Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, February 1, 2011

بریلویت اور تکفیری فتوے

بریلویت اور تکفیری فتوے

   بریلوی حضرات نے اکابرین اسلامیہ کی جس انداز سے تکفیر کی ہے' انہیں ملحد زندیق اور مرتد قرار دیا ہے اور انہیں غلیظ اور نجس گالیوں سے نوازا ہے' کسی شخص کا اس پر جذباتی ہونا اور جواباً وہی طرز و اسلوب اختیار کرنا اگرچہ فطری تقاضا ہے۔۔۔۔مگر ہمارا چونکہ مثبت' نرم اور غیر متشددانہ ہے' لہٰذا ہم کفر کے فتووں کو ذکر کرنے کے باوجود اپنے اسلوب میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آنے دیں گے۔ ویسے بھی مومن کی یہ شان نہیں کہ وہ لعن طعن کا اسلوب و انداز اختیار کرے۔
 بریلوی مذہب کے پیروکاروں نے اپنے مخصوص عقائد و نظریات کو اسلام کا نام دے رکھا ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے تمام اختیارات اولیاء کے پاس ہیں۔ ان کے خود ساختہ بزرگان دین ہی خلق کی شنوائی اور ان کی حاجت روائی کرتے ہیں۔ وہ علم غیب رکھتے ہیں اور آناًفاناً پوری دنیا کا چکر لگاکر اپنے مریدوں کی تکالیف کو دور کرتے' انہیں دشمنوں سے نجات عطا کرتے اور مصائب ومشکلات سے چھٹکارا دیتے ہیں۔ ان کے پاس نفع و نقصان پہنچانے' مردے کو زندہ کرنے اور گناہ گاروں کو بخشنے جیسے اختیارات موجود ہیں۔ وہ جب چاہیں بارش برسا دیں' جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں۔ حیوانات ان کے فرماں بردار ہیں' فرشتے ان کے دربان ہیں۔ وہ حشر نشر اور حساب و کتاب کے وقت اپنے پیروکاروں کی مدد کرنے پر قادر ہیں۔ زمین و آسمان میں ان کی بادشاہی ہے۔ جب چاہیں ایک ہی قدم میں عرش پر چلے جائیں اور جب چاہیں وہ سمندروں کی تہہ میں اترجائیں۔ سورج ان کی اجازت کے بغیر طلوع نہیں ہوتا۔ وہ اندھے کو بینا کرسکتے ہیں اور کوڑھی کو شفا دے سکتے ہیں ۔ مرنے کے بعد ان کی قوت و طاقت میں حیرت ناک حد تک اضافہ ہوجاتا ہے۔ دلوں کے راز جاننے والے اور موت و حیات کے مالک ہیں۔
  
   
 یہ تمام اختیارات جب بزرگان دین کے پاس ہیں تو کسے کیا ضرورت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو پکارے' مساجد کا رخ کرے' رات کی تاریکیوں میں اٹھ کر وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑائے؟
 وہ کسی پیر کے نام کی نذر ونیاز دے گا' آپ کو اس کا مرید بنالے گا' وہ خود ہی اس کی نگہبانی کرے گا' مصائب میں اس کے کام آئے گا اور قیامت کے روز اسے جہنم سے بچا کر جنت میں داخل کردے گا۔
 ظاہر ہے جس کی عقل سلامت ہو اور اسلام کی تعلیمات سے ادنیٰ سی بھی واقفیت بھی رکھتا ہو' وہ تو ان عقائد کو تسلیم نہیں کرسکتا۔ وہ تو رب کائنات کو اپنا خالق و مالک و رازق اور داتا و حاجت روا مانے گا اور مخلوق کو اس کا محتاج اور اس کے بندے تصور کرے گا۔ وہ انسان ہوکر انسان کی غلامی اختیار نہیں کرسکتا۔ بس یہی قصور تھا اہل حدیث ک۔۔۔۔۔۔انہوں نے ہندوؤانہ و مشرکانہ عقائد کو نہ مانا چنانچہ وہ جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور ان کے پیروکاروں کے تکفیری فتووں کا نشانہ بن گئے۔
 اہل حدیث نے کہا ہمیں جناب بریلوی کی اطاعت کا نہیں' بلکہ کتاب و سنت کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔
 انہیں سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد عزیز تھ
 (ترکت فیکم امرین لن تضلوا ما تمسکم بھما کتاب اللہ و سنۃ رسولہ)
 "میں تمہارے اندر دوچیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ جب تک انہیں مضبوطی سے تھامے رکھوگے گمراہ نہیں ہوگے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
 یہی اک جرم تھا جو انہیں مقتل لے گیا ان پر فتووں کی بوچھاڑ ہوئی اور وہ کافر' زندیق' ملحد اور مرتد ٹھہرے
 ارشاد باری تعالیٰ ہے
 (اَطِیعُوا اللہَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّکُم تُرحَمُونَ )
 "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرو' تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔"
 (اَطِیعُوا اللہَ وَرَسُولَہُ وَلَا تَوَلَّوا عَنہُ وَاَنتُم تَسمَعُونَ )
 "اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو اور ان کے فرامین سننے کے باوجود ان سے روگردانی نہ کرو۔"
 ( یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اَطِیعُوا اللہَ وَاطِیعُوا الرَّسُولَ )
 "اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اطاعت کرو۔"
 اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کا حکم دیا ہے۔ مگر بریلوی عقائد و افکار کے دلائل چونکہ کتاب و سنت سے مہیا نہیں ہوتے اور اہل حدیث صرف کتاب و سنت پر اکتفا کرتے ہیں اور لوگوں کو اسی کی طرف دعوت دیتے ہیں' چنانچہ بریلوی حضرات کو ان پر سخت غصہ تھا کہ یہ ان کے کاروبار زندگی کو خراب اور ان کی چمکتی ہوئی دکانوں کو ویران کررہے ہیں۔
 یہی قصور امام محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ تعالیٰ اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔
 بریلوی حضرات کے نزدیک دیوبندی بھی اسلام سے خارج ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ان کے تراشے ہوئے قصے کہانیوں پر ایمان نہیں لائے اور جناب احمد رضا کی پیروی نہیں کی ۔
 تمام وہ شعراء حضرات' جنہوں نے معاشرے کو غیر اسلامی رواجات سے پاک کرنا چاہا' وہ بھی بریلوی حضرات کے نزدیک کفار و مرتدین قرار پائے۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ لوگوں کو یہ کیوں بتلاتے ہیں کہ خانقاہی نظام اور آستانوں پر ہونے والی خرافات و بدعات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
 ماہرین تعلیم بھی کافر و مرتد قرار پائے' کیونکہ وہ تعلیم کے ذریعے شرک و جہالت کی تاریکیوں کا مقابلہ کرتے اور معاشرے سے ہندوؤانہ رسموں کو ختم کرنے کے لیے آواز بلند کرتے تھے' اور اس سے ان ( بریلوی ملاؤں) کا کاروبار ختم ہوسکتا تھا۔
 اسی طرح تحریک آزادی کے ہیرو' مسلم سیاستدان' تحریک خلافت کے قائدین' انگریزوں کے خلاف بغاوت بلند کرنے والے اور جہاد کی دعوت دینے والے بھی بریلویوں کے فتووں اور دشمنی سے محفوظ نہ رہ سکے' کیونکہ وہ جناب بریلوی کے افکار سے متفق نہ تھے۔
 بریلوی حضرات کی تکفیری مشین گن کی زد سے شائد ہی کوئی شخص محفوظ رہ سکا ہو۔ ہر وہ شخص ان کے نزدیک کافر و مرتد ٹھہرا' جس کا ذرا سا بھی ان سے اختلاف ہوا۔ حتٰی کہ بہت سے ایسے لوگ بھی ان کی تکفیر سے نہ بچ سکے' جو عقائد و افکار میں تو ان سے متفق تھے' مگر مخالفین کو کافر کہنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ جب کہ بریلوی حضرات کے نزدیک مخالفین کے کفر و ارتداد میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔ اس کا ذکر مفصل آرہا ہے
 انہوں نے اپنے ایک ساتھی عبدالباری لکھنؤی کو بھی کافر قرار دے دیا' کیونکہ انہوں نے بعض علماء کو کافر قرار دینے سے انکار کردیا تھا۔ چنانچہ اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تصنیف کی "الطاری الداری لہفوات عبدالباری۔"
 جناب احمد رضا اور ان کے ساتھی اس جملے کا بار بار دہراتے ہیں "جس نے فلاں کے کفر میں شک کیا' وہ بھی کافر " جو اسے۔۔۔۔۔۔"
 مشہور اسلامی کاتب مولانا عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ احمد رضا خاں صاحب کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
 "احمد رضا فقہی اور کلامی مسائل میں بہت متشدد تھے۔ بہت جلد کفر کا فتویٰ لگادیتے۔ تکفیر کا پرچم اٹھا کر مسلمانوں کو کافر قرار دینے کی ذمے داری انہوں نے خوب نبھائی۔ بہت سے ان کے ساتھی بھی پیدا ہوگئے جو اس سلسلے میں ان کا ساتھ دیتے رہے۔ جناب احمد رضا ہر اصلاحی تحریک کے مخالف رہے۔ بہت سے رسالے بھی ان کی تکفیر کو ثابت کرنے کے لیے تحریر کیے۔
 حرمین شریفین کے علماء سے ان کے خلاف فتوے بھی لیے۔ استفتاء میں ایسے عقائد ان کی طرف منسوب کیے جن سے وہ بری الذمہ تھے۔ امام محمد بن قاسم نانوتوی' علامہ رشید احمد گنگوہی ' مولانا خلیل احمد سہارنپوری اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ وغیرہ کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے اور برملا ان کے کفر و ارتداد کے فتووں کا اظہار کرتے تھے۔ اپنی کتاب حسام الحرمین میں لکھتے ہیں' جو شخص ان کے کفر اور عذاب میں ذرا سا بھی شک کرے' وہ بھی کافر ہے۔ جناب احمد رضا ساری زندگی مسلمانوں پر کفر کے فتوے لگانے میں مصروف و مشغول رہے۔ حتیٰ کہ کفر کے فتوے کو ایک معمولی امر تصور کیا جانے لگا اور ان کے اس عمل کی وجہ سے ہندوستان کے مسلمان اختلاف و انتشار کا شکار ہوگئے۔"
 تکفیر مسلمین میں جناب بریلوی تنہا نہیں تھے' بلکہ ان کے متبعین نے بھی مسلمانوں کو کفار و مرتدین کے اس زمرے میں شامل کرنے کے لیے چوٹی کا زور صرف کیا۔ اہل حدیث کا اس کے علاوہ کیا جرم تھا کہ وہ عوام کو شرک و بدعت سے اجتناب کی تلقین کرتے اور اختلاف کے وقت کتاب و سنت ہی سے ہدایت و راہنمائی حاصل کرنے کی دعوت دیتے تھے۔
 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
 ( فَاِن تَنَازَعتُم فِی شَیءٍ فَرُدُّوہُ اِلَی اللہِ وَالرَّسُولِ )
 "اگر تمہارا آپس میں اختلاف ہوجائے تو اس کے حل کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ' یعنی کتاب و سنت کی طرف رجوع کرو۔"
 اسی طرح اہل حدیث کی دعوت ہے کہ امت محمدیہ پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کی اطاعت واتباع فرض نہیں ۔۔۔۔۔۔خواہ کتنا بڑا ولی' محدث اور امام ہی کیوں نہ ہو
 حدیث میں ہے
 "جب تک تم کتاب وسنت کی اطاعت کرتے رہوگے' گمراہ نہیں ہوگے۔"
 اہل حدیث نے پاک و ہند میں ہندوؤانہ رسم و رواج کو اسلامی تہذیب کا حصہ بننے سے روکا اور بدعات و خرافات کا کھل کر مقابلہ کیا انہوں نے کہا کہ دین اسلام کے مکمل ہوجانے کے بعد اب کسی نئی چیز کی ضرورت نہیں رہی
 ( اَلیَومَ اَکمَلتُ لَکُم دِینَکُم وَ اَتمَمتُ عَلَیکُم نِعمَتِی)
 یعنی دین اسلام عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی مکمل ہوچکا تھا۔ دین میں کسی نئے مسئلے کی ایجاد بدعت ہے' اور بدعت کے متعلق ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے
 من احدث فی امرنا ھذا فھو ردّ۔ وفی روایۃ  فشر الامور محدثاتھا وکل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ ۔
 "جو دین میں کوئی چیز ایجاد کرے' اسے رد کردیا جائے۔ ایک روایت میں ہے سب سے بری چیز دین میں نئی ایجادات ہیں۔ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی"
 نیکی اور ثواب کے تمام کاموں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمادیا ہے۔ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایجاد ہونے والی رسوم و رواج اور بدعات دین اسلام کا حصہ نہیں" انہیں مسترد کردیا جائے۔
 اہل حدیث علماء نے اسی بات کی طرف دعوت دی۔ بریلوی حضرات نے اس دعوت کو اپنے عقائد و نظریات کے منافی سمجھا۔ کیونکہ اس دعوت میں ان کے میلے' عرس و میلاد' تیجے و چالیسویں ' قوالی اور گانے بجانے' رقص و سرور کی محفلیں اور شکم پروری و خواہشات نفسانی کی تکمیل کے لیے ایجاد کی جانے والی دوسری بدعات خطرے میں پڑجاتی تھیں۔
 چنانچہ انہوں نے علمائے اہل حدیث کو اپنا بدترین دشمن سمجھا اور ان کے خلاف تکفیر بازی کی مہم شروع کردی۔
 اس سلسلے میں انہوں سب سے پہلے وہابی تحریک کے سرخیل شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ تعالیٰ کو نشانہ بنایا' کیونکہ شرک و بدعت کے خلاف کھلم کھلا اعلان جنگ کرنے والے وہ سب سے پہلے شخص تھے۔ وہ توحید و سنت کا پرچم لے کر نکلے اور کفر و بدعت کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کرتے چلے گئے۔
 انہوں نے جب دیکھا کہ ہندوؤانہ عقائد اسلامی تہذیب کا حصہ بن رہے ہیں' حدود اللہ معطل ہوچکی ہیں' اسلامی شعائر کا مذاق اڑایا جارہا ہے اور جاہل صوفیاء غلط نظریات کا پرچار کررہے ہیں' وہ کتاب وسنت کی روشنی میں صحیح اسلامی دعوت کا جھنڈا لے کر اٹھے اور انگریزوں کے خلاف عملی جہاد کے ساتھ ساتھ شرک و بدعت کے طوفان کا بھی مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں اتر آئے۔
 انہوں نے جب اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں لوگوں کو توحید کے عقیدے کی طرف دعوت دی' غیر اللہ سے فریاد رسی جیسے عقائد کو باطل ثابت کیا اور تقلید و جمود اور مذہبی تعصب کی بھی بیخ کنی کی۔ شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ انگریزوں اور سکھوں کے خلاف جہاد میں مشغول رہے اور درس و تدریس اور وعظ و تبلیغ کے ذریعے بھی مسلمانوں کو توحید کا سبق دیتے رہے۔ دن کا جہاد کرتے' راتوں کو قیام کرتے۔ یوں مسلسل محنت اور جدوجہد سے شرک و بدعت کا مقابلہ کرتے ہوئے وہ راہِ حق میں شہادت پاگئے۔ وہ اس آیت کا مصداق تھے
 (اِنَّ اللہَ اشتَرٰی مِنَ المُومِنِینَ اَنفُسَھُم وَ اَموَالَھُم بِاَنَّ لَھُمُ الجَنَّۃَ فَیَقتُلُونَ وَ یُقتَلُونَ )
 "اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کا مال خرید لیا ہے اور اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت لکھ دی ہے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرتے ہیں اور کافروں کو قتل کرتے کرتے خود بھی شہید ہوجاتے ہیں۔"
 شاہ شہید رحمۃ اللہ علیہ کے بعد انہوں نے ان کی دعوت کے جانشین سید امام نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کو تکفیری مہم کا نشانہ بنایا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے حدیث کی نشر واشاعت میں اس وقت موجود پوری دنیا کے علماء سے زیادہ کردار ادا کیا۔ ان کے شاگردوں نے دنیا بھر میں علوم حدیث کے احیاء کے لیے مسلسل محنت کی اور درس تدریس میں مصروف رہے۔ اسی بناء پر مصری مفکر رشید رضا نے لکھا ہے
 اگر ہمارے ہندوستانی اہلحدیث بھائی حدیث کے علوم کا اہتمام نہ کرتے تو شاید ان علوم کا بہت سے علاقوں میں وجود ختم ہوجاتا۔"
 کیونکہ
 بہت سے مقلدین حدیث کی کتابوں کا سوائے تبرک کے کوئی فائدہ نہیں سمجھتے تھے۔"
 جناب بریلوی نے شاہ شہید اور سید نذیر حسین علیہما الرحمۃ کو کافر قرار دیا۔ شاہ شہید علیہ الرحمۃ کی تکفیر کے لئے انہوں نے ایک مستقل رسالہ "الکوکبۃ الشہابیۃ فی کفریات الوہابیہ" تحریر کیا۔ اس کی ایک عبارت ملاحظہ ہو
 "اے سرکش منافقو اور فاسقو تمہارا بڑا (شاہ اسماعیل شہید) یہ گمان کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف عام انسانوں سے بھی کم ہے' رسول اللہ سے بغض و عداوت تمہارے منہ سے ظاہر ہوگئی۔ جو تمہارے سینوں میں ہے' وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ تم پر شیطان غالب آچکا ہے۔ اس نے تمہیں خدا کی یاد اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم بھلادی ہے۔ قرآن میں تمہاری ذلت و رسوائی بیان ہوچکی ہے۔ تمہاری کتاب تقویۃ الایمان اصل میں تفویت الایمان ہے یعنی وہ ایمان کو ضائع کردینے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے کفر سے غافل نہیں۔"
 مزید ارشاد فرماتے ہیں
 وہابیہ اور ان کے پیشوا (شاہ اسماعیل) پر بوجوہ کثیر قطعاً یقیناً کفر لازم اور حسب تصریحات فقہائے کرام ان پر حکم کفر ثابت و قائم ہے۔ اور بظاہر ان کا کلمہ پڑھنا ان کو نفع نہیں پہنچا سکتا اور کافر ہونے سے نہیں بچا سکتا۔ اور ان کے پیشوا نے اپنی کتاب تقویۃ الایمان میں اپنے اور اپنے سب پیروؤں کے کھلم کھلا کافر ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔"
 اب ذرا ان کے کافر ہونے کا سبب بھی ملاحظہ فرمائیں ۔ لکھتے ہیں
 "اسماعیل دہلوی کہتا ہے کہ ایک شخص کی تقلید پر جمے رہنا' باوجودیکہ اس کے کہ اپنے امام کے خلاف صریح احادیث موجود ہوں' درست نہیں ہے۔ اس کا یہ کہنا اس کی کفریات میں سے ہے۔"
 یعنی امام اسماعیل شہید رحمہ اللہ اس لیے کافر ہیں کہ وہ کہتے ہیں کہ صریح احادیث کے مقابلے میں کسی کے قول پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ ان کی کفریہ باتوں میں سے ہے۔
 لکھتے ہیں
 "انہیں کافر کہنا فقہاء واجب ہے۔ واضح ہو کہ وہابیہ منسوب ابن عبدالوہاب نجدی ہیں۔ ابن عبدالوہاب ان کا معلم اول تھا۔ اس نے کتاب التوحید لکھی' تقویۃ الایمان اس کا ترجمہ ہے۔
 ان کا پیشوا نجدی تھا۔ اس فرقہ متفرقہ یعنی وہابیہ اسماعیلیہ اور اس کے امام ناہنجار پر جزماً قطعاً یقیناً اجمالاً بوجوہ کثیرہ کفر لازم ہے۔ اور بلاشبہ جماہیر فقہائے کرام کی تصریحات واضحہ پر یہ سب کے سب مرتد کافر ہیں۔"
 ایک اور جگہ کہتے ہیں
 "اسماعیل دہلوی کافر محض تھا۔"
 ایک دفعہ ان سے پوچھا گیا کہ اسماعیل دہلوی کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ تو جواب دی "میرا عقیدہ ہے' وہ مثل یزید کے ہے۔ اگر اسے کوئی کافر کہے تو اسے روکا نہ جائے۔"
 مزید
 اسماعیل دہلوی سرکش' طاغی شیطان لعین کا بندہ داغی تھا۔"
 نیز
 امام الوہابیہ یہودی خیالات کا آدمی ہے۔"
 ان کی کتاب تقویۃ الایمان کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں
 "تقویۃ الایمان ایمان کو برباد کردینے والا وہابیہ کا جھوٹا قرآن ہے۔"
 نیز
 "محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جدید قرآّن تقویۃ الایمان کو جہنم پہنچایا۔"
 اس پر بھی مستزاد
 "تقویۃ الایمان وغیرہ سب کفری قول' نجس بول و براز ہیں۔ جو ایسا نہ جانے' زندیق ہے۔"
 اس کتاب کا پڑھنا زنا اور شراب نوشی سے بھی بدتر ہے۔"
 ظاہر ہے یہ سارا غیظ و غضب اس لیے کہ تقویۃ الایمان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو ہدایت نصیب ہوئی اور وہ شرک و قبر پرستی کی لعنت سے تائب ہوکر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے قائل ہوئے۔
 جناب بریلوی بخوبی واقف تھے کہ اس کتاب کو پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا' چنانچہ انہوں نے اس کے پڑھنے کو حرام قرار دے دیا۔ تقویۃ الایمان قرآنی آیات اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھری ہوئی ہے۔ اور پڑھنے والا جب ایک ہی موضوع پر اس قدر آیات کو ملاحظہ کرتا ہے تو وہ حیران و ششدر رہ جاتا ہے کہ یہ تمام آیات بریلوی عقائد و افکار سے متصادم ہیں اور ان کے مفہوم کا بریلوی مذہب کے بنیادی نظریات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کتاب کا قاری تردد کا شکار ہوکر بالآخر اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ جن عقائد کا حامل ہے ان کا شریعت اسلامیہ سے کوئی واسطہ نہیں۔ اور وہ اپنے شرکیہ عقائد کو چھوڑ کر توحید و سنت پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ جناب بریلوی کو اس بات کا بہت دکھ تھا۔ چنانچہ خود بدلنے کی بجائے تقویۃ الایمان کو اپنے بغض و حسد کا نشانہ بناتے رہے۔
 قرآن کریم میں ہے
 (وَاِذَ ذُکِرَ للہُ وَجِلَت قُلُوبُھُم وَاِذَا تُلِیَت عَلَیھِم اٰیٰاتُہُ زَادَتھُم اِیمَانًا) (الانفال)
 "مومنوں کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے' ان کے دلوں میں اللہ کا خوف آجاتا ہے اور جب ان پر قرآنی آیات تلاوت کی جاتی ہے' ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے۔"
 وَزِاَ سَمِعُوا مَا اُنزِلَ اِلَی الرَّسُولِ تَرٰی اَعیُنَھُم تَفِیضُ مِنَ الدَّمع مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الحَقِّ۔
 "جب مومن قرآن مجید سنتے ہیں اور انہیں حق کی پہچان ہوتی ہے' تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں۔"
 بہر حال قرآن کریم کی تلاوت اور اسے سمجھنے کے بعد کوئی شخص بھی بریلوی عقائد سے توبہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
 اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرامین سن کر کسی مومن کے لیے انہیں تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں
 وَمَا کَانَ لِمُومِنٍ وَلَا مُومِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللہُ وَرَسُولُہُ اَمرًا اَن یَکُونَ لَھُمُ الخِیَرَۃُ ۔ (احزاب)
 "جب اللہ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کسی امر کا فیصلہ کردیں' تو ا س کے آگے کسی مومن مرد یا مومن عورت کو چوں چراں کرنے کا حق نہیں ہے۔"
 وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الھُدٰی وَ یَتَّبِعُ غَیرَ سَبِیلِ المُومِنِینَ نُوَلِّہِ مَا تَولّٰی وَ نُصلِہِ جَھَنَّمَ وَ سَاءَ ت مَصِیرًا۔     (النساء)
 "ہدایت واضح ہوجانے کے بعد جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مخالفت کرے گا اور مومنوں کے راستے کے علاوہ کسی اور کی پیروی کرے گا' ہم اسے گمراہی کی طرف پھیر دیں گے اور جہنم میں داخل کریں گے۔۔۔۔اور جہنم برا ٹھکانہ ہے۔"
 مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَمَا نَھَاکُم عَنہُ فَانتَھُوا۔  (الحشر)
 "جو اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کہے' اس پر عمل کرو۔ اور جس سے روکے' اس سے رک جاؤ۔"
 اب جس شخص کا بھی یہ ایمان ہو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مقابلے میں کسی قول کی کوئی حیثیت نہیں' تو ظاہر ہے وہ جب شرک و بدعت کے خلاف تقویۃ الایمان میں موجود آیات و احادیث پڑھے گا' تو وہ رضاخانی افکار و نظریات پر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اور یہ چیز خاں صاحب اور ان کے ساتھیوں پر بدعات وخرافات اور نذر ونیاز کے ذریعہ سے حاصل ہونے والے معاش کو بند کرنے کا باعث تھی۔ لہٰذا انہوں نے یہ سارے فتوے صادر کرکے اپنے غصے کا اظہار کیا۔
 سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ کہ جنہیں جناب بریلوی کافر و مرتد قرار دیتے تھے' ان کے متعلق مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کے والد علامہ عبدالحی لکھنوی رحمہ اللہ تعالیٰ کی کتاب "نزہۃ الخواطر" کی ایک عبارت یہاں نقل کی جاتی ہے' جس میں آپ رحمہ اللہ نے سید نذیر حسین محدّث کے احوال بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں
 "حضرت حسین بن محسن الانصاری فرماتے ہیں کہ سید نذیر حسین یکتائے زمانہ تھے۔ علم و فضل اور حلم و بردباری میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ وہ کتاب وسنت کی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہنمائی فرماتے تھے' ہندوستان کے علماء کی اکثریت ان کی شاگرد ہے۔
 حسد کی بنا پر کچھ لوگ ان کی مخالفت بھی کرتے رہے' مگر ان کے حسد کی وجہ سے اس جلیل القدر امام و محدث کی عزت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا رہا۔
 خود علامہ عبدالحئی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں
 "امام نذیر حسین محدّث دہلوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی علمی جلالت پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ آپ رحمہ اللہ نے درس و تدریس اور افتاء کے ذریعے اسلامی علوم کی خدمت کی ۔ میں خود 1312ھ میں ان کا شاگرد رہا ہوں ۔ اصول حدیث اور اصول فقہ میں ان سے زیادہ ماہر کوئی شخص نہ تھا۔ قرآن وحدیث پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔ تقویٰ و پرہیزگاری میں بھی ان کی کوئی مثال نہ تھی۔ ہمہ وقت درس و تدریس یا ذکر و تلاوت میں مصروف رہتے۔ عجم و عرب میں ان کے تلامذہ کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ وہ اپنے دور کے رئیس المحدثین تھے۔
 دوسرے ائمہ کی طرح انہیں بھی بہت سی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا۔
 انگریز دشمنی کے الزام میں گرفتار کیے گئے۔ ایک سال جیل میں رہے' رہا ہونے کے بعد دوبارہ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ پھر حجاز تشریف لے گئے' وہاں آپ رحمہ اللہ کے اوپر حاسدین نے بہت الزامات لگائے۔ آپ کو گرفتار کرلیا گیا مگر بری ہونے پر ایک دن بعد چھوڑ دیا گیا۔
 آپ واپس ہندوستان تشریف لے آئے۔ یہاں بھی آپ پر تکفیری فتووں کی بوچھاڑ کردی گئی۔ آپ نے تمام تکالیف برداشت کرکے ہندوستان کو قرآن وحدیث کے علوم سے منور کیا اور عصبیت و جمود کی زنجیروں کو پاش پاش کیا۔
 آپ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت تھے۔ ارض ہندوستان پر آپ کے بہت زیادہ احسانات ہیں۔ قرآن وحدیث کے علوم سے دلچسپی رکھنے والے آپ کی علمی قدرومنزلت پر متفق ہیں۔ جزاہ اللہ خیر
 مزید فرماتے ہیں
 سید نذیر محدث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زیادہ تر تدریس میں مشغول رہے۔ اس لیے آپ کی تصنیفات بہت زیاہ نہیں۔ آپ کی مشہور تصانیف میں معیار الحق'ثبوت الحق'مجموعۃ الفتاوی' رسالۃ الولی باتباع النبی صلی اللہ علیہ وسلم' وقعۃ الفتویٰ ودافعۃ البلوی اور رسالہ فی ابطال عمل المولد شامل ہیں۔
 البتہ آپ کے فتاویٰ کو اگر جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہوجائیں۔ آپ کے شاگردوں کے کئی طبقات ہیں۔ ان میں سے جو معروف و مشہور ہیں' ان کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بقیہ شاگرد ہزاروں سے متجاوز ہیں۔
 آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کے مشہور تلامذہ میں سید شریف حسین' مولانا عبداللہ غزنوی'مولانا عبدالجبار غزنوی' مولانا محمد بشیر السّہسوانی' سید امیر حسین'مولانا امیر احمد الحسینی السّہسوانی' مولانا عبدالمنان وزیر آبادی' مولانا محمد حسین بٹالوی' مولانا عبداللہ غازی پوری' سید مصطفیٰ ٹونکی' سید امیر علی ملیح آبادی' قاضی ملا محمد پشاوری' مولانا غلام رسول' مولانا شمس الحق ڈیانوی'شیخ عبداللہ المغربی' شیخ محمد بن ناصر بن المبارک النجدی اور شیخ سعد بن حمد بن عتیق ہیں۔
 بہت سے علماء نے قصائد کی صورت میں آپ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ مولانا شمس الحق ڈیانوی نے غایۃ المقصود میں آپ کی سوانح عمری تحریر کی ہیں۔اسی طرح مولانا فضل حسین مظفر پوری نے اپنی کتاب الحیاۃ بعد المماۃ میں آپ کے حالات زندگی مفصلاً بیان کیے ہیں۔
 مجھے مولانا (عبدالحئی لکھنوی) سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے دست مبارک سے 1312ھ میں سند اجازت عطا فرمائی۔
 آپ رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات 10رجب 1320ھ بروز سوموار دہلی میں ہوئی نفعنا اللہ ببرکاتہ ۔ آمین"
 سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ درس نے بخاری و بغداد کی مجالس و محافل کی یاد تازہ کردی۔ ہندوستان کے کونے کونے سے لوگ علم حدیث کے حصول کے لیے آپ کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے۔
 احمد رضا بریلوی نے علم و معرفت کے اس سیل رواں کو اپنی خرافات و بدعت کے لیے خطرہ سمجھتے ہوئے آپ کو طعن و تشنیع اور تکفیر و تفسیق کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہ
 "نذیر حسین دیلوی لا مذہباں' مجتہد نامقلداں' مخترع طرز نوی اور مبتدع آزاد روی ہے۔"
 مزید لکھتے ہیں
 "نذیر حسین دہلوی کے پیروکار سرکش اور شیطان خناس کے مرید ہیں۔"
 نیز
 "تم پر لازم ہے کہ عقیدہ رکھو' بے شک نذیر حسین دہلوی کافر و مرتد ہے۔ اور اس کی کتاب معیار الحق کفری قول اور نجس برازِ بول ہے' وہابیہ کی دوسری کتابوں کی طرح۔"
 صرف اسماعیل شہید رحمہ اللہ اور سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ ہی کافر و مرتد نہیں' بلکہ جناب بریلوی کے نزدیک تمام اہل حدیث کفار و مرتد ہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں
 "غیر مقلدین (اہل حدیث) سب بے دین' پکے شیاطین اور پورے ملاعین ہیں۔"
 نیز
 "جو اسماعیل اور نذیر حسین وغیرہ کا معتقد ہو ابلیس کا بندہ جہنم کا کندہ ہے۔ اہل حدیث سب کا فر و مرتد ہیں۔"
 مزید ارشاد ہے
 غیر مقلدین گمراہ' بددین اور بحکم فقہ کفار و مرتدین ہیں۔"
 مزید
 "غیر مقلد اہل بدعت اور اہل نار ہیں۔ وہابیہ سے میل جول رکھنے والے سے بھی مناکحت ناجائز ہے۔ وہابی سے نکاح پڑھوایا' تو تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم' وہابی مرتد کا نکاح نہ حیوان سے ہوسکتا ہے نہ انسان سے۔ جس سے ہوگا زنائے خالص ہوگا۔"
 وہابیوں سے میل جول کو حرام قرار دینے والے کا ہندوؤں کی نذرونیاز کے متعلق فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں
 "ان سے سوال کیا گیا کہ ہندوؤں کی نذر ونیاز کے متعلق کیا خیال ہے؟ کیا ان کا کھاناپینا جائز ہے؟
 جواب میں ارشاد فرماتے ہیں"ہاں ان باتوں پر آدمی مشرک نہیں ہوتا۔"
 ایک دوسری جگہ ہر قسم کی نذر لغیر اللہ کو مباح قرار دیاہے
 مگر سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کو ملعون قرار دیتے ہیں
 "نذیریہ لعنہم اللہ ملعون و مرتدابد ہیں۔"
 اہل حدیث کو کافر و مرتد کہنے پر ہی اکتفا نہیں کیا' بلکہ حسب عادت گالی دیتے ہوئے اور غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں
 "غیر مقلدین جہنم کے کتے ہیں۔ رافضیوں کو ان سے بدتر کہنا رافضیوں پر ظلم اور ان کی شان خباثت میں تنقیض ہے۔"
 "کفر میں مجوس یہود و نصاریٰ سے بدتر ہیں' ہندو مجوس سے بدتر ہیں۔ اور وہابیہ ہندوؤں سے بھی بدتر ہیں۔"
 مزید ارشاد کرتے ہیں
 وہابیہ اصلاً مسلمان نہیں۔ ان کے پیچھے نماز باطل محض ہے۔ ان سے مصافحہ ناجائز و گناہ ہے۔ جس نے کسی وہابی کی نماز جنازہ پڑھی' تو تجدید اسلام اور تجدید نکاح کرے"
 نیز
  ان سے مصافحہ کرنا حرام قطعی و گناہ کبیرہ ہے' بلکہ اگر بلا قصد بھی ان کے بدن سے بدن چھوجائے تو وضو کا اعادہ مستحب ہے۔"
 یہ تو تھے جناب احمد رضا صاحب بریلوی کے اہل حدیث کے متعلق ارشادات و فرامین کہ وہابی ملعون'کفار اور مرتدین ہیں۔ نہ ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز' نہ ان کی نماز جنازہ جائز'نہ ان سے نکاح کرنا جائز' نہ ان سے مصافحہ کرنا جائز۔ یہ سب شیاطین و ملاعین' ہندوؤں سے بدتر کافر اور جہنم کے کتے ہیں۔ جس نے کسی وہابی کی نماز جنازہ پڑھی' وہ توبہ کرے اوراپنا نکاح دوبارہ پڑھائے۔ اور جس کا ان سے بدن چھوجائے' وہ وضو کرے۔
 اب جناب بریلوی کے پیروکاروں کے فتوے ملاحظہ ہوں۔ بریلوی مکتب فکر کے ایک مفتی ارشاد فرماتے ہیں
 "اہل حدیث جو نذیر حسین دہلوی' امیر احمد سہسوانی' امیر حسن سہسوانی' بشیر حسن قنوجی' اور محمد بشیر قنوجی' کے پیروکار ہیں' سب بحکم شریعت کافر اور مرتد ہیں۔ اور ابدی عذاب اور رب کی لعنت کے مستحق ہیں"
 نیز
 ثناء اللہ امرتسری کے پیروکار سب کے سب کافر اور مرتد ہیں' ازروئے حکم شریعت"
 شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ کہ جن کے بارے میں سید رشید رضا نے کہا  ہے
 "رجل الٰھی فی الہند۔"
 اور جنہوں نے تمام باطل مذاہب وادیان قادیانی' آریہ'ہندو'مجوسی اور عیسائی وغیرہ کو مناظروں میں شکست فاش دی اور وہ اس موضوع میں حجت سمجھے جاتے ہیں' ان کے بارے میں بریلوی حضرات کا فتویٰ ہے
 "غیر مقلدین کا رئیس ثناء اللہ امرتسری مرتد ہے۔"
 اور خود جناب بریلوی نے لکھا ہے
 "ثناء اللہ امرتسری در پردہ نام اسلام' آریہ کا ایک غلام باہم جنگ زرگری کام۔"
 جناب بریلوی پوری امت مسلمہ کے نزدیک متفقہ ائمہ دین امام ابن حزم رحمہ اللہ' امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ' امام ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کے بارے میں لکھتے ہیں
 "وہابیہ کے مقتدا ابن حزم فاسد الجزم اور ردئی المشرب تھے۔"
 مزید
 ابن حزم لا مذہب' خبیث اللسان۔"
 شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے متعلق کہتے ہیں
 "ابن تیمیہ فضول باتیں بکا کرتے تھے۔"
 خان صاحب کے ایک خلیفہ لکھتے ہیں
 "ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) نے نظام شریعت کا فاسد کیا۔ ابن تیمیہ ایک ایسا شخص تھا' جسے اللہ تعالیٰ نے رسوا کیا۔ وہ گمراہ' اندھا اور بہرہ تھا۔ اسی طرح وہ بدعتی' گمراہ اور جاہل شخص تھا۔"
 ایک اور نے لکھ
 ابن تیمیہ گمراہ اور گمراہ گر تھا۔"
 نیز
 ابن تیمیہ بدمذہب تھا۔"
 "ابن قیم ملحد تھا۔"
 امام شوکانی رحمہ اللہ کے متعلق ان کا ارشاد ہے
 "شوکانی کی سمجھ وہابیہ متاخرین کی طرح ناقص تھی۔"
 مزید
 شوکانی بد مذہب تھا۔"
 جناب بریلوی اور ان کے متبعین امام محمد بن عبدالوہاب نجدی رحمہ اللہ کے بھی سخت دشمن ہیں' کیونکہ انہوں نے بھی اپنے دور میں شرک و بدعت اور قبر پرستی کی لعنت کے خلاف جہاد کیا اور توحید باری تعالیٰ کا پرچم بلند کیا۔
 ان کے متعلق احمد رضا صاحب رقمطراز ہیں
 "بد مذہب جہنم کے کتے ہیں۔ ان کا کوئی عمل قبول نہیں۔ محمد بن عبدالوہاب نجدی وغیرہ گمراہوں کے لیے کوئی بشارت نہیں۔ اگرچہ اس کا نام محمد ہے اور حدیث میں جو ہے کہ "جس کا نام احمد یا محمد ہے" اللہ تعالیٰ اسے جہنم میں داخل نہیں کرے گا" یہ حدیث صرف سنیوں (بریلوی) کے لیے' بد مذہب (یعنی وہابی) تو اگر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان مظلوم قتل کیا جائے اور اپنے اس مارے جانے پر صابر و طالب ثواب رہے' تب بھی اللہ عزوجل اس کی بات پر نظر نہ فرمائے اور اسے جہنم میں ڈالے۔"
 مزید ارشاد فرماتے ہیں
 "مرتدوں میں سب سے خبیث تر وہابی ہیں۔"
 نیز
 وہابیہ اخبث واضر اصلی یہودی' بت پرست وغیرہ سے بدتر ہیں۔"
 خان صاحب لکھتے ہیں
 "وہابی فرقہ خبیثہ خوارج کی ایک شاخ ہے' جن کی نسبت حدیث میں آیا ہے کہ وہ قیامت تک منقطع نہ ہوں گے۔ جب ان کا ایک گروہ ھلاک ہوگا' دوسرا سر اٹھائے گا۔ یہاں تک کہ ان کا پچھلا طائفہ دجال لعین کے ساتھ نکلے گا۔ تیرہویں صدی کے شروع میں اس نے دیارِ نجد سے خروج کیا اور بنام نجدیہ مشہور ہوا۔ جن کا پیشوا شیخ نجدی تھا' اس کا مذہب میاں اسماعیل دہلوی نے قبول کیا۔"
 خان صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا فرقہ وہابیہ خلفائے راشدین کے زمانہ میں تھا؟ اس کے جواب میں لکھتے ہیں
 "ہاں یہی وہ فرقہ ہے' جن کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ یہ ختم نہیں ہوئے۔ ان کا آخری گروہ دجال لعین کے ساتھ نکلے گا۔ یہی وہ فرقہ ہے کہ ہر زمانہ میں نئے رنگ نئے نام سے ظاہر رہا اور اب اخیر وقت میں وہابیہ کے نام سے پیدا ہوا۔ بظاہر وہ بات کہیں گے کہ سب باتوں سے اچھی معلوم ہو' اور حال یہ ہوگا کہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر نشانہ سے "
 اپنی خرافات کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں
 "غزوہ حنین میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے جو غنائم تقسیم فرمائیں' اس پر ایک وہابی نے کہا کہ میں اس تقسیم میں عدل نہیں پاتا۔ اس پر فاروق اعظم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیجئے کہ میں منافق کی گردن ماردوں؟ فرمایا' اسے رہنے دے کہ اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہونے والے ہیں۔ یہ اشارہ وہابیوں کی طرف تھا۔ یہ تھا وہابیہ کا باپ' جس کی ظاہری و معنوی نسل آج دنیا کو گندہ کررہی ہے۔"
 بریلوی صاحب کے ایک پیروکار اپنے بغض و عناد کا اظہار ان لفظوں سے کرتے ہیں
 "خارجیوں کا گروہ فتنے کی صورت میں محمد بن عبدالوہاب کی سرکردگی میں نجد کے اندر بڑے زور شور سے ظاہر ہوا۔ محمد بن عبدالوہاب باغی 'خارجی بے دین تھا۔ اس کے عقائد کو عمدہ کہنے والے اس جیسے دشمنان دین' ضال مضل ہیں۔"
 امجد علی رضوی نے بھی اسی قسم کی خرافات کا اظہار کیا ہے
 ایک بریلوی مصنف نے تو الزام تراشی اور دشنام طرازی کی حد کردی ہے۔صدق و حیا سے عاری ہوکر لکھتا ہے
 "وہابیوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں بے گناہوں کو بے دریغ اور حرمین شریفین کے رہنے والوں کی عورتوں اور لڑکیوں سے زنا کیا (لعنۃ اللہ علی الکاذبین) سادات کرام کو بہت قتل کیا' مسجد نبوی شریف کے تمام قالین اور جھاڑوفانوس اٹھاکر نجد لے گئے۔ اب بھی جو کچھ ابن سعود نے حرمین شریفین میں کیا وہ ہر حاجی پر روشن ہے۔"
 ایک اور بریلوی' امام محمد بن عبدالوہاب اور ان کے ساتھیوں کے متعلق غلیظ اور غیر شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے لکھتا ہے
 " یہ پیارے مذہب اہل سنت کا رعب حقانیت ہے کہ فراعنہ نجد حجاز کی مقدس سرزمین  پر مسلط ہوتے ہوئے بھی لرز رہے ہیں' کپکپا رہے ہیں۔(اب کہاں گیا رعب حقانیت اب تو نہ صرف مسلط ہوچکے ہیں بلکہ اکابرین بریلویت کا داخلہ بھی وہاں بند کردیا گیا ہے)
 لکھتے ہیں
 "ناپاک' گندے' کفری عقیدے رکھنے والے حکومت سعودیہ' ملت نجدیہ خبیثہ' ابن سعود کے فرزند نامسعود۔"
 ایک مرتبہ بمبئی کی جامع مسجد کے امام احمد یوسف نے سعودی شہزادوں کا استقبال کیا' تو بریلوی حضرات نے ان کے متعلق تکفیری فتوے دیتے ہوئے کہ
 "احمد یوسف مردود نے شاہ سعود کے بیٹوں کا استقبال کیا ہے اور نجدی حکومت کی تعریف کی ہے۔ وہ نجدی حکومت جس کے نجس' کفریہ اور خبیث عقائد ہیں۔ اس نے کفار و مرتدین کی عزت کی ہے اور گندی نجدی ملت کا استقبال کیا ہے۔ وہ اپنے اس عمل کی وجہ سے کافر و مرتد ہوگیا ہے اور غضب الٰہی کا مستحق ٹھہرا ہے اور اسلام کو منہدم کیا۔ اس کے اس عمل کی وجہ سے عرش الٰہی ہل گیا ہے۔ جو اس کے کفر میں شک کرے' وہ بھی کافر ہے۔"
 یعنی سعودی خاندان کے افراد کا استقبال اتنا عظیم گناہ ہے کہ جس کے ارتکاب سے انسان کا و مرتد قرار پاتا اور غضب الٰہی کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس عمل کی وجہ سے  عرش الٰہی بھی ہلنے لگتا ہے۔ دوسری طرف انگریزی استعمار کی حمایت و تائید کرنے سے ایمان میں کوئی فرق نہیں آتا' بلکہ اسے جلاء ملتی ہے
 اس کی وجہ صرف یہی ہوسکتی ہے کہ اہل توحید کی دعوت ان کی "دین کے نام پر دنیاداری" کے راستے میں حائل ہوتی ہے اور عوام الناس کو ان کے پھیلائے ہوئے جال سے آزاد کرتی ہے۔
 افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان کی کتب قادیانی'شیعہ'بابی'بہائی'ہندو'عیسائی اور دوسرے ادیان و فرق کے خلاف دلائل و احکامات سے تو خالی ہیں' مگر اہل حدیث اور دوسرے اہل توحید کے خلاف سباب و شتائم اور تکفیر و تفسیق سے بھری ہوئی ہیں۔
 اہل حدیث کے علاوہ جناب بریلوی صاحب اور ان کے پیروکاروں نے دیوبندی حضرات کو بھی اپنی تکفیری مہم کی لپیٹ میں لیا اور ان پر کفر و ارتداد کے فتوے لگائے ہیں۔
 سب سے پہلے دارالعلوم دیوبند کے بانی مولانا قاسم نانوتوی ان کی تکفیر کا نشانہ بنے' جن کے بارے میں مولانا عبدالحئی لکھنوی لکھتے ہیں
 "مولانا نانوتوی بہت بڑے عالم دین تھے ' زہد و تقویٰ میں معروف تھے۔ ذکر و مراقبے میں مصروف رہتے' لباس میں تکلف نہ کرتے۔ آغاز زندگی میں صرف ذکر اللہ میں مصروف رہے' پھر حقائق و معارف کے ابواب ان پر منکشف ہوئے تو شیخ امداد اللہ (مشہور صوفی حلولی) نے انہیں اپنا خلیفہ منتخب کرلیا۔ عیسائیوں اور آریوں کے ساتھ ان کے مناظرے بھی بہت مشہور ہیں۔ ان کی وفات 1297ھ میں ہوئی۔"
 دیوبندی تحریک کے بانی اور اپنے وقت میں احناف کے امام مولانا قاسم نانوتوی کے متعلق خاں صاحب لکھتے ہیں
 "قاسمیہ قاسم نانوتوی کی طرف منسوب' جس کی "تحذیر الناس" ہے اور اس نے اپنے رسالہ میں کہا کہ بالفرض آپ کے زمانے میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو' جب بھی آپ کا خاتم ہونا بدستور باقی رہتا ہے۔ بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی پیدا ہو تو بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا۔ یہ تو سرکش شیطان کے چیلے اس مصیبت عظیم میں سب شریک ہیں۔"
 مزید کہ
 قاسمیہ لعنہم اللہ ملعون و مرتد ہیں۔"
 ان کے ایک پیروکار نے لکھ
 تحذیر الناس مرتد نانوتوی کی ناپاک کتاب ہے"
 مولانا رشید احمد گنگوہی دیوبندی حضرات کے بہت جید عالم  و فاضل ہیں۔ مولانا عبدالحئی لکھنوی ان کے متعلق لکھتے ہیں
 "شیخ امام' محدث رشید احمد گنگوہی محقق عالم و فاضل ہیں۔ صدق و عفاف توکل اور تصلب فی الدین میں ان کا کوئی مثیل نہ تھا۔ مذہبی امور میں بہت متشدد تھے۔"
 بریلی کے خاں صاحب کا ان کے پیروکاروں کے بارے میں خیال ہے
 "جہنمیوں کے جہنم جانے کی ایک وجہ (رشید احمد) گنگوہی کی پیروی ہوگی۔"
 اور ان کے بارے میں لکھتے ہیں
 "اسے جہنم میں پھینکا جائے گا اور آگ اسے جلائے گی اور (ذق الاشرف الرشید) کا مزہ چکھلائے گی۔"
 نیز
 "رشید احمد کو کافر کہنے میں توقف کرنے والے کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔"
 ایک بریلوی مصنف نے اپنی ایک کتاب کے صفحہ میں چار مرتبہ "مرتد گنگوہی" کا لفظ دہرایا ہے۔"
 ان کے اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں
 "رشید احمد کی کتاب"براہین قاطعہ" کفری قول اور پیشاب سے بھی زیادہ پلید ہے۔ جو ایسا نہ جانے وہ زندیق ہے۔"
 ان کے علاوہ بریلوی خاں صاحب نے مولانا اشرف علی تھانوی کو بھی کافر و مرتد قرار دیا ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی دیوبندی احناف کے بہت بڑے امام ہیں ۔۔۔۔۔ "نزہۃ الخواطر" میں ہے
 "مولانا اشرف علی بہت بڑے عالم دین تھے۔ ان کی بہت سی تصنیفات ہیں۔ وعظ و تدریس کے لیے منعقد کی جانے والی مجالس سے استفادہ کیا اور ہندوؤانہ رسوم و عادات سے تائب ہوئے۔"
 ان کے متعلق احمد رضا صاحب لکھتے ہیں
 "اس فرقہ وہابیہ شیطانیہ کے بڑوں میں سے ایک شخص اسی گنگوہی کے دم چھلوں میں ہے' جسے اشراف علی تھانوی کہتے ہیں۔ اس نے ایک چھوٹی سی رسلیا تصنیف کی کہ چار ورق کی بھی نہیں۔ اور اس میں تصریح کی کہ غیب کی باتوں کا جیسا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے' ایسا تو ہر بچے اور ہر پاگل بلکہ ہر جانور اور ہر چارپائے کو حاصل ہے۔"
 آّگے چل کر لکھتے ہیں
 "بدکاری کو دیکھو' کیسے ایک دوسرے کو کھینچ کر لے جاتی ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ طائفہ سب کے سب کافر و مرتد ہیں اور باجماع امت اسلام سے خارج ہیں۔ جو ان کے کفر و عذاب میں شک کرے ' خود کافر ہے۔ اور شفا شریف میں ہے' جو ایسے کو کافر نہ کہے یا ان کے بارے میں توقف کرے یا شک لائے' وہ بھی کافر ہوجائے گا۔ بے شک جن چیزوں کا انتظار کیا جاتا ہے' ان سب میں بدترین دجال ہے۔ اور بے شک اس کے پیرو ان لوگوں سے بھی بہت زیادہ ہوں گے۔"
 مزید لکھتے ہیں
 "جو اشرف علی کو کافر کہنے میں توقف کرے اس کے کفر میں کوئی شبہ نہیں۔"
 نیز
 "بہشتی زیور (مولانا تھانوی کی کتاب) کا مصنف کافر ہے۔ تمام مسلمانوں کو اس کتاب کا دیکھنا حرام ہے۔"
 نیز
 "اشرفیہ سب مرتد ہیں۔"
 تجانب اہل السنۃ میں ہے
 "مرتد تھانوی"
 اس طرح خان صاحب نے مشہور دیوبندی علماء مولانا خلیل احمد ' مولانا محمود الحسن' مولانا شبیر احمد عثمانی وغیرہ کے خلاف بھی کفر کے فتوے صادر کیے ہیں۔
 احمد رضا صاحب ان علماء و فقہاء کے پیروکاروں' عام دیوبندی حضرات کو کافر قرار دیتے ہیں ہوئے کہتے ہیں
 "دیوبندیوں کے کفر میں شرک کرنے والا کافر ہے۔"
 اسی پر اکتفاء نہیں کیا' مزید لکھتے ہیں
 "انہیں مسلمان سمجھنے والے کے پیچھے نماز جائز نہیں۔"
 مزید
 دیوبندیوں کے پیچھے نماز پڑھنے والا مسلمان نہیں۔"
 نیز
 دیوبندی عقیدے والے کافر و مرتد ہیں۔"
 اتنا کچھ کہہ کر بھی خاں صاحب کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوا۔ فرماتے ہیں
 "جو مدرسہ دیوبند کی تعریف کرے اور دیوبندیوں کو برا نہ سمجھے' اسی قدر اس کے مسلمان نہ ہونے کو بس ہے۔"
 اب بھی بریلویوں کے اعلیٰ حضرت کے دل کی بھڑاس نہیں نکلی ۔ ارشاد فرماتے ہیں
 "دیوبندیوں وغیرہ کے کھانا پینا' سلام علیک کرنا' ان سے موت وحیات میں کسی طرح کا کوئی اسلامی برتاؤ کرنا سب حرام ہے۔ نہ  ان کی نوکری کرنے کی اجازت ہے' نہ انہیں نوکر رکھنے کی اجازت کہ ان سے دور بھاگنے کا حکم ہے۔"
 نیز
 "انہیں قربانی کا گوشت دینا بھی جائز نہیں۔"
 جناب بریلوی کے ایک پیروکار لکھتے ہیں
 "دیوبندی' بدعتی' گمراہ اور شرار خلق اللہ ہیں۔"
 ایک اور بریلوی مصنف لکھتے ہیں
 "دیوبندیہ بحکم شریعت کفار و مرتدین لئیم ہیں۔"
 بریلوی اعلیٰ حضرت کے نزدیک دیوبندیوں کا کفر ہندوؤں' عیسائیوں اور مرزائیوں سے بھی بڑھ کر ہے۔ فرماتے ہیں
 "اگر ایک جلسہ میں آریہ و عیسائی اور دیوبندی ' قادیانی وغیرہ جو کہ اسلام کا نام لیتے ہیں' وہ بھی ہوں تو وہاں بھی دیوبندیوں کا ردّ کرنا چاہئے' کیونکہ یہ لوگ اسلام سے نکل گئے مرتد ہوگئے اور مرتدین کی مدافعت بد تر ہے' کافر اصلی کی موافقت سے۔"
 اور
 "دیوبندی عقیدہ والوں کی کتابیں ہندوؤں کی پوتھیوں سے بدتر ہیں۔ ان کتابوں کو دیکھنا حرام ہے۔ البتہ ان کتابوں کے ورقوں سے استنجاء نہ کیا جائے۔ حروف کی تعظیم کی وجہ سے' نہ کہ ان کتابوں کی ۔ نیز اشرف علی کے عذاب اور کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے۔"
 ایک اور بریلوی مصنف نے یوں گل فشانی کی ہے
 "دیوبندیوں کی کتابیں اس قابل ہیں کہ ان پر پیشاب کیا جائے ان پر پیشاب کرنا پیشاب کو مزید ناپاک بناتا ہے۔ اے اللہ ہمیں دیوبندیوں یعنی شیطان کے بندوں سے پناہ میں رکھ"
 دیوبندی حضرات اور ان کے اکابرین کے متعلق بریلوی مکتب فکر کے کفریہ فتوے آپ نے ملاحظہ فرمائے' اب ندوۃ العلماء کے متعلق ان کے ارشادات سنئے۔
 جناب برکاتی نے حشمت علی صاحب سے تصدیق کرواکے اپنی کتاب تجانب اہل السنہ میں لکھا ہے
 ندوۃ العلماء کو ماننے والے دہریے اور مرتد ہیں۔"
 خود خاں صاحب بریلوی کا ارشاد ہے
 ندوۃ کھچڑی ہے' ندوہ تباہ کن کی شرکت مردود' اس میں صرف بد مذہب ہیں۔"
 جناب بریلوی نے ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے والوں کو کافر و مرتد قرار دینے کے لیے دو رسالے ( الجام السنۃ لاھل الفتنۃ) اور (مجموعۃ فتاوی الحرمین برجف ندوۃ المین) تحریر کیے۔
 تجانب اہل السنہ میں بھی ندوۃ العلماء سے فارغ ہونے والوں کے خلاف تکفیری فتووں کی بھرمار ہے۔"
 مطلقاً وہابیوں کے متعلق ان کے فتوے ملاحظہ ہوں
 "وہابیہ اور ان کے زعماء پر بوجوہ کثیر کفر لازم ہے اور ان کا کلمہ پڑھنا ان سے کفر کو دور نہیں کرسکتا۔"
 نیز
 "وہابیہ پر ہزار درجہ سے کفر لازم آتا ہے۔"
 نیز
 "وہابی مرتد باجماع فقہاء ہیں۔"
 جناب احمد رضا مزید فرماتے ہیں
 "وہابی مرتد اور منافق ہیں ۔ اوپر اوپر کلمہ گو ہیں۔"
 نیز
 "ابلیس کی گمراہی وہابیہ کی گمراہی سے ہلکی ہے۔"
 نیز
 "خدا وہابیہ پر لعنت کرے' ان کو رسوا کرے اور ان کا ٹھکانہ جہنم کرے۔"
 نیز
 وہابیہ کو اللہ برباد کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔"
 نیز
 "وہابیہ اسفل السافلین پہنچے۔"
 نیز
 اللہ عزوجل نے وہابیہ کی قسمت می ہی کفر لکھا ہے۔"
 ظاہر ہے جب تمام وہابی کفار و مرتدین ہیں تو ان کی کوئی عبادت بھی قبول نہیں۔ اس بات کا جناب احمد رضا نے یوں فتویٰ دیا ہے
 "وہابیہ کی نہ نماز ہے نہ ان کی جماعت جماعت۔"
 خاں صاحب سے پوچھا گیا کہ وہابیہ کی مسجد کا کیا حکم ہے؟ تو جواب دیا "ان کی مسجد عام گھر کی طرح ہے۔ جس طرح ان کی نماز باطل' اسی طرح اذان بھی۔ لہٰذا ان کی اذان کا اعادہ نہ کیا جائے۔"
 بریلوی حضرات کے نزدیک وہابیوں کو "مسلمانوں کی مساجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ خاں صاحب کے ایک ساتھی نعیم مراد آبادی فرماتے ہیں
 "مسلمان وہابیہ غیر مقلدین کو اپنی مسجد میں نہ آنے دیں' وہ نہ مانیں تو قانونی طور پر انہیں رکوا دیں۔ ان کا مسجد میں آنا فتنہ کا باعث ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی مسجد میں وہابی و غیر مقلد کو کوئی حق نہیں۔"
 بریلوی حضرات نے وہابیوں کو مساجد سے نکالنے کے متعلق ایک کتاب تصنیف کی ہے (اخراج الوھابیین عن المساجد) یعنی "وہابیوں کو مساجد سے نکالنے کا حکم۔"
 آج بھی  کچھ ایسی مساجد (مثلاً بیگم شاہی مسجد اندرون مستی دروازہ لاہور) موجود ہیں جن کے دروازوں پر لکھا ہوا ہے کہ
 "اس مسجد میں وہابیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔"
 خود میں نے لاہور میں دو ایسی مساجد دیکھی ہیں' جہاں یہ عبارت ابھی تک درج ہے
 جناب احمد رضا خاں صاحب بریلوی لکھتے ہیں
 "وہابیوں کے پیچھے نماز ادا کرنا باطل محض ہے۔"
 نیز
 "اقتدار احمد گجراتی کا بھی یہی فتویٰ ہے"
 جناب بریلوی کا ارشاد ہے
 "وہابی نے نماز جنازہ پڑھائی تو گویا مسلمان بغیر جنازے کے دفن کیا گیا۔"
 ان سے پوچھاگیا کہ اگر وہابی مرجائے تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے' اور جو پڑھے اس کے متعلق کیا حکم ہے؟
 جواب میں ارشاد فرمای
 "وہابی کی نماز جنازہ پڑھنا کفر ہے۔"
 نیز
 "وہابیوں کے لیے دعا کرنا فضول ہے۔ وہ راہ راست پر نہیں آسکتے۔"
 صرف اسی پر بس نہیں بلکہ
 "وہابیوں کو مسلمان سمجھنے والے پیچھے بھی نماز جائز نہیں۔"
 ان کے ایک پیروکار نے لکھا ہے
 "جو اعلیٰ حضرت کو برا کہے' اس کے پیچھے بھی نماز جائز نہیں۔"
 وہابیوں کے ساتھ مکمل بائیکاٹ کا فتویٰ دیتے ہوئے جناب احمد رضا بریلوی فرماتے ہیں
 "ان سب سے میل جول قطعی حرام ہے۔ ان سے سلام و کلام حرام' انہیں پاس بٹھانا حرام' ان کے پاس بیٹھنا حرام' بیمار پڑیں تو ان کی عیادت حرام' مرجائیں تو مسلمانوں کا سا انہیں غسل و کفن دینا حرام' ان کا جنازہ اٹھانا حرام' ان پر نماز پڑھنا حرام' ان کو مقابر مسلمین میں دفن کرنا حرام' اور ان کی قبر پر جانا حرام"
 ایک اور صاحب لکھتے ہیں
 "وہابیہ گمراہ اور گمراہ گر ہیں۔ ان کے پیچھے نماز درست نہیں اور نہ ان سے میل جول جائز ہے۔"
 مزید
 "ان سے بیاہ شادی کرنا ناجائز' سلام ممنوع اور ان کا ذبیحہ نا درست' یہ لوگ گمراہ' بے دین ہیں۔ ان کے پیچھے نماز ناجائز اور اختلاط و مصاحبت ممنوع ہے۔"
 نیز
 "وہابیوں سے مصافحہ کرنا ناجائز و گناہ ہے۔"
 احمد یار گجراتی کہتے ہیں
 "حنفیوں کو چاہئے کہ وہ وہابیوں کے کنویں کا پانی بے تحقیق نہ پئیں۔"
 نیز
 "وہابیوں کے سلام کا جواب دینا حرام ہے۔"
 مزید
 "جو شخص وہابیوں سے میل جول رکھے' اس سے بھی بیاہ شادی ناجائز ہے۔"
 احمد رضا صاحب کا ارشاد ہے
 "وہابی سے نکاح پڑھوایا تو نہ صرف یہ کہ نکاح نہیں ہوا' بلکہ اسلام بھی گیا۔ تجدید اسلام و تجدید نکاح لازم"
 نیز
 "نکاح میں وہابی کو گواہ بنانا بھی حرام ہے۔"
 خاں صاحب کے ایک خلیفہ ارشاد فرماتے ہیں
 "وہابی سے نکاح نہیں ہوسکتا کہ وہ مسلمان نہیں' کفو ہونا بڑی بات ہے۔"
 اور خود اعلیٰ حضرت صاحب کا فرمان ہے
 "وہابی سب سے بدتر مرتد ہیں۔ ان کا نکاح کسی حیوان سے بھی نہیں ہوسکتا۔ جس سے ہوگا زنائے خالص ہوگا۔"
 یہ ارشاد کئی دفعہ پڑھنے میں آیا ہے' میں پہلی مرتبہ بریلوی حضرات سے پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ ان کے اعلیٰ حضرت کے نزدیک کسی وہابی کا نکاح تو حیوان سے نہیں ہوسکتا' لیکن کیا بریلوی حضرات کا ہوسکتا ہے؟
 جناب احمد رضا صاحب کو اس بات کا شدید خطرہ تھا کہ لوگ وہابیوں کے پاس جا کر ان کے دلائل سن کر راہ راست پر نہ آجائیں۔ اس خطرے کو بھانپتے ہوئے خاں صاحب فرماتے ہیں
 "وہابیہ سے فتویٰ طلب کرنا حرام' حرام اور سخت حرام ہے۔"
 امجد علی صاحب لکھتے ہیں
 "وہابیوں کو زکوٰۃ دی' زکوٰۃ ہرگز ادا نہ ہوگی۔"
 بریلوی اعلیٰ حضرت سے پوچھا گیا' وہابیوں کے پاس اپنے لڑکوں کو پڑھانا کیسا ہے؟ تو جواب میں ارشاد فرمای
 "حرام'حرام'حرام' اور جو ایسا کرے وہ بچوں کا بد خواہ اور گناہوں میں مبتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے اپنے آپ کو' اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔"
 وہابیوں کے ہاتھ سے ذبح کیے ہوئے جانوروں کے متعلق احمد رضا صاحب کا ارشاد ہے
 "یہودیوں کا ذبیحہ حلال ہے' مگر وہابیوں کا ذبیحہ محض نجس مردار' حرام قطعی ہے۔ اگرچہ لاکھ بار نام الٰہی لیں اور کیسے ہی متقی ' پرہیزگار بنتے ہوں کہ یہ سب مرتدین ہیں۔"
 ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں
 ایسے زانی کہ جن کا زنا کرنا ثابت ہوچکا ہو' ان کا ذبیحہ حلال ہے۔"
 یہ سارا کچھ اس لیے ہے کہ
 "وہابی یہود و نصاریٰ ' ہندوؤں اور مجوسیوں سے بھی بدتر ہیں اور ان کا کفر ان سے بھی زیادہ ہے۔"
 مزید
 "وہابی ہر کافر اصلی یہودی' نصرانی' بت پرست' اور مجوسی سب سے زیادہ اخبث' اضر اور بدتر ہیں۔"
 نیز
 "یہ کتے سے بھی بدتر و ناپاک تر ہیں کہ کتے پر عذاب نہیں' اور یہ عذاب شدید کے مستحق ہیں۔"
 آہ
 (وَمَا نَقَمُوا مِنھُم اِلَّا اَن یَّومِنُوا بِاللہِ العَزِیزِ الحَمِیدِ)
 "ان لوگوں نے صرف اس بات کا انتقام لیا ہے کہ یہ (ان کی خرافات کی بجائے) اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے ہیں۔"
 نیز
 "بریلوی حضرات کے نزدیک وہابیوں کی کتابوں کا مطالعہ حرام ہے۔"
 مزید
 "غیر عالم کو ان کی کتابیں دیکھنا بھی جائز نہیں۔"
 خود جناب بریلوی کا کہنا ہے
 "عالم کامل کو بھی ان کی کتابیں دیکھنا ناجائز ہے" کہ انسان ہے' ممکن ہے کوئی بات معاذ اللہ جم جائے اور ہلاک ہوجائے۔"
 نیز ایک کتاب کے متعلق فرماتے ہیں
 "عام مسلمانوں کو اس کتاب کا دیکھنا بھی حرام ہے۔"
 نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں
 
 "ابن تیمیہ (رحمہ اللہ) اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی (رحمہ اللہ) وغیرہ کی کتابوں پر کان رکھنے سے بچو۔
 
منبع:غزوہ الھند

2 comments:

  1. اوپر بیان کی گیٗ سای کاوش کی بنیادصرف فتوے ہیں آپ بیان کر دیں دیوبندی آپ کےمسٗلک سے مطابقت رکھتے ہیں اور آپ ان کےبیان کیے گےٗ اعتقادات کے مطابق عمل کریں گے،جہاں تک آل سعود کا تعلق ہے تو ان جیسے اطوار اگر اسلام ہیں تو آپ غیر مقلدیت کو چھوڑ کر حنبلی بن جایٗں اور اپنی داڑیاں فرنچ کٹ کر لیں باقی بریلویوں کو چھوڑیں باقی ملکوں میں جہاں بریلوی نہی وہاں آپ کے ماننے والے کیوں قتل وغارت پھلی ہویٗ ہے پھر جب شیہٗ کافر ہیں تو آپ کے آل سعود حج و عمرہ کرنے کیوں دیتے ہیں کافروں کو،باقی تاریخ کو جھٹلایا نہی جا سکتا،وہ وقت اب نہی رہا کہ ۱۹۲۰ عیسوی میں ساٹھ ہرزار صحابہرضی اللہ عنہا کی قبریں کھود کر پٹرول چھڑک کر تلف کر دیں اور امت مسلمہ کو خبر تک نہ ہو اب گنبد خضرہ کو توڑ کر دیکھاوٗ جو اب منصوبہ ہے پھر دیکھ لینا آپ کا شرک شرک کہنا کدھر جاےٗ گا اور آل سعود کے ساتھ آل وہاب کی داستان بھی نہ ہو گی تاریخ انسانی میں۔ جاری ہے۔

    ReplyDelete

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User