بدھ مت اوراسلام
دنیاکی
مذہبی تاریخ میں چھٹی صدی قبل مسیح کازمانہ خاص اہمیت کاحامل ہے۔ اس صدی
میں بہت سی ایسی شخصیات پیدا ہوئیں ‘جن کی وجہ سے بہت ساری مذہبی تحریکیں
وجودمیں آئیں ۔ ہندوستان میں یہ صدی ایک قومی سطح اورایک عالمی پیمانے
کے دوبڑے مذاہب جین مت اوربدھ مت کی ابتدا کازمانہ ہے۔
بدھ مت اس وقت بھی ایشیاء کے متعددممالک میں اکثریت کامذہب ہے۔تاریخ میں ایک لمباعرصہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعدادبہت زیادہ رہی ہے۔ اس وقت جاپان‘ کوریا‘ منچوریا‘منگولیا‘ چین‘ویت نام‘ تھائی لینڈ‘ برما‘تبت‘ نیپال اور سری لنکامیں بدھ مت ایک زندہ مذہب ہے۔
بدھ مت ایک آدمی سے منسوب مذہب ہے جو ہندوستان میں پیداہوااوراپنی ابتدائی نشوونما کے بعدہندوستان سے نکل کر ایشیاء کے دوسرے ممالک میں پھیلا۔
گوتم بدھ 563 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کااصلی نام ’’گوتم سدھارتھ‘‘ رکھاگیا۔ اس کی پیدائش کے موقع پرایک جوتشی‘ پنڈت آیا جس نے یہ پشین گوئی کی کہ یہ بڑاہوکرایک بہت بڑا سنیاسی یاایک بہت بڑا بادشاہ بنے گا۔
اس کے والدنے اپنے بیٹے کے متعلق یہ پشین گوئی سن کر فیصلہ کرلیاکہ اس کی تربیت شاہانہ اندازمیں کی جائے۔ تاکہ یہ بڑاہوکر بادشاہ بن سکے۔لہٰذا اس نے ایک بہت بڑامحل تعمیر کروایا۔ اس میں ہرقسم کی سہولیات مہیاکی گئیں اور اس بات کوملحوظ خاطررکھاگیاکہ یہ باہرنہ نکل سکے تاکہ اس پردوسرے ماحول کا اثرنہ ہو۔اس نے اپنے فیصلے کے مطابق گوتم بدھ کواس شاہی محل میں رکھا‘وہ پرورش پاتارہا‘ساتھ ساتھ وہ سوچ وبچار بھی کرتا رہا آخرایک شہزادی سے اس کی شادی کردی گئی۔ وقت گزرتا چلا گیا اوراس کے اندرصحیح راہ کی جستجو بڑھتی چلی گئی۔اس کے والد کوکیا خبرتھی کہ اس کے بیٹے کے ذریعے ایک انقلابی اورمذہبی تحریک جنم لینے والی ہے۔ آخرکاروہ دن بھی آیا جب گوتم بدھ شاہی محل میں شاہانہ لباس پہنے‘اپنے ہی خیالوں میں گم صحن میں چہل قدمی کررہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں کچھ مناظر اس کی آنکھوں سے گزرے۔وہ اچانک رک گیااور مزید اپنے خیالوں میں گم ہوگیا۔ شاید کہ وہ اس وقت اپنے آپ سے چندسوالات کررہاتھا۔ شایدکہ وہ سوچ رہاتھا کہ اصلی اور حقیقی زندگی کیااوراس کامقصد کیاہے جس علم کی تلاش وہ چاہتا تھا‘ان مناظرنے اس کے سوالات کاجواب دے دیا۔وہ ایسے عجیب ومنفردمناظرکیاہوسکتے تھے ‘ جنہوں نے اس کی زندگی کی کایاپلٹ دی۔ جن مناظرنے اس کوشاہی محل کوخیرآباد کرکے اپنے جسم پرچیتھڑے پہننے پرمجبوکردیا‘جن مناظرنے اس کے گھر میں اسی دن پیداہونے والے بچے سے جدائی پہ اکسایااور پورے خاندان میں ہلچل اورشور بپاہوگیا۔
روایت کے مطابق سب سے پہلے منظرمیں اس نے ایک ضعیف وکمزور آدمی کودیکھاجسے دیکھ کراسے بوڑھے کاماضی یاد آیا اور اپنے آپ پرنظرڈالتے ہوئے اسے یہ خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی اس ضعیفی کی عمرمیں پہنچے گا۔ دوسرے منظرمیں اس کے سامنے ایک بیمارآدمی آیاجس کے جسم پہ کمزوری کے آثار واضح تھے تواس کے ذہن میں یہ بات سرایت کرگئی کہ وہ بھی اس کی طرح بیمار ہوسکتا ہے۔تیسرے منظرمیں اس کے سامنے ایک جنازہ گزرا تواس کے ذہن میں دنیاکی بے ثباتی آئی کہ ہمیشہ ہردور میں ایسے نہںظ رہنا ہوگا۔ ایک دن میراجنازہ بھی لوگوں کے کندھوں پہ ہوگا۔ چوتھے منظر میں اس کے سامنے ایک فقیر اور درویش آدمی آیا‘اس کے چہرے پہ طمانیت تھی‘وہ بھیک مانگ رہاتھا اوردنیاکے جھنجھٹوں سے بے خبر ایک آزادخیال زندگی بسرکررہاتھا۔ یہی وہ آخری منظرتھا جس کی وجہ سے اسے اس کے من نے سوچنے پہ مجبور کردیاکہ وہ ایسی آزاداوردرویشانہ زندگی بسر کرناچاہتاہے۔
ان چارمناظرنے اس کی کایاپلٹ دی۔اس لاعلمی کے دور میں ایک آدمی نے اتنی جستجوکی ‘صحیح عقیدے کی تلاش کے لیے غوروفکر کیا۔ توآج ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ اس جدید دورکے اندرآج حق کی جستجو‘ محنت اور لگن ہمارے اندرکتنی ہے؟یہ بات بجاہے کہ اس نے سارے خاندان کو ‘ بیوی بچوں کو چھوڑکررہبانیت کی زندگی اختیار کرلی جوکہ اسلام کے منافی ہے‘ لیکن اسلام کے اندر اگر دنیا ہے توساتھ دین بھی ہے۔ والدین ‘ بیوی بچے ہیں توساتھ اگر دین کے لیے قربانی دینی پڑے توجہادکا راستہ بھی ہے۔سوچناتویہ ہے کہ ایک جنازے کودیکھ کر آج آخرت کی فکر ہمارے اندر کتنی پیدا ہوتی ہے؟
آگے چلیے!پھرکیاہوتاہے؟ ان مناظر کودیکھنا ہی تھاکہ اس نے یہ فیصلہ کرلیاکہ جب تک وہ صحیح راہ تلاش نہ کرلے گا‘وہ گھر واپس نہیں آئے گا۔ وہ جنگلوں کی طرف نکل گیا اور مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔وقت گزرتا چلاگیا۔آخرکارایک دن وہ ایک درخت کے سایے تلے ٹھہرا تواسے ایک نفسیاتی سعادت سی محسوس ہوئی ۔ اسی دوران اچانک اسے اپنے اندرسے ایک غیبی آواز سنائی دی کہ آج وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے حتّٰی کہ جہان کاراز معلوم کرلے۔ اس دن سے اس کانام ’’بدھ‘‘ پڑگیا۔جس کامعنی ہے ’’بیدار وہوشیار اورروشنی والاعالم۔‘‘
جب اس کامقصد پورا ہوگیا تواس کے اندرایک اور تڑپ پیدا ہوئی کہ جس راہ کی تلاش کے لیے اس نے اتنی بڑی قربانی دی کیوں نہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ رستہ بتادے۔ اسی طرح اس نے اپنی اس دعوت کاآغاز کیااور اتنی محنت اور لگن سے تبلیغ کی کہ آج دنیاکے بڑے مذاہب میں سے ایک منفرد نام ’’بدھ مت‘ ‘کاہے۔ جس کاذریعہ یہی ایک واحد شخص بنا۔
آج اگریہی تمناامت مسلمہ کے نوجوان کے اندر اجاگر ہوجائے توایک سچامذہب دین اسلام جس کی تعلیمات میں اتنی چاشنی ہے کہ جس کے ماننے والے افرادکی تاریخ آج بھی ہمارے لیے اسوہء حسنہ ہے اورقیامت تک رہے گی‘ باطل ادیان کا خاتمہ کرکے پوری دنیامیں ایک روشن چاندکی طرح نمودار ہوسکتاہے۔
اجمالی طورپر اگردیکھاجائے توبدھ متوں کے نظریات ہندو مت سے مختلف نہیں کیونکہ یہ بھی قانون‘ جزاوسزا اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ باربار کی پیدائش اورجزاوسزا سے نجات پانے کی خاطر برائی اوربھلائی سے رکنے اورخواہشات پرقابوپانے کی کوشش کرتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیرات مانگنا بدھوؤں کی امتیازی علامت ہے۔ عقائدکسی بھی مذہب کی بنیادہوتے ہیں ۔ بدھ مذہب کے مطالعہ سے چندعمومی عقائد ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
تصورخدا
گوتم بدھ کی تعلیمات میں خدایابراھما یاآتماکاکوئی بھی تصور موجود نہیں ۔بدھ کہاکرتاتھاکہ انسان کی نجات خوداسی پرموقوف ہے نہ کہ معبود پراوروہ سمجھتاتھاکہ انسان ہی اپنے نفس کے انجام کو بنانے والاہے۔
مظہرالدین صدیقی لکھتے ہیں :
’’بدھ کی تعلیم یہ تھی کہ روحانی نجات نہ توخدا کی توفیق سے ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بخشش وکرم کانتیجہ ہے بلکہ یہ انسان کی اپنی ذاتی جدوجہد‘آزادی قوت اوراخلاقی کشمکش کاثمرہے۔‘‘
بدھ نے خدا کامکمل طورپرانکاربھی نہیں کیا۔بعض مقامات پہ اس نے خاموشی اختیار کی ہے۔
بدھ مذہب کی تعلیمات کایہاں سے ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس مذہب میں خدا کاکوئی واضح تصور ہی موجود نہیں اس کی بنیادکیاہوسکتی ہے؟
اللہ رب العزت کی ذات جس نے انسان کواشرف المخلوقات بنایا‘بے شمار نعمتوں سے نوازا‘ اتنی بڑی کائنات کانظام چلایا‘اب اگرانسان اس ذات کاہی انکار کردے یااس کے اندر پائی جانے والی صفات کسی دوسرے کے اندر بھی تصورکرلے‘ تواس انسان کی نجات کیسے ممکن ہے؟
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:
سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمo لَہُ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآَخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo(سورۃ الحدید۔1تا3)
’’اللہ کاپاک ہونا بیان کیاہراس چیزنے جوآسمانوں اور زمین مںُ ہے۔ وہی سب پرغالب ‘کمال حکمت والاہے۔اسی کے لیے آسمانوں اورزمین کی بادشاہت ہے۔وہ زندگی بخشتااور موت دیتاہے اوروہ ہرچیز پرپوری طرح قادرہے۔ وہی سب سے پہلے اور سب سے پیچھے ہے اور ظاہرہے اورچھپاہواہے اوروہ ہرچیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے اپنی صفات کو بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا:
ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُo ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَo
(سورۃ الحشر۔23,22)
’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ہرچھپی اور کھلی چیزکوجاننے والاہے۔ وہی بے حدرحم والا‘نہایت مہربان ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ‘بادشاہ ہے‘نہایت پاک ‘سلامتی والا‘امن دینے والا‘نگہبان ‘سب پرغالب‘اپنی مرضی چلانے والا‘بے حدبڑائی والاہے۔پاک ہے اللہ اس سے جووہ شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘
عقیدہ نروان
بدھ مت میں نروان مذہبی زندگی کا مقصودہے۔ گوتم بدھ زندگی کے مسئلہ کاجوشافی وکافی حل تلاش کررہا تھا‘وہ اسے درخت کے نیچے مراقبہ کی حالت میں نروان کی صورت میں ملا۔ نروان ایک ایسی حالت ہے جوعام ذہنی سانچوں سے بالاترہے اور چونکہ وہ ذہن کی گرفت سے آزادہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کابیان ناممکن ہے۔ اس کے باوجود چونکہ گوتم بدھ کواپنا پیغام عوام تک پہنچانااوران کویہ بتاناتھاکہ نروان ہی میں انسان کودکھوں سے مکمل چھٹکارا اور ابدی مسرت حاصل ہوسکتی ہے اوروہی انسان کا حقیقی مطلوب ہوسکتاہے۔ اس لیے نروان کی کچھ تشریح کی گئی۔ بدھ مت میں نروان کی تشریح کے لیے جواستعارات استعمال ہوئے ہیں ‘وہ زیادہ ترمنفی نوعیت کے ہیں ۔یعنی بجائے یہ بتانے کے کہ نروان کیاہے‘یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نروان کیانہیں ہے۔
نروان کی حقیقت گوتم بدھ اپنے الفاظ میں بیان کرتاہے:
’’بھکشوؤ(پیروکارو)!ایسی کیفیت موجودہے جہاں نہ تو خاک ہے نہ پانی‘ نہ آگ ہے نہ ہوا‘نہ لامکانیت ہے‘نہ شعور کی لا محدودیت‘ نہ تو عدم شعورہے اورنہ شعور‘ نہ تویہ دنیاہے اور نہ دوسری دنیا‘ نہ سورج ہے وہاں اورنہ چاند اورہاں بھکشوؤ! میں کہتا ہوں وہاں نہ آنا اورنہ جانا‘ نہ ٹھہرنا ‘نہ گزرجانا اورنہ وہاں پیدا ہونا ہے ۔بغیرکسی سہارے‘ کسی حرکت یاکسی بنیاد کے ہے۔ بے شک یہی دکھوں کاخاتمہ (نروان)ہے۔‘‘
(دنیاکے بڑے مذاہب… عمادالحسن فاروقی)
گوتم بدھ کے اس بیان سے یہی سمجھ میں آتاہے کہ ایسی کیفیت کانام ہے جہاں انسان دنیاسے الگ تھلگ ہوجاتاہے۔ اس کے ذہن میں کوئی دوسرانقطہ نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے جووہ اپنے ذہن میں لے کر سوچتاہے۔ اسے حالت ’’استغراق‘‘بھی کہتے ہیں ۔ ہمیں زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ان کا یہ نظریہ جیسے بھی ہو اورجیسی کیفیت بھی ہو‘یہ اسلام کے فطری مزاج کے خلاف ہے۔ اس طریقہ سے خداکی معرفت حاصل کرنا اور دنیا کے غموں سے نجات حاصل کرنا ۔ کوئی شریعت کامعاملہ نہیں ہے۔ دین اسلام نے ایسی تمام جاہلانہ حرکات وکیفیات کاسختی سے رد فرمایاہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لارھبانیۃ فی الاسلام‘‘
’’اسلا م میں ترک دنیاکاکوئی مقام نہیں ۔‘‘
دین اسلام نے دین کے ساتھ ساتھ دنیابہتربنانے اوراس سے فائدہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔
فرمایا:
رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً۔
(سورۃ البقرہ۔201)
’’ا ے اللہ ہمیں دنیااورآخرت میں بھلائی عطافرما۔‘‘
مزیدفرمایا:وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا۔
(سورۃ القصص۔77)
’’اوردنیاسے اپناحصہ لینامت بھولو۔‘‘
اسلام نے حقوق انسانی پہ بہت زوردیاہے۔ اسلام اس بات کاہرگز حکم نہیں دیتاکہ اپنی ذات اورنفس کوتکلیف پہنچائی جائے۔
گوتم بدھ کے نزدیک جتنی دیرتک آدمی بھکشو یعنی بھکاری نہ بن جائے وہ نروان حاصل نہیں کرسکتا۔ مانگ کرکھاناقابل فخر اور عبادت سمجھتے ہیں ۔ جبکہ دین اسلام اس چیز کی سخت مذمت کرتاہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’تم میں سے جوآدمی مانگتارہے گا‘یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا‘اس کے منہ پرایک بوٹی بھی گوشت نہیں ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی۔
’’انسان کے لیے صرف وہی ہے‘جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘(سورۃ النجم۔39)
تناسخ کاعقیدہ
یہ عقیدہ ہندؤوں کے اندربھی پایاجاتاہے ۔
عبداللہ سدوسی لکھتے ہیں :
’’بدھ کے فلسفے کابنیادی عقیدہ ’’نظریۂ حیات‘‘ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسان کامسلسل وجوداور بقا‘علت اورمعلول کے ایک چکرسے وابستہ ہے ‘اسی کواصطلاح میں دھرم کاچکرکہتے ہیں ۔‘‘(مذاہب عالم)
یہ نظریہ بھی اسلام کے نظریہ حیات سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام کاعقیدہ آخرت بالکل واضح ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیل بھی موجودہے۔
بدھ مت کے نزدیک زندگی ایک لعنت ہے جس سے انسان کوبچ کرنکل جاناچاہیے جبکہ اسلام نے زندگی کولعنت کی بجائے انسان کی آزمائش قرار دیاہے۔یعنی دنیاکی زندگی دارالعمل ہے۔ یعنی دنیاوی زندگی کے اختتام پرایک نئی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔جس میں اس دنیاوی زندگی کا حساب وکتاب ہوتاہے۔
الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَا ۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا۔(سورۃ الملک۔2)
’’زندگی اورموت کی پیدائش اس لیے ہے کہ وہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھے عمل کرتاہے۔‘‘
تصورنجات
گوتم بدھ نے نجات کادارومدار انسان کی ذاتی کوشش پر رکھااوراسے اپنے اعمال کاقطعی طورپر ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
بدھ کاقول ہے:
’’انسان برائی کاارتکاب خودکرتاہے اور اس کے خراب نتیجہ کو بھگتنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔وہ خود ہی برائی سے کنارہ کش ہوسکتاہے اور پاکیزگی اورنجاست دونوں ذاتی صفات ہیں ۔ کوئی بھی دوسرے کوپاکیزہ نہیں بناسکتا۔‘‘
جبکہ اسلام کاتصورتوبہ آسان ہے۔ انسان سے اگر غلطی سرزدہوجائے وہ اللہ کے سامنے عاجزی سے معافی طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کومعاف فرمادیتے ہیں ۔
فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔
’’اورجولوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ‘ہم انہیں ضرور راہ دکھائیں گے۔‘‘(سورۃ العنکبوت۔69)
بدھ مت کے یہ چندبنیادی تصورات تھے ۔ان کے علاوہ بھی ہیں ‘جن کی تفصیل دیناممکن نہیں ۔ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ یہ باطل نظریات کے حامل مذاہب آج کس مستقل مزاجی سے اپنے اپنے عقائد کی ترویج واشاعت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔ان کے کچھ باطل نظریات ہمارے اسلامی معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں جبکہ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اورآسانیوں کاکوئی مذہب مقابلہ نہیں کرسکتا۔ہمیں اللہ کا شکربھی اداکرناہوگا کہ اس نے ہمیں دین اسلام کاپیروکار بنایا اور ساتھ اس سچے اور پیارے مذہب کے لیے اپنے اندر ہرطرح کی قربانی کاجذبہ پروان چڑھاناہوگا۔
اللہ ہمارا حامی وناصرہو۔آمین
بدھ مت اس وقت بھی ایشیاء کے متعددممالک میں اکثریت کامذہب ہے۔تاریخ میں ایک لمباعرصہ اس مذہب کے ماننے والوں کی تعدادبہت زیادہ رہی ہے۔ اس وقت جاپان‘ کوریا‘ منچوریا‘منگولیا‘ چین‘ویت نام‘ تھائی لینڈ‘ برما‘تبت‘ نیپال اور سری لنکامیں بدھ مت ایک زندہ مذہب ہے۔
بدھ مت ایک آدمی سے منسوب مذہب ہے جو ہندوستان میں پیداہوااوراپنی ابتدائی نشوونما کے بعدہندوستان سے نکل کر ایشیاء کے دوسرے ممالک میں پھیلا۔
گوتم بدھ 563 قبل مسیح میں پیدا ہوا۔اس کااصلی نام ’’گوتم سدھارتھ‘‘ رکھاگیا۔ اس کی پیدائش کے موقع پرایک جوتشی‘ پنڈت آیا جس نے یہ پشین گوئی کی کہ یہ بڑاہوکرایک بہت بڑا سنیاسی یاایک بہت بڑا بادشاہ بنے گا۔
اس کے والدنے اپنے بیٹے کے متعلق یہ پشین گوئی سن کر فیصلہ کرلیاکہ اس کی تربیت شاہانہ اندازمیں کی جائے۔ تاکہ یہ بڑاہوکر بادشاہ بن سکے۔لہٰذا اس نے ایک بہت بڑامحل تعمیر کروایا۔ اس میں ہرقسم کی سہولیات مہیاکی گئیں اور اس بات کوملحوظ خاطررکھاگیاکہ یہ باہرنہ نکل سکے تاکہ اس پردوسرے ماحول کا اثرنہ ہو۔اس نے اپنے فیصلے کے مطابق گوتم بدھ کواس شاہی محل میں رکھا‘وہ پرورش پاتارہا‘ساتھ ساتھ وہ سوچ وبچار بھی کرتا رہا آخرایک شہزادی سے اس کی شادی کردی گئی۔ وقت گزرتا چلا گیا اوراس کے اندرصحیح راہ کی جستجو بڑھتی چلی گئی۔اس کے والد کوکیا خبرتھی کہ اس کے بیٹے کے ذریعے ایک انقلابی اورمذہبی تحریک جنم لینے والی ہے۔ آخرکاروہ دن بھی آیا جب گوتم بدھ شاہی محل میں شاہانہ لباس پہنے‘اپنے ہی خیالوں میں گم صحن میں چہل قدمی کررہا تھا۔ چند ہی لمحوں میں کچھ مناظر اس کی آنکھوں سے گزرے۔وہ اچانک رک گیااور مزید اپنے خیالوں میں گم ہوگیا۔ شاید کہ وہ اس وقت اپنے آپ سے چندسوالات کررہاتھا۔ شایدکہ وہ سوچ رہاتھا کہ اصلی اور حقیقی زندگی کیااوراس کامقصد کیاہے جس علم کی تلاش وہ چاہتا تھا‘ان مناظرنے اس کے سوالات کاجواب دے دیا۔وہ ایسے عجیب ومنفردمناظرکیاہوسکتے تھے ‘ جنہوں نے اس کی زندگی کی کایاپلٹ دی۔ جن مناظرنے اس کوشاہی محل کوخیرآباد کرکے اپنے جسم پرچیتھڑے پہننے پرمجبوکردیا‘جن مناظرنے اس کے گھر میں اسی دن پیداہونے والے بچے سے جدائی پہ اکسایااور پورے خاندان میں ہلچل اورشور بپاہوگیا۔
روایت کے مطابق سب سے پہلے منظرمیں اس نے ایک ضعیف وکمزور آدمی کودیکھاجسے دیکھ کراسے بوڑھے کاماضی یاد آیا اور اپنے آپ پرنظرڈالتے ہوئے اسے یہ خیال آیا کہ ایک دن وہ بھی اس ضعیفی کی عمرمیں پہنچے گا۔ دوسرے منظرمیں اس کے سامنے ایک بیمارآدمی آیاجس کے جسم پہ کمزوری کے آثار واضح تھے تواس کے ذہن میں یہ بات سرایت کرگئی کہ وہ بھی اس کی طرح بیمار ہوسکتا ہے۔تیسرے منظرمیں اس کے سامنے ایک جنازہ گزرا تواس کے ذہن میں دنیاکی بے ثباتی آئی کہ ہمیشہ ہردور میں ایسے نہںظ رہنا ہوگا۔ ایک دن میراجنازہ بھی لوگوں کے کندھوں پہ ہوگا۔ چوتھے منظر میں اس کے سامنے ایک فقیر اور درویش آدمی آیا‘اس کے چہرے پہ طمانیت تھی‘وہ بھیک مانگ رہاتھا اوردنیاکے جھنجھٹوں سے بے خبر ایک آزادخیال زندگی بسرکررہاتھا۔ یہی وہ آخری منظرتھا جس کی وجہ سے اسے اس کے من نے سوچنے پہ مجبور کردیاکہ وہ ایسی آزاداوردرویشانہ زندگی بسر کرناچاہتاہے۔
ان چارمناظرنے اس کی کایاپلٹ دی۔اس لاعلمی کے دور میں ایک آدمی نے اتنی جستجوکی ‘صحیح عقیدے کی تلاش کے لیے غوروفکر کیا۔ توآج ہم اپنے آپ سے سوال کریں کہ اس جدید دورکے اندرآج حق کی جستجو‘ محنت اور لگن ہمارے اندرکتنی ہے؟یہ بات بجاہے کہ اس نے سارے خاندان کو ‘ بیوی بچوں کو چھوڑکررہبانیت کی زندگی اختیار کرلی جوکہ اسلام کے منافی ہے‘ لیکن اسلام کے اندر اگر دنیا ہے توساتھ دین بھی ہے۔ والدین ‘ بیوی بچے ہیں توساتھ اگر دین کے لیے قربانی دینی پڑے توجہادکا راستہ بھی ہے۔سوچناتویہ ہے کہ ایک جنازے کودیکھ کر آج آخرت کی فکر ہمارے اندر کتنی پیدا ہوتی ہے؟
آگے چلیے!پھرکیاہوتاہے؟ ان مناظر کودیکھنا ہی تھاکہ اس نے یہ فیصلہ کرلیاکہ جب تک وہ صحیح راہ تلاش نہ کرلے گا‘وہ گھر واپس نہیں آئے گا۔ وہ جنگلوں کی طرف نکل گیا اور مسلسل جدوجہد کرتا رہا۔وقت گزرتا چلاگیا۔آخرکارایک دن وہ ایک درخت کے سایے تلے ٹھہرا تواسے ایک نفسیاتی سعادت سی محسوس ہوئی ۔ اسی دوران اچانک اسے اپنے اندرسے ایک غیبی آواز سنائی دی کہ آج وہ اپنے نفس سے مجاہدہ کرے حتّٰی کہ جہان کاراز معلوم کرلے۔ اس دن سے اس کانام ’’بدھ‘‘ پڑگیا۔جس کامعنی ہے ’’بیدار وہوشیار اورروشنی والاعالم۔‘‘
جب اس کامقصد پورا ہوگیا تواس کے اندرایک اور تڑپ پیدا ہوئی کہ جس راہ کی تلاش کے لیے اس نے اتنی بڑی قربانی دی کیوں نہ وہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ رستہ بتادے۔ اسی طرح اس نے اپنی اس دعوت کاآغاز کیااور اتنی محنت اور لگن سے تبلیغ کی کہ آج دنیاکے بڑے مذاہب میں سے ایک منفرد نام ’’بدھ مت‘ ‘کاہے۔ جس کاذریعہ یہی ایک واحد شخص بنا۔
آج اگریہی تمناامت مسلمہ کے نوجوان کے اندر اجاگر ہوجائے توایک سچامذہب دین اسلام جس کی تعلیمات میں اتنی چاشنی ہے کہ جس کے ماننے والے افرادکی تاریخ آج بھی ہمارے لیے اسوہء حسنہ ہے اورقیامت تک رہے گی‘ باطل ادیان کا خاتمہ کرکے پوری دنیامیں ایک روشن چاندکی طرح نمودار ہوسکتاہے۔
اجمالی طورپر اگردیکھاجائے توبدھ متوں کے نظریات ہندو مت سے مختلف نہیں کیونکہ یہ بھی قانون‘ جزاوسزا اور تناسخ ارواح کے قائل ہیں ۔ باربار کی پیدائش اورجزاوسزا سے نجات پانے کی خاطر برائی اوربھلائی سے رکنے اورخواہشات پرقابوپانے کی کوشش کرتے ہیں اوروہ یہ سمجھتے ہیں کہ خیرات مانگنا بدھوؤں کی امتیازی علامت ہے۔ عقائدکسی بھی مذہب کی بنیادہوتے ہیں ۔ بدھ مذہب کے مطالعہ سے چندعمومی عقائد ہمارے سامنے آتے ہیں ۔
تصورخدا
گوتم بدھ کی تعلیمات میں خدایابراھما یاآتماکاکوئی بھی تصور موجود نہیں ۔بدھ کہاکرتاتھاکہ انسان کی نجات خوداسی پرموقوف ہے نہ کہ معبود پراوروہ سمجھتاتھاکہ انسان ہی اپنے نفس کے انجام کو بنانے والاہے۔
مظہرالدین صدیقی لکھتے ہیں :
’’بدھ کی تعلیم یہ تھی کہ روحانی نجات نہ توخدا کی توفیق سے ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی بخشش وکرم کانتیجہ ہے بلکہ یہ انسان کی اپنی ذاتی جدوجہد‘آزادی قوت اوراخلاقی کشمکش کاثمرہے۔‘‘
بدھ نے خدا کامکمل طورپرانکاربھی نہیں کیا۔بعض مقامات پہ اس نے خاموشی اختیار کی ہے۔
بدھ مذہب کی تعلیمات کایہاں سے ہی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ جس مذہب میں خدا کاکوئی واضح تصور ہی موجود نہیں اس کی بنیادکیاہوسکتی ہے؟
اللہ رب العزت کی ذات جس نے انسان کواشرف المخلوقات بنایا‘بے شمار نعمتوں سے نوازا‘ اتنی بڑی کائنات کانظام چلایا‘اب اگرانسان اس ذات کاہی انکار کردے یااس کے اندر پائی جانے والی صفات کسی دوسرے کے اندر بھی تصورکرلے‘ تواس انسان کی نجات کیسے ممکن ہے؟
اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں فرمایا:
سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِی السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمo لَہُ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ یُحْیِیْ وَیُمِیْتُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآَخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌo(سورۃ الحدید۔1تا3)
’’اللہ کاپاک ہونا بیان کیاہراس چیزنے جوآسمانوں اور زمین مںُ ہے۔ وہی سب پرغالب ‘کمال حکمت والاہے۔اسی کے لیے آسمانوں اورزمین کی بادشاہت ہے۔وہ زندگی بخشتااور موت دیتاہے اوروہ ہرچیز پرپوری طرح قادرہے۔ وہی سب سے پہلے اور سب سے پیچھے ہے اور ظاہرہے اورچھپاہواہے اوروہ ہرچیز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے اپنی صفات کو بیان کرتے ہوئے یوں فرمایا:
ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِیْمُo ہُوَ اللَّہُ الَّذِی لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَیْمِنُ الْعَزِیْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّہِ عَمَّا یُشْرِکُوْنَo
(سورۃ الحشر۔23,22)
’’وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ۔ہرچھپی اور کھلی چیزکوجاننے والاہے۔ وہی بے حدرحم والا‘نہایت مہربان ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس کے سواکوئی معبود نہیں ‘بادشاہ ہے‘نہایت پاک ‘سلامتی والا‘امن دینے والا‘نگہبان ‘سب پرغالب‘اپنی مرضی چلانے والا‘بے حدبڑائی والاہے۔پاک ہے اللہ اس سے جووہ شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘
عقیدہ نروان
بدھ مت میں نروان مذہبی زندگی کا مقصودہے۔ گوتم بدھ زندگی کے مسئلہ کاجوشافی وکافی حل تلاش کررہا تھا‘وہ اسے درخت کے نیچے مراقبہ کی حالت میں نروان کی صورت میں ملا۔ نروان ایک ایسی حالت ہے جوعام ذہنی سانچوں سے بالاترہے اور چونکہ وہ ذہن کی گرفت سے آزادہے۔ اس لیے اس کی حقیقت کابیان ناممکن ہے۔ اس کے باوجود چونکہ گوتم بدھ کواپنا پیغام عوام تک پہنچانااوران کویہ بتاناتھاکہ نروان ہی میں انسان کودکھوں سے مکمل چھٹکارا اور ابدی مسرت حاصل ہوسکتی ہے اوروہی انسان کا حقیقی مطلوب ہوسکتاہے۔ اس لیے نروان کی کچھ تشریح کی گئی۔ بدھ مت میں نروان کی تشریح کے لیے جواستعارات استعمال ہوئے ہیں ‘وہ زیادہ ترمنفی نوعیت کے ہیں ۔یعنی بجائے یہ بتانے کے کہ نروان کیاہے‘یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نروان کیانہیں ہے۔
نروان کی حقیقت گوتم بدھ اپنے الفاظ میں بیان کرتاہے:
’’بھکشوؤ(پیروکارو)!ایسی کیفیت موجودہے جہاں نہ تو خاک ہے نہ پانی‘ نہ آگ ہے نہ ہوا‘نہ لامکانیت ہے‘نہ شعور کی لا محدودیت‘ نہ تو عدم شعورہے اورنہ شعور‘ نہ تویہ دنیاہے اور نہ دوسری دنیا‘ نہ سورج ہے وہاں اورنہ چاند اورہاں بھکشوؤ! میں کہتا ہوں وہاں نہ آنا اورنہ جانا‘ نہ ٹھہرنا ‘نہ گزرجانا اورنہ وہاں پیدا ہونا ہے ۔بغیرکسی سہارے‘ کسی حرکت یاکسی بنیاد کے ہے۔ بے شک یہی دکھوں کاخاتمہ (نروان)ہے۔‘‘
(دنیاکے بڑے مذاہب… عمادالحسن فاروقی)
گوتم بدھ کے اس بیان سے یہی سمجھ میں آتاہے کہ ایسی کیفیت کانام ہے جہاں انسان دنیاسے الگ تھلگ ہوجاتاہے۔ اس کے ذہن میں کوئی دوسرانقطہ نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے جووہ اپنے ذہن میں لے کر سوچتاہے۔ اسے حالت ’’استغراق‘‘بھی کہتے ہیں ۔ ہمیں زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ان کا یہ نظریہ جیسے بھی ہو اورجیسی کیفیت بھی ہو‘یہ اسلام کے فطری مزاج کے خلاف ہے۔ اس طریقہ سے خداکی معرفت حاصل کرنا اور دنیا کے غموں سے نجات حاصل کرنا ۔ کوئی شریعت کامعاملہ نہیں ہے۔ دین اسلام نے ایسی تمام جاہلانہ حرکات وکیفیات کاسختی سے رد فرمایاہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لارھبانیۃ فی الاسلام‘‘
’’اسلا م میں ترک دنیاکاکوئی مقام نہیں ۔‘‘
دین اسلام نے دین کے ساتھ ساتھ دنیابہتربنانے اوراس سے فائدہ حاصل کرنے کی ترغیب بھی دی ہے۔
فرمایا:
رَبَّنَا آَتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً۔
(سورۃ البقرہ۔201)
’’ا ے اللہ ہمیں دنیااورآخرت میں بھلائی عطافرما۔‘‘
مزیدفرمایا:وَلَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا۔
(سورۃ القصص۔77)
’’اوردنیاسے اپناحصہ لینامت بھولو۔‘‘
اسلام نے حقوق انسانی پہ بہت زوردیاہے۔ اسلام اس بات کاہرگز حکم نہیں دیتاکہ اپنی ذات اورنفس کوتکلیف پہنچائی جائے۔
گوتم بدھ کے نزدیک جتنی دیرتک آدمی بھکشو یعنی بھکاری نہ بن جائے وہ نروان حاصل نہیں کرسکتا۔ مانگ کرکھاناقابل فخر اور عبادت سمجھتے ہیں ۔ جبکہ دین اسلام اس چیز کی سخت مذمت کرتاہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
’’تم میں سے جوآدمی مانگتارہے گا‘یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا‘اس کے منہ پرایک بوٹی بھی گوشت نہیں ہو گا۔‘‘(صحیح مسلم)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَی۔
’’انسان کے لیے صرف وہی ہے‘جس کی اس نے کوشش کی۔‘‘(سورۃ النجم۔39)
تناسخ کاعقیدہ
یہ عقیدہ ہندؤوں کے اندربھی پایاجاتاہے ۔
عبداللہ سدوسی لکھتے ہیں :
’’بدھ کے فلسفے کابنیادی عقیدہ ’’نظریۂ حیات‘‘ہے۔ اس نظریے کے مطابق انسان کامسلسل وجوداور بقا‘علت اورمعلول کے ایک چکرسے وابستہ ہے ‘اسی کواصطلاح میں دھرم کاچکرکہتے ہیں ۔‘‘(مذاہب عالم)
یہ نظریہ بھی اسلام کے نظریہ حیات سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام کاعقیدہ آخرت بالکل واضح ہے۔ قرآن مجید میں اس کی تفصیل بھی موجودہے۔
بدھ مت کے نزدیک زندگی ایک لعنت ہے جس سے انسان کوبچ کرنکل جاناچاہیے جبکہ اسلام نے زندگی کولعنت کی بجائے انسان کی آزمائش قرار دیاہے۔یعنی دنیاکی زندگی دارالعمل ہے۔ یعنی دنیاوی زندگی کے اختتام پرایک نئی زندگی شروع ہوجاتی ہے۔جس میں اس دنیاوی زندگی کا حساب وکتاب ہوتاہے۔
الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَا ۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا۔(سورۃ الملک۔2)
’’زندگی اورموت کی پیدائش اس لیے ہے کہ وہ تمہیں آزمائے کہ کون اچھے عمل کرتاہے۔‘‘
تصورنجات
گوتم بدھ نے نجات کادارومدار انسان کی ذاتی کوشش پر رکھااوراسے اپنے اعمال کاقطعی طورپر ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
بدھ کاقول ہے:
’’انسان برائی کاارتکاب خودکرتاہے اور اس کے خراب نتیجہ کو بھگتنا بھی اس کی ذمہ داری ہے۔وہ خود ہی برائی سے کنارہ کش ہوسکتاہے اور پاکیزگی اورنجاست دونوں ذاتی صفات ہیں ۔ کوئی بھی دوسرے کوپاکیزہ نہیں بناسکتا۔‘‘
جبکہ اسلام کاتصورتوبہ آسان ہے۔ انسان سے اگر غلطی سرزدہوجائے وہ اللہ کے سامنے عاجزی سے معافی طلب کرے۔ اللہ تعالیٰ اس کومعاف فرمادیتے ہیں ۔
فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔
’’اورجولوگ ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ‘ہم انہیں ضرور راہ دکھائیں گے۔‘‘(سورۃ العنکبوت۔69)
بدھ مت کے یہ چندبنیادی تصورات تھے ۔ان کے علاوہ بھی ہیں ‘جن کی تفصیل دیناممکن نہیں ۔ہمیں ایک بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ یہ باطل نظریات کے حامل مذاہب آج کس مستقل مزاجی سے اپنے اپنے عقائد کی ترویج واشاعت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں ۔ان کے کچھ باطل نظریات ہمارے اسلامی معاشرے میں پروان چڑھ رہے ہیں جبکہ دین اسلام کی پاکیزہ تعلیمات اورآسانیوں کاکوئی مذہب مقابلہ نہیں کرسکتا۔ہمیں اللہ کا شکربھی اداکرناہوگا کہ اس نے ہمیں دین اسلام کاپیروکار بنایا اور ساتھ اس سچے اور پیارے مذہب کے لیے اپنے اندر ہرطرح کی قربانی کاجذبہ پروان چڑھاناہوگا۔
اللہ ہمارا حامی وناصرہو۔آمین
اجمالي طورپر اگرديکھاجائے توبدھ متوں کے نظريات ہندو مت سے مختلف نہيں کيونکہ يہ بھي قانون‘ جزاوسزا اور تناسخ ارواح کے قائل ہيں ۔ باربار کي پيدائش اورجزاوسزا سے نجات پانے کي خاطر برائي اوربھلائي سے رکنے اورخواہشات پرقابوپانے کي کوشش کرتے ہيں اوروہ يہ سمجھتے ہيں کہ خيرات مانگنا بدھوؤں کي امتيازي علامت ہے۔ عقائدکسي بھي مذہب کي بنيادہوتے ہيں ۔ بدھ مذہب کے مطالعہ سے چندعمومي عقائد ہمارے سامنے آتے ہيں ۔
تصورخدا
گوتم بدھ کي تعليمات ميں خدايابراھما ياآتماکاکوئي بھي تصور موجود نہيں ۔بدھ کہاکرتاتھاکہ انسان کي نجات خوداسي پرموقوف ہے نہ کہ معبود پراوروہ سمجھتاتھاکہ انسان ہي اپنے نفس کے انجام کو بنانے والاہے۔
مظہرالدين صديقي لکھتے ہيں :
’’بدھ کي تعليم يہ تھي کہ روحاني نجات نہ توخدا کي توفيق سے ہوتي ہے اور نہ ہي اس کي بخشش وکرم کانتيجہ ہے بلکہ يہ انسان کي اپني ذاتي جدوجہد‘آزادي قوت اوراخلاقي کشمکش کاثمرہے۔‘‘
بدھ نے خدا کامکمل طورپرانکاربھي نہيں کيا۔بعض مقامات پہ اس نے خاموشي اختيار کي ہے۔
بدھ مذہب کي تعليمات کايہاں سے ہي اندازہ لگايا جاسکتاہے کہ جس مذہب ميں خدا کاکوئي واضح تصور ہي موجود نہيں اس کي بنيادکياہوسکتي ہے؟
اللہ رب العزت کي ذات جس نے انسان کواشرف المخلوقات بنايا‘بے شمار نعمتوں سے نوازا‘ اتني بڑي کائنات کانظام چلايا‘اب اگرانسان اس ذات کاہي انکار کردے يااس کے اندر پائي جانے والي صفات کسي دوسرے کے اندر بھي تصورکرلے‘ تواس انسان کي نجات کيسے ممکن ہے؟
اللہ رب العزت نے قرآن مجيد ميں فرمايا:
سَبَّحَ لِلَّہِ مَا فِي السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَہُوَ الْعَزِيْزُ الْحَکِيْمo لَہُ مُلْکُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِيْ وَيُمِيْتُ وَہُوَ عَلَي کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo ہُوَ الْأَوَّلُ وَالْآَخِرُ وَالظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ وَہُوَ بِکُلِّ شَيْئٍ عَلِيْمٌo(سورۃ الحديد۔1تا3)
’’اللہ کاپاک ہونا بيان کياہراس چيزنے جوآسمانوں اور زمين ميں ہے۔ وہي سب پرغالب ‘کمال حکمت والاہے۔اسي کے ليے آسمانوں اورزمين کي بادشاہت ہے۔وہ زندگي بخشتااور موت ديتاہے اوروہ ہرچيز پرپوري طرح قادرہے۔ وہي سب سے پہلے اور سب سے پيچھے ہے اور ظاہرہے اورچھپاہواہے اوروہ ہرچيز کو خوب جاننے والاہے۔‘‘
اللہ رب العزت نے اپني صفات کو بيان کرتے ہوئے يوں فرمايا:
ہُوَ اللَّہُ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّہَادَۃِ ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيْمُo ہُوَ اللَّہُ الَّذِي لَا إِلَہَ إِلَّا ہُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُہَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَکَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّہِ عَمَّا يُشْرِکُوْنَo
(سورۃ الحشر۔23,22)
’’وہ اللہ ہي ہے جس کے سواکوئي معبود نہيں ۔ہرچھپي اور کھلي چيزکوجاننے والاہے۔ وہي بے حدرحم والا‘نہايت مہربان ہے۔ وہ اللہ ہي ہے جس کے سواکوئي معبود نہيں ‘بادشاہ ہے‘نہايت پاک ‘سلامتي والا‘امن دينے والا‘نگہبان ‘سب پرغالب‘اپني مرضي چلانے والا‘بے حدبڑائي والاہے۔پاک ہے اللہ اس سے جووہ شريک ٹھہراتے ہيں ۔‘‘
عقيدہ نروان
بدھ مت ميں نروان مذہبي زندگي کا مقصودہے۔ گوتم بدھ زندگي کے مسئلہ کاجوشافي وکافي حل تلاش کررہا تھا‘وہ اسے درخت کے نيچے مراقبہ کي حالت ميں نروان کي صورت ميں ملا۔ نروان ايک ايسي حالت ہے جوعام ذہني سانچوں سے بالاترہے اور چونکہ وہ ذہن کي گرفت سے آزادہے۔ اس ليے اس کي حقيقت کابيان ناممکن ہے۔ اس کے باوجود چونکہ گوتم بدھ کواپنا پيغام عوام تک پہنچانااوران کويہ بتاناتھاکہ نروان ہي ميں انسان کودکھوں سے مکمل چھٹکارا اور ابدي مسرت حاصل ہوسکتي ہے اوروہي انسان کا حقيقي مطلوب ہوسکتاہے۔ اس ليے نروان کي کچھ تشريح کي گئي۔ بدھ مت ميں نروان کي تشريح کے ليے جواستعارات استعمال ہوئے ہيں ‘وہ زيادہ ترمنفي نوعيت کے ہيں ۔يعني بجائے يہ بتانے کے کہ نروان کياہے‘يہ بتانے کي کوشش کي گئي ہے کہ نروان کيانہيں ہے۔
نروان کي حقيقت گوتم بدھ اپنے الفاظ ميں بيان کرتاہے:
’’بھکشوؤ(پيروکارو)!ايسي کيفيت موجودہے جہاں نہ تو خاک ہے نہ پاني‘ نہ آگ ہے نہ ہوا‘نہ لامکانيت ہے‘نہ شعور کي لا محدوديت‘ نہ تو عدم شعورہے اورنہ شعور‘ نہ تويہ دنياہے اور نہ دوسري دنيا‘ نہ سورج ہے وہاں اورنہ چاند اورہاں بھکشوؤ! ميں کہتا ہوں وہاں نہ آنا اورنہ جانا‘ نہ ٹھہرنا ‘نہ گزرجانا اورنہ وہاں پيدا ہونا ہے ۔بغيرکسي سہارے‘ کسي حرکت ياکسي بنياد کے ہے۔ بے شک يہي دکھوں کاخاتمہ (نروان)ہے۔‘‘
(دنياکے بڑے مذاہب… عمادالحسن فاروقي)
گوتم بدھ کے اس بيان سے يہي سمجھ ميں آتاہے کہ ايسي کيفيت کانام ہے جہاں انسان دنياسے الگ تھلگ ہوجاتاہے۔ اس کے ذہن ميں کوئي دوسرانقطۂ نہيں ہوتا۔ سوائے اس کے جووہ اپنے ذہن ميں لے کر سوچتاہے۔ اسے حالت ’’استغراق‘‘بھي کہتے ہيں ۔ ہميں زيادہ تفصيل ميں جانے کي ضرورت نہيں ۔ان کا يہ نظريہ جيسے بھي ہو اورجيسي کيفيت بھي ہو‘يہ اسلام کے فطري مزاج کے خلاف ہے۔ اس طريقہ سے خداکي معرفت حاصل کرنا اور دنيا کے غموں سے نجات حاصل کرنا ۔ کوئي شريعت کامعاملہ نہيں ہے۔ دين اسلام نے ايسي تمام جاہلانہ حرکات وکيفيات کاسختي سے رد فرماياہے۔
نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:’’لارھبانيۃ في الاسلام‘‘
’’اسلا م ميں ترک دنياکاکوئي مقام نہيں ۔‘‘
دين اسلام نے دين کے ساتھ ساتھ دنيابہتربنانے اوراس سے فائدہ حاصل کرنے کي ترغيب بھي دي ہے۔
فرمايا:
رَبَّنَا آَتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَۃً وَّفِي الْآَخِرَۃِ حَسَنَۃً۔
(سورۃ البقرہ۔201)
’’ا ے اللہ ہميں دنيااورآخرت ميں بھلائي عطافرما۔‘‘
مزيدفرمايا:وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا۔
(سورۃ القصص۔77)
’’اوردنياسے اپناحصہ لينامت بھولو۔‘‘
اسلام نے حقوق انساني پہ بہت زوردياہے۔ اسلام اس بات کاہرگز حکم نہيں ديتاکہ اپني ذات اورنفس کوتکليف پہنچائي جائے۔
گوتم بدھ کے نزديک جتني ديرتک آدمي بھکشو يعني بھکاري نہ بن جائے وہ نروان حاصل نہيں کرسکتا۔ مانگ کرکھاناقابل فخر اور عبادت سمجھتے ہيں ۔ جبکہ دين اسلام اس چيز کي سخت مذمت کرتاہے۔
نبي صلي اللہ عليہ وسلم نے ارشادفرمايا:
’’تم ميں سے جوآدمي مانگتارہے گا‘يہاں تک کہ جب وہ اللہ تعاليٰ سے ملے گا‘اس کے منہ پرايک بوٹي بھي گوشت نہيں ہو گا۔‘‘(صحيح مسلم)
اللہ تعاليٰ نے فرمايا:
وَأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَي۔
’’انسان کے ليے صرف وہي ہے‘جس کي اس نے کوشش کي۔‘‘(سورۃ النجم۔39)
تناسخ کاعقيدہ
يہ عقيدہ ہندؤوں کے اندربھي پاياجاتاہے ۔
عبداللہ سدوسي لکھتے ہيں :
’’بدھ کے فلسفے کابنيادي عقيدہ ’’نظريۂ حيات‘‘ہے۔ اس نظريے کے مطابق انسان کامسلسل وجوداور بقا‘علت اورمعلول کے ايک چکرسے وابستہ ہے ‘اسي کواصطلاح ميں دھرم کاچکرکہتے ہيں ۔‘‘(مذاہب عالم)
يہ نظريہ بھي اسلام کے نظريہ حيات سے بالکل مختلف ہے۔ اسلام کاعقيدہ آخرت بالکل واضح ہے۔ قرآن مجيد ميں اس کي تفصيل بھي موجودہے۔
بدھ مت کے نزديک زندگي ايک لعنت ہے جس سے انسان کوبچ کرنکل جاناچاہيے جبکہ اسلام نے زندگي کولعنت کي بجائے انسان کي آزمائش قرار دياہے۔يعني دنياکي زندگي دارالعمل ہے۔ يعني دنياوي زندگي کے اختتام پرايک نئي زندگي شروع ہوجاتي ہے۔جس ميں اس دنياوي زندگي کا حساب وکتاب ہوتاہے۔
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَا ۃَ لِيَبْلُوَکُمْ أَيُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا۔(سورۃ الملک۔2)
’’زندگي اورموت کي پيدائش اس ليے ہے کہ وہ تمہيں آزمائے کہ کون اچھے عمل کرتاہے۔‘‘
تصورنجات
گوتم بدھ نے نجات کادارومدار انسان کي ذاتي کوشش پر رکھااوراسے اپنے اعمال کاقطعي طورپر ذمہ دار ٹھہرايا ہے۔
بدھ کاقول ہے:
’’انسان برائي کاارتکاب خودکرتاہے اور اس کے خراب نتيجہ کو بھگتنا بھي اس کي ذمہ داري ہے۔وہ خود ہي برائي سے کنارہ کش ہوسکتاہے اور پاکيزگي اورنجاست دونوں ذاتي صفات ہيں ۔ کوئي بھي دوسرے کوپاکيزہ نہيں بناسکتا۔‘‘
جبکہ اسلام کاتصورتوبہ آسان ہے۔ انسان سے اگر غلطي سرزدہوجائے وہ اللہ کے سامنے عاجزي سے معافي طلب کرے۔ اللہ تعاليٰ اس کومعاف فرماديتے ہيں ۔
فرمايا:
وَالَّذِيْنَ جَاہَدُوْا فِيْنَا لَنَہْدِيَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔
’’اورجولوگ ہماري راہ ميں کوشش کرتے ہيں ‘ہم انہيں ضرور راہ دکھائيں گے۔‘‘(سورۃ العنکبوت۔69)
بدھ مت کے يہ چندبنيادي تصورات تھے ۔ان کے علاوہ بھي ہيں ‘جن کي تفصيل ديناممکن نہيں ۔ہميں ايک بات ذہن نشين کرليني چاہئے کہ يہ باطل نظريات کے حامل مذاہب آج کس مستقل مزاجي سے اپنے اپنے عقائد کي ترويج واشاعت کے ليے اپني توانائياں صرف کررہے ہيں ۔ان کے کچھ باطل نظريات ہمارے اسلامي معاشرے ميں پروان چڑھ رہے ہيں جبکہ دين اسلام کي پاکيزہ تعليمات اورآسانيوں کاکوئي مذہب مقابلہ نہيں کرسکتا۔ہميں اللہ کا شکربھي اداکرناہوگا کہ اس نے ہميں دين اسلام کاپيروکار بنايا اور ساتھ اس سچے اور پيارے مذہب کے ليے اپنے اندر ہرطرح کي قرباني کاجذبہ پروان چڑھاناہوگا۔
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.