Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, December 1, 2010

تبرّک حاصل کرنے کے لیے قرآن کے نیچے سے گزرنا


تبرّک حاصل کرنے کے لیے قرآن کے نیچے سے گزرنا


سوال… ہمارے علاقے میں بعض لوگ کسی حاجت شرعی کے لیے یا تبرک حاصل کرنے کے لیے اس طرح کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو کسی چادر یا عام کپڑے میں رکھ لیتے ہیں ،پھر دو آدمی چادر کا ایک ایک سِرا پکڑ کر اوپر کرتے ہیں اور تیسرا آدمی (حاجت مند ، تبرک حاصل کرنے والا ) اس کے نیچے سے جھُک کر گزرتا ہے (پانچ یا سات مرتبہ)

تو کیا دین اسلام میں اس طریقہ کار کا ثبوت ہے؟ اگر ہے تو کس درجے میں ہے ( سنت یا مباح) اور شرعی طریقہٴ کار کیا ہے ۔

جواب… یہ بات کسی پر مخفی نہیں کہ دین اسلام نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر مکمل کر دیا گیا ہے چناں چہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے جانثار صحابہ کرام رضی الله عنہم نے دین کی کسی اچھی خصلت اور خیر کے کام کو نہیں چھوڑا، سب کرکے بطور نمونہ امت کے لیے چھوڑ گئے ، جو بھی خیر کا کام جب ان سے ثابت نہ ہو تو وہ قابل ترک اور قابل مذمت ہو گا، کیوں کہ اگر اس میں کوئی خیر کی بات ہوتی تو وہ جماعت اس کو ضرور سر انجام دیتی۔

آپ کا ذکر کردہ مروجہ طریقہ کار نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضوان الله عنہم اور ائمہ مجتہدین رحمہم الله تعالیٰ میں سے کسی سے ثابت نہیں ہے، قرآن کریم کے متبرک او رمعظم ہونے میں کوئی شبہ نہیں ، لیکن اس کی برکت کا حصول اس کی تلاوت اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہے، نہ کہ من گھڑت اور بے سند طریقے اپنانے میں، چناں چہ اس طریقہ کو ترک کر دیا جائے اور توبہ استغفار کرتے ہوئے مسنون زندگی کو اپنایا جائے۔
اپنے اعضا کا کسی کے لیے وصیت کرنا

سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:

آج کل الیکٹرانک میڈیا کے ذریعہ لوگوں کو اس بات کی ترغیب دی جارہی ہے کہ وہ فوت ہونے سے قبل اس بات کی وصیت کر دیں کہ آپ کے اعضائے رئیسہ ( دل، دماغ، جگر، گردے وغیرہ) انسانیت کی فلاح کے لیے وقف ہیں اور آپ کے فوت ہونے کے بعد ان کو نکال لینے کی مکمل اجازت ہے ، اس عمل کو میڈیا والے احباب ( آرگن ڈونیشن) کے نام سے تشہیر کر رہے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ فرما دیجیے کہ کیا شریعت کی رو سے ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب… واضح رہے کہ میڈیا کے ذریعے اس بات کی ( کہ فوت ہونے سے قبل ہر شخص اس بات کی وصیت کر دے کہ میرے اعضاء انسانیت کی فلاح کے لیے وقف ہیں ، فوت ہونے کے بعد ان کو نکال لینے کی مکمل اجازت ہے ) ترغیب دینا اور تشہیر کرنا جائز نہیں اور نہ ہی اس بات کی وصیت کرنا جائز ہے ، اگر کسی نے وصیت کر لی تو وصیت نافذ نہ ہو گی اور اگر کسی نے اس کی وصیت نافذ کرکے اس کے اعضا کسی دوسرے انسان میں لگا دیے تو وصیت نافذ کرنے والے سخت گناہ کے مرتکب ہوں گے ، کیوں کہ اعضائے انسانی سے انتفاع حرام ہے ، انسان اپنے جسم یا جسم کے کسی حصے کا مالک نہیں اور انہیں منشائے خداوندی کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ، لہٰذا انسان اپنے کسی عضو کے ہلاک کرنے، کسی کو عطیہ کرنے یا بیچنے یا اس کی وصیت کرنے کا قطعاً مجاز نہیں۔
نقد کم اور ادھار زیادہ قیمت پر فروخت کرنا

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان دین بیچ اس مسئلے کے کہ بندہ کا کھاد، زرعی بیج، ڈیزل، زرعی ادویات، مشینری ، ٹریکٹر،موٹر سائیکل وغیرہ کے ادھار پر فروخت کا کاروبار ہے ۔ کاروبا کی نوعیت یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر ان میں سے کسی چیز کی قیمت نقد ہزار (1000) روپے ہو تو چھ (6) ماہ کے ادھار پر میں تیرہ سو (1300) روپے پر فروخت کرتا ہوں اور اس سے گاہک کو آگاہ بھی کرتا ہوں اور اس کی ضمانت کے طور پر زیورات مکان کے کاغذات ، ٹریکٹر یا موٹر سائیکل کے کاغذات رکھ لیتا ہوں جو کہ ادائیگی پر واپس کر دیے جاتے ہیں ۔ یہ سامان کھاد، زرعی بیج، ڈیزل، زرعی ادویات ، مشینری، ٹریکٹر، موٹرسائیکل وغیرہ بعض اوقات میرے پاس موجود نہیں ہوتا تو میں کسی دوسرے دکاندار کو فون کر دیتا ہوں وہ دکان دار اس گاہک کو سامان دے دیتا ہے بعد میں میں اس دکاندار کو رقم دے دیتاہوں ۔

میرا یہ کام شرعی اعتبار سے کیسا ہے صحیح یا غلط؟۲۔ اگر اس میں کوئی شرعی قباحت ہے تو کیا؟

یہ ادھار پر جو نفع رکھا جاتا ہے اس کی اگر شریعت میں گنجائش ہے تو کس حد تک؟

میں اپنا کاروبار شرعی اصول وضوابط کے تحت کرنا چاہتا ہوں برائے مہربانی اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔ آپ کی بہت بہت نوازش ہو گی۔

جواب… پہلی صورت ( یعنی جب آپ کے پاس سامان موجود ہو تو ) جائز ہے، اس لیے کہ اس میں ادھار کی مدت بھی دوران عقد متعین ہو گئی اور قیمت بھی اور معاملہ کی نوعیت بھی ( یعنی نقد یا ادھار سودے میں سے کسی ایک کو اسی وقت اختیار کر لیا گیا) اور جب یہ تینوں چیزیں دورانِ عقد متعین ہوں تو معاملہ درست ہے وگرنہ ناجائز۔

دوسری صورت ( جب کہ آپ کے پاس فی الوقت سامان موجود نہ ہو ) مندرجہ ذیل وجوہ کی بنا پر شرعاً جائر نہیں :

(الف) ” بیع قبل القبض“: یعنی سامان بیجتے وقت وہ سامان آپ کے قبضہ ( خواہ حقیقی ہو یا حکمی) میں نہ تھا۔

(ب) ”بیع الکالی بالکالی“ یعنی قیمت او رسامان دونوں میں سے کوئی بھی چیز نقد نہیں ۔

(ج): ”بیع الموزونات وا لمکیلات بدون الوزن والکیل“ یعنی جب آپ خریدار کو دوسرے دوکان دار کے پاس بھیجتے ہیں ( اگر اس کو آپ کی طرف سے وکیل بالقبض بھی شمار کر لیا جائے ) تو اگر وہ دوکاندار کھاد، زرعی ، بیج، ڈیزل اور وہ زرعی ادویات جو تول یا وزن کرکے بیچی جاتی ہیں ، کو خریدار کے سامنے نہ تولے ( بلکہ پہلے سے تول کر رکھی ہوں) تو یہ شرعاً جائز نہیں،اگر خریدار تول کے حساب سے خریدنا چاہے۔

لہٰذا اس معاملہ کو شرعا درست کرنے کے لیے مذکورہ مفاسد سے بچنا ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ( جب آپ کے پاس سامان نہ ہو تو ) آپ خریدار کے ساتھ فی الحال عقد نہ کریں بلکہ دوسرے دوکان دار سے فون پر مطلوبہ سامان خرید لیں اور وہ گودام ( وغیرہ) میں آپ کی مطلوبہ چیز کو الگ کرکے رکھ دے ( تاکہ قبضہ حکمی متحقق ہو جائے ) پھر آپ خریدار کو وکیل بالقبض ( یعنی اس چیز کو قبضہ کرنے کا وکیل ) بنا دیں اور وہ دکان دار اس خریدار ( وکیل ) کے سامنے اس چیز کو تول کردے ( اگر وہ تول کر بیچی جاتی ہوں اور خریدار تول کے حساب سے خریدنا چاہے ، جیسے کھاد ، بیج اور وہ زرعی ادویات جو تول کر بیچی جاتی ہیں ) پھر آپ خریدار کے ساتھ عقد کر لیں ۔ اب یہ معاملہ مذکورہ تینوں مفاسد سے خالی ہو کر شرعاً جائز ہو جائے گا۔

ادھار (وغیرہ) پر نفع رکھنے کی شرعاً تو کوئی تحدید نہیں ، تاہم بہتر یہ ہے کہ تاجروں کے ہاں جس شرح کے ساتھ نفع متعارف ہو اسی قدر نفع رکھاجائے، بالخصوص اگر کوئی مجبور ہو تو اس کی مجبوری کا لحاظ رکھا جائے ، نہ یہ کہ مجبور دیکھ کر ( متعارف نفع سے بھی ) زیادہ نفع لیا جائے۔
بیٹھ کر سونے کی صورت میں کب وضو ٹوٹ جاتا ہے؟

سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام ان مسائل کے بارے میں :

(الف) آلتی پالتی مار کر بیٹھ کر سونے سے کیا وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ زید کا کہنا ہے کہ حدیث میں ہے کہ ( وکاء السّہ العین) لہٰذاآنکھ کے بند ہو جانے کی صورت میں وضو ٹوٹ جائے گا ۔

(ب) آدمی ایک پاؤں کھڑا کرکے ایک پاؤں بچھا کر اونگھتا ہے تو کیا اس کا وضو ٹوٹ جائے گا ؟ زید کا کہنا ہے کہ سرین زمین سے اٹھی ہوئی ہے اور استرخاء مفاصل کی علت بھی پائی جارہی ہے تو وضو ٹوٹ جائے گا، عمرو کا کہنا ہے کہ اس سے تو حرج عظیم لازم آئے گا، کیوں کہ اکثر لوگ ایسے سو جاتے ہیں اور پھر نماز بھی اسی حالت میں پڑھ لیتے ہیں تو حرج عظیم کی وجہ سے وضو نہیں ٹوٹنا چاہیے ( ج) کوئی آدمی ایک پاؤں اٹھا کر اور ایک پاؤں بچھا کر یا تشہد کی حالت میں بیٹھ کر ہاتھوں کا زمین سے ٹیک لے کر اونگھتا ہے تو اس سے وضو ٹوٹ جاتاہے یا نہیں ؟ (د) اور اسی طرح اپنے جسم سے ٹیک لگا کر سونے سے مثلاً ( آلتی پالتی مارکر دونوں ہاتھوں کو ران پر رکھ کر سونا یا سرین کے بل بیٹھ کر دونوں پاؤں کو اٹھا کر سر کو گھٹنے پر رکھ کر سونا) وضوٹوٹ جاتا ہے یا نہیں( ہ) ان تمام صورتوں میں نوم حفیف بانوم کثیر ، اونگھ ان کا کوئی فرق ہے ؟ یا اسی طرح ٹیک کے لیے جسم کے ساتھ ٹیک ہو یا زمین کے ساتھ ٹیک ہو یا دیوار کے ساتھ ہو اس میں بھی کوئی فرق ہے؟ براہِ کرم ہر ہر جزئی کا مکمل ومدلل جواب عنایت فرمائیں۔

سنا ہے کہ لنگی پہننا، بال بڑے رکھنا ، بٹن کھولنا، مونچھیں صاف کرنا یہ تمام امور0 4 سال کی عمر کے بعد کرنا چاہیے یہ قول کہاں تک ٹھیک ہے؟ وضاحت فرما دیجیے۔

جواب… (الف) بغیر کسی چیز پر ٹیک لگائے مذکورہ ہیئت میں بیٹھ کر سونے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، چاہے جتنا بھی سوجائے بشرطیکہ زمین پر گرانہ ہو یا گر کر فوراً بیدار ہوا ہو۔

(ب) اس صورت میں بھی وضو نہیں ٹوٹتا، استرخائے مفاصل سے مراد وہ جو بطریق اتم پایا جائے، ورنہ کھڑے کھڑے سونے کی صورت میں بھی کچھ نہ کچھ استرخائے مفاصل پایا ہی جاتا ہے ۔

(ج) مذکورہ دونوں صورتوں میں ٹیک لگا کر سونے سے اگر مقعد (سرین) زمین سے زائل ہو تو بالاتفاق وضو ٹوٹ جائے گا اور اگر پوری مقعد زمین یا پاؤں پر متمکن ( برقرار) ہو تو اس میں اختلاف ہے ، مفتی بہ قول وضو کے نہ ٹوٹنے کاہے ، لیکن آج کل لوگوں کے طبائع کے پیش نظر احتیاطاً وضو کر لینا چاہیے۔

(د) مذکورہ صورت میں اگر اتنا جھکاہو کہ مقعد زمین سے زائل ہو گیا ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا ورنہ نہیں۔

(د) نوم خفیف اور ثقیل میں کوئی فرق نہیں، اونگھنے والا شخص اگر اپنے پاس ہونے والی گفتگو کا اکثر حصہ سنتا ہو تو اس سے کسی صورت وضو نہیں ٹوٹے گا او راگر اپنے پاس ہونے والی گفتگو کا اکثر حصہ نہ سنتا ہو تو وہ سونے والے کے حکم میں ہے ۔

… مذکورہ امور عمر کے کسی متعین حصے کے ساتھ خاص نہیں ۔

عورتوں کا قبرستان جانا

سوال… نو جوان عورتوں کا قبرستان جانا بہرحال ناجائز وحرام ہے ، البتہ سن رسیدہ عورتوں کا قبرستان جانے کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب… عورتوں کے قبرستان جانے سے اکثر حضرات علماء وفقہاء کرام منع فرماتے ہیں، اس کے علاوہ بعض علماء نے عمر رسیدہ خواتین کے قبرستان جانے کی چند شرطوں کے ساتھ اجازت دی ہے ، لہٰذا اگر یہ اندیشہ ہو کہ عورتیں قبرستان جاکر بے صبری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اعزہ واقرباء کی قبروں پر چلا کر روئیں گی ، سینہ کوبی کریں گی، بال نوچیں گی ،پردہ کا خیال نہیں رکھیں گی ، بزرگوں کی قبروں کا طواف کریں گی ، سجدہ کریں گی ان پر چادریں وغیرہ چڑھاکر شرک وبدعت کی مرتکب ہوں گی تو بوڑھی عورتوں کا قبرستان جانا بھی ناجائز وحرام ہے۔

اور اگر بوڑھی خواتین قبرستان پردہ کے ساتھ جائیں اور مذکورہ مفاسد کا ارتکاب نہ کریں اور مرد وعورت کا اختلاط بھی نہ ہو تو جانے کی گنجائش ہے البتہ اس کے باوجود عورتوں کے قبرستان نہ جانے میں ہی احتیاط ہے۔

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User