ہم اپنے آپ کو جنوں کی ایذا سے کیسے بچائیں
الحمدللہ
اول:-
سوال کرنے والی کی یہ بات کہ اس نے جن کو دیکھا ہے یہ غلط ہے کیونکہ جن تو دیکھ سکتے ہیں اور لوگ انہیں نہیں دیکھ سکتے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا قول ہے:
عادل لوگوں میں سے اگر کوئی یہ گمان کرے کہ وہ جنوں کو دیکھتا ہے تو اسکی گواہی باطل ہوجائے گی کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
"بیشک وہ اور اس کا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے"
مگر یہ کہ وہ نبی ہو ۔ ۔ احکام القرآن (2/195۔196)
اور ابن حزم کا قول ہے:
اور جن کا ہونا یہ حق ہے اور وہ اللہ تعالی کی مخلوق میں سے مخلوق ہے ان میں کافر بھی ہیں اور مومن بھی ہیں اور مومن بھی وہ ہمیں دیکھتے ہیں اور ہم انہیں نہیں دیکھتے وہ کھاتے ہیں اور انکی نسل بھی چلتی ہے اور وہ مرتے بھی ہیں۔
فرمان باری تعالی ہے :
"اے جنوں اور انسانوں کی جماعت"
اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
"اور اس سے پہلے جنوں کو ہم نے لو والی آگ سے پیدا کیا"
اور اللہ تعالی نے ان سے حکایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"اور ہاں بیشک ہم میں سے بعض تو مسلمان ہیں اور بعض بے انصاف ہيں پس جو مسلمان ہو گئے انہوں نے راہ راست کو تلاش کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے"
اور ارشاد باری تعالی ہے:
"بیشک وہ اور اسکا لشکر تمہیں وہاں سے دیکھتا ہے جہاں سے تم اسے نہیں دیکھ سکتے"
اور فرمان ربانی ہے:
"کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے علاوہ دوست بناتے ہو"
اور اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
"جو بھی اس پر ہے وہ فنا ہونے والا ہے۔"
اور اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا "ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے"المحلی (1/32-35)
تو اس لئے ہوسکتا ہے کہ سوال کرنے والی نے خیالاتی اور ہیولا قسم کی کوئی چیز دیکھی ہو یا پھر جن ہوں جنہوں نے اپنی اصل شکل جس پر اللہ تعالی نے انہیں پیدا کیا ہے وہ بدل لی ہو اسے دیکھا ہو۔
دوم:-
اور رہا یہ مسئلہ کہ جنوں کا انسان کو تکلیف دینا تو یہ ثابت ہے اور واقع میں بھی آیا ہے تو اس سے بچاؤ کےلئے قرآن اور شرعی اذکار کو استعمال کیا جانا چاہئے۔
ابن عثیمین رحمہ اللہ کا قول ہے کہ:
اس میں کوئی شک نہیں کہ جنوں کے انسان کو اذیت دینے میں تاثیر ہے جو کہ بعض اوقات قتل تک جاپہنچتی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ اسے تکلیف دیں اور اس پر پتھر پھینکیں اور بعض اوقات انسان کو ڈراتے ہیں اسکے علاوہ اور جو کہ سنت سے ثابت اور وقوع پزیر ہوتا رہتا ہے۔
نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے اپنے ایک صحابی کو ایک غزوہ میں اجازت دی کہ وہ گھر چلا جائے (اور میرا خیال ہے کہ یہ غزوہ خندق کا واقعہ ہے) اور نوجوان تھا اس نے نئ نئ شادی کی تھی جب وہ اپنے گھر پہنچا تو بیوی کو دروازے پر کھڑے پایا تو اسنے بیوی کو ڈانٹا تو بیوی کہنے لگی کہ اندر جاؤ تو جب وہ اندر گیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک بستر پر ایک بڑا سا سانپ لپٹا پڑا ہے اور اسکے پاس نیزہ تھا تو وہ نیزہ اسنے سانپ کو مارا حتی کہ وہ مرگیا اور اسی وقت جس میں سانپ مرا تھا وہ آدمی بھی مر گیا تو یہ پتہ نہ چلا کہ پہلے آدمی مرا ہے یا کہ سانپ تو جب یہ واقعہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے گھروں میں سانپوں کو قتل کرنے سے منع فرمادیا مگر یہ کہ جس کی دم کٹی یا پھر چھوٹی ہو اور وہ جس کی پیٹھ پر دو سفید لکیریں ہوں انہیں قتل کرو۔
تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جن انسانوں پر زیادتی کرتے ہیں اور یقینا وہ انہیں تکلیف بھی دیتے ہیں جیسا کہ یہ واقعہ اس پر شاہد ہے اور بیشک یہ خبریں تواتر کے ساتھ ہیں اور پھیل چکی ہیں کہ بعض اوقات انسان کسی ویران اور اجاڑ جگہ میں جاتا ہے تو اسے پتھر مارے جاتے ہیں اور حالانکہ اس اجاڑ اور ویرانے میں کسی کو نہیں دیکھا جاتا اور بعض اوقات آوازیں سنائی دیتی ہیں اور بعض اوقات درختوں جیسی سرسراہٹ سنائی دیتی ہے اور اسی طرح کی اور چیزیں جن سے انسان وحشت زدہ ہوتا اور تکلیف محسوس کرتا ہے۔
اور ایسے ہی بعض اوقات جن انسان کے جسم میں داخل ہوجاتا ہے یا تو عشق کی بنا پر اور یا پھر تکلیف دینے کے لئے یا کسی اور سبب کی بنا پر۔
اور اسی کی طرف اللہ تعالی کا یہ فرمان اشارہ کررہا ہے۔
"اور وہ لوگ جو کہ سود خور ہیں کھڑے نہیں ہونگے مگر اسی طرح جس طرح وہ کھڑا ہوتا ہے جسے شیطان چھوکر خبطی بنادے۔"
اور اس قسم میں یہ بھی ہے کہ بعض اوقات جن انسان کے اندر سے باتیں کرتا ہے اور جو اس پر قرآن پڑھے اسے مخاطب کرتا ہے اور بعض اوقات پڑھنے والا اس سے یہ وعدہ لیتا ہے کہ وہ واپس نہیں آئے گا۔ اسکے علاوہ بہت سے امور ہیں جن کی خبریں پھیلی اور لوگوں کے درمیان منتشر ہیں۔
تو اس بنا پر جنوں کے شر سے بچاؤ کے لئے انسان کو چاہئے کہ وہ ان اشیاء کو پڑھے جو سنت مطہرہ میں ان سے بچاؤ کے لئے آئی ہیں۔ ان میں سے آیۃ الکرسی بھی ہے۔ اگر انسان رات کو آیۃ الکرسی پڑھے تو ساری رات اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لئے محافظ مقرر ہوجاتا ہے اور صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آ سکتا۔
اور اللہ تعالی ہی حفاظت کرنے والا ہے۔
دیکھیں۔ ۔ مجموع فتاوی۔ ۔ تالیف الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ (1/287-288)
اور سنت (نبوی) میں انسان کے جنوں سے بچاؤ کے لئے بعض اذکار آئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
1- نوں سے اللہ تعالی کی پناہ میں آنا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
"اور اگر شیطان کی طرف سے آپ کو کوئی وسوسہ پہنچے تو آپ اللہ تعالی کی پناہ لیں بیشک وہ ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔"
اور دوسری جگہ پر فرمایا :
"اور اگر شیطان کی طرف سے آپ کو کوئی وسوسہ پہنچے تو آپ اللہ تعالی کی پناہ لیں بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے"
سلیمان بن صرد کہتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے حتی کہ ان میں ایک کا چہرہ سرخ ہو گیا تو نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسے کلمے کا علم ہے کہ اگر یہ اسے کہے تو اس کا غصہ چلا جائے: اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم: میں شیطان مردود سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں۔ اسے بخاری نے (3108) اور مسلم نے (2610) روایت کیا ہے۔
2- معوذتان (سورہ قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس) پڑھنی۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبیصلی اللہ علیہ وسلم جنوں اور انسان کی نظر سے پناہ مانگا کرتے تھے حتی کہ معوذتان (سورہ الفلق اور الناس) نازل ہوئیں تو آپ نے انہیں لے کر باقی کو چھوڑ دیا۔
اسے ترمذی نے (2058) روایت کیا اور حسن غریب کہا ہے اور نسائی نے (5494) اور ابن ماجہ نے (3511) روایت کیا ہے۔
اور اس حدیث کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع (4902) میں صحیح کہا ہے۔
3- آیۃ الکرسی کو پڑھنا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کی زکوۃ کی حفاظت میرے ذمے لگائی تو ایک شخص آیا اور غلہ کو بھرنے لگا تو میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاؤ ں گا تو اس نے کہا کہ میں تجھے کچھ کلمات سکھاتا ہوں اللہ تعالی تجھے ان سے نفع دے گا تو میں نے کہا وہ کونسے کلمات ہیں؟
تو کہنے لگا کہ جب تو اپنے بستر پر آئے تو یہ آیت پڑھا کر "اللہ لا الہ الا ہو الحی القیوم" حتی کہ آیت ختم کی تو بیشک اللہ تعالی کی طرف سے صبح تک ایک محافظ مقرر کردیا جائے گا اور شیطان تیرے قریب نہیں آئے گا۔ تو نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے قیدی نے رات کیا کیا؟ تو میں نے کہا اے اللہ کے رسول مجھے اس نے ایک چیز سکھائی اور اسکا گمان تھا کہ اللہ تعالی مجھے اس کے ساتھ فائدہ دے گا تو نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے کہا وہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ اسنے مجھے حکم دیا کہ جب میں بستر پر آؤں تو آیۃ الکرسی پڑھا کروں اسکا گمان تھا کہ صبح تک میرے پاس شیطان نہیں آئے گا اور میرے لئے اللہ تعالی کی طرف سے ایک محافظ مقرر ہوجائے گا۔ تونبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس نے تیرے ساتھ سچ بولا ہے لیکن اصل میں جھوٹا ہے اور شیطان تھا۔ ۔ اسے بخاری نے (3101) روایت کیا ہے۔
4- سورہ البقرہ کی قرآت کرنی۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کہ اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ، بیشک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ البقرہ پڑھی جائے۔) اسے مسلم نے (780) روایت کیا ہے۔
4- سورۃ البقرہ کا خاتمہ (یعنی آخری آیات)
ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (جس نے رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں تو وہ اسے کفایت کریں گی۔)
اسے بخاری نے (4723) اور مسلم نے (807) روایت کیا ہے۔
اور نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بیشک اللہ تعالی نے آسمان وزمین بنانے سے دو ہزار سال پہلے ایک کتاب لکھی اور اس میں سے دوآیتیں اتاریں جن سے سورۃ البقرہ کو ختم کیا تو جس گھر میں یہ دونوں آیتیں تین راتیں پڑھی جائیں وہاں شیطان نہیں رہتا۔)
اسے ترمذی نے (2882) روایت کیا ہے اور اسے شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔ صحیح الجامع (1799)
5- مندرجہ ذیل کلمہ کو سو مرتبہ پڑھنا۔
{لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئ قدیر}
"اللہ تعالی کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف اور حمد ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
(جو شخص ایک دن میں سو مرتبہ {لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئ قدیر}
(اللہ تعالی کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں وہ اکیلا ہے اور اسکا کوئی شریک نہیں اسی کی بادشاہت ہے اور اسی کی تعریف اور حمد ہے اور ہر چیز پر قادر ہے۔) پڑھتا ہے اسے دس گردنوں کے برابر ثواب ملتا ہے اور اسکے لئے سو نیکی لکھی جاتی اور سو برائی مٹائی جاتی ہے اور شام تک اسکے لئے شیطان سے محفوظ رہتا ہے۔ اور اس سے بہتر کوئی عمل نہیں کرتا حتی کہ کوئی اس سے زیادہ کرے۔) اسے بخاری نے (31119) اور مسلم نے (2691) روایت کیا ہے۔
6- کثرت کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر کرنا۔
حارث اشعری بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بیشک اللہ تعالی نے یحی بن زکریا علیہ السلام کو پانچ کلمات کا حکم دیا کہ ان پر خود بھی عمل کریں اور بنی اسرائیل کو بھی اس پر عمل کرنے کا حکم دیں۔۔۔ اور میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کا ذکر کرو۔ بیشک اس کی مثال اس آدمی کی ہے جس کے پیچھے دشمن لگا ہوا ہو تو وہ ایک قلعہ کے پاس آئے تو اس میں اپنے آپ کو ان سے محفوظ کرلے۔ تو ایسے ہی بندہ اپنے آپ کو شیطان سے نہیں بچا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالی کا ذکر نہ کرے۔) اسے ترمذی نے (2863) روایت کیا اور حسن صحیح کہا ہے۔ اور شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح الجامع (1724) صحیح کہا ہے۔
الشرف: یہ بلند جگہ کو کہتے ہیں۔
ورق: چاندی کو کہتے ہیں۔
احرز: بچالیا اور منع کرلیا۔
7- اذان۔
سہل بن ابو صالح بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے والد نے بنو حارثہ کی طرف بھیجا اور میرے ساتھ ہمارا غلام یا دوست تھا تو باغ سے اسے اس کے نام سے آواز دی گئ تو جو میرے ساتھ تھا اس نے دیوار کے اوپر سے جھانکا تو کچھ بھی نظر نہ آیا۔ تو میں نے اس کا اپنے والد سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر مجھے اس کا پتہ ہوتا کہ تیرے ساتھ یا معاملہ پیش آئے گا تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب آواز سنو تو نماز کی آذان دو کیونکہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (جب نماز کے لئے آذان دی جائے تو شیطان منہ پھیر کر بھاگتا ہے اور اسکی ہوا خارج ہو رہی ہوتی ہے)
اسے مسلم نے (389) روایت کیا ہے۔
حصاص: یعنی ہوا خارج ہونا۔ یا شدید دشمن۔
8- قرآن کا پڑھنا شیطان سے بچاتا ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
"اور جب تو قرآن کی تلاوت کرتا ہے تو ہم تیرے اور انکے درمیان جو کہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے پردہ اور حجاب حائل کردیتے ہیں۔"
واللہ اعلم .
شیخ محمد صالح المنجد
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.