Search This Blog

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته ډېرخوشحال شوم چی تاسی هډاوال ويب ګورۍ الله دی اجرونه درکړي هډاوال ويب پیغام لسانی اوژبنيز او قومي تعصب د بربادۍ لاره ده


اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ




اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى



لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي

هډه وال وېب

https://www.facebook.com/hadawal.org


د عربی ژبی زده کړه arabic language learning

https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning

Wednesday, March 30, 2011

لباس انسانی شخصیت کا ایک لازمی جز ہے

لباس

ریحان احمد یوسفی

لباس انسانی شخصیت کا ایک لازمی جز ہے ۔ یہ نہ صرف موسم کی شدت سے انسان کو تحفظ دیتا ہے بلکہ اس کے ذوقِ جمال کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے ۔ موسم سے تحفظ اور ذوقِ جمال کی تسکین کے علاوہ لباس انسانوں میں پائے جانے والے حیا کے فطری جذبے کا عکاس بھی ہوتا ہے ۔ چنانچہ ہر دور، ہر قوم اور ہر طرح کے حالات میں ستر پوشی لباس انسانی کا بنیادی مقصد رہی ہے ۔
مردوں کے برعکس خواتین میں حیا اور ذوقِ جمال دونوں کا احساس زیادہ ہوتا ہے ۔ چنانچہ ان کے لباس میں ان دونوں کیفیات کا اظہار واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔ خصوصاً مسلمان خواتین نے لباس کے معاملے میں حیا پر مبنی اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات کی ہر دور میں پابندی کی ہے ۔ بدقسمتی سے پچھلے کچھ عرصے میں یہ رجحان تبدیل ہونا شروع ہو گیا ہے ۔ خاص طور پر نوجوان نسل کی لڑ کیاں اور خوشحال گھرانوں کی خواتین اس معاملے میں مذہبی تعلیم اور اپنی تہذیب و روایات سے انحراف کا شکار ہوتی جا رہی ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے ؟ ہمارے نزدیک اس کے متعدد اسباب ہیں جن میں سے دو سب سے اہم ہیں ۔ ایک تربیت کے نظام کا ختم ہوجانا اور دوسرے میڈیا کا منفی کردار۔ انسانی شخصیت کی تشکیل میں تربیت سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے ۔ یہ تربیت ہی ہے جس کے ذریعے سے ہم نئی نسلوں کو اپنی مذہبی اور تہذیبی روایات منتقل کرتے ہیں ۔ تربیت کا یہ نظام جن ستونوں پر کھڑ ا ہوتا ہے ان میں والدین، اساتذہ، خاندان اور علاقے کے بزرگ، اہل علم اور حکومت شامل ہے ۔ ہمارے معاشرے میں اس ذمہ داری کے اعتبار سے یہ سارے ستون اپنی جگہ چھوڑ چکے ہیں ۔ جس کی بنا پر نئی نسلیں اس بات سے واقف ہی نہیں ہوتیں کہ ان روایات کی اہمیت کیا ہے ۔
تربیت کی اس گرتی دیوار کو دھکا مارنے کے لیے میڈیا والے پہلے ہی سے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ عوام کی آنکھوں کو خیرہ کیے بغیر ان کی توجہ حاصل نہیں کی جا سکتی۔ اس مقصد کے لیے سب سے مؤثر حربہ خواتین کی نمائش ہے ۔ لہٰذا یہ لوگ ہر وہ طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں خواتین کے ناز و انداز، غمزہ و ادا اور حسن و جمال اور نسوانی کشش کے زیادہ سے زیادہ پہلو اور مناظر ناظرین کے سامنے آتے ہیں ۔
چنانچہ ان کے زیرِ اثر نئی نسلیں لباس کا انتخاب کرتے وقت حیا کو فراموش کر کے موسم، فیشن اور جمالیاتی ذوق تک ہی محدود رہتی ہیں ۔ خاص طور پر خواتین ’جن میں زیب و زینت اور اظہار حسن کا ایک غیر معمولی داعیہ پایا جاتا ہے ‘، شعوری یا لاشعوری طور پر، ایسی تراش خراش کا لباس اختیار کرتی ہیں جو بالعموم شرم و حیا کے تقاضوں کے منافی ہوتا ہے ۔ لباس میں تنگی، باریکی اور اختصار کے وہ اسالیب ایجاد کیے جاتے ہیں جس میں ’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں ‘ کا ہنر آخری درجے پر سامنے آتا ہے ۔ برقع، چادر اور اوڑ ھنی کا بوجھ اتنا بھاری ہوجاتا ہے کہ صنفِ ضعیف کا نازک وجود اسے اٹھانے سے قاصر ہوجاتا ہے ۔ دوپٹہ جو اچھے وقتوں میں گھر کے اندر نسوانی کشش زائل کرنے کے لیے استعمال ہوتا تھا، اب ’ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے ‘ کی صورت اِدھر اُدھر کہیں پڑ ا رہ جاتا ہے ۔ جن گھروں میں جائز یا ناجائز پیسہ ایک دم آ جاتا ہے وہاں تہذیب کی یہ آخری نشانی بھی تیاگ دی جاتی ہے ۔
ہمارے نزدیک اس سلسلے میں ایک اور مسئلہ مذہب کے نام پر کیے جانے والے بعض مطالبات اور تہذیبی روایات میں در آنے والے کچھ رویے ہیں ۔ یہ مطالبات اور روایات خواتین میں گھٹن کا وہ احساس پیدا کرتے ہیں جسے برداشت کرنا نئی نسل کی تعلیم یافتہ لڑ کیوں کے لیے آسان نہیں ۔ سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ ایسے مطالبات دین کے احکام پر نہیں بلکہ بعض اہل علم کے فقہی ذوق پر مبنی ہیں ۔ اس معاملے میں دین کے وہ احکام جو بالکل واضح اور متفقہ ہیں وہ اتنے آسان اور معقول ہیں کہ ان کو اپنانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ ان احکام کی تفصیل سورۂ نور آیات (30-31) میں دیکھی جا سکتی ہے ۔
ہمارا دین دینِ فطرت ہے ۔ اس کا مقصد لوگوں پر بے جا پابندیاں لگانا اور ان کی آزادی کو غیر ضروری طور پر محدود کرنا نہیں ۔ اس کا مقصد لوگوں میں پاکیزگی پیدا کرنا ہے تاکہ وہ رب کی پاکیزہ جنت میں ابدی طور پر رہنے کے قابل ہو سکیں ۔ اس پاکیزگی کے لیے ضروری ہے کہ لوگ عفت و عصمت کی زندگی گزاریں ۔ ان کا کردار، ان کی گفتار اور ان کا لباس ذہن و نگاہ کو پاکیزہ کرنے والے ہوں ، ناپاک کرنے والے نہیں ۔
خواتین میں پائی جانے والی نسوانی کشش اگر مناسب لباس سے چھپائی نہ جائے تو معاشرے میں خرابی پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے ۔ یہ صنفی بے راہروی کو فروغ دینے کا سبب بن سکتی ہے ۔ چنانچہ انھیں اپنے لباس کے معاملے میں بڑ ا محتاط رہنا چاہیے ۔ ان کی احتیاط معاشرے میں عفت و عصمت کو فروغ دے گی اور ان کی بے احتیاطی معاشرے میں فواحش اور زنا کو پھیلانے کا سبب بنے گی۔

جامعہ بنوريہ عالميہ

No comments:

Post a Comment

السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته

ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې


لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ


طریقه د کمنټ
Name
URL

لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL


اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.



بحث عن:

البرامج التالية لتصفح أفضل

This Programs for better View

لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل معلومات نظراو تجربه شریک کړئ


که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی

زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ

hadawal.org@gmail.com

Contact Form

Name

Email *

Message *

د هډه وال وېب , میلمانه

Online User