Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Monday, January 3, 2011

حجاب اور تعلیماتِ نبوی ﷺ

حجاب اور تعلیماتِ نبوی ﷺ

محترم فضل الرحمن

پردہ اور مسلم معاشرت
 
پھر یہی نہیں، بلکہ بعد کے ادوار میں بھی شرعی پردہ مسلم معاشرت کا حصہ رہا ، نہ اس کی شرعی حیثیت کسی کے ہاں متنازع قرار دی گئی ، نہ اس پر عمل کرنے میں کسی جانب سے کوتاہی سامنے آئی ، استثنائی مثالیں ہر دور میں اور ہر چیز کے بارے میں مل جاتی ہیں ، جو خارج از بحث ہیں، مسلم معاشرے کا عمومی رحجان اور ان کا زاویہ فکر یہی تھا، چناں چہ اخطل کے بارے میں تاریخ میں یہ بیان ملتا ہے کہ وہ ایک بار سعید بن ایاس بن طائی بن قبیصہ کا مہمان ہوا، سعید نے اس کا نہایت خوش دلی سے خیر مقدم کیا اور اس کی دونوں لڑکیاں رعوم او رعمامہ بھی اخطل کی خدمت گزاری میں مصروف رہیں، دوسری مرتبہ کچھ عرصے بعد اخطل کا پھر سعید کے ہاں جانا ہوا، اس موقع پر سعید کی دونوں لڑکیاں جوان ہو چکی تھیں، اس لیے وہ اخطل کے سامنے نہیں آئیں ، یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے کتاب الاغانی کے الفاظ یہ ہیں:” ثم نزل علیہ ثانیة، وقد کبرتا ،فحجبتا فسأل عنھما وقال؟ فاین ابنتای؟ فاخبر بکبرھما“․

اخطل دوبارہ سعید کا مہمان ہوا تو اس کی دونوں لڑکیاں بڑی ہو چکی تھیں ، اس لیے انہوں نے پردہ کیا ، اخطل نے پوچھا کہ میری دونوں لڑکیاں کہاں ہیں ؟ اس پر سعید نے اسے بتایا کہ وہ بڑی ہو چکی ہیں ۔

مسلم معاشرے میں پردہ اس حد تک رائج تھا کہ اگر اس کے خلاف کوئی صورت پیش آتی تو لوگ چونک کر اس کی جانب متوجہ ہو جاتے تھے اور مؤر خین اس واقعے کا ذکر خصوصیت اور اہتمام کے ساتھ کرتے تھے ، معروف مسلم سیاح ابن بطوطہ اپنے سفرنامے میں ترکی کی خواتین کا ذکر کرتے ہوئے اسی کیفیت سے دور چا رنظر آتا ہے ، وہ ایک عورت کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے ”وھی بادیة الوجہ، لان نساء الاتراک لا یحتجبن“․

اس کا چہرہ کُھلا ہوا تھا، کیوں کہ ترک عورتیں پردہ نہیں کرتیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں یہ بات تقریباً متفقہ رہی ہے کہ پردہ شریعت اسلامی کا ایک حکم ہے اور چہرہ پردے کا لازمی او ربنیادی حصہ ہے ، یہ مسئلہ زیر بحث ہی غالباً سب سے پہلے اس وقت آیا ، جب انگریزوں کی بر عظیم میں آمد کے بعد ان کی معاشرت کے زیر اثر متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک ایسا مخصوص طبقہ نمودار ہوا، جو اسلامی شعائر ، احکامات اور اوامرونواہی پر معذرت خواہانہ نقطہ نظر کا داعی، مگراسلامی فکر وتاریخ سے ناواقف تھا ، اس کا ذہن مغربی تعلیم ومعاشرت کے زیر اثر ہونے اور اسلامی علوم سے ناواقفیت کے سبب مغرب سے حد درجہ مرعوب تھا، اس لیے اس کی کوشش تھی کہ مغرب کی تعلیمات ، روایات اور معاشرت کو اسلام کا رنگ دے کر اسلام کا نیا ایڈیشن پیش کر دیا جائے ، یہ طبقہ ختم نہیں ہوا ، بلکہ آج پہلے سے بھی زیادہ طاقت کے ساتھ ہمارے درمیان موجود ہے اورماڈریٹ اسلام کے نام سے اٹھنے والی ہر آواز کے تانے بانے اسی سے جاملتے ہیں ، حالاں کہ اسلام ایک ہے ، خواہ اسے روشن خیال اور ماڈرن اسلام کہا جائے یا قدامت پسند قرار دیا جائے ، درحقیقت یہ سب الفاظ کے گورکھ دھندے ہیں یا تعبیر کا فرق ، ورنہ جو کچھ قرآن وسنت سے ثابت ہے ، جس پر صحابہٴ کرام اور خصوصاً خلفائے راشدین کا تعامل رہا اور جو کچھ رسول الله صلی الله علیہ سلم کی تعلیمات سے واضح ہے ، اسی کا نام اسلام ہے ، پھر ان میں جو اصول وضوابط ہیں وہ تبدیلی سے محفوظ ہیں، البتہ نئے پیش آمدہ حالات کے مطابق فقہائے امت کے سامنے اجہتاد کا دروازہ ہر دور میں کھلا رہا ہے او ران کا عمل اس امر کا شاہد ہے کہ انہوں نے ہر دور میں اپنی اس ذمے داری کو پورا کیا ہے ، لیکن اجتہاد کے نام پر نہ تو ہر کس وناکس کو مسلمات دین کے بارے میں رائے زنی کی اجازت دی جاسکتی ہے، نہ ان امور میں جن کے بارے میں صریح نصوص موجود ہوں نئے سرے سے کسی اجتہاد کی کوشش قبول عام حاصل کر سکتی ہے او رنہ ایسے امور میں وقت وصلاحیت صرف کرنا کسی طرح قوم ودین کی خدمت قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ماقبل میں عرض کیا جاچکا ہے کہ پردہ بذاتِ خود مطلوب نہیں ہے، وہ بہت سی معاشرتی برائیوں سے حفاظت کا ذریعہ ہے، پردے اور حجاب کا ایک بہت اہم مقصد یہ ہے کہ انسان کی ازدواجی زندگی خوش کن ، اطمینان بخش اور کام یاب رہے، جو حجاب شرعی کے بغیر ممکن نہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت مغرب کی طرز معاشرت ہے ، مغرب کے ہاں خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ ایک اٹل حقیقت ہے اور اس کے اسباب میں مرد وزن کا آزادانہ اختلاط سر فہرست ہے ، جس کی روک تھام کے لیے حجاب کو مشروع کیا گیا ہے ۔ ڈاکٹر جمیل واسطی نے آج سے کوئی ساٹھ ستر برس قبل اس دور کی معاشرت او رمغربی اندازِ زیست کو دیکھتے ہوئے لکھا تھا :

” یورپ میں شادی ایک کام یاب ادارہ نہیں ہے او راپنے مقاصد یعنی عورت اور مرد کو تمام عمر آپس میں وفادار رکھنے اور غیر شادی شدہ عورت کی عصمت کو محفوظ رکھنے میں کام یاب نہیں ہوئی ، بلکہ شادی کی تقدیس اور عصمت کی منافقت کو قائم رکھنے کے لیے لاکھوں بے گناہ بچے مجرمانہ اسقاط الحمل کے ذریعے ضائع کر دیے جاتے ہیں باوجود اس کے آلات مانع الحمل بھی بکثرت مستعمل ہیں ، یورپ کی آبادی کے بہ تدریج تنزل کی ایک وجہ یہ جنسی حالات بھی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ قومی آبادی کو گھٹتا ہوا دیکھ کر کئی یورپی سیاست دان شادی اورعصمت کے متعلق قدیم رویے کو بالکل تبدیل کر دینے کے حق میں ہیں ، مذہبی ہدایت اور سیاسی وقومی ضرورت کے باوجود یورپ میں پردے کے بغیر شادی کی تقدیس او رعصمت محفوظ نہیں ، حو حضرات پردے کے مخالف ہیں ان کے لیے یہ مناسب ہے کہ وہ یورپ کے جنسی حالات کی علمی تفتیش کے بعد کسی نتیجے پر پہنچیں۔ روایات کی یاد شاید ایک نسل کو نیک اور شریف رکھے ۔ لیکن دوسری تیسری نسل میں یہی یورپی حالات ہماری معاشرت کا دائمی حصہ بن جائیں گے ۔ اسلام کوئی جادومنتر نہیں کہ بلا محکم یقین اور مناسب عمل کے اخلاقی بلندی کا ضامن رہے۔ جن ممالک نے موجودہ زمانے میں پردہ ترک کیا ہے ، ان کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہے ۔ ان ملکوں میں عورت سے پردہ کرسکنے کی آزادی قانوناً چھن چکی ہے ، نتیجہ یہ کہ جو خرابیاں اس سے پہلے آبادی کے ایک حصہ تک مخصوص تھیں اب عام ہو چکی ہیں“۔

یہ خیال رہے کہ جس پردے کے بارے میں گفتگو ہو رہی ہے ، اس سے شرعی پردہ مراد ہے اور چہرہ اس کا لازمی جز ہے ، اگر چہرے کو اس سے خارج کر دیا جائے تو ساری بحث ہی لایعنی ٹھہرتی ہے، اس لیے کہ مخلوط معاشرت کوجنم دینے والا او رجنس مخالف کو اپنی جانب راغب کرنے والا سب سے پہلے چہرہ ہے ، دوسری چیزوں کا نمبر اس کے بعد آتا ہے ۔

چہرہ ے کو پردے سے خارج کرنے او راپنے آپ کو طفل تسلی دینے کے لیے ایک جملہ یہ تراشا گیا ہے کہ ” آنکھ کا پردہ کافی ہے ۔“ قرآن وسنت اور عام مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ یہ خوش نما جملہ ایک خطرناک مغالطے سے کم نہیں ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ”آنکھ کے پردے“ کا تعین کرنے کے لیے کیا کوئی لگا بندھا فارمولا موجود ہے ، جس کے بعد یہ فیصلہ کیاجاسکے کہ فلاں آنکھ باپردہ اور فلاں بے پردہ ہے؟ ایسی صورت میں تمام نگاہیں تو پردے والی نہیں ہو سکتیں ، سو ان میں سے باپردہ نگاہوں کو کیسے الگ کیا جا ئے گا ؟ ظاہر ہے کہ چند ” معصوم نگاہوں“ کی خاطر پورے معاشرے کو تو آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا ، دوسری بات یہ بھی قابل غور ہے کہ چہرے کا پردہ عورت کے لیے ہے ، سواگر عورت اپنی نگاہوں میں شرم وحیا رکھتی ہے اور کھلے چہرے کے ساتھ باہر آتی ہے تو اس کی حدتک تو یہ بات تسلیم کی جاسکتی ہے ۔ مگر وہ بے پردہ باہر آکر جو سینکڑوں ہزاروں نگاہوں کا نشانہ بنے گی ، ان کی معصومیت کی ضمانت کون دے گا ؟ اس لیے یہ دعویٰ ایک مغالطے کے سوا کچھ نہیں ۔

خود مغرب میں بھی اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ مرد وزن کا آزادانہ اختلاط او رکثرتِ روابط معاشرتی اعتبار سے خطرناک نتائج پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ، انسا ئیکلوپیڈیا برٹانکا کا مقالہ نگار کہتا ہے کہ ( مغرب میں ) فلم ایکٹر، مصنفین اور دوسرے گروہ کے لوگ جو مخالف جنس سے زیادہ آزادانہ تعلقات رکھتے ہیں ، ان میں طلاق کا رحجان زیادہ ہے ۔

اس سے ثابت ہو تا ہے کہ مخلوط بے پردہ معاشرت کا بہت گہرا رشتہ ازدواجی زندگی کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ہے ، گویا باپردہ معاشرت ایک مانع عامل کی حیثیت رکھتی ہے ، بالفاظ دیگر بے پردہ معاشرت خاندانی نظام کو غیر مستحکم کرکے طرح طرح کی سماجی خرابیاں پیدا کرتی ہے ، اس کے مقابلے میں باپردہ معاشرت خاندانی نظام کو مستحکم بناتی ہے، جو نسل انسانی کے لیے مختلف قسم کے عظیم فوائد کی ضامن ہیں ۔

اس موقع پر اسلامی تعلیمات کا یہ مزاج بھی سامنے رہنا چاہیے کہ عورتوں پر پردہ اگرچہ مرد حضرات کے لیے بھی ہے، لیکن اس کی اصل مشروعیت خواتین ہی کو زحمت سے بچانے کے لیے ہوئی ہے اور اس کا پہلا مقصد خواتین ہی کو ریلیف دینا ہے۔

حجاب پر ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان ضمیر پر اعتماد کرنے کے بجائے جبر پر اعتماد کرتے ہیں ،لیکن دیکھا جائے تو یہ بھی ایک ذہنی مغالطہ ہے، اگر اسی بات کو بنیاد بنا لیا جائے تو دنیا کے کسی کونے میں بھی تعزیرات وغیرہ کے سلسلے سے تعلق رکھنے والے قوانین رائج ہی نہ ہوں ، مہذب ممالک میں ادنیٰ اشیا کی چوری کے معاملے میں قوانین پارلیمنٹوں، عدالتوں، سپاہیوں، ہتھکڑیوں اور قید خانوں کی ضرورت محسوس کیے جانے سے صاف عیاں ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی محض ضمیر پر مکمل اعتماد نہیں کیا جاسکتا اور انسانی ضمیر قانون وتعزیر کی امداد کا محتاج ہے ۔ پردہ ضمیر کی امداد ہے، ضمیر کا بدل نہیں ہے ۔ جس طرح قتل کے خلاف قوانین کی موجودگی میں تمام قتل بالکل بند نہیں ہو جاتے، لیکن اس بہانے سے قتل کے خلاف تمام قوانین کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح پردے کا مکمل سو فیصد کامیاب نہ ہو سکنا اس کے منسوخ کر دینے کے حق میں دلیل نہیں ہے ۔

چہرے کو پردے سے خارج کرنے والے حضرات کو اس امر پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر چہرے کے بغیر پردہ اسلام کے موقف کو ثابت کرنے اور اس کے مقاصد حاصل کرنے کے لیے کافی ہے تو مغرب کے کئی ایک ممالک میں سردی کی زیادتی کے سبب مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین بھی چہرے کے سوا پورے جسم کو چھپا کر او رکپڑوں سے ڈھانپ کر رکھتی ہیں ، اس لیے وہاں وہ تمام خرابیاں نہیں ہونی چاہئیں جو دوسرے علاقوں میں موجود ہیں، حالاں کہ ایسا نہیں ہے ، بلکہ ان علاقوں میں بھی وہ تمام خرابیاں اسی تناسب سے موجود ہیں اور یہ ” پردہ “ ان برائیوں کے سد باب کے لیے کافی نہیں ہے ، جن سے اسلام روکنا چاہتا ہے ۔

اس موقع پر ایک اور غلط فہمی کا ازالہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے ، یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پردہ اور ترقی میں کوئی تعارض ہے ناپردے اور تعلیم میں کوئی تناقض ہے ، حقیقت تو یہ ہے کہ تعلیم وترقی کا پردے کے ساتھ کوئی تعلق ہے ہی نہیں ، آخر بہت سی بے پردہ اقوام آج بھی پس ماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہیں، جب کہ دوسری جانب یہ حقیقت بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ماضی میں جہاں جہاں بھی اسلامی حکومت رہی ہے ، وہاں مسلمان عورتیں باپردہ ہونے کے باوجود بے پردہ عورتوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ، زیادہ مہذب وشائستہ اور مختلف علوم وفنون میں خاص حیثیت کی حامل رہی ہیں۔

اصل میں اس مسئلے کا تعلق خواتین کے پردے سے نہیں ہے ، یہ مسئلہ ہماری مجموعی پس ماندگی او رترقی میں پیچھے رہ جانے سے تعلق رکھتا ہے ، ورنہ اگر خواتین کے پیچھے رہ جانے کا سبب پردہ ہے تو مردوں کے آگے نہ بڑھنے کا سبب کیا ہے ؟ عورتوں کے مقابلے میں اگر مرد کسی حد تک زیادہ پڑھے لکھے نظر آتے ہیں تو اس کا سبب بھی یہ ہی ہے کہ انہیں فطرتاً وقدرتاً زیادہ سہولتیں میسر ہیں ،اس کا تعلق سہولتوں کی دست یابی وعدم دست یابی سے ہے او راس کا حل یہ ہے کہ اسلامی ہدایات کے مطابق خواتین کو باپردہ او رحیا دار ماحول عطا کیا جائے ، یہ نہیں کہ ماحول سے رہی سہی اور بچی کُھچی حیا بھی چھین لی جائے۔

پردہ اور قرآن
آئیے! اب قرآن حکیم دیکھیں کہ اس مسئلے میں ہمیں قرآن حکیم سے کیا راہ نمائی ملتی ہے ، سب سے پہلے اس آیت کا جائزہ لیا جاتا ہے، جس کو ”بے پردگی“ کی دلیل کے طور پر پیش کیا جارہا ہے ، قرآن حکیم میں سورہٴ نور میں الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿ ولا یبدین زینتھن الا ماظہر منھا﴾․

اور وہ اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے۔

چہرے کو حجاب کی تعریف سے خارج قرارا دینے والے حضرات کا استدلال ﴿الا ما ظھر منھا﴾ سے ہے ، اس سے وہ چہرے او رہاتھوں کا استثنا کرتے ہیں، حالاں کہ اس سلسلے میں قرآن حکیم کا موقف سمجھنے کے لیے کئی اور پہلوؤں پر بھی غور کرنا لازمی ہے ، مثلاً:

1.    قرآنِ حکیم میں اسی آیت میں ﴿ولا یبدین زینتھن﴾ دوبارہ فرمایا گیا ، پہلی بار اس سے استثنا ﴿ماظھر منھا﴾ ( یعنی وہ حصہ جو خود بخود ظاہر ہو جائے ) کا ہے او ردوسری بار اس سے استثنا ﴿الا لبعولتھن…﴾ سے محارم ( قریبی رشتہ داروں) کا ہے ، اب غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر پہلے استثنا سے مراد چہرہ اور ہاتھ ہیں تو دوسرے استثنا سے کیا مراد ہے ؟ کیا وہاں بھی چہرہ ہی مراد ہے ؟ مگر محارم سے تو پردہ فرض ہی نہیں ہے ؟ پھر ان کااستثنا کیوں کیا گیا؟

2.    ﴿ولا یبدین زینتھن﴾ میں ظاہر کرنے کی ممانعت ہے اور ﴿الا ماظہر﴾ سے خود بخود ظاہر ہوجانے کی اجازت ہے ، جس میں ارادہ، اختیار اور خواہش کا کوئی دخل نہیں ہوتا ، جب کہ چہرے کا کھولنا خود بخود نہیں ہوتا ، بلکہ وہ ارادے اور اختیار اور خواہش سے ہوتا ہے اس لیے وہ ” ظاہر کرنے“ کے ذیل میں آتا ہے ، اس لیے اس کی ممانعت میں کسے کلام ہو سکتا ہے؟

آیت میں زینت کو پوری طرح چھپانے کا حکم ہے یعنی عورت کو اپنی فطری اور غیر فطری زینت اہتمام کے ساتھ چھپانی چاہیے، الایہ کہ اس کا حصہ خود بخود ظاہر ہو جائے اور یہ ظاہر ہونا کسی طرح بھی بالا رادہ نہ ہو۔ اگر کسی عورت نے اپنے ارادے او راختیار سے اپنی زینت کو ظاہر کیا خواہ وہ محاسن خلقت ہوں جو الله تعالیٰ نے عورت کے اند رپیدا کیے ہیں یا غیر خلقی زینت ہو، جس کو عورتیں بناؤ سنگھار کے ذریعے حاصل کرتی ہیں، مثلاً ہر قسم کے کپڑے ، سرمہ ، ہاتھوں پیروں میں مہندی، انگوٹھی، چوڑیاں، بندے اور پازیب وغیرہ تو یہ قرآن حکیم کی صریح خلاف ورزی ہو گی ، کیوں کہ الله تعالیٰ نے واضح طور پر زینت چھپانے کا حکم دیا ہے۔

3.    اورسب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ آیت حجاب ہے ہی نہیں ، یہ تو آیتِ ستر ہے، اس میں عورت کے لیے پردے کے احکام نہیں، بلکہ ستر کے احکام بیان ہوئے ہیں، چناں چہ صاحب مدار ک التنزیل اس آیت کے ذیل میں لکھتے ہیں :(الا ماظہر منھا) الا ماجرت العادة والجبلة علی ظہورہ وھو الوجہ والکفان والقدمان، ففی سترھا حرج بین“․

﴿الا ماظہر﴾ سے مراد جسم کا وہ حصہ ہے ، جو عادتاً اور انسانی فطرت کے مطابق ظاہر ہو جاتا ہو، اس میں چہرے، ہتھیلیاں اور پیر شامل ہیں ، کیوں کہ ان کو ستر کا حصہ قرار دینے میں بہت بڑا حرج ہے ، اسی طرح امام بیضاوی کہتے ہیں کہ سورہٴ نور کی آیت 31 میں جس ستر کا ذکر ہے اس کا تعلق صرف نماز سے ہے ، پردے سے نہیں، کیوں کہ آزاد عورت کا سارا بدن واجب الستر ہے ، شوہر او رمحرم کے سوا عورت کا بدن دیکھنا کسی مرد کے لیے جائز نہیں، سوائے حالتِ مجبوری کے۔

اور بعض نے اگرچہ چہرے کا استثنا مراد لیا ہے ، مگر ان کے ہاں بھی یہ اجازت فتنے کی عدم موجودگی کے ساتھ مشروط ہے ، سواس دور پرفتن میں تو ان کے ان شاذ اقوال سے بھی استدلال درست نہیں ہو سکتا۔

1.    قرآن حکیم میں ایک اور آیت ہے ، جس میں پردے کا صراحت سے حکم دیا گیا ہے ، اس کی تفسیر میں مفسرین سے یہی منقول ہے کہ اس میں چہرہ شامل ہے ، درحقیقت یہی آیت، آیت حجاب ہے : ﴿یا یھا النبی قل لازواجک وبنٰتک ونسآء المؤمنین یدنین علیھن من جلابیبھن﴾․

اے نبی( صلی الله علیہ وسلم )! آپ اپنی بیویوں او راپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی چادروں کو اپنے اوپر لٹکا لیا کریں۔

جلابیب جمع ہے جلباب کی او رجلباب اس خاص بڑی چادر کو کہتے ہیں جو اوڑھنی کے اوپر لی جاتی ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ جلباب وہ چادر ہے جو خمار کے اوپر استعمال کی جاتی ہے ۔ حضرت ابن مسعود کہتے ہیں کہ جلباب وہ بڑی چادر ہے جو دوپٹے کے اوپر اوڑھی جاتی ہے ۔ ابوعبیدہ ، حسن بصری، سعید بن جبیر، ابراہیم نخعی اور عطا خراسانی رحہم الله وغیرہ نے بھی جلباب کے یہی معنی بیان کیے ہیں۔

صاحب کشاف فرماتے ہیں کہ چادر کو اپنے اوپر ڈال لیں او راپنے چہروں کو چھپالیں، یہی الفاظ تفسیر مدارک التنزیل میں بھی مذکور ہیں ۔

اس آیت کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی الله عنہما سے منقول ہے کہ مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھر سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے چادر لٹکا کر منھ ڈھانک لیا کریں اور صرف ایک آنکھ ( راستے دیکھنے کے لیے ) کھلی رکھیں۔

اس لیے درست بات یہ ہے کہ جلباب ایک قسم کا برقعہ یا بڑی چادر تھی جوتمام کپڑوں سے زیادہ وسیع ہوتی تھی او رتمام کپڑوں کے اوپر استعمال کی جاتی تھی اور قرآن کریم نے یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان عورتیں جب کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے باہر نکلیں تو جلباب کا ایک حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں، تاکہ چہرہ ڈھک جائے او روہ زمانہ جاہلیت کی عورتوں سے ممتاز ہوجائیں ۔

ابن سعد نے اس آیت کا شان نزول بتانے کے بعد لکھا ہے :

وہ اپنے اوپر اپنی چادریں اس طرح ڈال لیں کہ ایک آنکھ کے سوا باقی سارے چہرے کو وہ چادر ڈھانپ لے۔

تفسیر کشاف میں ہے:

سو ان کو حکم دیا گیا کہ وہ لونڈیوں کے انداز اختیار نہ کریں اور (اپنے آپ کو چھپانے کے لیے ) چادریں اور برقعے استعمال کریں اور اپنے سروں اور چہروں کوڈھانپ لیں۔

اور بیضاوی نے لکھا ہے کہ جب کسی حاجت کے سبب عورتوں کو باہر نکلنا پڑے تو وہ اپنے چہروں کو چادر اور برقعے وغیرہ کے ذریعے چھپا لیا کریں۔

جصاص احکام القرآن میں لکھتے ہیں:

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے چہرے کو اجنبیوں سے چھپانے کے لیے مامور ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں تمام مفسرین ایک ہی بات بیان کر رہے ہیں کہ چہرہ پردے کا حصہ ، جس کا کھولنا عورت کے لیے جائز نہیں، اس کی روشنی میں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ مفسرین سے سورہ نور کی آیت ﴿الا ماظہر منھا﴾ کی تفسیر میں جو یہ منقول ہے کہ اس میں چہرہ شامل نہیں ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ آیت ستر ہے ، آیت حجاب نہیں اور اس میں صرف ستر کی حدود بیان کی گئی ہیں اور ستر میں بالا تفاق چہرہ شاملنہیں ہے ، اس لیے عورت محارم کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ مفسرین دو مختلف آیات کی تفسیر میں دو مختلف موقف پیش کریں ، ایک مقام پر چہرے کے پردے کی نفی کریں اور دوسرے مقام پر اس کو ثابت کر دیں۔

2.    سورہ احزاب میں بھی دوسرے مقام پر فرمایا:﴿واذا سئلتموھن متاعاً فسئلوھن من وراء حجاب﴾․

اور جب تم پیغمبر کی بیویوں سے ضرورت کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے ما نگو۔

اس آیت کے نازل ہونے کے بعد ازواج مطہرات نے اپنے اپنے گھروں کے دروازوں پر پردے لٹکالیے تھے۔

آیت کے ذیل میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ پردے کے احکام جن مردوں اور عورتوں کو دیے گئے ہیں ان میں عورتیں تو ازواج مطہرات ( امت کی مائیں) ہیں، جن کے دلوں کو پاک وصاف رکھنے کا ذمہ حق تعالیٰ نے لیا ہے جس کا ذکر اس سے پہلے آیت ﴿لیذھب عنکم الرجس اہل البیت ویطھر کم تطھیراً﴾ میں مفصل آچکا ہے۔ دوسری طرف جو مرد مخاطب ہیں وہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں، جن میں سے بہت سے حضرات کا مقام فرشتوں سے بھی آگے ہے، لیکن ان سب امور کے ہوتے ہوئے ان کی طہارت قلب اور نفسانی وساوس سے بچنے کے لیے یہ ضروری سمجھا گیا کہ مرد عورت کے درمیان پردہ کرایا جائے۔ آج کون ہے جواپنے نفس کو صحابہ کرام کے نفوس پاک سے او راپنی عورتوں کے نفوس کو ازواج مطہرات کے نفسوس سے زیادہ پاک ہونے کا دعوی کرے اور یہ سمجھے کہ ہمارا اختلاط عورتوں کے ساتھ کسی خرابی کا موجب نہیں ۔

جب صحابہ کرام جیسے نفوس پاک کو سامنے آکر بات کرنا منع ہے تو عام خواتین کے لیے چہرے کا چھپانا بطریق اولیٰ ضروری ہو گا۔

3.    پھر اسی آیت میں اس حکم کی علت یہ بیان فرمائی: ﴿ذلکم اطھر لقلوبکم وقلوبھن﴾․

یہ حجاب تمہارے او ران کے قلوب کے لیے طہارت وپاکیزگی کا بہترین ذریعہ ہے۔

اس کا صریح او رصاف مطلب یہ ہے کہ جس طرح پردہ مرد اور عورت کی طہارت قلبی اور پاکیزگی کا ذریعہ ہے، اسی طرح بے پردگی دلوں کی نجاست او رگندگی کا ذریعہ ہے۔

4.    ﴿ولا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبہ مرض﴾․

سو تم نرم لہجے میں بات نہ کیا کرو کہ اس سے اس شخص کو ( فساد) خیال پیدا ہونے لگتا ہے جس کے دل میں مرض ہے۔

اس آیت میں آواز کی طبعی نزاکت کو چھپا کر بات کرنے کا حکم ہے۔ جب عورت کی آواز ایسی قابل اخفا ہے تو صورت یعنی چہرہ کیوں نہ قابل اخفا ہو گا ،جو فتنے کا اصل مبدا او رسبب ہے؟

5.    اگر یہ مان لیا جائے کہ سورہٴ احزاب کی اسی آیت میں ازواج مطہرات سے ضرورت کی چیز پردے کے پیچھے سے مانگنے کا جو حکم دیا گیا تھا وہ ازواج مطہرات کے لیے خاص تھا تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ عام مسلمان عورتوں کے لیے پردے کا کوئی حکم نازل ہی نہیں ہوا ۔ پردے کا جو حکم امہات المؤمنین کے لیے نازل ہوا تھا وہ ان کے ساتھ ہی ختم ہو گیا ، حالاں کہ اس پرسب سلف وخلف کا اتفاق ہے کہ پردے کا حکم مسلمان عورتوں کے لیے ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ صحابیات پردے کے حکم سے مامور تھیں۔

6.    سورہٴ احزاب ہی میں عورتوں کے متعلق یہ حکم بھی ہے: ﴿وقرن فی بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاھلیة الاولیٰ﴾․

اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور زمانہ جاہلیت کی طرح اپنی زیب وزینت کا اظہار نہ کرو۔

اگر عورتوں کو کھلے منھ پھرنے کی اجازت ہوتی تو الله ان کو گھروں میں قرارپکڑنے کا حکم نہ دیتا او رنہ زمانہ جاہلیت کی طرح زیب وزینت کے اظہار سے منع فرماتا۔

7.    سورہٴ نور میں ہے :﴿ یاایھا الذین اٰمنوا لاتدخلوا بیوتا غیر بیوتکم حتی تستانسوا وتسلموا علی اھلھا﴾․

اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا اورگھروں میں (بے دھڑک) نہ داخل ہو جایا کرو، جب تک کہ اجازت نہ لے لو او روہاں رہنے والوں کو سلام نہ کرلو۔

اگر عورتوں کو عام طور پر چہرہ کھول کر پھر نا جائز ہوتا تو پھر کسی کے گھر میں داخل ہونے کے لیے اجازت لینا فرض اور واجب نہ ہوتا، جیسا کہ اس آیت میں صراحتاً مذکور ہے۔

8.    سورہ نور ہی میں ہے: ﴿قل للمؤمنٰت یغضضن من ابصارھن﴾․

آپ مومن عورتوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں۔

اگر عورتوں کو عام مردوں کے سامنے چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہے تو پھر ان کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی؟

9.    اسی آیت میں ﴿الا ماظھر منھا﴾ سے متصل ﴿ولیضر بن بخمرھن علی جیوبھن﴾ آیا ہے، یعنی عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رکھیں۔

اس زمانے میں عرب کی عورتیں اپنے دوپٹے سر کے اوپر ڈال کر دونوں پلووں کو گردنوں کے پاس سے پشت پر ڈال لیا کرتی تھیں ، اس طرح ان کے سینے کھلے رہتے تھے ، آج کل بھی دیہات کی بعض بڑی بوڑھیاں اپنے دوپٹے اسی طرح پشت پر ڈال لیتی ہیں ، ماڈرن او رفیشن ایبل خواتین اس سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں ، ان میں سے بیشتر تو دوپٹے سے ہی بے نیاز ہیں ، باقیوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوپٹے کو گردن میں ڈال لیتی ہیں ، حالا ں کہ الله تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ عورتیں ہر وقت اپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈال کر رکھیں، تاکہ ان کے گریبان او رسینے کھلے نہ رہیں ، پس جب عورتوں کو سینہ تک دوپٹے سے چھپانے کا حکم ہے تو چہرہ کھول کر مردوں کے سامنے آنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے ؟

10.    اسی آیت میں اس کے بعد تاکید کے لیے زینت چھپانے کا حکم دوبارہ دیا گیا اور ساتھ ہی بارہ قسم کے محارم ( باپ، بیٹا، بھائی وغیرہ ) کا استثنیٰ ہے، جب عورت کو عام لوگوں کے سامنے چہرہ او رہاتھ کھولنے کی اجازت ہو گئی تو باپ بیٹا بھائی وغیرہ کے استثنیٰ کی کیا ضرورت تھی ۔ اس لیے آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ سوائے ان محارم کے جن کا آیت میں ذکر ہے کسی اور کے سامنے عورت کو چہرہ کھولنے کی اجازت نہیں ۔

11.     سورہ نور میں ہے : ﴿ولا یضربن بارجلھن لیعلم ما یخفین من زینتھن﴾․(سورہٴ نور ، آیت:32)

اور عورتیں اپنے پاؤں ( زمین پر) زور زور سے مارکر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ عورت کے لیے ہرایسی حرکت ممنوع ہے جس سے اس کی چھپی ہوئی زینت کا اظہارہو، یہاں تک کہ اس کا عطر اور خوش بو لگا کر گھر سے باہر نکلنا بھی منع ہے ۔

مذکور آیت سے ظاہر ہے کہ جس طرح زینت کااظہار موجب فتنہ ہے، اسی طرح زینت کی آواز کا اظہار بھی موجبِ فتنہ اور ممنوع ہے ، ظاہر ہے عورت کی آواز زیور کی آواز سے زیادہ فتنے کا سبب ہے، اس لیے عورت کی آواز زینت کی آواز سے زیادہ حرام ہو گی ، ایسی صورت میں چہرہ اور ہتھیلیاں کھولنا کیسے جائز ہو سکتا ہے؟

جس طرح عورت کے لیے اپنے زیور کی آواز کا نکالنا ناجائز اور حرام ہے، اسی طرح عورت کا اپنی آواز نکالنا مثلاً کسی اجنبی مرد سے بلاضرورت بے تکلفی سے باتیں کرنا یا گانا گانا وغیرہ بدرجہ اولی حرام ہو گا۔ لہٰذا عورت کی آواز کا بھی پردہ واجب ہے ۔

12.     سورہٴ نور میں دوسرے مقام پر ارشاد ہے:﴿والقواعد من النساء التی لایرجون نکاحاً فلیس علیھن جناح ان یضعن ثیابھن غیر متبرجت بزینة، وان یستعففن خیر لھن﴾․

اور بڑی بوڑھی عورتیں جنہیں نکاح کی امید ہی نہ رہی ہو تو ان پر بھی کچھ گناہ نہیں کہ وہ اپنے ( زائد) کپڑے ( چادریں) اتار دیا کریں۔ بشرط کہ وہ اپنی زینت ظاہر کرنے والی نہ ہوں۔ اور اگر وہ اس ( چادریں اتارنے) سے بھی بچیں تو ان کے لیے زیادہ بہتر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اتنی بوڑھی عورت جس کی طرف رغبت کا کوئی احتمال ہی نہ رہے، برقع کے بغیر باہرنکل سکتی ہے۔ مگر اس کے لیے بھی بہتر یہی ہے کہ چہرہ نہ کھولے۔ پس جب بوڑھی عورت کے لیے بھی بہتر اسی کو قرار دیا گیا کہ وہ چہرہ ڈھانپ کر رکھے تو نوجوان عورت کے لیے چہرہ کھولنے کی اجازت کیسے ہو سکتی ہے؟
جامعہ فاروقیہ کراچی

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User