ماہ صفر کی بدعات
از قلم : ابوعدنان محمد طیب السلفی حفظہ اللہ
برادران اسلام !
اگر آپ سال کے اسلامی وعربی مہینوں پر نظر ڈالیں تو
آپ کو کوئی مہینہ ایسا نہیں ملے گا جس میں نام نہاد مسلمانوں نے کوئی نیا
عمل ایجاد نہ کر رکھا ہو ، مثال کے طور پر محرم میں تعزیہ داری، ماتم
ونوحہ اور مرثیہ خوانی وغیرہ کادور دورہ ہے تو ماہ صفر کی آخری بدھ سیر
وتفریح کے لئے باہر نکلنے والا تہوار، ربیع الاول میں جشن میلاد النبی کی
چہل پہل ہے تو ربیع الثانی میں گیارہویں کے نام سے شیخ عبد القادر جیلانی
رحمۃ اللہ علیہ کے نام پر نذرونیاز، ماہ رجب میں کونڈے تو پھر شعبان میں
شب براءت کی دھوم دھام، الغرض بدعات وخرافات کا ایک سیل رواں ہیں جو
مسلمانوں کو اپنے دھارے میں بہائے لے جارہا ہے ۔
ماہ صفر اسلامی سن ہجری کا دوسرا مہینہ ہے، صفر کو صفر اس لئے کہتے ہیں ایک وبا پھیلی تھی جو لوگوں کو لگتی تولوگ بیمار ہوجاتے اور ان کا رنگ پیلا ہوجاتا تھا، جس کو اپنے یہاں یرقان کی بیماری کہا جاتا ہے۔ دیکھئے بیرونی کی ( کتاب الاثار الباقیہ)
مسعودی نے اپنی تاریخ میں لکھا ہے کہ ملک یمن میں ایک بازار کا نام صفریہ تھا اسی مناسبت سے اس مہینہ کا نام صفر پڑگیا۔
صفر کو صفر اس لئے بھی کہتے ہیں کہ لگاتار حرمت والے مہینے گزرنے کے بعد اہالیان مکہ جب سفر کرتے تھے تو مکہ وہاں کے باشندگان سے خالی ہوجاتا تھا، اس لئے کہ صفر کا معنی ہوتا ہے خالی ہونا ، دیکھئے ابن منظور کی کتاب لسان العرب ج۴ / ص ۴۶۲،۴۶۳۔
صفر سے متعلق بعض مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ مہینہ
منحوس اور خیرو برکت سے خالی ہے بنابریں وہ اس مہینہ میں شادی بیاہ کرنے
کو برا سمجھتے اور سفر کرنے سے باز رہتے ہیں، اور اپنے باطل عقیدے کے
مطابق اس من گھڑت نحوست کو دور کرنے کے لئے چنے کو ابال کر خود کھاتے اور
تقسیم کرتے ہیں اور اپنے اس عمل کو باعث برکت سمجھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھتے
ہیں کہ چنے کو ابال کر کھانے اور کھلانے سے نحوست اور بے برکتی نکل جاتی ہے یہ بالکل مشرکانہ اور جاہلانہ عقیدہ ہے جو نام نہاد مسلمانوں
میں موجود ہے، کیوں کہ اہل جاہلیت کے یہاں بھی ماہ صفر کو منحوس سمجھنا
مشہور ومعروف تھا ،وہ صفر کے مہینہ کو منحوس سمجھتے اور خیر وبرکت سے خالی
خیال کرتے تھے اور نہ ہی مسرت وشادمانی کی محفلیں رچاتے اور نہ کوئی بڑا
کام کرتے تھے اس خیال سے کہ اس میں کوئی نحوست نہ آجائے ،حالانکہ فی نفسہ
ماہ صفر برا نہیں ہے اور نہ ہی اس مہینہ میں سفر کرنا منع ہے ، نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدعقیدہ کی تردید فرمائی ، چنانچہ صحیح بخاری
ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (لاعدوی ولاطیر ولاصفر) “ یعنی اللہ کے حکم کے بغیر کسی کی بیماری کسی کو نہیں لگتی، نہ بدفالی لینا درست ہے اور نہ صفر کا مہینہ منحوس ہے” (صحیح بخاری ومسلم)
اس حدیث کی صحت پر محدثین کا اتفاق ہے، اس لئے بیماری
کے متعدی ہونےکا اور فال بد کا عقیدہ رکھنا اور ماہ صفر کو منحوس اور
نامبارک سمجھنا یہ وہ امور ہیں جن سےدین اسلام کے صاف وشفاف چہرہ پر بد نما
دھبہ پڑتا ہے ،حالانکہ صفر کا مہینہ بھی سال کے دوسرے
مہینوں کی طرح ہے، اس مہینہ کو کوئی ایسی خصوصیت حاصل نہیں جو دوسرے
مہینوں سے اس کوالگ کردے، اور ماہ صفر کے متعلق جو صحیح احادیث پائ جاتی ہے
ان سے صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ماہ کو منحوس سمجھنا صحیح نہیں ہے،اس
مہینہ کا اچھائ اور برائ میں، اللہ عزوجل کی بنائی ہوئ تقدیر میں کوئ عمل دخل نہیں ہے،یہ
مہینہ بھی دوسرے مہینوں کی طرح ہے جس میں خیر وشر وقوع پذیر ہوتا ہے، اس
لئے ماہ صفر یا کسی اور مہینے کو منحوس سمجھنا صحیح نہیں ہے، ہر وہ مہینہ
جس کو ایک مومن اللہ کی اطاعت میں لگادے وہ اس کے لئے بابر کت مہینہ ہے
اور جس کو وہ اللہ کی معصیت ونافرمانی میں لگادے وہ اس
کے لئےمنحوس ہے، علمائے اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس مہینہ کو
منحوس سمجھنا ایک ایسا عقیدہ ہے جو اسلام کی نظر میں باطل ہے اور اہل
جاہلیت کا عقیدہ ہے ۔
جب یہ
مہینہ ختم ہونے پر آتا ہے توبہت سے لوگ اس کے آخری بدھ کو کاروبار بند
کرکے عید کی طرح خوشیاں مناتے ہیں، گاؤں اور شہروں سے باہر جاکر لطیف اور
عمدہ کھانا بناتے اور پھر کھاتے اور کھلاتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینہ کے آخری بدھ کو
بیماری سے صحتیاب ہوئے تھے اور سیر وتفریح کے لئے شہر سے باہر نکلے تھے
اور پھر آپ نے عمدہ اور لطیف کھانا بنایا اورکھایا تھا حالانکہ یہ عقیدہ
حدیث اور تاریخ کی رو سے بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ماہ صفر کی آخری بدھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی ابتدا تھی او ربیع الاول کی ۱۲تاریخ کو آپ کی وفات ہوئی تھی تو جس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار
ہوئے ہوں اور عین اسی دن نام نہاد مسلمان شہر سے باہر سیروتفریح کے لئے
نکلیں، قسم قسم کے کھانے کھائیں اور کھلائیں اور، پھر یہ دعوی کریں کہ ہم
مسلمان ہیں عاشق رسول ہیں، ہم ذرا اپنے گریبان میں منہ ڈال کر پوچھیں کہ جو
لوگ اپنے نبی کی بیماری کے دن خوشیاں منائیں کیا وہ عاشق رسول محب رسول
کہلانے کے حقدار ہیں ؟
اس
کے برعکس کچھ ملکوں کے مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ ماہ صفر کا آخری بدھ
سال کا سب سے منحوس دن ہے، اور اپنے اس عقیدہ کی اثبات میں بعض کا
یہ قول پیش کرتے ہیں کہ ہر سال ماہ صفر کی آخری بدھ کو تین لاکھ بیس ہزار
بلائیں اترتی ہیں اوریہ سال کا سب سے خطرناک دن ہوتا ہے اس لئے وہ ان
بلاؤں سے بچنےکے لئے ماہ صفر کی آخری بدھ کو چاشت کے وقت
چار رکعات نفل نماز ایک سلام سے پڑھتے ہیں ،ہر رکعت میں ایک دفعہ سورۃ
فاتحہ، سترہ مرتبہ سورہ کوثر، پندرہ مرتبہ سورۃ اخلاص اور ایک ایک بار
معوذتین پڑھتے ہیں، ایسا ہی ہر رکعت میں کرتے ہیں ،پھر سلام پھیرتے ہیں
اور سلام پھیرنے کے بعد (اللہ غا لب علی امرہ ولکن اکثر
الناس لایعلمون) تین سوساٹھ مرتبہ پڑھ کر (سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون
وسلام علی المرسلین والحمد للہ رب العالمین) پر اپنی دعا ختم کرتے ہیں،
پھر فقیروں میں روٹی خیرات کرتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جو شخص
مذکورہ طریقے پر نماز پڑھے گا اللہ تعالی اپنے فضل وکرم سے اسے اس دن
اترنی والی ساری بلاؤں اور آفتوں سے محفوظ فرمائے گا نیز مذکورہ آیت پڑھنےکی برکت سے بھی
ماہ صفر کی آخری بدھ کو اترنے والی بلائیں اور آفتیں ٹل جائیں گی،“ اس
نفل نماز کی بابت جب افتاء کی دائمی کمیٹی سے پوچھا گیا تو جواب تھا کہ اس
نفل نماز کے ثبوت میں کتاب وسنت کی کوئی دلیل نہیں ملتی اور نہ ہی اس امت
کے پہلے اور بعد کے نیک لوگوں نے یہ نفل نماز پڑھی ہیں ،اس لئے یہ بدعت
ہے ،اور فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ( من احدث فی امرنا ھذا مالیس منہ فھو رد)“ جو ہمارے دین میں ایسی بات ایجاد کرےجو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ” ایک دوسری روایت میں ہے (من عمل عملا لیس علیہ امرنا فھو رد)“ جس نے کوئ ایسا کام کیا جو ہمارے دین میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے ” جو اس نمازاور اس کے ساتھ پڑھی جانے والی چیزوں کی نسبت نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے کسی صحابی کی طرف کرے تواس نے بہت بڑا بہتان باندھا، جس پر وہ اللہ تعالی کی طرف سے جھوٹ بولنے والوں کی سزا پانےکا مستحق ہے” دیکھئے (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ج۲/ ۳۵۴)
شیخ محمد عبد السلام شقیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: بعض جہلاء ماہ صفر کی آخری بدھ کو آیات سلام یعنی(سلام علی نوح فی العالمین) لکھ کر پانی کے برتنوں میں ڈال دیتے ہیں پھر اس کو پیتے ہیں اور برکت حاصل کرتے ہیں ایک دوسرے کو ہدیہ بھیجتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اس کے پینے سے تمام برائیاں اور آفتیں دور ہوجائیں گی یہ باطل عقیدہ ،خطرناک بدفالی لینا اور قبیح بدعت ہے اس برائی کے دیکھنے والے پر اس کی نکیر کرنا ضروری ہوجاتا ہے” دیکھئے
(السنن والمبتدعات للشقیری ص ۱۱۱، ۱۱۲)
اسلامی بھائیو! مذکورہ ساری چیزیں بدعات وخرافات ہیں جن کا دین سے کوئی تعلق نہیں ، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے ( ایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثۃ بدعۃ و کل بدعۃ ضلالۃ) “ نئے کاموں سے بچو ، کیوں کہ ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے”
ذیل میں ماہ صفر سے متعلق بعض وہ جھوٹی اور گھڑی احادیث پیش کی جاتی ہیں جن کو بنیاد بناکر نام نہاد مسلمان مذکورہ بدعات وخرافات انجام دیتے ہیں:
(۱) ( من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنۃ) “ جومجھے ماہ صفر کے گزرنے کی خوشخبری دیے میں اسے جنت کی خوشخبری دیتا ہوں”
یہ حدیث موضوع ہے دیکھئے
(کتاب کشف الخفا للعجلونی ج ۲/ ۳۰۹، کتاب الفوائد المجموعہ فی الاحادیث الموضوعۃ للشوکانی ج۱/ ۴۳۱، کتاب الاسرار المرفوعۃ فی الاخبار الموضوعۃ ج۱/ ۳۳۷)
(۲) (آخر الاربعاء فی الشھر یوم نحس مستمر) “ ماہ صفر کا آخری بدھ منحوس دن ہے” یہ حدیث صحیح نہیں ہے، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نےاس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے۔ دیکھئے (ضعیف الجامع ج۳ )
(۳) (یکون صوت فی صفر ثم تتنازع القبائل فی شھر ربیع ثم العجب کل العجب بین جمادی ورجب )
“ صفر میں ایک آواز پیدا ہوگی ،پھر ماہ ربیع الاول میں قبائل جھگڑیں گے
پھر جمادی الاول والثانی اور رجب کے درمیان عجیب وغریب چیزیں رونما ہوں
گی”یہ حدیث بھی گھڑی ہوئ ہے۔ دیکھئے ( کتاب المنار المنیف لابن القیم ص ۶۴)
اللہ رب السماوات والارض سے دعا ہے کہ وہ ہم تمام مسلمانوں کو بدعت سے بچاکر سنت پر چلنے کی توفیق بخشے۔آمین۔
واللہ الموفق ھو الھادی الی سواء السبیل
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.