Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Tuesday, February 1, 2011

انبیاء و اولیاء کے اختیارات


انبیاء و اولیاء کے اختیارات

   اسلام کے نزدیک توحید کا تصور یہ ہے کہ پوری مخلوق کی حاجت روائی مصائب و مشکلات کو حل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ وہی ساری کائنات کا خالق' مالک' رازق اور مدبر و منتظم ہے۔ ساری طاقتیں اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ وہ اکیلا ہی ساری نعمتوں کا مالک ہے۔ اس لیے اپنی حاجتوں کی طلب میں صرف اسی کی طرف رجوع کیا جائے' صرف اسی کو پکارا جائے اور اسی کے سامنے عجزونیاز کا اظہار کیا جائے مگر بریلویت کا یہ عقیدہ اس کے برعکس ہے۔ ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے تدبیر امور کے اختیارات و تصرفات اپنے بعض بندوں کو عطا کردیئے ہیں' جن کی وجہ سے وہ مخلوق کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ اسی بنا پر یہ لوگ انہیں مصیبت کے وقت پکارتے' ان کے سامنے اپنا دامن پھیلاتے اور ان کے نام کی نذرونیاز دیتے ہیں۔
 ان کے عقائد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تمام اختیارات اور کائنات کا سارا نظام اپنے مقرب بندوں کے سپرد کردیا ہے' اور خود اللہ تعالیٰ کی ذات معاذاللہ معطل ومعزول ہو کر رہ گئی ہے ۔ اب کٹھن اور دشوار گزار حالات میں ان بندوں سے استغاثہ کیا جائے' انہی سے مدد مانگی جائے' انہی سے شفا طلب کی جائے۔۔۔۔۔کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں' تمام اختیارات ان کے ہاتھ میں ہیں' وہ زمین و آسمان کے مالک ہیں جسے چاہیں عطا کریں اور جسے چاہیں محروم رکھیں۔ زندگی و موت' رزق و شفا غرضیکہ تمام خدائی اختیارات ان کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔
 اس سلسلے میں ان کی کتب سے نصوس و عبارات ذکر کرنے سے قبل قارئین کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ مشرکین مکہ کے عقائد بھی ان عقائد سے مختلف نہ تھے۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عقاید کی تردید کی اور ان لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کے تمام دعووں کے باوجود ان عقائد کو پھر سے اپنالیا ہے۔
 اب اس سلسلے میں اللہ کا ارشاد سنئے اور پھر ان کے عقائد کا موازنہ کیجئے۔۔۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے
 ( لا الٰہ الّا ھو یحیی و یمیت )  [اعراف]
 "کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے۔"
 ( بیدہ الملک و ھو علیٰ کل شیءٍ قدیر )   [ملک]
 "اسی کے ہاتھ میں حکومت ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔"
 ( بیدہ ملکوت کل شیءٍ و ھو یجیر ولا یجار علیہ )   [مومنون]
 "اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے۔ اور وہ پناہ دیتا ہے اور کوئی اس کے مقابلے میں پناہ نہیں دے سکتا۔"
 ( بیدہ ملکوت کل شیءٍ والیہ ترجعون )  [یاسین]
 "اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کا اختیار ہے اور تم سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔"
 ( ان اللہ ھو الرزاق ذوالقوۃ المتین ) [ذاریات]
 "بیشک اللہ ہی سب کو روزی پہنچانے والا ہے' قوت والا ہے' مضبوط ہے۔"
 ( وما من دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقھا )   [سورعہ ھود]
 "کوئی جاندار زمین پر ایسا نہیں کہ اللہ کے ذمہ اس کا رزق نہ ہو"۔
 ( وکاین من دابۃ لا تحمل رزقھا وایاکم وھو السمیع العلیم )  [عنکبوت]
 "اور کتنے ہی جاندار ہیں جو اپنی غذا اٹھا کر نہیں رکھتے۔ اللہ ہی انہیں روزی دیتا ہے اور تم کو بھی' اور وہی خوب سننے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے۔"
 ( ان اللہ یبسط الرزق لمن یشاء و یقدر )   [السباء]
 "میرا پروردگار زیادہ روزی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے' اور تنگ کردیتا ہے جس کے لیے چاہتا ہے۔"
 اللھم مالک الملک توتی الملک من تشاء وتنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء بیدک الخیر انک علیٰ کل شیء قدیر
 اے سارے ملکوں کے مالک تو جسے چاہے حکومت دے دے اور تو جس سے چاہے حکومت چھین لے' تو جسے چاہے عزت دے اور تو جسے چاہے ذلت دے' تیرے ہی ہاتھ میں بھلائی ہے بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔"
 قرآن کریم نے انسانیت کو توحید سے آشنا کرکے اس بہت بڑا احسان کیا ہے۔ رسول کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تیرہ سالہ مکی دور میں اسی فکر کو لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کرتے رہے۔ اسلام نے انسانیت کو بندوں کی غلامی سے نجات دے کر اور ان طوق و سلاسل کو جو اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان حائل ہوگئی تھی' اپنی مقدس تعلیمات سے پاش پاش کرکے براہ راست انہیں اللہ تعالیٰ کی چوکھٹ پر جھکادیا۔۔۔۔مگر بریلوی حضرات ان شکستہ زنجیروں کے ٹکڑوں کو اکھٹا کرکے انسان کو انسان کا محتاج و گداگر بنارہے ہیں اور مخلوق کو مخلوق کی غلامی کا درس دے رہے ہیں
 ارشاد باری تعالیٰ ہے
 ( وما یستوی الاعمیٰ والبصیر )    [فاطر]
 "نابینا اور بینا برابر نہیں ہوسکتے۔"
 یہ ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو توحید کی بصیرت سے بہرہ ور ہوں۔ توحید کے تصور کے بغیر امت اسلامیہ کا اتحاد ممکن نہیں ہے۔ توحید سے کنارہ کشی اختیار کرکے دوسرے مشرکانہ افکار و نظریات کی تعلیم دینا امت محمدیہ کے درمیان اختلافات کے بیج بونے کے مترادف ہے۔
 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
 ( کان الناس امۃ وّاحدۃ فبعث اللہ النبّیّن مبشّرین و منذرین و انزل معھم الکتٰب بالحقّ لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیہ وما اختلف فیہ الّا الّذین اتوہ من بعد ما جاء تھم البیّنٰت بغیا بینھم فھدی اللہ الّذین اٰمنوا لما اختلفوا فیہ من الحقّ باذنہ واللہ یھدی من یّشاء الیٰ صراط مسقیم )    [بقرہ]
 "لوگ ایک ہی امت تھے' پھر اللہ نے انبیاء بھیجے خوشخبری دینے اور ڈرانے والے۔ اور ان کے ساتھ کتب حق نازل کیں کہ وہ لوگوں کے درمیان اس بات کا فیصلہ کریں جس میں وہ اختلاف رکھتے تھے۔ اور کسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا' مگر انہی نے جنہیں وہ ملی تھی' انہی کی ضد کے باعث' بعد اس کے کہ انہیں کھلی ہوئی نشانیاں پہنچ چکی تھیں' پھر اللہ نے اپنے فضل سے انہیں جو ایمان والے تھے ہدایت دی' اور اللہ جسے چاہتا ہے راہ راست بتادیتا ہے۔"
 آج حالت یہ ہے کہ شرک'قبر پرستی اور بدعات و خرافات کا ایک سیلاب ہے اور مسلمان اس میں بہے جارہے ہیں۔ شیطان نے ان کے دل و دماغ کو مسخر کرلیا ہے اور وہ اس کی پیروی کو اپنی نجات کا سبب سمجھ رہے ہیں۔
 اللہ تعالیٰ ان کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں
 ( قل ھل ننبّئکم بالاخسرین اعمالا ، الّذین ضلّ سعیھم فی الحیوۃ الدنیا وھم یحسبون انّھم صنعا )   [الکہف]
 " آپ کہہ دیجئے کہ کیا ہم تمہیں ان لوگوں (کا پتہ) بتائیں جو اعمال کے لحاظ سے بالکل ہی گھاٹے میں ہیں؟ یہ وہی لوگ ہیں جن کی ساری محنت دنیا ہی کی زندگی میں غارت ہوکر رہی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ وہ بڑے اچھے کام کررہے ہیں۔"
 نیز ان کے متعلق ارشاد ہے
 ( اعینھم فی غطاء عن ذکری وکانوا لا یستطیعون سمعا ، افحسب الّذین کفروا ان یّتّخذوا عبادی من دونی اولیاء انّا اعتدنا جھنم للکفرین نزلا )   [کہف]
 "ان کی آنکھوں پر میری یاد سے پردہ پڑا ہوا تھا اور وہ سن بھی نہیں سکتے تھے۔ کیا پھر بھی کافروں کا خیال ہے کہ مجھے چھوڑ کر میرے بندوں کو اپنا کارساز قرار دے لیں؟ بے شک ہم نے دوزخ کو کافروں کی مہمانی کے لیے تیار کررکھا ہے۔"
 اب اس سلسلے میں ان کی نصوص ملاحظہ فرمائیں
 جناب احمد رضا بریلوی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے انحراف کرتے ہوئے اور آپ کی شان میں غلو کرتے ہوئے کہتے ہیں
 
کن کا رنگ دکھاتے ہیں یہ
مالک کل کہلاتے ہیں یہ
  
قادر کل کے نائب اکبر
ان کے ہاتھوں میں ہر کنجی ہے
 احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان اشعار کی شرح میں رقم طراز ہیں ۔
 "جو نعمت تمام عالم میں کہیں ظاہر ہوتی ہے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی عطا فرماتے ہیں۔ انہی کے ہاتھ میں سب کنجیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے خزانے سے کوئی چیز نہیں نکلتی مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں سے۔ حضور اکرم کوئی بات چاہتے ہیں وہی ہوتی ہے' اس کے خلاف نہیں ہوتی۔ حضور کی چاہت کو جہاں میں کوئی پھیرنے والا نہیں ہے۔
 جناب بریلوی کے اس قصیدے کے مزید اشعار سنئے
 
ہلتی نیویں جماتے یہ ہیں
روتی آنکھیں ہنساتے یہ ہیں
حق سے خلق ملاتے یہ ہیں
کیا کیا رحمت لاتے یہ ہیں
دفع بلا فرماتے یہ ہیں
جیتے ہم ہیں جلاتے یہ ہیں
قبضہ کل پہ رکھاتے یہ ہیں

  
ڈوبی ناویں تراتے یہ ہیں
جلتی جانیں بجھاتے یہ ہیں
اس کے نائب ان کے صاحب
شافع نافع رافع دافع
دافع یعنی حافظ و حامی
ان کے نام کے صدقے جس سے
اس کا حکم جہاں میں نافذ

 جناب احمد رضا دوسری جگہ کہتے ہیں
 "کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا مگر حضور کے دربار سے۔ کوئی نعمت کسی کو نہیں ملتی مگر حضور کی سرکار سے"
 اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں
 "ہر چیز' ہر نعمت' ہر مراد' ہر دولت' دین میں' دنیا میں' آخرت میں' روزاول سے آج تک' آج سے ابداآباد تک' جسے ملی یا ملنی ہے' حضور اقدس سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس سے ملی اور ملتی ہے۔"
 بریلوی فرقے کے ایک دوسرے راہنما لکھتے ہیں
 آقائے دوجہاں سخی داتا ہیں اور ہم ان کے محتاج ہیں' تو کیا وجہ ہے کہ ان سے استمداد نہ کی جائے؟"
 دوسری جگہ کہتے ہیں
 خالق  کل نے  آپ   کو  مالک   کل   بنادیا
 دونوں جہاں ہیں آپ کے قبضہ و اختیار میں
 اسی لیے حضرت آدم علیہ السلام نے عرش پر حضور علیہ السلام کا نامِ پاک لکھا دیکھا' تاکہ معلوم ہو کہ مالک عرش آپ ہیں"
 ایک اور جگہ نقل کرتے ہیں
 حضور مدینہ منورہ میں رہ کر ذرے ذرے کا مشاہدہ فرمارہے ہیں اور ہر جگہ آپ کا عمل درآمد اور تصرف بھی ہے"
 بویلویت کے فرماں رواں جناب احمد رضا صاحب بریلوی کہتے ہیں
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم اور زمین و آسمان میں تصرف فرماتے ہیں۔
 جناب احمد رضا کے ایک پیروکار اپنے مطاع و مقتدا سے نقل کرتے ہیں کہ
 "رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زمینوں اور لوگوں کے مالک ہیں اور تمام مخلوقات کے مالک ہیں۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں نصرت اور مدد کی کنجیاں ہیں اور انہی کے ہاتھ میں جنت و دوزخ کی کنجیاں ہیں۔ اور وہی ہیں جو آخرت میں عزت عطا فرماتے ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبتوں اور تکالیف کو دور فرماتے ہیں اور وہ اپنی امت کے محافظ اور مددگار ہیں۔"
 بریلویت کے ایک اور راہنما رقم طراز ہیں
 "حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ عزوجل کے نائب مطلق ہیں۔ تمام جہاں حضور کے تحت تصرف کردیا گیا' جسے  جو چاہیں دیں' جس سے جو چاہیں واپس لیں۔"
 مزید ارشاد فرماتے ہیں
 "تمام زمین ان کی ملک ہے' تمام جنت ان کی جاگیر ہے' ملکوت السّموات والارض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر فرمان' جنت ونار کی کنجیاں آپ کے دست اقدس میں دے دی گئیں۔ رزق' خوراک اور ہر قسم کی عطائیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے دربار سے تقسیم ہوتی ہیں۔ دنیا و آخرت حضور علیہ السلام کی عطا کا ایک حصہ ہیں۔"
 بریلوی طائفہ کے مفتی احمد یار گجراتی اپنے اس عقیدے کا اظہار یوں کرتے ہیں
 "سارا معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے ہاتھ کریمانہ میں ہے' جو چاہیں جس کو چاہیں دے دیں۔"
 صرف حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی مالک کل اور مختار مطلق نہیں' بلکہ دوسرے انبیاء کرام (علیہم السلام) بھی مخلوق کی اندرونی حالت اور ان کی ارواح پر تصرف کرسکتے ہیں۔ اور ان کو قدرت حاصل ہوتی ہے' جس سے مخلوق کے ظاہر پر تصرف کرسکتے ہیں۔"
 انبیاء و رسل کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی جنت و دوزخ کے مالک ہیں چنانچہ بریلویت کے امام احمد رضا صاحب موضوع روایت کا سہارا لیتے ہوئے رقمطراز ہیں
 "روز قیامت اللہ تعالیٰ سب اگلوں پچھلوں کو جمع فرمائے گا اور دو منبر نور لاکر عرش کے داہنے بائیں بچھائے جائیں گے۔ ان پر دو شخص چڑھیں گے داہنے والا پکارے گ اے جماعات مخلوق' جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں رضوان داروغہ بہشت ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ جنت کی کنجیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردوں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کو دو کہ وہ اپنے دوستوں کو جنت میں داخل کریں۔ سنتے ہو گواہ ہوجاؤ
 پھر بائیں والا پکارے گا اے جماعات مخلوق جس نے مجھے پہچانا اس نے پہچانا اور جس نے نہ پہچانا تو میں مالک داروغہ ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ دوزخ کی کنجیاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردوں۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ کو دوں کہ وہ اپنے دشمنوں کو جہنم میں داخل کریں۔"
 پھر اپنے تشیع کا ثبوت دیتے ہوئے اور تقیہ کا لبادا اتارتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق ذکر کرتے ہیں
 حضرت علی قسیم دوزخ ہیں یعنی اپنے دوستوں کو جنت اور اعداء کو دوزخ میں داخل فرمائیں گے۔"
 جناب احمد رضا بریلوی شیخ عبدالقادر جیلانی کی شان میں غلو کرتے مشرکانہ عقیدے کی یوں وضاحت کرتے ہیں
 ذی تصرف بھی ہے ماذون بھی مختار بھی ہے
 کار  عالم   کا   مدبر   بھی    ہے    عبدالقادر
 مزید ارشاد ہوتاہے
 جلادے  جلادے     کفر  و    الحاد
 کہ تو محیی ہے تو قاتل ہے  یا غوث
 خدا سے لیں لڑائی   وہ    ہے     معطی
 نبی   قاسم   ہے   موصل   ہے  یا غوث

ایک اور جگہ یوں گویا ہوتے ہیں
 "اے عبدالقادر' اے فضل کرنے والے' بغیر مانگے سخاوت کرنے والے' اے انعام و اکرام کے مالک' تو بلند وعظیم ہے۔ ہم پر احسان فرما اور سائل کی پکار کو سن لے۔ اے عبدالقادر ہماری آرزوؤں کو پورا کر۔"
 احمد رضا دوسری جگہ گل فشانی فرماتے ہیں
 "عبدالقادر نے اپنا بستر عرش پر بچھا رکھا ہے اور عرش کو فرش پر لے آتے ہیں۔"
 ایک اور جگہ لکھتے ہیں
 "اہل دین رامغیث عبدالقادر"
 مزید سنئے
 "احد سے احمد سے تجھ کو' کن اور سب کن فیکون حاصل ہے یاغوث"
 بریلوی حضرات اپنے مشرکانہ عقائد ثابت کرنے کے لیے شیخ جیلانی رحمہ اللہ کی طرف جھوٹ منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے
 "اللہ نے مجھے تمام قطبوں کا سردار بنایاہے۔ مرا حکم ہر حال میں جاری و ساری ہے۔ اے میرے مرید دشمن سے مت گھبرا۔ میں مخالف کو ہلاک کردینے والا ہوں۔ آسمان و زمین میں میرا ڈنکا بجتا ہے۔ میں بہت بلند رتبے پر فائز ہوں۔ اللہ تعالیٰ کی ساری مملکت میرے زیر تصرف ہے۔ میرے تمام اوقات ہر قسم کے عیب سے پاک صاف ہیں۔ پورا عالم ہر دم میری نگاہ میں ہے۔ میں جیلانی ہوں' محی الدین میرا نام ہے' میرے نشان پہاڑ کی چوٹیوں پر ہیں۔
 ایک اور افتراء سنئے
 "تمام اہل زمانہ کی باگیں میرے سپرد ہیں' جسے چاہوں عطاکروں یا منع کروں"۔
 جناب بریلوی شیخ جیلانی کی جانب ایک اور جھوٹ منسوب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے فرمای
 "لوگوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔ میں چاہوں تو اپنی طرف متوجہ کرلوں اور چاہوں تو پھیر دوں"۔
 احمد رضا خاں کے ایک پیروکار کا عقیدہ ملاحظہ کیجئے
 "لوح محفوظ میں تشبیت کا حق ہے حاصل
 مرد سے عورت بنادیتے ہیں غوث الاغواث"
 اس شعر کی تشریح بھی بریلوی حضرات کی زبانی سنئے
 "شیخ شہاب الدین سہروردی رضی اللہ عنہ' جو سلسلہ سہروردیہ کے امام ہیں' آپ کی والدہ ماجدہ حضور غوث الثقلین رضی اللہ عنہ کے والد ماجد کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ حضور دعا فرمائیں' میرے لڑکا پیدا ہو۔ آپ نے لوح محفوظ میں دیکھا' اس میں لڑکی مرقوم تھی۔ آپ نے فرمادیا کہ تیری تقدیر مین لڑکی ہے۔ وہ بی بی یہ سن کر واپس ہوئیں' راستہ میں غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملے۔ آپ کے استفسار پر انہوں نے سارا ماجرا بیان کیا۔ حضور نے ارشاد فرمایا' جا تیرے لڑکا ہوگا۔ مگر وضع حمل کے وقت لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ بی بی بارگاہ غوثیت میں اس مولود کو لے آئیں اور کہنے لگیں' حضور لڑکا مانگوں اور لڑکی ملے؟ فرمایا' یہاں تو لاؤ اور کپڑا ہٹا کر ارشاد فرمایا دیکھو تو یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ دیکھا تو لڑک اور وہ یہی شہاب الدین سہروردی علیہ الرحمۃ تھے۔ آپ کے حلیہ مبارک میں ہے کہ آپ کے پستان مثل عورتوں کے تھیں۔"
 یہی متبع بریلویت ایک اور واقعہ نقل کرتے ہیں' جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک شخص کی تقدیر میں موت تھی۔ شیخ جیلانی نے اس کی تقدیر کو بدل کر مقررہ وقت پر مرنے سے بچالیا۔"
 جناب احمد رضا بریلوی اپنی کتاب میں نقل کرتے ہیں
 "ہمارے شیخ سیدنا عبدالقادر رضی اللہ عنہ اپنی مجلس میں برملا زمین سے بلندکرہ ہوا پر مستی فرماتے اور ارشاد کرتے آفتاب طلوع نہیں ہوتا' یہاں تک کہ مجھ پر سلام کرے۔ نیا سال جب آتا ہے' مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے' جو کچھ اس میں ہونے والا ہے۔ نیا دن جو آتا ہے' مجھ پر سلام کرتا ہے اور مجھے خبر دیتا ہے جو کچھ اس میں ہونے والا ہے۔"
 اور یہ اختیارات شیخ جیلانی تک ہی محدود نہیں ہیں' بلکہ دوسرے اولیاء و مشائخ تصوف بھی خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ وہ ان صفات سے متصف اور ان طاقتوں کے مالک ہیں۔ چنانچہ احمد رضا بریلوی کے صاحبزادے ارشاد کرتے ہیں
 "بے شک سب پیشوا' اولیاء علماء اپنے اپنے پیروؤں کی شفاعت کرتے ہیں۔ اور جب ان کے پیروکار کی روح نکلتی ہے' جب منکر نکیر اس سے سوال کرتے ہیں' جب اس کا حشر ہوتا ہے' جب اس کا نامہ اعمال کھلتا ہے' جب اس سے حساب لیا جاتا ہے' جب اس کے عمل تلتے ہیں' جب صراط پر چلتا ہے ہر وقت ہر حال میں اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ کسی جگہ اس سے غافل نہیں ہوتے اور تمام ائمہ مجتہدین اپنے پیروؤں کی شفاعت کرتے ہیں اور دنیا قبر وحشر ہر جگہ سختیوں کے وقت نگہداشت فرماتے ہیں جب تک وہ صراط سے پار نہ ہوجائیں۔"
 آسمان سے زمین تک ابدال کی ملک ہے اور عارف کی ملک عرش سے فرش تک"
 اور خود جناب بریلوی فرماتے ہیں
 "اولیاء کی وساطت سے خلق کا نظام قائم ہے۔"
 اور سنئے
 اولیاء کرام مردے کو زندہ کرسکتے ہیں' مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفا دے سکتے ہیں اور ساری زمین کو ایک قدم میں طے کرنے پر قادر ہیں"
 "غوث ہر زمانہ میں ہوتا ہے اس کے بغیر زمین و آسمان قائم نہیں رہ سکتے"
 بریلوی صاحب کے ایک پیروکار لکھتے ہیں
 "اولیاء کرام اپنے مریدوں کی مدد فرماتے ہیں اور اپنے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہیں"
 ان کے مشہور مفتی احمد یار گجراتی گوہر افشانی کرتے ہیں
 "اولیاء کو اللہ سے یہ قدرت ملی ہے کہ چھوٹا ہوا تیر واپس کرلیں"
 یہی مفتی صاحب رقم طراز ہیں
 "اولیاء کو قبر کی مکھی تو کیا' عالم پلٹ دینے کی طاقت ہے۔۔۔۔مگر توجہ نہیں دیتے"
 بریلویت کے ایک اور راہنما لکھتے ہیں
 ظاہر قضائے معلق تک اکثر اولیاء کی رسائی ہوتی ہے۔"
 ایک دوسرے بریلوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں
 "اولیاء کا تصرف و اختیار مرنے کے بعد اور زیادہ ہوجاتا ہے۔"
 یہ ہیں غیر اللہ کے بارے میں ان کے عقائد۔ انہوں نے اپنی دعاؤں اور طلب گاریوں میں دوسری ہستیوں کو بھی شریک کرلیا اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور اس کے اختیارات و تصرفات اس کی مخلوق میں تقسیم کردیئے یی ہیں' حالانکہ شریعت اسلامیہ میں کارسازیوں اور بے نیازیوں کا تصور صرف اللہ تعالیٰ تک ہی محدود ہے ۔
 بریلوی حضرات نے اپنے اولیاء کو وہ تمام اختیارات تفویض کردیے' جو عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام' یہودی حضرت عزیر علیہ السلام اور مشرکین مکہ لات' ہبل' عزی اور منات وغیرہ میں سمجھتے تھے۔
 (اف لکم ولما تعبدون)
 یہ مت سمجھئے کے بریلویت کے امام جناب احمد رضا خان صاحب کا ان خدائی اختیارات میں کوئی حصہ نہ تھا۔ وہ بھی دوسرے اولیاء کی طرح رزاق' داتا' شافی' غوث' مختار' قادرمطلق' حاجت روا اور مشکل کشا تھے۔ ان کی صفات ملاحظہ کیجئے۔
 بریلویت کے ایک پیروکار اپنے ہادی و مرشد کی شان بالا صفات میں اپنی کتاب مدائح اعلیٰ حضرت میں نغمہ سرا ہیں۔
 یاسیدی' یا مرشدی' یا مالکی' یا شافعی
 اے دستگیر راہنما یا سیدی احمد رضا
 اندھوں کو بینا کردیا بہروں کو شنوا کردیا
 دین نبی کو زندہ کیا یا سیدی احمد رضا
 امراض روحانی و نفسانی امت کے لیے
 اور ترا دارالشفا یا سیدی احمد رضا
 یہی مرید اپنے پیروشیخ جناب احمد رضا کے سامنے عجز و نیاز کرتے ہوئے اور اپنا دامن پھیلا کر یوں پکارتا ہے
 میرے آقا' میرے داتا' مجھے ٹکڑ ملجائے
 دیر سے آس  لگائے  ہے   یہ    کتا   تیرا
 اپنی رحمت سے اسے کرلے قبول اے پیارے
 نذر میں لایا ہے یہ چادر یہ کمینا تیرا
 اس عبید رضوی پر بھی کرم کی ہو نظر
 بد سہی چور سہی ہے تو وہ کتا تیرا
 اور سنئے جناب احمد رضا خاں بریلوی کے ایک اور معتقد ارشاد کرتے ہیں
 "قیامت میں مفر کی منکر و تدبیر کیا سوچی؟
 کہ ہوگا گھومتا کوڑا امام اہل سنت کا "
 کس سے کریں فریاد خدائی مالک و مولیٰ تیری دوہائی
 تیرے سوا کون ہمارا حامئِ سنت اعلیٰ حضرت
 بھیک سدا مانگی پائی دیر کیوں اس بار لگائی
 میرے کرم' سخی' ان داتا' حامی سنت اعلیٰ حضرت
 کب سے کھڑے ہیں ہاتھ پسارے بندہ نواز گدا بیچارے
 اب تو کرم ہوجائے حامی سنت اعلیٰ حضرت
 اور سنئے
 وہی فریاد رس ہے بے کسوں کا
 وہ محتاج کا حاجت روا ہے
 ستارہ کیوں نہ میرا اوج پر ہو
 ادھر آقا ادھر احمد رضا ہے
 مجھے کیا خوف ہو وزن عمل کا
 حمایت پر مرا حامی تلا ہے"
 بریلویت کے ایک دوسرے شاعر کا عقیدہ
 میری کشتی پڑ گئی منجدھار میں
 دے سہارا اک ذرا احمد رضا
 چار جانب مشکلیں ہیں ایک میں
 اے مرے مشکل کشا احمد رضا
 لاج رکھ لے میرے پھیلے ہاتھ کی
 اے میرے حاجت روا احمد رضا
 جھولیاں بھردے میری داتا میرے
 ہوں تیرے در کا گدا احمد رضا"
 چند اور اشعار نقل کرکے ہم اپنی بحث کو سمیٹتے ہیں۔
 بریلویت کے اور شاعر اپنے مذہب کے عقائد کی وضاحت کرتے ہوئے نغمہ سرا ہیں۔
 غوث و قطب اولیاء احمد رضا
 ہے میرا مشکل کشا احمد رضا
 دونوں عالم میں ہے تیرا آسرا
 ہاں مدد فرما شاہ احمد رضا
 تو ہے داتا اور میں منگتا ترا
 میں تیرا ہوں تو میرا احمد رض"
 قارئین کرام ملاحظہ فرمائیے' کیا یہ عقائد قرآن کریم کی واضح آیات سے استہزاء کے مترادف نہیں ہیں؟ کیا ان میں اور کتاب و سنت میں کوئی مطابقت ہے؟ کیا ان سے یہ بات اچھی طرح واضح نہیں ہوجاتی کہ ان حضرات کا مقصد مشرکانہ عقائد اور دور جاہلیت کے افکار کی نشر واشاعت ہے؟ کیا مشرکین مکہ کے عقائد ان سے ابتر تھے؟
 اس سلسلے میں ہم یکتائے عصر' فرید دھر اور برصغیر کے مفسر و محدث علامہ نواب صدیق حسن خاں رحمہ اللہ کی تفسیر فتح البیان کی عبارت کا ذکر کرنا مناسب سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔نواب صدیق حسن رحمۃ اللہ علیہ فرمان خداوندی ( لا املک لنفسی ضرا و لا نفعا الا ماشاء اللہ ) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں
 "اس آیت کریمہ میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے' جنہوں نے مصائب کے وقت  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا عقیدہ بنالیا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے بڑی فصاحت سے یہ بیان فرمادیا کہ تکالیف و مصائب میں مدد کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے' انبیاء علیہم السلام و صالحین کا بھی وہ مددگار ہے۔ اس آّیت میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی امت سے واشگاف الفاظ میں کہہ دیں کہ میں اپنی ذات کے لیے بھی نفع نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ قرآن تو یہ بتلارہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ذات کے لیے بھی نفع ونقصان کا اختیار نہیں ہے' پھر وہ مختار کل کیونکر ہوسکتے ہیں؟
 اور پھر جب خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خدائی اختیار حاصل نہیں ہیں' تو باقی مخلوق میں سے کسی کوحاجت روا اور مشکل کشا کیسے مانا جاسکتا ہے؟
 تعجب ہے ان لوگوں پر' جو ان بندوں کے سامنے دامن پھیلاتے اور ان سےاپنی حاجتیں مانگتے ہیں' جو منوں مٹی تلے دفن ہیں۔
 وہ اس شرک سے باز کیوں نہیں آتے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر کیوں دھیان نہیں دیتے؟
 کب انہیں (قل ھوا للہ احد) کی صحیح تفسیر کا علم ہوگا؟
 یہ لوگ کب (لاالٰہ الااللہ) کے صحیح مفہوم سے آشنا ہوں گے؟
 اور ستم بالائے ستم یہ ہے کہ علم وفضل کے دعویدار ان کے واعظین و علماء' جنہیں عوام نے سچے راہنما سمجھ رکھا ہے' وہ انہیں ان مشرکانہ اور دور جاہلیت کے تصورات و اعمال سے کیوں نہیں روکتے؟
 انہوں نے اپنی زبانوں پر مہر کیوں لگا رکھی ہے؟
 ان کے عقائد تو دور جاہلیت کے مشرکوں سے بھی بدتر ہیں۔ وہ تو اپنے معبودوں کو اللہ تعالیٰ کے دربار میں فقط سفارشی سمجھتے تھے' مگر انہوں نے تو تمام خدائی اختیارات اپنے بزرگوں کو عطا کردیئے ہیں۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بجائے براہ راست اپنے بزرگوں سے مدد و معاونت مانگتے ہوئے ذرا سا بھی خوف محسوس نہیں کرتے ۔ شیطان نے ان کے اذہان میں اپنے افکار اتار لیے ہیں۔ وہ شیطان کی پیروی کرتے چلے جارہے ہیں اور انہیں اس کی خبر بھی نہیں ۔ وہ سمجھ رہے ہیں ہم نیکی کی راہ پر گامزن ہیں' حالانکہ وہ شیطان کی آنکھ کو ٹھنڈا کررہے ہیں اور اس کی خوشی کا سامان مہیا کررہے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون"
 اور سب سے آخرع میں ہم شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی عبارت نقل کرتے ہیں۔۔۔شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ " حضرت بایزید بسطامی کہا کرتے تھے' مخلوق کا مخلوق سے استغاثہ کرنا بالکل ایسا ہی ہے' جیسے کوئی غرق ہونے والا شخص دوسرے غرق ہونے والے سے مدد طلب کرے۔"
 شیخ ابوعبداللہ القرشی کہتے ہیں کہ "مخلوق کا مخلوق سے استغاثہ کرنا اس طرح ہے جیسے کوئی قیدی دوسرے قیدی سے رہائی کی طلب کرے۔"
 پھر موسیٰ علیہ السلام اپنی دعا میں فرمایا کرتھے تھے
 "اے اللہ تو ہی تمام تعریفوں کا حق دار ہے۔ ہم آپ کے سامنے اپنی حاجتوں کو پیش کرتے ہیں ۔ صرف تو ہی معین و مددگار ہے۔ تو ہی مخلوق کی فریاد رسی پر قادر ہے۔ ہم تجھ پر توکل کرتے ہیں ۔ نفع و نقصان صرف تیرے ہاتھ میں ہے۔"
 
 سلف صالحین میں سے کوئی بزرگ بھی مافوق القدرت اشیاء سے استغاثے کو جائز نہیں سمجھتا"

منبع:غزوہ الھند

1 comment:

  1. سلام علیکم
    د پورتني موضوع ژباړه په پښتو ژبه غواړم

    مننه
    سید محمد ابراهیم

    ReplyDelete

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User