يزيد پر سب و شتم کا مسئلہ
از قلم صلاح االدین یوسف
اسي
طرح ايک مسئلہ يزيد رحمۃ اللہ عليہ پر سب و شتم کا ہے جسے بدقسمتي سے رواج
عام حاصل ہوگيا ہے اور بڑے بڑے علامہ فہامہ بھي يزيد کا نام برے الفاظ سے
ليتے ہيں ، بلکہ اس پر لعنت کرنے ميں بھي کوئي حرج نہين سمجھتے اور اس کو
"حب حسين " اور "حب اہل بيت" کا لازمي تقاضا سمجھتے ہيں حالانکہ يہ بھي اہل
سنت کے مزاج اور مسلک سے ناواقفيت کا نتيجہ ہے محققين علمائےاہل سنت نے
يزيد پر سب و شتم کرنے سے بھي روکا ہے اور اسي ضمن ميں اس امر کي صراحت بھي
کي ہے کہ يزيد کا قتل حسين ميں نہ کوئي ہاتھ ہے نہ اس نے کوئي حکم ديا اور
نہ اس ميں اس کي رضا مندي ہي شامل تھي۔ ہم يہاں شيخ الاسلام امام ابن
تيميہ رحمۃ اللہ عليہ کے اقوال کے بجائے امام غزالي کي تصريحات نقل کرتے
ہيں جن سے عام اہل سنت بھي عقيدت رکھتے ہيں۔ علاوہ ازيں امام ابن تيميہ کا
موقف کتاب کےآخر ميں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔امام غزالي فرماتے ہيں:
((ما
صح قتلہ للحسين رضي اللہ عنہ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم يصح ذٰلک
لم يجز ان يظن ذٰلک فان اسآءۃ الظن ايضا بالمسلم حرام قال اللہ تعاليٰ:
}يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ
ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا يعلم حقيقہ اصلا
واذا لم يعرف وجب احسان الظن بکل مسلم يمکن احسان الظن بہ))(وفيات
الاعيان: 450/2، طبع جديد)
يعني"حضرت
حسين رضي اللہ عنہ کو يزيد کا قتل کرنا يا ان کے قتل کرنے کا حکم دينا يا
ان کے قتل پر راضي ہونا، تينوں باتيں درست نہيں اور جب يہ باتيں يزيد کے
متعلق ثابت ہي نہيں تو پھر يہ بھي جائز نہيں کہ اس کے متعلق اسي بدگماني
رکھي جائے کيونکہ کسي مسلمان کے متعلق بدگماني حرام ہے جيسا کہ قرآن مجيد
ميں ہے، بنا بريں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق يزيد سے حسن
ظن رکھنے پر بھي ہوتا ہے۔
اسي طرح اپني معروف کتاب احياء العلوم ميں فرماتے ہيں:
((فان
قيل ھل يجوز لعن يزيد بکونہ قاتل الحسين او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم يثبت
اصلاً ولا يجوز ان يقال انہ قتلہ او امر بہ مالم يثبت)) (131/3)
يعني
"اگر سوال کيا جائے کہ کيا يزيد پر لعنت کرني جائز ہے کيونکہ وہ (حضرت
حسين رضي اللہ عنہ کا ) قاتل ہے يا قتل کاحکم دينے والا ہے ؟ تو ہم جواب
ميں کہيں گے کہ يہ باتيں قطعاً ثابت نہيں ہيں اور جب تک يہ باتيں ثابت نہ
ہوں اس کے متعلق يہ کہنا جائز نہيں کہ اس نے قتل کيا يا قتل کا حکم ديا۔"
پھر مذکورۃ الصدر مقام پر اپنے فتوے کو آپ نے ان الفاظ پر ختم کيا ہے:
((واما
الترحم عليہ فجائز بل مستحب بل ہو داخل في قولنا في کل صلوٰۃ اللھم اغفر
للمؤمنين والمؤمنات فانہ کان مؤمنا۔ واللہ اعلم)) (وفيات الاعيان: 450/3،
طبع جديد)
يعني "يزيد کے ليے
رحمت کي دعا کرنا (رحمۃ اللہ عليہ کہنا) نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ
اس دعا ميں داخل ہے جو ہم کہا کرتے ہيں ۔ (يا اللہ! مومن مردوں او ر مومن
عورتوں سب کو بخش دے) اس ليے کہ يزيد مومن تھا! واللہ اعلم"
مولانا
احمد رضا خاں کي صراحت: مولانا احمد رضا خاں فاضل بريلوي، جو تکفير
مسلم ميں نہايت بے باک مانے جاتے ہيں، يزيد رحمۃ اللہ عليہ کے بارے ميں يہ
وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد رحمۃاللہ عليہ اسے کافر جانتے ہيں او
رامام غزالي وغيرہ مسلمان کہتے ہيں، اپنا مسلک يہ بيان کرتے ہيں کہ:
"اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہيں کہ ہم نہ مسلمان کہيں نہ کافر، لہٰذا يہاں بھي سکوت کريں گے۔۔۔" (احکام شريعت، ص:88، حصہ دوم)
فسق
و فجور کے افسانے؟ رہي بات يزيد رحمۃ اللہ عليہ کے فسق وفجور کے
افسانوں کي، تو يہ بھي يکسر غلط ہے جس کي ترديد کے ليے خود حضرت حسين رضي
اللہ عنہ کے برادر اکبر محمد بن الحنفيہ کا يہ بيان ہي کافي ہے جو انہوں نے
اس کے متعلق اسي قسم کے افسانے سن کرديا تھا۔
((ما
رايت منہ ما تذکرون وقد حضرتہ واقمت عندہ فرايتہ مواظباً علي الصلوٰۃ
متحريا للخير يسال عن الفقہ ملازماً للسنۃ)) (البدايۃ والنہايۃ: 236/8،
دارالديان للتراث، الطبعۃ 1988ء)
يعني
"تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو ميں نے ان ميں سے ايسي کوئي چيز نہيں
ديکھي، ميں نے ان کے ہاں قيام کيا ہے اور ميں نے انہيں پکا نمازي ، خير کا
متلاشي، مسائل شريعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پايا ہے۔
(البدايۃ والنہايۃ، ج:8، ص:233)
غزوۂ
قسطنطنيہ کے شرکاء کي مغفرت کے ليے بشارت نبوي: علاوہ ازيں کم از کم ہم
اہل سنت کو اس حديث کے مطابق يزيد کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہيے جس
ميں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنيہ ميں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کي
بشارت دي ہے اور يزيد اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ يہ بخاري کي صحيح حديث ہے اور
آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسي کاہن يا نجومي کي پيشين گوئي نہيں کہ بعد کے
واقعات اسے غلط ثابت کرديں۔ اگر ايساہوتو پھر نبي کے فرمان اور کاہن کي
پيشين گوئي ميں فرق باقي نہ رہے گا۔ کيا ہم اس حديث کي مضحکہ خيز تاويليں
کرکے يہي کچھ ثابت کرنا چاہتے ہيں؟ يہ حديث مع ترجمہ درج ذيل ہے:
((أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ)) (صحيح البخاري ، الجہاد والسير، باب ما قيل في قتال الروم، ح: 2924)
"ميري امت کا پہلا لشکر جو قيصر کے شہر (قسطنطنيہ) ميں جہاد کرے گا، وہ بخشا ہوا ہے۔
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.