Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 31, 2011

دینی مدارس اور طلباء کرام

دینی مدارس اور طلباء کرام



زیر نظر ارشادات حضرت مولانا ابرار الحق ہردوئی رحمہ اللہ کے افادات سے منتخب کردہ ہیں‘ جس میں طلباء کا مدارس میں کردار اور اساتذہ کی طلباء کرام کی دینی تربیت وغیرہ امور کی طرف متوجہ کیا گیا ہے۔یہ ارشادات اگرطلبہ کرام کے پیش نظر ہوں تو ہمارے مدارس سے اعلیٰ تربیت کے حامل اہل علم تیار ہوسکتے ہیں ۔ افادہ عام کی غرض سے ہدیہ قارئین ہیں۔






مدارس دینیہ کے اندر اگر ہم طلباء اور اساتذہ کو تکبیر اولیٰ سے جماعت کی مشق نہ کرائیں گے تو پھر صالح ماحول سے نکلنے کے بعد جب یہ غیر صالح ماحول میں جائے گا وہاں ان کا کیا حال ہوگا؟ اہل مدارس خدا کے لئے اس نادر موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور اپنی کھیتی کو یعنی طلباء کی دینی حالت کو) خوب سدھارنے میں حد درجہ دلسوزی کردیں‘ تاکہ یہ صدقہ ٴ جاریہ بن سکیں اور اصلاح امت کے لئے صحیح نمونہ بن سکیں۔


حکیم الامت حضرت تھانوی کے پاس حضرت کے اکابر میں سے کوئی بزرگ تشریف لائے ‘ اس زمانہ میں حضرت اقدس تفسیر بیان القرآن لکھ رہے تھے‘ ہر روز جس قدر لکھنے کا معمول تھا اس سے بہت مختصر اور بہت کم چند سطور اس دن تحریر کرکے اور پھر ان بزرگ کی خدمت میں حاضری دے کر فرمایا کہ: حضرت! ناغہ سے بچنے کے لئے تھوڑا سا کام کرلیا۔
دینی مدارس میں علم دین کے اسباق بھی روحانی غذا ہیں‘ ان کا ناغہ بھی بدوں سخت لاچاری اور مجبوری نہ ہونا چاہئے۔ اساتذہ کی اس ہمت اور عزم کا اثر طلباء پر بھی ہوگا کہ جب یہ مدرس ہوں گے‘ اس عزم وہمت سے کام کریں گے۔ ورنہ مشہور ہے کہ: خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ (حوالہ بالا ص:۳۱) ۱۰:- فرمایا: آج علم میں بے برکتی کا بڑا سبب اساتذہ کا ادب واحترام نہ کرنا ہے اور تفسیر و حدیث پاک کی کتابوں کا ادب نہ کرنا ہے۔ عموماً طلباء انگریزی اسکول کے لڑکوں کی طرح دینی کتب کو ہاتھ میں لے کر نیچے لٹکائے ہوئے، ہلاتے ہوئے چلتے ہیں‘ جس سے دینی کتابیں کبھی آگے کبھی پیچھے ہوتی ہیں اور بعض تو چارپائی کے سرہانے بیٹھے ہوئے اور پائینتی کی طرف کتابوں کو رکھتے ہیں‘ بعض دینی کتب پر قلم، چشمہ اور ٹوپی رکھ دیتے ہیں‘ ان باتوں سے بچنا چاہئے‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فضل بے ادب کو نہیں ملتا۔
اے خدا جوئیم توفیق ادب
بے ادب محروم ماند از فضل رب
ترجمہ:-” اے خدا !ہم آپ سے ادب کی توفیق مانگتے ہیں‘کیونکہ بے ادب آپ کے فضل سے محروم ہوجاتاہے“۔





دینی مدارس اور طلباء کرام ۲:-فرمایا: جو طالب علم اصول کی پابندی نہ کرے‘ فوراً اس کا اخراج کیا جائے ۔جس طرح درخت میں جو شاخ خراب ہوتی ہے ،اس کو فوراً کاٹ دیتے ہیں۔ (حوالہ بالا ص:۲۴) ۳:- فرمایا: پولیس مین اور پوسٹ مین اپنی اپنی وردی میں شناخت کرلئے جاتے ہیں‘ مگر آج کل طالب علم دین کا تعارف کرانا پڑتا ہے۔ صلحاء کی وضع قطع کا اہتمام نہیں‘ صالحین کی صورت اختیار کرنے سے صلاحیت کی حقیقت بھی منتقل ہوجاتی ہے۔ ۴:- فرمایا: مدرسہ میں طلباء اگرچہ کم ہوں مگر تعلیم نہایت معیاری ہو اور تربیت واصلاح معیاری ہو،پھر خود لوگوں کو کشش ہوگی۔ ہمارے یہاں کا ایک بچہ جب وطن واپس گیا تو اس کی ۴/رکعت سنتوں کو ۷/منٹ میں پڑھتے دیکھا گیا اور اذان ہوتے ہی مسجد جانا اور خاموشی سے باادب بیٹھنا اور عمر صرف ۷/سال ‘ اس کااثر لوگوں پر یہ ہوا کہ تین آدمیوں نے اپنے بچوں کے داخلے کے لئے منظوری حاصل کی ۔ ۵:-فرمایا: ہمارا نام طالب العلم والعمل تھا، مگر اختصار کے لئے صرف طالب علم بولا جاتا ہے۔ ہم عمل کو اب مقصود ہی نہیں سمجھتے‘ طالب علمی ہی سے اعمال میں مشغول ہونے کا اہتمام اہل مدارس کو کرنا چاہئے۔ آج اساتذہ طلباء کی تربیت اور اصلاح نفس کی فکر نہیں کرتے‘ صرف ان کی رہائش اور روٹیوں کی فکر ہوتی ہے‘ پس صورت تو طالب علم کی ہے اور روح اور حقیقت غائب ،یعنی تعلق مع اللہ اور خشیت اور اساتذہ کا ادب واکرام سب ختم‘ پھر اسٹرائیک اور بغاوت نہ ہوگی تو کیا ہوگا؟ ہرچہ برماست از ماست ۔ہر کوتاہی اور معصیت کا رد عمل ہوتا ہے۔ طلباء ہماری کھیتی ہیں‘ ہم ان کے قلوب میں اگر محبت او رتعلق مع اللہ اور خشیت اور اتباع سنت کے درخت نہ لگائیں گے تو دوسرے صحرائی خار دار درخت نکلیں گے‘․․․․․ آہ ان طلبائے کرام کو تو سو فیصد اولیائے کرام ہونا چاہئے تھا‘ اور جو بے عمل اور بے اصول طلباء ہوں ،انہیں فوراً نکال دینا چاہئے۔ درخت کی جو شاخ خراب ہو‘ باغبان کی ڈیوٹی اور ذمہ داری ہے کہ اسے کاٹ کر پھینک دے۔مقصود نہ طلباء کی تعداد ہے نہ عمارت ہے۔ کام کے اگر چند بھی نکلیں گے تو غلغہ مچادیں گے۔ ۶:- فرمایا: امام احمد کے یہاں دورہٴ حدیث میں صرف اس طالب علم کو داخلہ ملتا تھا جو تہجد گذار ہوتا تھا۔ حضرت شاہ اسحاق دہلوی کے یہاں حضرت مولانا مظفر حسین کاندھلوی پڑھنے آئے‘ کھانا آیا تو صرف روٹی کھالی اور سالن واپس کردیا‘ شاہ صاحب کو تشویش ہوئی‘ دریافت فرمایا کہ: کیا بات ہے ؟ عرض کیا: حضرت عام طور پر دلّی کے سالن میں کھٹائی پڑتی ہے اور یہاں آموں کی خرید وفروخت پھلوں کے آنے سے پہلے ہی ہوجاتی ہے جو بیع فاسد ہے ‘ حضرت شاہ صاحب نے خوشی میں فرمایا کہ: الحمد للہ ! ہمارے یہاں فرشتہ پڑھنے آیا ہے‘ ایسے طالب علم ہوا کرتے تھے۔ ۷:- فرمایا: مدارس کے منتظمین حضرات نماز با جماعت کی اہمیت سے طلباء کو آگاہ کرتے رہیں اور سخت نگرانی اور تاکید سے عملی مشق کرائیں۔ فرمایا کہ: الحمد للہ! ہمارے یہاں (ہردوئی میں) طلباء سو فیصد تکبیر اولیٰ سے نماز پڑھتے ہیں ۔ (امت کی پریشانی اور انحطاط کا علاج ص:۲۹) ۸:- فرمایا: میں نے اپنے یہاں طلباء کے لئے ”سبحان ربی العظیم“ اور ”سبحان ربی الاعلیٰ“ پانچ پانچ مرتبہ پڑھنے کی تاکید کی ہے‘ علماء ‘ صلحاء اور طلباء کی ہیئت نماز تو عوام کے لئے تعلیم اور سبق بننا چاہئے۔ ۹:- فرمایا: اسباق میں بدوں سخت مجبوری ناغہ کرنے سے سخت بے برکتی پیدا ہوتی ہے اور پھر یہ طلباء بھی اس ناغہ کی عادت کو جو اپنے اساتذہ سے سیکھتے ہیں‘ آگے صدقہٴ جاریہ کے طور پر جاری کرتے ہیں۔ ۱۱:- فرمایا: حکیم الامت حضرت تھانوی نے طلبائے کرام وعلمائے کرام سے ایک مرتبہ خطاب فرمایا کہ: صاحبو! جتنا آپ نے پڑھاہے اتنا ہی درس نظامیہ ہم نے بھی پڑھا ہے‘ مگر علم کی جو برکتیں آپ محسوس کررہے ہیں‘ یہ سب اساتذہ کرام کا ادب واکرام کا ثمرہ ہے اور حضرت حاجی صاحب کی دعائیں ہیں، حدیث پاک میں ہے کہ: جس نے کسی کو ایک آیت بھی کلام اللہ کی سکھادی تو وہ سکھانے والا طالب علم کا آقا بن گیا (طبرانی) یعنی طالب علم غلام اور استاد آقا ہوگیا۔ غرض یہ ہے کہ استاد کا بہت ادب کرنا چاہئے۔ ۱۲:- فرمایا: بدوں مطالعہ استعداد نہیں پیدا ہوتی‘ خصوصاً عربی کے طلبائے کرام کو اس کا بڑا اہتمام چاہئے کہ کل پڑھنے کے سبق کو رات ہی میں اس قدر گہری فکر سے مطالعہ کریں کہ تمام سبق پڑھا سکیں‘ اس کے لئے لغت اور حاشیہ سے بھی مدد لیں‘ اس طرح مطالعہ سے مدرس بننے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے اور استاد کے سامنے اس کی تقریر خوب سمجھ میں آتی ہے۔ ۱۳:-فرمایا: بعض عربی مدارس میں جہاں طلباء کی تربیت کا اہتمام کیا گیا‘ وہاں صف اول میں شہری لوگوں کو جگہ نہیں ملتی اور طلبائے کرام تہجد اور اشراق اور اوابین اور صف اول کا اہتمام نہ کریں گے تو کیا تاجر طبقہ اور سرکاری ملازمین کے لئے صرف یہ اعمال ہیں؟ ایک عربی مدرسہ میں ایک گاؤں کا آدمی گیا تو وہ اوابین پڑھ رہا تھا اور دیکھا تو مسجد میں ایک استادیا ایک طالب علم بھی اوابین پڑھتا نظر نہ آیا۔ البتہ اگر علم کی مشغولی ہو تو ٹھیک ہے‘ مگر آج کل اخبار بینی اور گپ شپ کے لئے وقت نکلتا ہے اور نوافل وتلاوت کے لئے علمی مشغولی کو مانع قرار دیا جاتا ہے۔ آج افسوس ہے کہ تاجر کی سنتیں دیر میں پوری ہوتی ہیں اور طالب علم کی سنت جلد ختم ہوجاتی ہے‘ یہ اس لئے کہہ رہا ہوں‘ تاکہ ہم کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ ۱۴:- فرمایا: حضرت امام مالک  کی مجلس میں ایک بزرگ یحیٰ ان کے شاگرد تھے‘ مدینہ منورہ میں اندلس سے پڑھنے آئے تھے‘ حضرت امام مالک نے فرمایا کہ: میاں یحیٰ! ہاتھی آیا ہے دیکھ لو‘ کیونکہ تمہارے اندلس میں ہاتھی نہیں ہوتا ہے‘ دیکھو! اہل مدینہ شوق سے جوق در جوق دیکھنے کے لئے جارہے ہیں‘ عرض کیا کہ: حضرت اندلس سے آپ کی خدمت میں آیا ہوں‘ آپ کو دیکھنے آیا ہوں‘ ہاتھی دیکھنے نہیں آیا ہوں‘ یہ شان تھی طالب علم کی۔ ۱۵:- فرمایا: میں طلباء کو سگریٹ نوشی سے منع کرتا ہوں کہ اسی منہ سے قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہو اور اسی منہ کو بدبو دار بھی کرتے ہو۔ ایک بابو میاں تھے‘ بیس سال سے سگریٹ نوشی کرتے تھے‘ میری گذارش سے بابو ”میاں“ ہوگئے یعنی سگریٹ کو ترک کردیا۔ ۱۶:-فرمایا: جس طالب علم کے دل میں خشیت اور محبت اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے‘ وہ یونیورسٹی میں بھی اگر جاتے ہیں تو وہاں بھی صالحین کی وضع قطع میں رہتے ہیں اور اکثریت سے مرعوب اور مغلوب نہیں ہوتے۔ ۱۷:- ایک عربی ادارے میں حاضر ی ہوئی‘ وہاں کے مہتمم ہمارے دوست تھے‘ نماز کے بعد دیکھا تو ڈیڑھ صف طلباء کی مسبوق تھی ،بڑا صدمہ ہوا۔ بعض دینی اداروں میں جمعہ کے دن دیکھا کہ صف اول میں عوام کو جگہ نہیں ملتی‘ تمام طلبائے کرام صف اول میں ہوتے ہیں۔ ۱:-فرمایا: طلبائے کرام کو رسول اکرم ا کا مہمان اور دین کا مجاہد سمجھ کر ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ کیا جائے اور ان کو اپنا محسن بھی سمجھا جائے کہ انہوں نے اپنے قلوب کی تختی ہمارے حوالے کردی ہے، جو کچھ دینی نقوش ہم ان پر ثبت کریں گے ہمارے لئے وہ صدقہ ٴ جاریہ بنیں گے۔ اگر وہ بیمار ہوجاویں تو ان کی مزاج پرسی اور تیمار داری کو اپنی سعادت سمجھنا چاہئے۔ (مجالس ابرار‘ ج:۱‘ص:۱۲)

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User