Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, January 12, 2011

ماہِ صفر بدعات کے نرغے میں

ماہِ صفر بدعات کے نرغے میں پی ڈی ایف چھاپیے ای میل
ماہ نامہ - صفر

از عالمگیر تابش تیمی
ماہ صفر اسلامی سال اور ہجری کلینڈر کا دوسرا مہینہ ہے جس کے متعلق برصغیر کے خرافی طبقہ نے مختلف قسم کی بد عقید گیاں ، غلط فہمیاں اور بد گمانیاں مسلم سماج میں پھیلارکھی ہیں ، اسے منحوس ونامبارک سمجھنا ، آفت و مصیبت کا گہوارہ تصور کرنا، شروفساد کا گنجینہ بتلانا ، اور نقصان وضر ر کا مہینہ باور کرانا کچھ نام نہاد مسلمانو ں کی عادت بن چکی ہے ، حالانکہ اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق ومالک اور تمام تصرفات کا مختار کل صرف اللہ تعالی ہے ، مخلوق میں سے کسی شخصیت کو کاروبار جہاں کے انتظام اور بنی آدم کے امور کی تدبیر میں کوئی عمل دخل نہیں ، بلکہ تمام نفع و نقصان کا مالک صرف اللہ تعالی ہے ، یہ ملکیت مخلوق ارضی کو ہے نہ سماوی کو ، اور نہ کوئی مہینہ فی نفسہ نقصان دہ و ضر ر رساں ہے ، کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے :’’اے میرے نبی لوگوں سے کہہ دے کہ آپ خود اپنے نفع ونقصان کا بھی اختیار نہیں رکھتے سوائے اس کے جو اللہ تعالی چاہے ‘‘۔ (سورۃ یونس /۴۹)اور دوسری جگہ کچھ یوں ارشاد ہوا ’’ اگر اللہ تعالی تمہیں تکلیف پہنچادے تو اس کے سوا اس تکلیف کو دور کرنے والا کوئی نہیں ، اور اگر اللہ آپ کو کوئی بھلائی عطا کرنا چاہے تو دنیا کی کوئی طاقت اس کے فضل کو نہیں روک سکتی ‘‘ (سورۃ یونس /۱۰۷)مذکورہ آیتوں کی رو سے جب کوئی اللہ تعالی کے سوا نفع و نقصان کا مالک نہیں ، نہ ہی کوئی کسی کی قسمت سنوار سکتا ہے نہ بگاڑ سکتا ہے ، تو پھر اگر کوئی شخص کسی قسم کی بد شگونی لے یا بوقت سفر راستے سے بلی کے گذرنے یا چھینک آنے سے برا فال نکالے یا ماہ صفر کو منحوس سمجھ کر کوئی نیک یا مفید کام انجام نہ دے اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر خیالات ونظریات اور باطل عقائد وافکار رچے بسے ہیں ، اس کا ایمان کمزور ہے ، عقیدہ توحید پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے ، وہ دانستہ یا جان بوجھ کر نہیں تو کم از کم نا دانستہ یا انجانے میں دوسری چیزوں کو نفع و نقصان کا مالک سمجھ بیٹھا ہے ، وہ اللہ تعالی کے انتظام کو ناقص اور اس کی تقسیم کو غلط سمجھ رہا ہے ، اور وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنس چکا ہے ، جو اسے کھلے طور پر شرک میں ملوث کرنے کے بجائے شرک کے چور دروازے میں داخل ہونے کی ترغیب رہا ہے لیکن آج کل کے نام نہاد مسلمان شیطان کی اس فریبی چال کو سمجھنے کے بجائے انہی جاہلانہ رسوم و نظریات کی عمیق کھائی میں گرتے چلے جا رہے ہیں ، بلکہ باطل عقیدوں نے کثیر افراد معاشرہ کے دلوں میں نرم گوشہ پالیا ہے ، حالانکہ یہی عقیدہ لوگ زمانہ جاہلیت میں رکھتے تھے ، وہ یہ سمجھتے تھے کہ بعض لوگوں کے پیٹ میں ایک قسم کا جانور ہے جس کی وجہ سے آدمی کو بھوک لگتی ہے ۔ اور جب اسے کھانا نہیں ملتا تو وہ آدمی کو کھا جاتا ہے یا یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ماہ صفر فی نفسہ مذموم و منحوس ہے اور وہ اس سے بد شگونی لیتے تھے ، اسلام نے اس قسم کے عقائد کو باطل قرار دیا اور ایسے نظریات کی کھلے طور پر تردید کی ، چنانچہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ا کرم ﷺ نے فرمایا : بیماری چھوت چھات کو ماننا ، پرندہ اڑ ا کر فال نکالنا ، الو کی آواز سے بدشگونی لینا ، اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنا فضول باتیں ہیں ، ایک اعرا بی نے کہا : اے اللہ کے رسول اچھے بھلے ہرنوں کی طرح اونٹ ریگستان میں ہوتے ہیں ، ایک خارش ذ دہ اونٹ ان میں آ کر مل جاتا ہے اور سب کو خارش ذ دہ کر دیتا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر آپ کا یہ خیا ل ہے کہ بیماری متعدی ہوتی ہے تو یہ بتائیں کہ اس سے پہلے اونٹ کو بیماری کیسے اور کہاں سے لگ گئی ‘‘۔ (بخاری ۵/۲۱۶۱/۵۳۸۷، مسلم ۱/۲۲۲۰، مسند احمد ۲/۴۳۴/۹۶۱۰)
لیکن افسوس در افسوس کہ آج مسلم معاشرہ میں وہی جاہلانہ عقائد و رسوم عود آئی ہیں جن سے اسلام نے تقریبا چودہ سو سال پہلے منع فرمایا تھا ، آج بھی کچھ نام نہاد مسلمان ماہ صفر سے بد شگونی لیتے ہیں ، اس کو منحوس سمجھ کر اس مہینہ میں شادی بیاہ اور عقدو نکاح نہیں کرتے ، سر وروانبساط اور مسرت و شادمانی کی محفلیں نہیں سجتیں ، سفر نہیں کیا جاتا ، ہر قسم کی تقریبات کو منحوس تصور کیا جاتا ، حتی کہ نئی نویلی دلہن کو میکے روک لیا جاتا ، اس کو سسرال نہیں جانے دیا جاتا ، اور خاص طور سے اس مہینہ کے آخری بدھ کے لئے عجیب و غریب افعال ایجاد کر لئے گئے ہیں جن کی بنیاد ایک موضوع روایت پر ہے جس میں آیا ہے کہ اس مہینہ کا آخری بدھ دائمی منحوس ہے ۔(المعجم الاوسط ۶/۲۸۳، تذکرۃ الموضوعات ۷۹۷۱، علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے موضوع قرار دیا ہے ، ضعیف الجامع /۳)
قابل تعجب بات تو یہ ہے کہ ایک طرف ماہ صفر کو منحوس سمجھا جاتا ہے اور دوسری طرف اس مہینہ کے بدھ کے دن کو بہت ساری بدعات وخرافات اجر و ثواب سمجھ کر انجام دی جاتی ہیں ، رنگ برنگ کی محفلیں سجتی ہیں ، قسم قسم کی دعوتیں ہوتی ہیں ، حلوہ خوری ہوتی ہے ، مسرت وشادمانی کاماحول قائم ہوتا ہے نوع بنوع کے مخصوص کھانے تیار ہوتے ہیں ، سیر و تفریح کے لئے مختلف جگہوں کا سفر اور اظہار فرح و سرور کے لئے یہ عقیدہ رکھا جاتا ہے کہ اس دن نبی کریم ﷺ نے غسل صحت فرمایا تھا، حالانکہ مذکورہ اعمال و افعال خود علمائے بریلویہ کی نگاہ میں قابل مذمت ہیں ، چہ جائیکہ قرآن و سنت میں ان کی مشروعیت کی کوئی دلیل یا ان کی کوئی اہمیت و فضیلت ہو ، چنانچہ احمد رضا خان فاضل بریلوی سے مسئلہ پوچھا گیا کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس امر میں کہ ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ (بدھ)کے متعلق عوام میں مشہور ہے کہ اس روز رسول ا کرم ﷺ نے مرض سے صحت پائی تھی ، بنابریں اس روز کھانا وشیرینی وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور جنگل کی سیر کو جاتے ہیں ، علی ہذا القیاس ۔ مختلف جگہوں میں مختلف معمولات ہیں ، کہیں اس روز کونحس و نا مبارک جان کر پرانے برتن گلی میں ڈال دیتے ہیں ، اور تعویذ و چھلئہ چاندی اس روز کی صحت بخشی جناب رسول اللہ ﷺ مریضوں کو استعمال کراتے ہیں وغیر ہ ، یہ جملہ امور (بربنائے صحت )لائے جاتے ہیں ، لہذا اس کی اصل شرع میں ثابت ہے یا نہیں ؟ اور فاعل و عامل اس کا بر بنائے ثبوت وعدم ثبوت ، مرتکب معصیت ہو گا یا قابل ملامت و تادیب
احمد رضا خان فاضل بریلوی اس کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : آخری شنبہ (بدھ)کی کوئی اصل نہیں ، نہ ہی آپ ﷺ نے اس دن صحت پائی ، بلکہ مرض اقدس میں وفات مبارک ہوئی ، اس کی ابتداء اسی دن سے بتائی جاتی ہے ، اور مروی ہوا کہ ابتداء ابتلاء ایوب علیہ السلام اسی دن تھی ، اور اسے نجس سمجھ کر مٹی کے برتنوں کو توڑ دینا گناہ اور اضاعت مال ہے ، بہر حال یہ سب باتیں بالکل بے اصل اور بے معنی ہیں ، (احکام شریعت ۲/۱۹۳، ۱۹۴، تعلیمات شاہ احمد حنیف یزدانی ۵۸۔۵۹، طبع مکتبہ نذیر یہ لا ہور پاکستان )۔ اب کیا بریلوی حضرات اس فتوی کا احترام کرتے ہوئے قوم کو رسومات و بد عات کی دلدل سے نکالنے کی مخلصانہ کوشش کریں گے ۔ سچ ہے ۔
ڈرو خدا سے ہوش کرو اور مکر و ریاء سے کام نہ لو فاضل ۔بریلوی احمد رضا خان کے مذکورہ فتوی کے علاوہ یہ عقیدہ تاریخی حیثیت سے بھی غلط اور بے بنیاد ہے ، کیوں کہ سیرت کی کتابیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ آپ کا آغاز مرض۲۹صفر۱۱ھ؁ بروز دو شنبہ ہوا اور ۱۲ ربیع الاول یوم شنبہ وقت چاشت کو آپ کا انتقال ہوا ۔ (رحمت للعالمین ۱/۲۴۱۔۲۴۲، الر حیق المختوم /۷۳۴)
یا بقول بعض ۹ربیع الاول ۱۱ھ؁ کو ہوئی ، (جو کہ صحیح نہیں ہے ) دونو ں تاریخوں میں بدھ کا دن آتا ہے نہ صحت یابی کا ثبوت ملتا ہے بلکہ کسی بھی سیرت نگار نے یہ نہیں لکھا ہے کہ آپ ماہ صفر کے آخری بدھ کو شفایاب ہوئے ، لہذا صحت یابی رسول کے نام پر اس دن خوشی منانا ، سیر و تفریح اور حلوہ خوری کرنا خود ساختہ دین اور شریعت سازی ہے ۔ اگر ماہ صفر کے آخری چہار شنبہ کو کار ثواب سمجھ کر انجام دیئے جانے والے اعمال و رسوم کی کوئی شرعی حیثیت ہوتی ، یا اس میں کسی قسم کا دنیاوی یا اخروی فائدہ ہوتا تو وہ صحابہ کرام ان اعمال کی انجام دہی سے نہ چکتے جو آپ کے ایک اشارہ پر اپنی جان و مال قربان کرنے کے لئے بے تاب رہتے تھے ، آپ ﷺ کے احکام و ارشادات پر عمل پیرا ہونا اپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے بلکہ آپ ﷺ کی ادنی سی ادنی سنت کے لئے مر مٹتے تھے لیکن تقریبا ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ صحابہ کرام ؓ میں سے کسی کے قول و عمل سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ، جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ان اعمال و رسوم کی کوئی حقیقت نہیں ہے ، ورنہ صحابہ کرام پر الزام لازم آئے گا کہ انہوں نے آپ کی صحت یابی کے حسین موقع پر خوشی کا اظہار نہیں کیا ، کیا ان کو آپ ﷺ سے محبت نہیں تھی ؟ یا ان کے دلوں میں آپ کے خلاف نفرت و عداوت تھی یا وہ آپ کی صحت یابی اور حیات نہیں چاہتے تھے ؟(العیاذ با اللہ)
ان تمام حقیقتوں سے قطع نظر ماہ صفر میں نبی ا کرم اکی صحت یابی کے نام پر تعویذ چھلہ پہنناسراسر اسلامی عقیدہ کے منافی اور شرک کے قبیل سے ہے ، چنانچہ سیدنا عقبہ بن عامرص بیان کرتے ہیں کہ رسول ا کرم ا نے فرمایا : جس نے تعویذ لٹکائی اس نے شرک کیا۔
(مسند احمد ۱۵۷۴/۱۷۴۵۸، مسند الحارث ۲/۶۰۰/۵۶۳، شیخ شعیب ارنؤوط نے اس کی سند کو قوی قرار دیا ہے ، اور علامہ البانی نے صحیح الجامع /۶۴۹۴پر صحیح قرار دیا ہے )
سیدۃ زینب رضی اللہ عنہازوجہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں کہ سیدناعبد اللہ رضی اللہ عنہ نے میری گردن میں ایک دھاگہ دیکھا ، تو مجھ سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہے ؟ میں نے عرض کیا یہ وہ دھاگہ ہے جس میں میرے لئے دم کیا گیا ہے ، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس دھاگہ کو پکڑ کر کاٹ دیا پھر فرمایا: تم آل عبد اللہ شرک سے بے نیاز ہو ، میں نے رسول ا کرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (شرکیہ )جھاڑ پھو نک ، تعویذ اور میاں بیوی کے درمیان محبت قائم کرنے کے لئے جادو یا تعویذ کا استعمال شرک ہے ۔ (ابو داؤد۲/۳۸۸۳، صحیح ابن حبان ۱۳/۶۹۰شیخ شعیب ارنؤوط نے اس کے تمام رایوں کو ثقہ قرار کیا ہے ، اور علامہ البانی نے صحیح التر غیب (۳/۳۴۵۷)میں اور امام حاکم نے (۴/۴۱۸)میں اس کو صحیح قرار دیا ہے ، اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے موافقت کی ہے )
چونکہ کڑ ا چھلہ کا استعمال توکل علی اللہ اور قضاء و قدر کے منافی اور خلاف ہے اور غیر اللہ میں نفع و نقصان کی ملکیت کا عقیدہ اور تصور ہے اس لئے اس کی سخت قباحت و شناعت بیان کی گئی ہے چاہے وہ کسی کے نام پر استعمال کیا جائے ، چنانچہ سیدنا عمران بن حصین ص فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے ایک آدمی کے ہا تھ میں زرد رنگ کا کڑ ا چھلہ دیکھا ، آپ ﷺ نے اس آدمی سے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب کیا کہ یہ کمزوری کی وجہ سے ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اسے باہر نکال پھینکو ورنہ تمہارے اندر مزید کمزوری پیدا کرے گی اور اگر تم اسی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے تو کبھی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار نہ ہو گے (مسند احمد ۴/۲۰۰۱۴، ابن ماجہ ۲/۳۵۳۱ابن حبان /۱۴۱۰، امام حاکم نے (۲۱۶۳ )پر صحیح کہا ہے اور امام ذہبی نے موافقت کی ہے ، شیخ
عبد القادر ارنؤوط نے حسن قرار دیا ہے جب کہ شیخ علامہ البانی نے السلسلۃ الضعیفہ ۳/۱۰۲۹میں اور شیخ شعیب ارنؤوط نے مسند احمد میں ضعیف کہا ہے ) لہذا تمام مسلمانو ں کو چاہئے کہ وہ ایسے عقیدوں سے اپنے آپ کو بچائیں جن سے ان کے دین و ایمان کے بربادہونے کا خطرہ ہے اور یہ عقیدہ رکھیں کہ کوئی بھی سال یا مہینے یا دن فی نفسہ منحوس ونامبارک نہیں ہوتابلکہ انسان خود اسے منحوس بنا دیتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اصلی نحوست پروردگار عالم کی نافرمانی ومعصیت ہے جو دنیا کا طالب ہوتا ہے وہ اسباب دنیا مال ودولت ، سیر وتفریح اور نفسانی خواہشات کو ہی سعاد ت سمجھتا ہے اور طلب دنیا میں غلو کی وجہ سے کسی دن یا کسی شخص یا کسی وقت کو منحوس سمجھتا ہے او راسے ہی نفع ونقصان کا مالک سمجھتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس عقیدے کی تردید کرتے ہوئے بیان فرمایا: آپ ان سے کہیے کہ اچھا یہ بتاؤ جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو ، اگر اللہ مجھے نقصان پہنچانا چاہے تو کیا یہ اس کے نقصان کو ہٹا سکتے ہیں ، ’یا ‘اللہ مجھ پر مہربانی کا ارادہ کرے تو کیا وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ مجھے کافی ہے توکل کرنے والے اسی پر بھروسہ کرتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ تما م مسلمانوں کو صحیح سمجھ عطا فرمائے پوری امت کو بدعات وخرافات سے محفوظ رکھے اور اسلامی تشخص اور ثقافت کو زندہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

siratulhuda.com

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User