Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

معاشرت ... ایک اہم شعبہٴ زندگی

معاشرت ... ایک اہم شعبہٴ زندگی

حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ

بعد حمد وصلوة کے عرض ہے کہ اس وقت دین کے پانچ اجزا میں سے عوام نے تو صرف دو ہی جزو کو داخل دین سمجھا۔ یعنی عقائد و عبادات اور علمائے ظاہر نے تیسرے جز کو بھی دین اعتقاد کیا یعنی معاملات کو۔ مشائخ نے چوتھے جز کو بھی دین قرار دیا۔ یعنی اخلاق باطنی کی اصلاح کو۔ لیکن ایک پانچویں جز کو کہ وہ آداب معاشرت ہے قریب قریب ان تینوں طبقوں نے، الا ماشاء اللہ، اکثر نے تو اعتقاداً دین سے خارج اور بے تعلق قرار دے رکھا ہے اور اسی وجہ سے اور اجزا سے تو کم و بیش خاص طور پر یا عام طور پر یعنی وعظ میں تعلیم و تلقین بھی ہے۔ لیکن اس جز کا کبھی زبان پر نام تک نہیں آتا۔ اسی لیے علماًعملاً یہ جز بالکلیہ نسیاً منسیا ہو چلا ہے اور میرے نزدیک باہمی الفت و اتفاق میں جو کمی ہے اس کا بڑا سبب یہ سوئے معاشرت بھی ہے، کیوں کہ اس سے ایک دوسرے کو تکدر و انقباض ہوتا ہے اور وہ رافع و مانع ہے انبساط و انشراح کا، جو اعظم مدار ہے الفت باہم دیگر کا۔ حالاں کہ خود اس خیال کو کہ اس کو دین سے کوئی مس نہیں، آیات و احادیث و اقوال حکمائے دین کے رد کرتے ہیں۔

چناں چہ اس میں بعض بطور نمونہ کے پیش کرتا ہوں: حق تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اے ایمان والو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں جگہ فراخ کردو تو جگہ فراخ کردیا کرو اور جب تم سے کہا جائے کہ کھڑے ہو جاوٴ تو کھڑے ہو جایا کرو۔ اور ارشاد ہے کہ دوسرے کے گھر میں گو وہ مردانہہو مگر خاص خلوت گاہ ہو بے اجازت لیے مت جایا کرو۔ دیکھیے ،اس میں اپنے ہم جلیسوں کی راحت کی رعایت کا کس طرح حکم فرمایا ہے۔

رسول اللہ اکا ارشاد ہے کہ ایک ساتھ کھانے کے وقت دو دو چھوارے ایک دم سے نہ لینا چاہیے، تاوقتیکہ اپنے رفیقوں سے اجازت لے لے۔

دیکھیے، اس میں ایک خفیف امر سے محض اس وجہ سے کہ بے تمیزی ہے اور دوسروں کو ناگوار ہوگا ممانعت کردی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا ارشاد ہے کہ جو شخص لہسن اور پیاز کھائے تو ہم سے علیحدہ رہے دیکھیے !کہ اس خیال سے کہ دوسروں کو ایک خفیف سی اذیت ہوگی، منع فرمایا اور ارشاد فرمادیا کہ مہمان کو حلال نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اس قدر قیام کرے کہ وہ تنگ ہو جائے۔ اس میں ایسے عمل سے ممانعت ہے جس سے دوسروں کے قلب پر تنگی ہو۔

اور ارشاد فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ کھانے کے وقت گو پیٹ بھر جائے مگر جب تک کہ دوسرے لوگ فارغ نہ ہو جائیں ہاتھ نہ کھینچے، کیوں کہ اس سے دوسرا کھانے والا شرماکر ہاتھ کھینچ لیتا ہے۔ شاید اس کو ابھی حاجت باقی ہو۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا کام نہ کرے جس سے دوسرا آدمی شرما جائے۔ بعض آدمی طبعی طور پر مجمع میں کسی چیز کے لینے سے شرماتے ہیں اور ان کو گرانی ہوتی ہے یا ان سے مجمع میں کوئی چیز مانگی جائے تو انکار و عذر کرنے سے شرماتے ہیں۔ گو پہلی صورت میں لینے کو جی چاہتا ہو اور دوسری صورت میں دینے کو جی نہ چاہتا ہو ایسے شخص کو مجمع میں نہ دے، نہ اس سے مانگے۔

اور حدیث میں وارد ہے کہ ایک بار حضرت جابر در دولت پر حاضر ہوئے اور دروازہ کھٹکھٹایا، آپ ا نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا میں ہوں۔ آپ انے ناگواری سے فرمایا، میں ہوں میں ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بات صاف کہے، جس کو دوسرے سمجھ سکیں۔ ایسی گول بات کہنا جس کے سمجھنے میں تکلیف ہو الجھن میں ڈالنا ہے۔

اور حضرت انس فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ تھا، مگر آپ کو دیکھ کر اس لیے کھڑے نہ ہوتے تھے کہ آپ کو ناگوار ہوتا تھا۔

اس سے مفہوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی خاص ادب و تعظیم یا کوئی خاص خدمت کسی کے مزاج کے خلاف ہو اس کے ساتھ یہ معاملہ نہ کرے، گو اپنی خواہش ہو، جی چاہتا ہو، مگر دوسرے کی خواہش کو اس پر مقدم رکھے بعضے لوگ جو بعض خدمات میں اصرار کرتے ہیں، وہ بزرگوں کو تکلیف دیتے ہیں اور ارشاد ہے کہ دو شخصوں کے درمیان جاکر بیٹھنا حلال نہیں بدون ان کی اجازت کے اس سے ظاہر ہے کہ کوئی ایسی بات کرنا، جس سے دوسروں کو کدورت ہو، نہ کرنا چاہیے۔

اور حدیث میں ہے کہ حضور اکرم ا کو جب چھینک آتی تو منہ ہاتھ یا کپڑے سے ڈھانک لیتے اور آواز کو پست فرماتے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اپنے جلیس کی اتنی رعایت کرے کہ اس کو سخت آواز سے بھی اذیت و وحشت نہ ہو اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ ہم جب نبی کریم اکے پاس آتے تو جو شخص جس جگہ پہنچ جاتا وہیں ہی بیٹھ جاتا‘ یعنی لوگوں کو چیر پھاڑ کر آگے نہ بڑھتا، اس سے بھی مجلس کا ادب ثابت ہوتا ہے کہ ان کو اتنی ایذا بھی نہ پہنچائے۔

اور حضرت سعید بن المسیب سے مرسلاً مروی ہے کہ عیادت میں مریض کے پاس زیادہ نہ بیٹھے، تھوڑا بیٹھ کر اٹھ کھڑا ہو۔ اس حدیث میں کس قدر دقیق رعایت ہے اس امر کی کہ کسی کی گرانی کا سبب نہ بنے، کیوں کہ بعض اوقات کسی کے بیٹھنے سے مریض کو کروٹ بدلنے میں، پاوٴں پھیلانے میں یا بات چیت کرنے میں ایک گونہ تکلیف ہوتی ہے۔ البتہ جس کے بیٹھنے سے اس کو راحت ہو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔

اور حضرت ابن عباس نے غسل جمعہ کے ضروری ہونے کی یہی علت بیان فرمائی ہے کہ ابتدائے اسلام میں اکثر لوگ غریب، مزدوری پیشہ تھے، میلے کپڑوں میں پسینہ نکلنے سے بدبو پھیلتی تھی۔ اس لیے غسل واجب کیا گیا تھا، پھر بعد میں یہ وجوب منسوخ ہوگیا۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ اس کی کوشش واجب ہے کہ کسی کو کسی سے معمولی اذیت نہ پہنچے۔

سنن نسائی میں حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ شب برأت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بستر پر سے آہستہ اٹھے اور اس خیال سے کہ حضرت عائشہ سوتی ہوں گی بے چین نہ ہوں، آہستہ سے نعل مبارک پہنے اور آہستہ سے باہر تشریف لے گئے اور آہستہ سے کواڑ بند کیے۔ اس میں سونے والے کی کس قدر رعایت ہے کہ ایسی آواز اور کھڑکا بھی نہ کیا جائے کہ جس سے سونے والا دفعةً جاگ اٹھے اور پریشان ہو ۔

اور صحیح مسلم میں حضرت مقداد بن اسود سے ایک طویل قصہ مروی ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان تھے اور آپ ہی کے یہاں مقیم تھے، بعد عشا آکر لیٹ رہے تھے، حضور اقدس ادیر میں تشریف لاتے تو آپ سلام تو کرتے کہ شاید جاگتے ہوں، مگر ایسی آواز سے سلام کرتے کہ اگر جاگتے ہوں تو سن لیں اور اگر سوتے ہوں تو آنکھ نہ کھلے۔ اس سے بھی وہی اہتمام معلوم ہوا جو اس سے پہلے حدیث میں معلوم ہوا تھا اور بکثرت حدیثیں اس باب میں موجود ہیں۔

روایات فقہیہ میں ایسے شخص کو جو طعام وغیرہ یا د رس یا اوراد میں مشغول ہو سلام نہ کرنا مصرّح ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بلاضرورت کسی مشغول بہ شغلِ ضروری کے قلب کو منتشر اور دو جانب کرنا شرعاً ناپسند ہے۔ اسی طرح گندہ دہنی کے مرض میں جو شخص مبتلا ہو اس کو مسجد میں نہ آنے دینا بھی فقہاء نے نقل کیا ہے، جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی اذیت کے اسباب کا انسداد نہایت ضروری ہے۔

ان دلائل میں مجموعی طور پر نظر کرنے سے بدلالت واضحہ معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے نہایت درجہ اس کا خاص اہتمام کیا ہے کہ کسی شخص کی کوئی حرکت، کوئی حالت دوسرے شخص کے لیے ادنیٰ درجہ میں بھی کسی قسم کی تکلیف و اذیت یا ثقل و گرانی یا ضیق و تنگی یا تکدر و انقباض یا کراہت و ناگواری یا تشویش و پریشانی یا توحش و خلجان کا سبب و موجب نہ ہو اور حضرت شارع علیہ السلام نے صرف اقوال اور اپنے فعل سے ہی اس کے اہتمام کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ خدام کے ذرا بے اعتنائی کے موقع پر ان کو صحیح آداب پر عمل کرنے پر مجبور فرمایا اور ان سے کام لے کر بھی بتلایا ہے۔

چناں چہ ایک صحابی ہدیہ لے کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بدون سلام و استیذان داخل ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”باہر واپس جاوٴ اور کہو السلام علیکم، کیا میں حاضر ہوجاوٴں؟اور فی الحقیقت حسن اخلاق مع الناس کی بنیاد و اساس یہی امر ہے کہ کسی کو کسی سے ایذا وکلفت نہ پہنچے، جس کو حضور پُرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت جامع الفاظ میں ارشاد فرمایا: ”اَلْمُسْلِمُ مَنْ سِلمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِہ وَ یَدِہ“․

اور جس امر سے اذیت ہو گو وہ صورةً خدمت مالی ہو یا جانی ہو یا ادب و تعظیم ہو، جو عرف میں حسن خلق سمجھا جاتا ہے، مگر اس حالت میں وہ سب سوئے خُلق میں داخل ہیں، کیوں کہ راحت کہ جانِ خُلق ہے مقدم ہے خدمت پر، کہ پوستِ خُلق ہے اور قشر بلالبّ کا بیکار ہونا ظاہر ہے اور گو شعائر ہونے کے مرتبہ میں باب معاشرت موٴخر ہے باب عقائد و عبادات فریضہ سے، لیکن اس اعتبار سے کہ عقائد و عبادات کے اخلال سے اپنا ہی ضرر ہے اور معاشرت کے اخلال سے، دوسروں کا ضرر ہے اور دوسروں کو ضرر پہنچانا اشد ہے، اپنے نفس کو ضرر پہنچانے سے اس درجہ میں اس کو ان دونوں پر تقدم ہے آخر کوئی بات تو ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ نے سورہٴ فرقان میں ﴿اَلَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الأرْضِ ہوْنًا و اِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْا سَلامًا﴾ کو جو دال ہے حسن معاشرت پر ذکر میں مقدم فرمایا ؛صلوة و خشیت و اعتدال فی الانفاق و توحید پر، جو کہ باب طاعات مفروضہ و عقائد سے ہے اور یہ تقدم علی الفرائض تو محض بعض وجوہ سے ہے، لیکن نفل عبادت پر اس کا تقدم من کل الوجوہ ہے۔

چناں چہ حدیث میں ہے کہ حضورا کے روبرو دو عورتوں کا ذکر کیا گیا۔ ایک تو نماز ‘روزہ کثرت سے کرتی تھی، مگر اپنے ہمسایوں کو ایذا پہنچاتی تھی اور دوسری نماز‘ روزہ نہ کرتی تھی مگر ہمسایوں کو ایذا نہ دیتی تھی۔ آپ انے پہلی کو دوزخی اور دوسری کو جنتی فرمایا۔ اور باب معاملات سے گو اس حیثیت مذکور سے یہ مقدم نہیں۔ کیوں کہ ایک کی کوتاہی سے بھی دوسروں کو ضرر پہنچتا ہے۔ مگر دوسری حیثیت سے یہ اس سے بھی اہم ہے اور وہ یہ کہ گو عوام نہ سہی، مگر خواص معاملات کو داخل دین سمجھتے ہیں اور باب معاشرت کو بجز اخص الخواص کے بہت سے خواص بھی داخل دین نہیں سمجھتے اور گو بعض سمجھتے بھی ہیں، مگر معاملات کے برابر اس کو مہتم بالشان اعتقاد نہیں کرتے اور اسی وجہ سے عملاً بھی اس کا اعتنا کم کرتے ہیں اور اخلاق باطنی کی اصلاح عبادت مفروضہ کے حکم میں ہے جو حیثیت تقدم معاشرت علی العبادات کی اوپر مذکور ہوچکی ہے وہ یہاں پر بھی جاری ہے۔

غرض اس جز یعنی باب معاشرت کا سبب اجزائے دین سے مقدم اور مہتم بالشان ہونا کسی سے من وجہ اور کسی سے من کل وجہ ثابت ہوگیا، مگر باوجود اس کے عوام کا تو بکثرت اور خواص میں سے بعض کا اس کی طرف خود عملاً بھی التفات کم ہے۔ اور جو کسی نے خود عمل بھی کیا مگر دوسروں کو خواہ وہ اجانب ہوں یا اپنے متعلق ہوں، روک ٹوک یا تعلیم و اصلاح کرنا مفقودہے۔
جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User