|
||
دینی مدارس کا مختصر تاریخی پس منظر
سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم معلم
انسا نیت بنا کربھیجے گیے تھے چنانچہ مکی زندگی میں سابقین اولین کی تعلیم
وتربیت کے لیے دارارقم اور ہجرت کے بعد مسجد نبوی کو اولین درسگاہ کا شرف
حاصل ہے ۔
نمایاں خصوصیات مسجد نبوی کے گوشہ میں قائم اس درسگاہ کو ”صفہ “کے نام سے یاد کیا جاتاہے ۔صفہ میں تعلیم پانے والوں کو ”ضیوف اللہ “یعنی اللہ کے مہمان کہاجاتاہے ۔آپ بنفس نفیس اصحاب صفہ کو تعلیم دیتے تھے ۔ابوہریرہؓ،عبداللہ ابن عمرؓ،حضرت بلالؓاور ابوسعید خدری ؓ جیسے جلیل القدر صحابہ اس درسگاہ کے مشہور طلباءتھے ۔احادیث کا عظیم الشان ذخیرہ ہم تک پہنچانے میں اصحاب صفہ کا ہی بنیادی کردار ہے ۔
چونکہ دینی مدارس کے نظام تعلیم کی اساس ”صفہ “کے نظام تعلیم پر ہے اس لیے اختصار سے اس نمایاں خصوصیات کا جائزہ لیا جاتاہے ۔
تعلیم کے لیے مقدس ترین مسجد کا ماحول معلم اور متعلم کی مکمل کفالتیکساں نصاب یکساں اساتذہ مفت تعلیم غیر طبقاتی نظام تعلیم مسجد اور مدسہ کی یکجائی
اسلامی معاشرے کی جملہ ضروریات پورا کرنے والا
نظام خلافت راشدہ سے لے کر مغلوں کے دور تک پوری مسلم دنیا میں یہی نظام
تعلیم رائج رہاہے اور مسلمان معاشرے کی تمام ضروریات اور تقاضے پورے
کرتارہاہے ۔اگر مسجد وسیع ہوئی تو اس کے ایک گوشہ میں مدرسہ قائم کردیا گیا
۔اور اگر مدرسہ وسیع ہوا تو اس کے ایک گوشہ میں مسجد تعمیر کر دی گئی ۔
اہم خصوصیاتمدرسہ نظامیہ ،مدرسہ مستنصرات ،جامعہ ازھر ،جامعہ مقص اور جامعہ اقمر جیسی شہرہ آفاق درس گاہوں نے بڑی بڑی شخصیات پیدا کیں ۔مغلیہ دور حکومت خصوصاًمسجد عالم گیری میں دینی تعلیم کو خصوصی اہمیت دی گئی اس دور میں ملا قطب الدین نے خاص شہرت حاصل کی۔اس کے بعد ان کے بیٹے ملا نظام الدین کو بڑی مقبولیت حاصل ہوئی،موجودہ درس نظامی ملا نظام الدین کے نام سے ہی مشہور ہے گو کہ ۰۵۲سال کے طویل عرصہ میں اس کے نصاب اور نظام میں اساسی تبدیلیاں ہوچکی ہیں ۔
مسلمانوں کے نظام تعلیم کی ایک اہم خصوصیت یہ
رہی ہے کہ یہ ہمیشہ سرکاری سرپرستی سے آزادرہاہے ۔نوآبادیاتی دور تک اس
نظام تعلیم میں کسی قسم کی دوئی کا تصور تک بھی نہیں تھا ۔ایک ہی نظام
تعلیم تھا جس سے علماءمحدثین ،فقہاء،سیاست دان ،سائنس دان ،انجینئر،ڈاکٹر
اور ہر پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد تیار ہوتے تھے ۔اورنگ زیب عالمگیر
اور مجدد الف ثانی ایک ہی مدرسہ کے فضلاءتھے ۔
انگریزوں کی آمد
مسلمانوں کے نظام تعلیم کی یہ وحدت مسجد اور
مدرسہ کی یکجائی کا یہ رشتہ نوآبادیاتی دور میں ٹوٹا ،جس سے پہلے دین کو
مدرسہ کی چار ردیواری سے باہر نکالا اور عیسائیت کی تعلیم کا آغاز ہوا
۔فروغ عیسائیت اور انگریزی زبان کے تسلط کے لیے مشن سکولز، نوابوں ،شہزادوں
اور راجوں کی اولاد کے لیے پبلک اور اونچے درجے کے خصوصی سکولز اور کلرکوں
کی تیاری کے لیے پرائمری اور ہائی سکولز قائم کئے گیے ۔اس طرح پورے
ہندوستان میں نظام تعلیم رائج ہوگیا ۔
دینی مدارس کی تاریخ کا ایک نیاباب
اسی صورت حال کے پیش نظر درد دل رکھنے والے
بوریہ نشین علمائے کرام نے دینی علوم کے تحفظ اور مسلم معاشرے کو عیسائیوں
کے کلچر میں ضم ہونے سے بچانے کے لیے علیحدہ دینی مدارس قائم کیے
۔دارالعلوم دیوبند کے قیام کے بعد تھوڑے ہی عرصہ میں پورے برصغیر میں دینی
مدارس کا ایک جال بچھ گیا ۔ان مدارس نے صفہ کی روایات کو برقراررکھتے ہوئے
یعنی مسجدومدرسہ کی یکجائی ،یکساں نصاب اور مفت تعلیم کو قائم رکھا ۔چونکہ
استعمار نے ان اداروں پر معاش کے دروازے مکمل طور پر بند کر رکھے تھے لیکن
ہر طرح کی سہولتوں سے محروم ہونے کے باوجود مسلمانوں کی دینی اور ملی غیرت
نے اس چیلنج کو قبول کیا اور ڈیڑھ سو سال تک بڑی کامیابی سے اس نظام کو
چلایا اور اس کے ذریعے سے بہتر ین رجال کا ر تیارہوئے ۔
مسلم معاشرے پر اس کے عملی اثرات
بیرونی سامراج کے جو تباہ کن اثرات ہم پر پڑے
ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ہمارا رشتہ خوداپنی تار یخ ،ماضی کی فکر اور
اسلامی نظام تعلیم سے ٹوٹ گیا ہے اگر ہمارے نوجوانوں کا ایمان متزلزل ہے
اور وہ اسلام سے مکمل بیزار دکھائی دیتے ہیں تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے
ان کے دلوں پر تو اغیار کی عظمت کے نقوش ثبت ہیں جب کہ اسلام کی عظمت کے
نقوش تو دلوں سے کھرچ کھر چ کر مٹائے جارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی علوم
اور اسلامی تہذیب وثقافت کا نام لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے ،فخر سے ایسے
رہزنوں کو بلابلاکر اپنی روحانی اقدار کی بستیوں میں بسا لیا ہے ۔جو نقارہ
بجا بجا کر ہماری غیرت ایمانی کو لوٹ رہے ہیں ۔بقول سید ابوالاعلی
مودودیؒیہ تعلیم خداپرستی اور اسلامی اخلاق سے تو خالی ہے ہی۔غضب یہ ہے کہ
ہماری قوم میں وہ بنیادی اسلامی اخلاقیات بھی پیدا نہیں ہوتی جن کے بغیر
کسی قوم کا ترقی کرنا تو درکنار زندہ رہنا بھی ناممکن ہے۔مغربی قوموں کے
عیوب سے پوری طرح آراستہ ہیں مگر ان کی خوبیوں کی چھینٹ بھی نہیں پڑی
۔“(تعلیمات)
موجودہ صورت حال قدیم تعلیم یافتہ طبقہ یعنی وہ طبقہ جو علم وعمل اور وضع وسیرت کے لحاظ سے قدیم ہے اور متجددین جن کی چال ڈھال ،وضع قطع اور فکرودماغ پر فاتح قوم کی چھاپ ہے ۔دونوں مسلمان ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے شدید نفرت کرنے لگے اور دونوں میں رقابت پیدا ہوگئی ۔1920ءمیں تحریک خلافت نے دونوں کو ایک دوسرے کے قریب کیا تو ہر طبقے کو اپنی کمزوریوں کا احساس ہونے لگا۔ لیکن نتیجہ یہ نکلا کہ اس طرح مسلمان معاشرہ جدید وقدیم اور دین ودنیا کی سیکولر تقسیم کا شکار ہوکر ایک نئی کشمکش میں مبتلاہوگیا ۔مسلم معاشرے کی قیادت علماءسے چھن گئی اور سیکولر طبقے کے ہاتھ آگئی ۔
پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد توقع تھی کہ ملک
کے نظام تعلیم کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کو شش کی جائے گی لیکن
بدقسمتی سے اب تک غلامی کی زنجیروں سے ہم آزاد نہیں ہو سکے اور اب بھی ایک
ملک میں دومتوازی نظام ہائے تعلیم رائج ہیں ۔دو سوسال سے یہ دینی مدارس
عملی زندگی سے الگ ہیں اور اب بھی انگریز کے پروردہ انہیں زندگی کے دھارے
میں شامل نہیں ہونے دیتے جہاں معاش کی کنجیاں چھین کر فکر معاش اور کسمپرسی
کی زندگی پر مجبور کر دیا گیا ہو ،وہاں علوم دینیہ کا باقی رہنا بھی ایک
کرامت ہے اگرچہ ان دینی مدارس میں اصلاح کی بہت کچھ گنجائش ہے ۔
وقت کی اہم ترین ضرورت
یہ دینی مدارس اس وقت بھی مسلم معاشرہ میں ایک
محدود دائرے میں کسی نہ کسی شکل میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں دینی علوم
اور دینی اقدار کے تحفظ میں غیر معمولی خدمات پر ہر فرد انہیں خراج تحسین
پیش کرتاہے پوری دنیا کے مقابلہ میں برصغیر میں اگر دینی رنگ غالب ہے تو اس
کی وجہ یہی دینی مدارس ہیں ۔لیکن اس وقت دنیا کا اجتماعی نظام بدل چکا ہے
سیاست ،معاشرت، معیشت اور تمدن مکمل طور پر بدل چکا ہے ۔اس سے سمجھے بغیر
بدلنا عملاً ناممکن ہے ۔اس لیے یہ ادارے اپنی خامیوں کا حقیقی ادراک اور
اصلاح کیے بغیر وقت کے ان چیلنجز کو قبول نہیں کرسکتے ۔بقول ابوالحسن علی
ندوی ”علماءکبھی بھی جزیرہ نہیں بنے اور زمانے کے کاروان سے نہیں بچھڑے
۔ہمارے اسلاف نے ہر دور میں علم کے چلتے پھرتے قافلے کا ساتھ دیا ۔جس چیز
،اسلوب اور طرز کی ضرورت خدمت دین کے لیے ناگزیر جانی اسے قبول کرنے سے
کبھی انکار نہیں کیا ۔آپ کو قدیم وجدید سے بحث نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ
کو ن سے ہتھیاردشمن کے لیے کارگر ثابت ہوسکتے ہیں ۔وقت کی اس ضرورت کے پیش
نظر جمعیت طلبہ عربیہ پاکستان موجودہ نظام تعلیم میں اصلاح کے ساتھ ساتھ
ایک مکمل نظام تعلیم کے لیے کوشاں ہے ان اصلاحی کوششوں میں ”تدریب المعلمین
“اور علمی ”تحقیقی تربیت گاہوں “جیسے پروگرامات کلیدی اہمیت کے حامل ہیں .
|
هډاوال ويب غواړي چي ستاسي اسلامي اندیښني تقویه کړي. اوستاسومسائل ته د قرآن اوسنت په رڼا کښی جوابونه ورکړې او د سپیڅلي دین اسلام په چوکاټ کښي تاسي ته خوږي قصي ، د زده کړي وړ لیکنی اومضامین ، عام معلومات ، په زړه پوري ټوکي ټکالي او جالبه او ښائسته مطالب وړاندي کړي.. https://www.facebook.com/pashto.islamic.mp3.bayanat
Search This Blog
Labels
اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَا تُهُ
اللهم لك الحمد حتى ترضى و لك الحمد إذا رضيت و لك الحمد بعد الرضى
لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي
هډه وال وېب
https://www.facebook.com/hadawal.org
https://www.facebook.com/arabic.anguage.learning
لاندې لینک مو زموږ دفیسبوک پاڼې ته رسولی شي
هډه وال وېب
https://www.facebook.com/hadawal.org
د عربی ژبی زده کړه arabic language learning
Friday, January 14, 2011
دینی مدارس کا مختصر تاریخی پس منظر
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
که غواړۍ چی ستاسو مقالي، شعرونه او پيغامونه په هډاوال ويب کې د پښتو ژبی مينه والوته وړاندی شي نو د بريښنا ليک له لياري ېي مونږ ته راواستوۍ
اوس تاسوعربی: پشتو :اردو:مضمون او لیکنی راستولئی شی
زمونږ د بريښناليک پته په ﻻندی ډول ده:ـ
No comments:
Post a Comment
السلام علیکم ورحمة الله وبرکاته
ښه انسان د ښو اعمالو په وجه پېژندلې شې کنه ښې خبرې خو بد خلک هم کوې
لوستونکودفائدې لپاره تاسوهم خپل ملګروسره معلومات نظراو تجربه شریک کړئ
خپل نوم ، ايمل ادرس ، عنوان ، د اوسيدو ځای او خپله پوښتنه وليکئ
طریقه د کمنټ
Name
URL
لیکل لازمی نه دې اختیارې دې فقط خپل نوم وا لیکا URL
اویا
Anonymous
کلیک کړې
سائیٹ پر آنے والے معزز مہمانوں کو خوش آمدید.