجود روزہ نہ رکھنے والالعین ہے:

سیدناکعب بن عجرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

میرے منبر کے قریب آجاؤ ہم لوگ چلے آئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر کی پہلی سیڑھی چڑھے تو فرمایا:آمین،دوسری پرچڑھے تو فرمایا:آمین،تیسری پر چڑھے تو فرمایا: آمین، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے تو ہم نے عرض کی!اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آج آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خلافِ معمول آمین سنی ہے، پہلے کبھی اس طرح نہیں سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[إنَّ جبريل عليه الصلاۃ والسلام عرض لي فقال بعدًا لمن أدرک رمضان فلم يغفرله قلت: [أمين] فلما رقيت الثانية قال:بعدًا لمن ذکرت عندہ فلم يصل عليک قلت: [أمين]،فلما رقيت الثالثة قال بعدا لمن أدرک أبواہ الکبر عندہ أو أحدهما فلم يدخلا الجنة قلت:[أمين] (مستدرک حاکم:۴؍۱۵۴)

''بے شک (جب میں پہلی سیڑھی چڑھا) تو حضرت جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام میرے پاس آکر بددعا کرنے لگے: وہ شخص رحمت الٰہی سے دور ہوجائے جورمضان کامہینہ پالے پھر اس کی بخشش نہ ہو۔ میں نے کہا آمین۔ جب میں دوسری سیڑھی پر چڑھا تو جبریل نے کہا وہ شخص رحمت الٰہی سے دور ہو جس کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا جائے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پردرود نہ بھیجے، میں نے کہا آمین اور جب تیسری سیڑھی پر چڑھاتو جبریل نے پھر بددعا کی کہ وہ شخص رحمت الٰہی سے دور ہو جس کے سامنے اس کے ماں اور باپ دونوں کو یا ایک کو بڑھاپا پہنچا اور انہوں نے اسے جنت میں داخل نہ کرایاتو میں نے کہاآمین۔''

روزہ کے مسائل و اَحکام

چاند دیکھنا

رمضان کامہینہ جب شروع ہو تو روزوں کی ابتدا کی جائے اور اُمت کے لیے شارع نے یہ ضابطہ دیا ہے کہ جب ماہ رمضان کا چاند نظر آجائے تب روزے رکھنا شروع کیا جائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[لا تصوموا حتی تروا الهلال ولا تفطروا حتی تروه] (صحيح بخاری:۱۹۰۶)

''اس وقت تک روزہ کا آغاز نہ کرو جب تک چاند نہ دیکھ لو اور نہ ہی روزے ختم کرو جب تک (شوال کا) چاند نظر نہ آجائے۔''

چاندنظر نہ آنے کی صورت میں

اگر مطلع آبرآلود ہو جس کی وجہ سے چاند دیکھنے میں رکاوٹ آرہی ہو تو ان حالات میں شارع نے یہی حکم دیا ہے کہ شعبان کے تیس دن پورے کرلیے جائیں اور یکم رمضان سے روزہ شروع کردیا جائے۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[صوموا لرؤيته وأفطروا لرؤيته فإن غبی عليکم فأکملوا عدۃ شعبان ثلاثين] (صحيح بخاری:۱۹۰۹)

''(ماہ رمضان) کا چاند دیکھ کر روزے شروع کرو اور (شوال کا) چاند دیکھ کر اسے ختم کرو اگر تم پر مطلع ابر آلود ہو تو شعبان کے مہینے کے تیس دن پورے کرلو۔''

مطلع ابر آلود ہونے کے باعث چاند نہ دیکھنے کی وجہ سے رمضان کے شروع یا اختتام کے تعین میں شک پڑ جاتا ہے لہٰذا اس تردد کی کیفیت میں شارع نے شک کاروزہ رکھنے سے منع فرما دیا ہے۔

سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[من صام اليوم الذی يشک فيه فقد عصی أبا القاسم] (سنن ترمذی:۶۸۶)

''جس نے شک کے دن کا روزہ رکھا اس نے ابوالقاسم (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نافرمانی کی۔''

چاند دیکھنے کی گواہی

چاند دیکھنے میں دو گواہیاں ضروری ہیں۔ حضرت عبدالرحمن بن زیدؓکہتے ہیں، مجھے صحابہ کرامؓ نے بیان کیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[ وإن شهد شاهدان مسلمان فصوموا وأفطروا له] (سنن نسائی:۲۱۱۶، مسنداحمد:۴؍۳۲۱)

لیکن چاند دیکھنے کی ایک گواہی سے روزہ رکھنا بھی ثابت ہے ، جیساکہ ایک حدیث میں ہے:

سیدناعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ لوگوں نے رمضان کا چاند دیکھنا شروع کیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی کہ میں نے چاند دیکھ لیا ہے تو(میری اطلاع پر)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی روزہ رکھا اور لوگوں کوبھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (سنن ابوداؤد:۲۳۴۲)

فرض روزہ کے لیے نیت کرنا ضروری ہے

روزہ چونکہ ایک عبادت ہے تو ہرعبادت کے لیے خلوصِ نیت ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[إنما الأعمال بالنيات] (صحیح بخاری:۱) ''اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔''

فرض روزہ رکھنے کے لیے روزہ کی نیت کا پہلے ہونا ضروری ہے۔ حضرت حفصہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[من لم يجمع الصيام قبل الفجر فلا صيام له] (سنن ابوداؤد:۲۴۵۴)

''جس نے فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں ہے۔''

فجر کے بعد روزہ کی نیت کرنا

البتہ نفل روزہ میں نیت فجر کے بعد بھی کی جاسکتی ہے جیسا کہسیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ

''ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی چیز ہے؟ہم نے کہا نہیں،یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [فإنی إذن صائم]تب میں روزہ دار ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دوسرے دن ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمیں حلوہ ہدیہ دیا گیاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أرینہ فلقد أصبحت صائما] فأکل مجھے بھی حلوہ دکھاؤ بے شک میں نے روزے کی حالت میں صبح کی ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلوہ کھا لیا۔'' (صحیح مسلم:۱۱۵۴)

نوٹ:روزہ کی نیت کے لیے وَبِصَوْمِ غَدٍ نَوَيتُ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ کے مروّج الفاظ کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔

سحری کھانا

اللہ تعالیٰ نے سحری کے کھانے میں برکت رکھی ہے۔

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ  سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[تسحروا فإنّ فی السحور برکة] (صحيح بخاری:۱۹۲۳)

''سحری کھاؤ ،کیونکہ اس کے کھانے میں برکت ہے۔''

اور فرمایا:

[السحور کلہ برکۃ فلا تدعوہ ولو أن یجرع أحدکم جرعۃ من ماء فإن اﷲ عزوجل وملائکتہ یصلون علی المتسحرین](الترغیب والترہیب:۱۰۷۰(

''سحری پوری کی پوری برکت ہے اس لیے اسے مت چھوڑا کرو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پررحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے ان کے لیے دعا کرتے ہیں۔''

سحری کا وقت

رات کے آخری حصہ میں فجر کی اذان تک سحری کا وقت ہے، لیکن صحابہ کا عمل تھاکہ وہ سحری کو تاخیر سے کھاتے تھے۔

*سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ :میں اپنے گھر والوں کے ساتھ سحری کھاتا پھر جلدی جلدی آتا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لوں۔ (صحیح بخاری:۱۹۲۰(

* اسی طرح حضرت زید بن ثابتؓ کہتے ہیں: ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کرتے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی طرف چلے جاتے۔

سیدنا انسؓ کہتے ہیں: ''میں نے پوچھا اذان اور سحری کے درمیان کتنا وقفہ ہوتا تھا؟ تو انہوں نے کہا: جتنے وقت میں پچاس آیات تلاوت کرلی جائیں۔'' (صحیح بخاری:۱۹۲۱(

غسل واجب ہونے کی صورت میں سحری کرنا

اگر غسل واجب ہو اور سحری کا وقت کم ہو تو وضو کرکے سحری کھائی جاسکتی ہے۔

سیدناابوبکر بن عبدالرحمن ؓ سے روایت ہے کہتے ہیں میں اور میرے والد عائشہؓ کے پاس حاضر ہوئے۔ آپؓ نے فرمایا: میں گواہی دیتی ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور (غسل کیے بغیر) روزہ رکھتے۔ پھر ہم اُم سلمہ کے پاس آئے تو انہوں نے بھی یہی بات کی۔ (صحیح بخاری:۱۹۳۱،۱۹۳۲(

صائم ان قباحتوں سے دور رہے

* آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[من لم یدع قول الزور والعمل بہ فلیس ﷲ حاجۃ أن یدع طعامہ وشرابہ]

''جو شخص جھوٹی بات اور اس پر عمل کونہیں چھوڑتاتو اللہ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑ دے۔''(صحیح بخاری:۱۹۰۳(

* سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[إن الصیام لیس من الأکل والشرب فقط إنما الصیام من اللغو والرفث فإن سابک أحد أو جھل علیک فقل:إنی صائم ] (ابن حبان:۳۴۷۰(

''روزہ صرف کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ روزے کی حالت میں بے ہودگی اور بے حیائی کو چھوڑنا بھی روزے میں شامل ہے۔ پس اگر تمہیں کوئی شخص گالی دے یا بدتمیزی کرے تو تم کہو: میں تو روزے کی حالت میں ہوں، میں تو روزے کی حالت میں ہوں۔''

نواقض روزہ

1.   جان بوجھ کر کھانا پینا:روزہ چونکہ ایک خاص وقت تک نہ کھانے پینے کا دورانیہ ہوتاہے لہٰذا ان کے نواقض میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر قصداً کوئی چیز کھا یا پی لی جائے تو اس سے روزہ باطل ہوجائے گا۔

سیدناابوہریرہؓ سے مروی ہے کہآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[والذي نفسي بیدہ لخلوف فم الصائم أطیب عند اﷲ من ریح المسک یترک طعامہ وشرابہ وشھوتہ من أجلي] (صحیح بخاری:۱۸۹۴(

''اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ (اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کیونکہ) روزہ دار میرے لیے اپناکھانا پینا اور خواہش نفس ترک کرتا ہے۔''

اس سے پتہ چلا کہ روزہ دار طلوع فجر سے غروب آفتاب تک کھانا پینا بند کردے گا۔

2.   جماع کرنا:اگر کوئی شخص حالت روزہ میں اپنی بیوی سے قصداً جماع کربیٹھتا ہے تو اس کا روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس میں اسے کفارہ بھی دینا پڑے گا۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ

ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ہلاک ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا:کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ میں حالت روزہ میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہوں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیاتم ایک غلام آزاد کرنے کی استطاعت رکھتے ہو؟اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تم دو ماہ مسلسل روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہو؟ اس نے کہا نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم اتنی استطاعت رکھتے ہو کہ ساٹھ مسکینوں کو کھاناکھلا سکو؟ اس نے کہا نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔ اسی اثنا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ سوال کرنے والاکہاں ہے؟سائل نے کہا ، میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہاکہ یہ کھجوریں لو اور جاکر انہیں صدقہ کردو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! بھلا اپنے سے زیادہ کسی فقیر پر صدقہ کروں۔ یہاں دو پہاڑوں کے درمیان تو کوئی گھرانہ ایسا نہیں جو میرے گھرانے سے زیادہ محتاج ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں نظر آنے لگیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ یہ کھجوریں اپنے گھر والوں کوکھلادو۔'' (صحیح بخاری: ۱۹۳۶(

3.   حیض و نفاس:روزہ کی حالت میں عورت کو حیض یانفاس کا خون آجائے تو روزہ باطل ہوجائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں روزہ رکھنے سے منع فرمایا ۔

* سیدناابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ

'' ایک مرتبہ عیدالاضحی یا عیدالفطر کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا: [ ألیس إذا حاضت لم تصل ولم تصم] قلن:بلی(صحیح بخاری:۳۰۴) ''کیا ایسا نہیں کہ عورت ماہواری کے ایام میں نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے ؟ عورتوں نے کہا ہاں ایسا ہی ہے۔''

نوٹ:حالت ِحیض میں عورت کے لیے نمازیں معاف ہیں جبکہ روزوں کی قضائی دے گی۔

سیدہ عائشہ ؓ سے سوال کیا گیا کہ کیا حائضہ عورت نماز اور روزے کی قضا کرے گی؟ تو انہوں نے فرمایا: ہمیں روزوں کی قضا کرنے کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضا کرنے کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (صحیح مسلم:۳۳۵(

4.   قصداً قے کرنا:قصداً قے کرنے سے روزہ باطل ہوجاتا ہے۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[من ذرعہ قيء وھو صائم فلیس علیہ قضاء وإن استقاء فلیقض] (ابوداؤد:۲۳۸۰(

''جسے حالت روزہ میں خود بخود قے آجائے اس پر قضا نہیں (کیونکہ اس کا روزہ درست رہا) اور اگر کوئی قصداً قے کرے تو وہ روزے کی قضا دے (کیونکہ اس کا روزہ باطل ہوچکا(''

جن اُمور سے روزہ نہیں ٹوٹتا

* بھول کر کھانا پینا:حالت روزہ میں بھول کر کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[إذا نسي فأکل وشرب فلیتم صومہ فإنما أطعمہ اﷲ وسقاہ](صحیح بخاری: ۱۹۳۳(

* بے اختیار قے کا آنا:اگر قے خود بخود آجائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[من ذرعہ القيء وھو صائم فلیس علیہ قضاء] (سنن ابی داؤد:۲۳۸۰(

'' جسے حالت روزہ میں (خود بخود) قے آجائے وہ روزہ دار ہی ہے اس پر قضا نہیں۔''

* بغیر جماع کے اِنزال و احتلام ہونے سے:اگر روزہ دار کو نیند میں احتلام ہوجائے یا کسی بیماری کی وجہ سے اِنزال ہوجائے چونکہ یہ اس کے اختیار میں نہیں لہٰذا اس کا روزہ نہیں ٹوٹتا اور احتلام روزہ کے مفاسد میں سے نہیں ہے۔

* بیوی کا بوسہ لینے سے:اگر روزہ دار بیوی کا بوسہ لے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا۔

سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں:

''إن کان رسول اﷲ! لیقبل بعض أزواجہ وھو صائم''(صحیح بخاری:۱۹۲۸(

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں اپنی کسی بیوی کو بوسہ دے دیتے تھے۔''

اسی طرح حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی بیوی کابوسہ روزہ کی حالت میں لیا تو میں نے گھبرا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں آج بہت عجیب کام کربیٹھا ہوں۔ میں روزہ کی حالت میں بوسہ لے چکا ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیا خیال اگر تو روزہ کی حالت میں کلی کرے تو......(سنن ابوداؤد:۲۳۸۵) گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے برا نہ جانا۔

* غیر ارادی طور پر کسی چیز کا حلق سے اُترنا:غیر ارادی طور پر اگر روزہ کی حالت میں مکھی، مچھر یا کوئی چیز حلق سے اتر جائے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

حسن بصریؒ فرماتے ہیں: ''إن دخل حلقہ الذباب فلا شیئ علیہ''

) صحیح بخاری،کتاب الصوم،باب الصائم إذا أکل اؤ شرب ناسیا(

''اگر روزہ دار کے منہ میں مکھی داخل ہوجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔''

روزہ میں جائز اُمور

* مسواک کرنا:سیدنا عامر بن ربیعہؓ سے مروی ہے، کہتے ہیں:

میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو روزے کی حالت میں بے شمار مرتبہ مسواک کرتے دیکھا ہے۔

(صحیح بخاری، کتاب الصوم ، باب مسواک الرطب الیابس للصائم(

* ہنڈیا کا ذائقہ چکھنا:ہنڈیا پکانے والا اس کی نمک مرچ چکھ سکتا ہے۔بشرطیکہ وہ معدہ میں نہ جائے۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

''لا بأس أن یتطعم القدر أو الشئ (صحیح بخاری، کتاب الصوم،باب اغتسال الصائم) ''روزہ دار ہنڈیا یا کسی دوسری چیزکاذائقہ چکھ لے تو کوئی حرج نہیں۔''

* ٹوتھ پیسٹ ، منجن کا استعمال:روزہ کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ اور منجن کا استعمال جائز ہے، اور اس مسئلہ کی ابن عباسؓ کا مذکورہ فتوی ہی دلیل ہے۔

* غسل کرنا:شدت روزہ سے اگر روزہ دار غسل کرلیتا ہے تو جائز ہے۔ ابوبکر بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ مجھے کسی صحابی نے بیان کیا کہ

''لقد رأیت رسول اﷲﷺ بالعرج یصب علی رأسہ الماء وھو صائم من العطش من الحر'' (سنن ابوداؤد:۲۳۶۵(

''میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ روزہ کی حالت میں پیاس یاگرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی بہا رہے تھے۔''

* سرمہ لگانا:حضرت انسؓ ، حسن بصریؒ اور ابراہیم نخعیؒ سے ثابت ہے کہ وہ حالت روزہ میں سرمہ لگانے میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔(صحیح بخاری ،کتاب الصوم، باب اغتسال الصائم(

* کنگھی کرنا، تیل لگانا:سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں:

''إذا کان یوم صوم أحدکم فلیصبح دھینا مترجلا '' (ایضا(

''جب تم میں سے کوئی شخص روزہ سے ہو تو وہ صبح کے وقت تیل لگائے اور کنگھی کرے۔''

* خون نکلوانا:روزہ دار کو اگر کسی وجہ سے اپنے جسم سے خون نکالنا پڑے تو اس قدر نکال سکتا ہے جس سے اسے نقاہت یا کمزوری پیدا نہ ہوجائے۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے :

''أن النبی احتجم وھو محرم واحتجم وھو صائم'' (صحیح بخاری:۱۹۳۸(

''نبی صلی اللہ علیہ وسلم حالت اِحرام اور روزہ کی حالت میں پچھنے لگوا لیا کرتے تھے۔''

اس کے علاوہ صحابہ کرامؓ کا بھی یہ عمل رہا ہے کہ وہ پچھنے لگوایا کرتے تھے۔(صحیح بخاری، ایضاً(

نوٹ:حضرت رافع بن خدیج ؓسے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ أفطر الحاجم والمحجوم](ترمذی:۷۷۳) ''پچھنے لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا۔''

لیکن مذکورہ بالا جواز کی روایت اور اس روایت کے درمیان تطبیق یہ دی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور افراد کے لیے پچھنے کو ناپسند فرمایا ہے جیسا کہ حضرت انسؓسے پوچھا گیاکہ کیا آپ روزہ دار کے لیے پچھنے لگانے کو ناپسند کرتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا نہیں البتہ کمزور شخص کے لیے ہم ناپسند کرتے ہیں۔(صحیح بخاری:۱۹۴۰(

روزہ کی رخصت و قضا

* سفر میں روزہ کی رخصت:سفر میں روزہ رکھا اور چھوڑا جاسکتا ہے۔

سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

''إن حمزۃ بن عمرو الأسلمي قال للنبی! أأ صوم فی السفر؟وکان کثیر الصیام فقال:[ إن شئت فصم وإن شئت فأفطر] (صحیح بخاری:۱۹۴۳(

''حمزہ بن عمرو اسلمی بکثرت روزے رکھا کرتے تھے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا میں سفر میں روزہ رکھ سکتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر چاہو تو رکھ لو ورنہ نہ رکھو۔''

اسی طرح سفر کے دوران روزہ چھوڑا بھی جاسکتا ہے جیسا کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں:

کنا نسافر مع النبی! فلم یعب الصائم علی المفطر ولا المفطر علی الصائم(صحیح بخاری:۱۹۴۷(

''ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے چنانچہ روزہ رکھنے والے روزہ چھوڑنے والوں پراور نہ روزہ چھوڑنے والے روزہ رکھنے والوں پر اعتراض کرتے۔''

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (حالت سفر) میں روزہ رکھا بھی ہے اور روزہ چھوڑا بھی ۔ اس لیے تم میں سے جوچاہے (حالت سفر میں) روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ (صحیح بخاری:۱۹۴۸(

* بیماری اور بڑھاپے کے دوران:بیمار اپنی بیماری کی وجہ سے روزہ چھوڑ سکتا ہے اور جب تندرست ہوجائے تو ان کی قضا دے دے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ﴿فَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا أوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ أخَرَ﴾(البقرہ:۱۸۴)''پس جو مریض ہو یا مسافر ہو وہ دوسرے ایام میں روزے پورے کرے۔''دائمی مریض اور بوڑھے کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ صدقہ کے طور پر ایک مسکین کو تمام روزوں کے دنوں کاکھانا کھلا دے۔

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ

''وہ بوڑھا مرد یا عورت جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دے۔'' (صحیح بخاری:۴۵۰۵(

* حمل اور رضاع کے دوران:حاملہ اور مرضعہ کے لیے بھی روزہ میں رخصت ہے کہ وہ بعد میں اس کی قضا دیدے۔ حدیث میں ہے کہ

[إن اﷲ وضع شطر الصلاۃ أو نصف الصلاۃ والصوم عن المسافر وعن المرضع أو الحبلی] (سنن ابوداؤد:۲۴۰۸(

''اللہ تعالیٰ نے مسافر، دودھ پلانے والی اور حاملہ عورت کو آدھی نماز اور روزے کے سلسلہ میں رخصت دے دی ہے۔''

ملحوظ: روزہ:روزہ دار کو چاہیے کہ جب وہ نماز کے لیے وضو کرے تو کلی اورناک میں پانی ڈالتے وقت مبالغہ نہ کرے تاکہ پانی حلق میں نہ اُتر جائے۔ سیدنا لقیط بن صبرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! وضو کے بارے میں مجھے کچھ بتائیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وضو اچھی طرح سے کرو انگلیوں کے درمیان خلال کرو اور ناک میں اچھی طرح پانی ڈالو، لیکن اگر روزہ ہو تو پھر (مبالغہ) نہ کرو۔(سنن ترمذی:۷۸۸(

اِفطاری

* اِفطاری میں تعجیل:آفتاب غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرلینا چاہئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [لا یزال الناس بخیر ما عجلو الفطر] (صحیح بخاری:۱۹۵۷(

''جب تک لوگ جلدی افطاری کرتے رہیں گے وہ خیر کے ساتھ رہیں گے۔''

* اِفطاری کس چیز سے کی جائے:حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تازہ کھجوروں سے افطاری کرتے اگر تازہ کھجور نہ ملتی تو پرانی کھجوروں سے کرلیتے اور اگر پرانی کھجوریں بھی نہ ملتی تو پانی کے چند گھونٹ پی کرافطاری کرلیتے۔ (سنن ابوداؤد:۲۳۵۶(

* اِفطاری کی دعا:سیدنا عبداللہ بن عمرؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے:

[ذھب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء اﷲ] (سنن ابوداؤد:۳۳۵۷(

''پیاس بجھ گئی اور رگیں تر ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجربھی ثابت ہوگیا۔''

قیام رمضان اور اس کے احکام

قیام رمضان کے لیے تراویح، قیام اللیل، صلاۃ اللیل اورتہجد کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔جو رمضان میں جماعت کے ساتھ اور انفرادی دونوں طرح کیا جا سکتا ہے۔

* فضیلت قیام رمضان:قیام اللیل اس مہینہ میں کئے جانے والے خصوصی اعمال میں سے ایک عمل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ اس کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

سیدنا ابوہریرہؓ سے مروی ہے :

کان رسول اﷲ! یرغب في قیام رمضان من غیر أن یأمرھم فیہ بعزیمۃ فیقول: [من قام رمضان إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ]

''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم قیام رمضان کی ترغیب دیا کرتے تھے بغیر اس کے کہ آپ واجبی طور پرانہیں حکم دیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے جو کوئی ایمان کے ساتھ حصولِ ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کرے اس کے پچھلے گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔''            (صحیح مسلم:۷۵۹(

* قیام رمضان (تراویح) کا وقت:نماز تراویح کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے صبح فجر کی اذان تک ہے اور یہ اس دوران کسی بھی وقت پڑھی جاسکتی ہے۔

سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے :

''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم (رمضان کے مہینہ میں) ایک رات نصف شب کے وقت نکلے اور مسجد میں نماز پڑھنے لگے لوگ بھی آپ کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے پھر صبح کے وقت انہوں نے دوسرے لوگوں کوبھی بتایا چنانچہ (اگلی شب) پہلے سے زیادہ لوگ جمع ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز پڑھائی پھر صبح کے وقت انہوں نے (اور لوگوں کوبھی) بتایا چنانچہ تیسری رات پہلے سے بھی زیادہ لوگ جمع ہوگئے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور انہیں نماز پڑھائی پھر چوتھی رات اتنے لوگ جمع ہوچکے تھے کہ مسجدمیں پاؤں رکھنے کو جگہ نہ تھی (مگر اس رات قیام رمضان کے لیے نہ نکلے) بلکہ فجر کی نماز کے وقت نکلے اورنماز فجر کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر خطبہ دیا اور فرمایا [أما بعد فإنہ لم یخف علی مکانکم ولکنی خشیت أن تفرض علیکم فتعجزوا عنھا] مجھے تمہاری آمد کا علم ہوچکاتھا مگر میں اس لیے باہر نہ آیا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ کردی جائے اور پھرتم اسے اس طرح ادا نہ کرپاؤ، پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات تک لوگوں کو تراویح نہ پڑھائی۔(صحیح بخاری:۲۰۱۲(

مذکورہ بالا حدیث سے پتہ چلا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن نماز تراویح باجماعت پڑھائیں اور پھر اس ڈر سے کہ کہیں لوگوں پر مشقت کا باعث نہ بن جائے چوتھے دن نہ پڑھائیں۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ کے دور میں باقاعدہ نماز تراویح کا باجماعت اہتمام ہونے لگا۔

عبدالرحمن بن عبدالقاری کہتے ہیں کہ

میں حضرت عمرؓ کے ساتھ رمضان کی ایک رات مسجدمیں گیا۔ لوگ متفرق اور منتشر تھے۔ کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا اور کچھ لوگ کسی کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس پر عمرؓ نے فرمایا: میرا خیال ہے کہ اگر تمام لوگوں کو ایک ہی قاری کے پیچھے جمع کردیا جائے تو زیادہ اچھا ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے یہی قصد کرکے ابی بن کعبؓ کو ان سب کا امام بنا دیا پھر ایک رات آپ نکلے دیکھا لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز تراویح پڑھ رہے ہیں تو عمرؓ نے فرمایا:یہ اچھا ہے۔راوی کہتے ہیں کہ عمرؓ نے یہ بات اس لیے کی، کیونکہ لوگ رات کے اوّل حصے میں نماز تراویح پڑھ لیتے تھے۔ (صحیح بخاری:۲۰۱۰(

مذکورہ اَحادیث سے پتہ چلا کہ قیام رمضان کا اہتمام نماز عشاء کے بعد سے لے کر فجر کی اَذان تک کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے اگر اسے تاخیر سے پڑھا جائے تو یہ افضل ہے جیساکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل تھا۔

* نماز تراویح کی تعداد رکعات:نماز تراویح کی رکعات کی تعداد کے بارے صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عام طور پر گیارہ رکعات ثابت ہیں چونکہ یہ تہجد ہی کی نماز ہے اس لیے رمضان اور غیررمضان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اکثر معمول یہی رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعات ہی پڑھیں جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:ما کان النبی یزید في رمضان ولا فی غیرہ علی إحدی عشرۃ رکعۃ(صحیح بخاری:۱۱۴۷(

''نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یاغیر رمضان میں(بالعموم)گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔''

تراویح کا طریقہ:یہ دو دو رکعات کے ساتھ پڑھی جاتی ہے۔

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے کہ

''کان رسول اﷲ! یصلی فیما بین أن یفرغ من صلاۃ العشاء إلی الفجر إحدی عشرۃ رکعۃ یسلم بین کل رکعتین ویوتر بواحدۃ] (صحیح مسلم:۷۳۶(

''اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر فجر تک گیارہ رکعات پڑھا کرتے تھے اور آپؐ دو رکعتوں کے درمیان سلام پھیرتے اور ایک وتر پڑھتے۔''

نوٹ: بعض لوگ حضرت عمرؓ کے ایک اثر کو پیش کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں ۲۰ رکعات کاحکم دیاتھا۔بیس رکعات کے حکم والی روایات مستند نہیں۔بلکہ حضرت عمرؓ سے صحیح سند سے ثابت ہے کہ انہوں نے ابن بن کعبؓ اور تمیم داریؓ کو گیارہ رکعات تراویح پڑھانے کا حکم کیا تھا۔(موطا،باب ما جاء فی قیام رمضان(

نماز تراویح کے مسائل

* مصحف سے دیکھ کر قراء ت کرنا:تراویح میں اگر امام قرآن سے دیکھ کر قراء ت کرے تو یہ جائز ہے۔

سیدہ عائشہ ؓ کے متعلق ہے کہ

''کانت عائشۃ یؤمھا عبدھا ذکوان من المصحف''

(صحیح بخاری،کتاب الآذان،باب إمامۃ العبد والمولی(

''حضرت عائشہ کاغلام ذکوان انہیں قرآن مجیدسے دیکھ کر (نفل) نماز پڑھایا کرتا تھا۔''

* ایک رات میں قرآن ختم کرنا:

سیدہ عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ

''لاأعلم رسول اﷲ! قرأ القرآن کلہ فی لیلۃ'' (صحیح مسلم:۷۴۶(

''میں نہیں جانتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک ہی رات میں پورا قرآن پڑھا ہو۔''

عبداللہ بن عمروؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

] لا یفقہ من قرأہ فی أقل من ثلاث] (سنن ابوداؤد:۱۳۹۰(

''جو تین راتوں سے کم وقت میں قرآن مجید ختم کرتا ہے وہ دراصل قرآن کوسمجھتا نہیں۔''

اِعتکاف اور اس کے مسائل

اعتکاف لغوی طور پر کسی چیز پر جم کربیٹھ جانے کو کہتے ہیں اور اصطلاح میں اللہ کی عبادت کے لیے تمام دنیاوی معاملات ترک کرنے، مسجد میں گوشہ نشین ہوجانے کو اعتکاف کہتے ہیں۔

اِعتکاف نفل عبادت ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تمام رمضان کے دنوں میں ثابت ہے لیکن آخری مستقل عمل کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری زندگی آخری عشرہ میں اعتکاف فرمایا۔

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے:

''أن النبی! کان یعتکف العشر الأواخر من رمضان حتی توفاہ اﷲ تعالیٰ ثم اعتکف أزواجہ من بعدہ'' (صحیح بخاری:۲۰۲۶(

''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کیاکرتے تھے حتی کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے فوت کردیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اعتکاف کرتی تھیں۔''

مسائل:

* اعتکاف صرف مسجد میں ہوسکتاہے:اعتکاف کا تعلق مسجد سے ہے، قرآن میں ہے:

﴿وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَأنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾ (البقرہ:۱۸۷(

''اور تم عورتوں سے مباشرت نہ کرو جب تم مساجد میں اعتکاف کرنے والے ہو۔''

اس کے علاوہ صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں اعتکاف کیاکرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات بھی مسجد میں اعتکاف فرماتیں اور اس دور کا ایک بھی واقعہ نہیں ملتا کہ کسی نے مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ اعتکاف کیا ہو۔

رمضان کے علاوہ دنوں کا اعتکاف اور مدت

حدیث میں ہے:

عن ابن عمر أن عمر سأل النبی! قال کنت نذرت في الجاھلیۃ أن أعتکف لیلۃ فی المسجد الحرام قال: [أوف بنذرک] (صحیح بخاری: ۲۰۳۲(

''عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ عمر ؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک رات کے لیے مسجد حرام میں اعتکاف کی نذر مانی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،اپنی نذر پوری کرو۔''

* اعتکاف کے لیے روزہ شرط نہیں:اعتکاف کے لیے روزہ کی شرط کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔مذکورہ بالا حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت عمرؓ کو رات کے اعتکاف کی اجازت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ اعتکاف کے لیے شرط نہیں ہے، کیونکہ رات کوتو روزہ نہیں رکھا جاتا اور حضرت عمرؓ نے بغیر روزہ کے اعتکاف کی نذر پوری کی۔

اِعتکاف میں کب داخل ہوا جائے؟

اس مسئلہ میں دو طرح کی روایات پائی جاتی ہیں۔حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے کہ

''أن النبي کان یعتکف فی العشر الاؤاخر من رمضان ''(صحیح مسلم:۱۱۷۱(

''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔''

اور دوسری حدیث حضرت عائشہ سے ہے فرماتی ہیں:

''کان رسول اﷲ إذا أراد أن یعتکف صلی الفجر ثم دخل معتکفہ''

''نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو فجر کی نماز پڑھ کر اپنے معتکف میں داخل ہوتے۔''(صحیح مسلم:۱۱۷۳(

پہلی روایت کے مطابق عشرہ یعنی دس دن میں بیس کی رات بھی شامل ہے جب کہ حضرت عائشہ والی روایت میں فجر کی نماز کے بعد داخل ہونے کا ذکر ہے۔اہل علم نے ان دونوں روایات میں یہ تطبیق دی ہے کہ بیس کی رات معتکف اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہو جائے اور صبح نمازِ فجر کے بعد اعتکاف میں داخل ہو۔واللہ اعلم

ممنوعات اِعتکاف

* جماع:اعتکاف کی حالت میں جماع سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔قرآن میں ہے: ﴿وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾ (البقرہ:۱۸۷(

''اور تم بیویوں سے مباشرت نہ کرو اس وقت کہ جب تم مسجدوں میں معتکف ہو۔''

* حیض و نفاس:حیض و نفاس کی حالت میں اعتکاف فاسد ہوجاتا ہے، کیونکہ اس حالت میں عورت کو مسجد میں ٹھہرنے سے منع کیاگیا ہے۔

* بغیر ضرورت مسجد سے نہ نکلنا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ

[کان لا یدخل البیت إلا لحاجۃ إذا کان معتکفا] (صحیح بخاری:۲۰۲۹(

''آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف فرماتے تو بغیر ضرورت کے گھر میں داخل نہ ہوا کرتے تھے۔''

اسی طرح دوسری روایت میں ہے:حضرت عائشہ فرماتی ہیں:سنت میں سے یہ بھی ہے کہ معتکف صرف ضروری حاجت کے لیے نکلے ۔(سنن ابوداؤد:۲۴۷۳(

البتہ اگر کوئی شرعی ضرورت ہو تو اس کے لیے مسجد سے باہرجایاجاسکتاہے جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو گھر چھوڑنے جایا کرتے تھے۔ (صحیح بخاری:۲۰۳۵۔۲۰۳۸(

* مریض کی عیادت اور جنازہ میں شرکت کرنا:سیدہ عائشہؓ سے روایت ہے:

اِعتکاف کرنے والے کے لیے سنت طریقہ یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کرے نہ جنازے میں شریک ہو نہ بیوی کو (شہوت سے) چھوئے اور نہ ان سے ہم بستری کرے۔

(سنن ابوداؤد:۲۴۷۳(

مباحات اِعتکاف

1.      معتکف اپنی بیوی سے کنگھی کروانے یا سر دھونے جیسے اعمال میں مدد لے سکتا ہے۔

(صحیح بخاری: ۲۰۲۸(

2.       اِستحاضہ والی عورت اعتکاف کرسکتی ہے۔                   (صحیح بخاری:۲۰۳۸(

3.       معتکف کی بیوی صرف ملاقات کے لیے اس کے پاس آسکتی ہے اور وہ اسے گھر تک چھوڑنے بھی جاسکتا ہے۔ (صحیح بخاری:۲۰۳۵(

4.       کسی شرعی عذر مثلاً اگرکسی وجہ سے جمعہ کااہتمام اس مسجد میں نہ ہو تو وہ دوسری مسجد میں پڑھنے جاسکتا ہے۔

لیلۃ القدر

لیلۃ القدر(شب قدر) رمضان کے آخری عشرہ کی وہ بابرکت رات ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا بھرپور نزول ہوتا ہے۔ شب قدر کی فضیلت کے متعلق قرآن میں ہے:

﴿إنَّا أنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ O وَمَا اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِO لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرO تَنَزَّلُ الْمَلَائِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنَ رَبِّھِمْ مِنْ کُلِّ اَمْرٍO سَلاَمٌ ہِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ (سورۃالقدر(

''یقینا ہم نے اس قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا، آپ کیاسمجھے کہ شب قدر کیا ہے؟ شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے اس میں ہرقسم کے معاملات سرانجام دینے کو اللہ کے حکم سے فرشتے اور روح الامین اترتے ہیں یہ رات سراسر سلامتی کی ہوتی ہے اور فجر کے طلوع ہونے تک رہتی ہے۔''

فرمایا:﴿إنَّا أنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبَارَکَۃٍ إنَّا کُنَّا مُنْذِرِیْنَO فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ أمْرٍ حَکِیْمٍO أمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ﴾ (الدخان:۳۔۵(

''یقینا ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا بے شک ہم ڈرانے والے ہیں اس رات میں ہرایک مضبوط کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے یہ معاملہ ہماری جانب سے ہے اور ہم بھیجنے والے ہیں۔''

نوٹ: بعض لوگوں نے اس آیت سے مراد ۱۵ شعبان قرار دیا ہے جو کہ درست ثابت نہیں ہے بلکہ اس آیت میں لیلۃ مبارکۃ سے مرادشب قدرہی ہے جو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق رات ہے۔

* قیام لیلۃ القدر:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[من قام لیلۃ القدر إیمانا واحتسابا غفرلہ ما تقدم من ذنبہ] (بخاری:۲۰۱۴(

''جس نے شب قدر کا قیام ایمان وثواب سمجھ کر کیااس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے گئے۔''

* لیلۃ القدر کی تعیین:شب قدر رمضان کے آخری عشرے کی کوئی طاق رات ہے۔

سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے:

أن رسول اﷲ ! قال:[تحروا لیلۃ القدر في الوتر من العشر الاؤاخر من رمضان ] (صحیح بخاری:۲۰۱۷(

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:شب قدر کو رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔''

آخری عشرہ اور شب قدر کے لیے خصوصی اہتمام

سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

''کان رسول اﷲ! یجتھد فی العشر الأواخر ما لا یجتھدہ غیرہ''

''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرے میں عبادت کی جس قدر محنت و کوشش کرتے وہ اس کے علاوہ کسی وقت نہ کرتے تھے۔'' (صحیح مسلم: ۱۱۷۵(

سیدہ عائشہ ؓ ہی فرماتی ہیں:

''کان النبی! إذا دخل العشر شد مئزرہ وأحیا لیلہ وأیقظ أھلہ''

''جب آخری عشرہ داخل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کمر بستہ ہوجاتے اور اپنی رات کوزندہ رکھتے اور اپنے گھر والوں کوبیدار کرتے۔'' (صحیح بخاری: ۲۰۲۴(

* لیلۃ القدر کی دعا:سیدہ عائشہ ؓ فرماتی ہیں:

قلت یارسول اﷲ! أریت إن علمت أي لیلۃ لیلۃ القدر ما أقول فیھا قولی قُل: [اللہم إنک عفو تحب العفو فاعف عني] (سنن ترمذی:۳۵۱۳(

''میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو میں اس میں کیا کہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو کہہ:[اَللّٰھُمَّ إنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ] اے میرے اللہ! یقیناً تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کوپسند کرتاہے پس تو مجھے معاف کردے۔''

* علامات لیلۃ القدر:لیلۃ القدر کی روایات میں درج ذیل علامتیں وارد ہوئی ہیں:

* أن تطلع الشمس فی صبیحۃ یومہا بیضاء لا شعاع لہا

''اس دن سورج سفید طلوع ہوتا ہے اور اس کی شعاعیں نہیں ہوتیں۔'' (صحیح مسلم: ۷۶۲(

* آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [أیکم یذکر حین طلع القمر وھو مثل شق جفنۃ]

''تم میں کون اسے یاد رکھتا ہے (اس رات) جب چاند نکلتا ہے تو ایسے ہوتا ہے جیسے بڑے تھال کا کنارہ۔''        (صحیح مسلم:۱۱۷۰(

* آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

[لیلۃ القدر لیلۃ سمحۃ طلقۃ لا حارۃ ولا باردۃ تصبح شمسہا ضعیفۃ حمراء] (مسند الطیالسي:۲۷۹۳(

''شب قدر آسان اور معتدل رات ہے جس میں نہ گرمی ہوتی ہے اور نہ سردی اس کی صبح کو سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس کی سرخی مدہم ہوجاتی ہے۔''

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User