انا کفینک المستہزئین
حافظ محمد مصطفی راسخ
ظہورِ اسلام سے لے کر آج تک
دشمنانِ اسلام کی جانب سے مسلمانوں کو روحانی اَذیت پہنچانے کا سلسلہ
جار ی ہے۔اور اس وقت بھی ڈنمارک کی سرزمین سے محمد مجتبیٰﷺکے کارٹون
دوسال کے بعد پھرسے شائع کئے جارہے ہیں ۔ آزادیِ اظہار رائے کے نام پر
مسلمانوں کے دینی ومذہبی جذبات کو مجروح کیا جارہا ہے ۔مسلمانوں کے
نزدیک سب سے زیادہ محترم،معززاور اپنی جان سے بڑھ کر محبوب ہستی جن کی
عصمت وناموس کی حفاظت کے لیے مسلمان اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کو
اپنے لیے فخروسعادت سمجھتے ہیں،کیچڑ اُچھالا جارہا ہے اور شان رسالت مآب
میں سرعام گستاخی کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ان ظالموں اور گستاخیٴ رسالت
کے مجرموں کا عبرت نا ک انجام کا تذکرہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں:
﴿وَالَّذِيْنَ يُوٴذُوْنَ رَسُوْلَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيْمٌ﴾(التوبة :۶۱) ”اور جو لوگ اللہ کے رسول کو دکھ دیتے ہیں ان کے لیے دردنا ک عذاب ہے ۔“
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿إنَّا کَفَيْنٰکَ الْمُسْتَهْزِئِيْنَ﴾(الحجر :۹۵) ”آپ کی طرف سے ہم ان مذاق اڑانے والوں کی خبر لینے کے لیے کافی ہیں۔“
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿إنَّ شَانِئَکَ هُوَ الأبْتَرُ﴾(الکوثر :۳)”تمہارا دشمن ہی جڑ کٹا ہی۔“
افسوس ہے اس قوم پر جو کفر
وضلالت،تحقیروتقبیح اور اپنی کمینگی وبدخصلتی پر اڑی ہوئی ہے ۔افسوس ہے
ایسے بدخصلت اور جاہلوں پر جنہوں نے نبی کریم ﷺکی شان اقدس میں گستاخی
کی جرأت کی اور اپنے جیسی شیطانی شکل بنا کر کہا:”یہ اسلام اور مسلمانوں
کے نبی محمدﷺ ہیں۔“(نعوذبالله من ذلک)
یہ ہدایت و حق کے چمکتے سورج کی روشنی کو مدہم کرنا چاہتے ہیں حالانکہ سورج پر تھوکنے والے کا تھوک اس کے منہ پر آن گرتا ہے۔
یہ جاہل اور دشمنان
اسلام،محمدﷺکی شان وعظمت کو کیا پہچانیں ۔بے شک محمدﷺ اللہ کے آخری رسول
،خاتم الانبیاء اور ساری اولاد آدم کے سردار ہیں۔
کاش!ان جاہلوں نے ہم مسلمانوں
سے نبی کریم ﷺکی شان اقدس کے بارے میں پوچھا ہوتا،تاکہ ہم انہیں تسلی
بخش جواب دیتے جس سے ان کی اندھی عقلیں خیرہ ہوجاتیں،ان کی بے لگام
زبانیں بند ہوجاتیں اور وہ اس قسم کی لچر اور پھسپھسی تصاویر وخاکے
بنانے کی جرأت نہ کرتے۔مغرب کا دینی حمیت سے بیگانہ معاشرہ اس حقیقت سے
بے خبر ہے کہ مسلمان کے لئے دین وایمان کی کیاقدرو قیمت ہے؟اس معاشرے کی
بے روح دانش یہ جانتی ہی نہیں ہے کہ مسلمان بے عمل اور گناہ گار تو
ہوسکتا ہے ،لیکن اس کے اندر دینی حس جاری وساری ہوتو وہ بے غیرت ہرگز
نہیں ہوسکتا۔مسلمان ناموس دین اور آبروئے رسالت کے تحفظ کے لئے جان کو
قربان کردینا بھی بہت کم قیمت سمجھتا ہے وہ راہِ حق میں جان کا نذرانہ
دے کر بھی بہ اندازِ تاسف کہتا ہے ۔
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو
اکمل صورت،خوبصورت سیرت اور بہترین ہیئت ترکیبی پر پیدا فرمایا تھا ۔آپﷺ
کی تعریف میں سیدنا حسان بان ثابت5کے اشعار قابل توجہ ہیں۔
أحسن منک لم ترقط عينی أجمل منک لم تلد النساء
أنت مبرأ من کل عيب کأنک قد خلقت کما تشاء
”آپﷺسے زیادہ حسین وجمیل شخص
میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا ،آپ سے زیادہ خوبصورت کسی عورت نے پیدا
نہیں کیا،آپﷺ ہر عیب سے پاک ہیں،گویا کہ آپﷺ اپنی مرضی کے مطابق پیدا
کیے گئے ہیں ۔“
آپ ﷺنذیر،بشیر،سراج منیر،معلم
کبیر،اورماہر قائد وراہنما تھے۔جن کی راہنمائی میں ہم نے بلندیوں کو
چھوا، اللہ تعالیٰ نے ان کی رسالت کے ذریعہ ہمیں شرف بخشا اور ان کی
دعوت کو قبول کرلینے کی توفیق دے کر ہمیں اوج ثریا تک پہنچا دیا۔
نبی کریمﷺسب سے زیادہ خوبصورت
چہرے والے اور اچھے اخلاق والے تھے ،آپﷺکا چہرہ مبارک سفید،پر کشش
اورنورانی تھا۔جب آپ ﷺمسکراتے تو آپ کا چہرہ ایسے چمک اٹھتا جیسے
چودھویں کا چاند ہو۔
سیدنا ابو ہریرة رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ما رأيت شيئا أحسن من رسول الله ﷺکأنه الشمس تجری فی وجهه“
”میں نے رسول اللہ ﷺسے زیادہ حسین وجمیل کوئی شے نہیں دیکھیآپ کے چہرے
پرنورانیت ایسی تھی گویا کہ سورج آپ کے چہرے پر چل رہا ہو۔“
نبی کریمﷺکے چہرہ مبارک کی مذکورہ صفات سیدنا علی،سیدنا ابو ہریرة،سیدنا ہند بن ابو ہالہ،ام معبد الخزاعیہ سمیت متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے منقول ہیں۔
اَب ان جھوٹی تصاویر اور خاکوں کی مدد سے نبی کریم ﷺاور سوا ارب سے زائد مسلمانوں کو کیوں اذیت دی جارہی ہے ؟اس کے پس پردہ کونسے عوامل کار فرما ہیں؟کہ آئے روز ان خاکوں کو شائع کر دیا جاتا ہے۔سیدنا عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”ماکان أحد أحب إلی من رسول الله ﷺولا أجل فی عينی منه،وما کنت أطيق أن أملأ عينی منه اجلالا له،ولو سئلت ان أصفه ما أطقت ،لأنی لم أکن أملأ عينی منه“(صحیح مسلم :۱۲۱)
”میرے نزدیک نبی کریم ﷺسے زیادہ محبوب اور جلیل القدر کوئی نہیں تھا۔آپﷺ
کی جلالت کی وجہ سے میں نے آپ کو کبھی آنکھ بھر کر نہیں دیکھا تھا،اگر
مجھ سے آپ کی صفات کے بارے میں پوچھا جائے تو میں اس کا جواب دینے کی
طاقت نہیں رکھتا ،کیونکہ میں نے کبھی آپ کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھا۔“
یہ ہیں ہمارے نبی کریمﷺ!جن کو
ہم مسلمان علم یقین کی حد تک جانتے ہیں ۔تم نہیں۔اور ہمیں ان کے بارے
میں ذرہ برابر بھی شک وشبہ نہیں ہے ،اور ان کے فضائل واحسانات کو بھول
جانا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ان ظالموں کا تمام انبیاء کے سردار کے ساتھ
یہ رویہّ افسوس ناک ہے ۔یہ وہ نبی ہیں جو بہترین اور اعلیٰ اخلاق کے
مالک تھے ۔اور جن کی بعثت کا مقصد اخلاق حسنہ کی تکمیل تھا۔ارشاد نبویﷺ
ہے :
” بعثت لأتمم أحسن الاخلاق“(موٴطا :۱۶۰۹) ”میں اخلاق حسنہ کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں۔“
آپ ﷺہمیشہ خندہ پیشانی اور
مسکراتے چہرے کے سے ملتے تھے،نرمی سے پیش آتے ،سختی اور ترش روئی سے
اجتناب کرتے اور غلیظ زبان استعمال کرنے سے کوسوں دور تھے۔آپ قدر دان
،سخی اور خرچ کرنے والے تھے،آنے والے کل کے لیے کوئی شے ذخیرہ نہ کرتے
تھے۔ایک موقعہ پر آپﷺ نے ایک آدمی کو اتنی بکریاں عطیہ میں دے دیں کہ ان
سے دو پہاڑوں کے درمیان وادی بھر گئی ۔اور وہ اپنی قوم کی طرف یہ کہتے
ہوئے گیا:
”يا قوم أسلموا!فإن محمدا يعطی عطاء لا يخشی مع الفاقة“(صحیح مسلم:۲۳۱۲) ”اے میری قوم کے لوگو! مسلمان ہوجاوٴ:بے شک محمدﷺ ایسا عطیہ دیتا ہے کہ اس کے بعد کبھی فاقہ کا ڈر نہیں رہتا۔“
نبی کریمﷺ شجاع،بہادر اور میدان جنگ میں دشمن کے قریب تک پیشقدمی کرنے والے تھے،آپ ﷺنے کبھی راہ فرار اختیار نہیں کی۔
آپﷺ کو ہمیشہ امت کی فکردامن
گیر رہتی تھی۔آپﷺمسلسل غور وفکر کرنے والے اور لمبی خاموشی اختیار کرنے
والے تھے۔بلا ضرورت گفتگو نہیں کرتے تھے اور جامع کلمات کے ساتھ گفتگو
فرماتے تھے ۔آپﷺ کی کلام فیصلہ کن ہوتی جس میں فضول بات نہیں ہوتی
تھی۔آپﷺ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی قدر کرتے اور کھانے کو برابھلا نہیں
کہتے تھے۔
آپﷺ اپنی ذات کے لیے نہ غصہ
ہوتے تھے اور نہ ہی انتقام لیتے تھے ہاں البتہ اگر حدود اللہ کو پامال
کیا جارہا ہوتا تو اس پر ناراض بھی ہوتے اور حد بھی نافذ کرتے تھے۔آپﷺ
کنواری لڑکیوں سے زیادہ شرمیلے اور حیادار تھے۔
آپ ﷺاپنے ساتھیوں کے بارے میں
ہمیشہ اپنا دل صاف رکھتے تھے اور کسی کے ساتھ بھی بداخلاقی سے معاملہ
نہیں کرتے تھے۔ اورڈانٹتے ہوئے بھی لطافت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمادیتے :”ماله تربت يمينه“ ”اسے کیا ہے اس کا ہاتھ خاک آلود ہو۔“
آپﷺ صداقت وامانت کو پسند کرتے تھے اور ان صفات کا پیکر تھے ۔
آپﷺ کو جھوٹ سے زیادہ
ناپسندیدہ کوئی شے نہ تھی ۔جب خوش ہوتے تو انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے
اور آپ کی ہنسی عموما مسکراہٹ تک ہی محدود نہیں رہتی تھی ۔
آپﷺ صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کے حال واحوال کا خصوصی خیال رکھتے،مصیبت میں ان کا تعاون
کرتے اور ان کے درمیان باہمی محبت کے بیج بوتے تھے اور ان کو تفرقہ بازی
سے باز رکھتے تھے۔
آپﷺ اچھائی کو اچھا کہتے اور
اس کی حوصلہ افزائی فرماتے جبکہ برائی کو برا کہتے اور اس کی حوصلہ شکنی
کرتے ۔ ہر معاملہ میں اعتدال سے کام لیتے اور حقوق سے کوتاہی نہ کرتے
تھے اور نہ ہی کسی کا حق کسی غیر کو دیتے تھے۔
آپ ﷺاٹھتے بیٹھتے وقت اللہ کا
ذکر کرتے،صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے اپنے آپ کو ممتاز نہ
کرتے تھے،مجلس کے آخر میں بیٹھ جاتے اور ہر بیٹھنے والے کو اس کا حق دیتے
حتی کہ اہل مجلس میں سے کوئی شخص بھی یہ گمان نہ کرتا تھا کہ فلاں شخص
اس سے زیادہ آپ کو مقرب یا معزز ہے۔
آپﷺ سائل کو خالی ہاتھ واپس
نہ لوٹاتے تھے ضرور کچھ نہ کچھ دے دیتے اور صحابہ کرامرضوان اللہ علیہم
اجمعین کے لیے مثل والد کے تھے ان کو دینی مسائل اور احکامات باپ کی
مانند سکھلاتے تھے۔
آپﷺ کی مجلس علم وحلم،صبروحیا
اور امانت کا مجموعہ ہوتی تھی۔جس میں نہ توشور شرابہ ہوتا اور نہ ہی آ
وازیں بلند ہوتی تھیں۔آپﷺ کی مجلس میں قوم کے معزز لوگ جمع ہوتے تھے جو
تقوی پر ایک دوسرے کا تعاون کرتے ، بڑوں کی عزت کرتے ،چھوٹوں پر شفقت
کرتے،محتاج کی مدد کرتے اور اجنبی کا خیال رکھتے تھے۔
آپﷺ نے دشمن کے ساتھ جنگ کرنے
کی بھی اعلیٰ اقدار پر مبنی عظیم الشان ہدایات جاری کیں۔اسلام میں جنگ
دفاعی نوعیت کی ہے جو بوقت ضرورت استعمال کی جاتی ہے ۔آپﷺ نے باقاعدہ
جنگی ہدایات جاری کیں کہ ان اصولوں کے مطابق جنگ کی جائے گی۔آپ ﷺکی
جنگیں آج کی جارحانہ جنگوں کی مانند نہ تھیں جن کا قتل وغارت،تخریب کاری
اور تباہی وبربادی کے سوا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :
اللہ کا نام لے کر چلو،کسی
بوڑھے ،بچے اور عورت کو قتل نہ کرنا،خیانت نہ کرنا اور احسان کرنا بے شک
اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کوپسند کرتا ہے۔(ابوداوٴد:۲۶۱۴)
رسول اللہ ﷺ نے کسی جنگ میں ایک مقتولہ عورت کو دیکھا تو فرمایا :
”یہ تولڑائی کرنے والی نہ تھی
پھر صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم میں سے ایک کو کہا کہ لشکر کے کمانڈر
خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ سے ملو اور ان سے کہو کہ بچوں،بوڑھوں اور
عورتوں کو ہرگز قتل نہ کریں۔“(ابن ماجہ :۲۸۴۲)
یہ ہیں رحمۃ للعالمین محمد
رسول اللہﷺ ،جن کی جنگ اعلیٰ اصولوں پر مبنی ہوتی تھی۔ اور ایک تم ہو کہ
ان کے عمامہ کو بم اور دھماکہ خیز مواد کی شکل میں شائع کردیا ہے ۔ایک
طرف نبی ﷺ کا اپنے دشمنوں کے ساتھ نرمی وشفقت کا رویہّ اور دوسری طرف
تمہارا ان کے ساتھ بغض وکینہ تمہاری جعلی رواداری کی پردہ دری کررہا ہے۔
جس نے جہالت وگمراہی کے
اندھیروں میں ڈوبی ہوئی قوم کو نور ہدایت،عدل وانصاف اور مساوات والی
زندگی عطا کی۔اور ایسے شخص کی مذمت کرتے ہو جس کے رب نے خود اس کی صفائی
پیش کی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَاِنَّکَ لَعَلَی خُلُقٍ عَظِيْمٍ﴾(القلم :۴)”اور بے شک آپﷺ اخلاق کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہیں۔“
مزید فرمایا :﴿وَمَا أَرْسَلْنَاکَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ﴾(الانبیاء
:۱۰۷)”اے نبی! ہم نے تو آپ کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے
۔“آپﷺ کی استقامت کا تزکیہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَی﴾(النجم :۲) ”تمہارا ساتھی نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے۔“
آپ ﷺکی گفتگو کا تزکیہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَی ﴾(النجم :۳) ”وہ اپنی خواہشات نفس سے نہیں بولتا۔“
آپﷺ کے دل اور سینے کا تزکیہ پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿اَلَمْ نَشْرَحْ لَکَ صَدْرَکَ﴾(الم نشرح :۴) ”(اے نبی!)کیا ہم نے تمہارا سینہ تمہارے لیے کھول نہیں دیا۔“
آپ ﷺ کی زندگی کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ يَعْمَهُوْنَ﴾(الحجر:۷۲) ”اے نبی!تیری جان کی قسم اس وقت ان پر ایک نشہ سا چڑھا ہوا تھا ۔جس میں وہ آپے سے باہر نکلے جاتے تھے۔“
حاسد حسد کی آگ میں خود ہی جلا کرے
وہ دیا کیا بجھے جسے روشن خدا کرے
ان سب خباثتوں کا
محرک،درحقیقت اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بغض وعنادہے ۔کیونکہ اس دین حق
کی صداقت اور دن رات اس کا پھیلاوٴ ان سے ٹھنڈے پیٹوں ہضم نہیں ہوپارہا
ہے ۔حتی کہ آج یورپ اور امریکہ میں بھی مذہب اسلام دوسرے نمبر پر آچکا
ہے ۔جب بوڑھا یورپ مزید کم ہوتا جائے گا تو ان شاء اللہ مسلمانوں کی
تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اسلام میں داخل ہونے والے ان کے تھنک
ٹینکس اور دانشوروں کی تعداد زیادہ ہوتی جائے گی اور اسلام پہلا مذہب بن
جائے گا ۔آج یورپ میں اسلام سب سے زیادہ پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے ۔
اس عالمگیر سچائی نے ان کے
سیاستدانوں اور مذہبی لیڈروں کو پریشان کردیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ انہوں
نے ابھی سے خطرے کی گھنٹیاں بجانا شروع کردی ہیں کہ آنے والے چند سالوں
میں اسلام یورپ کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
لیکن ان سفہاء کو جان لینا
چاہیے کہ درحقیقت وہ محمدﷺکی توہین کے ارتکاب کے ساتھ اپنے خبث باطن کا
اظہار کرکے لا شعوری طور پر اسلام کی خدمت کر رہے ہیں اور اس کے پھیلاوٴ
کا سبب بن رہے ہیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے بھونڈے طریقے سے لوگوں کو تلاش
حق کی جستجو کی دعوت دے رہے ہیں۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
یہ اتنا ہی ابھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے
جب لوگوں نے دین اسلام کا مطالعہ کرنا
شروع کیا اور نبی کریمﷺ کی سیرت طیبہ سے واقفیت حاصل کی تو عامۃ الناس
کے لیے ان کا جھوٹ کھل کر سامنے آگیا انہوں نے نبی کریمﷺ اور دین اسلام
کی عظمت وشان کو پہچان لیا تولوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونا شروع
ہوگئے اور اپنے اہل وعیال اور دوست واحباب میں اسلام کی حقیقت وعظمت کو
متعارف کروانے لگے اور اسلام کے مبلغ بن کر دین اسلام کی خدمت کرنے لگے۔
نبی کریم ﷺکا ذکر ختم کرنے والے خود ختم ہونے لگے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا:
﴿إنَّ شَانِئَکَ هُوَ الأَبْتَرُ﴾(الکوثر:۳) ”بے شک تیرا دشمن ہی جڑ کٹا ہے ۔“
نبی کریم ﷺ کی شان اقدس میں
یہ گستاخیاں،درحقیقت دین کا غلبہ اور مسلمانوں کی مدد ہے ۔کتنے ہی لوگ
اس کے سبب مسلمان ہوئے اور کتنے ہی گناہ گار مسلمانوں نے توبہ کرلی اور
سنت نبوی ﷺکے مطابق زندگی گزارنا شروع کردی۔
ہماری ذمہ داریاں
ان ظالمانہ حملوں کے رد میں
ہمیں چاہیے کہ ہم پہلے سے زیادہ نبی کریم ﷺ کی پیروی اور اتباع میں کمر
بستہ ہوجائیں ۔یہ امر ان کو مزید غصہ دلانے والا اور بہترین انتقام ہے،
کیونکہ وہ مسلمانوں کو قران وسنت سے دور کرنا چاہتے ہیں اور قران وسنت
سے متعلق مسلمانوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ہم سب مسلمانوں پر واجب ہے کہ
ہم سنت نبوی کو سیکھیں،شریعت کو سمجھیں ،آپﷺ کے اخلاق عالیہ کو اپنائیں
اور موجودہ دور کے جدید ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے دعوت دین کو عام
کریں اور اسلام پر وار د اعتراضات وشبہات کا مدلل رد کریں اور جواب
دیں۔گستاخانِ رسالت کا اقتصادی بائیکاٹ کریں تاکہ وہ ہم سے ایک بھی درہم
ودینار نہ کما سکیں۔ اس سے پہلے ہمیں اندرون خانہ اپنی اصلاح کرنا ہوگی
اور اُمت اِسلامیہ ومسلم نوجوانوں کو متحد کرنا ہوگا ،کیونکہ اللہ
تعالیٰ فرماتے ہیں:
﴿إنَّ هَذِهِ اُمَّتُکُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَأنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ﴾(الأنبیاء :۹۲) ”یہ تمہاری امت حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تمہارا رب ہوں،پس تم میری عبادت کرو۔“
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.