کائنات کی پہلی تصویر Universe
امپیریل
کالج آف لندن کے پروفیسر اینڈریو جیف ، جو خلائی دور بین پلینک کی تحقیقی
ٹیم کے ایک رکن بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں گیسوں اور گردو غبار
سے بنی ہے، جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے آس پاس کیا تبدیلیاں
آرہی ہیں اور اسی طرح ہماری کہکشاں سے باہر کی دنیا ئیں بھی کن تبدیلیوں
سے گذررہی ہیں۔
کائنات
کی اولین تصویر بگ بینگ کے بعد کے ارتعاش کی تصویر ہے اور یہ تصویر
کائنات کے وجود میں آنے سے قبل ایک بڑےگولے کی موجودگی کا ایک ثبوت بھی
ہے۔
کائنات
کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ لامحدود ہے اور اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے،
لیکن حال ہی میں سائنس دانوں نے یورپی خلائی دور بین پلینک کی کھینچی ہوئی
ایک ایسی تصویر جاری کی ہے جس میں پوری کائنات دکھائی دے رہی ہے۔
60 کروڑ یورو سے تیار کی جانے والی اس خلائی دور بین کو پچھلے سال اپنے مشن پر روانہ کیاگیا تھا۔ اس مشن کا مقصد کائنات کا سروے کرنا ،اس کی ابتدا کا کھوج لگانا اور یہ معلوم کرنا تھا کہ اپنے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کے سفر میں کائنات کن کن مراحل سے گذری ہے اور کہکشاؤں اور ستاروں کے نظام کس طرح وجود میں آئے ہیں۔
اپنے مشن پر روانہ ہونے کے بعد سے خلائی دور بین لاکھوں میل کا سفر طے کرچکی ہے اور اس نے گذشتہ سال ستمبر میں زمینی رسد گاہ پر تصویریں بھیجنا شروع کیں تھیں۔ اکثر تصویریں اس زمانے کی تھیں جب بگ بینگ یعنی ایک بڑے دھماکے کے بعد گرود غبار کے بادل کہکشاؤں اور ستاروں کی شکل اختیار کررہے تھے۔تاہم اب حال ہی میں پلینک نے ایک ایسی تصویر بھیجی ہےجس میں پوری کائنات دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر میں ہماری کہکشاں نمایاں طور پر دکھائی دے رہی ہے۔اس کے علاوہ سرد گرو غبار کے وہ بادل بھی تصویر میں موجود ہیں جو ہزاروں نوری سال کی مسافت پر ہیں۔
سائنس دان ، اس تصویر کی مدد سے کائنات کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کررہےہیں۔
امپیریل کالج آف لندن کے پروفیسر اینڈریو جیف ، جو خلائی دور بین پلینک کی تحقیقی ٹیم کے ایک رکن بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں گیسوں اور گردو غبار سے بنی ہے، جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے آس پاس کیا تبدیلیاں آرہی ہیں اور اسی طرح ہماری کہکشاں سے باہر کی دنیا ئیں بھی کن تبدیلیوں سے گذررہی ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے بننا شروع ہوئی تھی۔ان کا کہنا ہےکہ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے توانائی کی لہریں اور دوسرا مواد ٹھوس حالت میں ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھا جو اپنے ہی دباؤ کے باعث پھٹ کر خلا میں بکھر گیا اور کائنات بننے کاعمل شروع ہوا۔
اس بڑے دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی نے،جو زیادہ تر روشنی اور حرارت کی لہروں پر مشتمل تھی، خلا میں اپنا سفر شروع کیا۔ سائنس دان روشنی کی رفتار کو وقت کے پیمانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا سفر طے کرتی ہے۔
کائنات کی اولین تصویر بگ بینگ کے بعد کے ارتعاش کی تصویر ہے اور یہ تصویر کائنات کے وجود میں آنے سے قبل ایک بڑےگولے کی موجودگی کا ایک ثبوت بھی ہے۔
خلائی دوربین پلینک درجہ حرارت میں آنے والی انتہائی معمولی تبدیلی کی پیمائش بھی کرتی ہے جس سے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کہکشائیں کس طرح وجود میں آئی تھیں۔
خلااور کائنات کی تحقیق کے لیے استعمال کی جانے والی زیادہ تر دوربینیں روشنی کی ان مختصر ترین لہروں کی پیمائش کرتی ہیں، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ان لہروں کی مدد سے کائنات کے کئی ایسے گوشے سامنے آرہے ہیں ، جن کے بارے میں اس سے قبل معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔
بشکریہ VOA
60 کروڑ یورو سے تیار کی جانے والی اس خلائی دور بین کو پچھلے سال اپنے مشن پر روانہ کیاگیا تھا۔ اس مشن کا مقصد کائنات کا سروے کرنا ،اس کی ابتدا کا کھوج لگانا اور یہ معلوم کرنا تھا کہ اپنے وجود میں آنے کے بعد سے اب تک کے سفر میں کائنات کن کن مراحل سے گذری ہے اور کہکشاؤں اور ستاروں کے نظام کس طرح وجود میں آئے ہیں۔
اپنے مشن پر روانہ ہونے کے بعد سے خلائی دور بین لاکھوں میل کا سفر طے کرچکی ہے اور اس نے گذشتہ سال ستمبر میں زمینی رسد گاہ پر تصویریں بھیجنا شروع کیں تھیں۔ اکثر تصویریں اس زمانے کی تھیں جب بگ بینگ یعنی ایک بڑے دھماکے کے بعد گرود غبار کے بادل کہکشاؤں اور ستاروں کی شکل اختیار کررہے تھے۔تاہم اب حال ہی میں پلینک نے ایک ایسی تصویر بھیجی ہےجس میں پوری کائنات دکھائی دے رہی ہے۔
تصویر میں ہماری کہکشاں نمایاں طور پر دکھائی دے رہی ہے۔اس کے علاوہ سرد گرو غبار کے وہ بادل بھی تصویر میں موجود ہیں جو ہزاروں نوری سال کی مسافت پر ہیں۔
سائنس دان ، اس تصویر کی مدد سے کائنات کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کررہےہیں۔
امپیریل کالج آف لندن کے پروفیسر اینڈریو جیف ، جو خلائی دور بین پلینک کی تحقیقی ٹیم کے ایک رکن بھی ہیں ، کہتے ہیں کہ ہماری کہکشاں گیسوں اور گردو غبار سے بنی ہے، جو اس جانب اشارہ ہے کہ ہمارے نظام شمسی کے آس پاس کیا تبدیلیاں آرہی ہیں اور اسی طرح ہماری کہکشاں سے باہر کی دنیا ئیں بھی کن تبدیلیوں سے گذررہی ہیں۔
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ کائنات تقریباً 13 ارب 70 کروڑ سال پہلے بننا شروع ہوئی تھی۔ان کا کہنا ہےکہ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے توانائی کی لہریں اور دوسرا مواد ٹھوس حالت میں ایک بہت بڑے گولے کی شکل میں موجود تھا جو اپنے ہی دباؤ کے باعث پھٹ کر خلا میں بکھر گیا اور کائنات بننے کاعمل شروع ہوا۔
اس بڑے دھماکے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی توانائی نے،جو زیادہ تر روشنی اور حرارت کی لہروں پر مشتمل تھی، خلا میں اپنا سفر شروع کیا۔ سائنس دان روشنی کی رفتار کو وقت کے پیمانے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ روشنی ایک سیکنڈ میں ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل کا سفر طے کرتی ہے۔
کائنات کی اولین تصویر بگ بینگ کے بعد کے ارتعاش کی تصویر ہے اور یہ تصویر کائنات کے وجود میں آنے سے قبل ایک بڑےگولے کی موجودگی کا ایک ثبوت بھی ہے۔
خلائی دوربین پلینک درجہ حرارت میں آنے والی انتہائی معمولی تبدیلی کی پیمائش بھی کرتی ہے جس سے سائنس دانوں کو یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ کہکشائیں کس طرح وجود میں آئی تھیں۔
خلااور کائنات کی تحقیق کے لیے استعمال کی جانے والی زیادہ تر دوربینیں روشنی کی ان مختصر ترین لہروں کی پیمائش کرتی ہیں، جو بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ان لہروں کی مدد سے کائنات کے کئی ایسے گوشے سامنے آرہے ہیں ، جن کے بارے میں اس سے قبل معلومات نہ ہونے کے برابر تھیں۔
بشکریہ VOA
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.