بسم اللہ الرحمن الرحیم
ماہ محرم
فرعون کے ظلم سے نجات کامہینہ
الحمد للہ رب العالمین والعاقبة للمتقین والصلاة والسلام علی أشرف الا نبیاء والمرسلین نبینا محمد وعلی آلہ و صحبہ أجمعین و بعد:
محرم الحرام کامہینہ انتہائی عظمت کاحامل اوربابرکت ہے،محرم الحرام اسلامی سال کاپہلامہینہ ہے،اﷲ تعالیٰ کافرمان ہے:(اِنَّ عِدَّةَ الشُّہُوْرِعِنْدَاﷲِ اثْنَاعَشَرَشَہْراً فِیْ کِتَابِ اﷲِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَالأرْضَ مِنْہَا أرْبَعَة حُرُم ذَالِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ فَلا تَظْلِمُوا فِیْہِنَّ أنْفُسَکُمْ)التوبة ٣٦۔
اﷲ کے یہاں مہینوں کی گنتی بارہ ہی ہے،اﷲ کے نوشتہ کے مطابق اس دن سے جس دن اﷲ نے آسمانوں اورزمین کوپیداکیا،جن میں چارمہینے حرمت والے ہیں،یہی مضبوط دین ہے،لہذا ا ن مہینوں میں (قتال ناحق سے)اپنے آپ پرظلم نہ کرو۔
ابوبکرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں،جن میں چار مہینے حرمت کے ہیں،تین تولگاتارہیں ذی القعدہ،ذی الحجہ،اورمحرم اوررجب مضرجوجمادی الآخراورشعبان کے درمیان ہے۔
رواہ البخاری ٢٩٥٨
حرمت کامہینہ ہونے کی وجہ سے اس مہینہ کانام محرم رکھا گیاہے ۔ان مہینوں میں ظلم وقتال بڑاسنگین جرم ہے،حالانکہ ظلم توہرحال میں ظلم ہی ہے،مگرحرمت کے مہینوں میں اس کی سنگینی کچھ اورہی زیادہ ہے۔
ہم اپنی اس مختصر سی تحریر میں ماہ محرم کوتین قسموں میں تقسیم کریں گے،تاکہ آپ اس مہینہ کے اعمال صالحہ ،اس ماہ کی بدعات اورمنکرات سے اچھی طرح واقف ہوسکیں۔
١۔محرم الحرام کی تاریخی حیثیت،
٢۔محرم الحرام کی شرعی حیثیت،
٣۔محرم الحرام کی بدعات وخرافات۔
تاریخی حیثیت:
تاریخی لحاظ سے یہ مہینہ بڑی اہمیت کاحامل ہے، اﷲ تعالیٰ نے اسی مہینہ میں فرعون کوسمندر میں ڈبوکرہلاک کیاتھا،چونکہ فرعون کاظلم اورجبراپنی انتہاکوپہنچ چکاتھا،مگر جب اﷲ کی گرفت ہوئی اورفرعون اورفرعونی غرق آب ہوگئے تواس کے بعدموسیٰ علیہ السلام اوران کی قوم نے سکھ کاسانس لیا،اورموسیٰ علیہ السلام نے اﷲ تعالیٰ کے شکرانے کے طورپرروزہ رکھا۔ذی الحجہ کامہینہ اگر نمرود کے مقابلہ میں ابراہیم علیہ السلام کی فتح کامہینہ ہے تودوسری طرف محرم الحرام کامہینہ فرعون کے مقابلہ میں موسیٰ علیہ السلام کی فتح کامہینہ ہے،اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ کاایک نظام ہے کہ ہرظالم کوایک مقررہ وقت تک ہی کے لئے مہلت دیتاہے،پھرجب اس کی گرفت کاوقت آجاتاہے توبڑی سخت پکڑ فرماتاہے،دشمن خواہ کتناہی طاقت ور ہوجائے پاورنہیں بلکہ سپرپاوریااس سے بڑاکسی بھی پاوراوراختیارات کامالک ہوجائے وہ اﷲ کی قوت کے آگے بے بس ہے،موسیٰ علیہ السلام نے جس دور میں دعوت توحید کاآغاز کیاتھاوہ دور فرعون کے عروج کاتھا،فرعون آپ کی پیدائش سے قبل بنی اسرائیل کے سارے بچوں کوذبح کرادیتا اوربچیوں کوزندہ چھوڑدیاکرتا،مگرموسیٰ علیہ السلام کواﷲ نے بنی بناکربھیجاتوفرعون کے دربار میں یہ کہہ کر بھیجاکہ اننی معکمااسمع وأریٰ سننے اوردیکھنے کے لحاظ سے میں تم دونوں کے ساتھ ہوں۔موسی علیہ السلام نے فرعون کے دربار میں جاکرتوحید کی دعوت دی،اور اسے ایک اﷲ کی طرف بلایا،اورساتھ ہی اپنی قوم سے کہامیری قوم کے لوگو! (استعینوا باﷲ واصبرو )تم اﷲ سے مددطلب کرواورصبر سے کام لو،یہ زمین اﷲ کی ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہے اس کاوارث بنادے،اورانجام (خیر)تومتقیوں ہی کے لئے ہے،وہ موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے:آپ کے آنے سے پہلے ہمیں ستایاجاتاتھا،اورآپ کے آنے کے بعد بھی ستایاجاتا ہے، موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا:عنقریب تمہارارب تمہارے دشمن کوہلاک کردے گا،اوراس سرزمین میں تمہیں خلیفہ بنادے گا،پھردیکھے گاکہ تم کیسے عمل کرتے ہو،اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرعونیوں کوکئی سال تک قحط اور پیداوارکی کمی میں مبتلاکیاتاکہ وہ کچھ سبق حاصل کرسکیں،مگروہ عبرت حاصل کرنے کے بجائے غرور اورسرکشی میں حدسے بڑھ گئے،حق وباطل کامعرکہ قائم رہا،ظلم وجورکی تاریخ لکھی جاتی رہی،دعوت توحید جاری رہی،فرعون کاغرور اورگھمنڈسرچڑھ کربولتارہا،اس کے بعداﷲ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کوحکم دیاکہ اپنی قوم کولے کر مصر سے نکل جاؤ،فرعون کوجب اس کی اطلاع ملی تواس نے تعاقب کیااور جب دریاکے قریب پہنچ گیاتوبنواسرائیل گھبراکرکہنے لگے موسیٰ!ہم تودھرلئے گئے،موسیٰ علیہ السلام نے کہا:گھبراؤ نہیں اﷲ ہمارے ساتھ ہے،پھراﷲ کے حکم سے موسیٰ علیہ السلام نے اپنی لاٹھی کوپانی پرمارا،اوردریامیں بارہ راسطے بن گئے جس سے موسیٰ علیہ السلام اوربنواسرائیل سمندر پار کر گئے پیچھے سے فرعون نے آکر کہا:چلویہ توراستہ میرے لئے ہے،اوراپنے لشکرکولیکر سمندرپارکر نے لگا،چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے اسے وہیں غرق کردیا اوردنیاوالوں کے لئے اس کی موت کوسامان عبرت بنادیا۔
جب ظلم گذرتاہے حدسے قدرت کوجلال آجاتاہے
فرعون کاسرجب اٹھتاہے موسیٰ کوئی پیداہوتاہے
یہ عظیم واقعہ اسی محرم الحرام کی دس تاریخ کوپیش آیا۔اس واقعہ سے معلوم ہواکہ اصل قوت اﷲ کے پاس ہے،اورمسلمان کوکبھی مایوس نہیں ہوناچاہئے، دنیاکے موجودہ حالات کے تناظر میں ہم خصوصی طورپراس واقعہ سے عبرت حاصل کریں ،اوراﷲ تعالیٰ کی اطاعت کے ذریعہ اس سے اپنے تعلقات کومستحکم کریں۔
محرم الحرام کامہینہ اسلامی سال کاپہلامہینہ ہے،اس لئے کہ محرم سے ہمارااپناسال شروع ہوتاہے،یہ ،مہینہ ہجرت کامہینہ ہے،جس ہجرت کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ہجرت اس سے پہلے کے گناہوں کومٹادیتی ہے،جس ہجرت کے بعداسلام کوایک نئی زندگی ملی،ایک نئی سلطنت قائم ہوئی اوراسلام پھلاپھولااورپروان چڑھا۔اس لئے تاریخی لحاظ سے یہ مہینہ کافی اہمیت کاحامل ہے،اب آئیے ذرااس کی شرعی حیثیت ملاحظہ فرمائیں۔
ماہ محرم کی شرعی حیثیت:
شرعی لحاظ سے اس مہینہ کی بڑی اہمیت ہے،اس مہینہ میں کثرت سے نفلی روزہ رکھنامسنون ہے،جیساکہ ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:رمضان کے بعد سب سے بہترین روزہ محرم کاہے،جواﷲ کامہینہ ہے اورفرض نمازوں کے بعد سب سے بہترین نماز صلاة اللیل(تہجد)ہے)
رواہ مسلم ١٩٨٢۔
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہمابیان فرماتے ہیں کہ(نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تودیکھاکہ دس محرم الحرام کویہودی روزہ سے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھایہ کیساروزہ ہے؟جس پرانہوں نے جواب دیاکہ یہ توانتہائی نیک اورصالح دن ہے،یہی وہ دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کوان کے دشمنوں سے نجات دی تھی،جس کی خوشی میں موسیٰ علیہ السلام نے روزہ رکھاتھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میں توموسیٰ کے معاملہ میں تم سے زیادہ حق رکھتاہوں (کہ روزہ رکھوں)چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھااورصحابہ کرام کوبھی روزہ رکھنے کاحکم دیا۔
رواہ البخاری ١٨٦٥۔
عاشوراء کاروزہ اس لحاظ سے بھی بڑی اہمیت وفضیلت کاحامل ہے کہ عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہمابیان فرماتے ہیں کہ :میں نے رمضان کے بعد عاشوراء کے روزوں سے بڑھ کر کسی اورصوم کااتنااہتمام کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونہیں دیکھا۔
رواہ البخاری ١٨٦٧۔
ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ ( عاشوراء کاروزہ گذشتہ ایک سال کے (صغیرہ)گناہ مٹادیتاہے۔رواہ مسلم۔
عاشوراء کاروزہ دسویں محرم کورکھاجاتاہے،لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیاہے کہ تم نودس یادس گیارہ یعنی دسویں سے ایک دن پہلے یابعد میں بھی روزہ رکھ لیاکرو،تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے ،جیساکہ دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ اگرآئندہ سال میں زندہ رہاتونویں کوبھی روزہ رکھوں گا،مگر اس سے قبل ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوگئے،رواہ مسلم۔
اس ماہ کی بدعات وخرافات:
یہ مہینہ اپنی پہلی دوحیثیتوں سے توامتیازی شان کامالک ہے،مگرافسوس کہ دنیاکے نام نہادمسلمانوں نے اس مہینہ کی حرمت کوپامال کردیا،اس کی تاریخی حیثیت کوفراموش کردیا،اوراس کی شرعی حیثیت کوزنگ آلودکرکے نوحة وماتم،ڈھول وتاشہ،بین وباجہ اوردیگرمنکرات میں پڑگئے،٦١ ہجری میں کربلاکے میدان میں نواسۂ رسول حسین رضی اﷲ عنہ کی شہادت کاسانحہ پیش آیا،جس کی یاد میں لوگ نوحہ وماتم کرتے ہیں،حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ کسی مسلمان کے لئے تین دن سے زیادہ کسی میت کاسوگ مناناجائز نہیں،البتہ کسی عورت کاشوہر مرجائے تووہ چارماہ دس دن تک سوگ مناسکتی ہے،مگر افسوس کہ ہزارہاسال گذرنے کے بعد بھی نوحہ وماتم کی یہ رسم ختم نہ ہوسکی،حالانکہ یہ ایک کھلی گمراہی اورصریح بدعت ہے۔
ایک دوسری روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے،جوگریبان پھاڑے،سینہ کوبی کر اورجاہلیت کی پکارپکارے۔متفق علیہ۔
محرم الحرام کے مہینہ میں تعزیہ کی رسم ایک ہندوانہ رسم ہے،اس دن بدعتی مسلمان سیاہ کپڑے پہنتاہے،اس دن اچھی غذانہیں کھاتاہے،نوحہ وماتم کرتاہے،مرثیہ اوردوسرے قصائد کااہتمام کرتاہے،عاشوراء کے چالیس دن بعد چہلم کرتاہے،جس میں کھانے اوردعوت کااہتمام کیاجاتاہے،دراصل یہ رسم یہود کی ساز ش،ہندؤں کی نقل اورروافض کے مکر کانتیجہ ہے،اس مہینہ کی خوشی ،اس کاروزہ،اس کی تاریخی اورشرعی حیثیت،فتح خیبر اوردوسرے عظیم تاریخ سازمعرکوں اورفتوحات کے اس مہینہ کویہود نے ایک مکرکے ذریعہ ماتم حسین میں تبدیل کردیاہے،دسہرہ ہندؤں کا ایک تہوارہے،جس میں ہندواپنے رام کی مورتی بناتاہے،اور دس دن تک اس مورتی کے آگے گانے اوراشعار پڑھتاہے،اوریہ کہتاہے کہ میرے رام آئیں گے،اوردنیاسے ظلم کاخاتمہ کریں گے،پھردسویں دن اس مورتی کوکسی ندی یاتالاب میں ایک جلوس کے ساتھ بہادیتاہے،ٹھیک یہی کام ایک مسلمان محرم الحرام میں کرتاہے،اورتعزیہ بناکر دس دن تک نوحہ وماتم کرتاہے،تعزیتی جلسے کرتاہے،اورحسین رضی اﷲ عنہ کی محبت کادم بھرتاہے،اورکہتاہے کہ میرے حسین آئیں گے اوردنیاسے ظلم کاخاتمہ کریں گے، اوردسویں دن اس تعزیہ کوایک جلوس کے ساتھ کسی قریبی ندی یاتالاب میں لے جاکر پھینک دیتاہے،فرق یہ ہے کہ ہندواپنے رام کوبلاتاہے اورمسلمان اپنے حسین کو،حالانکہ دونوں عمل شرک کے ہیں۔
دیکھاجوتعزیہ کوتوپنڈت نے یہ کہا تونے تومیرے مندرکانقشہ چرالیا
کاغذ میں جب حسین کوتونے بلالیا مٹی کی مورتی میں خداکیوں نہ آئے گا؟
چونکہ ہندوپاک کے مسلمانوں میں بہت سی رسمیں ہندؤں سے گھس آئی ہیں، دیوالی کے مقابلہ میں شب برات،گنگاجل کے مقابہ میں اناساگر،دان کے مقابلہ میں نذرونیاز، مندروں کے مقابلہ میں درگاہیں،اوتار کے مقابلہ میں اولیاء ،اسی طرح دسہرہ کے مقابلہ میں تعزیہ کی یہ رسم ہے،ہندوستان میں یہ رسم امیرتیمورلنگ مغلیہ باشاہ کے زمانہ میں اس کے ایک شیعہ وزیر معزالدولہ شیعی نے ایجاد کی تھی،افسوس تویہ ہے کہ ا س ماتم کی آڑ میں صحابہ کرام کوبرابھلا کہاجاتاہے،انہیں گالیاں دی جاتی ہیں،اوران صحابہ کرام پربھی تیرونشترچلائے جاتے ہیں جن کااس واقعہ سے دورکابھی تعلق نہیں ہے،بلکہ اس وقت وہ دنیامیں موجود ہی نہ تھے،حتیٰ کہ ان کے مکروفریب کاحال یہ ہے کہ کربلاکاواقعہ بیان کرتے وقت حسین رضی اﷲ عنہ کے اصل قاتلوں کانام بھی نہیں لیتے، اس لئے ہمیں اس یہودی اورشیعی مکرکوسمجھنے کی ضرورت ہے۔
اﷲ سے دعاہے کہ ہمیں اس مہینہ کی تاریخی وشرعی حیثیت کوپہچاننے اوراس کی قدر کرنے کی توفیق عطافرمائے،اوریہودونصاریٰ کے مکرسے محفوظ رکھے،آمین اورہمیں دلوں کاتقویٰ عطا فرمائے،اورآخرت کی فکر کے ذریعہ اصلاح اعمال کی توفیق بخشے،اﷲ تعالیٰ کافرمان ہے:(یَاأیُّھَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُواﷲَ وَلْتَنْظُرْ نَفْس مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُواﷲَ اِنَّ اﷲَ خَبِیر بِّمَا تَعْمَلُونَ) الحشر ١٨۔
اے ایمان والو !اﷲ سے ڈرواورہرایک کویہ دیکھناچاہئے کہ اس نے کل کے لئے کیاسامان تیارکیاہے،اوراﷲ سے ڈرتے رہواورجوکچھ تم کرتے ہویقیناًاﷲ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔
ختم شدہ
اعداد : انصار زبیر محمدی حفظه الله
{ناشر :مکتب توعیۃ الجالیات الغاط: www.islamidawah.com }
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.