Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, January 25, 2011

مسلم نوجوانوں کو درپیش مسائل




تحفہ قبول کیجئے ………… ……… مترجم کے قلم سے

میں سمجھتا ہوں کہ جس قدر یہ کتاب نوجوانوں کے لئے مفید ہے اسی قدر بزرگوں کے لئے بھی ہے کیونکہ محترم شیخ صاحب نے جتنی شفقت اور حکمت کے پیرائے میں نوجوانوں کو خود اپنی شخصیت پرکھنے اور نکھارنے کا معیار دیا ہے نوجوان بھی اپنے بزرگوں سے اتنی ہی محبت اور عنایت کے پیاسے ہیں اور سچ پوچھئے تو یہ اس سے کہیں زیادہ اہتمام کے مستحق بھی ہیں اس لئے کہ جو شے جتنی زیادہ اہم ہو اس کی اتنی ہی حفاظت کی جاتی ہے اور نوجوان تو ہر گھر، ہر معاشرہ، ہر قوم اور ہر وطن کا بنیادی اور قیمتی سرمایہ ہیںان کا سدھرنا خود انکی اپنی دنیا و آخرت کے لئے ضروری تو ہے ہی بلکہ ہر اس شخص ، ادارے اور ملک کے لئے بھی ضروری ہے جن سے یہ وابستہ ہیں۔
اس سلسلے میں اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ آج بزرگ اِن کا ہاتھ تھامیں گے توکل یہ اُن کا ہاتھ تھامیں گے ، اسی طرح ہر نوجوان کو آخر کار اسی مرحلہ پر پہنچنا ہے جہاں آج ان کے بزرگ کھڑے ہیں اس لئے عقلمندی یہی ہے کہ وہ بھی اپنے ’’کَل‘‘ کی تیاری کرلیں۔
اس تیاری کے لئے زیرِ مطالعہ کتاب جوکہ محض ناصحانہ انداز کے بجائے محققانہ اور مدبرانہ ذوق کی حامل بھی ہے، کافی دلچسپ رہے گی ، ان شاء اللہ تعالی
ربِّ کائینات اسے قبولیت اور مقبولیت کا شرف بخشے اورہدایت کا سبب بنائے آمین
مترجم:

مقدمہ

إن الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونتوب إلیہ ونعوذ بہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا من یہدہ اللہ فلامضل لہ ومن یضلل فلا ہادي لہ وأشہد أن لا إلہ إلا اللہ وحدہ لا شریک لہ وأشہد أن محمداً عبدہ ورسولہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وأصحابہ ومن تبعہم بإحسسان وسلّم تسلیماً۔
أما بعد:
مجھے خوشی ہے کہ آج میں ا پنے ساتھیوں کے سامنے ایک ایسی الجھن کا حل پیش کرر ہا ہوں جو صرف اسلامی معاشرے میںہی نہیں بلکہ ہر معاشرے میں پائی جانے والی الجھن ہے ، اور وہ ہے آجکل نوجوانوں کو درپیش ذہنی خلفشار!
دراصل نوجوانوں کے دل و دماغ میں طرح طرح کی نظریاتی اور نفسیاتی الجھنیں وارد ہوتی رہتیں ہیں جسکی وجہ سے وہ کبھی کبھار سخت تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں وہ اپنے تئیں اس سے چھٹکارا حاصل کرنے اور اس الجھن کو سلجھانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن بھلا دین اور ضابطۂ اخلاق پر عمل کئے بغیر ایسا کیونکر ممکن ہو! اس لئے کہ انہیں دو چیزوں پر معاشرہ کی بقاء اور دنیا و آخرت کی بھلائی ہے ، انہیں کی وجہ سے رحمتیںوبرکتیں نازل ہوتی ہیں اورخباثتیں وآفتیں زائل ہوتی ہیں۔
جس طرح بستیاں لوگوں سے آباد ہوتی ہیں اسی طرح دین بھی اپنے پیروکاروں سے قائم ہوتا ہے اللہ کے بندوںنے جب بھی اسے نافذ کرنا چاہا ، باوجود کثرتِ مخالفین ، اللہ تعالی نے ان کی مدد کی۔  فرمانِ الہی ہے:
{یَأیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إنْ تَنْصُرُوا اللّہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أقْدَامَکُمْ۔ وَالَّذِینَ کَفَرُوْا فَتَعْساً لَہُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَہُم} سورۃ محمد: ۷ -۸
یعنی: اے اہلِ ایمان! اگر تم اللہ کے دین میں معاونت کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیںثابت قدم رکھے گا اور جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لئے تباہی ہے اللہ ان کے اعمال غارت کر دے گا۔
اب جبکہ یہ بات طے ہے کہ دین اپنے پیروکاروں کی وجہ سے ہی قائم رہتا ہے توہم سب اہل اسلام اور اسکے عَلم برداروں کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے خود کمر بستہ ہوںتاکہ قیادت و ہدایت کے قابل اور توفیق و تاییدِ الہی کے اہل ہوں ، ہمیں چاہئے کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ  ﷺ  کو اس طور سے سیکھیں کہ ہم میں قول وعمل اور دعوت و تبلیغ کی صلاحیت پیدا ہو تاکہ حق کے متوالوں کے لئے روشنی کا مینار اور باطل کے مکاروں کے لئے حق کی تلوار بنیں۔
پھر جو کچھ ہم سیکھیںاس پر صحیح طریقہ سے عمل بھی کریں جسکی بنیاد ایمان، یقین، اخلاص اور سلسلہ وار اتباع پر ہو۔
خبر دار ! ہم صرف گفتار کے غازی نہ ہوں کیونکہ جب تک کسی قول پر خود عمل نہ کیا جائے اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ اس کا نتیجہ الٹا نکلتا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:
{یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُونَ مَا لاَ تَفْعَلُونَ۔ کَبُرَ مَقْتاً عِنْدَ اللّہِ أَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُونَ} سورۃ الصف: ۲- ۳
یعنی: اے ایمان کے دعویدارو! گفتار کے مطابق تمہارا کردار کیوں نہیں ہے، اللہ کے نزدیک یہ گناہِ عظیم ہے کہ تم عمل کے بجائے باتیں بنائے جاؤ۔
بہتر یہی ہے کہ ہم اس موضوع کو شروع سے لیکر چلیں اور اپنے نوجوانوں کی عادات وصفات اور احوال پر غور وفکر کریں نیزدیکھیں کہ وہ کس قسم کے نظریات و کردار کے حامل ہیں تاکہ جو ٹھیک ہو اس کی حوصلہ افزائی کریں اور جو غلط ہو اس کی اصلاح کریں کیونکہ آج کے بچے کل کے بڑے ہیں، انہیں پر امّت کے مستقبل کی بنیاد ہے یہی وجہ ہے کہ شرعی تعلیمات میں ان کی بہتر پرورش اور اچھی تربیت پر بطورِ خاص تأکید کی گئی ہے۔
اگر نوجوان جو کہ اس امّتکا حقیقی سرمایہ اور مستقبل کے ستون ہیں، سدھر گئے تو پھرنہ صرف ، ان شاء اللہ تعالی ،امّت کا مستقبل روشن وتابناک ہوگا بلکہ امّت کے بزرگوں کو نیک وارث میسر آئیں گے اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کی بنیاد دین اور ضابطۂ اخلاق پر ہو۔
مولف کتاب

نوجوانوں پر ایک نظر

اگر ہم نوجوانوں کا بغور جائزہ لیں تو کہہ سکتے ہیں کہ عام طور پر نوجوان تین قسم کے ہوتے ہیں:
سدھرا ہوا نوجوان، بگڑا ہوا نوجوان اور حیران وپریشان نوجوان
سدھرا ہوا نوجوان دراصل وہ نوجوان ہے :
٭ جو حقیقی معنوں میں مؤمن ہو یعنی اسے دینِ اسلام کی سچائی کا پکا یقین ہوتا ہے وہ اس کے ہر حکم پر بالکل متفق و مطمئن ہوتا ہے اور اپنے مسلم ہونے پر اسے فخر ہوتا ہے، وہ یہ اچھی طرح سمجھتا ہے کہ ایمان کی دولت ملنا نہایت خوش نصیبی ہے اور اس سے محرومی بڑی بد نصیبی ہے۔
٭ جو اللہ ، وحدہ لا شریک لہ ، کی عبادت عین اس کے مقرر کردہ طریقوں کے مطابق کرے
٭ جو حقیقی معنوں میں اپنے قول وعمل میں محمد رسول اللہ  ﷺ کی پیروی کرتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ وہ اللہ کے سچے رسول ہیں اور وہی قابلِ تقلید امام ہیں۔
٭ جو پوری دل جمعی کے ساتھ نماز کو بہتر سے بہتر طریقہ پر ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ نماز میں دین و دنیا کے فوائد اور کامیابی ہے اور اس کو چھوڑنے کا انجام انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے نہایت عبرتناک ہے۔
٭ جو مستحقین کو پوری پوری زکوٰۃدیتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ یہ اسلام اور مسلمین کی ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ ہے اسی لئے اسے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل کیا گیا ہے۔
٭ جو ماہِ رمضان کے پورے روزے رکھتا ہے اور اپنے آپ کو نفسانی خواہشوں اور زبان کی لذتوں سے بچائے رکھتا ہے چاہے سردی ہو یا گرمی، کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ اسی میں اللہ تعالی کی خوشی و مرضی ہے چنانچہ وہ اپنے رب کے احکامات پر اپنی خواہشات کو قربان کر دیتا ہے۔
٭ جو بیت اللہ جاکر فریضۂ حج ادا کرتا ہے کیونکہ جب وہ اللہ سے پیار کرتا ہے تو اللہ کے گھر سے بھی پیار کرتا ہے اور ربِّ کریم کی رحمت ومغفرت کی جگہوں پر جانا اور وہاں اپنے مسلم بھائیوں کے ساتھ شامل ہونا اسے اچھا لگتا ہے۔
٭ جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالی اس کا خالق ہے اور وہی زمین و آسمان کا بھی خالق ہے کیونکہ اسے ایسی نشانیاں اور دلیلیں نظر آتی ہیں جن کو دیکھنے اور سمجھنے کے بعد اللہ سبحانہ وتعالی کے وجود اور خالقِ کُل ہونے پر شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اسے اس وسیع وعریض اور حیرت انگیز کائینات کی بناوٹ اور نظام میں خالق کی ہستی کے جلال، اس کی کاریگری کے جمال اور دانائی کے کمال پر ٹھوس دلیلیں نظر آتی ہیں کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں کہ یہ کائینات خود بخود اور اچانک بن جائے اس لئے کہ اس سے پہلے اس کا وجود نہیں تھا اور جو خود موجود نہ ہو تو وہ دوسرے کو بھی نہیں بنا سکتا۔
یہ بھی ممکن نہیں کہ یہ کائینات خود ہی اچانک بن گئی ہو کیونکہ اس میں ایسا مقرر کردہ نظم وضبط اور باہمی ربط پایا جاتا ہے جس میں کوئی تبدیلی اور ذرا سی خرابی واقع نہیں ہو رہی، ارشاد ہوتا ہے:
{وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّہِ تَبْدِیْلاً} سورۃ الاحزاب: ۶۲
یعنی: تم کبھی اللہ کے نظام میں تبدیلی نہ پاؤ گے
{وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّہِ تَحْوِیْلاً} سورۃ فاطر: ۴۳
یعنی: تم کبھی اللہ کے نظام میں کجی و خرابی نہ پاؤ گے
{مَا تَرٰی فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفَاوُتٍ فَارْجِعِ البَصَرَ ہَلْ تَرَیٰ مِنْ فُطُوْرٍ ثُمَّ اْرْجِعِ البَصَرَ کَرَّتَیْنِ یَنْقَلِبْ إِلَیْکَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَ ہُوَ حَسِیْرٌ} سورۃ الملک: ۳ - ۴
یعنی: تمہیں رحمن کی مخلوق میں کوئی عیب نہیں نظر آئے گا، پھر دیکھو کیا تمہیں کوئی خرابی نظر آئی، بار بار دیکھو ، ہر بار تمہاری نگاہیں حسرت زدہ ہو کر ناکام لوٹیں گی۔
اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا کہ اس کائینات کا نظام حیرت انگیز حد تک مربوط ہے تو یہ بھی واضح ہو گیا کہ اس کا وجود بھی خود بخود اچانک نہیں ہو سکتا اس لئے کہ جس چیز کا وجود کسی ضابطہ کی بنیاد پر نہ ہو اس کا نظام بھی ہر لمحہ بد نظمی ، افراتفری اور خرابی کا شکار رہے گا۔
٭ جو اللہ کے فرشتوں پر ایمان رکھتا ہے کیونکہ اللہ نے اپنی کتاب میں ان کے بارے میں بتایا ہے اور اس کے رسول  ﷺ نے ان کے بارے میں اپنی احادیث میں خبر دی ہے اس طر ح کتاب و سنت دونوں میں ان کی صفات، عبادات اور وہ کام جو وہ اللہ کی مخلوق کی بھلائی کے لئے کرتے ہیں، کے بارے میں اتنی واضح دلیلیں مذکور ہیں جن کی بناء پر ان کے وجود کی حقیقت میں کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔
٭ جو اللہ تعالی کی ان تمام کتابوں پر یقین رکھتا ہے جنہیں اس نے اپنے رسولوں پر لوگوں کو راہِ راست دکھانے کے لئے نازل کیں ہیں، کیونکہ انسانی عقل عبادات ومعاملات کی مصلحتوں کی گہرائی تک نہیں پہنچ سکتی۔
٭ جو اللہ کے رسولوں اور نبیوں پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ نے انہیں لوگوں کو بھلائی کی طرف بلانے کے لئے بھیجا، وہ انہیں نیکی کا حکم دیا کرتے اور برائیوں سے روکا کرتے تھے تاکہ کوئی اللہ سے گِلا نہ کر سکے (کہ اسے گناہ و ثواب کا تو معلوم ہی نہ تھا)۔ سب سے پہلے رسول نوح u اور سب سے آخری محمد  ﷺ  ہیں۔
٭ جو یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے کہ اس دن اللہ تعالی سب لوگوں کو موت کے بعد دوبارہ زندہ کر کے اٹھائے گا تاکہ انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے، تو جو ذرہ برابر نیکی کرے گا اسکی جزائے خیر پائے گا اور جو ذرہ برابر گناہ کرے گا اس کی سزا پائے گا کیونکہ دنیاوی زندگی کا یہی مقصد ہے وگرنہ نیکو کار کو جزاء اور بدکار کو سزا کے بغیر دنیاوی زندگی بے معنی ہے۔
٭ جو اچھی اور بری تقدیر پر ایمان رکھتا ہے کہ ہر کام اللہ کی مرضی وقدرت سے ہوتا ہے اسے یہ بھی معلوم ہے کہ خوش بخت بننے کے طریقے اور علامات ہیں اسی طرح بد بختی کی بھی وجوہات اور حرکات ہوتی ہیں۔
٭ جو تہہ دل سے مانتا ہے کہ خیر خواہی اللہ، اس کی کتاب ، اس کے رسول  ﷺ  اور عام وخاص ہر مسلم کے لئے ضروری ہے اسی لئے اپنے مسلم بھائیوں سے صاف صاف بات اور کھرا معاملہ کرتا ہے اور دوسروں سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی برتاؤ رکھیں یہی وجہ ہے کہ اس کے قول وکردار میں دھوکہ، فریب، ٹال مٹول اور گھنّہ پن نہیں ہوتا۔
٭ جو تبلیغِ دین اس حکمتِ عملی کے ساتھ کرتا ہے جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں ذکر کی ہے، فرمانِ الہی ہے:
{اُدْعُ إِلَیٰ سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِيَ أَحْسَنُ}  سورۃ النحل : ۱۲۵
یعنی: حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ اپنے رب کی راہ کی طرف بلائیے اور بہت اچھے طریقہ سے ان لوگوں سے بحث ومباحثہ کیجئے۔
٭ جو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے کیونکہ اس کا ایمان ہے کہ قوم و ملّت کی کامیابی وخوش نصیبی اسی میں ہے، ارشادِ ربی ہے:
{کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ  وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ}  سورۃ آل عمران  : ۱۱۰
یعنی: سب سے بہترین تم لوگ ہو کہ جنہیں انسانیت کو بھلائی کی راہ دکھانے اور برائی سے روکنے کے لئے بھیجا گیا ہے اور تم خود بھی اللہ کے( احکام) ماننے والے ہو۔
٭ جو برائی کو اس طریقہ پر ختم کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسا کہ رسول اللہ  ﷺ سے ثابت ہے،  فرمانِ نبوی ہے:
’’جب تم میں سے کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اسے بذاتِ خود مٹائے، یوں نہ کر سکے تو کسی سے کہہ کر اسے ختم کرائے یوں بھی نہ کر سکے تو کم از کم اس سے کنارہ کش رہے‘‘۔
٭ جو سچ بولتا ہے اور سچی بات کو تسلیم کر لیتا ہے، کیونکہ سچائی نیکی اور نیکی جنت تک لے جاتی ہے، اگرکوئی شخص سچ بولتا رہے اور سچائی کی جستجو کرتا رہے تو اللہ کے یہاں اسے صِدّیق (بالفاظِ دیگر جنّتی) لکھ دیا جاتا ہے۔
٭ جو ہر مسلم کا فائدہ چاہتا ہے، کیونکہ وہ نبی  ﷺ کے اس فرمان پر ایمان رکھتا ہے کہ: ’’وہ شخص صاحبِ ایمان نہیں ہو سکتا حتی کہ اپنے بھائی کے لئے وہی پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے‘‘
٭ جو یہ جانتا ہے کہ وہ اللہ کے سامنے اور اپنی قوم اور وطن کا جوابدہ ہے اسی لئے ہمیشہ ذاتی فوائد کو پسِ پشت ڈال کر ان کاموں کے لئے کوشاں رہتا ہے جن میں دین، امّتِ مسلمہ اور وطن کی خیر خواہی اور فائدہ ہو۔
٭ جو صرف اور صرف اللہ تعالی کی مرضی اور خوشنودی کے مطابق پورے اخلاص کے ساتھ یوں جہاد کرتا ہے کہ اس میں نام ونمود بالکل نہیں ہوتا، اسے اپنی ذات اور قوت پر اعتماد کے بجائے اللہ پر بھروسہ ہوتا ہے اور اللہ کی قائم کردہ حدود وقیود کا لحاظ رکھتے ہوئے جہاد کرتا ہے نیز جیسے جیسے اسلام اور مسلمین کے حالات وضروریات کا تقاضہ ہو وہ اپنی جان ومال اور زبان سے جہاد کرتا رہتا ہے۔
٭ جو عمدہ اخلاق و کردار کا مالک اور دیندار ہوتا ہے وہ نرم طبعیت، کشادہ دل، کھلے ذہن اور صبر وتحمل والا ہوتا ہے لیکن وہ اصلاح کے معاملہ میں جذبات کی رو میں نہیں بہتا اور نہ ہی کوئی موقع ضائع کرتا ہے۔
٭ جو معتدل اور منظم زندگی گزارتا ہے وہ اپنے پروگرام پر خاموشی کے ساتھ مستعدی اور عمدگی سے گامزن رہتا ہے وہ اپنی زندگی کا ہر لمحہ امّتِ مسلمہ کی بھلائی میں  صَرف کرتا ہے۔
٭ ایسا نوجوان اپنے دین، اخلاق اور کردار کی حفاظت کے ساتھ ساتھ کفر و الحاد ، فسق وفجور ،  بیہودہ حرکات اور غلط معاملات سے اجتناب کرتا ہے۔
تو نوجوانوں کی یہ قسم امّت کے لئے باعثِ فخر اور اسکی زندگی، خوش نصیبی اور دینداری کی علامت ہے، یہی وہ نوجوان ہیں کہ،  اللہ کے فضل وکرم سے،  ان کے طفیل مسلمین کے بگڑے ہوئے حالات سدھرنے کی امید ہے اور وہ دوسروں کے لئے مشعلِ راہ ہیں اور یہی وہ نوجوان ہیں جو دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتے ہیں۔
جبکہ نوجوانوں کی دوسری قسم ’’بگڑے ہوئے نوجوان‘‘ کی ہے ، یہ وہ ہے:
٭ جو غلط نظریات، بری عادات، متکبرانہ خیالات اور اخلاق سوز حرکات اور خود غرضی کا پیکر ہوتا ہے، نہ تو کسی کی حق بات قبول کرتا ہے اور نہ ہی خود برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر دم ہر معاملہ میں ہٹ دھرمی پر تُلا رہتا ہے۔
٭ جو کھردرے مزاج کا مالک ہوتا ہے حق کا ساتھ نہیں دیتا اور باطل سے نہیں کتراتا۔
٭ جو اللہ اور اس کے بندوں کی حق تلفی کرنے میں قطعاً نہیں جھجکتا۔
٭ جو بڑ ہانکنے والا ہوتا ہے نہ تو اس کی سوچ صحیح ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے طور طریقے ٹھیک ہوتے ہیں اس کے سارے کام میانہ روی سے عاری ہوتے ہیں۔
٭ جو اپنے آگے کسی کی نہیں سنتا گویا اس کی زبان سے نکلا ہوا ہر حرف بالکل صحیح ہوتا ہے اپنی نظر میں وہ خود تمام غلطیوں سے مبرا ہوتا ہے جبکہ اپنے ہر مخالف کو غلط اور گمراہ سمجھتا ہے۔
٭ جو دینی اعتبار سے صراطِ مستقیم سے بھٹکا ہوا اور سماجی و معاشرتی اقدار کے اعتبار سے بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے لیکن اسے اپنی بری بات بھی اچھی لگتی ہے یوں وہ دنیا میں بری طرح ناکام رہتا ہے جبکہ اپنے تئیں وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ ’’بالکل ٹھیک‘‘ جا رہا ہے۔
٭ یہی وہ نوجوان ہے جو خود اپنے لئے نحوست اور اپنے معاشرے کے لئے آفت ہے ۔ یہی ہے جو امّت کو تباہی کی گھاٹیوں کی جانب گھسیٹ کر لے جا رہا ہے اور اس کی عزت و وقار کے آڑے آ رہا ہے، دراصل یہی وہ مہلک وائرس ہے جس کا علاج بہت مشکل ہے الّا یہ کہ اللہ تعالی کر دے کیونکہ وہی ہر بات پر قادر ہے۔
نوجوانوں کی تیسری قسم میں وہ نوجوان ہے جو بیچارا  مختلف راستوں کے درمیان حیران و پریشان ہے، اس نے حق جان لیا اور مان بھی لیا اور ایک اچھے ماحول میں پروان بھی چڑھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر جانب برائی کے راستے بھی کھلے ہوئے ہیں کہیں عقائد میں شبہات ہیں تو کہیں کردار میں بگاڑ ہے کہیں اعمال میں خرابی ہے تو کہیں خرافات ، غلط رسم و رواج اور باطل نظریات۔ اسی لئے وہ ہمیشہ ذہنی اور نفسیاتی کشمکش میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ مروجہ نظریات کے روبرو گم سم کھڑا ہے اور یہ فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ آیا حق یہ ہے جو نت نئے نظریات اور جدید عادات وافکار کی شکل میں سامنے آ رہا ہے یا وہ ہے جو پہلے سے معلوم و معروف ہے اور سلجھے ہوئے لوگ اس پر کاربند ہیں چنانچہ وہ گومگو کے عالم میں تشویش میں گرفتار رہتا ہے ، کبھی اُسے صحیح سمجھتا ہے تو کبھی اِسے، یعنی جب جسکا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔
نوجوانوں کی یہ قسم زندگی میں منفی رجحان رکھتی ہے انہیں ایسی طاقتور کشش کی ضرورت ہے جو انہیں حق کی آغوش میں اور بھلائی کی راہ پرکھینچ لائے۔ یہ کچھ اتنا مشکل بھی نہیں اگر اللہ کے حکم سے انہیں کوئی سمجھدار، صاحبِ علم اور نیک نیت ساتھی مل جائے!
اس قسم کے نوجوان زیادہ تر وہ ہوتے ہیں جنہوں نے تھوڑی بہت اسلامی تہذیب وتعلیم اور زیادہ تر جدید تعلیم جو کہ بظاہر یا ان کے خیال میں دین سے متصادم ہوتی ہیں، حاصل کی ہوئی ہوتی ہیں اور یوں وہ ان دونوں تہذیبوں کے درمیان متردد رہتے ہیں۔
یہ لوگ اسلامی تعلیمات پر توجہ دیکر اس حیرانگی سے چھٹکارا پا سکتے ہیں بشرطیکہ وہ یہ تعلیمات اِس کے اصل مآخذ یعنی قرآن و حدیث سے مخلص و جید علماء کے ذریعہ حاصل کریں اور یہ کچھ اتنا مشکل بھی نہیں!
نوجوانوں کے بھٹکنے کے اسباب اور ان کے مسائل بہت زیادہ اور مختلف ہیں کیونکہ انسان جوانی کے مرحلہ میں کافی حد تک جسمانی، نفسیاتی اور ذہنی نشو و نَما سے گزر رہا ہوتا ہے اسی لئے اُن میں تیزی سے تبدیلیاں آتی ہیں چنانچہ یہی وہ مرحلہ ہے جس میں ضروری ہے کہ انہیں خواہشات کو قابو میں رکھنے اور مزاج کو درست رکھنے کے لئے حکمتِ عملی کے ساتھ رہنمائی میسر آئے ایسی رہنمائی جو انہیں سیدھی راہ پر گامزن کر دے۔

بے راہ روی کی کچھ اہم وجوہات:

۱- فراغت فراغت یا بیکاری دل و دماغ اور انسانی صلاحیتوں کے لئے موذی مرض ہے انسانی طبعیت کا تقاضہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی کام اور مقصد میں مصروف رہے اور اگر اسے یونہی بیکار چھوڑ دیا جائے تو فکر پراگندہ، ذہن زنگ آلود اور ہمت پست ہو جاتی ہے دل میں طرح طرح کے اندیشے اور فرسودہ خیالات گھر کر لیتے ہیں کبھی یوں بھی ہو سکتا ہے کہ اس بیکاری سے اکتا کر وہ کچھ برے کاموں پر آمادہ ہو جائے
اس مسئلہ کا علاج یہ ہے کہ یہ نوجوان کوئی مناسب مصروفیت تلاش کرے مثلاً مطالعہ، تجارت یا لکھنا لکھانا وغیرہ جوکہ اسکو بیکاری سے نجات دے اور اسے معاشرے کا ایک متحرک اور مفید فرد بنائے۔
۲- کشیدگی اور دوری جب گھر کے چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان بے رخی اور سنگ دلی کی کیفیت ہو اور بزرگ لوگ نوجوانوں کی بے راہ روی سے پریشان، ان کی اصلاح میں ناکام اور سدھارنے سے مایوس ہوکر ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں اور ان کی نظر میں ہرنوجوان بگڑا ہوا ہوتا ہے تو صورتحال بے قابو ہوتی چلی جاتی ہے اور معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگتا ہے (جسے عام طور پر Generation Gap کہا جاتا ہے) اور دونوں طبقے ایک دوسرے کو نفرت وحقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ معاشروں کی تباہی میں یہ خطرہ کی سب سے بڑی علامت ہے۔
اس مسئلہ کا علاج یہ ہے کہ نوجوان اور بزرگ دونوں ہی کشیدگی اور دوری کو ختم کرنے کی کوشش کریں اور دونوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ سب مل کر ایک جسم کی مانند ہیں اور اگر جسم کا کوئی ایک حصہ بھی خراب ہوا تو سارا جسم ناکارہ ہو جاتا ہے۔
اسی طرح بزرگوں کے کندھوں پر نوجوانوں کے سلسلہ میںجو ذمہ داری ہے اسے جان لینا چاہئے اور ان کی اصلاح کے بارے میں جو مایوسی ان پر طاری ہے اسے خیرباد کہہ دینا چاہئے اس لئے کہ اللہ ہر شے پر قادر ہے۔ کتنے گمراہوں کو اللہ نے ہدایت دی اور وہ مشعلِ ہدایت اور مصلح بن گئے۔
نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ بزرگوں کی عزت اور ان کی رائے کا احترام کریں ان کی نصیحتوں کو قبول کریں کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات و واقعات سے وہ کچھ حاصل کیا ہے جو ابھی نوجوانوں کو نہیں معلوم۔ اس لئے اگر بزرگوں کی حکمت اور نوجوانوں کی قوت باہم جمع ہو جائیں تو معاشرہ ، اللہ کے حکم سے، یقینی کامیابی سے ہمکنار ہوگا۔
۳- گندے لوگوں سے میل جول گندے اور بگڑے ہوئے لوگوں کی رفاقت نوجوان کی عقل وفکر اور کردار پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، اسی لئے نبی کریم  ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’انسان اپنے دوست کے طور طریقوں کو اپناتا ہے اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ جسے دوست بنائے پہلے اسے اچھی طرح پرکھ لے‘‘  نیز فرمایا: ’’برے ساتھی کی مثال بھٹی جھونکنے والے کی سی ہے وہ تمہارے کپڑے جلا دے گا یا کم از کم تمہیں اس کے پاس سے بدبو آئے گی‘‘۔
اس مسئلہ کا علاج یہ ہے کہ نوجوان اچھے اور سمجھدار لوگوں کی صحبت اختیار کرے تاکہ وہ ان سے اچھی اور دانائی کی  باتیں سیکھے اس لئے کسی سے میل ملاپ بڑھانے سے پہلے اس کے کردار اور شہرت کے بارے میں اچھی طرح چھان بین کر لے اگروہ دیندار ہو نیز اعلی اخلاق اور اچھی شہرت رکھنے والا ہو تو یہی تو وہ شخص ہے جس کی اسے ضرورت ہے اب اس کے ساتھ ساتھ رہے اور اگر وہ ان خوبیوں کا حامل نہ ہو تو اس سے ہوشیار اور دور رہنا چاہئے اور اس کی چکنی چپڑی باتوں اور خوش نما رکھ رکھاؤ کے جال میں نہیں آنا چاہئے کیونکہ برے لوگ اسی طرح سیدھے سادھے لوگوں کو دھوکہ دیکر پھنسایا کرتے ہیں تاکہ ان کی تعداد بڑھتی رہے اور ان کی حرکتوں پر پردہ پڑا رہے۔ یاد رہے دوستی سے پہلے آزمائش شرط ہے۔
۴- خراب لٹریچر کا مطالعہ مخربِ اخلاق رسالوں، غلط نظریاتی کتابوں اور گندے اخباروں کا مطالعہ نوجوان کی ذہنی اور دینی فکر کو پراگندہ کرنے کا سبب بنتا ہے اور اسے گندے اخلاق ، بیہودہ کردار اور کافرانہ اطوار کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتا ہے خاص کر اُس وقت جبکہ اس کے پاس ذاتی طور صحیح بنیادوں پر اسلامی روحانی اور فکری قوتِ مدافعت اور اچھے، برے اور فائدے و نقصان میں تمیز کرنے کی صلاحیت نہ ہو۔
اس قسم کا لٹریچر نوجوانوں پر فوراً منفی اثر ڈالتا ہے کیونکہ نوجوان کا دل و دماغ کورے کاغذ کی طرح ہوتا ہے اس لئے جس قسم کا وہ مطالعہ کرتا ہے وہ جلد ہی اپنی جڑیں گاڑ دیتا ہے پھر اسکی عادات و اطوار اور افکار میں اسکی جھلک نظر آنے لگتی ہے۔
اس مسئلہ کا علاج یہ ہے کہ وہ اس قسم کے لٹریچر کے مطالعہ کے بجائے ایسی کتابوں کا مطالعہ کرے جو اس کے دل میں اللہ اور اس کے رسول  ﷺ کی محبت بھر دیںاور ایمان و نیک اعمال سے رغبت پیدا ہو۔ اس مقصد کے لئے اسے اپنے نفس پر کافی جبر کرنا پڑے گا کیونکہ پہلے کے لٹریچر کے مقابلے میں یہ لٹریچر اسے بظاہر بور اور مشکل لگے گا۔ یہ بالکل وہی کیفیت ہوگی جب کوئی شخص کسی بری عادت کو چھوڑنے کے لئے کوشش کرتا ہے تو اس کا دل اسے اسی برائی پر آمادہ کرنے کے لئے طرح طرح کے بہانے اور عذر تلاش کرتا ہے۔
سب سے بہترین اور مفید کتاب قرآنِ کریم ہے اور تفاسیر کی وہ کتابیں جو صحیح احادیث اور واضح دلائل کی روشنی میں مرتب کی گئی ہیں اسی طرح وہ کتابیں جن میں صحیح احادیثِ رسول  ﷺ جمع کی گئی ہیں پھر وہ کتابیں جو کتاب اللہ اور صحیح سنتِ رسول اللہ  ﷺ کی روشنی میں اخذ کردہ احکام ومسائل سے متعلق ہیں۔
۵- اسلام سے متعلق بد گمانی بعض نوجوان اسلام کو آزادی ختم کرنے اور صلاحیتوں کو سلب کرنے والا دین تصور کرتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایسا فرسودہ دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو پیچھے کی طرف لے جاتا ہے اور ان کی ترقی اور عروج میں رکاوٹ ڈالتا ہے
اس مسئلہ کا علاج یہ  ہے کہ ان لوگوں کو اسلام کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے کیونکہ اس کا سبب ان کے اپنے برے اعمال اور غلط تصورات ہیں جیسا کہ کسی نے کہا ہے کہ جس کا اپنا منہ کڑوا ہو اسے میٹھا پانی بھی کڑوا لگتا ہے۔
اسلام تو ہرگز بھی آزادی چھیننے والا دین نہیں ہے بلکہ یہ تو خود ایسی تعلیم دیتا ہے کہ کوئی شخص دوسروں کی آزادی میں مخل نہ ہو، جب بھی کوئی شخص ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی کا مطالبہ کرتا ہے تو گویا وہ لازماً دوسروں کی آزادی کا کچھ حصہ چھیننا چاہتا ہے اور یوں انسانی معاشرہ میں ’’جنگل کا قانون‘‘ رائج ہو جاتا ہے اور ’’آزادیوں‘‘ کے درمیان محاذ آرائی شروع ہو جاتی ہے اور ہر جانب فتنہ وفساد اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے دینی احکام کو ’’حدود‘‘ کہا ہے مثلا ً جب کوئی حکم حرام کرنے سے متعلق بیان ہوا تو فرمایا: ’’یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے قریب نہ آنا‘‘  (سورۃ البقرۃ: ۱۸۷) اور جب کسی کام کے کرنے کا حکم دیا تو فرمایا: ’’یہ اللہ کی حدود ہیں ان کی روگردانی نہ کرنا‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۲۲۹)۔
حالانکہ ’’پابندی‘‘ جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں اور ’’رہنمائی‘‘ جو کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے لئے بطور شریعت برائے ضابطۂ حیات نازل کی ہے ، کے درمیان بہت فرق ہے۔
اس بناء پر اصلاً  اس مسئلہ کے پیدا ہونے کا کوئی جواز ہی نہیں کیونکہ نظم وضبط تو ہر بات میں ایک لازمی امر ہے اور پوری کائینات اور خود انسانی طبیعت فطری طور پر نظم و ضبط کی پابندی پر مجبور ہے۔
مثلاً انسان بھوک وپیاس سے مجبور اور کھانے پینے کے نظام کا پابند ہے اسی لئے اپنی جان، صحت اور جسم کی حفاظت کے لئے مقدار اور معیار کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنی خوراک کے نظام کی پابندی کرتا ہے۔
اسی طرح وہ اپنے معاشرتی اور سماجی نظام کا بھی پابند ہوتا ہے وہ اپنے وطن کے رہن سہن، لباس، رسم ورواج اور دیگر آداب کا پابند ہوتا ہے اور اگر اس کی خلاف ورزی کرے تو غیر مہذب اور آوارہ گردانا جاتا ہے پھر اسکے ساتھ وہی سلوک کیا جاتا ہے جو ایسے لوگوں کے ساتھ کیا جانا چاہئے۔
چنانچہ پوری زندگی پابندی کا نام ہے تاکہ سارے کام مطلوبہ طریقوں پر چلتے رہیں۔ اب اگر یہ سمجھ میں آ گیا کہ معاشرتی نظام کی درستگی کے لئے اور اس میں انارکی و ابتری سے بچنے کے لئے لازماً چند پابندیوں کو اپنانا ہوتا ہے اور کسی شخص کو ان پابندیوں سے آزاد قرار نہیں دیا جاتا تویہ بھی واضح ہو گیا کہ پوری امّت کی فلاح کے لئے شرعی نظام کی پابندی بھی ضروری ہے اور کسی کو ان پابندیوں سے مبرا نہیں قرار دیا جا سکتا۔  تو اب بھی اگر کوئی یہ اعتراض کرے کہ اسلام آزادی چھین لیتا ہے تو یہ یقینا محض ایک سفید جھوٹ اور بدگمانی ہے۔
اسی طرح اسلام قطعاً صلاحیتوں کو ختم نہیں کرتا بلکہ وہ تو بطورِ خاص ہر قسم کی فکری، عقلی اور جسمانی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لئے وسیع میدان ہے۔
اسلام غور و فکر کی دعوت دیتا ہے تاکہ انسان سوچے سمجھے اور اپنی عقل و فکر کو پروان چڑھائے، اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا:
{قُلْ إِنَّمَا أَعِظُکُمْ بِوَاحِدَۃٍ أَنْ تَقُوْمُوْا لِلّٰہِ مَثْنَیٰ وَ فُرَادَیٰ ثُمَّ تَتَفَکَّرُوْا} سورۃ سبا: ۴۶
یعنی: میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کی رضا کے لئے کمر بستہ ہو اور مل کر باجماعت یا انفرادی طور پر (اکیلے میں) غور وفکر کرو۔
نیز فرمایا: {قُلْ اْنظُرُوْا مَاذَا فِيْ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ} سورۃ یونس: ۱۰۱
یعنی: کہیئے، دیکھو تو زمین و آسمان میں کیا کیا ہے۔
اسلام محض دعوتِ فکر و نظر ہی نہیں دیتا بلکہ جو لوگ غور و فکر اور عقل استعمال نہیں کرتے ان کی مذمت کرتا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:
{أَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِيْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ} سورۃ الأعراف: ۱۸۵
یعنی: کیا ان لوگوں نے زمین و آسمان اور جو کچھ اللہ نے پیدا کیا ہے اس کی کیفیت وبناوٹ پر غور نہیں کیا۔
{أَوَ لَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِيْ أَنْفُسِہِمْ، مَا خَلَقَ اللّٰہُ السَّمٰوَاتِ وَالأَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا إلِاّ بِالْحَقِّ} سورۃ الروم: ۸
یعنی: کیا ان لوگوں نے خود نہیں سوچا کہ زمین و آسمان اور جو کچھ اللہ تعالی نے اس میں پیدا کیا ہے کس قدر سلیقہ سے اور بامقصد ہے۔
{وَمَنْ نُعَمِّرْہُ نُنَکِّسْہُ فِيْ الْخَلْقِ أَفَلَا یَعْقِلُوْنَ} سورۃ یس: ۶۸
یعنی: جسے ہم بوڑھا کر دیں اسے ابتدائی حالت میں لوٹا دیتے ہیں، کیا پھر بھی وہ نہیں سمجھتے۔
فکر و نظر کی ہدایت سوائے عقلی اور فکری صلاحیتوں کو بڑھانے کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے! بھلا اب بھی کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ اسلام صلاحیتوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے؟؟؟ یہ تو محض زبان چلانا ہی ہوا، یقینا یہ صرف ایک جھوٹا الزام ہے۔
اسلام نے ہر قسم کی تفریح جس میں کوئی جسمانی، دینی اور نظریاتی نقصان نہ ہو، جائز قرار دی ہے۔ نیز کھانے پینے کی تمام اچھی چیزوں کو حلال قرار دیا:
{یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاکُمْ وَاْشْکُرُوْا لِلّٰہِ}
سورۃ البقرۃ: ۱۷۲
یعنی: اے اہلِ ایمان! جو اچھی چیزیں تمہیں دی گئی ہیں انہیں کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔
{وَکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلاَ تُسْرِفُوْا إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ}
سورۃ الأعراف: ۳۱
یعنی: کھاؤ پیو مگر ضایع نہ کرو، یقینا وہ (اللہ) فضول خرچوں کو پسند نہیں کرتا
اسی طرح اسلام نے ہر وہ لباس جائز قرار دیا ہے جو انسانی ضرورت اور فطرت کے مطابق ہو، فرمانِ الہی ہے:
{یَا بَنِيْ آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیْکُمْ لِبَاساً یُّوَارِيُ سَوْئَ اتِکُمْ وَرِیْشاً وَلِبَاسُ التَّقْوَیٰ ذٰلِکَ خَیْرٌ} سورۃ الأعراف: ۲۶
یعنی: اے لوگوں! ہم نے تمہاری پردہ پوشی اور آرائش کے لئے لباس اتارا اور پرہیزگاری کا لباس ہی بہتر ہے۔
{قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَۃَ اللّٰہِ الَّتِيْ أَخْرَجَ لِعِبَادِہِ وَالطَّیِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ قُلْ ہِيَ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا فِيْ الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا خَالِصَۃً یَوْمَ القِیَامَۃِ} سورۃ الأعراف: ۳۲
یعنی: کہو! بھلا کون ہے جو اللہ کی مقرر کردہ زینت (لباس) اور عمدہ نعمتوں کو حرام کر سکتا ہے، کہہ دیجئے کہ یہ سب چیزیں اہلِ ایمان کے لئے دنیوی زندگی کے لئے بھی ہیں اور آخرت میں خاص انہیں کے لئے ہوں گی۔
شرعی نکاح کے ساتھ عورتوں سے لطف اندوز ہونے کو جائز قرار دیا:
{فَاْنْکَحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنَیٰ وَ ثُلاَثَ وَرُبَاعَ فِإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃٍ}  سورۃ النسائ: ۳
یعنی: دو یا تین یا چار عورتوں سے، جو تمہیں مناسب لگے، تم نکاح کر سکتے ہو البتہ اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے درمیان مساوات نہ کر سکو گے تو پھر ایک پر ہی اکتفاء کرو۔
کاروبار کے میدان میں بھی اسلام نے اپنے ماننے والوں کو صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا نے سے منع نہیں کیا اور باہمی رضامندی سے ہر جائز کاروبار کرنے کی اجازت دی ہے:
{وَأَحَلَّ اللّٰہُ البَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا} سورۃ البقرۃ: ۲۷۵
یعنی: اللہ نے کاروبار کو حلال اور سود کو حرام کر دیا ہے۔
{ہُوَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمْ الأَرْضَ ذَلُولاً فَامْشُوْا فِيْ مَنَاکِبِہَا وَکُلُوْا مِنْ رِّزْقِہِ وَإِلَیْہِ النُّشُوْرُ} سورۃ الملک: ۱۵
یعنی: اسی (اللہ) نے تمہارے لئے زمین کو آسان بنایا تاکہ تم اس کے راستوں میں چلو پھرو اور اللہ کی نعمتیں کھاؤ اور مرنے کے بعد تمہیں اسی کی طرف آنا ہوگا۔
{فَإِذَا قُضِیَتْ الصَّلاَۃُ فَانْتَشِرُوْا فِيْ الأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ}
سورۃ الجمعۃ: ۱۰
یعنی: نمازِ (جمعہ) کے بعد زمین پر پھیل جاؤ (کاروبار پر واپس آ جاؤ) اور اللہ کا فضل تلاش کرو۔
تو کیا اب بھی یہ خیال یا بات صحیح ہے کہ اسلام صلاحیتوں کو مفلوج کر دیتا ہے؟!

نوجوانوں کے دل میں پیدا ہونے والے وسوسے

مردہ دل میں برے خیالات اور اسلام کے منافی وسوسے پیدا نہیں ہوتے کیونکہ وہ پہلے ہی ایک مردہ اور بیکار دل ہے شیطان کو اس سے زیادہ اور کیا چاہئے اسی لئے جب ابن مسعود ص یا ابنِ عباس ص سے کہا گیا کہ یہود تو یہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں تو اپنی نماز میں کوئی وسوسے یعنی بہکانے اور پریشان کرنے والے خیالات نہیں آتے تو انہوں نے کہا وہ ٹھیک کہتے ہیں شیطان کو ایک ویران دل سے کیا لینا!
البتہ جب کوئی دل زندہ ہو یعنی اس میں کچھ ایمان ہو تو شیطان ایسے دل پر مسلسل کاری حملے کرتا رہتا ہے اور اس کے دل میں دین کے مخالف خیالات اور  اتنے خطرناک وسوسے ڈالتا ہے کہ بندہ اگر ان کے جال میں پھنس جائے تو کہیں کا نہ رہے حتی کہ وہ اس کے دل میں اللہ، دین اور ایمان کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اگر اسے دل میں کوئی کمزوری اور پسپائی وشکست خوری محسوس ہو تو اس پر قبضہ کر لیتا ہے حتی کہ اسے دین سے خارج کرکے دم لیتا ہے لیکن اگر اسے دل میں قوت اور مزاحمت نظر آتی ہے تو وہ خود شکست خوردہ اور ذلیل وخوار ہوکر بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔
اگر بندہ نبی کریم  ﷺ کا بتایا ہوا علاج استعمال کرے تو شیطان کے وسوسوے اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ ابن عباس  ص سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی کہ میرے دل میں ایسے (برے) خیالات آتے ہیں کہ ان کو زبان پر لانے کے بجائے میں ہاتھ پر انگارے رکھنا منظور کر لوں گا۔ نبی کریم  ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے شیطان کی چالوں کو وسوسہ تک محدود کر دیا ہے۔  (ابو داؤد ) (یعنی اگر بندہ مضبوط ایمان والا ہو تو شیطان اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا)
اسی طرح صحابہ میں سے کچھ لوگ آئے اور کہا کہ یا رسول اللہ  ﷺ ہمارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ ان کا ذکر کرنا بھی مشکل ہے! نبی کریم  ﷺ نے فرمایا :کیا واقعی! انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ فرمایا: یہ سچے ایمان کی علامت ہے (مسلم)
سچے ایمان سے مراد یہ ہے کہ تم ان بیہودہ اور خطرناک وسوسوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ایمان پر قائم ہو تو یہی تمہارے سچا اور پکا مؤمن ہونے کی نشانی ہے ان وسوسوں سے تمہارے ایمان میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
نبی کریم  ﷺ نے فرمایا: شیطان کسی کے پاس آ کر کہتا ہے کہ اسے کس نے پیدا کیا ، اور اسے کس نے پیدا کیا حتی کہ یہ کہتا ہے کہ تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا جب وہ اس حد تک تنگ کرنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگے اور اس کے وسوسوں کی پرواہ نہ کرے۔ (بخاری ، مسلم) اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ یوں کہے :’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ‘‘ یعنی میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔
نیز ابو داؤد کی ایک حدیث میں ہے کہ یوں کہو: ’’اللّٰہُ اَحَدٌ اللّٰہُ الْصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً اَحَدٌ‘‘ (یعنی اللہ اکیلا ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ تو اس نے کسی کو جنا اور نہ ہی اُسے کسی نے جنا اور اس جیسا کوئی بھی نہیں) پھر اپنے بائیں طرف تھو تھو کرے اور شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔
جیسا کہ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ، رضوان اللہ علیہم اجمعین، نے نبی کریم  ﷺ سے اپنا مسئلہ ذکر کیا تو رحمت للعالمین  ﷺ نے چار باتوں کے ذریعہ اس کا علاج تجویز کیا:
پہلی:    ان وسوں کی بالکل پرواہ نہ کرو گویا کہ تمہارا ان سے کوئی تعلق ہی نہیں اور ان کی جگہ اچھی باتیں سوچو۔
دوسری:             ان وسوسوں اور شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو۔
تیسری:             یہ کہو: ’’آمَنْتُ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہِ‘‘ یعنی میں اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان رکھتا ہوں۔
چوتھی: یہ کہو: ’’اللّٰہُ اَحَدٌ اللّٰہُ الْصَّمَدُ لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ وَلَمْ یَکُنْ لَہُ کُفُواً اَحَدٌ‘‘  (یعنی اللہ اکیلا ہے، اللہ بے نیاز ہے، نہ تو اس نے کسی کو جنا اور نہ ہی اُسے کسی نے جنا اور اس جیسا کوئی بھی نہیں) پھر اپنے بائیں طرف تھو تھو کرے اور شیطان مردود کے شر سے اللہ کی پناہ مانگے۔

مسئلۂ تقدیر پر حیرانگی

تقدیر کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ایک ہے جو نوجوانوں کو پریشان کر دیتے ہیں کیونکہ تقدیر پر ایمان لانا مکمل ایمان کا ایک لازمی حصہ ہے اور وہ یوں ہے کہ اس بات پر ایمان رکھے کہ اللہ تعالی زمین وآسمان میں جو کچھ بھی ہونے والا ہے ،اس سے نہ صرف یہ کہ باخبر ہے بلکہ وہی ہے جس نے ہر بات کو پہلے سے مقرر کیا ہوا ہے۔ جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا:
{أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِيْ السَّمَائِ وَالأَرْضِ إَنَّ ذٰلِکَ فِيْ کِتَابٍ إِنَّ ذٰلِکَ عَلَیٰ اللّٰہِ یَسِیْرٌ}  سورۃ الحج: ۷۰
یعنی: کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالی زمین و آسمان میں ہر چیز سے آگاہ ہے در اصل یہ سب کچھ (پہلے سے) مکتوب (مقرر ) ہے یقینا اللہ کے لئے یہ سب کرنا بہت آسان ہے۔
نبی کریم  ﷺ نے تقدیر کے مسئلہ پر بحث ومباحثہ سے منع فرما دیا:
ابو ھریرہ ص سے روایت ہے کہ ایک بار رسول اللہ  ﷺ ہمارے پاس اُس وقت تشریف لائے جبکہ ہم تقدیر کے مسئلہ پر بحث وتکرار کر رہے تھے تو نبی کریم  ﷺ اتنا ناراض ہوئے کہ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا، فرمایا: ’’کیا یہی کچھ کرنے کے لئے تمہیں کہا گیا تھا، کیا مجھے تمہاری طرف اسی لئے مبعوث کیا گیا تھا، تم سے پہلی امّتوں کے لوگ اس مسئلہ پر جھگڑنے سے تباہ وبرباد ہو گئے، میں تمہیں ہرگز اس مسئلے میں بحث وتکرار کی اجازت نہیں دونگا۔ (ترمذی)
تقدیر کے مسئلہ میں پڑنے اور جھگڑنے سے بندہ ایسی گہرائیوں میں جا گرتا ہے کہ وہاں سے نکل نہیں سکتا۔ سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ نیکی کی کوشش کرو اور اللہ تعالی کے احکامات بجا لاؤ کیونکہ اللہ نے تمہیں عقل وسمجھ سے نوازا  اور رسولوں کو کتابیں دیکر تمہاری ہدایت کے لئے بھیجا ہے:
{لِئَلاَّ یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیٰ اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزاً حَکِیْماً}  سورۃ النسائ: ۱۶۵
یعنی: تاکہ رسولوں کے آنے کے بعد کوئی اللہ سے گِلہ نہ کر سکے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے
جب نبی کریم  ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کوئی بندہ ایسا نہیں ہے کہ جس کا ٹھکانہ جنت یا دوزخ میں مقرر نہ کیا جا چکا ہو تو صحابہ نے عرض کی: یا رسول اللہ  ﷺ تو کیوں نہ ہم اپنے مقدر پر تکیہ کر لیں اور عمل چھوڑ دیں، فرمایا: عمل کئے جاؤ کیونکہ ہر شخص کے لئے اس کے انجام کے مطابق عمل کرنا آسان کر دیا گیا ہے خوش نصیبوں کے لئے اچھے لوگوں کے کام اور بدنصیبوں کے لئے برے لوگوں کے کام آسان ہوتے ہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ  ﷺ نے یہ آیت پڑھی: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَیٰ وَاتَّقَیٰ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَیٰ فَسَنُیَسِّرُہُ لِلْیُسْرَیٰ وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاْسْتَغْنَیٰ وَکَذَّبَ بِالْحُسْنَیٰ فَسَنُیَسِّرُہُ لَلْعُسْرَیٰ}  سورۃ اللیل: ۵- ۱۰ یعنی: جو (فی سبیل اللہ) دیتا رہا اور (اللہ سے) ڈرتا رہا اور اچھے صلہ کی امید رکھی تو ہم بھی اس کے لئے (نیکی کرنا) آسان کر دیں گے، البتہ جس نے بخیلی اور لاپرواہی کی اور اچھے صلہ کو جھوٹ جانا تو ہم بھی اس کے لئے (نیکی کرنا) مشکل بنا دیں گے۔(بروایت بخاری)
دیکھیں نبی کریم  ﷺ نے انہیں عمل کرنے کا حکم دیا اور محض مقدر پر اکتفاء کرنا جائز نہیں کیا کیونکہ جنتی بھی اہلِ جنت والے عمل کرکے ہی جنت میں جائے گا اسی طرح جسے جہنم کا مستحق قرار دیا گیا ہو تو بھی اس کے اعمال کی بناء پر ہی ہوگا اور عمل ہر شخص کی مرضی کے مطابق ہے کیونکہ وہ بخوبی جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے عمل کا اختیار دیا ہے اب اسکی مرضی ہے اسے کرے یا چھوڑ دے۔
مثلاً ایک شخص سفر کرنا چاہتا ہے تو سفر کرتا ہے کسی جگہ ٹھہرنا چاہتا ہے تو ٹھہر جاتا ہے۔ اسی طرح جب آگ دیکھتا ہے تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ کسی پسندیدہ شے کو دیکھتا ہے تو اس کی جانب بڑھتا ہے۔ اسی طرح گناہ اور ثواب کے کام ہیں انسان اپنی مرضی سے انہیں کرتا ہے یا نہیں کرتا!
بعض لوگوں کو مسئلہ تقدیر سے متعلق دو الجھنیں لاحق ہوتی ہیں:
پہلی الجھن: بندہ یہ نوٹ کرتا ہے کہ کوئی اسے کسی کام پر مجبور نہیں کرتا بلکہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہتا ہے کرتا ہے تو پھر تقدیر پر ایمان کہ’’ ہر کام اللہ کے یہاں مقرر کئے ہوئے حساب کتاب کے مطابق ہوتا ہے‘‘، آخر ان دونوں باتوں، یعنی مرضی اور مقدر، کا آپس میں کیا تعلق بنتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ہم غور کریں کہ کوئی کام کب ہوتا ہے تو دو باتیں سامنے آتی ہیں یعنی پہلے: عمل کرنے کا ’’ارادہ‘‘، پھر: عمل کرنے کی ’’صلاحیت و قدرت‘‘۔ ہر کام اسی وقت واقع ہوتا ہے جب کوئی کچھ کرنا چاہے اور اس کو انجام دینے کی قدرت بھی رکھتا ہو بصورت دیگر ’’عمل‘‘ واقع نہیں ہوگا۔ دراصل ’’ارادہ‘‘ اور ’’قدرت‘‘ دونوں ہی اللہ کے پیدا کردہ ہیں کیونکہ ’’ارادہ‘‘ ذہنی قوت اور ’’قدرت‘‘ جسمانی قوت کی وجہ سے ہے، اگر اللہ چاہے تو انسان کی عقل سلب کرلے تو پھر وہ کوئی ارادہ نہیں کر سکتا اور اگر اس کی قدرت سلب کرلے تو پھر وہ کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتا۔ اب اگر انسان کچھ کرنے کا ارادہ کرے اور پھر کر گزرے تو یقینا یہ بات ہے کہ اللہ نے چاہا اور اسے کرنے دیا وگرنہ اس کا ارادہ بدل دیتا یا اس عمل کو کرنے میں کوئی رکاوٹ ہو جاتی اور وہ اسے سرانجام نہ دے پاتا۔ کسی دیہاتی سے پوچھا گیا کہ تم نے اللہ کو کیسے پہچانا؟ اس نے کہا: ہمتوں کو ٹوٹتا اور ارادوں کو بدلتا دیکھ کر!
دوسری الجھن: گناہ پر انسان کو سزا کیوں ملتی ہے جبکہ جو کچھ اس نے کیا وہ پہلے سے لکھا تھا اور اس ’’مُقدّر‘‘ سے چھٹکارا پانا اس کے لئے ممکن نہیں تھا۔
جواب یہ ہے کہ جب کوئی یہ کہے تو وہ یہ کیوں نہیں کہتا کہ اچھے اعمال پر جنت کیوں ملتی ہے وہ بھی تو  ’’مُقدّر‘‘  کا حصہ ہوا !  یہ تو انصاف کی بات نہیں کہ برے اعمال کے لئے تو ’’مُقدّر‘‘  کو ڈھال بنایا جائے اور اچھے اعمال کو اپنا کمال قرار دیا جائے!
دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اس اعتراض کو سِرے سے غلط قرار دیا ہے اور اسے جاہلانہ بات کہا ہے:
{سَیَقُوْلَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا لَوْ شَائَ اللّٰہَ مَا أَشْرَکْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِنْ شَیْئٍ کَذَلِکَ کَذَّبَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ حَتَّیٰ ذَاقُوْا بَأْسَنَا قُلْ ہَلْ عِنْدَکُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوْہُ لَنَا اِنْ تَتَّبِعُوْنَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإنِْ أَنْتُمْ إِلاَّ تَخْرُصُوْنَ}  سورۃ الأنعام: ۱۴۸
یعنی: مشرکین کہیں گے کہ اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم اور نہ ہی ہمارے باپ دادا شرک کرتے اور نہ ہی ہم نے کوئی چیز حرام کی ہوتی، اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے بھی جھٹلایا (یعنی مسئلۂ تقدیر کو غلط رنگ دیا) آخر کار انہیں ہمارا عذاب لاحق ہوا۔ کہو کہ تمہارے پاس کوئی ثبوت ہے(کہ اللہ نے تمہیں شرک کرنے پر مجبور کیا)  تو دکھاؤ مگر تم لوگ تو محض خیال آرائی ہی کرتے ہو اور تم لوگ تو بس بے پرکی اڑاتے ہو۔
تو اللہ تعالی نے تقدیر کا بہانہ بنا کر اپنے شرک کرنے کو مجبوری ظاہر کرنے والوں کے بارے میں صاف بتا دیا کہ پہلے لوگوں کی طرح یہ لوگ بھی اسی طرح اپنی غلطی چھپانے کے لئے جھوٹ کا سہارا لیں گے اگر انکا یہ عذر صحیح ہوتا تو اللہ تعالی انہیں عذاب میں مبتلا نہیں کرتا پھر اللہ تعالی نے اپنے نبی کو ہدایت کی کہ ان سے ثبوت مانگیں اور یہ بھی بتا دیا کہ ان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
تیسرا جواب یہ ہے کہ تقدیر تو ایک پوشیدہ راز ہے جب تک کوئی عمل واقع نہیں ہو جاتا اس وقت تک اللہ تعالی کے سوا کسی کو اس کا علم نہیں ہوتا تو کوئی شخص یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں یہ گناہ کر رہا ہوں اس لئے کہ اللہ تعالی نے میرے لئے یہی لکھ رکھا ہے؟ وہ یہ کیوں نہیں کہتا کہ اللہ کہ میرے لئے نیکی کا عمل لکھا ہوا ہے اس لئے گناہ کے بجائے نیک عمل کروں گا!
چوتھا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو عقل و سمجھ سے نوازا ہے اور اس کی ہدایت کے لئے انبیاء اور کتابیں بھیجی ہیں پھر اس کو اچھے اور برے کی تمیز بھی دے دی اور اسے ’’ارادہ اور قدرت‘‘ دیکر اس قابل کر دیا کہ وہ نیک و شر دونوں راستوں میں سے جس کا چاہے انتخاب کر لے، تو پھر یہ گناہ گار اچھی راہ کو چھوڑ کر بری راہ اختیار کرنے پر کیوں بضد ہے؟؟؟
ذرا سوچئے! اگر اس گناہ گار کو کہیں جانا ہو اور اس کے سامنے دو راستے ہوں ایک آسان اور پُرامن جبکہ دوسرا مشکل اور خطرناک تو وہ یقینا پہلا راستہ اختیار کرے گا اور دوسرے راستہ کو یہ کہہ کر اختیار نہیں کرے گا کہ اللہ نے ایسا ہی لکھا ہوا ہے بلکہ اگر اس نے ایسا کیا تو لوگ اسے بیوقوف اور پاگل ہی کہیں گے۔ اسی طرح اچھی اور بری راہ ہے انسان کو چاہئے کہ اچھی راہ پر چلے اور بری راہ پر چلنے کے لئے  ’’مُقدّر‘‘ کا بہانہ بنا کر خود کو دھوکہ نہ دے۔ ہم جانتے ہیں کہ انسان روزی کمانے کے لئے سارے طریقے آزماتا ہے اور محض تقدیر پر تکیہ کر کے گھر میں بیٹھا نہیں رہتا۔
تو پھر دنیا کے لئے کوشش کرنے اور اللہ تعالی کی اطاعت کی کوشش کرنے میں کیا فرق ہے؟ نیکی کو چھوڑنے کے لئے تقدیر کا بہانہ کیوں کرتے ہو جبکہ دنیا کمانے کے لئے تقدیر پر بھروسہ نہیں کرتے!
مسئلہ تو بہت واضح ہے لیکن دراصل منفی رجحانات اور بری خواہشات انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہیں!!!

نوجوانوں سے متعلق احادیث

اب جبکہ ہماری گفتگو نوجوانوں کی الجھنوں کے بارے میں ہو رہی ہے تو اب میں چند ایسی احادیث پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن میں نوجوانوں کا ذکر ہے:
۱- آپ کے رب کو ایسے نوجوان پسند ہیں جن کے برے مشغلے نہ ہوں
(احمد)
۲- سات لوگ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالی اُس دن اپنے یہاں سایہ نصیب کرے گا جبکہ کہیں اور سایہ نہ ہوگا:  منصف حکمران، ایسا نوجوان جو اللہ کی اطاعت گزاری میں پروان چڑھا ہو، ایسا شخص جس کا دل مسجد میں لگا رہے، ایسے دو افراد جو اللہ کی محبت میں آپس میں ملے اور اسی بنیاد پر علیحدہ ہوئے، ایسا شخص جسے اونچے رتبے اور حسین خاتون نے دعوتِ گناہ دی تو اس نے یہ کہہ کر اسے ٹھکرا دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں، ایسا شخص جو اتنی رازداری سے صدقہ کرے کہ گویا ایک ہاتھ سے دیا تو دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو اور ایسا شخص جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرکے رو پڑا۔ (بخاری ، مسلم)
۳- حسن ص اور حسین ص  نوجوان اہلِ جنت کے سردار ہیں۔ (ترمذی)
۴- اہلِ جنت سے کہا جائے گا کہ تم پر ایسی جوانی آئے کہ کبھی بوڑھے نہ ہو۔ (مسلم)
۵- جب بھی کوئی نوجوان کسی بوڑھے شخص کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے اسکی عزت کرتا ہے تو اللہ تعالی اس کے بڑھاپے کے لئے بھی کسی کو مقرر کر دیتا ہے۔ (ترمذی، لیکن اس روایت کی سند کمزور ہے)
۶- ابوبکر ص نے زید بن ثابت ص  سے کہا، اُن کے قریبعمر بن الخطاب ص بھی تھے: آپ ایک سمجھدار اور باکردار نوجوان ہیں، چونکہ آپ رسول اللہ  ﷺ پر نازل شدہ وحی لکھا کرتے تھے اس لئے اب قرآن ایک جگہ جمع کریں۔ (بخاری)
۷- نبی کریم  ﷺ ایک نوجوان کے پاس تشریف لائے جبکہ اس کا آخری وقت قریب آ چکا تھا، پوچھا:کیسا لگ رہا ہے؟ عرض کی: یا رسول اللہ  ﷺ اللہ تعالی سے ملاقات کا شوق ہے اور اپنے گناہوں کا ڈر بھی ہے۔ تو نبی کریم  ﷺ نے فرمایا: جب کسی بندہ کے دل میں یہ دو چیزیں اکٹھی ہو جائیں تو اللہ تعالی بالضرور اسے وہ عطا کرتا ہے جسے اس کا شوق ہو اور اس چیز سے بچا لیتا ہے جسکا اس کو ڈر ہو۔ (ابن ماجہ)
۸- براء بن عازب نے غزوہ حنین کے بارے میں کہا: واللہ نبی کریم  ﷺ ہرگز پیچھے نہ ہٹے لیکن دراصل پھرتیلے جلد باز نوجوان صحابہ بغیر اسلحہ کے نکل کھڑے ہوئے۔ (بخاری)
۹- ابن مسعود ص  نے فرمایا: ہم اُس وقت نبی کریم  ﷺ کے ساتھ جنگ کے لئے نکلا کرتے تھے جبکہ ہم نوجوان تھے۔ (احمد)
۱۰- انس بن مالک ص نے فرمایا: انصار میں ستّر نوجوان تھے جنہیں قاری کہا جاتا تھا، وہ مسجد میں ہوتے تھے جب شام ہوتی تو مدینہ کی کسی جگہ چلے جاتے اور وہاں پڑھتے پڑھاتے اور عبادت کرتے، ان کے گھر والے یہ سمجھتے کہ وہ مسجد میں ہیں اور مسجد والے یہ سمجھتے کہ گھر میں ہیں پھر جب صبح ہوتی تو میٹھا پانی تلاش کرتے اور ایندھن جمع کرتے اور لا کر نبی کریم  ﷺ کے حجرہ کے قریب رکھ دیتے۔  (احمد)
اور اس سے وہ اہلِ صفّہ کے لئے کھانا خریدتے تھے، اہلِ صفّہ مدینہ آنے والے نادار مہاجرین تھے ان کا کوئی گھر بار نہ تھا وہ مسجد میں ایک ٹیلہ پر یا اس کے قریب رہا کرتے تھے۔
۱۱- عبد اللہ بن مسعود ص کے ایک ساتھی علقمہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں عبد اللہ ص کے ساتھ منیٰ میں جا رہا تھا تو انہیں عثمان  ص ملے وہ وہیں کھڑے ہو کر باتیں کرنے لگے، عثمان  ص  نے عبداللہ ص  سے کہا: ابو عبدالرحمن! کیوں نہ تمہاری شادی کسی لڑکی سے کرا دیں تاکہ تمہیں کچھ گزرا ہوا زمانہ یاد دلائے، عبداللہ ص  نے فرمایا: آپ نے تو وہی بات کہہ دی جو رسول اللہ  ﷺ نے ہم سے کہی تھی: اے نوجوانو! جو شادی کر سکتا ہے وہ ضرور شادی کرلے کیونکہ نگاہوں کو نیچا رکھنے اور شرم گاہ کی حفاظت کا یہی سب سے بہتر ذریعہ ہے اور جو شادی نہ کر سکے تو پھر وہ روزے رکھا کرے یہی اس کے لئے ڈھال ہے۔ (بخاری، مسلم)
۱۲- حدیثِ دجّال میں نبی کریم  ﷺ سے روایت ہے کہ: دجّال جوانی سے بھرپور ایک شخص کو بلائے گا اور تلوار مار کر تیر کے برابر دو ٹکڑے کر دے گا پھر اسے آواز دے گا تو وہ ہنستا ہوا تروتازہ چہرے کے ساتھ اس کی طرف آئے گا۔  (مسلم)
۱۳- مالک بن حویرث  ص کہتے ہیں:  ہم نبی کریم  ﷺ کی خدمت میں اًس وقت حاضر ہوئے جبکہ ہم لوگ ہم عمر نوجوان تھے، ہم نبی کریم  ﷺ کے پاس بیس دن رکے، نبی کریم  ﷺ نہایت مشفق اور مہربان تھے جب انہیں اندازہ ہوا کہ اب ہمیں اپنے گھر والے یاد آ رہے ہیں تو ہم سے ان کے بارے میں پوچھا تو ہم نے انہیں بتا دیا، فرمایا: اپنے گھر والوں کے پاس جاؤ اور وہیں ٹھہرو ، انہیں تعلیم دو اور عمل کراؤ ، پھر کچھ چیزوں کا ذکر کیا اور فرمایا: اور نماز اسی طرح پڑھو جیسا کہ تم نے مجھے پڑھتا ہوا دیکھا اور جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے پھر کوئی بڑا نماز پڑھائے۔ (بخاری)

بس یہی کچھ ہم بتانا چاہ رہے تھے ۔ ۔ ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس کے ذریعہ اصلاح فرما دے۔ (آمین)
والحمد للہ رب العالمین
وصلی اللہ وسلم علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین۔

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User