آج کل گنجا پن کا ایک علاج دریافت ہوا ہے کہ بال اگائے جاتے ہیں، ایسا علاج شرعاً کیا حیثیت رکھتا ہے کیا ایسا کرنا جائز ہے کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ ( عبدالحمید۔ گوجرانوالہ )
بالوں کی پیوندکاری تو حرام ہے یعنی
مصنوعی بالوں کو دوسرے بالوں کے ساتھ جوڑنا یا مصنوعی بالوں کو ہی استعمال
کرنا شرعا یہ فعل حرام اور ناجائز ہے، انصار کی ایک لڑکی بیمار ہوئی تو اس
کے بال گر گئے، اہل خانہ نے مصنوعی بال پیوند کرنے کے متعلق رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اس عورت پر جو بال پیوند کرتی ہے یا کراتی ہے۔ “ ( صحیح بخاری، اللباس: 5934 )
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ جب حج سے فراغت کے بعد مدینہ طیبہ تشریف
لائے تو انہیں مصنوعی بالوں کا گچھا ملا تو انہوں نے خطبہ دیا اور فرمایا: ”
اے اہل مدینہ! تمہارے علماءکدھر ہیں۔ بنی اسرائیل کی ہلاکت اسی وجہ سے
ہوئی تھی کہ ان کی عورتوں نے ان مصنوعی بالوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا
تھا۔ “ ( صحیح بخاری اللباس: 5932 )
البتہ بال اگانے کا طریقہ طب جدید کا دریافت کردہ ہے، یہ مصنوعی نہیں
بلکہ اس طریقہ سے حقیقی بال اگائے جاتے ہیں۔ اس قسم کے علاج میں شرعاً کوئی
قباحت نہیں ہے۔ اس کے متعلق وہ حدیث بطور دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ فرشتے
نے ایک گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا تو اس کے خوبصورت بال اُگ آئے تھے،
جیسا کہ ایک حدیث میں اس کا ذکر ہے۔ “ ( صحیح بخاری، احادیث الانبیائ: 3464 )
ہفت روزہ اہلحدیث شمارہ نمبر 4
جلد نمبر 39 9 تا 15 محرم الحرام 1429 ھ 19 تا 25 جنوری 2008 ء
مولانا ابو محمد عبدالستارالحماد ( میاں چنوں )
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.