میزبان
چند لمحوں کیلئے مجھے اِس کمرے میں تنہا چھوڑ گیا۔ میں اُٹھا اور حسبِ
عادت کمرے میں ٹہلنے لگا۔ میری نظر کتابوں کے ایک شیلف پر پڑی جس پر مختلف
چھوٹی موٹی کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں شیلف کے قریب گیا اور کتابوں کو
ٹٹولنے لگا۔ اچانک میرے ہاتھ اِک چھوٹی سی ڈائری لگی جو تمام کتابوں کے
عقّب میں پڑی ہوئی تھی۔ یہ ڈائری ایک چودہ، پندرہ سالہ طالب علم کی تھی۔
میں بےدھیانی میں ہی اسکے صفحات پلٹنے لگا۔ صفحات پلٹنے سے اِک نہایت عمدہ
خوشبو میری سانسوں میں داخل ہوئی۔ طالب علم نے لکھنے کیلئے بہت سے رنگوں کو
استعمال کر کے ہر صفحے کو دُلہن کی مانند سجایا ہوا تھا۔ گویا یہ سب طالب
علم کی اس ڈائری سے محبت کو واضح کر رہا تھا۔ میں نے ایک صفحے کو پڑھنا
شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔ ہر صفحے کو پڑھ لینے کے بعد میرے ہونٹوں پر اِک
ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ ڈائری میں مختلف موضوعات پر مواد موجود تھا جس
میں سے زیادہ تر اقوال زریں تھے اور کہیں کہیں طالب علم نے اپنے بارے میں
بھی کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں جوں جوں ڈائری کے صفحات پڑھتا گیا، مجھے بچے پر
نہایت پیار آنے لگا۔ ڈائری میں موجود کچھ باتیں جوں کی توں آپکی خدمت میں
پیش کر رہا ہوں:
’’جس
طرح ماہی کو آب میں۔۔۔۔۔ سمندر کو آگ میں۔۔۔۔۔ بوم کو جنگل میں۔۔۔۔۔
کوئل کو منگل میں۔۔۔۔۔ بھوکے کو کھانے میں۔۔۔۔ بچے کو کھیل میں۔۔۔۔۔ مسافر
کو ریل میں۔۔۔۔۔ شیر کو کچھار میں۔۔۔۔ گھوڑے کو تنگ میں۔۔۔ ۔مجاہد کو جنگ
میں۔۔۔۔ حریص کو مال میں۔۔۔۔ فقیر کو حال میں۔۔۔۔ اطمینان حاصل ہوتا
ہے۔۔۔۔اسی طرح دِل کو اللہ کے ذکر میں اطمینان ہوتا ہے۔‘‘
’’ وہ قوم کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے مخلوق کی رضا خرید کر اللہ کی ناراضگی مول لی ہو۔ ‘‘
’’خوشی کے پھولوں سے اتنا پیار مت کرو کہ اُنکے پنکھڑ سے غم کا عرق نکلنے ٹپکنے لگے۔‘‘
’’یہ ضروری نہیں کہ خوبصورت بھی ہو اور نیک سیرت بھی، کام کی چیز اندر ہوتی ہے باہر نہیں۔‘‘
پڑھتے
پڑھتے میں ایک ایسے صفحے پر پہنچا جو خراب پرنٹنگ کے باعث دُرست پرنٹ
نہیں ہوپایا تھا اور یہ صفحہ بلکل سادہ دکھائی دے رہا تھا۔ صفحے کے اوپر
چھوٹی سی اِک سطر لکھی تھی جو کہ یہ ہے:
’’زندگی اِک سادہ صفحے کی مانند ہے جس میں رنگ تم خود بھرتے ہو‘‘
صفحے
کے نیچے ایک نوٹ لکھا ہوا تھا کہ دو صفحے مزید آگے دیکھیں۔ میں نے دو
صفحات پلٹے تو اِک ویسا ہی سادہ صفحہ نظر آیا جس پر بہت سے رنگوں سے یہ
لکھا ہوا تھا :
’’میرے
دوستو! دیکھیں پہلا صفحہ بلکل سادہ تھا اور نہایت بُرا لگ رہا تھا لیکن اب
اِس صفحے پر میں نے رنگ بھر کر اِسکو سجا دیا تو یہ کتنا خوبصورت لگ رہا
ہے۔ جس طرح یہ صفحہ خالی ہے اِسی طرح ہمارے دِل بھی ایمان سے خالی ہیں۔
اپنے سادہ اور خالی دلوں کو ایمان سے بھر لو تاکہ یہ تمہیں کوئی فائدہ
پہنچائیں۔ شکریہ‘‘
یہ
پڑھ کر میں بچے کی سوچ اور ذہنیت پر حیران ہو کر رہ گیا۔ کیا آج بھی
ایسے بچے ہوتے ہیں؟ اسکے علاوہ بھی میں نے اس بچے میں چند باتیں نہایت
منفرد دیکھیں ہیں جو موقع ملنے پر پھر کبھی آپکے سامنے رکھوں گا۔ میرا دل
کہتا ہے اور مجھے پوری اُمید ہےکہ یہ بچہ بڑا ہو کر ایک دن ضرور کچھ کر
دکھائے گا۔ انشاءاللہ
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.