محرم الحرام ۔۔ سن ہجری کا آغاز
سانحہ ٔ کربلا کا اس کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں
!
ماہ محرم سن ہجری کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیادتو آنحضرت ﷺ کے واقعہ ٔ ہجرت پر ہے لیکن اس اسلامی سن کا تقرر اور آغاز ِ استعمال ۱۷ھ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد حکومت میں ہوا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ حضرت ابو موسی ٰ اشعری رضی اللہ عنہ یمن کے گورنر تھے ان کے پاس حضرت عمررضی اللہ عنہ کے فرمان آتے تھے جن پر تاریخ درج نہ ہوتی تھی ۔ ۱۷ھ ہجری حضرت ابو موسی ٰرضی اللہ عنہ کے توجہ دلانے پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے صحابہ کو اپنے ہاں جمع فرمایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا، تبادلۂ افکار کے بعد قرار پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتداء ماہ محرم سے کی جائے کیونکہ ۱۳ نبوت کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کرلیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔ (فتح الباری، باب التاریخ ومن أین أرخو التاریخ؟ ج۳۳۴/۷، حدیث: ۳۹۳۴، طبع دارالسلام)
مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سےایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔ مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کےا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے ، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپئے آزار ہوجائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش واقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کرلیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کردئیے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کردیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کرلی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائےاور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کرکے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کرکے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے۔
چنانچہ اسی واقعۂ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی انسانی برتری اور تَفَوُّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعے کو، بلکہ یہ واقعہ ٔ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ایک یادگار ہے کہ جو ثبات قدم، صبر واستقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتاہے۔ یہ واقعہ ٔ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس طرح کامرانی و شادمانی کا زریں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و گمنامی سے نکل کر رفعت و شہرت اور عزت و عظمت کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے۔ (یہ حدیث آگے آئے گی)
یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حضرت حسین کے واقعۂ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسین کی شہادت کا سانحۂ دلگداز پیش آیا تھا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ سانحۂ شہادت تو حضور اکرم ﷺ کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا اور دین کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کردی گئی تھی۔
[ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًۭا ۚ] (المائدۃ۳/۵)
اس لیے یہ تصور اس آیت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ۔ اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ حضرت عثمانرضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و شیون کی اجازت ہوتی تو یقینا ً تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے ، کم ہوتا۔ لیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں، دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں اس لیے ان کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں ۔
مسلمانوں کا یہ اسلامی سن بھی اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سےایک خاص امتیازی حیثیت کا حامل ہے ۔ مذاہب عالم میں اس وقت جس قدر سنین مروج ہیں وہ عام طور پر یا تو کسی مشہور انسان کے یوم ولادت کو یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعۂ مسرت و شادمانی سے وابستہ ہیں کہ جس سے نسل انسانی کو بظاہر کوئی فائدہ نہیں، مثلاً مسیحی سن کی بنیاد حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کا یوم ولادت ہے۔ یہودی سن فلسطین پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تخت نشینی کے ایک پر شوکت واقعے سے وابستہ ہے۔ بکرمی سن راجہ بکرما جیت کی پیدائش کی یادگار ہے، رومی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو واضح کرتا ہے، لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوت کےا یسے واقعے سے وابستہ ہے جس میں یہ سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان اعلائے کلمۃ الحق کے نتیجے میں تمام اطراف سے مصائب و آلام میں گھر جائے ، بستی کے تمام لوگ اس کے دشمن اور درپئے آزار ہوجائیں، قریبی رشتہ دار اور خویش واقارب بھی اس کو ختم کرنے کا عزم کرلیں، اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کردئیے جائیں، شہر کے تمام سربرآوردہ لوگ اس کو قتل کرنے کا منصوبہ باندھ لیں، اس پر عرصۂ حیات ہر طرح سے تنگ کردیا جائے اور اس کی آواز کو جبراً روکنے کی کوشش کی جائے تو اس وقت وہ مسلمان کیا کرے؟ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز نہیں کیا کہ کفر و باطل کے ساتھ مصالحت کرلی جائے، تبلیغ حق میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائےاور اپنے عقائد و نظریات میں لچک پیدا کرکے ان میں گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور ٹوٹ جائے۔ بلکہ اس کا حل اسلام نے یہ تجویز کیا ہے کہ ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کرکے وہاں سے ہجرت اختیار کر لی جائے۔
چنانچہ اسی واقعۂ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد رکھی گئی ہے جو نہ تو کسی انسانی برتری اور تَفَوُّق کو یاد دلاتا ہے اور نہ شوکت و عظمت کے کسی واقعے کو، بلکہ یہ واقعہ ٔ ہجرت مظلومی اور بے کسی کی ایک یادگار ہے کہ جو ثبات قدم، صبر واستقامت اور راضی برضائے الہٰی ہونے کی ایک زبردست مثال اپنے اندر پنہاں رکھتاہے۔ یہ واقعہ ٔ ہجرت بتلاتا ہے کہ ایک مظلوم و بے کس انسان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوسکتا ہے اور مصائب و آلام سے نکل کر کس طرح کامرانی و شادمانی کا زریں تاج اپنے سر پر رکھ سکتا ہے اور پستی و گمنامی سے نکل کر رفعت و شہرت اور عزت و عظمت کے بام عروج پر پہنچ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں یہ مہینہ حرمت والا ہے اور اس ماہ میں نفل روزے اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہیں جیسا کہ حدیث نبوی ﷺ میں ہے۔ (یہ حدیث آگے آئے گی)
یہ بھی خیال رہے کہ اس مہینے کی حرمت کا سیدنا حضرت حسین کے واقعۂ شہادت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مہینہ اس لیے قابل احترام ہے کہ اس میں حضرت حسین کی شہادت کا سانحۂ دلگداز پیش آیا تھا یہ خیال بالکل غلط ہے۔ یہ سانحۂ شہادت تو حضور اکرم ﷺ کی وفات سے پچاس سال بعد پیش آیا اور دین کی تکمیل آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ہی کردی گئی تھی۔
[ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًۭا ۚ] (المائدۃ۳/۵)
اس لیے یہ تصور اس آیت قرآنی کے سراسر خلاف ہے، پھر خود اسی مہینے میں اس سے بڑھ کر ایک اور سانحۂ شہادت اور واقعۂ عظیم پیش آیا تھا یعنی یکم محرم کو عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ۔ اگر بعد میں ہونے والی ان شہادتوں کی شرعاً کوئی حیثیت ہوتی تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت اس لائق تھی کہ اہل اسلام اس کا اعتبار کرتے۔ حضرت عثمانرضی اللہ عنہ کی شہادت ایسی تھی کہ اس کی یادگار منائی جاتی اور پھر ان شہادتوں کی بنا پر اگر اسلام میں ماتم و شیون کی اجازت ہوتی تو یقینا ً تاریخ اسلام کی یہ دونوں شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام ان پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے ، کم ہوتا۔ لیکن ایک تو اسلام میں اس ماتم و گریہ زاری کی اجازت نہیں، دوسرے یہ تمام واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ہیں اس لیے ان کی یاد میں مجالس عزا اور محافل ماتم قائم کرنا دین میں اضافہ ہے جس کے ہم قطعاً مجاز نہیں ۔
عشرہ ٔ محرم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام مطلوب
عشرۂ محرم میں عام دستور رواج ہے کہ شیعی اثرات کے زیر اثر واقعات کربلا کو مخصوص رنگ اور افسانوی و دیو مالائی انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ شیعی ذاکرین تو اس ضمن میں جو کچھ کرتے ہیں وہ عالم آشکارا ہے، لیکن بدقسمتی سے بہت سے اہل سنت کے واعظان خوش گفتار اور خطیبان سحر بیان بھی گرمیٔ محفل اور عوام سے داد و تحسین وصول کرنے لیے اسی تال سر میں ان واقعات کاتذکرہ کرتے ہیں جو شیعیت کی مخصوص ایجاد اور ان کی انفرادیت کا غماز ہےاس سانحہ ٔ شہادت کا ایک پہلو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تبرا بازی ہے جس کے بغیر شیعوں کی " محفل ماتم حسین رضی اللہ عنہ " مکمل نہیں ہوتی۔ اہل سنت اس پستی و کمینگی تک تو نہیں اترتے تاہم بعض لوگ بوجوہ بعض صحابہ پر کچھ نکتہ چینی کرلینے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے، مثلا ایک "مفکر" نے تو یہاں تک فرمادیا کہ قلیل الصحبت ہونے کی وجہ سے ان کی قلب ماہیت نعوذ باللہ نہیں ہوئی تھی۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ تمام اعلیٰ و ادنی ٰ صحابہ کا فرق مراتب کے باوصف بحیثیت صحابی ہونے کے یکساں عزت و احترام اسلام کا مطلوب ہے۔ کسی صحابی کے حقوق میں زبان طعن وتشنیع کھولنا اور ریسرچ کے عنوان پر نکتہ چینی کرنا ہلاکت وتباہی کو دعوت دینا ہے۔صحابی کی تعریف ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی ٔ اکرم ﷺ کو دیکھا ہو اور قرآن و حدیث میں صحابہ ٔ کرام کے جو عمومی فضائل و مناقب بیان کیے گئے ہیں، ان کا اطلاق بھی ہر صحابی پر ہوگا۔
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے الاصابہ مین صحابی کی جس تعریف کو سب سے زیادہ صحیح اور جامع قرار دیا ہے، وہ یہ ہے:
((وَاَصَحُّ مَا وَقَفتُ عَلَیہِ مِن ذٰلِکَ أَنَّ الصَّحَابِیَّ مَن لَقِیَ النَّبِیَّ ﷺ مُؤمِناً بِہٖ وَمَاتَ عَلَی الاِسلَامِ، فَیَدخُلُ فِیمَن لَقِیَہُ مَن طَالَت مُجَالَسَتُہُ لَہُ أَو قَصُرَت وَ مَن رَوٰی عَنہُ أَو لَم یَروِ وَمَن غَزَا مَعَہُ أَو لَم یَغزُ وَ مَن رَاَٰہُ رُؤیَۃً وَلَو لَم یُجَالِسہُ وَ مَن لَم یَرَہُ بِعَارِضِ کَالعَمٰی)) (الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ : ۱۵۸/۱، طبع دارالکتب العلمیۃ: ۱۹۹۵ء)
"سب سے زیادہ صحیح تعریف صحابی کی جس پر میں مطلع ہوا وہ یہ ہے کہ "وہ شخص جس نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ سے ملاقات کی اور اسلام ہی پر اس کی موت ہوئی۔" پس اس میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبی ﷺ سے ملاقات ( قطع نظر اس سے کہ )اسے آپ کی ہم نشینی کا شرف زیادہ حاصل رہا یا کم، آپ سے روایت کی یا نہ کی۔ آپ کے ساتھ غزوے میں شریک ہوا یا نہیں ور جس نے آپ کو صرف ایک نظر ہی سےدیکھاہو اور آپ کی مجالس ، ہم نشینی کی سعادت کا موقع اسے نہ ملا ہواور جو کسی خاص سبب کی بنا پر آپ کی رؤیت کا شرف حاصل نہ کرسکا ہو جیسے نابینا پن۔"
اس لیے اہل سنت کا خلفاء اربعہ ابوبکر وعمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اور دیگر ان جیسے اکابر صحابہ کی عزت و توقیر کو ملحوظ رکھنا لیکن بعض ان جلیل القدر اصحاب رسول کی منقبت و تقدیس کا خیال نہ رکھنا یا کم از کم انہیں احترام مطلوب کا مستحق نہ سمجھانا جن کے اسمائے گرامی مشاجرات کے سلسلے میں آتے ہیں جیسے حضرت معاویہ، حضرت عمرو بن العاص، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، یکسر غلط اور رفض و تشیع کا ایک حصہ ہے۔ اہل سنت کو اس نکتے پر غور کرنا چاہیے کہ خلفائے راشدین کی عزت و توقیر تو کسی حد تک معقولیت پسند شیعہ حضرات بھی ملحوظ رکھنے پر مجبور ہیں اور ان کا ذکر وہ نامناسب انداز میں کرنے سے بالعموم گریز ہی کرتے ہیں البتہ حضرت معاویہ ، عمروبن العاص رضی اللہ عنہما وغیرہ کو وہ بھی معاف نہیں کرتے اگر صحابہ کرام کے نام لیوا بھی یہی مؤقف اختیار کرلیں ، تو پھر محبان صحابہ اور دشمنان صحابہ میں فرق کیا رہ جاتاہے؟ اور ان صحابہ کو احترام مطلوب سے فروتر خیال کرکے ان کے شرف و فضل کو مجروح کرنا کیا صحابیت کے قصر رفیع میں نقب زنی کا ارتکاب نہیں ہے؟ کیا س طرح نفس صحابیت کا تقدس مجروح نہیں ہوتا؟ اور صحابیت کی ردائے عظمت (معاذ اللہ) تارتار نہیں ہوتی؟
بہرحال ہم عرض یہ کررہے تھے کہ قرآن و حدیث میں صحابہ ٔ کرام کے جو عمومی فضائل و مناقب مذکور ہیں وہ تمام صحابہ کو محیط و شامل ہیں اس میں قطعاً کسی استثناء کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور ان نصوص کی وجہ سے ہم اس امر کے پابند ہیں کہ تمام صحابہ کو نفس صحابیت کے احترام میں یکساں عزت و احترام کا مستحق سمجھیں، اس سلسلے میں یہ حدیث ہر وقت ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نےفرمایا:
((لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ)) (صحیح البخاری، فضائل اصحاب النبی ﷺ، ح : ۳۶۷۳ وصحیح مسلم، فضائل الصحابۃ، ح:۲۵۴۱۔۲۵۴۰)
"میرے صحابہ پر سب وشتم نہ کرو( یعنی انہیں جرح و تنقید اور برائی کا ہدف نہ بناؤ) انہیں اللہ نے اتنا بلند رتبہ عطا فرمایا ہے) کہ تم میں سے کوئی شخص اگر احد پہاڑ جتنا سونا بھی اللہ کی راہ میں خرچ کردے تو وہ کسی صحابی کے خرچ کردہ ایک مُد (تقریباً ایک سیر) بلکہ آدھے مُد کے بھی برابر نہیں ہوسکتا۔
ماہ محرم اور عاشورۂ محرم
عشرۂ محرم(محرم کے ابتدائی دس دن) میں شیعہ حضرات جس طرح مجالس عزا اور محافل ماتم برپا کرتے ہیں، ظاہر بات ہے کہ یہ سب اختراعی چیزیں ہیں اورشریعت اسلامیہ کے مزاج سے قطعاً مخالف۔اسلام نےتو نوحہ و ماتم کے اس انداز کو"جاہلیت" سے تعبیر کیا ہے اور اس کام کو باعث لعنت بلکہ کفر تک پہنچا دینے والا بتلایا ہے۔
بدقسمتی سے اہل سنت میں سے ایک بدعت نواز حلقہ اگرچہ نوحہ و ماتم کا شیعی انداز تو اختیار نہیں کرتا لیکن ان دس دنوں میں بہت سی ایسی باتیں اختیار کرتا ہے جن سے رفض و تشیع کی ہمنوائی اور ان کے مذہب باطل کا فروغ ہوتا ہے۔ مثلاً
شیعوں کی طرح سانحۂ کربلاکو مبالغے اور رنگ آمیزی سے بیان کرنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور یزید رحمۃ اللہ علیہ کی بحث کے ضمن میں جلیل القدر صحابہ کرام (معاویہ اور مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہما وغیرہ) کو ہدف طعن و ملامت بنانے میں بھی تامل نہ کرنا۔
دس محرم کو تعزیے نکالنا، انہین قابل تعظیم پرستش سمجھنا، ان سے منتین مانگنا، حلیم پکانا، پانی کی سبیلیں لگانا اپنے بچوں کو ہرے رنگ کے کپڑے پہنا کر انہیں حسین رضی اللہ عنہ کا فقیر بنانا۔ دس محرم کو تعزیوں اور ماتم کے جلوسوں میں ذوق و شوق سے شرکت کرنا اور کھیل کود (گٹکے اور پٹہ بازی) سے ان محفلوں کی رونق میں اضافہ کرنا، وغیرہماہ محرم کو سوگ کا مہینہ سمجھ کر اس مہینے میں شادیاں نہ کرنا۔
ذ والجناح (گھوڑے) کے جلوس میں ثواب کا کام سمجھ کر شرکت کرنا۔
اور اسی انداز کی کئی چیزیں ہیں۔ حالانکہ یہ سب چیزیں بدعت ہین جن سے نبی ٔ اکرم ﷺ کے فرمان کے مطابق اجتناب ضروری ہے۔ آپ نے مسلمانوں کو تاکید کی ہے۔
((فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ)) (مسند احمد:۱۲۶/۴۔۱۲۷ وسنن ابی داؤد، السنۃ، ح:۴۶۰۷ وابن ماجہ، اتباع سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین، ح: ۴۲ وجامع الترمذی، العلم، ح: ۲۶۷۶)
"مسلمانو!تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے ہی کو اختیار کرنا اوراسے مضبوطی سے تھامے رکھان اور دین میں اضافہ شدہ چیزوں سے اپنے کو بچا کررکھنا، اس لیے کہ دین میں نیاکام (چاہے وہ بظاہر کیسا ہی ہو) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔"
یہ بات ہر کہ و مہ پر واضح ہے کہ یہ سب چیزیں صدیوں بعد کی پیداوار ہیں، بنا بریں ان کے بدعات ہونے میں کوئی شبہ نہیں اور نبی ﷺ نے ہر بدعت کو گمراہی سے تعبیر فرمایا ہے جس سے مذکورہ خود ساختہ رسومات کی شناعت وقباحت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
محرم میں مسنون عمل: محرم میں مسنون عمل صرف روزے ہیں۔ حدیث مین رمضان کے علاوہ نفلی روزوں میں محرم کے روزوں کو سب سے افضل قرار دیا گیا ہے۔
((أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ)) (صحیح مسلم، الصیام، باب فضل صوم المحرم، ح: ۱۱۶۳)"رمضان کے بعد ، سب سے افضل روزے ، اللہ کے مہینے ، محرم کے ہیں۔"
۱۰ محرم کے روزے کی فضلیت: بالخصوص دس محرم کے روزے کی حدیث میں یہ فضیلت آئی ہے کہ یہ ایک سال گزشتہ کا کفارہ ہے۔(صحیح مسلم، باب استحباب صیام ثلاثہ ایام۔۔۔حدیث: ۱۱۶۲) اس روز آنحضر ت ﷺ بھی خصوصی روز ہ رکھتے تھے(ترغیب) پھر نبیﷺ کے علم میں یہ بات آئی کہ یہودی بھی اس امر کی خوشی میں کہ دس محرم کے دن حضرت موسیٰ کو فرعون سے نجات ملی تھی ، روزہ رکھتے ہیں تو نبی ﷺ نے فرمایا کہ عاشورہ (دس محرم) کا روزہ تو ضرور رکھو لیکن یہودیوں کی مخالفت بھی بایں طور کرو کہ اس کے بعد یا اس سے قبل ایک روزہ اور ساتھ ملا لیا کرو۔ ۹، ۱۰ محرم یا ۱۰، ۱۱ محرم کا روزہ رکھا کرو۔
((صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا)) (مسند احمد بتحقیق احمد شاکر ، ح: ۲۱۵۴ و مجمع الزوائد: ۴۳۴/۳، مطبوعۃ دارالفکر، ۱۴۱۴ھ/۱۹۹۴ء)
ایک اور حدیث میں ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے عاشورے کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم فرمایا، تو صحابہ نے آپ کو بتلایا کہ یہ دن تو ایسا ہے جس کی تعظیم یہود و نصاریٰ بھی کرتے ہیں ، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
((لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ)) (صحیح مسلم، الصیام، باب ای یوم یصام فی عاشوراء، ح؛ ۱۱۳۴)"اگرمیں ائندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ (بھی) رکھوں گا۔
لیکن اگلا محرم آنے سے قبل ہی آپ اللہ کو پیارے ہوگئے،ﷺ۔
ایک ضروری وضاحت: بعض علماء کہتے ہیں کہ "میں نویں محرم کا روزہ رکھوں گا" کا مطلب ہے کہ صرف محرم کی ۹ تاریخ کا روزہ رکھوں گا یعنی دس محرم کا روزہ نہیں، بلکہ اس کی جگہ ۹ محرم کا روزہ رکھوں گا۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اب صرف ۹ محرم کا روزہ رکھنا مسنون عمل ہے۔ ۱۰ محرم کا روزہ رکھنا بھی صحیح نہیں اور ۱۰ محرم کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ ملا کر رکھنا بھی سنت نہیں ۔ بلکہ اب سنت صرف ۹ محرم کا ایک روزہ ہے۔ لیکن یہ رائے صحیح نہیں۔ نبی ﷺ کے فرمان کا مطلب ہے کہ میں ۱۰ محرم کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا، اسی لیے ہم نے ترجمے میں ۔۔بھی۔۔ کا اضافہ کیا ہے، کیونکہ ۱۰ محرم کا روزہ تو آپ نے حضرت موسیٰ کے نجات پانے کی خوشی میں رکھا تھا، اس اعتبار سے ۱۰ محرم کے روزے کی مسنونیت تو مسلم ہے، لیکن یہودیوں کی مخالفت کے لیے آپ نے اس کے ساتھ ۹ محرم کا روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار فرمایا جس پر عمل کرنے کا موقع آپ کونہیں ملا۔ بعض دیگر روایات سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، اسی لیے صاحب مرعاۃ مولانا عبیداللہ رحمانی مبارکپوری ، امام ابن قیم اور حافظ ابن حجر نے اسی مفہوم کو زیادہ صحیح اور راجح قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: مرعاۃ المفاتیح، ۲۷۰/۳، طبع قدیم )
توسیع طعام کی بابت
ایک من گھڑت روایت
محرم کی دسویں تاریخ کے بارے میں جو روایت بیان کی جاتی ہے کہ اس دن جو شخص اپنے اہل وعیال پر فراخی کرےگا ، اللہ تعالیٰ سارا سال اس پر فراخی کرے گا، بالکل بے اصل ہے جس کی صراحت شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور دیگر ائمہ محققین نے کی ہے۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔ "۱۰ محرم کو خاص کھانا پکانا، توسیع کرنا وغیرہ من جملہ ان بدعات ومنکرات سے ہے جو نہ رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت ہے نہ خلفائے راشدین سے ، اور نہ ائمہ مسلمین میں سے کسی نے اس کو مستحب سمجھا ہے۔" (فتاویٰ ابن تیمیہ: ۳۵۴/۲)اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول مذکورہ روایت کے متعلق امام ابن تیمیہ نے نقل کیا ہے کہ ((لا اصل لہ فلم یرہ شیئاً)) (اس کی کوئی اصل نہیں، امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو کچھ نہیں سمجھا) (منہاج السنۃ ، ۲۴۸/۲ اور فتاویٰ مذکور)
اسی طرح امام صاحب کی کتاب اقتضاء الصراط المستقیم میں اس کی صراحت موجود ہے۔ (ص:۳۰۱، طبع مصر ۱۹۵۰ء)
اور امام محمد بن وضاح نے نے اپنی کتاب "البدع والنھی عنھا" میں امام یحییٰ بن یحییٰ (متوفی ۲۳۴ھ) سے نقل کیا ہے۔
"میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں مدینہ منورہ اور امام لیث ، ابن القاسم او ر ابن وہب کے ایام میں مصر میں تھا اور یہ دن (عاشورا) وہاں آیا تھا میں نے کسی سے اس کی توسیع رزق کا ذکر تک نہیں سنا۔ اگر ان کے ہاں کوئی ایسی روایت ہوتی تو باقی احادیث کی طرح اس کا بھی وہ ذکر کرتے۔"(کتاب مذکورص۴۵)اس روایت کی پوری سندی تحقیق حضرت الاستاذ المحترم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک مفصل مضمون میں کی ہےجو "الاعتصام" ۱۳ مارچ ۱۹۷۰ء میں شائع ہوا تھا۔ من شآء فلیراجعہ۔یہ تمام مذکورہ امور وہ ہیں جو اہل سنت عوام کرتے ہیں، شیعہ ان ایام میں جو کچھ کرتے ہیں ، ان سے اس وقت بحث نہیں، اس وقت ہمارا روئے سخن اہل سنت کی طرف ہے کہ وہ بھی دین اسلام سے ناواقفیت ، عام جہالت اور ایک برخود غلط فرقے کی دسیسہ کاریوں سے بے خبری کی بنا پر مذکورہ بالا رسومات بڑی پابندی اور اہتمام سے بجا لاتے ہیں حالانکہ یہ تمام چیزیں اسلام کے ابتدائی دور کے بہت بعد کی ایجاد ہیں جو کسی طرح بھی دین کا حصہ نہیں اور نبی ﷺ کے فرمان:
((مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ فِيهِ فَهُوَ رَدٌّ)) (صحیح البخاری، الصلح، باب اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، ح۲۶۹۷ وصحیح مسلم، الاقضیۃ، باب نقض الأحکام الباطلۃ۔۔۔، ح: ۱۷۱۸)
"دین میں نو ایجاد کام مردود ہے۔"
کے مصداق ان سے اجتناب ضروری ہے۔
مذکورہ بدعات اور رسومات کی ہلاکت خیزیاں
دین میں اپنی طرف سے اضافے ہی کو بدعت کہا جاتا ہے۔ پھر یہ چیزیں صرف بدعت ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ شرک و بت پرستی کے ضمن میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ :
اولاً: تعزیے میں روح حسین رضی اللہ عنہ کو موجود اور انہیں عالم الغیب سمجھا جاتا ہے، تب ہی تو تعزیوں کو قابل تعظیم سمجھتے اور ان سے مدد مانگتے ہیں حالانکہ کسی بزرگ کی روح کو حاضر ناظر جاننا اور عالم الغیب سمجھنا شرک و کفر ہے، چنانچہ حنفی مذہب کی معتبر کتاب فتاوی بزازیہ میں لکھا ہے من قال ارواح المشائخ حاضرۃ تعلم یکفر "جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر وناظر ہیں اور وہ علم رکھتی ہیں ، وہ کافر ہے۔"
ثانیاً: تعزیہ پرست تعزیوں کے سامنے سر نیہوڑتے ہیں جو سجدے ہی کی ذیل میں آتا ہےاور کئی لوگ تو کھلم کھلا سجدے بجا لاتے ہیں اور غیر اللہ کو سجدہ کرنا ، چاہے وہ تعبدی ہو یا تعظیمی ، شرک صریح ہے۔ چنانچہ کتب فقہ حنفیہ میں بھی سجدہ لغیر اللہ کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شمس الائمہ سرخسی کہتے ہیں:
((ان کان لغیر اللہ تعالیٰ علی وجہ التعظیم کفر))
"غیر اللہ کو تعظیمی طور (بھی) سجدہ کرنا کفر ہے۔"
اور علامہ قہستانی حنفی فرماتے ہیں یکفروا لسجدۃ مطلقا یعنی غیر اللہ کو سجدہ کرنے والا مطلقاً کافر ہے چاہے عبادۃًٍ ہو یا تعظیماً" (رد المحتار)
ثالثاً: تعزیہ پرست نوحہ خوانی و سینہ کوبی کرتے ہیں اور ماتم و نوحہ میں کلمات شرکیہ ادا کرتے ہیں ، اول تو نوحہ خوانی بجائے خود غیر اسلامی فعل ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
((لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ)) (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود، ح : ۱۲۹۷)
"وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کیے اور زمانۂ جاہلیت کے سے بین کیے۔"
یہ صورتیں جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہیں ، نوحہ و ماتم کے ضمن میں آتی ہیں، جو ناجائز ہیں۔ اس لیے فطری اظہار غم کی جو بھی مصنوعی اور غیر فطری صورتیں ہوں گی ، وہ سب ناجائز نوحے میں شامل ہوں گی۔ پھر ان نوحوں میں مبالغہ کرنا اور زمین و آسمان کے قلابے ملانا اور عبدومعبود کے درمیان فرق کو مٹادینا تو وہی جاہلانہ شرک ہے جس کے مٹانے کے لیے ہی تو اسلام آیا تھا۔
رابعاً: تعزیہ پرست تعزیوں سے اپنی مرادیں اور حاجات طلب کرتے ہیں جو صریحاً شرک ہے۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں مظلومانہ شہید ہوگئے اور اپنے اہل و عیال کو ظالموں کے پنجے سے نہ بچا سکے تو اب بعد از وفات وہ کسی کے کیا کام آسکتے ہیں؟
خامساً: تعزیہ پرست حضرت حسین رضی ا للہ عنہ کی مصنوعی قبر بناتے ہیں اور اس کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ حدیث میں آتا ہے:
((من زار قبرا بلا مقبور کانما عبدالصنم)) (رسالہ تنبیہ الضالین، از مولانا اولاد حسن، والد نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ تعالیٰ)
یعنی" جس نے ایسی خالی قبر کی زیارت کی جس میں کوئی میت نہیں تو گویا اس نے بت کی پوجا کی۔"
مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی صراحت: علاوہ ازیں اہل سنت عوام کی اکثریت مولانا احمد رضاخاں بریلوی کی عقیدت کیش ہے، لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود وہ محرم کی ان خودساختہ رسومات میں خوب ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں۔ حالانکہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے بھی ان رسومات سے منع کیا ہے اور انہیں بدعت ، ناجائز اور حرام لکھا ہے اور ان کو دیکھنے سے بھی روکا ہے۔ چنانچہ ان کا فتویٰ ہے۔
"تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔" (عرفان شریعت، حصہ اول، صفحہ: ۱۵)
ان کا ایک مستقل رسالہ "تعزیہ داری" ہے، اس کے صفحہ ۴ پر لکھتے ہیں:
"غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا۔"
یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں۔"
"کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کردیے۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے۔"
صفحہ ۱۱ پر لکھتے ہیں:
"تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں۔"
اور صفحہ ۱۵ پر حسب ذیل سوال، جواب ہے۔
سوال: تعزیہ بنانا اور اس پر نذر ونیاز کرنا، عرائض بہ امید حاجت برآری لٹکانا اور نہ نیت بدعت حسنہ اس کو داخل حسنات جاننا کیسا گناہ ہے؟
جواب: افعال مذکورہ جس طرح عوام زمانہ میں رائج ہیں، بدعت سیئہ و ممنوع و ناجائز ہیں۔
اسی طرح محرم کی دوسری بدعت مرثیہ خوانی کے متعلق "عرفان شریعت" کے حصہ اول صفحہ ۱۶ پر ایک سوال و جواب یہ ہے۔
سوال: محرم شریف میں مرثیہ خوانی میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟
جواب: ناجائز ہے، وہ مناہی و منکرات سے پر ہوتے ہیں۔
محرم کو سوگ کا مہینہ سمجھا جاتا ہے ، اس لیے بالعموم ان ایام میں سیاہ یا سبز لباس پہنا جاتا ہےاور شادی بیاہ سے اجتناب کیا جاتا ہے، اس کے متعلق مولانا احمد رضا خاں لکھتے ہیں:
"محرم میں سیاہ، سبز کپڑے علامت سوگ ہیں اور سوگ حرام۔" (احکام شریعت،۷۱)
مسئلہ: کیا فرماتے ہیں مسائل ذیل میں؟
۱۔ بعض اہل سنت جماعت عشرۂ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے اور نہ جھاڑو دیتے ہیں، کہتے ہیں بعد دفن روٹی پکائی جائے گی۔
۲۔ ان دس دن کپڑے نہیں اتارتے۔
۳۔ ماہ محرم میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔
الجواب: تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔" (احکام شریعت ، حصہ اول ۷۱)
قرآن و حدیث کی ان تصریحات اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کی توضیح کے بعد امید ہے کہ بریلوی علماء اپنے عوام کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے اور عوام اپنی جہالت اور علماء کی خاموشی کی بنا پر جو مذکورہ بدعات وخرافات کا ارتکاب کرتے ہیں یا کم از کم ایساکرنے والوں کے جلوسوں میں شرکت کرکے ان کے فروغ کا سبب بنتے ہیں، ان کو ان سے روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔
وَمَا عَلَيْنَآ إِلَّا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.