ہم شرمندہ ہیں
رضوان انس
رگیں
تنی ہوئیں، آنکھوں میں آنسو، چہرہ
متغیر، مٹھیاں بھنچی ہوئیں، وہ عجب بے
چینی کے عالم میں کہہ رہا تھا،
”ہمارے ہوتے ہوئے پیارے پیغمبر صلی
اللہ علیہ وسلم کی اس قدر گستاخی کہ
میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے
خاکے بنانے پر مقابلوں کا انعقاد کیا
جائے گا!! یا خدا! یہ زمین پھٹ
کیوں نہیں جاتی کہ اس میں سما
جائیں، ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان اور
اتنی بے حسی....!!“ وہ جذبات کی شدت سے
بولے جا رہا تھا اور یہ شدت ہر
مسلمان میں ہونی چاہےے کہ حرمت
رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر مر مٹنے کا
جذبہ ہی تو ایمان ہے۔ حبِ نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کے بغیر مسلمان کی
زندگی تو کتاب کے اس پھٹے ہوئے
صفحے کی طرح ہے جو کتاب سے نکل جانے کے
بعد اپنے سیاق و سباق سے کٹ کر بے معنی
ہو جاتا ہے اور کاغذ کے ایسے ٹکڑے سے
زیادہ نہیں رہ جاتا جو ہوا کے
رحم و کرم پر ادھر ادھر اڑتا
پھرتا ہے۔ہم تو اسی طرح ماہی بے آب کی
طرح تڑپ رہے ہیں مگر کیا خود مغرب کو
معلوم بھی ہے کہ وہ کس شخصیت پر
طعن کرتے ہیں؟
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجلس رسول میں بیٹھے تھے، کہنے لگے اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں لیکن اپنی جان سے زیادہ نہیں! فرمایا: ”عمر! تب تک ایمان مکمل نہ کر پاﺅ گے جب تک مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز نہ پاﺅ گے۔“ فکرِ ایمان نے عمر رضی اللہ عنہ کو تڑپا دیا، برجسة بولے، ( رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولا)
ذرا سوچئے! ایک شخص آئے اور وقت کے حکمران کے گلے میں کپڑا ڈال کر زور سے کھینچے اور مال کا مطالبہ کرے اور حکمران بھی ایسا ہو کہ جس کے اشارہ ابرو پر اس کے ساتھی آگ کے دریا عبور کر جائیں، مگر قربان جاﺅں کہ وہ اس گستاخی پر بجائے ناراضی کے مسکرا دے اور اس کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے اسے مال و متاع سے بھی نوازے۔
وہ شخصیت جسے گلیوں، بازاروں میں گھسیٹا جا رہا ہے، پتھر مارے جا رہے ہیں، آوازے کسے جا رہے ہیں، کوئی پاگل کہتا ہے، کوئی ساحر کہتا ہے، کوئی دیوانہ تو کوئی مجنوں! راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور کوڑا کرکٹ اس پر پھینکنے کو سعادت سمجھا جاتا ہے مگر جب وہی شخص فاتح بن کر سامنے آتا ہے اور ظلم کرنے والے ہاتھ جوڑے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں تو کیا تصور میں آتا ہے کہ ان لوگوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ لیکن ہاں! دنیا کی تاریخ میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں کہ جنھوں نے اپنے اوپر کےے ہوئے اپنی قوم کے سارے مظالم معاف کر دیے۔
حوصلہ کس میں ہے دشمن کو دعا دینے کا
روایت یہ بھی محمد کے گھرانے تک ہے
غالب نے کیا خوب کہا ہے:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیں
آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
(غالب تو اس کی تعریف کیا کرے گا جس ہستی کی تعریف خود رب کائنات کرتا ہے وہی ذات پاک ہی محمدﷺ کا صحیح مقام و مرتبہ جانتی ہے)
یہی تو وہ اوصاف حمیدہ تھے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ جن سے مرعوب ہو کر غیر بھی توصیفی الفاظ کہنے پر مجبور ہوئے، ذرا اس ہندو شاعر کو تو دیکھےے کہ کس انداز سے نبی کریم صلی اللہ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے:
لے کر کے زمیں تابہ فلک مال کے انبار
دریا سبھی موتی بنیں پارس بنیں کوہسار
اک طرف کھڑے ہوں جو مرے سید الابرار
پوچھے کوئی پھر، کالکا پرشاد سے کیا لے؟
نعلین کفِ پائے نبی سر پر اٹھا لے
ادھر ایک سکھ شاعر اپنی وابستگی کا اظہار یوں کرتا ہے:
ہو جائے محبت کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں
برطانیہ کی نامی گرامی شخصیت سر ولیم مور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یوں رقمطراز ہوتی ہے: ”بت پرستی اور تاریک توہمات کو ختم کرنے والا، توحید اور رحمت کا تصور دینے والا، ایمان کی بنا پر برادرانہ محبت، یتیموں کی پرورش، غلاموں سے احسان، شراب کی ممانعت، جو کامیابی اسلام نے حاصل کی کسی اور مذہب کو نصیب نہیں ہو ئی۔“
ڈاکٹر موڈی وائیڈن اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتا ہے: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین نے اس حقیقی آزادی کا اعلان کیا جو انسان کے وہم و گمان سے بلند تھی۔ اسلام کا خدا اتنا بلند و بالا ہے کہ اس کے سامنے دنیا کے تمام افکار اور نظام ہیچ ہیں۔“
مغرب کا نوبل انعام یافتہ عظیم مصنف جارج برنارڈ شا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر عقیدت کے نذرانے یوں نچھاور کرتا ہے:
”میں نے اس عظیم ہستی کا مطالعہ کیا ہے، حیران کن شخصیت! میری رائے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا نجات دہندہ ماننا چاہےے۔“
تو سنو اے اہل یورپ! اپنے ہی مفکرین کا کہا مان لو، برنارڈشا کہتا ہے: ”اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان دنیا کی لیڈر شپ سنبھال لے تو زمین امن و مسرت کا گہوارہ بن جائے۔“ اور اسی مفکر نے یورپ کے لےے کہا تھا: ”کل کا یورپ (یوں کہےے مغرب) اسلام قبول کرے گا، یہ میری پیشگوئی ہے۔“
آج کے یہ ظالم عیسائی یہودی کیا جانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو! ارے ظالمو کچھ اپنے بڑوں ہی سے ادب سیکھ لو۔ کم ظرف ہمیشہ گری ہوئی حرکت کرتا ہے کہ خود اس کے دامن میں سوائے گند کے کچھ نہیں ہوتا۔ اخلاق سے بے بہرہ، گراوٹ کی پستیوں میں گری ہوئی آج کی اقوام مغرب سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؟
لیکن اب انھیں جان لینا چاہےے کہ مسلمان ہر دکھ تکلیف کو تو برداشت کر سکتا ہے لیکن کوئی اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک دامن پر کیچڑ اچھالے اور خاکے بنا کر بے حرمتی کرے یہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمیں چاہےے کہ ہم اپنی مسلمانی کا ثبوت دیں اور ہر فورم پر اپنی آواز، اپنے جذبات پورے زور سے حکومت تک پہنچائیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ان موذیوں کے خلاف محاذ قائم کرے کہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنا ہی عین ایمان ہے۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجلس رسول میں بیٹھے تھے، کہنے لگے اے اللہ کے رسول! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ پیارے ہیں لیکن اپنی جان سے زیادہ نہیں! فرمایا: ”عمر! تب تک ایمان مکمل نہ کر پاﺅ گے جب تک مجھے اپنی جان سے زیادہ عزیز نہ پاﺅ گے۔“ فکرِ ایمان نے عمر رضی اللہ عنہ کو تڑپا دیا، برجسة بولے، ( رضیت باللہ ربا وبالاسلام دینا و بمحمد نبیا ورسولا)
ذرا سوچئے! ایک شخص آئے اور وقت کے حکمران کے گلے میں کپڑا ڈال کر زور سے کھینچے اور مال کا مطالبہ کرے اور حکمران بھی ایسا ہو کہ جس کے اشارہ ابرو پر اس کے ساتھی آگ کے دریا عبور کر جائیں، مگر قربان جاﺅں کہ وہ اس گستاخی پر بجائے ناراضی کے مسکرا دے اور اس کا مطالبہ پورا کرتے ہوئے اسے مال و متاع سے بھی نوازے۔
وہ شخصیت جسے گلیوں، بازاروں میں گھسیٹا جا رہا ہے، پتھر مارے جا رہے ہیں، آوازے کسے جا رہے ہیں، کوئی پاگل کہتا ہے، کوئی ساحر کہتا ہے، کوئی دیوانہ تو کوئی مجنوں! راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور کوڑا کرکٹ اس پر پھینکنے کو سعادت سمجھا جاتا ہے مگر جب وہی شخص فاتح بن کر سامنے آتا ہے اور ظلم کرنے والے ہاتھ جوڑے معافی کے خواستگار ہوتے ہیں تو کیا تصور میں آتا ہے کہ ان لوگوں کو معاف کر دیا جائے گا؟ لیکن ہاں! دنیا کی تاریخ میں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسی ہستی ہیں کہ جنھوں نے اپنے اوپر کےے ہوئے اپنی قوم کے سارے مظالم معاف کر دیے۔
حوصلہ کس میں ہے دشمن کو دعا دینے کا
روایت یہ بھی محمد کے گھرانے تک ہے
غالب نے کیا خوب کہا ہے:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گزاشتیں
آں ذاتِ پاک مرتبہ دانِ محمد است
(غالب تو اس کی تعریف کیا کرے گا جس ہستی کی تعریف خود رب کائنات کرتا ہے وہی ذات پاک ہی محمدﷺ کا صحیح مقام و مرتبہ جانتی ہے)
یہی تو وہ اوصاف حمیدہ تھے پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ جن سے مرعوب ہو کر غیر بھی توصیفی الفاظ کہنے پر مجبور ہوئے، ذرا اس ہندو شاعر کو تو دیکھےے کہ کس انداز سے نبی کریم صلی اللہ کو خراج عقیدت پیش کرتا ہے:
لے کر کے زمیں تابہ فلک مال کے انبار
دریا سبھی موتی بنیں پارس بنیں کوہسار
اک طرف کھڑے ہوں جو مرے سید الابرار
پوچھے کوئی پھر، کالکا پرشاد سے کیا لے؟
نعلین کفِ پائے نبی سر پر اٹھا لے
ادھر ایک سکھ شاعر اپنی وابستگی کا اظہار یوں کرتا ہے:
ہو جائے محبت کسی سے کوئی چارہ تو نہیں
صرف مسلم کا محمدﷺ پہ اجارہ تو نہیں
برطانیہ کی نامی گرامی شخصیت سر ولیم مور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یوں رقمطراز ہوتی ہے: ”بت پرستی اور تاریک توہمات کو ختم کرنے والا، توحید اور رحمت کا تصور دینے والا، ایمان کی بنا پر برادرانہ محبت، یتیموں کی پرورش، غلاموں سے احسان، شراب کی ممانعت، جو کامیابی اسلام نے حاصل کی کسی اور مذہب کو نصیب نہیں ہو ئی۔“
ڈاکٹر موڈی وائیڈن اپنے جذبات کا اظہار یوں کرتا ہے: ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین نے اس حقیقی آزادی کا اعلان کیا جو انسان کے وہم و گمان سے بلند تھی۔ اسلام کا خدا اتنا بلند و بالا ہے کہ اس کے سامنے دنیا کے تمام افکار اور نظام ہیچ ہیں۔“
مغرب کا نوبل انعام یافتہ عظیم مصنف جارج برنارڈ شا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر عقیدت کے نذرانے یوں نچھاور کرتا ہے:
”میں نے اس عظیم ہستی کا مطالعہ کیا ہے، حیران کن شخصیت! میری رائے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانیت کا نجات دہندہ ماننا چاہےے۔“
تو سنو اے اہل یورپ! اپنے ہی مفکرین کا کہا مان لو، برنارڈشا کہتا ہے: ”اگر آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان دنیا کی لیڈر شپ سنبھال لے تو زمین امن و مسرت کا گہوارہ بن جائے۔“ اور اسی مفکر نے یورپ کے لےے کہا تھا: ”کل کا یورپ (یوں کہےے مغرب) اسلام قبول کرے گا، یہ میری پیشگوئی ہے۔“
آج کے یہ ظالم عیسائی یہودی کیا جانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کو! ارے ظالمو کچھ اپنے بڑوں ہی سے ادب سیکھ لو۔ کم ظرف ہمیشہ گری ہوئی حرکت کرتا ہے کہ خود اس کے دامن میں سوائے گند کے کچھ نہیں ہوتا۔ اخلاق سے بے بہرہ، گراوٹ کی پستیوں میں گری ہوئی آج کی اقوام مغرب سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے؟
لیکن اب انھیں جان لینا چاہےے کہ مسلمان ہر دکھ تکلیف کو تو برداشت کر سکتا ہے لیکن کوئی اٹھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک دامن پر کیچڑ اچھالے اور خاکے بنا کر بے حرمتی کرے یہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتا۔ ہمیں چاہےے کہ ہم اپنی مسلمانی کا ثبوت دیں اور ہر فورم پر اپنی آواز، اپنے جذبات پورے زور سے حکومت تک پہنچائیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ ان موذیوں کے خلاف محاذ قائم کرے کہ حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر کٹ مرنا ہی عین ایمان ہے۔
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.