علم کی حقیقی طلب کے چار بنیادی امور ۔۔۔ حذیفہ وستانوی
علم کی حقیقی طلب کے چار بنیادی امور
اخلاص وللہیت،مسلسل محنت،بلند ہمتی، ادب و احترام
حذیفہ وستانوی
اللہ کی صفات میں سے ایک صفت علم ہے، اللہ کی ذات ازلی تو اس
کی صفت بھی ازلی، اس کا کچھ حصہ اللہ نے مخلوق کو عطا کیا، اور اس میں
انسان کو برتر رکھا، بلکہ بعض حضرات کی تحقیق کے بموجب صفت علم انسان کا
خاصہ اور امتیاز ہے لہٰذا علم کو انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا، اور
علم سے انسان کو متصف کرنے کی غرض عمدہ صفات، حسن اخلاق ،اور سیرت اور
کردار میں خوبی، اور بہتری پیدا کرنا ہے ، اللہ رب العزت کی ذات،تمام صفات
حمیدہ کو جامع ہے ، اس لیے کہ اس کا علم “علم محیط” ہے، اللہ نے اپنی اس
صفت کا پرتو انسان میں اسی لیے رکھا تاکہ تخلقوا بأخلاق اللّٰہ والی حدیث
پر عمل در آمد ہو سکے، اور بندہ اپنے اندر بھی کمال پیدا کرے ،حضرت آدم
علیہ السلام کو جو برتری اور خصوصیت دی گئی اس کی وجہ بھی تو علم ہے لہٰذا
علم کا تقاضہ یہ ہے کہ جتنا علم ہو انسان اتناہی بااخلاق ہو، حضرت انبیاء
کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو اللہ نے”ٍ علم وحی” سے نوازا تو ساری انسانیت
کے لئے نمونہ ثابت ہوئے۔
حضرات صحابہ بھی جب علم الٰہی اور علم نبوی سے سرشار ہوئے تو
انکی زندگیوں میں عجیب انقلاب بر پا ہو گیا، اور وہ بھی رہتی دنیا تک
انسانوں کے لیے أسوہ بن گئے،معلوم ہوا علم دین اپنے اندر انقلابی تاثیر
رکھتا ہے مگر آج کل ہم دیکھ رہے ہیں ہمارے اہل علم حضرات بھی انتہائی نازک
حالات کے شکار ہیں تو آیئے ہم کو شش کریں کہ اس بدترین صورت حال کے اسباب و
علل کیا ہیں؟
تعلیم کی موجودہ ابتر حالات کا ذمہ دار صرف کسی ایک طبقہ کو
نہیں قرار دیا جا سکتا، بلکہ امت کا اجتماعی و انفرادی طور پر ہر طبقہ اس
کا ذمہ دار ہے، مگر زیادہ ذمہ دار طلبہ ہیں لہٰذا ہم چونکہ انہی سے مخاطب
ہے اس لیے انہی کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
(۱) اخلاص و للہیت
آگے بڑھنے سے پہلے ہم چند سوالات جو ذہن میں گردش کرتے رہتے
ہیں اس کی نشاندہی کرتے ہیں ، سب سے پہلے تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ
انحطاط علمی کا سبب کیا ہے؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ کیوں محنت نہیں
کرتے؟ پھر سوال پیدا ہوتا ہے کیوں زندگی میں علم پر عمل نہیں ؟ پھر سوال
پیدا ہوتا ہے کہ طلبہ و علماء کو کیوں آخرت کی فکر اور امت کا درد نہیں،
اور کیا ان سوالات کے جوابات ممکن ہے تو آیئے ہم اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔
ہمیں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے یہ دنیا دار
الاسباب ہے ،اور اللہ کی ذات مسبّب الاسباب ہے ،لہٰذا ہمارا یہ کہنا کہ اب
قیامت قریب آ گئی حالات ایسے بدل گئے ہیں کہ اب محنت کرکر کوئی فائدہ نہیں
اس بات کو ذہن سے نکال دینا چاہئے، اور اسباب کی طرف توجہ دینی چاہئے
کیونکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: ” إن اللّٰہ لا یضیع أجر المحسنین”
اللہ اخلاص کے ساتھ محنت کرنے والوں کی محنت ضائع نہیں کرتے، اب آپ ذرا غور
کیجئے” محسنین “کا لفظ استعمال کیا ،” مجتہدین “یا “عاملین “نہیں کہا
،یا”مخیرین” یا”ساعین” یا “شاغلین” کا لفظ استعمال نہیں کیا
،آخرایساکیوں۔اس لیے کہ یہ تمام الفاظ کسی ایک حقیقت اور معنی کی طرف اشارہ
کرتے ہیں ،جبکہ” احسان “کا لفظ انتہائی معنی خیز اور جامع و مانع ہے ،کیوں
کہ احسان کے لغوی معنی تو خوب اچھا کرنا اور خوب اچھا کرنے کے لیے جہد و
جہد، سعی عمل، شغل، سب ضروری ہے، اصطلاح ِ شرع میں” احسان” کہتے ہے اخلاص
اور للہیت کو ،اب محسنین کا معنی ہو ا خوب جدوجہد اور سعی پیہم کے ساتھ محض
اللہ کے لیے کرنے والے ۔
اب آیئے ہم اپنے طالب علمانہ کردار پر ایک نظر ڈالیں اور
فیصلہ کریں، کہ کیا واقعتاً ہم محسنین میں ؟کیا ہم محنت اور جد جہد اور سعی
پیہم میں لگے ہوئے ہیں؟ کیا ہمارے اندر اخلاص و للہیت ہے؟تو جواب نفی میں
ہو گا اولاً تو اکثر و بیشتر طلبہ میں محنت اور لگن کا جذبہ نہیں ، اور کچھ
میں ہے تو عام طور پر محنت کے ساتھ جو مطلوبہ صفات ہے وہ نہیں، یعنی اخلاص
،تواضع، ادب، حسن ا خلاق، معصیت سے دوری، وغیرہ۔
لہٰذا طلبہ عزیز سے لجاجت کے ساتھ گذارش ہے کہ اللہ کے واسطے
سستی اور غفلت کو پس پشت ڈال کر خوب لگن اور محنت سے تحصیل علم میں لگ
جائیں، تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل ہوسکے ، ساتھ تکبر سے حسد سے
کذب بیانی سے سوء اخلاق سے بے ادبی سے چاہے کتاب کی ہو ، چاہے استاذ کی ہو،
چاہے درس گاہ کی ہو، چاہے ادارہ کی اس سے مکمل اجتناب کریں۔
حاصل یہ کہ سب سے پہلے ضرورت ہے اخلاص اور للہیت کو پیدا کرنے
کی “إنما الأعمال بالنیات” جب ہم یہ نیت کریں گے کہ اللہ کی رضا کے لیے
علم حاصل کرنا ہے،تو محنت کی توفیق کے راستے من جانب اللہ کھل جائیں گے، ہم
آغاز سال میں یہ نیت کر لیں کہ “اللہ ہمارے یہاں آنے کا مقصد علم کو حاصل
کر کے اس پر عمل کرنا اور تیری ذات اقدس کو راضی کرنا ہے”۔
(۲) مسلسل محنت
عزیز طلبہ! کیا آپ نے صحابہ کے حالات پڑھے اورسنے نہیں ان پر
کوئی نگراں اور ذمہ دار نہیں مگر ان میں اخلاص تھا تو ہمیشہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں حاضر ہو کر علم حصول کی انہیں توفیق ہوتی تھی،
کیا آپ نے اصحاب صفہ کے حالات نہیں پڑھے، بھوکے ہوتے کپڑے نہ ہوتے مگر
برابر محنت میں لگے رہتے، حضرت ابوہریرہ بھی انہیں میں سے ایک تھے، اللہ نے
انہیں کیسا چمکایا،حضرات تابعین کی زندگیوں کا مطالعہ کیجئے اس زمانہ میں
نہ کوئی درس گاہ ہوتی تھی نہ کوئی کمرہ نہ کوئی ہاسٹل اور رہائش گاہ نہ
لائٹ نہ کھانے پینے کا انتظام ، نہ کوئی زور زبردستی وہ تو اپنا سب کچھ لگا
کر اخلاص کے ساتھ تن من دھن کی بازی لگا دیتے تھے، انہیں کے مجاہدات کی
برکت سے آج علوم اسلامیہ صفحات کتب کی صورت میں موجود ہے، اگر وہ ہم لوگوں
کی طرح راحت پسند اور عیش پرست ہوتے ، یقیناً آج ہمارے پاس علمی ذخائر نہ
ہوتے نہ کتابیں ہوتیں اور نہ یہ مدارس ہوتے، دنیا کی تاریخ میں علماء اسلام
نے جتنا لکھنے پڑھنے کا کام کیا ، یقیناً کسی نے نہیں کیا، جیسا شیخ عبد
الفتاح ابو غدہ نے اس پر مستقل ایک تحریر کی ہے، “العلماء العذاب الذین
آثروالعلم الزواج” یعنی وہ علماء جو علم کے خاطر شادی سے کنارہ کش رہے، جن
میں مشہور یہ ہیں:
(۱) ہناد بن سری کوفی محدث تھے، (۲) ابوجعفر محمد ابن جریر
طبری مفسر محدث اور مورخ تھے بے شمار ضخیم کتابیں تصنیف فرمائی،(۳)ابوبکر
ابن الانبادی نحوی اور مفسر تھے، (۴) ابو علی الفارسی جلیل القدر امام
النحو تھے ، (۵)ابوبکر الاندلسی محدث تھے،(۶)محمود ابن عمر زمخشری مفسر
تھے، (۷)محی الدین زکریا النووی فقیہ محدث تھے مسلم شریف کے مشہور شارح اور
بے شمار کتابوں کے مصنف تھے، (۸)ابوالحسن ابن النفس دمشقی، (۹)ابن تیمیہ
حرانی محدث فقیہ مفسر اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے، (۱۰)عز الدین محمد
ابن جماعۃ مصری فقیہ اور اصولی تھے،(۱۱)محمد ابن طولون مشہور مؤرخ گذرے
ہیں،(۱۲)سیلمان ابن عمر الجمل جلالین کے مشہور شارح، (۱۳) ابوالمعالی محمود
شکری الوسی بہت بڑے ادیب تھے،(۱۴)ابوالوفاء ا لافغانی ہندی فقیہ اور محدث
تھے ، وغیرہ بے شمار ایسے علماء گذرے ہیں اللہ امت مسلمہ کی جانب سے انہیں
بہترین بدلہ عطا فرمائے۔
ان لوگوں نے اپنا مال اپنا وقت اپنی خواہشات سب کچھ علم دین
کے لیے قربان کر دیا، تو آج اللہ نے یہ مقام دنیا ہی میں عطا کیا صدیاں گذر
جانے کے باوجود آج بھی جب ان کا تذکرہ ہوتا ہے تومسلم عقیدت سے رحمۃ اللہ
علیہ کہتا ہے۔
ہمارے متقدمین و متاخرین علماء نے اتنی جدوجہد اور محنت کی
کہ شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کو اپنی بے مثال تالیف “صَفَحَاتٌ مِنْ صَبْرِ
العُلَمَاءِ عَلٰی شَدَائِدِ العِلْمِ وَتَحْصِلِہِ” کے مقدمہ میں لکھنا
پڑا۔
“اگر تم ہمارے علماء کے احوال کا تتبع اور مطالعہ کرو گے تو
اندازہ ہوگا وہ کیا تھے؟ اور اپنوں نے کیا کیا؟ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے
محض علم کے خاطر لمبے لمبے اسفار کئے بھوک اور پیاس پر صبر کیا راتوں کو
سونا چھوڑ دیا اپنے آپ کو خوب مشقت میں ڈالا یہاں تک کہ تاریخ ان کی
قربانیوں کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے میں اپنی کتاب میں اس کا احاطہ، اور
استیعاب کرنا نہیں چاہتا ہوں، بلکہ نمونے کے طور مشت از خروارے کے ہر پہلو
سے متعلق چند واقعات بیان کروں گا، کیوں کہ ان کی قربانیاں اتنی ہے کہ اس
کو یکجا کرنا دشوار ہے، علم کے خاطر صبر آزمانی کے ایسے حیرت انگیز واقعات
ہے کہ انسان کا ذہن اسے قبول کرنے کے لیے بھی تیار نہ ہو مگر حقیقت یہ ہے
کہ یہ تمام واقعات سو فیصدی صحیح ہے ، کیوں کہ سندوں کے ساتھ معتبر کتابوں
میں منقول ہے ، اگر آپ کو وہ سمجھ میں نہ آئے تونہ آئے ، بعض حیرت انگیز
عجائبات میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں آپ کی عقل اس کو تسلیم کرنے کے لئے
بالکل تیار نہیں ہوگی ، مگر اتنی مستند اور صحیح روایات اور معتبر لوگوں سے
مروی ہے کہ آپ کو صحیح ماننا ہی پڑے گا، مثلاً محدث عظیم إمام ابوداؤد
سلیمان بن الاشعث السجستانی اپنی کتاب “سنن أبی داؤد” کے باب “صدقۃ الزرع”
میں خود اپنا مشاہدہ نقل کرتے ہے کہ میں نے مصر کے سفر کے دوران ایک ککڑی
دیکھی جس کی لمبائی تیرہ بالشت تھی، اور ایک اتنا بڑا نارنگی دیکھا کہ اس
کو کاٹ کر اونٹ پر اس طورپر لادا گیا تھا کہ ایک حصہ اونٹ کی کوہان کی
داہنی جانب اوردوسرا بائیں جانب کیا کوئی اس کی تصدیق کرسکتا ہے؟ مگر ایک
ایسے محدث اس کو بیان فرما رہے ہیں جن کی صداقت پر امت کا اجماع ہے لہٰذا
عجوبہ سمجھ کر ماننا پڑے گا۔
ایسا واقعہ محمد بن رافع نے ذکر کیا ہے جو امام بخاری، مسلم،
ابوداؤد، ترمذی،نسائی، ابو زرعہ، تمام کبار محدثین کے استاذ اور شیخ ہیں کہ
میں نے انگور کا ایک گچھا دیکھا جو ایک خچر کے برابر تھا۔
اسی طرح کے دسیوں عجائبات کو شیخ نے اپنی کتاب کے مقدمہ میں
ذکر کیا اور پھر کہا کہ جس طرح ان واقعات کے حیرت انگیز ہو نے کے باوجود آپ
کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ صحیح ہے ، بس بالکل اسی طرح ہمارے اسلاف کے علم
کے خاطر صبر آزمائی کے حیرت انگیز واقعات کو بھی آپ کو تسلیم کرنا ہوگا۔
طلب علم کیے لیے اسلاف کی قربانیاں
اسلام نے انسان کو پہلا درس ہی علم کا دیا ، اللہ نے آدم علیہ
السلام کو علم عطا کیا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی پہلی
وحی علم سے متعلق نازل کی گئی، اس کا اثر یہ ہوا کہ اس امت کے افراد نے
اپنے آپ کو علم کے لیے کھپادیا، شیخ عبد الفتاح ابوغدہ فرماتے ہیں: ہمارے
علماء اسلاف میں اکثر و بیشتر فقر و فاقہ کے شکار تھے ، مگر ان کا فقر
تحصیل علم کے لیے کبھی رکاوٹ نہ بنا، اور انہوں نے کبھی کسی کے سامنے اپنی
محتاجی کو ظاہر بھی نہیں کیا۔
انہوں نے علم کی خاطر نہایت جاں گسل اور ہولناک مصائب و آلام
جھیلے اور ایسے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان کی طاقت اور برداشت کے
سامنے خود “صبر” بے چین اور بے قرار ہو گیا۔
اسی کے ساتھ وہ اپنی دل کی گہرائیوں کے ساتھ خدا کی خوشنودی
حاصل کرنے اور حمد و ثنا میں مصروف رہتے ، ہر وقت شکر گذاری ا ن کا امتیازی
وصف تھا، ان کی قربانیوں نے انہیں دنیا میں بھی سرخ رو کیا ،اور قیامت تک
آنے والے طالبان علوم کے لئے بہترین نمونہ بتا دیا، سب کچھ انہوں نے صرف
اور صرف کتاب وسنت کی خدمت اور اللہ کی رضاء کے لئے کیا ۔
ان کی قربانیوں سے یہ بات عیاں ہو کر سامنے آتی ہے کہ اسلامی
علوم کی تدوین و تالیف پر فضا و شاداب مقامات نہروں کے کناروں اور سایہ
دار درختوں کے چھاؤں میں بیٹھ کر نہیں ہوئی، بلکہ یہ کام خون جگر کی قربانی
دے کر ہوا ہے، اس کے لیے سخت گرمیوں میں پیاس کی ناقابل برداشت تکالیف
اٹھانی پڑی، اور رات رات بھر ٹمٹماتے چراغ کے سامنے جاگنا پڑا، بلکہ طلب
علم کی راہ میں جان عزیز کے قربان کو بھی انہوں کوئی بڑا کام تصور نہ
کیا،آیئے اب میں انکی جدوجہد اور قربانیوں کے چند نمونہ آپ کے سامنے پیش کر
رہا ہوں تاکہ ہمیں بھی ان کی راہ پر چلنے کا شوق پیدا ہو۔
(۱) حضرت عبداللہ بن عباس جو ترجمان القرآن کے نام سے جانے
جاتے ہیں وہ ایسے ہی قرآن کے عظیم مفسر نہیں بن گئے بلکہ خوب محنت اور
جدوجہد کی وہ خود فرماتے ہیں:
“حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ میں صحابہ کرام سے
پوچھنے اور احادیث معلوم کرنے میں لگ گیا، مجھے(کبھی) پتہ لگتا کہ فلاں
صحابی کے پاس حدیث موجود ہے تو میں ان کے مکان پر پہونچتا، وہاں آ کر معلوم
ہوتا کہ وہ آرام کر رہے ہیں، تو میں اپنی چادر ان کے دروازہ کے سامنے بجھا
کر لیٹ جاتا، دوپہر کی گرمی میں ہوا چلتی تو تمام گرد و غبار میرے اوپر
آتا۔
جب صاحب خانہ باہر آ کر مجھے دیکھتے تو حیرت زدہ ہو کر
استفسار کرتے عم زادۂ رسول! (حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی) کیسے
آنا ہوا؟ اور آپ نے یہ زحمت کیوں فرمائی، کسی کو بھیج کر مجھے کیوں نہ
بلوا لیا؟ میں کہتا: نہیں جناب! مجھے ہی آنا چاہئے تھا، پھر میں ان سے حدیث
معلوم کرتا۔(صبر واستقامت ، ص:۵۰)
عبد الرحمن بن قاسم
(۲) عبد الرحمن بن قاسم جو امام مالک کے ممتاز شاگرد تھے وہ کیسے اتنے بڑے فقیہ اور محدث ہوئے۔
قاضی عیاض نے “ترتیب المدارک” میں عبدالرحمن بن قاسم عُتقی
(متوفی ۱۹۱ ھ)کے حالات میں لکھا ہے (یاد رہے موصوف کا شمار امام مالک رحمۃ
اللہ علیہ اور لیث رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے مایۂ ناز شاگردوں میں ہوتا ہے)۔
“ابن قاسم کہتے تھے: میں امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے پاس،
آخر شب کی تاریکی میں پہونچتا، اور کبھی دو، کبھی تین یا چار مسئلے دریافت
کرتا اس وقت امام محترم کی طبیعت میں کافی انشراح محسوس ہوتا، ایک دفعہ ان
کی چوکھٹ پر سر رکھے سوگیا، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نماز کے لئے مسجد
تشریف لے گیے، لیکن مجھے نیند کے غلبہ میں کچھ بھی پتہ نہ چل سکا، آنکھ اس
وقت کھلی جب ان کی ایک کالی کلوٹی باندی نے میرے ٹھوکر مارکر یہ کہا: تیرے
آقا چلے گئے، وہ تیری طرح غافل نہیں رہتے، آ ج ۴۹ سال ہونے کو آئے، انہوں
نے فجر کی نماز کبھی کبھار کے علاوہ ہمیشہ عشاء ہی کے وضو سے پڑھی ہے۔(اس
کلوٹی نے آپ کو امام صاحب کے پاس اکثر آتے جاتے دیکھ کر ان کا غلام سمجھا)۔
امام مالک کے پاس ۱۷/ سالہ قیام
ابن قاسم کہتے ہیں:میں امام مالک کے پاس مسلسل سترہ سال رہا،
لیکن اس مدت میں نہ کچھ بیچا اور نہ کچھ خریدا۔ (ذرا ہمارے وہ طلبہ غور
کریں جو اکثر و بیشتر بازاروں کے چکر کاٹتے رہتے ہیں، کہ سترہ سال میں کبھی
خرید و فروخت نہیں کیا)۔
باپ اور بیٹے کی ملاقات
وہ کہتے ہیں: ایک روز میں آپ کے پاس بیٹھا تھا، اچانک ایک
نقاب پوش نوجوان جو مصر سے حج کرنے کے لیے آیا تھا، مجلس میں پہونچا، اور
امام مالک کو سلام کر کے پوچھا، کیا آپ یہاں ابن قاسم موجود ہیں؟ لوگوں نے
میری طرف اشارہ کیا، وہ آیا اور اسنے میری پیشانی کا بوسہ لیا، میں نے اس
میں ایک نہایت عمدہ خوشبو محسو س کی،(جس کا بیان لفظوں میں کرنا مشکل ہے)
در حقیقت وہ میرا بیٹا تھا، اور یہ خوشبواسی سے آ رہی تھی، میں جس وقت گھر
سے چلا تو رحم مادر میں تھا، میں اس کی ماں سے جو میری بیوی ہونے کے ساتھ
ساتھ چچیری بہن بھی ہوتی تھی، یہ کہہ کر آیا تھا کہ لمبی مدت کے لیے جا رہا
ہوں واپسی کا کچھ پتہ نہیں کہ کب ہو، اس لیے تمہیں اختیار ہے چاہے میری ہی
نکاح میں رہنا چاہے آزاد ہو کر دوسری جگہ چلی جانا ․․․․․․․․ لیکن اس اللہ
کی بندی نے آزاد ہونے کے بجائے، میرے ہی نکاح میں رہنے کو اختیار کیا۔(صبر
واستقامت کے پیکر، ص:۵۱ تا ۵۲)
محمد بن طاہر مقدسی
(۳) محمد بن طاہر مقدسی کے بارے میں آتا ہے کہ طلب حدیث کے
خاطر سخت گرمی اور چلچلاتی دھوپ میں لمبی لمبی مسافت طے کرنے کی وجہ سے
بارہا خون کا پیشاب ہو گیا۔(وفیات الاعیان)
(۴) ابو نصر سنجری کا مخلصانہ طلب علم کا دور
حافظ ذہبی “تذکرۃ الحفاظ” میں ابو نصر سنجری کے بارے میں
فرماتے ہیں “عبد اللہ بن سعید بن حاتم، ابو نصر سنجری(متوفی ۴۴۴ھ) فن حدیث
میں “حافظ” کے مرتبہ پر پہونچے ہوئے ہیں، (یہی نہیں بلکہ) آپ اپنے دور میں
حدیث پاک کے سب سے بڑے حافظ،امام وقت اور مینارۂ سنت کی حیثیت رکھتے تھے،
موصوف حدیث کی طلب میں زمین کے اس کنارہ سے اس کنارہ تک چکر لگا کر آئے
ہیں”۔
ایک عورت کی پیشکش
ابو اسحاق حبال کہتے ہیں: “میں ایک روز ابو نصر سنجری کے پاس
بیٹھا ہوا تھا، کسی نے دروازہ کھٹکھٹا یا، میں نے اٹھ کر اسے کھول دیا، اب
میں نے دیکھا کہ ایک عورت مکان میں داخل ہوئی اور اس نے آ کر ایک تھیلی
نکالی جس میں ایک ہزار دینار تھے، اور اسے شیخ کے سامنے رکھ کر بولی: ”
انہیں جس طرح آپ کا دل چاہے خرچ فرمائیں۔ شیخ نے پوچھا آخر مقصد کیا ہے، اس
نے کہا “میں یہ چاہتی ہوں کہ آپ مجھ سے نکاح کر لیں ،اگرچہ مجھے شادی بیاہ
کی کوئی خواہش نہیں،لیکن اس طرح میں آپ کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔
آپ نے کہا: “تھیلی اٹھا کر یہاں سے چلی جاؤ”․․․․․․․․․ جب وہ
چلی گئی تو انھوں نے مجھ سے کہا: “میں اپنے ملک سجستان سے صرف حصول علم کی
نیت سے نکلا ہوں،اب اگر میں اس سفر میں شادی بیاہ کے جھمیلے میں پڑوں تو
پھر میں “طالب علم” کہاں رہو گا․․․․؟ اللہ نے طلب علم پر جو اجر و ثواب
رکھا ہے اس پر میں کسی بھی چیز کو ترجیح نہیں دینا چاہتا۔(صبر واستقامت کے
پیکر،ص:۴۴)
حافظ ابن مندہ
(۵)حافظ ابن مندہ اپنے وطن عزیز سے بیس سال کی عمر میں طلب
علم کے لیے نکلے اور مسلسل ۴۵/ سال تک سفر کرتے رہے، اور علم حاصل کرتے رہے
،۶۵/ سال کی عمر میں اپنے وطن واپس ہوئے، جب گھر سے نکلے تو چہرہ پر ایک
بال نہ تھا، اور جب لوٹے تو داڑھی کے بال سفید ہو چکے تھے، مگر اتنے عرصے
میں کتنا علم حاصل کیا ، تو جعفر مستغفری فرماتے ہیں کہ میں نے حافظ ابو
عبد محمد بن اسحق ابن مندہ سے، ایک مرتبہ پوچھا کہ آپ نے کتنا علم حاصل کیا
، تو کہا پانچ ہزار من وزن کے برابر، اللہ اکبر۔(تذکرہ الحفاظ)۔
امام شعبی عامر بن شراحیل کوفی ہمدانی بڑے پائے کے محدث گذرے
ہیں ان سے کسی نے پوچھا کہ آپ کو اتنا علم کیسے حاصل ہوا،تو فرمایا چار
باتوں کے التزام کی وجہ سے(۱) کبھی کسی کتاب یا کاپی کے بھروسہ پر نہ رہا
یعنی جو سنا سب یاد کر لیا۔ (۲) طلب علم کے لئے دربہ در سفر کرتا رہا۔ (۳)
جمادات کی طرح صبر کرتا رہا یعنی جمادات کو پانی دو یا نہ دو کھاد دو یا نہ
دو خاموش رہتا ہے، میں بھی بھوک اور پیاس پر صبر کرتا رہا،(۴) کوّے کی
مانند صبح سویرے اٹھتا رہا یعنی بہت کم سوتا رہا تب جا کر اتنا علم حاصل
ہوا۔(تذکرۃ الحفاظ)
(۳)بلند ہمتی
میرے عزیز طالب علم ساتھیوں: یہ تھا ہمارے اسلاف کا بے مثال
مجاہدہ معلوم ہوا علم دین کے حصول کے لیے مسلسل جدوجہد اور محنت اور بلند
ہمتی ضروری ہے، علامہ زرنوجی فرماتے ہیں کہ اگر” محنت خوب” ہو اور “بلند
ہمتی “نہ ہو تو بھی علم زیادہ حاصل نہیں ہوتا، اور” ہمت” تو ہو مگر”محنت”
نہ ہو تو بھی علم حاصل نہیں ہوتا، آج ہمارے طلبہ میں یہ ہی بیماری کسی میں
“محنت” کا جذبہ نہیں اور اگر” محنت” کا جذبہ ہے تو” بلند ہمتی” نہیں، یعنی
کسی بھی کتاب کو جب کچھ محنت کے بعد سمجھ میں نہ آئے تو مشکل سمجھ کر نا
امید ہو جاتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے، جیسا کہ ابھی آپ نے ہمارے اسلاف کی
محنت اور جد و جہد پر چند حیرت کن حالات پڑھے، ان کی بلند ہمت کے بھی دو
تین نمونے پیش خدمت ہیں۔
امام ابن القیم فرماتے ہیں: کہ مجھے تعجب ہے طلبہ پر ا س لیے
کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ہر قیمتی چیز کو حاصل کرنے کے لیے بلند ہمتی وجد و جہد
در کار ہوتی ہے ،مگر علم کے بارے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ا یسے ہی حاصل ہو
جائے، تو یہ کیسے ممکن ہے جبکہ علم دین تو دنیا کی چیزوں میں سب سے زیادہ
قیمتی ہے، تو ذرا غور کیجئے اس کے لیے کتنی ہمت اور محنت درکار ہوگی، مسلسل
محنت مسلسل تکرار راحتوں اور لذتوں کو چھوڑنے سے علم حاصل ہوتا ہے۔
ایک فقیہ فرماتے ہیں: میں ایک مدت تک ہر یسہ(عربوں کا ایک
لذیذ کھانا) کھانے کی تمنا کرتا رہا مگر کبھی نہ کھا سکا، اس لیے کہ ہریسہ
اس وقت بازار میں فروخت ہوتا تھا، جب درس کا وقت ہوتا تھا، میں نے کبھی بھی
درس چھوڑنے کو پسند نہیں کیا۔
ابن کثیر فرماتے ہیں جسم کی راحت کے ساتھ علم حاصل ہوہی نہیں سکتا۔
امام مزنی فرماتے ہیں کہ کسی نے امام شافعی سے دریافت کیا ،
آپ کے حصول علم خواہش کیسی ہے؟ تو فرمایا جب میں کوئی نیا علمی نقطہ یا نئی
علمی بات سنتا ہوں تو مجھے اتنی خوشی ہوتی اور لذت ہوتی ہے کہ میرے خواہش
ہوتی ہے کہ میرے بدن کے ہر عضو کو قوۃ سماعت ہو اور وہ بھی لذت محسوس کرے۔
پھر کسی نے پوچھا آپ علم پر کتنی حرص رکھتے ہیں جس قدر ایک مال و دولت کو جمع کرنے والا مال کو حاصل کرنے کے کی حرص رکھتا ہے۔
پھر پوچھا کہ آپ کے علم کی طلب کی کیفیت کیا ہے تو کہا جیسے
اس ماں کی جو اپنے گمشدہ بچے کی تلاش میں ہوتی ہے اور اسے اس کے علاوہ کسی
چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔
امام ثعلبہ فرماتے ہیں کہ میں علم کے خاطر ابراہیم حربی کے پاس پچاس سال مسلسل قیام کیے رہا۔
امام النحوخلیل فراہیدی فرماتے ہیں کہ مجھے سب سے زیادہ شاق
وہ وقت لگتا ہے جب میں کھا رہا ہوتا ہوں کیوں کہ اس وقت کوئی علمی فائدہ
نہیں ہوتا۔
عمار ابن رجا فرماتے ہیں کہ تیس سال تک میں اپنے ہاتھ سے
کھانا نہ کھا سکا میں حدیث لکھتا تھا اور میری بہن میرے منہ میں لقمے دیتی
تھی۔
بقی ابن مخلد کا حیرت انگیز واقعہ
یہ واقعہ ایک ایسے علم کے شیدائی کا ہے جس نے مغرب بعید سے
مشرق تک کئی ہزار میل کا پیدل سفر محض اس لئے طے کیا کہ وہاں کے مسلمانوں
کے ایک زبردست امام اور عالم جلیل کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے دامن کو
“علم حدیث” کی دولت سے بھرے لیکن جب وہ علم کا جویا وہاں پہونچا تو معلوم
ہوا کہ جس کی خاطر اس نے یہ طویل و عریض سفر پیدل چل کر کیا ہے، وہ ایک سخت
آزمائش میں مبتلاء ہے، اور درس وتدریس اور لوگوں سے ملنے جلنے پر حکومت کی
جانب سے کڑی پابندی عائد ہے، مگر وہ بھی علم کا متوالا اور طالب حقیقی
تھا، اس نے حصول علم کے لئے ایک ایسی راہ اختیار کی جس کا تصور بھی ہر کس
وناکس کے لیے مشکل ۔
بقی بن مخلد کا پیادہ پا سفر بغداد
علمی دنیا کی قابل قدر تصنیف “منہج احمد فی تراجم اصحاب امام احمد” میں امام بقی بن مخلد اندلسی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
“حافظ حدیث ابو عبد الرحمن بقی بن مخلد اندلسی،۲۰۱ ھ میں پیدا
ہوئے، آپ نے اندلس سے بغداد تک سفر پیدل چل کر طے کیا ،مقصد امام احمد بن
حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر علم حدیث حاصل کرنا تھا۔
وحشت ناک خبر
خود موصوف سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا:
“جب میں بغداد کے قریب پہونچا اس آزمائش اور امتحان کی خبر
ملی جس سے ان دنوں امام احمد بن حنبل دو چار تھے، یہ بھی معلوم ہوا کہ ان
ملنے اور حدیث سننے کی سرکاری طور پر پابندی ہے، یہ سننا تھا کہ رنج و ملال
کا پہاڑ میرے اوپر ٹوٹ پڑا، میں وہیں رک گیا، اور سامان ایک سرائے کے کمرے
میں رکھ کر بغداد کی عظیم الشان جامع مسجد پہونچا، میں چاہتا تھا کہ لوگوں
کے پاس جا کر دیکھوں کہ وہ آپس میں امام موصوف کے بارے میں کیا کیا تبصرے
کر رہے ہیں؟ اور ان میں کیا کیا چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں؟؟۔
ایک مہذب حلقہ
اتفاق سے وہاں بہت ہی عمدہ اور مہذب حلقہ لگا ہوا تھا، اور
ایک شخص راویان حدیث کے حالات بیان کر رہا تھا، وہ بعض کو ضعیف اور بعض کو
قوی قرار دیتا، میں نے اپنے پاس والے آدمی سے پوچھا: یہ کون صاحب ہیں؟ اس
نے کہا: یحی بن معین! مجھے آپ کے قریب تھوڑی سی خالی جگہ نظر آئی، میں وہاں
جا کر کھڑا ہو گیا اور عرض کیا: شیخ ابو زکریا! میں ایک پردیسی آدمی ہوں
جس کا وطن یہاں سے بہت دور رہے، میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، آپ میری
خستہ حالی کی بنا پر مجھے جواب سے محروم نہ فرمائیں انہوں نے کہا: پوچھو
کیا پوچھنا ہے؟
چند سوالات
میں نے چند ایسے محدثین کے بارے میں دریافت کیا جن سے میر ی
ملاقات ہو چکی تھی، انہوں نے بعض کو صحیح اور بعض کو مجروح بتایا، آخر میں
ہشام بن عمار کے متعلق پوچھا موصوف کے پاس میری حاضری بار ہا ہوئی ہے، اور
ان سے حدیث کا ایک بڑا حصہ حاصل کیا ہے، آپ نے موصوف کا نام سن کر فرمایا:
ابو الولید ہشام بن عمار، دمشق کے رہنے والے، بہت بڑے نمازی، ثقہ بلکہ اس
سے بڑھ کر ہیں۔
میرا اتنا پوچھنا تھا کہ حلقہ والے چیخ پڑے “جناب بس کیجئے
دوسروں کو بھی پوچھنا ہے” میں نے کھڑے کھڑے عرض کیا “میں آپ سے احمد بن
حنبل کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں “یہ سن کر یحی بن معین نے بڑے حیرت سے
مجھے دیکھا اور کہا: ہم جیسے احمد ابن حنبل کے بارے میں تنقید کریں گے؟ وہ
مسلمانوں کے امام، ان کے مسلمہ عالم اور صاحب فضل و کمال، نیز ان میں سب سے
بہتر شخص ہیں”۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے مکان پر
اس کے بعد میں و ہاں سے چلا آیا، اور پوچھتے پوچھتے امام احمد
بن حنبل کے مکان پر پہونچ گیا، میں نے دروازہ کی کنڈی کھٹکھٹائی، آپ تشریف
لائے اور دروازہ کھول دیا، انہوں نے مجھ پر نظر ڈالی ،ظاہر ہے میں ان
کیلئے ایک اجنبی تھا، اس لئے میں نے کہا:حضرت والا! میں ایک پردیسی آدمی
ہوں، اس شہر میں پہلی باز آنا ہوا ہے طالب حدیث ہوں،اور یہ سفر محض آپ کی
خدمت میں حاضری کی وجہ سے ہوا ہے!! انہوں نے فرمایا:”اندر آ جاؤ، کہیں
تمہیں کوئی دیکھ نہ لے”۔
سوال و جواب
جب میں اندر آ گیا تو انہوں نے پوچھا : تم کہاں کے رہنے والے
ہوں؟ میں نے کہا مغرب بعید!! انہوں نے کہا: افریقہ؟ میں نے کہا: اس سے بھی
دور ہمیں اپنے ملک سے افریقہ تک جانے کے لیے سمندر پار کرنا پڑتا ہے․․․․․
میں ا ندلس کا رہنے والا ہوں!! انہوں نے کہا: واقعی تمہارا وطن بہت دور ہے،
تمہارے جیسے شخص کے مقصد کو پورا کرنا اور اس پر ہر ممکن تعاون کرنا مجھے
سب سے زیادہ محبوب ہے، لیکن کیا کروں، اس وقت آزمائش میں گرفتار ہوں، شاید
تمہیں اس کے بارے میں معلوم ہو گیا ہو!! اس نے کہا جی ہاں، مجھے اس واقعہ
کی اطلاع راستہ میں شہر کے قریب پہونچنے پر ہوئی۔
میں بھکاری بن کر آ جایا کروں گا!
میں نے عرض کیا: ابو عبد اللہ! میں پہلی بار اس شہر میں آیا
ہوں، مجھے یہاں کو ئی نہیں جانتا، اگر آپ اجازت دیں تو میں روزانہ آپ کے
پاس فقیر کے بھیس میں آ جایا کروں گا، اور دروازے پر و یسی ہی صدا لگا یا
کروں گا جیسی وہ لگاتے ہیں، آپ یہاں تشریف لے آیا کریں، اگر آپ نے روزانہ
ایک حدیث بھی سنادی تو وہ میرے لیے کافی ہے، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے، لیکن
شرط یہ ہے کہ تم لوگوں کے پاس آمد و رفت نہیں رکھو گے، اور نہ محدثین کے
حلقوں میں جاؤ گے، میں نے کہا: آپ کی شرط منظور ہے۔
میرا معمول
الغرض میں روزانہ اپنے ہاتھ میں ایک لکڑی لیتا ، سر پر
بھیکاریوں کا سا کپڑا باندھتا، اور کاغذ دوات، آستین کے اندر رکھ کر آپ کے
دروازے پر جا کر صدا دیتا “خدا بہت سادے بابا!!! وہاں مانگنے کے یہی دستور
تھا․․․․․ آپ تشریف لاتے اور جب میں اندر ہو جاتا دروازہ بند کر کے کبھی
دو،کبھی تین یا اس سے زیادہ حدیثیں بیان فرماتے۔ (صبر و استقامت کے
پیکر،ص:۱۸۱تا۱۸۵)
طلبہ عزیز! ذار دیکھو تو سہی بقی ابن مخلد کی بلند حوصلگی
اور علو ہمت کو، کہ ہزاروں میل کا پیادہ سفر کیا اور بھیکاری کے بھیس میں
۱۳/سال تک حدیث حاصل کی اسی بلند ہمتی نے انہیں ہمیشہ ہمیش کے لیے ذکر خیر
سے یاد کرنے کے لیے بعد والوں کو مجبور کر دیا ہے، اللہ تو ہمارے اسلاف کو
امت کی جانب سے بہتر بدلہ اور صلہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر
چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(۴)ادب
مسلسل محنت کے ساتھ بلند ہمتی اور اس کے ساتھ استاذ، کتاب،
اور آلات علم کا ادب، بھی انتہائی ضروری ہے جیسا کہ امام طبرانی نے روایت
نقل کی،”وتواضعو لمن تعلمون منہ”۔
“جس سے علم سکھو اس کے ساتھ ادب اور تواضع سے پیش آوے”۔
حضرت تھانوی فرماتے ہیں جس قدر استاذ سے محبت ہو گی اور
جتنااستاذ کا ادب و احترام ہوگا اسی قدر علم میں برکت ہوگی، یہ عادۃ اللہ
ہے کہ استاذ راضی نہ ہو تو علم نہیں آسکتا۔ (اصلاح انقلاب امت)
حضرت تھانوی نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ استاذ کا ا دب تقوی
میں داخل ہے، جو اس میں کو تاہی کرے گا، وہ متقی نہیں ہو گا، حالاں کہ تقوی
کی زیادتی علم میں زیادتی کاسبب ہے۔ (التبلیغ)
اساتذہ کرام کے آداب
(۱) طالب علم کے لیے ضروری ہے کہ اپنے استاذوں کا غایت احترام
کرے، مغیرہ کہتے ہیں کہ ہم استاذ سے ایسا ڈرتے تھے جیسے لوگ بادشاہ سے ڈرا
کرتے ہیں، حدیث پاک میں بھی یہ حکم ہے کہ جن سے علم حاصل کرو ان سے تواضع
سے پیش آؤ۔
(۲) اپنے شیخ کوسب سے فائق سمجھے، حضرت امام ابو یوسف رحمہ
اللہ کا مقولہ ہے کہ جو اپنے استاذ کا حق نہیں سمجھتا وہ کبھی کامیاب نہیں
ہوتا۔
(۳) استاذ کی رضاء کا ہر وقت خیال رکھے، اس کی ناراضگی سے پرہیز کرے، اتنی دیر اس کے پاس بیٹھے بھی نہیں، جس سے اس کو گراں ہو۔
(۴) استاذ سے اپنے مشاغل میں اور جو پڑھنا ہے اس کے بارے میں خاص طور سے مشورہ کرتا رہے۔
(۵) اس سے نہایت احتراز کرنا چاہئے کہ شرم اور کبر کی وجہ سے
اپنے ہم عمر یا اپنے سے عمر میں چھوٹے سے علم حاصل کرنے میں پس و پیش کرے،
حضرت اصمعی کہتے ہیں کہ جو علم حاصل کرنے کی ذلت نہیں برداشت کرے گا وہ عمر
بھر جہل کی ذلت برداشت کرے گا۔
(۶) یہ بھی ضروری ہے کہ استاذ کی ستخی کا تحمل برداشت کرے(یہ نہایت اختصار سے مقدمہ “اوجز المسالک” سے چند اصول نقل کیے گیے ہیں)۔
(۷) اور یہ تو نہایت مشہور مقولہ اور نہایت مجرب ہے کہ استاذ
کی بے حرمتی سے علم کی برکات سے ہمیشہ محروم رہتا ہے․․․الخ۔(آپ بیتی:۲/۴۶)
(۸)اور عادت اللہ ہمیشہ یہی رہی ہے کہ اساتذہ کا احترام نہ
کرنے والا کبھی بھی علم سے منتفع نہیں ہو سکتا، جہاں کہیں ائمہ فن طالب علم
کے اصول لکھتے ہیں اس چیز کو نہایت اہتمام سے ذکر فرماتے ہیں، اور محدثین
نے تو مستقل طور پر آداب طالب کا باب ذکر کیا ہے جو “اوجز المسالک” کے
مقدمہ میں مفصل مذکور ہے اس میں اس چیز کو خاص طور سے ذکر کیا ہے۔امام
غزالی رحمہ اللہ نے بھی “احیاء العلوم” میں اس پر مفصل بحث فرمائی ہے، وہ
لکھتے ہیں کہ طالب علم کے لئے ضروری ہے کہ استاذ کے ہاتھ میں کلیتہً اپنی
باگ دے دیں، اور بالکل اسی طرح انقیاد کرے جیسا کہ بیمار مشفق طبیب کے
سامنے ہوتا ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد کہ جس نے مجھے ایک حرف بھی
پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں چاہئے وہ مجھے فروخت کر دے یا غلام بنا
دے۔(ص:۶۰)
(۹) میرا تو تجربہ یہاں تک ہے کہ انگریزی طلبہ میں بھی جو لوگ
طالب علمی میں اساتذہ کی مار کھاتے ہیں وہ کافی ترقیاں حاصل کرتے ہیں،
اونچے اونچے عہدوں پر پہنچتے ہیں، جس کی غرض سے وہ علم حاصل کیا تھا وہ نفع
پورے طور پر حاصل ہوتا ہے ،اور جو اس زمانہ میں استاذوں کے ساتھ نخوت و
تکبر سے رہتے ہیں، وہ بعد میں ڈگریاں لئے ہوئے سفارشیں کراتے ہیں ، کہیں
اگر ملازمت مل بھی جاتی ہے تو آئے دن اس پر آفات ہی رہتی ہیں، بہرحال جو
علم ہو ا س کا کمال اس وقت تک ہو تا ہی نہیں اور اس کانفع حاصل ہی نہیں
ہوتا جب تک کہ اس فن کے اساتذہ کا ادب نہ کرے، چہ جائے کہ ان سے مخالفت
کرے۔(ص:۶۱)
(۱۰) کتاب “ادب الدنیا و الدین” میں لکھا ہے کہ طالب علم کے
لیے استاذ کی خوشامد اور اس کے سامنے تذلل(ذلیل بننا)ضروری ہے، اگر ان
دونوں چیزوں کو اختیار کرے گا تو نفع کمائے گا اور دونوں کو چھوڑ دے گا تو
محروم رہے گا۔
ارشاد فرمایا: “قوت حافظہ کے جہاں اور بہت سے اسباب ہیں، ان
میں اہم سبب اپنے اساتذہ کے لیے دعا کرنا بھی ہے جتنا بھی اس کا اہتمام کیا
جائے گا قوت حافظہ میں اسی قدر اضافہ ہوتا رہے گا۔(ص:۶۶)
دارالعلوم کے ایک فاضل مہمان نے زیادہ حافظہ کے وظیفہ کی درخواست کی تو ارشاد فرمایا:
“آپ حضرات کو جو اپنی مادر علمی اور اساتذہ سے گہرا ربط اور
تعلق ہے یہ بھی قوت حافظہ کے اسباب سے ایک ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ
اللہ کو جو تبحر علمی اللہ پاک نے عنایت فرمایا تھا اس کے یقیناً بہت سے
وجوہ ہونگے، ان میں ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے تمام زندگی اپنے
استاذ کے گھر کی طرف پاؤں نہیں پھیلائے ،اور نہ ادھر پاؤں کر کے سوئے، آج
جو شیخ مدنی رحمہ اللہ کا جگہ جگہ ذکر خیر ہے اور ان کے علوم و فیوضات کا
سلسلہ روز افزوں ہے اور اب جو ایک صاحب نے بتایا ہے کہ گوجرا نوالہ میں
“الجمعیۃ شیخ الاسلام نمبر” دو بارہ شائع کیا جا رہا ہے اس کی وجہ وہی ہے
کہ شیخ مدنی رحمہ اللہ نے اپنے استاذ شیخ الہند رحمہ اللہ کی خدمت کی،
مالٹا جیل میں گئے اور ساتھ رہے اور کسی ممکن خدمت سے دریغ نہیں کیا۔
(ص:۸۱)
ارشاد فرمایا: “جب تحصیل علم کے تین آداب کو ملحوظ رکھا جائے
تب صلاحیت نکھر تی، استعداد جلا پاتی، اور علمی و روحانی ترقیاں حاصل ہوتی
ہیں۔(۱)استاذ کا ادب(۲)مسجد اور درس گاہ کا ادب(۳)کتاب کا ادب”۔(ص:۱۴۱)
ارشاد فرمایا: ا دب قلبی کیفیت اور باطنی محبت کا مظہر ہوتا
ہے اس لیے تحصیل علم کے دوران طالب علم کو چاہئے کہ اپنے استاذ کی محبت کو
دل کی اتھاہ گہرائیوں میں جگہ دے، ا ور اس کا دل و جان سے عاشق بن جائے، یا
اعمال ا ور خلوص و محبت کا ایسا مظاہرہ کرے کے استاذ کے دل میں جگہ پالے
اور استاذ کا محبوب بن جائے۔
مگر پہلی صورت کہ اپنے استاذ سے عشق و محبت اور وارفتگی میں
دیوانگی و جنون کی حد تک پہنچ جائے، دوسری صورت کی نسبت بے حد نافع اور
مفید ہے، ایسے طلبہ علم بھی حاصل کر لیتے ہیں اور ان کا فیض بھی زیادہ
پھیلتا ہے۔
ارشاد فرمایا کہ: “والدین کی خدمت سے عمر میں برکت ہوتی ہے
اور اساتذہ کی خدمت سے علم میں برکت ہوتی ہے، مقصد یہ ہے کہ ان خدمات کے یہ
خاصیتی اثرات ہیں جوان پر مرتب ہوتے ہیں،چینی کی اپنی لذت ہے،گڑ کا اپنا
ذائقہ ہے، مٹھائی کی اپنی چاشنی ہے جو چیز کھائی جائے گی اس کی ذاتی خاصیت
کی بناء پر اس کے اثرات و ثمرات اور نتائج مرتب ہونگے، تو والدین کی خدمت
سے زیادہ عمر اور اساتذہ کی خدمت سے زیادہ علم اور خدمت علم کے اثرات اور
نتائج مرتب ہوتے ہیں۔(ص:۲۵۹)
استاذ کی روک ٹوک اگر پڑھنے میں ہو تو اس کو برا نہ سمجھے اور
نہ چہرے پر شکن پڑے نہ ملال ظاہر کرے، اس لیے کہ اس سے استاذ کے دل میں
انقباض پیدا ہو جائے گا، اور دروازہ نفع کا بند ہوجائے گا، کیونکہ یہ موقوف
ہے انشراح دل اور مناسبت پر،اور صورت مذکورہ میں دونوں باتیں نہیں ہیں،
بہت بڑا فائدہ اور جلد منفعت کی کنجی یہ ہے کہ جس سے نفع حاصل کرنا ہو خواہ
خالق سے یا مخلوق سے، اس کے سامنے اپنے کو مٹا دے اور فنا کر دے، اپنی
رائے و تدبیر کو بالکل دخل نہ دے، پھر دیکھئے کیسا نفع حاصل ہوتا ہے، اور
یہ بڑا کمال ہے۔
تو درو گم شو وصال این ست وبس
تو مباش اصلا کمال این ست وبس
اگر کسی مسئلہ میں استاذ کی تقریر ذہن میں نہ بیٹھے، تو کچھ
دیر تک استفادہ کی لہجہ میں خندہ پیشانی کے ساتھ اپنی تقریر کرے ، اگر پھر
بھی سمجھ میں نہ آوے تو خاموش ہو جائے، اور دل میں یہ رکھ لے کہ اس کی
تحقیق کروں گا،بعد میں کتابوں سے اور علماء سے تحقیق کرے ، اور اگر اپنی
رائے صحیح ہو اور استاذ حق پسند ہو تو اس کتاب اور بڑے عالم کی تحقیق کو ان
کے سامنے پیش کر دے، اگر استاذ کی تقریر صحیح ہو تو معذرت کر دے کہ آپ
صحیح فرماتے تھے میں غلطی پر تھا ۔
استاذ کے مقابلہ میں مکا برہ، مناظرہ، مجادلہ کی صورت ہر گز
نہ بنائے، یعنی آنکھیں نہ چڑھیں، گفتگو میں تیزی نہ ہو پیشانی پر بل نہ ہو،
بڑوں کے مقابلہ میں یہ بے ادبی ہے۔ (ص: ۴۸-۴۸)
طالب علم سے اگر استاذ کی بے ادبی یا نافرمانی یا ایذاء رسانی
ہو جائے تو فوراً نہایت نیاز و عجز سے معافی چاہے اور الفاظ معافی کے ساتھ
اعضاء سے بھی عاجزی وانکساری و ندامت ٹپکے، یہ نہیں کہ لٹھ ما ر دیا کہ ،
اجی معاف کر دو۔
اگر دل میں ندامت ہو گی تو اعضاء سے بھی ندامت ٹپکے گی، اگر
یہ بھی نہ ہو تو بناوٹ ہی کر دے، اصل نہیں تو نقل ہی سھی، مگر تاخیر نہ
کرے، کیونکہ اگر استاذ دنیا دار ہوگا تو تاخیر کرنے سے اس کی کدورت بڑھ
جائے گی اور تمہارا نقصان ہوگا، اور اگر دیندار ہو گا تو گو وہ کدورت وغیرہ
خرافات کو اپنے دل میں جگہ نہ دے گا، کیوں کہ اس کا مشرب یہ ہوتا ہے۔
آئین ماست سینہ چو آئینہ داشتن بہ نشین در دل ویرانہ ام اے گنج مراد
کفرست در طریقت ما کینہ د اشتن کہ من ایں خانہ ویراں کردم
مگر رنج طبعی ہوگا اور یہ بھی طالب علم کے لیے مضر ہو گا
کیونکہ اس حالت میں انشراح قلب نہ رہے گا اور بغیر اشراح قلب نفع نہ ہوگا
،اور تاخیر کرنے میں یہ بھی خرابی ہے کہ جتنی تاخیر ہوگی اتنا ہی حجاب
بڑھتا جائے گا۔ (ص:۵۱۔ ۵۲)
حضرت اقدس مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(۱) علمی استعداد سات چیزوں پر موقوف ہے: (۱) ذہن (۲) حافظہ
(۳) محنت (۴)آلات علم یعنی کتاب، کاغذ، قلم اور تپائی وغیرہ کا ادب (۵)
استاذ کا ادب (۶) دعاء (۷) ترک منکرات۔
ان میں سب سے زیادہ اہم چیز ترک منکرات ہے ، اس لیے کہ علم
دین اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص عنایت اور اس کی بہت بڑی نعمت ہے ، وہ اتنی
بڑی دولت صرف اسی کو عطا فرماتے ہیں جو اس کی ہر نا فرمانی کو چھوڑ کر اس
سے محبت کا ثبوت پیش کرے ۔( جواہر الرشید،:۱ /۱۱۲)
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا ادب و احترام
حضرت والا کو اپنے اساتذہ سے اتنا شدید تعلق تھا کہ دوسرے کو
نہ تھا، بس یوں کہا جائے کہ عشق تھا ، چناں چہ فرمایا کرتے ہیں کہ میں نے
پڑھنے میں کبھی محنت نہیں کی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا اساتذہ اور
بزرگوں کے ساتھ ادب و محبت کا تعلق رکھنے کی بدولت عطا فرمایا، اور الحمد
اللہ! میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے کسی بزرگ کو ایک منٹ کے لیے بھی
ناراض نہیں کیا اور جتنا میرے قلب میں بزرگان دین کا ادب ہے آج شاید ہی کسی
کے دل میں اتنا ہو۔
شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ
حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب رحمہ اللہ کے بارے میں
متعدد حضرات نے بیان کیا کہ کوئی بات دریافت کرنی ہو تی یا کتاب کا مضمون
سمجھنا ہوتا تو اپنے استاذ حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے مکان
کے دروازہ پر جا کر بیٹھ جاتے ،جب حضرت گھر سے باہر نکلتے اس وقت دریافت
کرتے اور یہ تقریباً روزانہ ہی کا معمول تھا۔(آداب المتعلمین: ص ۲۷)
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی صاحب رحمہ اللہ
مولانا گیلانی اپنے اساتذہ کا بڑا احترام فرماتے تھے ،اور سخت
سے سخت وقت پر بھی ان کے حکم سے سرتابی کی جرأت نہیں کرتے ،اور نہ بہانے
تلاش کرتے تھے بلکہ فوراً تعمیل حکم کے لیے حاضر ہو جاتے۔
۱۵/ اگست ۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا، اور اس کے صدقہ میں ایک نئی
مسلم مملکت وجود میں آئی جو پاکستان کے نام سے موسوم ہوئی، شیخ الاسلام
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ نے چاہا کہ یہاں اسلامی دستور نافذ
ہو، اس اسلامی دستور کو مرتب کر نے کے لیے بہت سے علماء کو مولانا عثمانی
نے کراچی میں جمع کرنے کی سعی فرمائی، ان میں حضرت مولانا گیلانی رحمہ اللہ
کا بھی نام تھا، اس وقت حالات ساز گار نہ تھے، مگر استاذ محترم کے حکم کے
خلاف کسی بہانہ کی جرأت نہیں فرمائی بلکہ فوراً تشریف لے گئے۔
مولانا نے خود اپنے ایک خط میں جو علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام ہے لکھتے ہیں:
” آپ کے ارادہ عدم شرکت سے مطلع ہونے کے بعد خاکسار نے بھی
قطعی فیصلہ کراچی نہ جانے کا کر لیا تھا، لیکن مولانا عثمانی کی طرف سے تار
اور خطوط کے تسلسل نے فسخ عزم کو انسب خیال کیا ان سے تلمذ کی نسبت رکھتے
ہوئے دل نے آگے بڑھنے کی اجازت نہ دی ۔ (حیات گیلانی ،ص: ۲۹۴)
شیخ الحدیث حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمہ اللہ کا واقعہ
(۱) دنیا کا تجربہ اس بات پر شاہد عدل ہے کہ محض کتابوں کے
پڑھ لینے سے کسی کو علم کے حقیقی ثمرات اور کمالات حاصل نہیں ہوتے بلکہ اس
کے لیے “پیش مرد کا ملے پامال شو” پر عمل پیرا ہو نا پڑتا ہے، نیز استاذ کا
ادب و احترام ہمہ وقت ملحوظ رکھنا پڑتا ہے ، بے ادبی فیوضات کے حصول کی
راہ میں سنگ گراں بن جاتی ہے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کی دل میں اساتذہ
کا ادب و احترام اور خدمت کا جذبہ بدرجہ اتم پایا جاتا تھا ،اور ان کی خدمت
باعث صد افتخار سمجھتے تھے، اگر چہ ان کے ہم سبق طلبہ اس سعادت کو بنظر
حقارت دیکھتے تھے ، جیسا کہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ خود بیان فرماتے ہیں:
“میں خود دیوبند میں تھا تو زمانہ طالب علمی میں حضرت شیخ
مدنی رحمہ اللہ کے ہاں بعض اوقات ان کی خدمت کے لیے جایا کرتا اور پاؤں
دباتا، اور بعض ساتھی ہنستے کہ یہ چاپلوسی کرتا ہے، مگر یہ ان بزرگوں کی
توجہ کا نتیجہ ہے کہ مجھ نالائق انسان سے بھی اللہ تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ
دین کا کام لیااور مزید توفیق دے رہے ہیں، ان میں سے کئی اور ساتھی ہیں جو
اس راستہ کو چھوڑ چکے ہیں تو علم سارا ادب ہی ادب ہے، دین کا ادب، اساتذہ
کا ادب اور علم کا ادب ۔” (ماہنامہ”الحق” حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق
نمبر : ص ۳۳۴)
آلات علم کاغذ، قلم، روشنائی کا ادب اور مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا حال
حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ ایک روز بیت الخلاء میں
تشریف لے کئے، اندر جاکر نظر پڑی کہ انگوٹھے کے ناخن پر ایک نقطہ روشنائی
کا لگا ہو ا ہے جو عموماً لکھتے وقت قلم کی روانی دیکھنے کے لئے لگایا جاتا
ہے، فوراً گھبرا کر باہر آگئے اور دھونے کے بعد تشریف لے گئے اور فرمایا
کہ ان نقطہ کو علم کے ساتھ ایک تلبس ونسبت ہے۔ اس لئے بے ادبی معلوم ہوئی
کہ اس کو بیت الخلاء میں پنچاؤں یہ تھا ان حضرات کا ادب جس کی برکت سے حق
تعالی نے ان کو درجات عالیہ عطاء فرمائے تھے آج کل تو اخبارو رسائل کی
فراوانی ہے ان میں قرآنی آیات، احادیث اور اسماء الہیہ ہونے کے باوجود گلی
کوچوں، غلاظتوں کی جگہوں میں بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔العیاذ باللہ العظیم،
معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کی دنیا جن عالمگیر پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اس
میں اس بے ادبی کا بھی بڑا دخل ہے۔(مجالس حکیم الامت:ص۲۸۱،۲۸۲)
حروف کلمات کا ادب
ایک چمڑہ کا بیگ تھا، کسی مخلص خادم نے بنوایا تھا اور چمڑہ
میں لفظ(محمد اشرف علی) کندہ کرا دیا تھا، اس کا حضرت (تھانوی) اتنا ادب
کرتے تھے کہ حتی الامکان نیچے اور جگہ بے جگہ نہ رکھتے تھے۔ (حسن
العزیز:۴/۳۲)
کتابوں کا ادب
آج کل طبیعتوں میں ادب بالکل نہیں رہا، مولانا احمد علی سہارن
پوری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ جو بعض طلبہ بائیں ہاتھ میں دینی
کتابیں اور دائیں ہاتھ میں جوتے لے کر چلتے ہیں بہت مذموم ہے کیوں کہ خلاف
ادب ہے اور صورۃً جوتوں کو فوقیت دینا ہے، کتب دینیہ پر۔ (الافاضات
الیومیہ:۹/۳۲۴)
روشنائی کا ادب
ایک لفافہ پر روشنائی گر گئی تھی تو اس پر یہ لکھ دیا کہ “بلا
قصد روشنائی گر گئی” اور وجہ بیان فرمائی کہ یہ اس لیے لکھ دیا کہ قلت
اعتناء پر محمول نہ کریں، جس کا سبب قلت احترام ہوتا ہے۔(الفصل للوصل:۱۹۷)
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہوتی ہے
اگر آپ دنیا و آخرت میں عزت اور رضاء الٰہی کے طالب ہیں، تو اپنے اندر یہ صفات پیدا کیجیے۔
(۱) اخلاص (۲)لغو اور بیکار امور سے اجتناب (۳)علم پر عمل
(۴)اخلاق حسنہ کو زندگی کا لازمی جز بنائیں (۵)تواضع اور عجز اپنے اندر
پیدا کریں۔ (۶)وقت کی قدر کریں۔ (۷)کھیل کود اور سیروتفریح میں اپنا وقت
گذارنے سے اجتناب کریں۔ (۷)بلند ہمت کا مظاہرہ کریں ،اور علم و عمل میں
درجہ کمال تک پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ (۸)مسلسل رات دن ایک کر کے
محنت کریں ۔(۹)مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور خوب دینی کتابوں کا مطالعہ کریں
،اور اپنے آپ کو مطالعہ کا عادی بنا لیں کہ مطالعہ کے بغیر چین نہ
آئے۔(۱۰) نمازوں کا اہتمام تکبیر اولی کے ساتھ کریں، امام ابویوسف سترہ سال
امام ابوحنیفہ کے درس میں فجر سے پہلے حاضر ہوتے تھے ، کبھی تکبیر اولیٰ
فوت نہیں ہوئی، امام اعمش کی ۷۰ ستر سال تک تکبیر اولی فوت نہیں ہوئی ، یہ
لوگ ہمارے لیے نمونہ ہے۔(۱۱)غایت درجہ استاذ ، کتاب ،آلات علم ،اور مسجد کا
ادب و احترام کریں، علم نافع کے آداب میں مسجد کا ادب بھی شامل ہے، مسجد
میں باتیں کرنے سے بھی علم سے محرومی ہوتی ہے۔(۱۲)نظر کی حفاظت کریں نظر بد
سے حافظہ اور ذہانت کمزور ہوتے ہیں۔ (۱۳)گناہوں سے مکمل بچتے رہیں، کیوں
کہ علم کا نور گناہوں کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتا۔(۱۴) جھوٹ بولنے سے پرہیز
کرے کیوں کہ وہ گناہ کبیرہ ہے۔(۱۵) سبق میں بلا ناغہ حاضر رہیں، کیوں کہ
ایک دین کی غیر حاضری بھی سبق کی برکتوں کو ختم کر دیتی ہے۔(۱۶)دعاؤں کا
اہتمام کریں کیوں کہ دعاؤں سے راستے کھل جاتے ہیں، خاص طور پر ادعیہ ماثورہ
کو یاد کرنے کا اہتمام کریں، اس لے کہ وہ سریع الاجابہ ہے ۔(۱۷)صبح سویرے
جلدی اٹھنے کا اہتمام کریں، کیوں کہ وہ برکت کا وقت ہے، دو گا نہ پڑھ کر
دعاء کریں اور پھر سبق یاد کریں انشاء اللہ بہت عمدہ اور بہت جلد یاد ہو
جائے گا۔(۱۸)بازاروں کے چکر نہ کاٹے کیوں کہ اس سے انسان پر شیطانی اثرات
غالب آتے ہیں، اس لیے کہ بازار شیاطین کے اڈے ہوتے ہیں۔(۱۹) پڑھنے کے ساتھ
اپنے آپ کو لکھنے کا عادی بنائیں، مضامین اور مقالات اردو اور عربی میں
لکھنے کی مشق کریں، تاکہ علم لوگوں تک پہنچایا جا سکے، اور عصر حاضر میں یہ
بہت ضروری ہے۔(۲۰) نحو ، صرف، فقہ ، اصول فقہ، پر ابتدائی درجات کے طلبہ
خاص توجہ دے اور فقہ ، حدیث، اور تفسیرپر منتہی طلبہ توجہ دے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو علم نافع اور عمل صالح کی مکمل سعی
پیہم کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمارے اسلاف کو بہترین صلہ عطا فرمائے،
اور ہم سب کے لیے علم کو نجات کا باعث بنائے ناکہ ہمارے اوپر حجت ۔ آمین
یا رب العالمین
٭٭٭
ماخذ:
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1 ، جلد: 94 محرم – صفر 1431 ھ مطابق جنورى2010 ء
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.